skip to Main Content

اچھا پڑوسی

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔

نہر کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں پیپل کے درخت پر ایک الو کا بسیرا تھا۔ وہ تمام دن سونے یا اونگھنے میں گزار دیتا لیکن رات ہوتے ہی چاق و چوبند ہو جاتا۔ آس پاس کے درختوں پر اور پرندے بھی رہتے تھے۔ بے شمار گلہریاں بھی بھاگتی دوڑتی رہتیں تھیں۔ بہار کی ایک روشن صبح کو الو کے گھونسلے کے سامنے ایک کھٹ بڑھئی نے اپنا گھر بنانا شروع کیا۔ وہ اپنی نوکدار سخت چونچ درخت کے تنے پر مار رہا تھا، اس کی سرخ کلغی دھوپ میں چمک رہی تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہوا کی سرسراہٹ میں اس کی کھٹ کھٹ سب سے نمایاں تھی۔ وہ لگاتار ایک ہی جگہ اپنی چونچ مار رہا تھا۔ صبح سے دوپہر ہو گئی اور دوپہر سے سہ پہر ہونے کو آئی لیکن اس کا کام ختم نہ ہوا۔ الو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ بہت دیر سے جاگ رہا تھا لیکن آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ شام ہوئی تو کھٹ بڑھئی کہیں اڑ گیا۔
دوسرے دن الو گہری نیند سویا ہوا تھا کہ اچانک اس کی آنکھ مسلسل کھٹ کھٹ کی آوازوں سے کھل گئی۔ سورج چمک رہا تھا۔ اس نے بامشکل آنکھیں کھولیں۔ کھٹ بڑھئی آج ایک نئی جگہ سوراخ کر رہا تھا۔ الو کچھ دیر برداشت کرتا رہا پھر غصے سے چلایا۔
” بند کرو…. یہ کھٹ پھٹ!!“
کھٹ بڑھئی نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور بولا۔
” کیوں …. کیا میں اپنا گھر نہ بناؤ….؟“
” لیکن کل تم دوسری جگہ سورخ کررہے تھے۔“
”وہ جگہ میری بیوی کو پسند نہےں آئی۔“
”تمہارے اس شور سے میری نیند خراب ہورہی ہے۔“
”تمہیں دن میں سونے کو کون کہتا ہے؟ دن تو اﷲ نے کام کیلئے بنایا ہے۔“ کھٹ بڑھئی بولا۔
”میرا دن رات کو ہوتا ہے ۔ اﷲ نے مجھے دوسروں سے الگ بنایا ہے۔ اور تم کیوں ہر دو دن بعد نئی جگہ گھر بنانا شروع کر دیتے ہو؟“ الو غصے سے بولا۔
” میری مرضی…. جہاں دل چاہے گا گھر بناؤں گا۔ جنگل سب کے لیے ہے۔ اور تم نے کبھی غور کیا ہے کہ میرے بنائے ہوئے گھر دوسرے پرندوں کے کتنے کام آتے ہیں۔“ کھٹ بڑھئی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
ایک گلہری جو خوراک کی تلاش میں درخت سے اتر رہی تھی۔ رک کر ہنس دی اور ان کی بحث دلچسپی سے سننے لگی۔ الو بولا۔ ”تمہاری اس حرکت سے مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے۔“
مجھے بھی تمہاری بہت سی حرکتوں سے تکلیف پہنچتی ہے جب تم چاندنی رات کے سناٹے میں بھیانک آوازیں نکالتے ہو تو میرے بچے ڈر جاتے ہیں اور جب تم چوہے شکار کرکے لاتے ہو اور ان کا جسم تمہارے منہ میں اور دم منہ سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے تو کراہیت سے میری بیوی کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔“ کھٹ بڑھئی چمک کر بولا۔گلہری پھر ہنس پڑی۔
الو نرم پڑتے ہوئے بولا۔ ”تمہاری باتیں کسی حد تک درست ہیں لیکن میں تمہیں دانستہ تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اگر تم کچھ دور جا کر اپنا گھر بنا لو تو اچھا ہے۔“
” اب تو میں نے یہاں شروع کر دیا ہے۔“ کھٹ بڑھئی اپنے گھر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
”تمہار ا کچھ بندوبست کرنا پڑے گا۔ “ الو بڑبڑایا۔
کھٹ بڑھئی نے اس کی آواز نہ سنی اور اپنے کام میں لگ گیا۔ الو کا نیند سے برا حال تھا لیکن جیسے ہی اس کی آنکھ لگتی چونک کر جاگ جاتا۔ آخر اس نے آنکھیں کھول دیں اور سوچ میں گم بیٹھا رہا۔
دوپہر ہوئی تو کھٹ بڑھئی خوراک کی تلاش میں چلا گیا۔ الو نے پروں کو پھڑپھڑایا اور تیزی سے ایک طرف پرواز کر گیا۔ کچھ دیر بعد گلہری نے دیکھا کہ الو سوراخ میں کچھ بھر رہا ہے پھر وہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔ ذرا سی دیر میں کھٹ بڑھئی واپس آگیا اور دوبارہ کام شروع کیا لیکن وہ اس سے بے خبر تھا کہ الو نے اس کے گھر میں گوند بھر دیا ہے۔ جیسے ہی کھٹ بڑھئی نے اپنی چونچ سوراخ میں ماری چپچپا، لیس دار گوند اس کے چہرے اور گردن پر لگ گیا کچھ منہ میں بھی چلا گیا۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا اور اپنی چونچ سختی سے بند کر لی ۔ اس کی سمجھ میں نہےں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے۔ آخر وہ ایک شاخ پر دم سادھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی ساری شوخی ہوا ہو گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد گوند سوکھ گیا جس کی وجہ سے اس کی گردن اکڑ گئی اور چونچ چپک گئی اس پر وہ اور پریشان ہو گیا اور گھبراہٹ میں سر ادھر ادھر مارنے لگا۔ گلہری سب کچھ دیکھ رہی تھی وہ اس کے پاس آئی اور بولی۔
” کیا ہوا بھائی کھٹ بڑھئی! لگتا ہے کسی مشکل میں پھنس گئے ہو۔“ کھٹ بڑھئی نے بے بسی سے گردن ہلائی۔
”اوہو! تمہاری تو چونچ ہی نہیں کھل رہی۔ اب اس کا کیا ہوگا؟“ وہ سوچتے ہوئے بولی۔
” میرا خیال ہے الو دادا ہی اس کا حل بتا سکتے ہیں۔“ الو بھی سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا اتنی سزا کافی ہے۔ چنانچہ بولا۔
”جاؤ نہر کے پانی سے سر دھو لو۔“ کھٹ بڑھئی فوراً اڑ گیا۔ وہ واپس آیا تو شرمندہ نظر آرہا تھا۔ گلہری بولی۔ ”ہم سب اﷲ کی مخلوق ہیں اور سدا سے ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ اچھا پڑوسی وہ ہے جو دوسروں کو تکلیف نہ دے۔ ہمیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔“
کھٹ بڑھئی نے سعادت مندی سے گردن ہلائی اور ایک طرف اڑ گیا۔ الو نے جماہی لی اور اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں اور گلہری بیجوں کی تلاش میں پھرتی سے درخت سے اتر گئی۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top