skip to Main Content
اپنا کام

اپنا کام

محمد الیاس نواز

کردار:
خالہ خیرن: علاقے کی جانی پہچانی شخصیت
جمیل: نوجوانوں کو ملک سے باہر بھیجنے والا
خاور: خالہ خیرن کا چھوٹا بیٹا

پس منظر

دوسرے کئی ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی بہت سے ایسے جعل ساز ہیں جو نوجوانوں کوملک سے باہر اچھی نوکری کا جھانسا دے کر رقم بٹور لیتے ہیں۔جبکہ باہر جاکر نوجوان رُل جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک کردار جبہ پہنے، سر پر سفید اجلا رومال اوڑھے مکمل عربی بھیس میں خالہ خیرن کے بیٹے خاور کے ساتھ ان کی بیٹھک میں داخل ہوکر خالہ کوسلام کرتا ہے ۔آئیے دیکھیں کہ وہاں کیا گفتگو ہورہی ہے۔

منظر

جمیل:(بیٹھک میں داخل ہوتے ہوئے خالص عربی لہجے میں)’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘

خالہ خیرن:(چشمہ درست کرتے ہوئے حیرانی سے )’’والے کم سلام ۔‘‘

خاور:(جمیل سے مخاطب ہو کر صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)’’ بیٹھئے جمیل بھائی۔‘‘

جمیل:’’شکراً،شکراً۔‘‘

(جمیل صوفے پر بیٹھ کر سرپر اوڑھا رومال درست کرنے لگتا ہے۔)

خالہ خیرن:(خاور سے)’’یہ کس ایرے غیرے، عربی خیرے کو اٹھا کر لے آئے ہو؟‘‘

خاور:’’اماں! یہ ایرا غیرا نہیں ہے ،یہ جمیل بھائی ہیں۔۔۔سعودیہ میں ہوتے ہیں اور نوجوانوں کو باہر بھجواتے ہیں۔‘‘

خالہ خیرن:’’اللہ بخشے بالکل اپنے ابا پر گئے ہو، ذرا بھی آدمی اور انسان کی پہچان نہیں ہے ،جس کو چاہا گھر اٹھا کر لے آئے ۔۔۔یہ چوکور منہ والا سعودیہ میں ہوتا ہے؟۔۔۔سرپر رومال رکھا ایسا لگ رہا ہے جیسے گھی کے ڈبے پر کپڑا ڈال دیا ہو۔‘‘

خاور:(منت والے انداز میں)’’اماں! خدا کو مانو۔۔۔ان کا سعودیہ میں اپنا کام ہے۔‘‘

خالہ خیرن:’’اپنا کیا کام ہے وہاں؟۔۔۔قد تو اس کا کافی لمبا ہے ویسے۔۔۔یہ اونٹوں کو سرمہ لگاتا ہے؟۔۔۔یا پھر اتنے بڑے جبے میں بچے اغوا کرکے چھپاتا ہے؟‘‘

خاور:(شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ جمیل سے)’’والدہ ہیں۔۔۔ہی ہی۔‘‘

جمیل:(مسکراتے ہوئے)’’جانتا تُنْ،یا خاور جانتا تُنْ۔۔۔ھٰذاخالہ خیرن۔‘‘

خالہ خیرن:(تعجب سے)’’یہ کیسے جانتا ہے؟‘‘

خاور:(بہت مٹھاس کے ساتھ)’’حجن رشیدہ نے بھیجا تُنْ۔۔۔انہوں نے سب بتایا تُنْ۔۔۔‘‘

خالہ خیرن:(منہ بناتے ہوئے)’’رشیدہ نے آج تک سوائے حج کرنے کے اور کوئی اچھا کام نہیں کیا۔۔۔اور کبھی اچھے آدمی کو کسی کے پاس نہیں بھیجاسوائے اپنے اللہ والے شوہر کو اوپر بھیجنے کے۔‘‘

خاور:’’اماں! اللہ کو مانو ،جمیل بھائی کیا کہیں گے کہ خاور کی والدہ اتنی منہ پھٹ ہیں۔‘‘

خالہ:(تنک کر)’’کہتا ہے تو کہتا رہے میری بلا سے۔۔۔اس کا تو اپنا منہ توپ جیسا ہے۔۔۔ابھی دیکھنا کیسے گولے پھینکتا ہے۔‘‘

جمیل:(انتہائی ادب کے ساتھ)’’یا خالہ خیرن!آپ ناراض ہوتی تُنْ ۔۔۔تو میں چلا جاتا تُنْ۔‘‘

خالہ خیرن:(جمیل سے)’’یہ ہر بات پر تم نے تُنْ ،تُنْ کیوں لگا رکھی ہے؟‘‘

جمیل:(ہنستے ہوئے)’’ہاہاہا۔۔۔یا خالہ! اصل میں کافی عرصے سے سعودیہ میں رہ رہا تُنْ ۔۔۔اس لیے ھٰذا لہجہ عربی ہو گیا تُنْ ۔‘‘

خالہ خیرن:’’(طنزیہ انداز میں)’’تُنْ لگانے سے اردو عربی بن جاتی ہے؟‘‘

جمیل:(ہنستے ہوئے)’’ہاہاہا۔۔۔لالا۔۔۔صرف تُنْ نہ لگاتا تن۔۔۔یا خالہ!۔۔۔کہیں کہیں’ ھٰذا‘ بھی لگاتا تُنْ ۔‘‘

خالہ خیرن:’’تم کتنے عرصے سے سعودیہ میں رہ رہے ہو؟‘‘

جمیل:’’یاخالہ!وہاں دس سال سے رہ رہا تُنْ ۔‘‘

خالہ:’’وہاں کرتے کیا ہو؟‘‘

جمیل:’’دو سال ملازمت کی تُنْ ۔۔۔اب الحمدللہ اپنا کام کرتا تُنْ ۔‘‘

خالہ خیرن:’’اپنا کام کیا مطلب؟وہاں تمہارے تیل کے کنویں ہیں یا سونے کے کارخانے ہیں؟‘‘

جمیل:’’نہیں ،یاخالہ خیرن!۔۔۔ہم ایسا کاروبارھٰذا کرتے تُنْ جس میں رقم کمانی ہوتی تُنْ ، لگانی نہ ہوتی تُنْ ۔‘‘

خالہ خیرن:’’سعودیہ بھجوانے کو چھوڑو، وہ کاروبار بتا دو ہم یہیں کر لیں گے۔۔۔ڈاکے تو نہیں مارتے کم بخت؟‘‘

جمیل:(بات بدلتے ہوئے)’’انتَ کنجوسُنْ ۔۔۔چائے پانی نہ پوچھتے تُنْ ؟‘‘

خالہ خیرن:(جل بھن کر)’’خاور!۔۔۔بیٹا کون کہے گا کہ یہ منگتا دس سال سے سعودیہ میں رہ رہا ہے۔۔۔کم بخت! پورے بیٹھ تو جاؤ۔۔۔تشریف رکھنے سے پہلے ہی چائے کی پڑ گئی۔۔۔آرہی ہے چائے۔۔۔تم خاور کو سعودیہ بھجوانے کی بات کرو۔۔۔کس طرح کی نوکری دلواؤ گے،یہ بات کرو۔‘‘

جمیل:’’یا خالہ!۔۔۔فکر کیوں کرتی تُنْ۔۔۔اچھی نوکری دلواتا تُنْ۔۔۔ھٰذا اچھا لڑکا تُنْ، محنت کرتا تُنْ۔‘‘

خالہ خیرن:(لاپروائی سے)’’ارے رہنے دو خالی تسلی کو اور یہ بتاؤکہ کون سی اچھی نوکری؟‘‘

جمیل:’’یاخالہ!ھٰذاصفائی نصف ایمان ہوتا تُنْ۔۔۔دین میں صفائی کی ھٰذابڑی تاکید ہوتی تُنْ۔۔۔صفائی کا کام ہوتا تُنْ اور وہ بھی ھٰذا سعودیہ میں۔۔۔‘‘

خالہ خیرن:(خوش ہوتے ہوئے)’’یہ بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے جمیل میاں کہ مقدس سرزمین پر مقدس مقامات کی صفائی کا کام مل جائے تو اس سے بڑی کوئی خوش نصیبی نہیں۔‘‘

جمیل:(حیرانی سے)’’یا خالہ خیرن!۔۔۔کون سے مقدس مقامات کی صفائی ھٰذا؟۔۔۔ہوٹل میں جھاڑو لگانے کا کام ہوتا تُنْ۔‘‘

خالہ خیرن:(غصے سے)’’توکم بخت مارے، پانچ لاکھ کس بات کے مانگتے ہو۔۔۔ہو ٹل میں صفائی کا کام یہ یہاں نہیں کر سکتاجو تم اسے سعودیہ میں ہوٹل کی صفائی کاکام دلواؤ گے؟‘‘

جمیل:(ہاتھ کو لہراتے ہوئے)’’پانچ لاکھ نہ مانگتا تُنْ یا خالہ خیرن۔۔۔دس لاکھ لیتا تُنْ۔۔۔پانچ لاکھ بھیجنے سے پہلے لیتا تُنْ۔۔۔اوریا خالہ! خاور کی تعلیم کون سی زیادہ ہوتی تُنْ ؟۔۔۔ھٰذا یہ کون سا انجینئر ہوتا تُنْ جو اس کو اس سے اچھی نوکری دلواتا تُنْ۔۔۔وہاں صفائی کا کام بھی ھٰذامل جاتا تُن تو بڑی بات ہوتی تُنْ۔۔۔اور کیا اس کو امام حرم لگواتا تُنْ؟۔۔۔‘‘

خالہ خیرن:(اٹل انداز میں)’’دیکھو میاں!دس نہیں بارہ لاکھ لو مگر ڈھنگ کا کام دلواؤتب۔۔۔صاف سی بات ہے۔‘‘

جمیل:(سمجھانے والے انداز میں)’’یاخالہ !بات کو نہ سمجھتی تُنْ۔۔۔خاورایک دو سال محنت کرتا تُنْ۔۔۔پھر اس کو اپنا کام کروا کے دیتا تُنْ۔۔۔جیسے میں خود اپنا کام کرتا تُنْ ۔۔۔محنت کرتا تُنْ۔۔۔اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا تُنْ۔۔۔‘‘

(جمیل جذباتی انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرتا ہے اور اسے خیال ہی نہیں رہتا کہ اس کے چھپے ہوئے ہاتھ پر سے رومال ہٹ گیا ہے۔)

خالہ خیرن:(اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے)’’تمہارا یہ ہاتھ مصنوعی ہے کیا؟۔۔۔تم نے اس پر دستانہ بھی چڑھایا ہوا ہے۔۔۔کیا ہوا تمہارے ہاتھ کو؟۔۔۔‘‘

جمیل:(گھبرا کر ہاتھ رومال کے نیچے چھپاتے ہوئے)’’کچھ نہیں، یا خالہ خیرن!۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔‘‘

خالہ خیرن:’’تم اسی ہاتھ سے محنت کرتے ہو اور اسی کی کمائی کھاتے ہو؟‘‘

جمیل:’’جی خالہ خیرن۔‘‘

خالہ خیرن:’’تمہیں سعودیہ میں دس سال ہو گئے؟‘‘

جمیل:’’جی یا خالہ۔‘‘

خالہ خیرن:’’آٹھ سال سے اپنا کام کررہے ہو؟‘‘

جمیل :’’بالکل درست فرمایا تُنْ۔‘‘

خالہ خیرن:’’پہلے دو سالوں میں جب تم نوکری کر رہے تھے،اس عرصے میں تم نے چوری کرکے ہاتھ کٹوا لیااوراب آٹھ سال سے یہی کٹا ہوا ہاتھ دکھا کر تم سعودیہ میں بھیک مانگ رہے ہو۔۔۔اور اس کو تم اپنا کام اور محنت کی کمائی کہہ رہے ہو،منحوس مارے ۔۔۔اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہو کہ سال دو سال میں خاور کو بھی اپنا کام کروا دوں گا، بد بخت۔۔۔‘‘

جمیل:(اکڑتے ہوئے)’’او یا خالہ خیرن!۔۔۔ہم بھیک نہ مانگے تُنْ۔۔۔اپنی فنکاری کا معاوضہ وصول کرتے تُنْ۔۔۔بغیر تعلیم کے تو اسی کام سے اچھی آمدنی ہوتی تُنْ۔۔۔‘‘

خالہ خیرن:’’تمہارا خانہ خراب ہوبلکہ تمہارے سارے خانے خراب ہوں۔۔۔یہ ہاتھ بھی تو فنکاری دکھاتے ہوئے ہی کٹوالیا ناں، بد بخت۔۔۔(خاور سے)خاور! میرے بیٹے منہ کیا دیکھ رہے ہو؟۔۔۔ اٹھاؤ جوتی اور لگاؤ اس جعلی عربی کو مہریں۔۔۔چور بھکاری کہیں کے۔۔۔خدا پوچھے اس سفید سر والی حجن رشیدہ کو۔۔۔کیسا ٹھگ ہمارے گھر بھیج دیا ۔۔۔جمیل میاں!ھٰذا تمہاراکچھ نہ رہے۔۔۔تمہارا بیڑہ غرق ہوجائے تُنْ۔۔۔تمہارا تُنْ تمہارے گلے میں پھنسے کم بخت۔۔۔

(جمیل بیٹھک سے نکل کر دروازے کی طرف بھاگتا ہے جبکہ خاور اور خالہ اسے پھینک پھینک کر جوتیاں مارتے ہیں اور ہر جوتی کے ساتھ تُن یا ھٰذا کی آواز نکالتے ہیں)

پردہ گرتا ہے۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top