skip to Main Content

اُف یہ نیکیاں

کہانی: Meddle’s Good Turns
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے چارے گڑ بڑ خان کی نیکیاں اس کے گلے پڑگئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گڑبڑ خان کی خالہ اس سے سخت ناراض تھیں۔ وہ ان کے گھر رہنے آیا ہوا تھا اور خالہ کی بلی سمیت گھر کا ہر فرد ان کے بھانجے سے نالاں تھا۔
باورچن اس لیے ناراض تھی کہ گڑبڑ خان نے رات کو باورچی خانے میں گھس کر وہ سارا کھانا کھا لیا تھا جو اُس نے اگلے دن کے لیے پکایا تھا۔
مالی اس لیے خفا تھا کہ گڑبڑ خان نے اس کی بہترین کُھرپی لے کر کسی ایسی جگہ چھوڑ دی، جہاں سے وہ کسی کو نہ مل سکی۔
خالہ کی بلی اس لیے برہم تھی کہ گڑبڑ خان ایک ہی دن میں تین بار اُس کی دُم پر پاﺅں رکھ چکا تھا اور جب اس نے خالہ کے پودوں میں پانی کے بجائے دودھ کا جگ اُنڈیل دیا تو ان کی برداشت جواب دے گئی۔
”تمھیں یہ نظر نہیں آیا کہ تم پانی کے بجائے دودھ ڈال رہے ہو؟“ انھوں نے جھلا کر کہا۔
”میں نے دیکھا نہیں، اور آپ کے ہاں گدلا پانی آرہا ہے۔ ویسے بھی میں نے وہی جگ اُٹھایا جو آپ نے بتایا تھا۔“ گڑبڑ خان نے لاپروائی سے کہا۔
”ہرگز نہیں! میں بھلا ایسی حماقت کی بات کیوں کہتی۔ گڑبڑ خان! میں محسوس کر رہی ہوں کہ تم آج میرے ہاتھوں سے ضرور پٹو گے۔“ خالہ کا پارہ مزید چڑھ گیا تو گڑبڑ خان خطرہ بھانپ کر جلدی سے بولا: ”مجھے افسوس ہے خالہ جان! اب میں کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر جارہا ہوں تاکہ آج کے دن آپ میری وجہ سے مزید پریشان نہ ہوں۔“
”گڑبڑ خان! تمھیں چاہیے کہ تم لوگوں کو تنگ کرنے کے بجائے اُن کی مدد کرو۔ اب اگر آج کے دن تم کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہو تو اس صورت میں، میں تمھیں معاف کردوں گی ورنہ واپسی پر پٹائی کے لیے تیار رہنا۔“ خالہ نے کہا۔
گڑبڑ خان نے تیزی سے باہر کا رُخ کیا اور ایسا کرتے ہوئے ایک بار پھر بلی کی دُم کچل دی۔ بلی غرّائی اور اپنے پنجے اس کی ٹانگ میں گاڑ دیے۔ گڑبڑ خان زور سے چلایا اور باہر کی طرف بھاگا۔
خالہ نے زور دار آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا۔ باورچن نے دروازے میں سر ڈال کر پوچھا: ”کیا وہ چلا گیا؟ میں نے ابھی ابھی دیکھا کہ میرے سارے شامی کباب غائب ہیں اور میں چور کی پٹائی بیلن سے کرنا پسند کروں گی۔“
”ہاں! وہ چلا گیا۔ میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ اُسے معافی تب ملے گی جب وہ کوئی نیکی کا کام کرکے لوٹے گا۔“ خالہ نے بتایا۔
٭….٭
گڑبڑ خان سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔ جب وہ کوئی اچھا کام نہیں کرنا چاہتا تھا تو اس کو اتنے مواقع ملتے تھے اور اب جب وہ کوئی نیکی کرنا چاہتا ہے تو اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ کیا کرے….؟ آخر کار اُس نے ایک بوڑھی عورت کو سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا، جس کے ہاتھ میں سامان سے بھری ہوئی ایک ٹوکری تھی۔
وہ فوراً اُس کی طرف لپکا اور اس کی ٹوکری ہاتھ سے لینے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد بوڑھی عورت کا بوجھ خود اُٹھانا تھا مگر بوڑھی عورت حلق پھاڑ کر چلائی: ”مدد! مدد! یہ ڈاکو میرا سامان چھین رہا ہے۔“
بہت سے لوگ اور قصبے کا انسپکٹر دوڑتے ہوئے آئے۔
”تم اس بوڑھی عورت کی ٹوکری کیوں چھین رہے تھے؟“ انسپکٹر نے سوال کیا: ”ارے! تم تو گڑبڑ خان ہو! یہ کیا حرکت تھی؟“ اُس نے دفعتاً اُسے پہچان کر کہا۔
”میں تو صرف ایک نیکی کرنا چاہتا تھا۔ کیا میں کسی بوڑھی عورت کی مدد کے لیے اس کی ٹوکری بھی نہیں اُٹھا سکتا؟“ گڑبڑ خان نے جل بھن کر کہا اور پاﺅں پٹختا ہوا آگے چل پڑا۔ اس کا موڈ بہت خراب ہوگیا تھا۔
چلتے چلتے وہ ایک سڑک پر پہنچا اور وہاں ایک گھر کے سامنے سے گزر ہی رہا تھا کہ اچانک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک عورت نے باہر نکل کر کوڑا دان گڑبڑ خان کے تقریباً پیروں کے پاس رکھ دیا۔ گڑبڑ خان اُچھل پڑا۔
”یہ کیا حرکت ہے؟“ اُس نے غصے سے کہا۔
”اوہ معذرت! میں سمجھی جمعدار آگیا ہے۔ آج کوڑا اُٹھانے کا دن ہے۔ ہم سب اپنا اپنا کوڑا دان گھر کے دروازے پر رکھ دیتے ہیں تاکہ جمعدار اُنھیں آکر خالی کردے۔“ عورت نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ! تو کیا آپ اتنے بھاری کوڑے دان کو خود اُٹھا کر باہر رکھتی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔“ گڑبڑ خان نے سر ہلایا۔
”ارے نہیں! میرے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے البتہ مجھے ’مسز لوسی‘ پر افسوس ہوتا ہے۔ وہ بہت ضعیف ہیں اور ان کے لیے یہ خاصا مشکل کام ہے۔“ عورت یہ کہہ کر اندر چلی گئی اور گڑبڑ خان آگے چل پڑا۔
اُس نے دِل میں سوچا کہ وہ مسز لوسی کا کوڑا دان اُٹھا کر باہر رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک نیکی کا کام ہوگا۔ اُس نے دیکھا کہ راستے میں صرف ایک گھر ایسا تھا، جس کے آگے کوئی کوڑا دان نہیں تھا۔
”یہ ضرور مسز لوسی کا گھر ہے!“ گڑبڑ خان نے سوچا۔
بے چاری بوڑھی عورت اتنا بھاری کوڑا دان اُٹھا کر باہر نہیں رکھ سکتی ہے اور نہ اس کے پڑوسیوں کو اتنی توفیق ہے کہ اس کی مدد کرسکیں…. خیر! اب گڑبڑ خان یہ ضروری کام انجام دے گا۔ اس نے گھوم پھر کر گھر کے پچھلے حصے کا جائزہ لیا۔ وہاں تین بڑے بڑے کوڑے دان رکھے تھے۔ ظاہر ہے بوڑھی عورت اتنے بھاری کوڑے دان کیسے اُٹھا سکتی ہے، ضرور اس میں کئی دنوں کا کوڑا کرکٹ جمع ہوگا۔
گڑبڑ خان نے پچھلے دروازے پر دستک دی لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ اُس نے دوبارہ دستک دی مگر جواب ندارد!
”بوڑھی عورت ضرور بہری ہے۔ اکثر بوڑھی عورتیں بہری ہو جاتی ہیں، بے چاریاں!“ گڑبڑ خان نے سوچا۔
کافی دیر انتظار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں کوڑے دان پیچھے سے اُٹھا کر سامنے والے دروازے پر رکھ دے گا تاکہ جمعدار انھیں خالی کردے۔
اس نے بڑی مشکل سے کھینچ کھانچ کر تینوں کوڑے دان مرکزی دروازے تک پہنچا دیے۔ وہ واقعی بہت بھاری تھے۔ اسی وقت اسے جمعدار آتا نظر آیا۔
”اوہ! شکر ہے میں نے اپنا کام وقت پر مکمل کرلیا۔“ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔
وہ دروازے پر کھڑا جمعدار کا انتظار کرتا رہا۔ جب جمعدار نے تینوں کوڑے دان اپنی ٹرالی میں اُلٹ کر خالی کردیے تو گڑبڑ خان اُنھیں واپس اپنی جگہ رکھ آیا۔ وہ خود کو بہت نیک اور رحم دل خیال کر رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس وقت اس کی خالہ یہ سب دیکھ سکتیں۔
اس نے ایک دفعہ پھر مرکزی دروازے پر دستک دی۔ برابر والے گھر سے ایک خاتون نے جھانک کر کہا: ”یہ لوگ گھر پر نہیں ہیں۔ دروازہ بجانے کا کوئی فائدہ نہیں؟“
”اوہ! کوئی بات نہیں۔ میں تو انھیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں نے ان کے تمام کوڑے دان جمعدار کو دے کر خالی کروا لیے ہیں اور ان کو واپس اپنی جگہ پر بھی رکھ دیا ہے۔“ گڑبڑ خان نے فخر سے کہا اور آگے چل پڑا۔
چلتے چلتے اُسے ایک ایسا گھر نظر آیا، جس کے دروازے پر سفید پینٹ کا ایک ڈبہ اور برش رکھا ہوا تھا لیکن اردگرد کوئی نظر نہیں آیا۔
”ہوں! گھر کا مالک یقینا کام چھوڑ کر دن کا کھانا کھانے اندر چلا گیا ہے۔ ویسے دیکھوں تو ذرا کہ وہ کر کیا رہا ہے۔“ گڑبڑ خان نے دروازے پر ایک نظر ڈالی اور کہا: ”اوہ اچھا! وہ دروازے پر اپنے گھر کا نام پینٹ کررہا ہے کیوں کہ شاید بہت پرانا ہونے کی وجہ سے نام تقریباً مٹ چکا ہے۔“ اس نے قریب جاکر بہت غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔
”گوشۂ گلاب“ اُس نے بڑی مشکل سے مٹے مٹے حروف سے اندازہ لگایا۔
”ویسے ان کے گھر میں گلاب کا ایک بھی پودا نہیں ہے۔ کیا ہی دلچسپ بات ہے۔“ وہ ہنسا پھر اُس نے ایک نظر رنگ کے ڈبے اور برش پر ڈالی۔
”کیا یہ نیکی نہیں ہوگی کہ میں دروازے پر نام خود ہی پینٹ کردوں….؟ مالک کتنا خوش ہوگا جب وہ کھانے سے فارغ ہو کر باہر نکلے گا اور دیکھے گا کہ اس کا کام کسی اور نے مکمل کر دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں یہ کام بہت اچھی طرح کرسکتا ہوں۔“ اُس نے پینٹ، برش اٹھاتے ہوئے خود کلامی کی۔
سفید رنگ برش سے ٹپک کر نیچے فرش پر گرنے لگا لیکن گڑبڑ خان کو بھلا کیا فکر ہوسکتی تھی۔ اُس نے گھر کا نام پینٹ کرنا شروع کردیا۔
اُدھر دوسری طرف جس گھر کے کوڑے دان خالی کیے گئے تھے، وہاں ایک عجیب شور و غل برپا تھا۔ پڑوسن نے دروازہ کھول کر پوچھا: ”کیا بات ہے؟“
”بات؟ بہت بڑی بات ہے۔“ ایک سرخ چہرے والا شخص چِلّایا: ”کسی نے میرے جانوروں کا کھانا چُرا لیا ہے۔ یہ دیکھیں! میں اس کنستر میں بطخوں کا کھانا رکھتا ہوں اور اس والے میں مرغیوں کا دانہ اور تیسرے میں گھوڑے کا چارہ ہوتا ہے لیکن اب یہ تینوں کنستر خالی پڑے ہیں۔“ اُس آدمی نے پاﺅں پٹخے۔
”مجھ پر چلانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے یہ کنستر خالی نہیں کیے لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ یہ سب سامان جمعدار کو دے دیا گیا ہے۔“ پڑوسن نے کہا۔
”کیا کہا؟…. جمعدار کو؟…. کس نے؟“ اُس نے چلا کر کہا: ”اور جمعدار کی اتنی جرأت کہ اُس نے میرے کنستروں کو ہاتھ لگایا؟ محلے کے سب جمعدار جانتے ہیں کہ میں اپنے گھر کا کوڑا خود تلف کرتا ہوں۔“
”نہیں! یہ جمعدار کی حرکت نہیں تھی۔ وہ ایک مسخرہ سا بچہ تھا لمبی ناک اور اُلجھے بالوں والا۔ وہ یہ بتانے کے لیے آپ کے گھر کا پچھلا دروازہ پیٹ رہا تھا کہ اُس نے آپ کے سارے کوڑے دان جمعدار کی ٹرالی میں اُلٹ دیے ہیں۔“ پڑوسن نے بتایا۔
گھر کے مالک کو اس عجیب کہانی پر یقین کرنا مشکل ہوگیا۔ آخر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اُس نے پوچھا: ”اب وہ آدمی کہاں ہے؟“
”وہ پیدل ہی اس طرف گیا ہے۔“ پڑوسن نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”آپ اس کو اس کی غیر معمولی لمبی ناک کی وجہ سے پہچان جائیں گے۔ دوسروں کے معاملات میں اپنی ناک گھسیڑنے والا احمق آدمی!“ پڑوسن نے تبصرہ کیا۔
”اب وہ کم از کم میرے معاملات میں کبھی اپنی ناک نہیں گھسیڑ سکے گا۔“ گھر کے مالک نے دانت پیسے اور سیدھا سڑک پر چل دیا، کچھ دور جا کر ہی اُسے گڑبڑ خان نظر آگیا، جو ابھی ایک گھر کے دروازے پر کھڑا پینٹ کرنے میں مصروف تھا۔
”لمبی نوکیلی ناک والا آدمی! یہی ہے وہ!“ لال منھ والے آدمی نے ایک نظر اُس پر ڈالی اور دبے قدموں اُس کی طرف بڑھا تاکہ ایک دَم اُس پر جھپٹ پڑے مگر گڑبڑ خان نے اُس کے قدموں کی آہٹ سنی اور تیزی سے مڑا تو سرخ منھ والے نے اس پر چھلانگ لگا دی۔
گڑبڑ خان بچنے کے لیے نیچے جھکا تو وہ دھم سے پینٹ کے ڈبے کے اوپر گرپڑا۔ برش ہوا میں اُچھلا اور رنگ لال منھ والے آدمی کی آنکھوں میں چلا گیا…. وہ چیختے ہوئے اپنی آنکھیں مسلنے لگا، اسی لمحے گھر کے اندر سے وہ شخص نکلا جو اپنے گھر کا نام پینٹ کررہا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ ایک شخص اس کے پینٹ کے ڈبے کے اوپر بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا اپنی آنکھ سے سفید پینٹ پونچھنے کی کوشش کررہا ہے۔
”ارے! یہ سب کیا تماشا ہے؟“ مالک مکان چلایا: ”اے تم! فوراً میرے پینٹ کے ڈبے سے اُٹھو! تم یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو؟“
”جناب! میں تو ایک نیکی کا کام کررہا تھا۔“ گڑبڑ خان نے پینٹ کے ڈبے سے اُٹھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا: ”میں آپ کے گھر کا نام پینٹ کررہا تھا، بالکل مفت! صرف نیکی کمانے کے لیے۔“
مالک مکان نے اب اپنے گھر کے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر غصے سے چلایا: ”یہ کیا؟ تم نے میرے گھر کا نام گوشۂ گلاب کیوں لکھ دیا؟ کیا تمھیں یہاں کوئی گلاب نظر آرہا ہے؟“
”نہیں تو! میں خود یہی سوچ رہا تھا کہ آپ اپنے گھر کا نام ’گوشۂ گلاب‘ کیوں رکھ رہے ہیں۔“ گڑبڑ خان نے کندھے اُچکائے۔
”میں گھر کا نام گوشۂ گلاب نہیں بلکہ ’گوشۂ امن‘ لکھنا چاہتا تھا لیکن میرے گھر جانے کے بعد تم نے سب کام خراب کر دیا، آخر کس کی اجازت سے؟“ مالک مکان چلایا: ”تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے کام میں مداخلت کرنے کی؟ اور یہ جو تم نے میرا سارا فرش بھی رنگ گرا کر خراب کر دیا…. میں اب تمھارا سر پھوڑ دوں گا۔“ مالک مکان کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔
”نہیں! اس سے تو مجھے نمٹنا ہے، اسے میرے حوالے کردیں۔“ لال منھ والے نے آگے بڑھ کر کہا اور غریب گڑبڑ خان کے کندھے پر اپنا بھاری بھرکم ہاتھ رکھ دیا۔
”آپ جانتے ہیں کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ یہ میرے گھر گیا اور بلا اجازت گھر کے پچھلے حصے سے میری مرغیوں، بطخوں اور گھوڑوں کے کھانے سے بھرے ہوئے کنستر کوڑے دان سمجھ کر جمعدار کے حوالے کردیے۔ ہنھ!“ اُس نے گڑبڑ خان کو اتنے زور سے جھنجھوڑا کہ وہ سڑک پر لڑھکتا چلا گیا۔
دونوں آدمیوں نے ایک دَم اس پر چھلانگ لگائی مگر لال منھ والے کا پاﺅں پینٹ کے ڈبے پر پڑا اور وہ منھ کے بل جاگرا…. دوسرا شخص اپنی ہی جھونک میں اس کے اوپر آگیا۔ گڑبڑ خان کو موقع مل گیا اور وہ اُٹھ کر سرپٹ دوڑا۔ دوڑتے، دوڑتے جب اس کی ہمت جواب دے گئی تو وہ بس اسٹاپ کی ایک سیٹ پر دھم سے گرپڑا اور دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔
”اوہ خدایا! دو نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ بھلا مجھے کیا الہام ہوتا ہے کہ وہ احمق آدمی کوڑے دانوں میں پالتو جانوروں کا کھانا ذخیرہ کرکے رکھتا ہے۔ میں تو سمجھا کہ اس گھر میں مسزلوسی رہتی ہیں اور بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ کچھ فارغ قسم کے لوگوں کو اچانک ہی اپنے گھر کا نام تبدیل کرنے کا خیال آجائے گا۔ اتنے لڑاکا شخص کے گھر کا نام تو دیکھو! گوشۂ امن! ہنھ۔“ وہ بڑبڑا رہا تھا۔
اتنے میں سامنے سے اُس کی خالہ آتی دکھائی دیں جو اگلی بس پکڑنے کے لیے اسٹاپ کی طرف ہی آرہی تھیں۔
گڑبڑ خان نے انھیں آتا دیکھ کر بنچ پر کھسک کر ان کے لیے بیٹھنے کی جگہ بنائی لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بالکل بھول گیا کہ وہ ابھی ابھی سفید پینٹ کے ڈبے سے نکل کر آرہا ہے۔ خالہ پہلے تو بے دھیانی میں بنچ پر بیٹھ گئیں لیکن پھر فوراً ہی ایک چیخ مار کر کھڑی ہوگئیں۔
انھوں نے گردن گھما کر اپنے کپڑوں کا جائزہ لیا: ”اوہ! میرا بہترین سیاہ جوڑا برباد ہوگیا۔ اس پر سفید پینٹ کے دھبے لگ گئے۔ گڑبڑ خان! تم نے یہ شرارت جان بوجھ کر کی ہے۔ اب تم فوراً گھر چلو…. دیکھنا میں تمھارا کیا حشر کرتی ہوں۔ تمھارا دماغ درست کرنے کے لیے زبردست پٹائی بہت ضروری ہوگئی ہے۔“
بے چارہ گڑبڑ خان…. اگر وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرنا چھوڑ دے تو اس کی زندگی بہت چین سے گزر سکتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے….؟
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
کھرپی: زمین کھودنے کا آلہ جس سے مالی باغ کی مٹی کو تہہ و بالا کرتا ہے
ندارد: (لفظاً) نہیں رکھتا ہے، غائب، غیر موجود، گُم
تلف کرنا: فنا کرنا، ضائع یا برباد کرنا
سرپٹ دوڑنا: گھوڑے کی ایک تیز رفتار چال جس میں وہ سر اور پیر ایک ساتھ اٹھا کر دوڑتا ہے، مجازاً (تیز رفتاری)
جھونک: لڑکھڑانا، ڈگمگانا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top