skip to Main Content

انتقام

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’چچا جان! اپنا گھر سب کو پیارا ہوتا ہے نا؟‘‘ دس سالہ فہد نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا
’’کیوں نہیں بیٹا! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔‘‘
’’پھر ہم اپنا گھر چھوڑکر کیوں جارہے ہیں؟کدھر جارہے ہیں؟‘‘
اس سے پہلے کہ چچا جان کچھ کہتے دروازے پر دستک ہوئی۔ چچا جان نے دروازے کے پاس جا کر رعب دار آواز میں پوچھا ’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں، جلدی کرو‘‘ چچاجان نے آواز پہچان لی اور فوراً دروازہ کھول دیا۔’’جلدی کرو! راستہ کچھ بہتر ہے کہیں یہ موقع کھو نہ جائے۔‘‘ فہد کے والد نے گھر میں داخل ہوتے ہی خبردار کیا اور پھر تینوں گھر پر الوداعی نظر ڈالنے کے بعد نکل پڑے۔
آسمان رات کی کالی چادر مکمل طور پر اوڑھ چکا تھا مگر چاند نے بھی اندھیروں میں اُجالا کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ فہد اپنے والد او چچا کے ساتھ چھپتا چھپاتا ایک وسیع میدان میں نکل آیا کچھ دور ہی ایک قافلہ رواں دواں دکھائی دیا۔ فہد کے والد نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھا ما اور قافلے کی جانب بڑھنے لگا۔ وہ اس قافلے میں یوں مدغم ہوگئے جیسے قافلے کے ہجوم سے خوب واقف ہوں۔
’’بابا! ہم کدھر جارہے ہیں؟‘‘
’’اپنے گھر، بیٹا!‘‘
’’اپنے گھر!مگر ہم تو اپنا گھر چھوڑ آئے ہیں۔‘‘فہد نے پھر وہی بات دہرائی۔
’’وہ ہمارا گھر ہر گز نہیں تھا۔ہمارا گھر تو و ہ پاک سر زمین ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے روپیہ پیسہ نہیں بلکہ جانوں کے نذانے دیئے گئے ہیں۔ اُس گھر میں ڈر نہیں سکون ہوگا ۔غلامی جیسی لعنت نہیں آزادی جیسی نعمت ہوگی جہاں ہم اپنی زندگی اپنے مذہب کے مطابق گزار سکیں گے۔وہی ہماری منزل ہے اور وہی ہمارا گھر ہوگا۔
’’ہاں،بالکل مجھے بھی ایسے گھر ہی جانا ہے میں بھی پاک سرزمین پر جاؤں گا ہم وہی ایک پیارا ساگھر بنائیں گے۔‘‘فہد نے پرعزم لہجے میں کہا
اچانک قافلے کے ایک جانب کھلبلی مچ گئی۔’’بھاگو، بھاگو۔۔۔۔۔۔‘‘

اسی سمت سے آوازیں آنے لگیں ہندوؤں نے مسلمانوں کے قافلے پر حملہ کر دیا تھا۔ بھگڈر مچ گئی افراتفری کا سا عالم ہوگیا ہر کوئی بھاگے چلا جا رہا تھا۔ قریب ایک چھوٹی سی بستی دیکھائی دی پھر کچھ مسلمانوں کا رخ اُس جانب کو ہوا اس بستی سے بھی ہندوؤں کو تلواریں تھامے دیکھ کر قافلے والوں نے مخالف سمت میں دوڑنا شروع کر دیا۔ ظالم ہندوؤں نے قتل عام شروع کر دیا۔ خون پانی کی طرح بہنے لگا۔ فہد اپنے چچا اور والد کے ساتھ بھاگے چلا جا رہا تھا بہت سے مسلمان ان کے ساتھ بھاگے چلے جارہے تھے۔ ہندو نہتے مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے۔ اچانک فہد کا ہاتھ اُس کے والد کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور دھکا لگنے سے گر گیا اس عالم میں وہ کیسے اٹھتا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔مسلسل دھکے اس کو اٹھنے نہیں دیتے تھے دوسری جانب اس کے والد نے پریشانی کے عالم میں آوازیں دیں مگر اس افراتفری کے عالم میں ان کی آواز خاک سنائی دیتی۔ چچا جان کی بھی کچھ خبر نہیں رہی کو ن کہاں تھا؟ کسی کو دوسرے کی کچھ خبر نہیں تھی۔ اتنے میں فہد اٹھنے میں کامیا ب ہوگیا مگر اس نے دیکھا کہ دو ہندو گھوڑ سوار اس کے تعاقب میں آرہے ہیں۔ فہد نے بڑی بہادری اور پھرتی سے جھک کر پتھر اٹھایا اور ایک گھوڑسوار کو دے مارا۔ پتھر نے اس کی آنکھ کو پھوڑ ڈالا وہ گرا اور آنکھ پر ہاتھ رکھ کر چلانے لگا۔ فہدنے موقع غنیمت جانا اور دوڑ لگادی۔ دوسرا گھوڑ سوار اس کے قریب آگیا ۔مگر جونہی اس نے تلوار چلائی فہد کے چچا جا ن نے آگے بڑھ کر اُسے بچالیا۔تلوار کے وار نے فہد کے بجائے اس کے چچا کو زخمی کر دیا اور وہ چکرا کر گر پڑے۔ فہد انہیں دیکھ کر پریشان ہوگیا۔
’’بھاگو بیٹا! بھاگو۔۔۔۔۔۔‘‘ چچاجان نے فہد کو ہاتھ سے پرے دھکیلا۔
’’یہ آپ کو کیا ہوگیا؟‘‘
’’ہاہاہا۔۔۔۔۔ہاہا‘‘ گھوڑ سوار مسلسل ان کی بے بسی پر قہقہے لگا رہا تھا۔
’’بھاگو بیٹا!‘‘ اس بار چچاجان کا اٹھا سر زمین پر پڑگیا۔ فہد بھاگا مگرچند قدموں پرہی گھڑ سوار نے اسے جا لیا اور تلوار کا زبردست وار کیا جس سے فہد خون میں لت پت ہو گیا اور آخر اس کا معصوم جسم گر کر ٹھنڈا ہو گیا۔فہد کے چچا نے یہ منظر دیکھا مگر فی الحال نہ اُن میں اُٹھنے کی ہمت تھی او ر نہ بولنے کی قوت۔
’’آپ نے میرا بیٹا تو نہیں دیکھا۔‘‘فہد کے والد بچے کھچے قافلے میں ہر ایک سے پوچھ رہے تھے۔
’’صبر کرو، وہ ضرور مل جائے گا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ کئی لو گ زخمی ہوئے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ پہنچ رہے ہیں خدا نے چاہا تو تمھارا بیٹا بھی آجائے 
ہیں اور وہ آہستہ آہستہ پہنچ رہے ہیں خدا نے چاہا تو تمھارا بیٹا بھی آجائے گا۔‘‘ایک صاحب نے فہد کے والد کو تسلی دی
وہ رات فہد کے والد نے ایک ایک کے پاس جاکر اپنے بیٹے سے متعلق پوچھنے پر ہی صرف کر ڈالی۔مگر ان کے بیٹے کا پتہ نہ چلنا تھا نہ چلا۔ ساری رات کسی نہ کسی وقت کوئی مسلمان قافلے میں آتا رہا جونہی کوئی آتا بہت سے لوگ اپنے کھوئے ہوئے رشتے داروں کے متعلق پوچھنے پہنچ جاتے۔ آخر دن کا اُجالا پھیلنے لگا قافلے والوں نے تیاریاں شروع کردیں۔
’’آج رات تک انشاء اﷲ باڈر تک پہنچ جائیں گے اور اگلے دن ہم اپنی منزل ، اپنی پاک سرزمین پاکستان کو بوسہ دیں گے۔‘‘ روانگی سے قبل ایک شخص نے بلند آواز میں یہ اعلان کیا۔
فہد کے والد کے دماغ میں کئی وسوسے جنم لے رہے تھے۔ شاید فہد زخمی ہو اور آرہا ہو۔شاید وہ اپنے چچا کو مل جائے اور وہ بارڈر پر پہنچ جائیں،مجھے جانا چاہیے کہ نہیں۔فہد کے والد کسی فیصلے تک نہ پہنچ رہے تھے آخر کچھ دیر غور و فکر کے بعد قافلے کے ساتھ روانہ ہونے کی ٹھانی۔
قافلہ روانہ ہوا ہر کوئی رحم کی دعائیں مانگ رہا تھا لاشوں کے منظر ہر کسی کی آنکھوں میں نقش تھے۔ جب کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہوجائے تو لگتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو مگر وقت مسلسل ہمیشہ کی طرح رواں دواں رہتا ہے کسی کے مرنے سے وقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آخر ایک چھوٹا سارہ جانے والا قافلہ رات تک بارڈر کے قریبی علاقے تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گیا بعض افراد نے سفر جاری رکھنے کو کہا مگر جلدی نہ کرنے اور حالات کا جائزہ لے کر چلنے کی تجویز پر ہی عمل کیاگیا۔
فہد کے والد کے دل کو ہر پل بے چینی کا سامنا تھا وہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے باہر نکلے تو دیکھا کہ کئی لوگ قافلے میں ہورہے ہیں بعض کی حالت تو بہت نازک ہوچکی ہے۔ اچانک فہد کے والد ایک جھمگھٹے میں چچا جان کو دیکھا تو دوڑ کر اُن کے پاس پہنچے ۔ان کی گود میں ایک بچہ موجود تھا۔
’’فہد زندہ ہے! اوہ میرے خدایا ! تیرالاکھ لاکھ شکر ہے میں تیرا شکر ساری زندگی بھی ادا کرتا رہوں تو شاید پھر بھی پورا نہ کر سکوں۔‘‘
’’بھائی جان! یہ۔۔۔۔۔فہد۔۔۔۔۔نہ‘‘ چچاجان نے کچھ کہنا چاہا
ادھر لا میرے بچے کو ، زیادہ زخمی تو نہیں ہوا ہے نا!‘‘ اتنا کہہ کر فہد کے والد نے اس بچے کو چچاجان کی باہوں سے کھسوٹ لیا مگر یہ دیکھ کر اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ وہ بچہ فہد نہیں کوئی اور تھا۔
’’یہ کون ہے؟اور فہد۔۔۔۔فہد کدھر ہے۔‘‘فہد کے والد نے چچاجان سے سوالیہ نظروں سے پوچھا
یکدم فہد کے چچا لڑکھڑا ئے اور گر پڑے فہد کے والد آگے بڑھ کر سہارا دیااتنے میں چچاجان کی چادر سرک گئی فہد کے والد کی نظریں چچاجان کی کمر پرٹھہر گئیں جہاں ایک بڑا سا کپڑا مضبوطی کے ساتھ باندھا ہوا تھا جو جگہ جگہ سے خون سے آلودہ بھی تھا۔
’’یہ کون ہے؟اور فہد۔۔۔۔فہد کدھر ہے۔‘‘فہد کے والد نے چچاجان سے سوالیہ نظروں سے پوچھا
یکدم فہد کے چچا لڑکھڑا ئے اور گر پڑے فہد کے والد آگے بڑھ کر سہارا دیااتنے میں چچاجان کی چادر سرک گئی فہد کے والد کی نظریں چچاجان کی کمر پرٹھہر گئیں جہاں ایک بڑا سا کپڑا مضبوطی کے ساتھ باندھا ہوا تھا جو جگہ جگہ سے خون سے آلودہ بھی تھا۔
’’تم ٹھیک تو ہو نا!فہد کے والد نے پریشانی سے پوچھا
فہد کے چچا نے ہاتھوں کے اشارے سے پانی مانگا۔پہلے فہد کے والد نے ان کو سہارا دے کر آرام دہ جگہ پر بٹھایا بچہ بے ہوش تھا ۔ اسے بھی لٹادیا۔ پھر چچا جان کو پانی پلایا۔
’’فہد کا پتہ ہے؟‘‘ فہد کے والد نے بے صبری سے پوچھا
’’فہد! فہد۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر چچاجان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے سر جھکا لیا۔’’کیا ہوا؟کہیں؟‘‘فہد کے والد نے پریشانی سے پوچھا
’’میں فہد کو ان سے بچا لیتا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چچا جان نے سارا واقعہ سر تا پا سنا دیا۔’’اُس معصوم کو کس بات کی سزادی گئی۔‘‘فہد کے والد کی آنکھیں مکمل بھیگ گئیں۔
’’صبر کریں بھائی جان!‘‘
’’مجھے اس کی موت پر افسوس نہیں بلکہ فخر ہے کہ میں یہ کہہ سکوں گا کہ اس پاک سرزمین کے لئے قربانی دینے والوں کو پانے والے دیوانواں میں ایک دیوانہ میرا بیٹا بھی تھا۔‘‘
’’مگر پھر بھی بھائی جان! بچے تو سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔معصوم اور بھولے بھالے۔‘‘چچاجان کے لیے بھی ناقابل برداشت حقیقت تھی۔
اچانک فہد کے والد کی نظریں اس بچے پر جم گئیں۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’یہ مجھے راستے میں آتے ہوئے بے ہوش ملا میں نے سوچا کہ شاید قافلے میں سے کسی کا ہو اور اس کو مل جائے مگر ابھی تک کوئی بھی اس کو اپنا وارث نہیں بتاتا تقریباًتین گھنٹوں سے بے ہوش ہے۔ پتہ نہیں کس کا بچہ ہے۔‘‘فہد کے چچاجان نے جواب دیا
’’خدا کرے جس کا بیٹا ہے اُسے مل جائے شاید کہ اس سے میرے بچے کی روح کو تسکین پہنچے۔‘‘ فہد کے والد نے بھی دعا کی
پانی کے چھینٹے مارے تو بچہ ہوش میں آنے لگا۔
پانی کے چھینٹے مارے تو بچہ ہوش میں آنے لگا۔
’’آہ۔۔۔۔پانی۔۔۔‘‘
فوراً پانی پلایا کچھ دیر بعد ہوش واحواس بحال ہوئے تو اردگرد دیکھا
’’میں کہاں ہوں؟ آپ کون ہیں؟مجھے پتا جی کے پاس جانا ہے۔‘‘بچے کے منہ سے نکلنے والے کلمات نے چچاجان اور فہد کے والد کو حیرت و غصہ کے ملے جلے جذبات سے بھر دیا۔
’’کیا تم ہندو ہو؟‘‘ چچاجان نے فوراً پوچھا
بچے نے دہشت ناک انداز میں اوپر نیچے سر کو جنش دی۔
’’میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر چچاجان نے جو بے حد جذباتی تھے،قریب پڑے لکڑی کے ایک بڑے سے ڈنڈے کو اُٹھالیا۔
بچہ ڈر کے مارے فہد کے والد سے چمٹ گیا۔
’’ہندوؤں نے ہمارے فہد کومارا میں ان کے بچے سے انتقام لوؤں گا۔‘‘چچاجان نے شدید غصہ کے عالم میں ڈنڈا ہوا میں لہراتے ہوئے کہا
’’یہ کیا کر رہے ہوتم؟‘‘فہد کے والد چیخے
’’میرے دل میں انتقام کا لاوا اُبل رہا ہے۔انھوں نے ہمارا بچہ قتل کیا میں اُن کے بچے کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘چچا جان ایک ہی بات پر آڑے ہوئے تھے۔
’’اگر ہم بھی انہی جیسی وحشیانہ حرکتیں کرنے لگے تو کیا فرق رہ جائے گا ہم میں اور اُن میں۔ اس بیچارے کا کیا قصور ہے۔ بچے تو سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں۔
فہد کے والد کی باتیں سن کر چچا جان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور انھوں نے ہاتھ میں پکڑا لکڑی کا ڈنڈا پھینک دیا۔
’’اُن ظالموں نے میری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔‘‘چچاجان کی آنکھیں پھر بھیک گئیں۔
’’مجھے گھر جانا ہے۔‘‘بچہ ضد کرنے لگا۔
’’تو فکر نہ کر بیٹا! میں تجھے تیرے گھر ضرور پہنچادوں گا۔‘‘
اگلے دن وہ قافلے والوں کے ساتھ بارڈر پر پہنچ گئے۔جہاں ہندوستان جانے والے ہندوؤں اور پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے کئی گروہ موجود تھے فہد کے والد نے سپاہیوں کی مدد سے اس بچے کو لے جا کر ہندوؤں کے ایک گروہ کی تحویل میں دے دیا۔ جو اُسی کے گاؤں جا رہے تھے۔ پھر اپنے بھائی اور دوسرے کئی مسلمانوں کے ساتھ وہ پاکستان پہنچ گئے۔زمین پر پہلے قدم اُتارے اورپھر گھٹنے ٹیک کر ماتھا زمین پر رکھ دیا اور پاک سرزمین کو بوسہ دیا۔زمین سے آزادی کی بھینی بھینی خوشبو سکون اور راحت کا ایک گہرا احساس لئے ہوئے تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top