skip to Main Content
امام مالک

امام مالک

امام مالکؒ کا پورا نام مالک بن انس اور کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ مدینہ منورہ میں 93 ہجری میں پیدا ہوئے اور 79 ہجری میں 80 سال کی عمر میں دنیا سے رُخصت ہوگئے۔ امام مالکؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے بعض استادوں سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں عبداللہ بن دینارؒ، امام ظہریؒ، امام زبیرؒ، یحییٰ انصاریؒ، ابو حازمؒ مشہور ہیں۔ آپؒ نے احادیثِ رسولﷺ کا علم جس محنت اور شوق سے حاصل کیا اُس کی بابت تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ امام مالکؒ نے 300 تابعینؒ اور 600 تبع تابعینؒ سے حدیث کا علم حاصل کیا۔
آپ کے شاگردوں کا شمار ناممکن ہے۔ خلقِ کثیر نے آپ سے فائدہ اُٹھایا۔ امام شافعیؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام عبداللہ بن مبارکؒ، امام سفیان بن عینیہؒ جیسے جلیل القدر امام آپ کے شاگرد ہیں، آپ کی کتاب موطا امام مالک کتب احادیث میں بلند مقام رکھتی ہے۔
امام مالکؒ کتاب و سنت پر عمل کرتے، آپ کا مسلک، آپ کا عمل وہی تھا جو رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کا تھا۔ تمام اماموں کی طرح اُن کا مسلک بھی یہی تھا کہ دین صرف اور صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ:
”میں بشر ہوں! مجھ سے غلطی اور درستگی دونوں کا احتمال ہے، میری ہر بات کی تحقیق کیا کرو، جو کتاب و سنت کے موافق ہو اس پر عمل کرلیا کرو، جو مخالف ہو اسے رد کردیا کرو“۔(الایقاظ)
حضرت امام مالکؒ جب رسول اللہﷺ کا ذکر کرتے یا ان کے پاس رسول اللہﷺ کا ذکر کیا جاتا، تو ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آپ سراپا تعظیم ہوجاتے۔ ایک دن آپ سے کسی نے پوچھا کہ حضورﷺ کا ذکر آنے پر یہ آپ کو کیا ہوجاتا ہے تو آپؒ نے فرمایا ”اگر حضور علیہ الصلوة والسلام کی وہ شان اور عظمت تم دیکھتے جو میں دیکھ رہا ہوں، تو تمہیں میری اس درجہ تعظیم و تکریم پر حیرانی نہ ہوتی“۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ:
میں ایک دن امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؒ اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ آپ کو بچھو نے کئی بار کاٹا۔ آپؒ کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا، لیکن آپؒ پورے صبر اور ضبط کے ساتھ حدیث بیان کرتے رہے۔ جب آپؒ درس ختم کرچکے اور لوگ چلے گئے تو میں نے پوچھا کہ آج درس دیتے وقت آپؒ پر کیا کیفیت طاری ہوئی؟
آپ ؒ نے بتایا: ”مجھے بچھو نے کئی بار کاٹا، لیکن میں حدیث کی عظمت و احترام کے باعث ضبط کئے ہوئے بیٹھا رہا“۔
امام مالکؒ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر سوار نہ ہوتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس زمین کو گھوڑے کے سموں سے پامال کروں، جس سے رسول اللہﷺ کے مبارک قدموں نے لمس کیا ہے۔
”ہر شخص کی بات قبول کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے۔ سوائے اس روضہ اقدسﷺ والے کی بات کے اور اشارہ قبر نبویﷺ کی طرف کیا کرتے تھے“۔(امام مالکؒ)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top