skip to Main Content
اللہ بچائے

اللہ بچائے

سیما صدیقی

………………..

ہمارا قصور بس اتنا ہی سا تھا کہ ہمارے دانتوں میں کچھ عرصے سے تکلیف تھی۔ پہلے تو ہم اسے ٹالتے رہے مگر پھر شامت جو آگئی تو ہم نے ’’اسپیشلسٹ ڈاکٹر‘‘ کے مطب کا رخ کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے گیدڑ کی شامت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ گیدڑ کو تو شاید شہر والے بخش بھی دیں مگر مریض کو اسپیشلسٹ نہیں بخشتا۔ پھر درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اس کا معمولی مرض خوفناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یعنی درد، درد لادوا، بن جاتا ہے۔ اسپیشلسٹ کے پاس پہنچ کر انکشاف ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام عجیب وغریب، مشکل ناموں والی خطرناک بیماریاں اس کو لاحق ہوچکی ہیں یا عنقریب ہونے والی ہیں۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹر چونکہ فیس اسپیشل قسم کی لیتا ہے اس لیے وہ کوئی ’’عامیانہ‘‘ سی بیماری تو تشخیص کرنے سے رہا، چنانچہ وہ ایسی بیماری ڈھونڈ نکالتا ہے جس کا نام سن کر آدمی سن رہ جائے اور کہیں جائے پناہ نہ پائے۔
یہ ڈینٹل کلینک جہاں جانے کا جرم ہم سے سرزد ہوا۔ ایک ہسپتال میں واقع تھا۔ سلائڈنگ ڈور کھول کر جب ہم ’’کلینک‘‘ میں داخل ہوئے توکیا دیکھا کہ ایک جہازی سائز میز کے عقب میں ایک مختصر مگر خوش رو خاتون بیٹھی ہیں۔ ’’مسکراہٹ سب کے لیے‘‘ شاید ان کا سلوگن تھا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی اسسٹنٹ تھیں اور جائے واردات پر بطور چشم دید گواہ موجود رہتی تھیں۔ ویٹنگ روم کے آگے، کمرے کے دوپارٹیشن کردیے گئے تھے، تاکہ بیک وقت دو مریضوں کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔ ڈاکٹر صاحب بھی نہایت خوش وضع، خوش گفتار اور خوش اخلاق قسم کے آدمی تھے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس خوش کن ماحول میں ہمارے ساتھ کوئی خوفناک کھیل کھیلا جائے گا۔ 
یہ بجاہے کہ ابتدائی چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے ایک نہایت خوفناک قسم کا انجکشن ٹھونک کر ہمارا دانت سن کردیا تھا مگر ہماری آنکھیں اور دماغ سن نہیں ہوئے تھے۔ ہم بدستور ہوشیار باش تھے اور بخوبی دیکھ اور سمجھ رہے تھے کہ چار پانچ مختلف رنگوں کے ہتھوں والی باریک سوئیاں یکے بعد دیگرے ہمارے دانت کے سوراخ میں ڈال کر ڈاکٹر ہمارے دانت کی جڑیں کھود رہے ہیں شاید اس گڑھے میں بھی کوئی پودا لگانے کا ارادہ تھا۔ اس تخریب کاری کے ساتھ وہ مصروف گفتگو بھی تھے یہ نفسیاتی حربہ تھا کہ مسلسل باتوں میں لگائے رکھنے سے مریض کو تکلیف کا احساس نہ ہوگا لیکن ظاہر ہے کہ کوئی آپ کی کھدائی کررہا ہو تو آپ کا ذہن کیسے بٹ سکتا ہے۔ ہاں! دانت ضرور بٹ سکتا ہے، ٹکروں کی صورت میں۔ 
وہ دوران گفتگو وقتاً فوقتاً ہمارے ضبط کا امتحان لینے کے لیے یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ ’’درد تو نہیں ہوا؟‘‘ ہم نفی میں سرہلاتے رہے گویا کہہ رہے ہوں کہ درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں۔ 
گو کہ حقیقت تو یہ تھی کہ ضبط کا پیمانہ لبریز تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ زور زور سے رونا شروع کردیں اور چیخ چیخ کر اس ولائت پلٹ ڈاکٹر کے باہر بیٹھے سارے مریضوں کو بھگادیں مگر ایک تو حد ادب ملحوظ رہی دوسرے یہ کہ ان ڈاکٹر صاحب نے اک دعویٰ یہ کیا تھا کہ جب وہ کسی مریض کا دانت نکالتے ہیں یا دانتوں کی بھرائی (فلنگ) کرتے ہیں تو اس خوبی سے کہ کسی کو کانوں کان اور مریض کو دانتوں دانت خبر نہیں ہوتی اور اس دعویٰ کو غلط ثابت کرکے ہم ان کی دشمنی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ اس وقت ہم مکمل طور پر ان کے ہتھیار نما اوزاروں کی زد میں تھے۔
پانچ منٹ بعد انہوں نے ہمارے مسوڑھے میں اندر کی جانب ایک بلیڈ نما چیز گھسیڑ دی۔ کہا کہ ہم انگلی سے اسے دبائے رکھیں۔ تکلیف کے مارے جان ہی نکل گئی۔ معلوم ہوا کہ یہ دانت کا ایکسرے لیا جارہا ہے۔ 
ڈاکٹر نے حسبِ عادت مسکرا کر پوچھا :’’ درد تو نہیں ہوا؟‘‘ دل تو چاہا کہ پوچھوں ڈاکٹر صاحب آکر کوئی آپ کے بتیس دانت نکال کر آپ کے ہاتھ پر رکھ دے اور پھر پوچھے ’’درد تو نہیں ہوا؟‘‘تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ عموماً ڈاکٹر بڑے سنجیدہ اور خشک طبع سے ہوتے ہیں مگر یہ ڈاکٹر صاحب بھی عجیب ہی تھے کہ بات بے بات مسکراے جارہے تھے۔ خواہ مریض کی جان پہ بنی ہو، یہی سبب سمجھ میں آیا کہ چونکہ دانتوں کے ڈاکٹر ہیں لہٰذا مسکرا مسکرا کر دکھارہے ہیں کہ دیکھو میرے دانت کتنے آب دار، خوبصورت اور صحت مند ہیں۔
اگلے وزٹ پر انہوں نے نئے سرے سے ہمارا منھ کھلوانے کی کوشش کی۔ منھ کھولیں….. اور کھولیں….. بڑا سا ہاں….. شاباش! معلوم نہیں ڈاکٹر ہمارا منھ آخری حد تک کیوں کھلوانا چاہ رہے تھے۔ شاید اندر جاکر معائنہ کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال ہمارا منھ اتنا ضرور کھل گیا کہ انہوں نے دست پناہ جیسا کوئی اوزار گھسا دیا اور دانت کو زور زور سے ٹھونک بجاکر دیکھنے لگے۔ ساتھ ہی سوال کیا ’’یہ دانت ہل تو نہیں رہا…… ؟‘‘
’’جی نہیں…..! جب گھر سے چلے تھے اس وقت تو نہیں ہل رہا تھا….. اب کچھ کہہ نہیں سکتے ….. ‘‘ ’’ہونہہ!‘‘ ڈاکٹر نے ہنکارا بھرا پھر دانت پر ایک ضرب لگا کر بولے:’’درد تو نہیں ہوا؟‘‘ یہ ان کا تکیہ کلام تھا لہٰذا ہم نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔
تیسری نشست میں انہوں نے اسکرو ڈرائیور اور شاور نما اشیا کی مدد سے تمام دانتوں کی دھلائی کی۔ کلیوں کی صورت میں ہمارا خون ناحق بہتا رہا۔ پھر متاثرہ دانت کی مزید کھدائی اور رگڑائی شروع کی تو دل میں خیال آیا کہ اب گھر کی طرف دوڑ لگادیں اور پلٹ کر نہ دیکھیں مگر انہوں نے ایسا گڑھا کھود ڈالا تھا جیسے میونسپلٹی کے آدمی سڑک کھود کے ڈال جاتے ہیں چنانچہ اب گڑھے کو تو بھروانا ہی ٹھہرا۔ یہ ڈاکٹر کی مہارت تھی کہ اس نے محض ایک چھید (ہول) کو کھود کر گڑھے میں تبدیل کردیا تھا۔ اس نے گڑھے میں مختلف انواع کے اسپرے کیے اور فرمایا: ’’اب اس کے نزدیک زبان نہ لائیے گا۔‘‘ 
’’تو پھر زبان کو کہاں رکھیں؟‘‘ ہم نے قدرے جھنجھلا کر استفسار کیا۔ 
’’میرا مطلب ہے زبان کو منھ میں ہی رکھیں مگر زبان سے اس دانت کو نہ چھوئیں۔ ‘‘ڈاکٹر نے گڑ بڑا کر وضاحت کی۔ اب ہمیں اپنے دانت میں ایسا ہی خلا محسوس ہورہا تھا جیسا خلا مشہور لوگوں کے دنیا سے جانے کے بعد سوسائٹی میں پیدا ہوجاتا ہے جو بقول لوگوں کے کبھی نہیں بھرتا۔
چلتے وقت ڈاکٹر نے روئی کو بالکل کافور جیسی دوا میں بھگو کر ہمارے گڑھے میں گھسادیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ سرجن تھے اور دانت نکالنے کا گر ولائت سے سیکھ کر آئے تھے چنانچہ وہ دانت ٹھیک کرنے سے زیادہ دانت نکال پھینکنے میں انٹرسٹڈ نظر آتے تھے، یعنی دندان ساز سے زیادہ دندان شکن واقع ہوئے تھے۔ دانت نکالنے کا انہیں بچپن سے ہی شوق معلوم ہوتا تھا۔ ابتدا میں مکا مارکر دانت پیٹ میں اتاردیتے ہوں گے اب اسی کام کو سائنٹیفک انداز میں کررہے تھے۔ دانت کے سبھی معالج ادویہ کے بجاے اوزاروں کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیں۔
دانتوں کا ڈاکٹر شاید وہ واحد ڈاکٹر ہے جس کے ہاتھوں کوئی مریض فوت نہیں ہوتا۔ ہاں ! قلاش ضرور ہوسکتا ہے۔ اب ان ہی ڈاکٹر صاحب کو لیجیے۔ دو سو روپے صرف ایک دانت کے ایکسرے کے رکھوالیتے ہیں۔ محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کون کون سے دانت ہیں جنھیں وہ آسانی سے اکھیڑ سکتے ہیں حالانکہ یہ معلومات صرف ان ہی کے کام آتی تھیں مگر ایکسرے کے پیسے وہ مریض کی جیب سے ہی نکلواتے ہیں۔ فیس کے اعتبار سے بھی دانت نکالنا ان کے لیے زیادہ پرکشش کام تھا۔ کام اس قدر آہستہ روی سے کرتے کہ پہلی نشست میں صرف اپنے دانتوں کی نمائش کرتے۔ دوسری میں مریض کے دانت دیکھتے اور تیسری نشست میں مختلف اوزار لے کر وہ دانتوں پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ (اور دانت ٹوٹ کر ان پر گرتے ہیں)
چلتے وقت ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ایک ماؤتھ واش بھی لکھ کر دیا۔ فرمایا کہ ’’دن میں دس پندرہ مرتبہ اس سے کلیاں کریں…..‘‘ ہر چند کہ ہمیں دن بھر میں کلیاں کرنے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہوتے ہیں مگر ڈاکٹر کا دل رکھنے کے لیے ہم نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا، اگر ہم ان کا دل نہ رکھتے تو شاید وہ ہمارے دانت ہی رکھ لیتے۔
ہم نے پوچھا :’’ڈاکٹر صاحب اور کتنی مرتبہ آنا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بولے:’’ بس چند نشستیں اور چلیں گی۔‘‘ ہم بہت جزبز ہوئے کہ آخر وہ دندان ساز بھی تو ہوتے ہیں جو صدر کے فٹ پاتھ پر ایک ہی نشست میں مریض کاکام تمام کردیتے ہیں اور کچھ تو زنبور لے کر بس میں چڑھ جاتے ہیں اور ان کو نشست کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کھڑے کھڑے پندرہ روپے میں دانت نکال کر ہاتھ پہ رکھ دیتے ہیں۔
خیرجناب بس میں گھومنے والے دندان ساز ہوں یا ایئرکنڈیشنڈ کلینک میں بیٹھنے والے۔۔۔ دونوں میں ایک بات ضرور مشترک ہے کہ یہ اپنی طرز کے واحد اسپیشلسٹ ہوتے ہیں جو کسی عضو کو ٹھیک کرنے کے بجاے اسے نکال پھینکنے میں دلچسپی اور مہارت رکھتے ہیں۔ شکر ہے کہ ای این ٹی اسپیشلسٹوں میں یہ خطرناک رحجان نہیں پایا جاتا ورنہ لوگ بینائی کا علاج کرانے جاتے اور آنکھ نکلوا کر آجاتے۔ ناک کا مسئلہ ہوتا تو ناک کٹوانی پڑتی شاید سری لنکا میںیہی رواج ہو جبھی وہاں کے باشندوں کی ڈھیروں آنکھیں اِدھر اُدھر گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔
ہمارے گھر کے سامنے جو آنٹی رہتی ہیں انہوں نے جو ہمیں دندان ساز کے در کے چکر کاٹتے دیکھا تو وہ بھی ہمارے ساتھ ہولیں۔ کہنے لگیں :’’بیٹا دانت میں تکلیف ہے، ٹھنڈا گرم بھی لگتا ہے۔‘‘ ہم نے دل میں کہا :’’علاج کے بعد آپ کو ٹھنڈا گرم کچھ نہیں لگے گا کیونکہ دانت ہی نہیں ہوں گے۔‘‘
آنٹی کے دانتوں کا ابتدائی معائنہ کرتے ہی ڈاکٹر نے مایوسی سے سرہلاتے ہوئے کہا:’’آپ نے آنے میں بہت دیر کردی!‘‘
عام طور پر فلموں میں یہ ڈائیلاگ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی فوت ہوجائے۔ ’’افسوس! لوگ اپنے دانتوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ، مٹھائی، کیک، چاکلیٹ پان سگریٹ کھاپی کے سوجاتے ہیں۔ دانت برش کرتے بھی ہیں توطریقہ صحیح نہیں ہوتا۔ درد ہوتو فوری علاج نہیں کراتے۔ جب دانت بالکل تباہ ہوجاتے ہیں، تو پھر ڈینٹسٹ کا رخ کرتے ہیں۔ نتیجتاً دانت نکال دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا….. حالانکہ ہر نارمل آدمی کو بھی سال میں دو مرتبہ ڈینٹسٹ سے دانتوں کی صفائی کرانی چاہیے۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے سانس لینے کے لیے قدرے توقف فرمایا پھر بولے:’’آپ کی ایک داڑھ بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اس میں انفیکشن بھی ہے۔ باقی دانتوں میں بھی کیڑا لگ گیا ہے۔‘‘آنٹی نے گھبرا کر ہماری طرف دیکھا تو ہم نے ان کے ہاتھ پر تھپکی دی، گویا کہہ رہے ہوں:’’آنٹی آپ فکر نہ کریں، ان کی یہی بری عادت ہے ہر ایک کے دانتوں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔‘‘
’’اس دانت کو نکالنا پڑے گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے دانت کھٹکھٹاتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ آنٹی سوچ میں گم ہوگئیں کہ کیا فیصلہ کریں۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب مصروف رہے ، دس منٹ بعد بولے :’’اب درد نہیں ہوگا۔‘‘ آنٹی نے حیران ہوکر پوچھا :’’کیوں؟‘‘
’’ اس لیے ….. ‘‘ڈاکٹر صاحب نے ٹرے میں پڑا ہوا آنٹی کا دانت فخر سے دکھایا گویا کہہ رہے ہوں کہ دیکھا مریض کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ، پھر حسبِ عادت پوچھا:’’درد تو نہیں ہوا؟‘‘ آنٹی نے ٹرے میں پڑے دانت کو دیکھا اور غمناک لہجے میں بولیں :’’نہیں….. دکھ ہوا۔‘‘
’’ارے! ایسی کیا بات ہے، آپ کہیں تو ہم آپ کے دوسرے دانت لگادیں گے۔ بلکہ ہم تو پورا جبڑا بھی تبدیل کردیتے ہیں….. نیا جبڑا لگادیتے ہیں۔‘‘
’’مم….. مگر نیا جبڑا آپ لاتے کہاں سے ہیں؟‘‘ ہم نے لاشعوری طور پر اپنے جبڑے پر ہاتھ پھیرا۔
’’اوہو! بھئی ہم نقلی جبڑا تیار کروالیتے ہیں۔ دانتوں کے کیپ (خول) بھی بنوالیتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو ڈر تھا کہ ڈاکٹر صاحب دانتوں کی کلیرنس سیل کا اعلان نہ کردیں کہ چھ دانت تڑوانے پر ایک درجن دانتوں کا سیٹ مفت حاصل کریں۔
جب ہم آنٹی کے ہمراہ باہر نکلے تو وہاں ایک محترمہ تھیں۔ انہوں نے کچھ بات کی توہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ان کے منھ میں ایک دانت نہ تھا۔ ہم حیران تھے کہ اس کم عمری میں ان کے دانت کہاں گئے؟ ہم نے تعزیتی انداز میں پوچھا:’’آپ کے دانت کہاں ہیں؟‘‘ انہوں نے پرس تھپتھپا کر کہا:’’اس میں….. ‘‘ ہمیں ان کے حال میں اپنا مستقبل واضح طور پر نظر آنے لگا۔
آخری نشست میں ڈاکٹرصاحب نے ہمارے دانت کی فلنگ شروع کی مگر اس سے قبل سوئی کو نہایت گہرائی میں لے جاکر کھرپائی کی۔ اس قدر تکلیف ہوئی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھ سے آنسو رواں ہوگئے۔ شکر ہے اس موقع پر ڈاکٹر نے ’’درد تو نہیں ہوا؟‘‘ کا درد ناک تکیہ کلام استعمال نہیں کیا۔ جب کام ختم ہوا تو ڈاکٹر نے اپنے مخصوص لیکچر کی تمہید باندھتے ہوئے کہا:’’اس ساری تکلیف سے آپ کو کیا سبق ملا؟‘‘
’’یہی کہ آئندہ کبھی ڈینٹل سرجن کا رخ نہ کریں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بشاشت سے مسکراے گویا ہم نے ان سے مذاق فرمایا ہو۔ ڈاکٹر نے اپنی میز کی طرف آتے ہوئے کہا:’’آپ کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتی ہیں۔‘‘
ہم نے ٹوتھ پیسٹ کا نام لیا تو فرمایا:’’آج ہی اسے گٹر میں پھینک دیں…..‘‘
’’اور صبح نکال لیں!‘‘ ہم نے ذہانت کا مظاہرہ کیا۔
’’جی نہیں! صبح یہ ٹوتھ پیسٹ خرید کر استعمال کرنا شروع کردیں۔‘‘
انہوں نے نسخہ ہماری جانب بڑھاتے ہوئے کہا :’’باقاعدگی سے چیک اپ کراتی رہیں۔ ماؤتھ واش کا استعمال جاری رکھیں۔ کیونکہ اگر پھر انفیکشن ہوگیا تو یہ دانت نکالنا پڑے گا…..‘‘
یہ سنتے ہی ہم بھڑک کر باہر کی طرف بھاگے اور ڈاکٹر کی الوداعی مسکراہٹ بھی نہ دیکھ پائے۔ انتقال کے بعد جب ان ڈاکٹر صاحب کی تدفین ہوگی تو دوسرے ہی روز آس پاس کے مردے قبر پھاڑ کر نکل بھاگیں گے کہ برابر والا مردہ ہمارا دانت نکال رہا ہے۔ اللہ ہر زندہ اور مردہ کو ڈینٹل سرجن سے بچاے اور بہتر ہے کہ مریض ڈاکٹر کو پیارا ہونے کے بجاے اللہ کو پیارا ہوجائے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top