skip to Main Content
آواز کی موت

آواز کی موت

نذیرانبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے خیال میں کوئی ا یجاد اچھی یا بری نہیں ہوتی۔انسان شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاسر کی انگلیاں کمپیوٹر کی بورڈ پر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں ۔کمپیوٹر سکرین پر یہ عبارت نمودار ہو چکی تھی۔
تاریخ 31…….مارچ1973ء
مقام …….اسلامیہ ہائی سکول
مطلوبہ شخص کی آواز …….سکول کے ہیڈ ماسٹر کی تقریر
چند ساعتوں بعد کمپوٹر کے ساتھ رکھے ایک چھوٹے سے سپیکر سے آواز آئی۔
’’میرے پیارے بچو!
آج سالانہ نتیجہ کے دن میں خوش بھی ہوں اور اداس بھی‘میں خوش اس لیے ہوں کہ جن طلبہ نے محنت کی تھی وہ تو اگلی جماعتوں میں چلے گئے ہیں اور جو طلبہ پڑھائی کے بجائے کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرتے رہے وہ اگلی جماعتوں میں نہیں جا سکے۔ان کے فیل ہونے کی وجہ سے میں اداس ہوں۔میں فیل ہونے والے طالب علموں سے کہنا چا ہتا ہوں کہ وہ آئندہ سال پڑھائی پر توجہ دیں تا کہ وہ کامیاب ہو سکیں ۔میں اب اس طالب علم کے نام کا اعلان کرنے والا ہوں جس نے سارا سال نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔میں آپ کی تالیوں کی گونج میں انعام کے لیے اسٹیج پر بلا رہا ہوں یاسر احمد کو۔ یاسر احمد سال کے بہتریں طالب علم قرار پائے ہیں۔یاسر آؤ اور اپنا انعام وصول کرو۔‘‘
یاسر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے تین چار بار ہیڈ ماسٹر کی تقریر سنی۔اس سے اپنی خوشی چھپائی نہیں جا رہی تھی۔وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔وہ بے اختیار چلّایا۔
’’میں کامیاب ہو گیا۔میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
آٹھویں منزل پر واقع اس کے فلیٹ سے یہ آواز دور تک سنائی دی۔
’’تمہیں کونسی کامیابی ملی ہے؟‘‘یاسر کا ہمسایہ قیوم دروازے میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
’’میں نے برسوں پہلے جو خواب دیکھا تھا آج اس کی تعبیر مل گئی ہے۔میں اپنے تجربے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔بیس برس قبل جو تقریب میرے سکول میں ہوئی تھی اس میں ہیڈ ماسٹر کی تقریر سنو۔یہ کہہ کر یاسر کی انگلیاں کی بورڈ پر حرکت کرنے لگیں۔قیوم بھی کرسی پر بیٹھ کر حیرت سے کمپیوٹر سکرین کی طرف دیکھ رہا تھا۔جب ہیڈ ماسٹر کی تقریر ختم ہوئی تو قیوم نے یاسر کو گلے لگا کر اسے مبارک باد دی۔شام تک یہ خبر پورے پلازہ میں پھیل چکی تھی کہ یاسر نے ماضی کی آوازوں کو سننے کے لیے کمپیوٹر کی مدد سے کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس کے فلیٹ کے باہر بہت سے لوگ جمع تھے ۔ان لوگوں کی باتیں ان اس کی سنائی دے رہی تھیں۔
’’ایسا ممکن نہیں ہے۔‘‘اقبال نے کہا۔
’’میں نے خود اپنے کانوں سے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آواز سنی ہے۔‘‘قیوم نے جواب دیا۔’’ہو سکتا ہے یاسر نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آواز ریکارڈ کی ہو اور اب لوگوں کو وہی تقریر سنا کر بیوقوف بنا رہا ہو۔‘‘یہ آواز ریاض کی تھی۔
’’جب تم خود ماضی کی آوازیں سنو گے تو تمہیں یقین آجائے گا۔آؤ خود سنو۔‘‘یاسر نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔فلیٹ میں پانچ چھ آدمیوں سے زیادہ بیٹھنے کی گنجائش نہ تھی۔
’’بولو ماضی کی کونسی آواز سننا چاہتے ہو؟تاریخ‘مہینہ ‘سال‘مقام اور جس شخص کی آواز سننا چاہتے ہواس کا نام بتا دو۔ابھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘یاسر کی بات ختم ہوئی تو اقبال نے کاغذ پر کچھ لکھا۔یاسر نے اقبال کے لکھے ہوئے کو کی بورڈ کی مدد سے سکرین پر منتقل کر دیا۔
تاریخ30……. جون1990ء
مقام…….شاداب نگر 
مطلوبہ شخص کی آواز …….سراج دین
’’بیٹا اقبال!میں شہر تمہیں اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرو۔میرے پاس جو جمع پونجی ہے وہ تمہاری تعلیم پر خرچ ہو جائے گی۔تم نے شہر جا کر وقت ضائع نہیں کرنا میں امید کرتا ہوں کہ تم دل لگا کر تعلیم حاصل کرو گے۔‘‘
اپنے والد کی آواز سن کر حیرت سے اقبال کی آ نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ایک ناممکن بات اس کے سامنے ممکن ہو گئی تھی۔پلازہ کے مکین کاغذ پرلکھتے رہے اور یاسر رات گئے تک اس کو ماضی کی آوازیں سناتا رہا۔یاسر ایک کمپیوٹر کالج میں استاد تھاملازمت کے سلسلے میں وہ اپنے آبائی شہر سے دور تھا ۔کمپیوٹر کی تعلیم دینا اور کمپیوٹر سے متعلق تازہ ترین معلومات جمع کرنااس کااولین کام تھا۔پلازہ میں شاید اس کا فلیٹ واحد فلیٹ تھاجس میں وہ اکیلا رہتا تھا ۔جب اس کے دوست اسے کہتے کہ تم اکیلے رہتے اکتا تے نہیں ہو تو وہ جواب دیتا’’ میں اکیلا کب ہوں میرے ساتھ میرا کمپیوٹر دوست ہے اس کے ہوتے ہوئے مجھے تنہا ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔اس نے کئی سال پہلے اس بات پر غور شروع کیا تھا کہ دنیا میں ایسی بہت سی آوازیں ہیں جن کو ریکارڈ نہیں کیا جا سکا۔کیا وہ آوازیں انسان دوبارہ سن سکیں گے۔اگر ایسا ہو جائے تو کتنی حیران کن بات ہو گی ۔اس نے سب سے پہلے یہ خیال اپنے دوست توفیق کو بتایا تو اس نے کہا تھا۔
’’ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’میں ایسا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’ناممکن۔‘‘
’’ناممکن کو محنت سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‘‘یاسر کے لہجے میں عزم کی پختگی تھی۔وہ کافی عرصہ تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے کام کرتا رہا۔جو بھی اس کے تجربے کے متعلق سنتا اس کو پاگل کہتا۔وہ سب کی باتیں سنتا رہااور اپنے کام میں مصروف رہا۔انسان کی لگن سچی ہو تو کامیابی ضرور اس کے قدم چومتی ہے ۔اس کو پاگل کہنے والے اس کی کامیابی پر حیران تھے۔ملکی اور غیر ملکی کمپیوٹر بنانے والے ادارے اس کی ایجاد کو خریدنے کے لیے اس کے آگے پیچھے تھے ۔وہ دنوں میں ہی گمنامی کے اندھیرے سے نکل کر شہرت کے اجالے میں آگیا تھا۔اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلز کے رپورٹر اس کا انٹر ویو کرنے کے لیے بے چین تھے ۔ایک ٹی وی چینل نے بھاری معاوضہ دے کر اس کے ساتھ ایک ماہ کے لیے معاہدہ کیا کہ وہ ہر روز ایک گھنٹہ براہ راست اس کا پروگرام نشر کرے گا۔اس پرو گرام کی خوب تشہیر کی گئی۔اس پروگرام نے کمرشل اشتہارات کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔ناظرین ٹیلیفون کے ذریعے تاریخ‘مہینہ‘سال‘ مقام اورمطلوبہ شخص کا نام بتاتے تو یاسر ان کو اپنی ایجاد کے ذریعے آواز سنا دیتا۔ایک رات یہ پرو گرام جاری تھا کہ ایک بڑھیا نے فون کیا۔
’’آپ کا نام ‘‘۔کمپیئر نے پوچھا۔ 
’’نوراں بی بی۔‘‘
’’آپ کہاں سے فون کر رہی ہیں؟‘‘
’’لاہور سے۔‘‘
’’آپ کونسی آواز سننا چاہتی ہیں؟‘‘
’’میں کچھ آوازیں اپنی قوم کو سنا نا چاہتی ہوں ۔‘‘بڑھیا کے بتانے پر کمپیوٹر سکرین پر یہ عبارت موجود تھی۔
تاریخ14…….اگست1947ء
مقام …….امرتسر
مطلوب افراد کی آوازیں …….ادریس ‘نوراں بی بی تارا سنگھ‘ دلیر سنگھ
’’آہا۔آہا۔آہا دلیر سنگھ ساڈے شکار موجود نیں‘‘(دلیر سنگھ ہمارے شکار موجود ہیں۔)
’’تے فیر آشکار کرئیے۔‘‘(آؤ پھر شکار کریں ) دلیر سنگھ بولا۔
’’تسی سانوں شکار کہ رہے او۔اسی تے تہاڈے ہمسائے آں (تم ہمیں شکار کہہ رہے ہو ہم تو تمہارے ہمسائے ہیں)
نوراں بی بی بولی۔
’’ہمسائے نئیں تسی ساڈے دشمن اودشمن ‘‘ (تم ہمارے ہمسائے نہیں ہمارے دشمن ہو) یہ کہہ کر تارا سنگھ نے اپنی کرپان ادریس کے پیٹ میں گھونپ دی۔
’’ماں ۔ماں۔ماں ماں کا لفظ کہتے ہوئے ادریس نے نوراں بی بی کے سامنے شہادت کا درجہ پا لیا۔دلیر سنگھ نوراں بی بی کی طرف بڑھا اور اس پر کرپان سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا ۔نوراں بی بی ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کا شور مچاتے ہوئے بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئیں ۔یہ
آوازیں سن کر سننے والوں کے آنسو نکل آئے ۔ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے دلخراش مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے تھے۔
تاریخ. …… 11ستمبر1948ء
مقام…….کراچی
مطلوبہ اشخاص کی آوازیں …….دادا جان‘رحمت۔
’’داداجان،وہ قائد اعظمؒ ۔‘‘
’’کیا ہواہے قائد اعظم ؒ کو؟‘‘دادا جان نے رحمت کی بات بھی پوری نہ ہونے دی۔
’’قائداعظمؒ اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
’’ابھی ابھی ریڈیو پر ان کے انتقال کی خبر نشر ہوئی ہے۔‘‘
’اِناللہ و انا لیہ راجعون‘آج قوم ایک عظیم لیڈر سے محروم ہو گئی ہے۔ہمیں اب پتہ نہیں ان جیسا لیڈر ملتا بھی ہے کہ نہیں ۔‘‘یہ کہتے ہوئے دادا جان کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔اسی رات ایک شخص نے فون کیا کہ اس کا دوست وعدہ کرنے کے باوجود اس سے لیے پیسے واپس نہیں کر رہا۔اس نے بتایا کہ اس کا دوست اس بات سے انکار کر رہا ہے کہ پچھلے ماہ کی پندرہ تاریخ کو اس کے پیسے واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ہم اس وقت کچھ دوستوں کے ساتھ اس دوست کو لیے جھوٹ اور سچ کا پتا چلانے کے لیے بیٹھے ہیں ۔آپ ہماری مدد کریں اس فون کے ساتھ ہی کمپیوٹر سکرین پر یہ لکھا نظر آرہا تھا۔
تاریخ10…….نومبر2003ء 
مقام…….مطلوبہ اشخاص …….شہزاد‘بلال
’’شہزاد میں بہت مجبور ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں ۔‘‘بلال کی آواز آئی۔
’’میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
’’مجھے پانچ ہزار روپے چاہئیں۔‘‘ 
’’ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’کتنے روپے دے سکتے ہو؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’تین ہزار روپے دے سکتا ہوں۔‘‘
’’چلو تین ہزارروپے ہی دے دو۔‘‘
’’روپے کب واپس کرو گے؟‘‘
’’آج 10نومبر ہے میں پندرہ دسمبر تک روپے واپس کر دوں گا۔‘‘
’’یہ جملہ سنتے ہی شہزاد نے ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے دوستوں کو مخاطب کیا۔
’’سن لیا آپ سب نے جھوٹا کون اور سچا کون ہے۔‘‘
بلال خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس پروگرام میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی چلی جا رہی تھی۔لوگ دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کی باتیں سنتے ۔پروگرام میں ہر طبقے کے لوگ فون کر کے اپنی مطلوبہ اآواز سنتے تھے۔پولیس سے رشوت کے الزام میں محمد حسین کو پکڑا تو اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس پروگرام کا سہارا لیا۔پولیس کی موجودگی میں کمپیوٹر سکرین پر یہ عبارت نظر آرہی تھی۔
تاریخ……. 3جنوری2003
مقام——-اے جی آفس لاہور 
مطلوبہ شخص کی آوازیں ——-محمد حسین‘رفیق۔
’’میں نے سکول کی عمارت کا معائنہ کر لیا ہے اس کی تعمیر میں انتہائی گھٹیا میٹریل استعمال کیا گیاہے۔‘‘
’’سرکار سرکاری کاموں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے‘‘رفیق نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
’’ہوتا ہوگاسرکاری کاموں میں ایسا لیکن میرے ہوتے ہوئے نہیں ہو گا۔‘‘محمد حسین کی بات سن کر رفیق نے کہا:
’’سرکار غصہ نہ کریں آپس میں مل جل کر کام کرتے ہیں۔آپ ہمارے کام آئیں اور ہم آپ کے کام آئیں گے۔‘‘
’’میں تمہارا مطلب سمجھ رہا ہوں۔تم نے میرے بارے میں غلط اندازہ لگایا ہے۔‘‘
’’سرکار ایسی بات تو نہ کریں آئیے کچھ د ے دلا کر معاملہ طے کر لیں۔‘‘
’’تم چند روپوں کے عوض مجھے نہیں خرید سکتے۔فائل اٹھاؤ اور چلے جاؤ میں تمہارا بل پاس نہیں کروں گا۔‘‘محمد حسین نے کہا۔
’’سوچ لو سرکار کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔‘‘
’تم جاتے ہو یابلاؤں چوکیدار کو۔‘‘
’’جاتا ہوں سرکار‘‘ایک بات کہتا ہوں آپ اچھا نہیں کر رہے۔‘‘رفیق بولا
اس گفتگو سے ساری صورت حال واضح ہو گئی تھی۔یاسر محمد حسین کے رہا ہونے پر بہت خوش تھا۔اسے اس دن بھی خود پر رشک آرہا تھاجب ایک ٹریفک کانسٹیبل نے انصاف کے حصول کے لیے اس کے پروگرام میں فون کیا تھا۔کانسٹیبل کے بتانے پر کمپیوٹر سکرین پر یہ پڑھا جا رہا تھا۔
تاریخّ —–10اکتوبر2003ء
مقام —–مال روڈ
مطلوبہ اشخاص کی آوازیں ۔کانسٹیبل‘ڈرائیور‘خاتون گاڑی کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے آپ کا چالان ہو گا۔‘‘کانسٹیبل کی بات سن کر ڈرائیور نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تم ہوش میں تو ہو ‘آنکھیں کھولو اور دیکھو یہ گاڑی کس وزیر کی ہے۔‘‘ 
’’میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ملک میں سیاہ شیشوں کے استعمال پر پابندی ہے لہٰذا گاڑی کے کاغذات مجھے دیں‘میں چالان کروں گا۔‘‘
’’کیوں اپنی روزی پر لات مانے کا ارادہ پے۔ہٹو راستے سے۔‘‘
’’ڈرائیور کیا معاملہ ہے؟‘‘گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون نے پوچھا۔
’’میڈم یہ معمولی کانسٹیبل گاڑی کا چالان کر رہا ہے۔‘‘
’’یہ ایسا نہیں کر سکتا تم گاڑی چلاؤ۔‘‘خاتون کی بات سن کر کانسٹیبل نے کہا۔
’’میں چالان کے بغیر گاڑی کو یہاں سے نہیں جانے دوں گا۔‘‘
’’بکواس بند کرو‘کیا اوقات ہے تمھاری‘تمہیں ابھی کھڑے کھڑے ملازمت سے فارغ کروا سکتی ہوں۔‘‘
’’بیگم صاحبہ! آپ جو مرضی کریں مگر آپ کی گاڑی کا چالان ضرور ہو گا۔یہ میرا فرض ہے اور مجھے اسی فرض کی ادائیگی کے لیے تنخواہ ملتی ہے۔‘‘
یہ بحث وتکرار کافی دیر تک چلتی رہی۔خاتون نے فون کر کے اپنے شوہر کو بلا لیا۔اس نے اپنے شوہر کو بتایا کہ کانسٹیبل نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے۔اپنی بیگم کی بات سچ مان کر وزیر نے اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر کانسٹیبل کو ملازمت سے فارغ کر وادیا۔اب ماضی کی آوازوں کو سن کر بیگم کے جھوٹ کا پول کھل گیا تھا۔یاسر کی اس انوکھی ایجاد نے اس طرح کی کئی اور افراد کو انصاف دلایا۔انصاف پانے والے یاسر کو دعائیں دیتے تو اس کا خون سیروں بڑھ جاتا۔یاسر نے اپنی ایجاد کی پذیرائی دیکھتے ہوئے اس کے حقوق کسی ادارے کو فروخت کرنے کے بجائے حکومت سے قرض لے کر ایک فیکٹری لگا لی۔اس نئی ایجادکا نام’’آواز‘‘ رکھا گیا۔آواز کے مارکیٹ میں آنے کی دیر تھی کہ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔چند دنوں میں ہی لاکھوں کی تعداد میں اس کی فروخت ہوئی’’آواز ‘‘ مل جانے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کو کوئی اور کام ہی نہیں رہ گیا۔گھروں کے ساتھ ساتھ بازاروں میں جگہ جگہ ’’آواز سینٹر‘‘بن گئے جہاں چند روپوں سے لوگ ماضی کی آوازیں باآسانی سن سکتے تھے۔
ایک صبح پلازہ میں دو شخص آپس میں دست و گریباں تھے۔یاسر نے مداخلت کی تو کالی رنگت والا شخص بولا۔
’’ہم تمہاری وجہ سے لڑ رہے ہیں۔‘‘
’’میری وجہ سے؟‘‘یاسر نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ ہاں تمھاری وجہ سے ،نہ تم ’’آواز‘‘ بناتے اور نہ میں اپنے خلاف ہونے والی باتیں سنتا۔میں کل رات پلازہ کے قریبی ہوٹل میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھاکہ میں نے دیکھا کہ میرا ہمسایہ کچھ فاصلے پر میری طرف دیکھ دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو کچھ بتا رہا تھا۔میں نے گھر آ کر ’’آواز‘‘ پر ان کی ساری باتیں سن لیں۔اس نے میرے بارے میں کہا کہ میں رشوت خور ہوں۔حرام کھاتا ہوں۔میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘۔یہ کہہ کر کالی رنگت والے شخص نے موٹے شخص کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔ان کو چھڑانے میں ایک دو ہاتھ یاسر کو بھی لگ گئے۔اب اس طرح کے مار پیٹ کے واقعات روز کا معمول بن گئے تھے۔’’آواز‘‘نے لوگوں کے دلوں میں محبت کی جگہ نفرت بھر دی تھی۔یاسر کو روزانہ کئی ٹیلی فون موصول ہوتے جس میں ’’آواز کی ایجاد پراس کو خوب کوسا جاتا۔’’ آواز‘‘ کے باعث بہت سے چہرے بے نقاب ہو گئے تھے۔یاسر کے دل میں بھی اس وقت نفرت نے جگہ بنائی تھی جب اس نے ’’آواز‘‘ کے ذریعے اپنے جاننے والوں کے اپنے بارے میں خیالات جانے تھے۔وہی لوگ جو اسکی موجودگی میں اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔اس کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کر رہے تھے کہ خود یاسر کو یقین نہیں آرہا تھا۔’’آواز‘‘ نے لوگوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی تھی۔ ’’آواز‘‘کا غلط استعمال اس قدر بڑھ گیا کہ لوگ اس پر پابندی لگانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔بازاروں میں دکاندار اپنے مال کی تعریف اور پہلے دکاندار کی چور بازاری کا ذکر کرتا تو’’آواز‘‘سے اس کی باتوں کا پہلے دکاندار کو علم ہو جاتابس پھر کیابازار میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ ’’آواز‘‘کے ذریعے پھیلنے والی نفرت کی آگ نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔’آواز ‘‘کی وجہ سے عالمی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگاتھا۔اس صورت حال میں یاسر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔عوامی نفرت کے باعث یاسر کو اپنی جان کاخطرہ تھا۔’’آوازکے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام ممالک کے سر براہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور آواز‘‘ کے مثبت پہلو ؤں پر غور کیا گیا۔یاسر کو بھی اظہارِخیال کا موقع دیا گیا۔اس نے سب کو مخاطب کرے ہوئے کہا۔
’میں نے جب ’’آواز‘‘ بنانے پر کام شروع کیا تھا۔تو میں نے اس کے منفی استعمال کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔میرے خیال میں کوئی ایجاد اچھی یا بری نہیں ہوتی۔انسان شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔حالانکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ’’اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کرو گے تو تم ان کو بگاڑ دو گے۔‘‘بد قسمتی سے ’’آواز‘‘کو بھی لوگوں کے عیوب تلاش کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ سلسلہ دراز ہو ’’آواز‘‘پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی جائے تا کہ آپس کی محبت نفرت کا روپ نہ دھاڑے۔‘‘
سب نے ’’آواز‘‘ کے خاتمے کی پر زور حمایت کی۔اس فیصلے کے بعد دنیا سے ’’آواز‘‘بنانے والی تمام فیکٹریاں ختم کر دی گئیں ۔یوں ماضی کی آوازوں کو زندہ کرنے والی ’’آواز‘‘ہمیشہ کے لیے موت کے منہ میں چلی گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top