skip to Main Content
آفت کے پر کالے(جن سیریز)

آفت کے پر کالے(جن سیریز)

حماد ظہیر

……………………………

’’جن اور تین شرارتی بچے‘‘
اسے جن کی زندگی میں بھونچال کہنا ہی مناسب ہوگا

………..………..………..

میں نے بحیثیت جن کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی کوئی مجھے بھی اپنی شرارت کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ وہ تھے تو تین بچے ہی لیکن میرے ذہن میں ان کے لئے نہ جانے کس کس قسم کے اور کتنے ہی اچھے برے القابات آرہے تھے۔
اِفّی لڑکی تھی مگر دیکھنے میں بھی قطعی سیدھی سادھی معلوم نہ ہوتی تھی۔ راہی اور زلفی دو پہلوان تھے۔ راہی قدرے موٹا جبکہ زلفی قدرے چست اور وہ تینوں یقیناً کسی ایسی سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے جہاں اصل نام کے بجائے ان کے مخفف کا استعمال رائج تھا۔
راہی کے وسیع و عریض بنگلے میں لان کے ایک طرف کچھ الگ تھلگ کمرے بنے تھے، جو ملازمین یا فالتو اشیاء رکھنے کے لئے بنائے گئے ہوں گے۔ انہی میں سے ایک کمرہ ان تینوں بچوں کا مرکزی دفتر تھا۔ اس سے ملحقہ کمرہ راہی کی تجربہ گاہ تھی جہاں دن رات دھماکے ہونا ایک معمول تھا اور یہ راہی کا ہی خاصہ تھا کہ وہ ان کو برداشت کرتا ورنہ مجھ جن کے لئے بھی ان کی تاب لانا محال تھا۔
’’شکار اس مرتبہ کوئی موٹا پھانسیں گے!‘‘ زلفی کہہ رہا تھا۔
’’دبلا ہو یا پتلا، شکار ہونے کے قابل ہونا چاہئے‘‘۔ یہ اِفّی کا خیال تھا۔
’’کیوں راہی؟‘‘ دونوں نے سوالیہ نظروں سے راہی کی طرف دیکھا جس کی شکل سے بڑی حد تک بیزاری ظاہر تھی۔
’’ہوں‘‘۔ وہ ہنکارہ بھر کر رہ گیا۔
’’کچھ دو اسے، تاکہ اس کا منہ چلے اور دماغ بھی!‘‘ زلفی کے کہنے پر اِفّی نے جلدی سے پرس سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور راہی کی طرف بڑھادیا۔
ساتھ ہی بھنے ہوئے مکئی کے دانے بھی پرس سے برآمد ہوئے جو کچھ اس نے زلفی کو دیئے اور باقی خود چبانے لگی۔
یہ تینوں مجھے بازار میں گھومتے ہوئے کچھ ایسے انوکھے لگے کہ میں ان تینوں کے ساتھ ہولیا۔ دل چاہا کہ اپنی جناتی ہئیت چھوڑ کر انسانی بچے کا روپ دھار لوں اور ان کے ساتھ ہوجاؤں، مگر پہلے ان کو تھوڑا بہت سمجھ لینا مناسب سمجھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ ایک کھلونوں کی دکان میں داخل ہوگئے۔
دکان پر دو آدمی گاہکوں کو کھلونے دکھا رہے تھے۔ ان میں سے ایک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگا بھاگا ان کی طرف آگیا اور جلدی سے بولا۔
’’بہت صحیح دن آئے، ایک بڑی زبردست چیز ہے میرے پاس آپ لوگوں کے لئے۔‘‘
اِفّی نے پرس میں ہاتھ ڈال کر ایک اسٹاپ واچ نکالی اور تین منٹ کا وقت مقرر کرکے بٹن دبا دیا۔
’’جی جی ۔۔۔ تین منٹ کے اندر اندر ہی دکھاؤں گا‘‘۔ دکاندار کے انداز سے گھبراہٹ عیاں تھی اور وہ جلدی جلدی ڈبوں کے ڈھیر میں کچھ ڈھونڈنے لگ گیا۔
اِفّی لاپرواہی سے خلا میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ زلفی کھلونوں کے ڈبوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ راہی چیونگم چبانے کے باوجود بوریت کا شکار تھا اور کبھی سر اور کبھی گردن کھجلاتا تھا۔
دکاندار کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ لگتا تھا اسے کسی خاص چیز کی تلاش تھی جو کہ اسے نہیں مل رہی تھی اور اس چیز کے ساتھ ساتھ اس کی سٹی بھی گم تھی۔
ایک بچہ ہاتھ میں ایک عجیب و غریب کھلونا لئے داخل ہوا۔
’’انکل یہ خراب ہوگیا ہے کیا آپ اسے ٹھیک کراسکتے ہیں‘‘۔
’’انکل‘‘ کو تو ہوش نہ تھا البتہ راہی کے چہرے پر گہری چمک نظر آئی۔ اس نے جھٹ اس سے وہ کھلونا جھپٹ لیا اور اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔
’’پسند آیا‘‘۔ شاید یہ پہلی بات تھی جو راہی نے کی تھی۔ جملہ یہ بھی گو انتہائی مختصر تھا۔
’’بچ گئے‘‘۔ اِفّی نے اسٹاپ واچ کا بٹن دباتے ہوئے کہا تو دکاندار کی جان میں جان آئی۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ تین منٹ کا چکر کیا ہے اور دکاندار کیوں اس قدر پریشان ہے۔
زلفی نے کھلونوں کے سجے ہوئے ڈبوں میں سے ایک باہر کھینچا جس سے ایک دو ڈبے اور بھی گرگئے اور بچے کو دیتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا خراب کھلونا ہم نے لے لیا ہے۔ تم اس کے بدلے یہ لے جاؤ‘‘۔
بچہ وہ ڈبہ لئے خوشی خوشی چلا گیا۔
زلفی نے بٹوہ نکالا اور پانچ سو کا نوٹ دکاندار کے سامنے رکھ دیا۔
’’لیکن آپ نے کیسے نکالا تھا، میرے تین کھلونے اور گرگئے‘‘۔ دکاندار نے احتجاج کیا۔
’’تو کیا ہوا ٹوٹنے والے تو نہیں تھے نا!‘‘ اِفّی بولی۔
زلفی نے فوراً ہزار کا ایک نوٹ نکال کر ساتھ رکھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر دس بارہ اور کھلونے زمین پر گرادیئے۔ دکان میں موجود سب لوگ حیرت سے اس طرف متوجہ تھے۔ راہی تو باہر نکل ہی چکا تھا۔ زلفی بھی کھلونوں کو ٹانگیں مارتا نکل گیا۔
اِفّی نے جلدی سے اسٹاپ واچ پرس میں رکھی اور کھلونوں سے بچتی بچاتی وہ بھی باہر نکل گئی۔
’’یہ کیا بلا تھے آخر؟‘‘ ایک گاہک پوچھ ہی بیٹھا۔
’’بہت خطرناک چیز ہیں بچ کر رہئے گا!‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
اس قسم کی ہر چیز اب مجھے اپنے لئے ایک مقابلہ نظر آتی۔ میں نے انہی کے ہم عمر ایک لڑکے کا روپ دھارا اور ان کی راہ کاٹی۔
’’سنیے، آپ لوگوں نے یہ کہاں سے لیا‘‘۔ میں نے خراب ہوئے کھلونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ لیکن بات سننا اور جواب دینا تو درکنار، انہوں نے میری طرف دیکھا تک نہیں۔
’’سنیے میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ دراصل دوستی کے بہانے میں ان کا مزاج درست کرنا چاہتا تھا۔
زلفی اور راہی تو کھلونے میں مگن تھے۔ اِفّی کی توجہ کچھ کم تھی۔ شاید تھوڑا بہت دل بھی تھا۔
ہمیشہ کی طرح اس نے اپنا پرس کھولا اور ایک لولی پاپ نکال کر میری طرف بڑھائی ’’یہ لو اور بھاگ جاؤ!‘‘
اندر ہی اندر تو مجھے بڑا غصہ آیا، لیکن پی گیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور آٹھ دس لالی پوپ نکال کر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیں۔
اُمید تو مجھے یہ تھی کہ کچھ اچھا ہی ہوگا، لیکن افسوس یہ فقط ایک جن کا خیال تھا۔
اِفّی نے دوسرے ہاتھ سے میری دی ہوئیں سرکا کے اپنی لولی پوپ اُٹھائی اور باقی سب کونے میں پڑے کچرے کے ڈرم میں انڈیل دیں۔
’’یہ میں اپنے لئے نہیں بلکہ چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لئے رکھتی ہوں‘‘۔ اس نے اپنی لوپی پوپ پرس میں ڈالی اور ہاتھ جھاڑتی ہوئی دوبارہ زلفی اور راہی کے ساتھ چلنے لگی۔
میرا جی کھول اُٹھا۔ میں تینوں کے سامنے تن کر کھڑا ہوگیا۔
زلفی نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر اِفّی کی طرف مڑا، جیسے اس کام کے لئے وہی مقرر ہو۔ اِفّی جلدی سے بولی۔
’’دوستی کرنا چاہتا ہے ہم سے۔ جیب میں لولی پوپ لئے گھومتا ہے!‘‘
’’کیوں اپنی ننھی سی جان پر ظلم کرتے ہو۔ لولی پاپ والے منے ہماری دوستی کے قابل نہیں!‘‘ زلفی نے ترس کھانے والے انداز میں کہا۔ میں بھی اب ان کے مزاج کو کچھ کچھ سمجھ چکا تھا۔ تنک کر بولا۔
’’میری جیب میں لولی پوپ ہی نہیں آپ لوگوں کی توقعات سے بڑھ کر چیزیں ہیں اور میں خود کو آپ کی دوستی کے لائق ثابت کرسکتا ہوں!‘‘
راہی دنیا و مافیہا سے بے خبر خراب کھلونے کو کھول کر اس کے رنگ برنگے تاروں سے کھیل رہا تھا۔ زلفی نے مجھ سے کچھ کہنے کے بجائے اِفّی کی طرف دیکھا تو اس نے جلدی سے پرس کھول کر اندر سے ایک جالی کا پیکٹ نکالا جس میں ایک بڑا سا لال بیگ موجود تھا۔ پیکٹ کھول کر زمین پر پھینکا تو کاکروچ نکل کر اِدھر اُدھر نشے کی سی حالت میں گھومنے لگا۔
اِفّی اسے نہایت شوق سے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کا پالتو ہو، جبکہ زلفی کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ مگر اس بے چارے کو کیا معلوم تھا کہ اس کا پالا بھی ایک جن سے پڑا ہے۔
میں نے اطمینان سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سوچنے لگا کہ کیا نکالوں۔ پھر جب میرا ہاتھ باہر آیا تو اس میں ایک تھیلی تھی جس میں ایک زندہ چھپکلی مڑے تڑے انداز میں بند تھی۔
میرا خیال تھا، وہ تینوں چیخ تو پڑیں ہی گے، مگر یہ فقط ایک جن کا خیال تھا۔ اِفّی تک ذرا خوفزدہ نہ ہوئی۔
میں نے مایوس کن انداز میں تھیلی پھینک دی جس میں سے چھپکلی نے نکل کر فوراً لال بیگ کا سر جکڑ لیا۔
’’ٹھیک ہے ہمارے ساتھ آجاؤ، آزما لیتے ہیں!‘‘ زلفی بولا اور مجھ سے ٹکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
بظاہر تو وہ مجھ سے ٹکرایا تھا، لیکن درحقیقت مجھے اس زور کا دھکا لگا کہ میں چاروں شانے چت پڑا تھا۔ میری چیخ نکل گئی۔ گرنے سے نہیں بلکہ برابر میں لال بیگ نگلتی چھپکلی کو دیکھ کر۔
*۔۔۔*۔۔۔*
راہی جس بنگلے میں رہتا تھا، وہ واقعی بہت بڑا تھا۔ لان کی گھاس پر ان کے ساتھ چلتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ نہ جانے کس قسم کی آزمائش ہو۔
ساتھ میں بنے الگ تھلگ کمروں میں سے ایک کے دروازے پر رُک کر مجھے کہا گیا۔
’’تم اندر چل کر بیٹھو ہم ابھی آتے ہیں‘‘۔ میں نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔۔۔ مگر۔۔۔
فوراً ہی مجھ پر ایک افتاد ٹوٹ پڑی۔ افتاد کیا تھی ایک بھاری بھرکم بوری تھی جو اوپر سے ٹھیک میرے سر پر آرہی تھی۔ سر تو میں نے کسی طرح بچالیا، مگر کندھے پر بھی وہ اس زور کی پڑی کہ میں بری طرح لڑکھڑا گیا۔
آگے جس جگہ میرا قدم پڑا وہاں کوئی پٹاخہ نما چیز تھی، پاؤں پڑتے ہی پھٹ پڑی۔ جنوں کے حواس ہوتے ہی کتنے ہیں، مگر پھر بھی حواس باختہ ہوگیا، ایک طرف ہوا، تو نہ جانے کیسے دیوار پر لگا پنکھا چل گیا اور سامنے رکھے بے شمار نوکیلے ذرات اُڑ کر مجھ سے چمٹ گئے۔ نیچے دیکھا تو پتا چلا دو تار اس انداز میں رکھے تھے کہ پاؤں پڑتے ہی مل گئے اور پنکھا چل گیا۔ مگر ان نوکیلے ذرات نے مجھے جن ہونے کے باوجود بری طرح بے چین کردیا۔
دروازہ بند ہوچکا تھا۔ ہینڈل گھمایا ہی تھا کہ اوپر سے چونے کی ایک تھیلی گر کر پھٹ گئی اور سارا کمرہ دھواں دھواں ہوگیا۔ جلدی سے کھڑکی کی طرف بڑھا اور چٹخنی کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ایک زوردار بجلی کا جھٹکا لگا اور ایک گھنٹی بجنا شروع ہوگئی۔
اگر میں جن نہ ہوتا تو یقیناً یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔
اور پھر دروازے میں کچھ کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ شاید کوئی میری کرچیاں اُٹھانے آرہا تھا۔
میں نے اپنی جناتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چشمِ زدن میں اپنی اور کمرے کی حالت ایسی درست کی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دروازہ کھلا لیکن ہاتھ سے نہیں انگلی کے ناخن سے۔ پھر باہر کھڑے کھڑے ہی اِفّی نے منہ نکال کر اندر جھانکا۔ پہلی مرتبہ اس کے چہرے پر حیرت ہی حیرت نظر آئی، حالانکہ اس نے صرف یہ ہی تو دیکھا ہوگا کہ میں صوفے پر بیٹھا مزے سے سائنسی رسالہ پڑھ رہا ہوں۔
اوپر دیکھا تو بوری بھی ویسی ہی لٹکی نظر آئی۔ صرف گھنٹی تھی جسے میں بند نہ کرسکا تھا۔
’’یہ گھنٹی کیوں بجادی ہے؟‘‘
’’اچانک سے بجنا شروع ہوگئی!‘‘ میں نے لاپرواہی سے کہا۔
’’اچھا وہ میز کے اُس سرے پر قلمدان میں۔ تین قلم لگے ہیں، اس میں سے سبز نکال دو، تو گھنٹی بند ہوجائے گی‘‘۔ اِفّی نے ترکیب بتائی۔
’’آپ خود ہی نکال دیجئے، میں ذرا یہ مضمون مکمل کرلوں‘‘۔
’’میں ان دونوں کو بلانے جارہی ہوں‘‘۔
میں نے اس کے جانے کا انتظار کیا۔ زمین پر بکھری چیزوں اور تاروں سے تنگ آگیا تھا، لہٰذا اُڑ کر ہی قلمدان تک پہنچا اور۔۔۔
جیسے ہی سبز قلم اُٹھایا، ایک شعلہ سا نکلا۔ شعلہ کیا تھا پوری آگ تھی اور میں جن کسی چیز سے نہ ڈروں مگر آگ سے میری جان نکلتی ہے۔
فوراً کمرے سے باہر نکل آیا۔ تینوں آتے ہوئے نظر آئے۔ میں نے ہانک لگائی۔
’’اتنی دیر کرادی مجھے، اب یہ آزمائش پھر کبھی کیجئے گا‘‘۔
’’تم میری ایجادات سے بچ نکلے، بس آزمائش میں پورے اُترے، جس بھی طرح، بہرحال ہمارے دوست ہو‘‘۔ راہی نے اپنا بھاری بھرکم ہاتھ بڑھایا۔ ہاتھ ملانے سے پہلے احتیاطاً میں ہاتھ کو پتھر کی طرح سخت کرلینا نہیں بھولا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے روز یکم اپریل تھی۔ انہوں نے کسی کو بے وقوف بنانے کی بہت زوردار منصوبہ بندی کی تھی۔ میں اس پروگرام میں شامل نہ تھا، لہٰذا ان کے ساتھ ہونے کے باوجود غائب تھا۔
اپریل فول منانا انتہائی غلط اور افسوسناک بات ہے اس لئے کوشش تھی کہ ان کی سازش ناکام بنا کر انہیں سزا دوں۔
فی الحال میں تماش بین تھا۔ صبح سات بجے راہی ایک اونچی عمارت کی چھت پر ایک دوربین، ایک واکی ٹاکی اور وہ خراب کھلونا لئے موجود تھا۔ میں نے پہلی بار کھلونے کو غور سے دیکھا۔ وہ شاید ایک اُڑن طشتری بنانے کی کوشش کی تھی جس کی چھ ٹانگیں تھیں۔
راہی نے ان پر کوئی چیز لگائی اور ایک ہاتھ میں اُڑن طشتری لے کر دوسرے سے دوربین میں کچھ دیکھنے لگا۔ 
میں نے بھی دیکھا کہ ایک جدید قسم کی عمارت سے ایک نئے ماڈل کی کار نکلی اور جیسے ہی کچھ آگے بڑھی راہی نے اُڑن طشتری نیچے اُچھال دی۔ فوراً ہی اس کے ہاتھ میں جیب سے ایک ریموٹ کنٹرول آگیا جس کی مدد سے وہ اُڑن طشتری کو حرکت دے رہا تھا، اور پھر وہ اُڑن طشتری سیدھی جاکر اس گاڑی کے سامنے والے شیشے پر کسی مکڑی کی طرح بیٹھ گئی! فوراً ہی بریک چرچرائے اور گاڑی کے رُکتے ہی اس میں سے دو غیر ملکی اُترتے نظر آئے۔ گاڑی کے اندر ایک عورت بھی تھی ۔
تینوں غیر ملکیوں کے حلیے اور لباس سے یہ واضح تھا کہ وہ غیر مسلم بھی ہیں۔ دراصل وہ عیسائی مشنری سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان میں بعض اسکولوں کے اندر اپنے نظریات کو پھیلانے میں سرگرم تھے۔ میں بچوں کے شکار پر عش عش کر اُٹھا۔ یہ واقعی شکار ہونے کے لائق تھے اور مجھے اب اس اپریل فول پر کوئی اعتراض نہ تھا۔
دونوں غیر ملکیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا، لیکن اُڑن طشتری ٹس سے مس نہ ہوئی۔ آخر جب نکلی تو گاڑی کا شیشہ لے کر نکلی اور یوں گاڑی کے اگلے شیشے میں ایک بڑا سا گول سوراخ ہوگیا۔
دونوں برے برے منہ اور باتیں بناتے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پھر نہ جانے انہیں اُڑن طشتری میں کیا نظر آیا کہ ان کے چھکے چھوٹ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اُڑن طشتری کھلونا نہیں، بلکہ بم ہو۔ انہوں نے جلدی سے اُڑن طشتری کو باہر اُچھال دیا اور لگے کرنے باتیں کہ کہاں سے یہ مصیبت نازل ہوگئی تھی اور یہ کہ کس مشکل سے اس سے پیچھا چھڑایا ہے۔
ایک چوراہے پر گاڑی رُکی تو اِفّی نے دروازے کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ فقیرنی تو قطعاً نہ لگتی تھی، شکل سے مرعوب ہوکر ہی شیشہ کھول دیا گیا۔
’’آپ اپنی کوئی چیز پیچھے گرا آئے تھے، یہ لیجئے!‘‘ اِفّی نے انتہائی خلوص اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیچھے چھپائی ہوئی اُڑن طشتری گاڑی کے اندر اُچھال دی اور یہ جا وہ جا۔۔۔
اندر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ اُڑن طشتری کے اوپر ایک اسکرین دس کا ہندسہ دکھا رہی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے نو اور آٹھ ہوگیا۔
اُڑن طشتری جاکر سیدھی اس عورت کے ہاتھوں سے چپک گئی تھی اور الگ ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔
دونوں آدمی بھی اچھی طرح تجربہ کرچکے تھے کہ اس کا الگ ہونا محال ہے، لہٰذا چلائے۔
’’یہ بم پھٹنے والا ہے۔ جلدی سے باہر نکل جاؤ، تاکہ ہم اور ہماری گاڑی تو بچ جائے‘‘۔
عورت تو پریشانی کے مارے چلانے لگی۔ صرف چند سیکنڈ رہ گئے تھے۔ باقی دو کے چہروں پر بھی ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
پھر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا۔ کیونکہ میں نے ہی نہیں یہ منظر چوراہے پر موجود بے شمار لوگوں نے دیکھا۔ کار کے دونوں اطراف کے دروازے کھلے اور دونوں سے ایک ایک آدمی شرقاً غرباً بدحواس بھاگتا چلا گیا۔
یہی نہیں بلکہ کچھ آگے جاکر وہ پیٹ کے بل سڑک ہی پر سر دبوچ کر لیٹ گئے اور لگے ایک زوردار دھماکے کا انتظار کرنے۔ مگر یہ انتظار طویل ہی ہوتا چلاگیا۔ تماشائی بڑی حد تک اس ناٹک سے محظوظ ہورہے تھے۔
ادھر گاڑی میں ایک کے بعد صفر ظاہر ہوتے ہی اُڑن طشتری کا ایک حصہ ہلکی سی ’’تڑاخ‘‘ کے ساتھ الگ ہوگیا، مگر خوف کی ماری کے لئے یہی اسے بے ہوش کرچکا تھا۔
وہ بے چاری یہ بھی نہ دیکھ سکی کہ اوپر حصہ الگ ہونے کے بعد اندر سے ایک پیغام برآمد ہوا ہے کہ:
’’یکم اپریل کے بوجھ کا ایک چھوٹا سا بدلہ واپس قبول فرمائیے‘‘۔
میں اور آپ تو شاید اس کا مطلب اچھی طرح نہ سمجھ سکیں، لیکن وہ لوگ اس کا مفہوم بہت اچھی طرح جانتے تھے!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top