skip to Main Content

آستین کا سانپ

ترجمہ: فصیح اللہ حسینی

۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ساتھ والے کمرے سے آنے والی کتے کی بھونکنے کی آواز نے گھر کے سکوت کو توڑ کر رکھ دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

مستطیل چھت سے بنا ہرے رنگ کاگھر جس کے احاطے کو جنگلا لگا کر محفوظ کیا ہوا تھا، اس وقت مکمل طور پر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب پولیس انسپکٹر نینسی وہاں پہنچی۔ نینسی جب ڈیوڑھی میں پہنچی تو پہلے سے موجود پولیس کے ایک افسر فرینک نے دروازہ کھول دیا۔ وہ تب سے نینسی کو جانتا تھا جب سے وہ پولیس کی مشہور سراغ رساں ایجنسی میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔
”ہیلو نینسی! ایک بری خبر ہے! ایک بوڑھے آدمی کو سر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس کے پڑوسی نے جب معمول سے ہٹ کر اسے گھر کے احاطے میں چہل قدمی کرتے نہ دیکھا تو پولیس کو فون کرکے بلا لیا۔“
فرینک نے نینسی کو جائے وقوعہ پر ہونے والی واردات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انسپکٹر نینسی نے رہائشی کمرے کی طرف قدم بڑھا دیئے اور بے جان لاشے کا معائنہ کرنے لگی۔ ”ڈکیتی کیس ہے؟“
بکھرے کاغذات اور کھلی درازوں کی طرف سرسری نظر ڈالتے ہوئے نینسی نے پوچھا۔
”دیکھنے میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔ لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔“ فرینک نے کندھے اچکاتے ہوئے رائے دی۔
”دیواروں پر پرانی تصاویر کے فریم لٹکے ہوئے ہیں جو کافی قیمتی معلوم ہوتے ہیں۔ کیا تمہارے خیال میں ڈکیتی کے دوران یہ سب ڈاکوؤں کو نہیں لے جانا چاہیے تھا؟“ افسر اب تفتیش کا دوسرا رخ پیش کررہا تھا۔
”بعض اوقات ڈاکوؤں کو صرف کیش کی ضرورت ہوتی ہے۔“ نینسی نے جواب دیا۔
”ویسے نام کیا ہے اس کا؟“
”جیمز ایڈیسن!“
”پورے شہر میں اس کی آئس کریم کی دکانیں ہیں مگر اس کا سارا بزنس اس کا بھتیجا سنبھالتا ہے۔“
ا چانک ساتھ والے کمرے سے آنے والی کتے کے بھونکنے کی آواز نے گھر کے سکوت کو توڑ کر رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی ایک اور پولیس افسر ایک درمیانی عمر کے آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا جس نے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
”کافی خطرناک کتا معلوم ہوتا ہے۔ہم آرہے تھے تو بہت بری طرح ہم پر بھونک رہا تھا۔“ اندر آنے والا پولیس افسر بڑبڑارہا تھا۔
”یہ زبردست پالتو کتا ہے۔ میں مائیکل ہوں۔ برابر والے گھر میں رہتا ہوں۔ آپ پولیس کے ساتھ معاونت کررہی ہیں؟“ افسر کے ساتھ آنے والے شخص نے نینسی سے پوچھا۔
”جی نہیں! میں پولیس افسر ہوں اور کافی عرصے سے اپنی خدمات اس محکمے کے لیے انجام دے رہی ہوں۔ آپ اس واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟“ نینسی اب مائیکل سے محو گفتگو تھی۔
”صحیح صورتحال تو مجھے بھی نہیں پتا۔ میں صبح جب جوگنگ کرنے کے لیے نکلتا ہوں تو عموماً جیمز اپنے گھر کے احاطے میں چہل قدمی کررہا ہوتا ہے۔ مگر آج وہ خلاف معمول باہر نظر نہیں آیا۔ میں نے اس کے گھر فون کیا تو کسی نے اٹھایا نہیں۔ میں پریشان ہوگیا اور پھر میں نے پولیس کو بلوا لیا۔“
”آپ نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؟“ نینسی نے پوچھا۔
”شکریہ! مجھے کتے کا شکار بننے کا شوق نہیں۔“مائیکل نے ہنستے ہوئے کہا۔
پولیس افسر فرینک نے نینسی کو اطلاع دی کہ کتے کو دوسرے کمرے میں بند کر دیا گیا ہے۔
جب پولیس کے فوٹو گرافر اور ڈاکٹرز آئے تو کتا دوبارہ بھونکا۔ نینسی نے احتیاط سے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولا اور گھور گھور کر دیکھنے لگی۔ اسے چھوٹے قد کا ایک شکاری کتا دکھائی دیا جس کی جلد پر سفید دھبے موجود تھے۔
کتے نے مشتبہ طور پر نینسی کو دیکھا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ نینسی نے فوراً اس کے باہر نکلنے سے پہلے دروازہ بند کر دیا اور دوسرے کمرے کی طرف مڑ گئی۔ کمرے میں دبلا پتلا آدمی اور ایک عورت پولیس کے ساتھ انتظار کررہے تھے۔
”میں رابرٹ ایڈیسن ہوں اور یہ میری بیوی ڈیزی۔“
”یہاں اس کیس کا نگران کون ہے؟“ آدمی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔
”میں نینسی ہوں! آپ جیمز ایڈیسن کے بھتیجے ہیں؟“ نینسی نے پوچھا۔
”جی بالکل!“ رابرٹ نے جواب دیا۔
”مجھے افسوس ہے کہ آپ کے انکل کو قتل کر دیا گیا ہے۔“ نینسی نے افسوس کا اظہار کیا۔
”کچھ چوری تو نہیں ہوا؟“ ڈیزی نے اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں ابھی کچھ نہیں پتا۔ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ڈکیتی مقصد نہیں تھا۔“
”پھر کیا……؟؟“
نینسی نے گفتگو ادھوری چھوڑی اور فوٹوگرافر کو ہدایات دینے لگی۔
”آج انسپکٹر ویلیم کہاں ہیں؟“ فوٹو گرافر نے پوچھا۔
”وہ مصروف تھے۔ آپ اپنا کام کریں۔ یہ میرا کیس ہے۔“ نینسی نے جواب دیا۔ فوٹو گرافر نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنا کیمرہ جیمز ایڈیسن کی لاش پر فوکس کر دیا تھا۔
کتے نے ایک بار پھر بھونکنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بند کمرے میں لگی کھڑکی سے باہر کھڑے اجنبی افرادکو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔
نینسی مائیکل کی طرف مڑی۔ ”یہ کبھی چپ نہیں رہتا کیا؟ ہر وقت بھونکتا ہی رہتا ہے؟“
”یہ سارا دن بھونکتا رہتا ہے۔ بلکہ آدھی رات کو بھی۔ کچھ پڑوسیوں نے شکایت بھی کی تھی مگر ایڈیسن نے کبھی کوئی ایکشن نہ لیا۔“
”کیا گزشتہ رات تم نے کتے کو بھونکتے سنا تھا؟“
”اندھیرا ہونے کے بعد یہ نہیں بھونکتا۔ اگر کوئی دروازے پر آئے تو اسی صورت میں بھونکتا ہے۔“
”مگر کل رات کوئی ضرور آیا ہے اور وہی ہے جس نے جیمز ایڈیسن کا قتل کیا ہے۔“ نینسی کافی فکر مند ہو چکی تھی۔
”بالکل صحیح۔“ مائیکل بھی نینسی سے متفق تھا اور صورتحال سمجھنے کی کوشش کررہاتھا۔
طبی معائنہ کار آیا اور اس نے بتایا کہ جیمز کل رات گیارہ بجے کے وقت قتل کیا گیا ہے اور اس کا ثبوت اس کی ٹوٹی ہوئی گھڑی ہے جو کہ گیارہ بجے کا وقت بتا رہی ہے۔“
”تم نے کل رات گیارہ بجے کے درمیان کتے کے بھونکنے کی آواز سنی تھی؟“ نینسی نے مائیکل سے پوچھا۔
”نہیں! میں نے نہیں سنی۔“ مائیکل کا سر نفی میں ہلا تھا۔
”کیا اس کے گھر کوئی مہمان آیا تھا جو پہلے سے موجود ہو اور دیر تک رکا رہا ہو؟“
”نہیں! اس کا کوئی مہمان نہیں آیا ہوا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کیوں کہ وہ عام طور پر چھوٹی لائٹ جلا کر رکھتا ہے۔ اگر کوئی مہمان وغیرہ آتا ہے تو وہ گھر کی دیگر لائٹوں کو بھی روشن کرتا ہے۔“ پولیس افسر فرینک باہر سے آیا تو کتا ایک بار پھر بھونکا۔
”تمام پڑوسیوں نے تصدیق کی ہے کہ کل رات کتا نہیں بھونکا۔ تو آپ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ قاتل گھر میں گھسا ہے؟“ فرینک نینسی سے مخاطب تھا۔
”دروازے پر زور آزمائی کی گئی ہے۔“ نینسی نے جواباً پوچھا۔
”دروازے پر تو کوئی نشان نہیں ہے۔“
”اس کا مطلب قاتل کے پاس گھر کی چابی پہلے سے تھی یا پھر جیمز ایڈیسن نے اسے دی تھی۔“
یہ کہہ کر نینسی اپنی جگہ سے اٹھی اور وہاں جا کر کھڑی ہوگئی جہاں رابرٹ اپنی بیوی ڈیزی کے ساتھ کھڑا تھا۔
”مسٹر رابرٹ! کیا آپ کے پاس اس گھر کی چابی ہے؟“
”ہے مگر آپ انکل کو قتل کرنے کا شک مجھ پر نہیں کر سکتیں۔“
”میں ان کا قتل کرکے کیا مقاصد حاصل کر سکتا ہوں؟ وہ تو پہلے ہی اپنا پورا بزنس میرے سپرد کر چکے تھے۔“
”اس کے علاوہ کسی اور کے پاس چابی ہے؟“
”نہیں! اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ یہ میں جانتا ہوں۔“
”کل رات گیارہ بجے کے وقت آپ کہاں تھے؟“
”میں آئس کریم کی دکانوں کے دورے پر نکلا ہوا تھا۔ اس وقت تمام دکانیں بند ہو رہی ہوتی ہیں اور کل ہفتہ کا آخری دن تھا لہٰذا میں دکانوں سے ہفتہ بھر کی ہونے والی آمدنی لینے گیا تھا۔“
”اکیلے؟“ پھر پوچھا گیا۔
”جی! کل رات میں اکیلا تھا۔“
”تو گویا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔“
”آپ میرے شوہر سے سوالات کیوں پوچھ رہی ہیں۔ آپ دیکھ رہی ہیں کہ یہاں ڈکیتی پڑی ہے؟“
ڈیزی نے دونوں کی گفتگو کاٹ کر شکوہ کیا۔
”قاتل اس واردت کو ڈکیتی ثابت کرنا چاہتا ہے مگر دروازے پر کوئی زور آزمائی نہیں کی گئی اور یہ قیمتی تصاویر بھی نہیں چرائی گئیں۔ بلکہ دکھائی یہ دیتا ہے کہ جیمز ایڈیسن اپنی کرسی پر غنودگی میں تھا یا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب قاتل اندر داخل ہوا اور اس کے سر کے پچھلے حصے پر حملہ کر دیا۔
”لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قاتل اندر آیا اور کتا بھونکا نہیں؟“
”میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کتے نے گزشتہ رات حرکت تک نہ کی۔“ مائیکل نے بھی نینسی کی حمایت کی۔
”ممکن ہے کتا کسی کمرے میں بند ہو۔“ نینسی نے جواز پیش کیا۔ پھر اس نے سوچا کہ پولیس افسر کہہ رہا تھا کہ آنے کے بعد انہوں نے کتے کو دوسرے کمرے میں بند کیا تھا۔
”کتا قتل کی واردات کے دوران یہیں تھا اور وہ بھونکا نہیں تھا۔ نینسی کھڑکی کی طرف گئی اور کتے کو دیکھ کر دوبارہ ڈیزی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
”کیا آپ کی گاڑی میں ایسا نقشہ ہے جس پر وہ راستہ بنا ہو جس سے گزر کر آپ کے شوہر نے آئس کریم کی دکانوں کا دورہ کیا ہو؟“
”میرے خیال سے باہر گاڑی میں نقشہ رکھا ہوا ہے۔“ ڈیزی نے کہا اور اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔
”رابرٹ! انہیں تمہارا وہ نقشہ چاہیے جس پر کل رات تم نے سفر کیا تھا۔“
رابرٹ دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ نینسی نے اسے روکا۔”کیا آپ کی بیوی لا سکتی ہیں؟میں چاہتی ہوں کہ آپ یہیں رکیں۔“
ڈیزی تھوڑی دیر بعد ایک تہ شدہ نقشے کے ساتھ واپس آئی۔ گھر پر خاموشی تھی اور ڈیزی خاموش کھڑی سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ یہ سب اسے گھور کر کیوں دیکھ رہے ہیں؟
”کیا ہوا؟ میں نقشہ لے آئی جو آپ نے منگوایا تھا۔“ ڈیزی نے پوچھا۔
”کتا نہیں بھونکا۔“
نینسی نے صرف اتنا کہا۔
”کیا……؟“
”کتا نہیں بھونکا جب تم ابھی واپس آئیں تو…… اور وہ کل رات بھی نہیں بھونکا تھا جب تم نے اپنے شوہر کی چابی استعمال کی تھی یا اس کی نقل استعمال کی تھی…… اس گھر میں آنے اور جیمز ایڈیسن کو قتل کرنے کے لیے……“
”بہت عمدہ!!“ نہ صرف یہ بلکہ کتے کو تربیت دی گئی ہے کہ وہ صرف مردوں پر بھونکتا ہے۔ میں نے تب ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا جب میں صبح یہاں پہنچی تھی۔یہ کتا اس وقت بھونکا تھا جب تم اور تمہارا شوہر ایک ساتھ یہاں آئے تھے مگر اس وقت نہیں بھونکا جب تم اکیلی نقشہ لے کر باہر سے اندر آئیں۔“
”ڈیزی تم نے……؟؟“ رابرٹ کو صدمہ پہنچا تھا۔
”تم جیمز ایڈیسن کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھیں تاکہ تمہارا شوہر اس پورے بزنس کا اکیلا وارث بن جائے۔ آستین کا سانپ ثابت ہوئیں تم جیمز ایڈیسن کے لیے۔“
”جب رابرٹ شہر میں نکلا ہوا تھا، تم یہاں آئیں اور تم نے یہ قتل کیا اور یہ قتل تمہاری ناتجربہ کاری کی بنا پر تمہاری پکڑ کا ذریعہ بن گیا اور میں تمہیں موقع دیتی ہوں کہ اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اب تم اپنے وکیل کا بندوبست کر لو۔“ نینسی اپنی بات مکمل کر چکی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب ڈیزی اندر سے مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔
٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top