skip to Main Content

آسان نسخہ

قانتہ رابعہ

۔۔۔۔۔۔
بھئی تم فرید کو تھوڑی دیتے ہو…. بھیا نے سسپنس پیدا کیا

۔۔۔۔۔۔

اللہ ہی جانے ایک دم سے کالی گھٹائیں کہاں سے اُمڈ اُمڈ کر آئیں۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے گرمی کے ماروں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا اور…. لیجیے جناب! آسمان سے بجلی چمکنے اور بادل گرجنے کی آواز کے چند لمحوں بعد ہی تیز موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ بچے بڑے سب کے چہروں پر خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ چھوٹے بچوں نے تو فوراً قمیص شلوار اتار کر نیکر پہنی اور گلی میں نہانے کے لیے چلے گئے…. ٹھنڈی مست ہوائیں جھوم جھوم کر آرہی تھیں…. بارش کے قطرے جیسے ان سب کے ساتھ خوشی میں شامل ہونا چاہتے تھے…. دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل کا سماں ہوگیا…. گلی کے کسی گھر میں سے نکل کر پکوڑوں کے تلنے کی سوندھی سوندھی خوشبو…. بچوں کی ناک تک پہنچی…. بلال نے کچھ دیر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کس گھر سے خوشبو آرہی ہے…. جب پتا چل گیا تو ناک کی سیدھ میں خوشبو والے گھر میں جانے کے بجائے اپنے گھر میں داخل ہوا۔
”امی امی…. گرما گرم پکوڑے اور گلگلے….“ بلال نے برآمدے میں جائے نماز پر بیٹھی امی کو دیکھتے ہی کہا۔
”ہاں واقعی…. اس موسم میں تو خوا مخواہ ان چیزوں کا دل چاہتا ہے…. بھیا نے کہا کس چیز کا دل چاہتا ہے بلو کا….“ دادی اماں نے بھی اندر آتے ہوئے پوچھا۔
”دادی جان میرے دوست کے ہاں سے پکوڑوں کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے سوچا ہم بھی موسم کا مزا اٹھائیں۔“
”اے رشیدہ، بنادو ناں….“ دادی اماں نے سفارش کی۔
امی نے جائے نماز لپیٹی اور باورچی خانے کا رخ کیا اور پھرتی سے گلگلے، پکوڑے بنانے لگیں۔ یہ کون سا مشکل کام تھا، امی تو ایک وقت میں پانچ پانچ چیزیں بنانے کی ماہر تھیں۔ پکوڑوں، گلگلوں کی کیا حیثیت تھی آٹے میں چینی پانی ڈالا اور انڈہ پھینٹ کر گلگلے بنالیے، بیسن میں آلو، پیاز، انار دانہ نمک مرچ ڈال کر پکوڑوں کا مسالا تیار…. چٹ پٹے پکوڑے اور گلگلے آئے تو سب مل کر کھانے لگے۔
امی نے ایک پلیٹ میں تھوڑے سے گلگلے اور پکوڑے ڈالے، دوسری پلیٹ سے ڈھک کر بلال کو پکڑائے…. ”بیٹا جاﺅ بھاگ کر فرید کی امی کو دے آﺅ۔“
بلال نے منھ بنایا…. ”میں نہیں جاﺅں گا…. اور میں نہیں دوں گا اس خود غرض کو پکوڑے، گلگلے…. جب بھی کوئی چیز بنتی ہے۔ ہم ہی دیتے ہیں۔ کبھی ان کے گھر سے ہمارے ہاں کوئی چیز آئی…. آنٹی تو بھلے بھیج بھی دیں لیکن فرید مزید کنجوس مکھی چوس مجال ہے کبھی کوئی چیز دے، میں نے ہمیشہ اسے اپنے لنچ میں شریک رکھا۔ آئس کریم منگوائی تو اس کو بھی دی، برگر کھانے لگا تو وہ بھی آدھا کرکے اس کے حوالے کیا، اس نے کبھی بھولے سے بھی صلح نہیں ماری۔“ بلال بہت دکھ سے بولا۔
”تمھیں دکھ کس بات کا ہے؟ چیزوں میں حصہ اس کا شامل کرنے کا یا اس کی طرف سے کوئی چیز نہ ملنے کا….“ بھیا نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
بلال گڑبڑا سا گیا…. کیا کہے اور کیا نہ کہے۔
”دیکھو میری بات سنو، امی اس لیے فرید لوگوں کے ہاں چیزیں بھجواتی ہیں کہ وہ ہمارے دائیں ہاتھ کے پڑوسی ہیں اور قرآن مجید میں بار بار پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی تلقین آتی ہے، رہی بات تمھاری تو تم جانتے ہو وہ شروع سے تمھارا کلاس فیلو ہے، سیٹ فیلو ہے…. اب وضاحت کرو تم کیوں نہیں ان کے ہاں جانا چاہتے؟“ بھیا نے پوچھا۔
”بھیا…. اس نے کبھی بھی میری چیزوں پر شکریہ ادا نہیں کیا؟ اور اکیلے اکیلے کئی طرح کی چیزیں کھاجاتا ہے، میں سامنے ہوتا ہوں پھر بھی اس نے جھوٹے منھ بھی کبھی مجھے نہیں پوچھا۔“ بلال نے آہستہ آہستہ بات مکمل کرہی لی۔
”بس یہی بات ہے یا کچھ اور؟“ بھیا نے کہا۔
بلال چپ رہا۔
”میں تمھیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم عمل کرو تو تمھیں کبھی رنج نہیں ہوگا کہ وہ تمھیں چیزیں کیوں نہیں دیتا۔“ بھیا تھوڑا سامسکرائے اور بولے۔ ”پہلی بات یہ کہ تم یہ سوچ کر مطمئن ہوجاﺅ کہ اللہ کے ہاں تم ناشکرے یا بخیل نہیں لکھے جاﺅ گے اور نہ ہی یہ تم سے کبھی پوچھا جائے گا کہ فرید تمھیں چیزیں کیوں نہیں دیتا تھا…. دوسرا یہ کہ تم جب بھی اسے کچھ دو یہ مت سوچا کرو کہ تم یہ فرید کو دے رہے ہو۔“
”کیا مطلب؟“ بلال کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
”بھئی تم فرید کو تھوڑا ہی دیتے ہو؟“ بھیا نے سسپینس پیدا کیا اور بات جاری رکھی، تم تو اپنے اللہ جی کو دیتے ہو…. تم نے وہ حدیث نہیں پڑھی کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایک بندے سے کہیں گے۔ اے بنی آدم میں بھوکا تھا، تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا؟ تو بندہ پریشانی سے پوچھے گا اے اللہ آپ تو بھوک پیاس سے بے نیاز ہیں، میں آپ کو کیسے کھلاتا؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمھاری بستی میں فلاں شخص بھوکا تھا۔ تم اسے کھانا کھلاتے تو گویا مجھے کھانا کھلاتے۔“
بلال کی آنکھوں میں چمک آگئی…. یہ تو اس نے سوچا ہی نہ تھا، بھیا نے پھر اسے مخاطب کیا…. ”جب تم یہ سوچ کر اسے کچھ دو گے تو دیکھنا تم بہترین چیز دوسروں کو دوگے…. اور جواب میں کچھ نہ بھی ملا تو یقینا یہی سوچ خوش کردے گی کہ جنت میں جمع شدہ چیزیں لے لوگے۔“
بلال اٹھا…. اپنے حصے میں سے بھی کچھ پکوڑے مزید پلیٹ میں ڈالے اور محبت کے ساتھ فرید کے گھر روانہ ہوگیا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top