skip to Main Content
آخر کب تک

آخر کب تک

سید آصف جاوید نقوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیڈی پلیز۔۔۔ پلیز اجازت دے دیجئے ناں، مجھے سردی کے موسم میں گاؤں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔میں دادان جان کے ساتھ چلا جاؤں گا۔ معظم علی نے اصرار کرتے ہوئے کہااور دادا جان کی طرف دیکھا جو بستر پر ٹیک لگائے چائے پینے میں مصروف تھے۔
تمہاری پڑھائی کا حرج ہوگا۔ چھٹیوں میں تمہیں میں خود گاؤں لے چلوں گا معظم کے والد انسپکٹر مستنصر نے جواب دیا۔
معظم علی نے نہایت معصومیت سے ماں کی طرف یکھا، اسے امید تھی کہ وہ اس کی سفارش ضرور کریں گی، اس کی امید کے عین مطابق وہ بولیں ’’ویسے بھی معظم سے اسکول میں چھٹیاں ہونے کو ہیں دو چار دن سے کوئی حرج نہ ہوگا اگر معظم کی خواہش ہے تو بابا جان کے ساتھ گاؤں جانے کی اجازت دیجئے‘‘۔
چوہدری غضنفر علی نے بھی پوتے اور بہو کی تائید کی اور کہا تمہیں تواپنی انسپکٹری سے فرصت نہیں۔ بچے کا کیا قصور ہے کہ اس کی معمولی سی خواہش بھی پوری نہ ہو۔ اتفاق سے میں آیا ہوا ہوں تو اپنے بچے کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چوہدری غضنفر کے دو ٹوک فیصلے سے معظم علی کی باچھیں خوشی سے کھل گئیں کیونکہ اسے علم تھا کہ دادا جان کا حکم ٹالنا ڈیڈی کے بس کی بات نہیں۔
اجازت ملنے کی دیر تھی، معظم علی نے روانگی کی تیاریاں شروع کردیں۔ اپنے کنرنز کے لئے جمع کر رکھے گفٹ، لڈو، مچھلیاں پکڑنے کی دور اور کنڈیاں، اپنے نئے شوز اور دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ چند جاسوسی ناول بھی بیگ میں رکھے جنہیں وہ بہت مزے لے لے کر پڑھتا تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد جیپ شہر سے نکل کر مضافاتی علاقے عبور کرتی گاؤں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جیسے جیسے سورج غروب ہونے کا وقت قریب آرہا تھا سردی میں اضافہ ہونے لگا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دکھائی دے رہا تھا۔ بلند وبالا گھنے درخت سڑک کے دونوں طرف قطاریں دور تک بڑا دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ کھیتوں میں لگی خوبصورت فصلیں ہوا سے لہلہا رہی تھیں۔ کماد (گنا) کی فصل۔۔۔ مالٹے کے باغ۔۔۔ اور گاجر مولی اور مٹر کی فصلیں تیار تھیں۔ جیپ مختلف دیہاتوں سے گزرتی ہوئی ایک کچی سڑک پر دوڑتی چلی جارہی تھی جو چوہدری غضنفر کی حویلی کی طرف جاتی تھی۔
گاؤں پہنچنے پر اس کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ اس کے تمام کزن اس کی اچانک آمد پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ جبکہ چچا اور چچی بھی خوشی سے بار بار اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور پیار کرتے۔ سورج غروب ہونے کے بعد سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ اس کی چچی نے اسے ایک گرم چادر کندھوں پر ڈالنے کو دی اور انگیٹھی میں آگ روشن کی تو اسے کچھ سکون محسوس ہوا۔ رات دیر گئے تک وہ اپنے کزنز کے ساتھ باتوں میں مصروف رہا۔ لوہے کا ایک بڑا مکان خوبصورت رنگین چارپائیوں کے درمیان رکھا تھا جس میں آگ روشن تھی۔ گفتگو کے دوران معظم علی اور قیصر گنا چوس رہے تھے جبکہ ثریا اور عائشہ مونگ پھلی اور چلغوزے کھا کھا کر چھلکے آگ میں پھینک رہی تھیں۔ معظم علی بہت خوش تھا کہ ایسا لطف پہلے کبھی نہ پایا تھا۔
دوسرے دن نماز فجر کی ادائیگی کے بعد وہ صحن میں نکلا، حویلی میں موجود پرانے درختوں پر پرندے چہچہا کر صبح کی آمد کے گیت گارہے تھے۔ مدہم مدہم روشنی نمودار ہونے لگی تھی جبکہ سورج ابھی دکھائی نہ دیا تھا۔ وہ چلتا ہوا حویلی سے باہر پہنچا اور لہلہاتی فصلوں سے سورج کے طلوع ہونے کا دلکش منظر دیکھنے لگا۔ پھر آہٹ سن کر متوجہ ہوا۔ اس کا کزن قیصر اس کے پیچھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
خالص گھی کے پراٹھے اور تازہ دہی سے ناشتے سے فارغ ہوکر وہ قیصر کے ساتھ گاؤں کی سیر کو نکل گیا۔ اس طرح اسے تین چار دن گزر گئے۔ وہ سب کی محبتیں سمیٹ رہا تھا۔ لیکن اس نے محسوس کیا کہ دادا جان جب سے شہر سے واپس آئے ہیں کچھ پریشان پریشان سے رہتے ہیں۔ یہی کیفیت چاچا جان کی تھی۔ آخر اس نے چچا جی سے پوچھ ہی لیا کہ ایسی کیا بات ہے کہ میں آپ کو اور دادا جان کو گہری سوچ میں ڈوبا پاتا ہوں۔۔۔ چوہدری عنصر نے بھتیجے کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی پولیس آفیسر کا بیٹا تھا اور بہت سے جاسوسی ناول پڑھ رکھے تھے چنانچہ اس کی چھٹی حس کافی تیز تھی۔ اس نے ایک بار پھر کوشش کی۔۔۔
چچا جان اگر مناسب سمجھیں تو مجھے بھی بتائیں کہ آپ کو کیا پریشانی ہے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے کسی کام آسکوں۔۔۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ اس کے قریب ہی کھڑے اس کے کزن قیصر، ثریا اور عائشہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہا!
’’لگتا ہے تایا جان کی معذرت اور جاسوسی ناولوں نے تم پر کافی اثر کیا ہے، چلوامی جان انتظار کررہی ہیں، ہم تمہیں ساری بات تفصیل سے بتادیں گے۔‘‘’
اچھا تو دادا جان اور چچا جان کی پریشانی کی وجہ یہ ے کہ چور نہایت چالاک ہے اور پکڑائی نہیں دے رہا۔ دادا جان پولیس سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔۔۔ معظم نے سوال کیا!
بیٹا ہمارے بزرگوں نے یہ گاؤں آباد کیا تھا جب سے ہم اس کے برپرست چلے آرہے ہیں۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ہر جھگڑے اور معاملے کا فیصلہ ابا جان کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ پولیس گاؤں میں آئے، لوگوں سے پوچھ کچھ کرے اور حراست میں لے اس طرح گاؤں کی بدنامی ہوگی۔۔۔ چوہدری عنصر نے کہا جو بچوں کی گفتگو کے دوران ہی وہاں پہنچے تھے۔
معظم علی نے تمام بات سن کر بے اختیار کہا ۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اگلی صبح ایک اور چوری کی خبر کے ساتھ نمودار ہوئی۔ چوہدری غصنفر اور چوہدری عنصر اپنی پگڑیاں درست کرتے ہوئے حویلی سے روانہ ہونے لگے تو معظم علی نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلے تو انہوں نے منع کرنا چاہا پھر کسی خیال سے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ واردات اس گھر کی عقبی دیوار میں سے اینٹیں نکال کر کی گئی تھی۔
جائے واردات پر گاؤں کے بہت سے لوگوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کا مشہور کھوجی بشیرا بھی موجود تھا۔ اس نے ایک بار پھر پاؤں کے نشانات کی مدد سے مجرم تک پہنچنے سے معزوری کا اظہار کیا۔ گاؤں کے معززرین آپس کے صلاح ومشورے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب پولیس کی مدد حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ معظم علی بھی اپنے دادا اور چچا کے ہمراہ جائے واردات کے چپے چپے کا جائزہ لیتا رہا اور گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ایسی بات آئی جس پر کسی نے غور نہیں کیا تھا۔
’’میں مجرم تک پہنچ گیا ہوں۔۔۔‘‘
معظم علی کی اس بات پر سب لوگ چونک اٹھے اور منتظر تھے کہ وہ اس سے آگے بھی کچھ بولے۔ لیکن چند لمحوں بعد ہی سب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی کہ وہ لوگ ایک بچے کی بات کو سچ سمجھ بیٹھے۔ معظم نے ان کی مسکراہٹ کا مطلب سمجھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اور انشاء اللہ دو دن کے اندر مجرم آپ کے سامنے ہوگا۔ پھر اس نے اپنے چچا کو الگ کر کے تبادلہ خیال کیا تو ان کی آنکھوں میں بھی چمک ابھر آئی۔ لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں بھی آگاہ کیا جائے لیکن مجرم کی گرفتاری تک منصوبے کی تمام تفصیل کو راز رکھا گیا۔
دوسرے دن چوہدری غضنفر کے ڈیرے پر دو مجرم رسیوں میں جکڑے ہوئے پیش کیے گئے۔ ایک گاؤں کا شخص تھا جبکہ دوسرا اجنبی۔ لوگوں نے دیکھا تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔۔۔خیرو چرواہا یہ کس طرح مجرم ہوسکتا ہے بیچارا غریب اور ڈرپوک انسان ہے۔ سبھی لوگوں کو یہی رائے تھی۔ چوہدری غضنفر نے کہا کہ جب تمہیں تفصیل معلوم ہوگی تو یقین بھی آجائے گی، گوکہ خیرو چور نہیں لیکن اس نے چور کا ساتھ ضرور دیا ہے معمولی سے لالچ پر۔۔۔
لوگ تفصیل جاننے کے لیے بے چین تھے۔ چوہدری غضنفر نے کہا کہ تفصیل بھی تمہیں میرا پوتا معظم علی بتائے گا جس کی ذہانت سے مجرم گرفتار ہوسکے ہیں۔ چنانچہ معظم علی نے کہا۔ میں نے گاؤں میں ہونے والی تمام وارداتوں میں ایک بات مشترک پائی جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔ وہ یہ کہ جہاں بھی واردات ہوئی چور کے پاؤں کے نشانات بھیڑ بکریوں کا ریوڑ گزرنے سے مٹ جاتے اور بشیرا کھوجی مجرم تک پہنچنے میں ناکام رہتا۔ اس بات سے میرا شک ہوا کہ گاؤں کا واحد چرواہا خیرو کہیں مجرم سے ملا ہوا تو نہیں، لیکن محض شک کی بناء پر اسے پکڑنا مناسب نہ تھا۔
پھر آخر واردات جہاں ہوئی۔ چور نے عمارت میں داخلے کے لیے اینٹیں نکال کر جو راستہ بنایا اس کے بالائی حصے میں ایک اینٹ ٹوٹنے سے نوکیلا پتھر پھنسا رہ گیا۔ جب چور اندر داخل ہوا یا باہر نکلا تو وہ نوکیلا پتھر اس کی پیٹھ میں شدید زخم پیدا کرنے کا سبب بنا۔ پتھر پر جما ہوا خون ابھی بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ میں چچا جان کے ساتھ گاؤں کے واحد ڈاکٹر (دراصل ڈسپینسر لیکن گاؤں کے لوگ اسے ڈاکٹر ہی کہتے ہیں) کے پاس گیا اور معلوم کیا کہ اس کے پاس کوئی ایسا مریض آیا ہے جس کی پیٹھ پر کسی نوکیلی چیز سے زخم آیا ہو؟
ڈاکٹر کی اس بات سے میرا شک یقین میں بدل گیا کہ خیرو چرواہا کسی اجنبی کو ساتھ لایا تھا جس کی کمر پر گہرا زخم تھا اور قمیص بھی وہاں سے پھٹی ہوئی تھی۔ لہٰذا خیرو چرواہے کو پکڑ کر معمولی مار پیٹ سے ہی وہ مان گیا کہ ایک شخص نے اسے صرف اس کام پر معمور کر رکھا ہے کہ وہ واردات کرتا ہے اور اس کے جانے کے بعد مقررہ وقت پر وہ بھیڑ بکریاں لے کر وہاں پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے مجرم کے پاؤں کے نشان مٹ جاتے ہیں۔ اس کے بدلے وہ اسے کچھ رقم بھی دیتا ہے۔ چنانچہ خیرو کے ذریعے اس شخص کو پکڑا گیا اور اب یہ دونوں تمہارے سامنے ہیں۔ اجنبی شخص کو پیٹھ پر زخم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو جو نوکدار اینٹ کی وجہ سے آیا۔
خیرو چرواہا اور اس کا اجنبی ساتھی ندامت سے سر جھکائے کھڑے تھے اور مارے خوف کے ان کے رنگ زرد ہورہے تھے۔ گاؤں کے لوگ معظم علی کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے تو چوہدری غضنفر علی کا سر فخر سے اور بھی بلند ہوگیا۔
معظم علی نے کہا: ’’مجرم کتنا ہی چالاک کیوں ناں ہو۔۔۔ وہ کچھ ایسے ثبوت ضرور چھوڑتا ہے آخر کب تک۔۔۔ وہ انجام سے بچا رہے گا۔ برے کام کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔‘‘
چوہدری غضنفر علی نے آگے بڑھ کر اپنے پوتے کی پیشانی چومنے کے بعد اسے گلے سے لگا لیا۔ چوہدری عنصر علی بھی بھتیجے کی ذہانت پر بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ معظم علی کا چہرہ بھی خوشی سے کھل گیا تھا کہ مجرم اپنے انجام کو پہنچے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top