skip to Main Content
آخری فیصلہ

آخری فیصلہ

شمع شیخ

یہ کہانی دراصل ان والدین کی ہے، جن کے بچے ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن والدین بچوں کے ذہنی رجحان کے برعکس انہیں ایسے مضامین کا انتخاب کرواتے ہیں جو آگے چل کر انہیں اپنے کیریر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر وہ اپنے شعبے سے انصاف نہیں کرپاتے۔‘‘
قمر انتہائی شرارتی تھا، مگر والدین کی توجہ اور محبت نے اسے بگڑنے نہیں دیا، بلکہ جب …………….. میں قدم رکھا تو انتہائی ذہین فطین مجد بن گیا، وقت پر کھانا، اسکول جانا، والدین کا کہنا ماننا، کچی عمر سے ہی ایک بات ذہین میں بیٹھ گئی کہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوں گا، والدین کی صحیح تربیت نے قمر کو ہمیشہ اول درجے کااسٹوڈنٹ کا خطاب ملا، وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ قمر نویں کلاس کا طالبعلم بن گیا، قمر جب نویں کلاس میں سبجیکٹ کا انتخاب کرنے لگا، تو اس کے والدین کمپویٹر سائنس لینے پر اصرار کیا، جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے مفید ومعلومات کتابین لاکر اسے دیں تاکہ اس کی معلومات میں اضافہ ہو، اس وقت قمر کو اپنا خواب ادھوراسا لگا کیونکہ وہ اپنے پسندیدہ سبجیکٹ بائیلوجی میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہتا تھا، قمر کے والدین کے بے حد اصرار پر راضی ہوگیا، یہ بات نہیں کہ کمپیوٹر سے دلچسپی نہ تھی بلکہ اسے بچپن سے سائنس سے دلچسپی رہی، اور اس مضمون میں اس کی معلومات بھی بہت وسیع تھی، خیر قمر میاں نے نویوں کلاس میں کمپیوٹر کا انتخاب اپنے والدین کے اصرار پر کیا، اور کچھ بے دل سے ہوکر پڑھائی شروع کردی، قمر کے کلاس فیلو جگری دوست عمر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، والد چونکہ بینک میں ملازم تھے، اور وہ چاہتے تھے، کہ عمر کامرس لیے، تاکہ ریٹ ٹرمنیٹ کے بعد بیٹا اسی بینک میں ملازم لگ جائے۔
آج چونکہ کلاس میں اسٹوڈنٹ کے تعداد کم تھی، اور ریاضی کے سر غیر حاضر تھے لہذا تمام طالبعلم کلاس میں گپ شپ میں مشغول تھے، کچھ باتیں کرنے لگے، چند ایک نے اپنی نامکمل Home work مکمل کرنے لگے، عمر اور قمر نے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے اپنے مضمون پر گفتگو شروع کی، عمر ایک بات بتاؤ وہ اس نئی کلاس کو جائن کر کے مزا آرہا ہے۔ میرا مطلب یہ ریاضی کا مضمون تھیں تو سخت ناپسند تھا، پر تم نے اس مضمون کو کیسا پایا، کوئی دلچسپی پیدا ہوئی یا یونہی۔۔۔! قمر نے اپنے دوست کو دکھتی رک پر ہاتھ رکھ دیا۔
بس قمر کیا بتاؤ، ابا نے زبردستی یہ سبجیکٹ دلوادیا مجھے سخت چڑ ہے، تم نے یہ بات نوٹ کی ہوگی میں بہت بوریت محسوس کرتا ہوں اور بے دل سا ہو کر کلاس اسٹینڈ کرتا ہوں! ہاں عمر میں نے یہ بات دیکھی تو ہے مجھے عجیب سا لگا اسی لئے تم سے پوچھ رہا ہوں، عمر کو کمپیوٹر سے دلچسپی نہیں تھی یہ بات قمر جانتا تھا دراصل میرا معاملہ بھی یہی ہے مجھے امی ابو کی بات نہیں مانی چاہئے تھی۔
قمر نے قدرے افسردگی سے کہا، کیونکہ جب ہم اتنی بے دلی سے کلاس اٹینڈ کریں گے تو اس کا مطلب آگے چل کر ہمارا کیریر تو خراب ہوگا، کیونکہ جب منتخب شدہ مضامین ہمارے پسندیدہ نہیں، تو پھر نمایاں پوزیشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتتا، قمر نے جوشلے انداز مین جواب دیا تو عمر نے بھی افسردگی کا مظاہرہ کیا، ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے کہ کیوں نہ ہم اپنے کلاس ٹیچر سر اجمل سے اس موضوع پر بات کریں، وہ ہمیں صحیح رہنمائی بھی کردیں گے اور ہم مطمئن بھی ہوجائیں گے، اس طرح ہم دونوں کی مشکل کا حل بھی نکل آئے گا، عمر نے قمر کی تائید کی، اور دونوں باہم مشورے سے سر اجمل کے پاس کامن روم میں جاپہنچے جو اپنے ضروری کام فری پریڈ میں مکمل کر رہے تھے، دونوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو سر اجمل نے سر اٹھا کر خوشی سے مسکرا کر اندر آنے کی اجازت دی، آؤ بچوں، خیریت! کیا کام آپڑا ہے؟ چونکہ قمر اور عمر اپنی کلاس کے ذہین طالبعلم تھے، اور تمام ٹیچر کو ان دونوں طالبعلموں سے دلی وابستگی تھی، سر اگر آپ تھوڑا سا وقت ہمیں دے دیں، تو مہربانی ہوگی، قمر نے ادب سے کہا، ہاں، ہاں ضرور، انہوں نے تمام کام ختم کر کے متوجہ ہوکر کہا، اب کہئے! سر دراصل ہمیں ایک پرابلم ہے، عمر نے کہا، تو سر اجمل نے فورا بات نوٹ کرلی، ہاں میں نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے کہ کلاس لیتے ہوئے آپ دونوں کچھ بے دلی کا مظاہرہ کرنے لگے ہین، وہ پہلے والی دلچسپی نہیں رہی، سر اجمل نے دونوں کو غور سے دیکھا، ہاں بھئی قمر آپ بتائیں کیا مسئلہ ہے۔ ٹیچر نے قمر کو مخاطب کہا، سر آپ جانتے ہیں کہ میرا پسندیدہ سبجیکٹ سائنس ہے۔ یعنی بائیلوجی جبکہ میرے والدین نے مجھے کمپیوٹر دلوادیا ہے، مجھے کمپیوٹر پسند ہے۔ اور میری اس مضمون سے تمعلق معلومات بھی کافی وسعی ہے یہ میرا نا پسندیدہ مضمون نہیں ہے۔ لیکن سر میں بچپن سے یہ بات سوچ لی تھی کہ آنے والے کیرئر کے لئے اس مضمون کا انتخاب کروں گا۔ چونکہ سائنس میرا پسندیدہ مضمون ہے، بچپن سے مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا، لیکن امی ابو نے زبردستی مجھے کمپیوٹر دلوادی ہے، اسی لئے مجھے پڑھنے میں دلچسپی نہیں بلکہ بوریت ہورہی ہے۔ قمر نے بات مکمل کی تو سر اجمل نے مسکرا کر عمر کو مخاطب کیا کہ وہ اپنا مسئلہ بتائے تاکہ دونوں کو تسلی بخش جواب دیں۔ اور اپنے ذہین طالبعلموں کو مطمئن کرسکیں۔
سر میرا پرابلم بھی یہی ہے کہ والد چونکہ بینک میں ملازم ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اکنامکس پڑھ لوں تاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اچھی ملازمت بینک میں شامل جائے، یہی وجہ ہے کہ مجھے ریاضی سے دلچسپی نہیں،
بچوں میری بات غور سے سنو! آپ دونوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر تو ضرور سنا ہوگا۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
جو ستاروں پہ ڈالتے ہیں کمند
آپ اپنے والدین کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے مسلسل محنت لگن اور جدوجہد سے اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہیں۔ کامیابی ایسے لوگوں کو ضرور ملتی ہے۔ اور اپنے ذہن سے یہ بات نکل دیں دوسری صورت میں اپنے والدین کو میرے پاس بھیج دیں۔ دونوں طالبعلموں نے سر اجمل کی بات ختم ہونے پر اجازت چاہی۔ اور کامن روم سے کلاس روم کی طرف لیے گئے، کیونکہ دوسرے پریڈ کی بیل بج چکی تھی۔
قمر اور عمر چونکہ قریب ہی رہتے تھے، ایک دوسرے کے گھر شام کو آجاتے کرکٹ میچ کھیلتے، شام کو جب دونوں میچ کھیل کر فراغ ہوئے دونوں نے یہ بات طے کہ کہ اپنے والدین کو اسکول بھیج دیں۔ اور یہ بات سوچنے لگے کہ والدین پوچھیں گے کہ سر نے انہیں کیوں بلوایا ہے، وہ نہ تو جھوت بول سکتے تھے، کیونکہ ان دنوں کے والدین کو یہ بھی علم تھا، ہمارے بچے ذہین ہونے کے ساتھ باادب بھی ہیں، لہٰذا اسکول سے شکایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، کینوکہ ان کے والدین صڑف رزلٹ آؤٹ ہونے پر یا ’’والدین کا دن‘‘ منانے والے دن اسکول جایا کرتے تھے، اب ایک نئی الجھن نے دونوں دوستوں کو گھیر لیا۔
قمر ایسا کرتے ہیں سر اجمل کو ہم گھر کا فون نمبر دیں گے وہ خود تمہارے اور میرے ابو کو اسکول بلوالیں گے ہاں یہ بات ٹھیک ہے، عمر کی بات پر قمر نے ہاں کو لمبا کھنچتے ہوئے خوشی سے اچھل کر عمر کو گلے لگالیا!
سر اجمل کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ہمارے اتنے اچھے ٹیچر ہیں کہ فوراًیہ کہدیں گے، دونوں دوستوں نے مشترکہ پلاننگ سے سر اجمل کو اپنے گھروں کا فون نمبر دے دیا، اور سر اجمل نے بھی اپنے ہونہار طالبعلموں کی خواہش احترام کرتے ہوتے ہوئے، دونوں کے والد کو اپنے پاس تھوڑے وقت کے لئے اسکول بلوالیا تاکہ سامنے بیٹھ کر بچوں کے مسئلے کو حل کرسکیں دوسرے دن قمر اور اجمل نے فری پریڈ میں چھپ کر دیکھا تو دنوں کے والد سے سر اجمل محو گفتگو دونوں نے سکون کا سانس لیا، کیونکہ وہ کچھ ڈر سے گئے تھے کہ معلوم نہیں ان کے والد آئیں گے یا نہیں!
وقار صاحب اور احمد صاحب آپ دونوں یہ بتائیں کہ اپنے بچوں کو کتنا چاہتے ہیں یقیناًبہت زیادہ اور ان کی خوشی آپ کی خوشی ہے، اور کیوں نہ ہو، دونوں ذہین اور باادب ہیں، لیکن یہ بتائیں وقار صاحب قمر آجکل اپنی کلاس میں کمپیوٹر کے مضمون کے بجائے بائیلوجی کی کلاس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے! اور احمد صاحب عمر ریاضی کو دلچسپی اور توجہ سے پڑھنا ہے، اور رزلٹ آپ لوگوں کے سامنے ہے، دونوں بچوں نے کتنے اچھے نمبروں سے اسکول میں ٹاپ کیا ہے، جبکہ آپ دونوں نے ان بچوں کے ذہنی رجحان کے برعکس مضامنین ان کے سروں پر مسلط کردیئے ہیں۔ آج جبکہ وہ اپنے جب شدہ مضامین میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے ہیں تو بھلا بتائیں وہ آگے چل کر اپنے کیریر کا انتخاب کس طرح کرسکیں گے اور یہی ان بچوں کے لئے مشکل ترین مرحلہ ہوگا، جبکہ دونوں بچے اپنے پسندیدہ مضمون میں نمبروں رہے ہیں، اگر آپ لوگوں کے منتخب مضامین میں بچوں نے کامیابی حاصل کر بھی لی تو کیا وہ اپنے شعبے میں وہ کامیابی حاصل کر بھی لی تو کیا وہ اپنے شعبے میں وہ کامیابی حاصل کرسکیں گے، کیا وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرسکیں گے۔ یقیناًاس کا دانش مندانہ جواب نہیں میں ہوگا۔ سر اجمل نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بچوں کی پر زور حمایت کی! جیسے سن کر دونوں صاحبان کچھ شرمندہ سے ہوگئے۔
بچوں کو ذہنی رجحان کے برعکس جو مضامین آپ نے اپنی پسند سے دلوائے ہیں، اس میں وہ جدوجہد کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے جو انہوں نے بچپن سے دیکھی ہے، وہ اپنی صلاحیتوں کو پہنچانتے ہیں، یہ بات نہ صرف آپ کے لئے بلکہ میرے لئے بھی فخر کا باعث ہے کہ میرے طالبعلموں میں اتنا شعور ہے کہ وہ اپنے منتخب شدہ مضامنین کا انتخاب کریں، اور اپنے مضمون میں نمایاں کامیاب اسی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں۔ جو ان کے ذہنی رجحان سے مطابقت رکھتے ہیں آپ دونوں یقیناًمیری اس تمہید کا مقصد سمجھ چکے ہونگے۔ آپ ہمارے آجکل کے نوجوانوں کو دیکھیں وہ اپنے کیریر کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ بہت سے نوجوان میرے شاگرد ہیں اور اب جبکہ وہ اعلیٰ ملازمتوں میں اپنی کارکردگی دیکھا تو رہے ہیں مگر وہ انصاف نہیں کر پا رہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اندھے کنوں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ خیر
یہ میرے ننھے شاگرد مجھے یقین ہے انتھک محنت اور جدوجہد سے اپنے کیریر کا انتخاب کریں گے اور کامیابی حاصل کریں گے جو نہ صرف آپ اور اس ملک کے لئے ایک نمایاں مقام ہوگا، مجھے پورا یقین ہے ااپ لوگوں کو اس پر اعتراض نہ ہوگا، بقول علامہ اقبال
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے
اپنی بات ختم کر کے سر اجمل نے معذرت چاہی کہ ان کا پریڈ شروع ہوچکا ہے۔ ورنہ ضرور چائے منگواتا۔ پھر آپ دونوں نے کیا سوچا! سر اجمل نے پھر فیصلہ مانگا۔
تو دونوں کے والدین نے معذرت چاہی کہ ہم نے اپنے فیصلے بچوں پر مسلط کردیئے جبکہ ان کا ذہنی رجحان کچھ اور ہے۔ اور یہ بات بھی مان لی کہ واقعی بچوں کے قریب ان کے استاد ہوتے ہیں۔ جو کے ذہن کو پڑھتے ہیں۔ اور عقاب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ بچوں کے والدین اصل میں استاد ہی ہوتے ہیں۔ چلتے ہیں سر، وقار صاحب اور احمد صاحب نے اجزات چاہی۔
جب سر اجمل نے بچوں کو مضمون بدلنے کی خوشی خبری سنائی تو دونوں بچوں نے سر اجمل کو تحفہ پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ سر اجمل نے مسکر کر اپنے ذہین طالبعلموں کو آنے والے مستقبل کے لئے دعائیں دیں۔
ء۔۔۔ء

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top