skip to Main Content
آئینہ

آئینہ

حفصہ صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ اُس نے آئمہ کو آئینہ دکھا دیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ تمھارا منھ کیوں لٹکا ہوا ہے؟‘‘ بھائی جان کو گھر میں داخل ہوتے رمیزہ کی روتی صورت نظر آئی۔

’’رزلٹ آگیا میرا۔۔۔‘‘ رمیزہ نے اسی طرح منھ بنائے رکھا۔

’’اچھا گڈ۔۔۔ کیا رہا؟‘‘ بھائی جان نے شوق سے پوچھا۔

’’ایٹی نائن۔۔۔‘‘ رو دینے والے انداز میں جواب دیا۔

’’خدا کا خوف کرو اس پرسنٹیج میں تو دو لڑکے پاس ہوجاتے ہیں۔‘‘

’’ ہوجاتے ہوں گے لیکن میری تو اپنے گروپ میں سب سے کم ہے۔‘‘ جو آنسو رُکے ہوئے تھے وہ بہنا شروع ہوگئے۔

’’اُف میں کہاں جا کر اپنا سر ٹکراؤں۔۔۔‘‘ بھائی جان کی تو حالت بُری ہوگئی اس ردعمل پر۔

’’کیا ہوا ثوبان کیوں رلا رہے ہو تم رمیزہ کو؟ ‘‘اتنے میں ابو بھی آگئے۔

’’آپ خود ہی پوچھ لیں یہ نواسی فیصد نمبرز آنے پر ایسے رو رہی ہے جیسے فیل ہوگئی ہو۔‘‘

’’ہاں تو کیوں نہیں روؤں۔۔۔ سب کی نائنٹی اور ایٹی نائن پوائنٹ فائیو سے زیادہ آئی ہے اور میری صرف ایٹی نائن۔۔۔‘‘

ایک دفعہ پھر آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ اس جذباتی تقریر پر ابو بھی اپنی ہنسی روکنے میں ناکام ہوگئے، جس نے رمیزہ صاحبہ کے غصے کو مزید بھڑکا دیا۔

’’ارے بھئی یہ تو نویں کی ہے۔ میٹرک میں محنت کرلینا، بڑھ جائے گی۔۔۔‘‘ بھائی جان نے ایک دفعہ پھر مداخلت کی۔

’ؔ ’اب میں اسکول ہی نہیں جاؤں گی، چھوڑدوں گی پڑھائی وڑہائی۔‘‘ وہ ایسی ہی جذباتی تھی۔

’’واہ تم نے زندگی میں پہلی دفعہ کوئی اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔‘‘ بھائی جان کو ایک دفعہ پھر موقع مل گیا۔

’’امی۔۔۔ امی۔۔۔‘‘ انھوں نے وہیں سے امی کو آواز لگائی جو کچن میں مصروف تھیں۔

’’کیا ہوا؟‘‘ امی نے وہیں سے پوچھا۔

’’امی آج سے ماسی کو فارغ کردیں، اب گھر کے کام رمیزہ کرے گی، وہ پڑھائی چھوڑ رہی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی رمیزہ کی طرف سے آتا ہوا تکیہ اُس نے مہارت سے کیچ کیا۔

’’ابو! بھائی تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ میں ماسی بن جاؤں۔‘‘ ایک اور دُکھ میں اضافہ ہوگیا۔

’’بھئی تم اسے تنگ نہیں کیا کرو، تمھیں پتا ہے وہ جذباتی ہے۔‘‘ ابو نے بھائی کی سرزنش کی۔

’’رمیزہ تم امی کے پاس جاؤ۔ وہ تمھارے لیے کچھ کپڑے لائی تھیں۔ وہ دیکھ لو۔۔۔‘‘ ابو نے معاملے کا رخ بدلنے کی کامیاب کوشش کی۔

’’واؤ۔۔۔ ‘‘سارا دکھ بھول کر کپڑوں کے لیے ایک لمبی چھلانگ لگائی۔

’’آرام سے۔۔۔ اتنی لمبی ہوگئی ہو لیکن بندروں والی حرکتیں نہیں گئیں۔۔۔‘‘ بھائی نے ایک بار پھر چڑانے کی لیکن ناکام کوشش کی۔

’’امی کہاں ہیں میرے کپڑے؟ آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ میرے لیے نئے کپڑے لائی ہیں۔‘‘ پچھلا غم کافی حد تک کم ہوچکا تھا۔

’’تمھارا رونا ختم ہوتا تو بتاتی ناں؟ ہمیں پتا تھا تمھارا اچھا رزلٹ آئے گا، اس لیے پہلے سے خرید کر رکھ لیے تھے۔‘‘ امی نے تفصیل سے جواب دیا۔

رزلٹ کا نام سن کر غم ایک دفعہ پھر ہرا ہوگیا۔

’’اچھا کہاں آیا ہے امی؟‘‘ رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

’’بھئی ہم سے تو اچھا ہے، میری تو میٹرک میں مشکل سے ’اے‘ گریڈ بنی تھی اور تمھارے بابا کی ’بی‘۔‘‘

’’یہ تو پرانے دور کی بات ہے نا امی اس وقت کی بات اور تھی اب اور۔۔۔ ‘‘اس نے بے زاری سے کہا۔

’’کیوں؟ ہم فرعون کے دور کے ہیں؟‘‘ امی نے مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔

’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔۔۔‘‘ انداز میں اب بھی خفگی تھی۔’’ اچھا کپڑے تو دکھائیں؟‘‘

’’کمرے میں شاپر رکھا ہے تم چلو میں آتی ہوں۔‘‘

’’واہ امی شاندار۔۔۔ کپڑے دیکھ کر وہ سارا غم بھول گئی۔ امی کو اس کی پسند اچھی طرح پتا تھی اس لیے کپڑے بالکل پسند کے مطابق تھے۔

اگلے دن اسکول میں صبح ہی سے منھ اُترا ہوا تھا۔ کلاس ٹیچر مس صبا نے سب لڑکیوں کو مبارک باد دی۔ سب بچیاں ہی خوش تھیں۔ اسکول کا مجموعی رزلٹ اچھا آیا تھا اور آئمہ خان تو ٹاپ ٹین میں علیحدہ تھی اس کی وجہ سے بھی ٹیچرز کافی خوش تھیں جس سے آئمہ کو علیحدہ سے خوب شاباشی دی۔

’’آئمہ آپ محنت کریں تو بورڈ میں پوزیشن لاسکتی ہیں۔‘‘ مس نے آئمہ کو شاباشی دیتے ہوئے کہا۔

’’جی مس، میں پوری کوشش کروں گی کہ آپ کی اُمید پر پورا اُتروں۔۔۔ ‘‘ آئمہ کا انداز انتہائی نرم اور انکساری لیے ہوئے تھا۔

’’شاباش آئمہ۔۔۔ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ مس مزید خوش ہوگئیں۔

’’شکریہ مس۔۔۔‘‘

کلاس میں تقریباً ہر بچی کے چہرے پر خوشی تھی، سواے ایک دو کے جن میں رمیزہ بھی شامل تھی، اسے آئمہ کی تعریف بالکل پسند نہیں آرہی تھی۔ بریک میں ساری سہیلیاں ساتھ بیٹھی خوش گپیاں کررہی تھیں۔

’’یار مجھے تو فخر ہوتا ہے آئمہ ہماری کلاس فیلو ہے۔‘‘ نمرہ کے انداز میں خلوص تھا۔

’’خیر فخر کی ایسی کوئی بات نہیں ہے، پڑھنے کے سوا کون سی سرگرمی ہے اس کی؟ ‘‘رمیزہ نے چڑ کر کہا۔

’’لیکن یہ بات ماننے والی ہے کہ وہ بالکل بھی مغرور نہیں ہے۔‘‘ اقرا نے بھی آئمہ کی طرف داری کی۔ جس نے رمیزہ کے دل میں حسد کی آگ کو مزید بھڑکادیا۔

’’ہاں تو وہ جس فیملی سے ہے وہ کیا غرور کرے گی۔‘‘ وہ بے نیازی سے کندھے اُچکاتے ہوئے بولی۔

’’کیوں؟‘‘ اب سب کے حیران ہونے کی باری تھی۔

’’اس کے والد میرے بھائی کی یونیورسٹی کے بس میں کنڈیکٹر ہیں۔‘‘

’’واقعی؟‘‘ سب لڑکیاں حیران ہوگئیں۔

’’جاؤ اسی سے معلوم کرلو۔‘‘ پھر بے نیازی سے جواب دیا۔ بات ایک بار نکلنے کی دیر تھی۔ اب ہر لڑکی کو پتا تھا کہ آئمہ کے والد کیا کرتے ہیں۔

گھر جا کر بھی رمیزہ کا منھ پھولا ہوا تھا، بے زاری سے بستہ ایک طرف پھینکا۔

’’امی کھانے میں کیا پکا ہے؟‘‘ گھر آکر پہلا سوال یہی ہوتا تھا۔

’’دال چاول اور آلو کی ترکاری۔‘‘ امی نے جواب دیا۔

’’مجھے نہیں کھانی سبزی، مجھے کباب تل دیں۔‘‘ انداز میں ضدی پن تھا۔

’’کیا ہوگیا ہے ابھی تک نمبروں کا دکھ کم نہیں ہوا؟‘‘ امی اس کی رَگ رَگ سے واقف تھیں۔

’’امی وہ آئمہ کی بچی بورڈ میں ٹاپ کرنے والی ہے۔‘‘ انداز میں حسد اور چڑ نمایاں تھی۔

’’اچھا؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تمھارے اسکول کا نام روشن ہوگا۔‘‘ امی نے خوشی کا اظہار کیا۔

’’مجھے بالکل پسند نہیں ہے آئمہ۔‘‘

’’کون سی ہے آئمہ، وہی نا جو بڑی باادب سی بچی ہے۔‘‘ امی اس کی کلاس کی اکثر لڑکیوں کو جانتی تھیں۔

’’آپ کو لگتی ہوگی باادب، مجھے تو اچھی نہیں لگتی۔‘‘ لہجے میں اب بھی بے زاری تھی۔

’’ایسے نہیں کہتے، ویسے بھی وہ دیکھنے میں بھی بہت باادب اور تمیز دار لگتی ہے۔‘‘

’’آپ کو پتا ہے اس کے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘ رمیزہ بڑا زور دے کر یہ جملہ ادا کیا۔

’’کیا کرتے ہیں؟‘‘ امی کے انداز میں بھی تجسس تھا۔

’’بھائی کی یونیورسٹی کی بس کے کنڈیکٹر ہیں۔ مجھے بھائی نے بتایا تھا۔ اس کے انداز میں حقارت تھی، پوزیشن آگئی تو خود کو شہزادی سمجھنے لگی۔‘‘

’’رمیزہ تم نے یہ بات کسی اور سے تو نہیں کہی۔‘‘ امی ایک دم سنجیدہ ہوگئیں، ان کے انداز میں شدید دُکھ بھی تھا۔

’’پوری کلاس کو بتادی۔ سارا غرور نکال دیا میں نے اس کا۔‘‘ رمیزہ کے انداز میں ایک فتح کا احساس تھا۔

امی کے چہرے پر شدید دُکھ کی لہر آئی جو شاید رمیزہ کو نظر نہیں آئی۔

*۔۔۔*

’’امی امی۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں امی کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ ان کو ڈھونڈتی ہوئی ان کے کمرے تک چلی گئی۔ امی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

’’کیا ہوا امی آپ رو رہی ہیں؟‘‘ امی کو روتا دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی۔

’’ تمھیں پتا ہے میں کیوں رو رہی ہوں۔‘‘ امی کے انداز میں شدید ناراضی تھی۔

’’نہیں؟ بتائیں۔۔۔‘‘

تمھاری آج کی حرکت نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔‘‘

’’کیوں امی؟ آئمہ کیا ہماری رشتہ دار ہے؟‘‘ وہ امی کے دکھ کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔

’’تم نے آئمہ کی نہیں میرے اور میرے والدین یعنی اپنے نانا کی بے عزتی کی ہے۔‘‘

’’تمھیں پتا ہے تمھارے نانا کیا کرتے تھے؟‘‘ امی کے انداز میں تلخی تھی۔

’’نہیں امی، شاید بزنس کرتے تھے۔‘‘ آہستہ آواز میں جواب دیا۔

’’تمھارے نانا یعنی میرے والد سائیکلوں کی دُکان پر پنکچر کا کام کرتے تھے۔ اُنھوں نے اپنی انتہائی قلیل آمدنی میں ہم سب بہن بھائیوں کو اچھی تعلیم دلوائی۔ ہماری فیسوں کے لیے وہ آدھی آدھی رات تک محنت کرتے تھے۔ اُنھیں محنت کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لگن تھی کہ میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کرلیں۔ آج جو تمھارے ماموں افسر ہیں، خالہ ڈاکٹر ہیں اسی محنت کی کمائی کا نتیجہ ہے۔‘‘ ’’سوری امی مگر۔۔۔‘‘ وہ واقعی شرمندہ تھی۔

’’ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی ہے۔ اپنے دادا کے بارے میں بھی سن لو وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں گارڈ (چوکیدار) کا کام کرتے تھے اور وقت ضرورت گھروں میں رنگ و روغن (پینٹ) کا کام بھی کرتے تھے۔ اُنھوں نے بھی اس محنت کی کمائی سے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ تمھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہمارے ماں باپ کی اس طرح بے عزتی کرو۔۔۔‘‘ امی اب ہچکیوں سے رو رہی تھیں۔

’’امی میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کردیں۔‘‘ وہ دل سے شرمندہ تھی۔

’’معافی مجھ سے نہیں آئمہ سے مانگو جس کا تم نے دل دکھایا ہے۔‘‘

*۔۔۔*

بعد میں سب نے دیکھا کہ آئمہ اور رمیزہ گہری دوست ہیں اور اب رمیزہ کسی کی کامیابی پر ناخوش نہیں ہوتی بلکہ اس میں شریک ہوتی ہے اور ہاں اب رمیزہ کے دل میں جتنی عزت آئمہ کے لیے ہے شاید ہی کسی کے لیے ہو۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top