skip to Main Content

باب سوم: سہ ماہی ادبیات اطفال کی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ

باب سوم
سہ ماہی ادبیات اطفال کی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ

بچوں کا شعری ادب ،ایک جائزہ:
اردو ادب جمالیاتی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ نظم یعنی شعر و شاعری اور نثر۔ نثر کی بہ نسبت شعر و شاعری کو فی زمانہ زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور نثر کی بہ نسبت شاعری کی قدر و منزلت زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ ایک لمبے عرصے تک تو صرف شاعری کی صنف ہی فن کے زمرے میں آتی تھی۔ نثر لکھنا کوئی کمال نہ سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال نثر اور شاعری کے اپنے اپنے زاویے ہیں اور دونوں ہی ادب میں اہم ہیں، شاعری میں اوزان اور بحور یعنی علم عروض کو مد نظر رکھا جاتا ہے جبکہ نثر میں علم نحو کے اصولوں پر جملوں کی ترتیب پیش نظر ہوتی ہے۔شاعری کیا ہے اور شعر کسے کہتے ہیں؟ اس کی عام فہم تعریف یوں کی جا سکتی ہے :۔
’’شاعری کا لفظ شعرسے ماخوذ ہے، جس کا معنی ’’کسی چیز کا جاننا پہچاننا‘‘ہے۔ اور اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو بالقصد کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ شعر کا پہلا عنصر وزن ہے اور دوسرا عنصر خیال ہے۔‘‘
شاعری میں خیالات کو منظم الفاظ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے اس کا اسلوب نثر سے یکسر مختلف ہو جاتا ہے، اس میں روانی اور اثر پزیری پیدا ہو جاتی ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے شاعری کی اس پر اثر کیفیت کے بارے میں یوں لکھا ہے:۔
’’جسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اول ایک مضمون کو ایک سطر میں لکھتے ہیں اور نثر میں پڑھتے ہیں ۔پھر اسی مضمون کو فقط لفظوں کے پس و پیش کے ساتھ لکھ کر دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی عالم ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس میں چند کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔وہ وصفِ خاص ہے جسے سب موزونیت کہتے ہیں۔کلام میں زور زیادہ ہو جاتا ہے اور مضمون میں ایسی تیزی آ جاتی ہے کہ اثر کا نشتر دل پر کھٹکتا ہے۔سیدھی سادی بات میں ایسا لطف پیدا ہو جاتا ہے کہ سب پڑھتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔‘‘(1)
آزاد کے مندرجہ بالا اقتباس سے بھی شاعری کی فوقیت ثابت ہوتی ہے۔ویسے بھی شاعری کی عمر نثرسے زیادہ ہے۔نثر سے پہلے ہیاں شاعری کا دور دورہ رہا ہے۔ اردو ادب اطفال میںبھی نثر سے پہلے ہمیں شاعری ملتی ہے جس میں سر فہرست وہ کتابیں ہیں جو بطور نصاب لکھی گئی تھیں۔عام رائے یہی ہے کہ بچے شعر و شاعری کو زیادہ پسند کرتے ہیں اسی لیے تو ہمارے بزرگوں نے نصابی کتب کا آغاز شاعری کی صورت میں کیا۔جن میں زیادہ تر حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ جات تھے ۔ان مجموعوں کے نام’’خالق باری‘‘ ،’’ایزد باری‘‘ ،ا ور’’صفت باری‘‘ وغیرہ تھے ۔ان کے مصنفین نے بچّوں کو بڑے آسان اور عام فہم دلچسپ اشعار میں تعلیم دی اور انہیں عربی اور فارسی الفاظ کے معانی سے متعارف کرایا۔
مرزا غالب نے بھی بچوں کی تعلیم کے لئے ’’قادر نامہ‘‘لکھا ۔اس کے بعد نظیر ؔ اکبر آبادی سب سے پہلے شاعر تھے ،جنھوں نے بچوں کے شعری ادب کو مذہب، تعلیم اور تربیت کے عناصر سے الگ کرکے بچوں کے لئے تفریحی موضوعات پر قلم فرسائی کی اور بچوں کو الگ دنیا کی سیر کرائی جس میں ان کے کھیل، تہوار، میلے ٹھیلے، بازار، پرندے اور جانور چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔بچوں کا شعری ادب بچوں کو زیادہ کیوں پسند ہے؟؟ اگر ہم غور کریں تو اس کی کچھ وجوہات ہیں، آئیے ان وجوہات اور خصائص کو تلاش کرتے ہیں جن کی بدولت بچے شعری تخلیقات کو زیادہ پسند کرتے ہیں:۔
1۔ اختصار:
شاعری میں اختصار کے ساتھ بات بیان کی جاتی ہے اور اس اختصار میں جامعیت بھی پائی جاتی ہے۔ بچے ناپختہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں، اس لیے اختصار کو پسند کرتے ہیں اور اسے جلدی قبول بھی کر لیتے ہیں۔
2۔غنائیت :
شاعری میں غنائیت اور موسیقیت کا عنصر ہوتا ہے جو اسے دلکش بنا دیتا ہ۔- بچے اسے لہک لہک کر پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں، اسی لیے شاعری زیادہ مقبول ہے۔
3۔ موزونیت :
جب شعر میں خاص وزن اور قافیہ و ردیف موجود ہوتے ہیں اور سننے پڑھنے میں موزونیت آ جاتی ہے تو یہ چیز بچوں کے سامعہ کے لیے خاص بن جاتی ہے۔ راقم نے اس چیز کا مشاہدہ تب کیا جب چھوٹے درجات کے بچوں کے سامنے نثری پہیلیاں پیش کیں، بچوں نے انھیں توجہ سے سنا اور لطف اندوز بھی ہوئے، اس کے بعد کچھ منظوم پہیلیاں پیش کی گئیں، بچوں کو موزونیت کی بنا پر منظوم پہیلیاں زیادہ پسند آئیں مزید حیران کن بات یہ تھی کہ چند بچے تو منظوم پہیلیاں سننے کے بعد زبانی بھی یاد کر چکے تھے، اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بچوں کے ادب میں شاعری نثر سے زیادہ مقبول ہے۔
4۔ جوش و ولولہ :
شعر و شاعری میں الفاظ کا نظم و ضبط ہیجان خیز ہوتا ہے اور جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ اسی قاعدے کی رو سے بچوں کا شعری ادب بھی بچوں کے جذبات کو متاثر کرتا ہے اور ان کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے۔ محنت کے بارے میں اشعار سن کر محنت کی جانب راغب ہوتے ہیں اسی طرح صفائی، تعلیم، اخلاق، سچائی اور دیگر موضوعات کی منظومات ان کے اندر جذبات کو اجاگر کرتی ہیں۔
5۔ تخیلاتی دنیا :
نظمیں بچوں کو خوابوں کے دیس میں لے جاتی ہیں۔ بچے اپنے تخیل میں وہ مناظر دیکھتے ہیں جو شاعر انہیں دکھانا چاہتا ہے۔حالی نے بھی لکھا ہے کہ شعر کی تاثیر مسلم ہے، اس لیے شاعری ایک تو بچوں کی تخیلاتی پرواز کو بہتر بناتی ہے اس کے علاوہ شاعری میں ذوق رکھنے والے بچوں کی فہم اور ذکاء کو جلا ملتی ہے۔
6۔ تدریس کے لیے سہل :
شاعری میں ایک مخصوص شیرینی پائی جاتی ہے جس کی بنا پر شاعری بچوں کی تدریس کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، اس لیے بچوں کو ابتدائی جماعتوں میں نظمیں یاد کرائی جاتی ہیں۔
7۔ حفظ میں آسانی :
نثر کے مقابلے میں نظم کو انسانی ذہن جلد قبول کرتا ہے۔ بچے بھی شاعری کو جلد یاد کر لیتے ہیں۔اس کے لیے ہم قادر نامہ کو دیکھ لیں یا حیدر بیابانی کی لکھی ہوئی کتاب ’’انگلش نامہ ‘‘جو کہ اردو انگریزی لغت پہ مشتمل ہے۔ ہر دو کتب میں پائے جانے والے اشعار بچوں کو جلد یاد ہو جاتے ہیں۔ان وجوہات اور خصائص کی بنا پر بچوں میں شاعری زیادہ مقبول ہے۔
ڈاکٹر اطہر پرویز اپنی کتاب ادب کا مطالعہ میں لکھتے ہیں :۔
’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں نثر سے پہلے شاعری وجود میں آئی۔یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں یہی صورت حال پیش آئی – سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں؟ لیکن جب ہم اس پر غورکرتے ہیں تو یہ بات ہماری سمجھ میں آجاتی ہے – یہ تو آپ جانتے ہیںکہ بچے بھی نثر کے مقابلے میں مترنم لوریوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں، چنانچہ انسانی تہذیب بھی جب اپنے بچپن میں تھی تو اس وقت اس نے نثر کے مقابلے میں نظم کو ترجیح دی تھی۔‘‘ (2)
اس اقتباس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ انسان نے جب مافی الضمیر کا اظہار کیا تو اپنے جذبات کے ابلاغ کے لیے شاعرانہ انداز کو پسند کیا اور یوں ادب میں شاعری کو اولیت ملی۔
شاعری چھوٹوں اور بڑوں سب کے لیے کشش رکھتی ہے، اس میں پائے جانے والے سر اور تال، ترنم اور موسیقیت اسے انسانی جذبات کے مناسب بنادیتے ہیں اور یوں انسان مسرت اور شادمانی کی کیفیات میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن بچوں اور بڑوں کے شعری ادب میں فرق ہے، یہ وہی فرق ہے جو ادب اطفال اور عام ادب میں ہے یعنی بچوں کے شعری ادب کے موضوعات کو بچوں کے مزاج و میلانات کے مطابق ہونا چاہیے، نیز یہ موضوعات اس کے لیے مفید بھی ہوں۔ بچوں کے شعری ادب میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟؟ آئیے ان خوبیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں:
1۔بچوں کے لیے شاعری علم و اخلاق کے موضوع پر ہو
2۔شاعری سہل ہو
3۔شاعری میں چھوٹی بحور ہوں
4۔سیاسی موضوعات نہ ہوں
5۔مبالغہ آرائی نہ ہو
6۔مایوس کن شاعری نہ ہو
7۔بنیادی عقائد کا بیان ہو
8 ۔فطرت نگاری پہ شاعری ہو
9۔بچوں کے لیے دلچسپ اور مزاحیہ شاعری بھی ہو
10۔چرند پرند اور جانوروں پہ شاعری ہو
11۔اعلیٰ اقدار کی طرف راغب کرنے والی شاعری ہو
13۔حیرت و استعجاب کو ابھارنے والی شاعری ہو
14۔ موت کے موضوع پر شاعری نہ ہو
15۔ حب الوطنی پہ شاعری ہو
مشیر فاطمہ بھی بچوں کی شاعری کی خصوصیات کے بارے میں لکھتی ہیں:۔
’’ان کے لیے تو ایسی نظمیں ہوں ، جس میں خوشی اور زندگی کے گیت ہوں،نظم میں صرف ُتک بندی ہی نہ ہو بلکہ اس میں تخلیقی چنگاریاں ضرور ہوں،خود بچوں کے موضوع پر نظمیں بچوں کے مجموعے کے لیے مناسب نہیں، وہ تو بڑوں کے مجموعوں میں زیادہ مناسب رہیں گی۔بچوں کے مجموعے میں بیانیہ نظمیں، تمثیلی ڈرامے اور غنائیہ نظمیں شامل کرنا چاہئیں – بیانیہ نظمیں بہت لمبی نہ ہوں اور نہ اس میں فلسفے اور سیاست کی باتیں ہوں جو ان کے تجربے اور سمجھ سے باہر ہوں۔‘‘(3)
مشیر فاطمہ نے بچوں کی شاعری کو رنگین ورعنا بنانے کی سفارش کی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے محض قافیہ پیمائی کو کار عبث سمجھا ہے اور بچوں کی شاعری کو بامقصد بنانے پہ زور دیا ہے۔
ادب اطفال میں جو شاعری وجود میں آ چکی ہے اس میں بچوں کے لیے ہر موضوع پر طبع آزمائی کی گئی ہے، اس ضمن میں ہمیں حمدیہ، نعتیہ، ملی، اصلاحی، اسلامی، مزاحیہ، مناظر فطرت، کھیل کود، تہوار گیت، مترنم لوریاں، منظوم کہانیاں اور اخلاقی شاعری بھی ملتی ہے۔بچوں کے شعراء کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ابتدائی طور پر نصابی ضرورت کے تحت لکھی جانے والی شاعری ملتی ہے جیسا کہ امیر خسرو کا لکھا ہوا لغت خالق باری ہے اور اس کے بعد اس نوع کی دیگر کتب ہیں جیسا کہ نصاب الصبیان اور غالب کا لکھا ہوا قادر نامہ۔ ان کتب میں الفاظ معانی کو شعر و شاعری کے انداز میں پیش کیا گیا ہے یا پھر حمدیہ و نعتیہ موضوعات پر شاعری ملتی ہے۔ لیکن اس دور میں بچوں کا شعری ادب بچوں کی دلچسپی کے حامل موضوعات سے خالی تھا ۔پھر ہمیں اردو ادب اطفال کے پہلے باقاعدہ شاعر نظیر اکبر آبادی کی منظومات ملتی ہیں جنہوں نے اس کمی کو پورا کیا ہے ۔نظیر کے بعد محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور اسماعیل میرٹھی جیسے شعراء نے بچوں کے شعری ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اسماعیل میرٹھی کی شاعری تو ادب اطفال کا ایک مستقل باب ہے، کیوں کہ انہوں نے بچوں کے شعری ادب میں سب سے زیادہ کام کی۔- ان کے علاوہ حامد اللہ افسر، حفیظ جالندھری، شفیع الدین نیر ،عادل اسیر دہلوی جیسے بڑے نام بھی ادب اطفال کے شعراء کی فہرست میں شامل ہیں۔ بچوں کا شعری ادب حمدیہ اور نعتیہ منظومات میں بے مثال ہے اور بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن دلچسپ اور پر مزاح منظومات بہت کم ہیں، یقیناً اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ڈاکٹر اسد اریب صاحب نے لکھا ہے :۔
’’دوسرے یہ کہ شاعری اور ادب میں اصلاح و تربیت کے جنون نے لوگوں کو مقصدیت کا ایسا مریض بنا دیا ہے کہ وہ بچوں کی شاعری کے ن تقاضوں کو بھی بھول جاتے ہیں جو نفسیات اطفال کا لازمہ ہیں،چنانچہ جو شاعری بچوں کے لیے اس وقت تخلیق کی جارہی ہے، وہ اخلاقی
، مذہبی اور ملی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر بحر نہیں ملتی، نہ پرندے ہیں، نہ طوطے، کوے، بلبلیں، نہ چوہے بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں شوخیاں اور تحیر ہے نہ چہلیں۔‘‘ (4)
اسد اریب صاحب نے ان تمام موضوعات کا ذکر کیا ہے جن میں بچے بطور خاص دلچسپی لیتے ہیں۔کیوں کہ اگر بچوں پہ صرف نصیحت کا بوجھ لادا جائے اور ان کی فطری اور ذہنی کیفیات کا خیال نہ رکھا جائے تو بچے نصیحت قبول ہی نہیں کریں گے الٹا وہ بیزار ہو جائیں گے۔اس لیے بچوں کو نصیحت دلچسپ اسلوب میں لپیٹ کر دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ناصحانہ مواد اس کے ذہن میں راسخ ہو جائے اور بچہ اس سے بیزار بھی نہ ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں بھی نصائح کو امثلہ کے ذریعے بیان کرنے کے کئی واقعے ملتے ہیں جیسا کہ پنج وقتہ نماز پڑھنے والے کے مقام کو اس شخص کی مثال کے ساتھ سمجھایا گیا ہے جو روزانہ پانچ بار نہاتا ہو۔ اسی طرح صراط مستقیم کی وضاحت کے لئے سیدھی اور ٹیڑھی لکیریں کھینچی گئی تھیں۔
حالیہ دور میں جو شعراء بچوں کا شعری ادب تخلیق کر رہے ہیں ان میں سے ضیاء اللہ محسن، احمد عدنان طارق ، اثر جون پوری ، افق دہلوی، ابصار عبدالعلی، احمد حاطب صدیقی ، ضیاء الحسن ضیاء ، عباس العزم، مشتاق حسین قادری، حمایت علی شاعر، احمد صغیر صدیقی، امان اللہ نیر شوکت، سلطان کھاروی، شریف شیوہ،آصف ثاقب، افتخار عارف، ڈاکٹر بدر منیر اور ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ دیگر کئی شعراء ادب اطفال میں اچھی اچھی شاعری تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔

سہ ماہی ادبیات اطفال کی منظومات کا موضوعاتی مطالعہ
اردو شاعری میں ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے بچوں کے لیے ہر طرح کی منظومات موجود ہیں۔انہی منظومات کی وجہ سے بچوں کا شعری ادب ہرے بھرے گلستان کی مانند حسین لگتا ہے۔ بچے فطرتاً شعر سننا، پڑھنا اور گنگنانا پسند کرتے ہیں اور شعر جلدی یاد بھی ہو جاتے ہیں۔ اشعار کو گا کر باڈی لینگویج کے ساتھ پڑھنا بھی بچوں کے لیے تفریح کا باعث ہوتا ہے، اسی لیے بچوں کے ادب میں شعر کی اہمیت مسلم ہے۔ اگر بچوں کی درسی کتب پہ نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ابتدائی درسی کتب اشعار کی صورت ہی میں ملتی ہیں جیسا کہ قادر نامہ وغیرہ ۔ آج تک بچوں کی ابتدائی تدریس کے ضمن میں نظموں کو اہمیت دی جاتی ہے تاکہ بچے تعلیم و تعلم میں دلچسپی لیں۔ ہم اپنے اسکولوں میں اس بات کا بآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بچوں کی ابتدائی کلاسز میں اول اول آسان نظمیں یاد کرائی جاتی ہیں جنہیں بچے باڈی لینگویج کے ساتھ گنگناتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی شعر و شاعری کے زمرے میں بچوں کے لیے منظومات کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ سہ ماہی ادبیات اطفال میں شامل نظمیں موضوعات کے اعتبار سے درج ذیل اقسام میں تقسیم کی جا سکتی ہیں۔
1۔حمدیہ نظمیں
2۔ نعتیہ نظمیں
3۔ ملی و قومی نظمیں
4۔ اصلاحی نظمیں
5۔ مزاحیہ و دلچسپ نظمیں
6۔ منظوم کہانیاں/کہانی نظمیں
7۔ مشاہداتی و فطری نظمی
8۔متفرق منظومات
اب ہم ہر قسم کی نظموں کا تفصیلی جائزہ لیں گے:۔
1۔حمدیہ نظمیں : ( کل 10 منظومات)
بچوں کی منظومات میں حمدیہ نظمیں سب سے پہلے نمبر پر ہیں۔ایسی منظومات بچوں کی درسی کتب اور بچوں کے رسائل کے آغاز میں ہوتی ہیں۔ سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی حمدیہ نظمیں موجود ہیں۔ یہ ایسی منظومات ہیں جن میں بچوں کے لیے عام فہم اور آسان اسلوب میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کو پیش کیا جائے۔ان نظموں میں شاعر بچوں کی ذہنی سطح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے موضوع پیش کرتا ہے۔ہمارے ہاں اسکولز میں اردو کی ہر درسی کتاب کے شروع میں حمدیہ نظم ہوتی ہے علاوہ ازیں بچوں کے بیشتر رسائل کا آغاز بھی حمدیہ منظومات سے ہوتا ہے۔ ان منظومات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ مناظر فطرت کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ کی کاریگری و صناعی کا تصور ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ بچوں کے تمام شعراء اپنے دامن میں ایسی منظومات کا خزانہ رکھتے ہیں۔
اختر شیرانی ایک معروف شاعر ہیں ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی ایک حمد ملاحظہ فرمائیں:۔

تو سب کا مالک
سب کا خدا تو
بے آسرا ہم
اور آسرا تو
بندوں پہ شفقت
ہے کام تیرا
لیتے ہیں ہر دم
ہم نام تیرا
تو نے بنائی
یہ ساری دنیا
یہ خوب صورت
یہ پیاری دنیا
ہے عام سب پر
احسان تیرا
اختر کو یا رب
ہے دھیان تیرا

(1) سب سے پہلے شمارے میں صرف ایک حمد ہے۔ یہ سہ ماہی ادبیات اطفال کی پہلی حمد ہے۔ اس حمد کے مطالعہ سے چند امور کے بارے میں معلوم ہوتا ہے مثلاً :۔

٭ توحید باری تعالیٰ جیسا کہ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ایک ہے تو دوسرا کوئی نہیں
ہاں خدا تیرے سوا کوئی نہیں
تیری وحدت کو نہیں جو مانتے
ان کا حق سے واسطہ کوئی نہیں

٭مظاہر فطرت کا ذکر، جیسے اس شعر سے واضح ہے :

پیڑ کو دی شاخ، شاخوں کو ثمر
اس سے بڑھ کر سلسلہ کوئی نہیں

٭ابدیت باری تعالیٰ کا تذکرہ جیسے :

ہے ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیے
ابتدا اور انتہا کوئی نہیں
تو ہے لافانی نہیں ثانی ترا
دوسرا ہم سر ترا کوئی نہیں

مجموعی طور پر یہ نظم بچوں کے عقائد کے لیے عمدہ فکری مواد رکھتی ہے اور اس کے اشعار بھی بچوں کے لیے سہل ہیں۔اس حمد کے کل چھے اشعار ہیں اور اس کے شاعر ابصار عبدالعلی ہیں۔
2) (سہ ماہی ادبیات اطفال کی دوسری حمد شمارہ نمبر دو میں موجود ہے لیکن یہاں یہ دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ حمد پہلے شمارے والی ہے جس کا ہم تذکرہ کر چکے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ غلطی سے لگادی گئی ہو کیوں کہ اس کے بعد ایک اور حمد بھی شامل اشاعت ہے۔ اب ہم اسی کا جائزہ لیتے ہیں۔
(3) تیسری حمد شمارہ نمبر دو میں ہی ہے۔اس حمد کے آٹھ اشعار ہیں۔ اس کے شاعر ضیاء الدین نعیم ہیں۔اس حمد میں درج ذیل موضوعات کو پیش کیا گیا ہے:۔
٭اللہ تعالیٰ کی شان اور کبریائی جیسا کہ یہ اشعار شاہد ہیں :

تیری شایانِ شاں ہے ہر تعریف
تو، کہ ہر عیب سے مبرا ہے
تیری فرماں روائی ہے ہر سو
ہر طرف حکم تیرا چلتا ہے

٭اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حاجت روائی کا ذکر:

عرض احوال ہے تجھی سے بجا
تو، فقط، تو ہی سب کی سنتا ہے
تو ہی دیتا ہے فکروغم سے نجات
کارسازی، ترا ہی شیوہ ہے

٭اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا سبق:

عافیت ہے تری اطاعت میں
فائدہ اس میں خود بشر کا ہے
لائق رشک ہے وہ فرد نعیم
دل میں اللہ جس کے بستا ہے

اس حمد میں روانی کی کمی ہے لیکن موضوعات کے اعتبار سے یہ حمد بچوں کے لیے مفید ہے۔
4) (سہ ماہی ادبیات اطفال کی چوتھی حمدشمارہ نمبر تین میں ہے۔ یہ مثلث بند پہ مبنی ہے۔مثلث ایسی نظم ہوتی ہے جس کے ہر بند میں تین مصرعے ہوں۔اس حمد میں پانچ بند ہیں۔ہر بند کا تیسرا مصرعہ ٹیپ کا مصرعہ ہے۔ ٹیپ کا مصرعہ ایسے مصرعے کو کہتے ہیں جو پوری نظم میں بار بار دہرایا جائے۔اس حمد میں ٹیپ کا مصرعہ ہے:۔

’’وہ ہے اللہ! میرا اللہ‘‘

ایسی منظومات بچوں کے لیے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہیں جنہیں لہک لہک کے پڑھا جا سکے، یہ بھی ایسی ہی حمد ہے۔ اس میں کچھ موضوعات پیش کیے گئے ہیں مثلاً :۔
٭اللہ تعالی کی ذات حاجت روا ہے ،جیسا کہ یہ بند قابلِ مطالعہ ہیں:۔

سب کا دامن بھرنے والا
قسمت روشن کرنے والا
وہ ہے اللہ، میرا اللہ
وہ ہے مولا آقا سب کا
بے شک وہ ہے داتا سب کا
وہ ہے اللہ میرا اللہ
آج نہیں تو کل کرتا ہے
وہ ہی مشکل حل کرتا ہے
وہ ہے اللہ، میرا اللہ

٭ ہدایت کا مالک،جیسا کہ یہ بند:

سچی راہ دکھانے والا
بچھڑے ہوؤں کو ملانے والا
وہ ہے اللہ، میرا اللہ
٭اللہ تعالیٰ کے لیے قربان ہونے کا جذبہ:
جینا مرنا اس کی خاطر
جو بھی کرنا اس کی خاطر
وہ ہے اللہ، میرا اللہ

یہ ایک بہت ہی پیاری حمد ہے جسے الطاف حسین صاحب نے لکھا ہے۔موضوع اور پیشکش دونوں لحاظ سے بے مثال ہے۔
5) (پانچویں حمد شمارہ نمبر چار میں موجود ہے۔یہ حمد ریاض ندیم نیازی نے لکھی ہے۔ یہ حمد چھوٹی بحر میں ہے۔اس حمد میں بچوں کے لیے درج ذیل اسباق پیش کیے گئے ہیں:۔
٭کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جیسے کہ یہ شعر دیکھیے:۔

یہ فلک یہ زمیں
ان کے سارے مکیں
سب سے تو ماورا
اے خدا اے خدا
تو ہے سب سے بڑا

٭سب عنایات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جیسا کہ اس شعر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:۔

سب کھلونے ہمیں
بخشے تو نے ہمیں
شکریہ شکریہ شکریہ شکریہ
اے خدا اے خدا
تو ہے سب سے بڑا

اس حمد میں موسیقیت ہے اور بچوں کے پڑھنے کے لیے عام فہم زبان بھی استعمال کی گئی ہے۔اس حمد میں بچوں کے اذہان میں اللہ تعالیٰ کے حاجت روا ہونے کا تصور ڈالا گیا ہے۔
6) (چھٹی حمد شمارہ نمبر پانچ میں ہے۔ اس حمد کے شاعر ریاض عادل ہیں۔ اس حمد کے ہر بند میں چار مصرعے ہیں، یوں اسے مربع بند بھی کہہ سکتے ہیں۔اس نظم میں’’اے خدائے انس و جاں‘‘کو ٹیپ کے مصرع کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں جاں کا معنیٰ قوم جنات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسان و جنات کا خدا ہے جیسا کہ قرآن پاک کی سورہ رحمان میں فرمایا گیا کہ
’’تم دونوں (انسان و جنات) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
اس حمد کا موضوعاتی جائزہ لیا جائے تو یہ موضوعات ملتے ہیں:۔
٭ اللہ تعالیٰ کا مالک و محافظ ہونا ،جیسے پہلے بند میں شاعر لکھتا ہے:

یہ زمیں اور آسماں
اور ہیں جتنے جہاں
تو ہے سب کا پاسباں
اے خدائے انس و جاں

٭مناظر فطرت سے توحید کا تصور اجاگر کرنا ،جیسا کہ دیکھیے:

نیل گوں آب رواں
اس پہ چلتی کشتیاں
سب ترے تسبیح خواں
اے خدائے انس و جاں

چھوٹے چھوٹے اشعار کو یاد کرنا بچوں کے لیے بے حد آسان ہوتا ہے، یہ بھی ایک ایسی ہی حمد ہے۔
7) (سہ ماہی ادبیات اطفال کی ساتویں حمد شمارہ نمبر چھے میں ہے۔محمد مشتاق حسین قادری کی لکھی ہوئی یہ حمد پانچ اشعار پہ مشتمل ہے۔اس حمد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بھی بیان کی گئی ہے ۔اہم موضوعات یہ ہیں:۔
٭قدرت باری تعالیٰ:

ہر شے میں عیاں قدرت و عظمت ہے خدا کی
کونین کی وسعت میں حکومت ہے خدا کی

٭تشکر باری تعالیٰ:

امت میں شہ دین کی شامل کیا ہم کو
ہم عاصیوں پر خاص عنایت ہے خدا کی

٭ شان محمد مصطفی ﷺ:

تعظیم محمد اگر اس میں نہیں شامل
مردود ہے ایسی جو عبادت ہے خدا کی

یہ حمد موضوعاتی اعتبار سے شاندار ہے لیکن یہ چھوٹے بچوں کے لیے آسان نہیں ہے بلکہ دس سال کے اوپر کے بچوں کے لیے موزوں رہے گی۔
8) (آٹھویں حمد شمارہ نمبر سات میں ہے۔اس کے شاعر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد ہیں۔حمد کے چھے اشعار ہیں۔ اس میں درج ذیل موضوعات پیش کیے گئے ہیں:۔
٭اللہ تعالیٰ کی ملکیت:۔

خدا کی شان عالی ہے
وہ بحروبر کا والی ہے
زمین و آسماں اس کے
یہ سارے ہیں جہاں اس کے

٭اللہ تعالیٰ کی رزاقی:۔

غذا دیتا ہے وہ گھر گھر
ہمیشہ جھولیاں بھر بھر

٭ اختیار کل کا مالک اللہ تعالیٰ ہے:

وہ حاکم ہے زمانے کا
وہ مالک کل خزانے کا

یہ حمد فن وفکر دونوں پہلوؤں سے بچوں کے لیے مفید ہے۔
9) (شمارہ نمبر 8اور9 ایک جلد میں شائع ہوئے، اور نویں حمد اسی شمارے میں ہے، لیکن یہ وہی حمد ہے جس کا جائزہ ہم ابھی لے چکے ہیں،جس کو ڈاکٹرمحمد ریاض شاہد نے لکھا ہے۔ یقیناً شمارہ ترتیب دینے والوں سے غلطی ہوئی اور انہوں نے پچھلے شمارہ والی حمد دوبارہ شامل کر دی۔
10) (دسویں حمد شمارہ نمبر دس میں شامل ہے۔یہ نظم محمد نوید مرزا کی کاوش ہے۔اس حمد میں تین بند ہیں اور ہر بند چار مصرعوں پہ مشتمل ہے۔اور ہر بند میں ایک ٹیپ کا مصرعہ بھی ہے جو کہ یہ ہے:۔

’’ہر سمت نظر آتے ہیں قدرت کے نظارے‘‘

اس پوری حمد میں مناظر فطرت کو پیش کیا گیا ہے اور اس میں بچوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان سب چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت واضح ہوتی ہے مثلاً ایک بند ملاحظہ فرمائیں:۔

یہ کھیت، یہ کھلیان، پہاڑ اور یہ باغات
ہر سمت نظر آتے ہیں قدرت کے کمالات
افلاک پہ روشن ہیں مقدر کے ستارے
ہر سمت نظر آتے ہیں قدرت کے نظارے

یہ حمد سہ ماہی ادبیات اطفال کے شایع ہونے والے شماروں کی آخری حمد ہے۔
نعتیہ نظمیں: (کل 14 منظومات)
ان نظموں میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان پیش کی جاتی ہے۔ درسی کتب اور بچوں کے رسائل میں حمد کے بعد نعت پیش کی جاتی ہے۔ نعت میں بچوں کے شاعروں نے مختلف موضوعات پیش کیے ہیں مثلاً
ٌٌٌ٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہادی ہونا
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بچوں سے شفقت
٭صبر و استقامت کی مثالیںوغیرہ۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں بچوں میں نعت خوانی کا ذوق بھی ملتا ہے اور اسکولوں میں صبح کی اسمبلی میں نعتیں پیش کی جاتی ہیں۔ بعض مواقع پر نعتیہ مقابلے بھی منعقد ہوتے ہیں جن میں بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی ایک نعت دیکھیے، اس نعت کے اشعار بچوں میں زبان زد عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں:۔
نعت :نبی ہمارے
شاعر :صُوفی غلام مُصطفیٰ تبسم

نبی ہمارے ، نبی ہمارے
وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
وہ راہبر ، راہنما ہمارے
نبی ہمارے ، نبی ہمارے
دُرُود اُن پر ، سلام اُن پر
بلند،نبیوں میں نام اُن کا
فلک سے اُونچا مقام اُن کا
ہمارے ہادی ، خُدا کے پیارے
نبی ہمارے ، نبی ہمارے
دُرُود اُن پر ، سلام اُن پر
اُنھی کی خاطر دمک رہے ہیں
اُنھی کے دم سے چمک رہے ہیں
زمیں کے ذرے ، فلک کے تارے
نبی ہمارے ، نبی ہمارے
دُرُود اُن پر ، سلام اُن پر
اُنھی کی سرکار کے گدا ہیں
اُنھی کے دربار کے گدا ہیں
جہاں کے یہ تاج دار سارے
نبی ہمارے ، نبی ہمارے
دُرُود اُن پر ، سلام اُن پر

اردو ادب اطفال میں حمد کے بعد نعت پہ سب سے زیادہ طبع آزمائی کی گئی ہے۔ ادب اطفال کی شاعری میں نعتیہ نظموں کا ایک گراں قدر ذخیرہ موجود ہے۔سہ ماہی ادبیات اطفال کے شماروں میں شائع ہونے والی نعتیہ منظومات کا جائزہ لیا گیا ہے جو کہ ذیل میں پیش ہے ۔
1) (پہلی نعت شمارہ نمبر ایک میں ہے۔ یہ نعت ناصر زیدی نے لکھی ہے۔اس کے اشعار سات ہیں۔ اس نعت میں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور عظمت کو بیان کیا ہے۔اس میں بیان کردہ اہم موضوع یہ ہیں:۔
٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبع ہدایت ہیں:۔

حق کا پیغام سنانے آئے
آپ انسان بنانے آئے
بھیجا خالق نے ہدایت کے لیے
بگڑی تقدیر بنانے آئے

٭معجزہ نبی کریم کا تذکرہ :۔
ایک تلمیحی شعر سے شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ کو بیان کیا ہے :

پتھروں کو بھی ملی گویائی
لب پہ مدحت کے ترانے آئے

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم اخلاق ہیں :

غیر ممکن تھی یہاں رسم وفا
آپ آداب سکھانے آئے

(2) دوسری نعت بھی شمارہ نمبر ایک میں ہے۔یہ نعت محمد نوید مرزا کی لکھی ہوئی ہے۔ اس میں چار بند ہیں۔ اس نعت کے اہم موضوع یہ ہیں:۔
٭دنیا کا حسن آپ کی وجہ سے ہے، جیسا کہ یہ بند ملاحظہ فرمائیں:

دنیا کے پرنور نظارے
یہ سورج یہ چاند ستارے
ان کے رخ سے روشن سارے
میرے نبی ہیں سب سے پیارے
میرے نبی ہیں سب سے پیارے

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا ذکر، جیسا کہ یہ بند دیکھیے :

لطف و کرم انعام ہے ان کا
شفقت کرنا کام ہے ان کا
عظمت والا ہے نام ان کا
میرے نبی ہیں سب سے پیارے
میرے نبی ہیں سب سے پیارے

٭مدینہ پہنچنے کی حسرت کا بیان:

آنکھوں کی میں پیاس بجھاؤں
جلوے ان کے دل میں بساؤں
کاش مدینے میں بھی جاؤں
میرے نبی ہیں سب سے پیارے
میرے نبی ہیں سب سے پیارے

3) (تیسری نعت بھی پہلے شمارے کی زینت بنی ہوئی ہے۔ یہ نعت محمد مشتاق حسین قادری کی ہیں۔ اس نعت کے آٹھ اشعار ہیں۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت میں اشعار لکھے ہیں۔ان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔موضوعاتی جائزہ کچھ یوں ہے:۔
٭مدینہ منورہ کی حاضری کی دعا،یہ تمنا یوں پیش کی گئی ہے:۔

مدینہ بلا لیجیے یا رسول
دعا میری ہو جائے اب تو قبول
مدینے کا راہی، مدینے کی دھول
سلام عقیدت ہو میرا قبول

٭محبت رسول کی عظمت کا ذکر:

اسے بادشاہت جہاں میں ملی
میسر جسے آیا عشقِ رسول

یعنی شاعر کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دنیاوی فلاح کا ذریعہ ہے۔
(4) چوتھی نعت شریف شمارہ نمبر دو میں ہے۔ اس نعت کے شاعر حسن عباس رضا ہیں۔ اس نعت کے پانچ اشعار ہیں۔ یہ ایک عام فہم اور سہل اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ بچوں کے لیے اسے یاد کرنا اور سمجھنا نہایت آسان رہے گا۔ موضوعات یہ ہیں:۔
٭ آپ کی محبت کا جذبہ، جیسا کہ پہلے شعر میں نمایاں ہے:۔

یا نبی آپ کا نام روشن رہے
میرے گھر کا ہر اک بام روشن رہے
آپ کی نعت سے صبح آغاز ہو
آپ کے نام سے شام روشن رہے

٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ملاحظہ فرمائیں:۔

میرے کاسے میں ان کے دلاسے گریں
اس وسیلے مرا کام روشن رہے
آرزو ہے کہ ذکر نبی سے حسن
مجھ سے ناچیز کا نام روشن رہے

(5) پانچویں نعت شمارہ نمبر دو میں شامل ہے۔ یہ نعت پانچ اشعار کا مجموعہ ہے۔ اس کے شاعر باقر نیازی ہیں۔ اس نعت میں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضلیت کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً:۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھرانہ اعلیٰ
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ٹھکانہ اعلیٰ
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پڑھا گیا ترانہ اعلیٰ ہے
چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

گھروں میں ان کا گھرانہ ہے اعلیٰ
زمانوں میں ان کا زمانہ ہے اعلیٰ
محمد کی نسبت سے اعلیٰ بنا ہے
مدینے میں ان کا ٹھکانہ ہے اعلیٰ
مہکنے لگی گفتگو بھی ہماری
لبوں پر جو آیا، ترانہ ہے اعلیٰ

6) (چھٹی نعت شمارہ نمبر تین کا حصہ ہے۔ اس میں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و شوکت کو ظاہر کیا ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات سے افضل آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس ذات ہے۔ اس نعت کے شاعر خورشید ربانی ہیں۔ نعت کے اشعار پانچ ہیں۔ اس نعت کا جائزہ کچھ یوں ہے:۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب ہر چیز کرتی ہے۔ یہ اس نعت کا مرکزی خیال ہے۔ اس نعت کے پس منظر میں وہ تمام واقعات ذہن میں گھوم جاتے ہیں جن میں دور نبی کے جمادات و نباتات تک کے بارے میں بہ سند یہ ذکر ملتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرتے تھے،درخت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے جھک جاتے تھے، پتھروں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا وغیرہ۔ چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

اشکوں کی اوٹ لے کے بھی پلکیں جھکی رہیں
دیکھیں در حضور پہ آنکھوں کی احتیاط
دیکھی ہے ہم نے شہر مدینہ میں جس قدر
دیکھی نہیں کہیں بھی وہ سانسوں کی احتیاط
نعت رسول پاک لکھا چاہیے مگر
معنیٰ کی احتیاط ہو اور لفظوں کی احتیاط

یہ ایک منفرد اور پیاری نعت ہے۔اگرچہ یہ نعت چھوٹے بچوں کے لیے دشوار ہو گی لیکن بڑے بچوں کے لیے یہ بہت پسندیدہ ہو گی۔
7) (ساتویں نعت بھی تیسرے شمارے میں شامل اشاعت ہے۔یہ نعت محمد مشتاق حسین قادری نے لکھی ہے۔ اس کے کل چار اشعار ہیں۔ یہ نعت سلاموں پہ مشتمل نعت ہے۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں تحفہ ٔسلام پیش کیا ہے۔
مثلاً یہ اشعار دیکھیے:۔

حضور آپ کی عظمت پہ بے شمار سلام
حضور آپ کی رفعت پہ بار بار سلام
غلام آپ کا مشتاق، دید کا طالب
قبول کیجیے طیبہ کے شہریار سلام

8) (آٹھویں نعت شمارہ نمبر چار میں موجود ہے۔ اس نعت کے شاعر ریاض عادل ہیں۔ انہوں نے اپنی نعت میں عرب کے تاریک دور کا ذکر کیا ہے جیسا کہ ملاحظہ ہو:۔

بعد ان کے اندھیروں کی اک نہ چلی
روشنی بن کے آئے، ہمارے نبی

اس کے علاوہ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کا تذکرہ کیا ہے:
٭ صداقت :

جھوٹ سے عمر بھر ان کو نفرت رہی
آپ نے جو کہی، بات سچی کہی

٭امانت :

آپ مشہور تھے جس طرح سے امیں
ایک بھی تو مثال اس جہاں میں نہیں

٭ وعدہ کے پکے:

آپ نے جب کسی سے بھی وعدہ کیا
خوب پکا کیا اور پورا کیا

یوں یہ نعت بچوں کو بہت سارے اخلاقی اسباق بھی پیش کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بھی بیان کرتی ہے۔
9) (نعت نمبر نو پانچویں شمارے میں شامل ہے۔یہ نعت شہاب صفدر نے لکھی ہے۔ اس کے چھے اشعار ہیں۔ یہ نعت شاعر کی داخلی کیفیت کی آئینہ دار ہے۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے بارے میں اپنی سوچ کو ظاہر کیا ہے جیسا کہ ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے:

جب مدینے کا خیال آتا ہے
اور جینے کا خیال آتا ہے
جس سے پہنچوں فلک عظمت پر
ایسے زینے کا خیال آتا ہے
کیسی جاں بخش فضا ہے، دل کو
زخم سینے کا خیال آتا ہے

اس ساری نعت میں اس جیسے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے جو شاعر کی عقیدت و محبت کے مظہر ہیں۔
10) (دسویں نعت شمارہ نمبر پانچ میں موجود ہے۔اس نعت کے شاعر ریاض ندیم نیازی ہیں۔ یہ نعت مربع بند پہ مشتمل ہے۔ ہر بند کا آخری مصرعہ ٹیپ کا مصرعہ ہے۔اس نعت کے موضوعات درج ذیل ہیں:۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضلیت ،جیسا کہ اس بند میں ہے :

ہر لقب سے ہے افضل لقب آپ کا
سب سے اعلیٰ ہے نام و نسب آپ کا
آپ ہیں چاند باقی ستارے نبی
سب سے افضل نبی، سب سے پیارے نبی

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن و جمال :

چاند سورج سے بڑھ کر جمال آپ کا
سب سے افضل ہے حسن کمال آپ کاِ
محترم ہیں اگرچہ وہ سارے نبیِ
سب سے افضل نبی سب سے پیاِرے نبی

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا قابل تقلید ہونا:۔

ہے سلیقہ وہی اک سلیقہ فقط
سب سے بہتر ہیوہ اک طریقہ فقط
زندگی جس طرح سے گزارے نبی
سب سے افضل نبی سب سے پیارے نبی

11) (گیارہویں نعت علی یاسر کی لکھی ہوئی ہے اور یہ نعت سہ ماہی ادبیات اطفال کے شمارہ نمبر چھے میں موجود ہے۔اس کے پانچ اشعار ہیں۔یہ ایک آسان اور سادہ نعت ہے۔ چھوٹے بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق ہے۔ چند موضوعات یہ ہیں:۔
٭صفات النبی کا بیان:

ہے وہی صادق، امیں بھی ہے وہی
عظمت معیار ہے میرا نبی

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھی انسانیت کا سہارا :

خستہ حالوں کا سہارا اس کا نام
دکھیوں کا غم خوار ہے میرا نبی

12) (بارہویں نعت شمارہ نمبر سات میں ہے۔یہ نعت محمد مشتاق حسین قادری کی لکھی ہوئی ہے۔اس نعت کے اشعار چھے ہیں۔ یہ نعت ایک مشہور نعت کی زمین میں لکھی گئی ہے جسے کئی نعت خواں حضرات نے بھی پڑھا ہے۔اس نعت کا پہلا شعر کچھ یوں ہے:

لکھ رہا ہوں نعت سرور سبز گنبد دیکھ کر
کیف طاری ہے قلم پر، سبز گنبد دیکھ کر

جبکہ قادری صاحب نے اپنی نعت کچھ یوں شروع کی ہے :

جاگ اٹھا میرا مقدر سبز گنبد دیکھ کر
لکھ رہا ہوں نعت سرور سبز گنبد دیکھ کر

اس نعت میں مدینہ منورہ کے مناظر پیش کیے گئے ہیں کہ شاعر نے جب روضہ اقدس کی زیارت کی تو اس کے کیا محسوسات تھے۔ چند اشعار پیش ہیں :

روشنی ایمان کی کچھ اور ہی ہوتی ہے فزوں
قلب ہوتا ہے منور سبز گنبد دیکھ کر
خوش نصیبی سے دیار پاک جو پہنچے وہ پھر
واپسی کا سوچے کیوں کر سبز گنبد دیکھ کر

13) (تیرہویں نعت شمارہ نمبر 8اور 9 میں پیش کی گئی ہے۔یہ نعت محمد مشتاق حسین قادری کی لکھی ہوئی ہے۔اس نعت کے چھے شعر ہیں اور اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کی عظمت اور زائر کے احساسات کا بیان ملتا ہے۔ جیسے یہ اشعار دیکھے جا سکتے ہیں :

ہر دم نزول رحمت پروردگار ہے
شہر نبی میں دیکھیے ہر سو بہار ہے
معمول ہے عطاء و نوازش حضور کا
رحم و کرم تو میرے نبی کا شعار ہے

اس کے علاوہ اس نعت میں ایک حدیث کا مفہوم بھی پیش کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’تم میں سے کوئی ایک کامل مومن نہیں بن سکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘
شاعر نے اس حدیث کو شعر میں یوں بند کیا ہے :

جو خوش نصیب صاحب ایمان ہے اسے
اولاد، مال وجان سے سوا ان سے پیار ہے

14) (نعت نمبر چودہ شمارہ نمبر دس میں پیش کی گئی ہے۔یہ نعت ریاض عادل نے لکھی ہے اور اس کے پانچ اشعار ہیں۔اس نعت میں کچھ اہم موضوعات کی تفصیل یہ ہے:۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وجہ ظفر ہیں جیسا کہ شاعر لکھتا ہے:۔

گمراہی اور جہل کی چھٹی ہوئی
آپ کے دم سے ہوئی ہے روشنی

٭آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امن کے پیمبر ہیں ،بقولِ شاعر :۔

خیر کا اور پیار کا اور امن کا
آپ ہی نے ہے دکھایا راستا

مجموعی طور پر یہ نعت فن و فکر دونوں پہلوؤں سے عمدہ کاوش ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top