skip to Main Content

پہلا بندر

احمد عدنان طارق

……..
فلپائن کی لوک کہانی
……..

بہت عرصہ ہوا جب فلپائن پر راموس بادشاہ کی حکومت ہوا کرتی تھی۔وہ بہت سخت گیر طبیعت کا مالک ہوا کرتا تھا۔بلکہ لوگوں پر ظلم کیا کرتا تھا۔اس کی ملکہ اس سے بھی دو ہاتھ زیادہ تھی اور اس کا رویہ بھی عوام کے ساتھ ظالمانہ ہی تھا۔اس کے پاس ان گنت دولت تھی اور وہ ایک بہت شاندار محل میں رہتے تھے۔ اس شاندار محل کے ہر کمرے میں مہاگنی کی لکڑی کا فرنیچر بچھا ہوا تھا اور جابجا زربفت اور شیفون کے پردے لگے ہوئے تھے۔راموس بادشاہ اور اس کی آل اولاد اچھے اور مہنگے کھانے کے رسیا تھے، اس لیے محل کے باورچی خانے ہر وقت طرح طرح کے کھانوں اور مشروبات سے بھرے رہتے تھے۔
راموس بادشاہ کو دولت کی نمائش کا بھی بہت شوق تھا،اس لیے محل میں اکثر ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا جن میں دنیا جہان کی نعمتوں کو دستر خوان کی زینت بنایا جاتا تھا۔راموس بادشاہ ہر وقت اپنی بڑائی کے زعم میں رہا کرتا تھا، اس لیے اس کی دعوتوں میں بھی ہمیشہ ایسے لوگوں کو دعوت دی جاتی تھی جو مرتبے میں اس کے برابر ہوا کرتے تھے۔ ان مہمانوں کی آمد پر ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑی نہیں جاتی تھی تاکہ وہ راموس بادشاہ کی دریا دلی کا ہر سو تذکرہ کریں۔ مہمان آتے اور بادشاہ کی دریا دلی اور سخاوت کے گن گاتے لیکن ان میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ بادشاہ ایک ایسا انسان تھا جس کے سینے میں دل تھا ہی نہیں اور جسے ظلم کرنے میں مزا آتا تھااور اس کی ملکہ ان ضیافتوں میں جیسی محبت کی دیوی بنی پھرتی تھی ویسی عام زندگی میں ہر گز نہیں تھی۔
راموس بادشاہ کو ان دعوتوں سے بڑی محبت تھی۔ ایک دن ایک ایسی ہی ضیافت میں مہمانوں کو دعوت دی گئی تھی اور اس ضیافت کو سارا دن جاری رہنا تھا، اس لیے اس ضیافت کا اہتمام محل کے پائیں باغ میں کیاگیا تھا۔ بہت بڑے باغ میں ان گنت کھانے کی میزیں بچھائی گئی تھیں جن پر انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات چنے گئے تھے۔ جب آج کی ضیافت عروج پر تھی، مہمان ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، خوش گپیوں میں مشغول تھے، حتیٰ کہ بادشاہ کو بھی بڑا مزا آرہا تھا، حالانکہ یہ اس کا روز کا معمول تھا، ہر طرف قہقہے اور خوشیاں تھیں۔
تبھی ایک ضعیف عورت کسی نہ کسی طرح اس محفل میں آن پہنچی۔اس کی کمر بزرگی کی وجہ سے جھکی ہوئی تھی اور وہ کپڑوں کی بجائے چیتھڑوں میں ملبوس تھی۔وہ نقاہت کے ساتھ چلتی ہوئی کئی میزوں کے قریب گئی اور مہمانوں کے کھانے اور پہننے کی چیزوں کی بھیک مانگتی رہی لیکن کسی نے اس کی التجاؤں پر کان نہیں دھرا۔ بلکہ کچھ تو اسے ہاتھوں کے اشارے سے یوں دھتکارتے ر ہے جیسے کسی جانورکو دور بھگایا جاتا ہے۔آخر کار بے چاری بڑھیا گرتی پڑتی ہوئی اس میز کے قریب پہنچی جہاں بادشاہ اور اس کا خاندان کھانا تناول کررہا تھا۔وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر بادشاہ کے سامنے گڑگڑانے لگی:
”اے بادشاہ! خدا کے لیے مجھے کچھ کھانے کے لیے دے دو۔ میں کئی دنوں سے بھوکی ہوں۔ میں بھوک سے مرجاؤں گی۔“
ملکہ جوکہ بادشاہ کے سامنے ہی بیٹھی ہوئی تھی، جب اس کی نظر بڑھیا پر پڑی تو اس کے تن بدن میں نفرت سے آگ لگ گئی اور وہ چلا کر بولی۔”اس بڑھیا کو محل میں کیسے آنے دیا گیا ہے، اسے یہاں سے فوراً دفعان کرو۔ بڑھیا!کیاتمہیں معلوم نہیں ہے کہ دعوت صرف بادشاہوں کے لیے ہے، تم جیسے بھکاریوں کے لیے نہیں۔“
مہمان جو ملکہ کے رد عمل کے انتظار میں ہی تھے، اس کے الفاظ سن کر جیسے ان کے ہاتھ میں کوئی کھیل آگیا۔ ایک دم وہاں ہاہاکار مچ گئی۔سب بڑھیا کا مذاق اڑانے لگے۔ ایک نے تو میز سے چمچ اٹھایا اور غریب بڑھیا کی طرف اچھا ل دیا۔دوسرے جو ہنس رہے تھے، انہوں نے بھی اس کی نقل کی اور چمچ اٹھا کر بڑھیا کو مارنے لگے۔ بڑھیا بے چاری پوری کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح زخمی ہونے سے بچ جائے۔ بادشاہ نے دیکھا تو اسے بھی اس ظالمانہ کھیل میں مزا آنے لگا۔وہ خوش ہو کر بولا۔”شاباش! لگے رہو ساتھیو۔تم میں سے جو پہلا مہمان چمچ سے بڑھیا کا سر پھوڑے گا۔ اسے بیش قیمت انعام دیا جائے گا۔“
بے چاری بڑھیا انتہائی مشکل میں پھنس گئی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ہرطرف سے اسے چمچ مارے جا رہے تھے۔اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کسی کو اس پر ترس نہیں آرہا تھا۔ لوگ اس ظلم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور اس ظلم کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔پھر……
اچانک ہی جیسے سارا منظر تبدیل ہوگیا۔ راموس بادشاہ، اس کی ملکہ، اس کے مہمانوں کی آنکھوں کے سامنے بڑھیا اچانک غائب ہوگئی۔ وہ تو گویا جیسے ہوا میں ہی تحلیل ہو گئی۔ایسے جیسے بجلی سی کوند گئی ہو۔ابھی امراء کی حیران آنکھیں ملی ہی جا رہی تھیں کہ اسی لمحے بڑھیا کی جگہ ایک انتہائی خوب صورت عورت نے لے لی جس نے سر سے پاؤں تک سفید لیکن انتہائی چمکتا ہوا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس کے خوب صورت چہرے کے ارد گرد نور کا ہالہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا، جس کی چمک اتنی تھی کہ اس کی طرف نظر بھر کر دیکھنا محال تھا۔
وہ عورت تھی یا پری، وہ بلا مقصد اس محفل میں نہیں آئی تھی۔ وہ ایک خاص کام کو سرانجام دینے آئی تھی۔انتہائی غصے میں جس کے لیے بلاشبہ وہ حق بجانب تھی، وہ مہمانوں سے مخاطب ہوئی:
”اے راموس بادشاہ اور اس کے مہمانو! تم انتہائی مغرور ہو اور تمہارے دل بہت سخت پتھر ہیں۔ تم لوگ اس دھرتی کے بوجھ ہو۔ تم میں سے کسی کے دل میں رحم یا ہمدردی نام کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔تم امیر ضرور پیدا ہوئے لیکن انسان کہلانے کے لائق ہر گز نہیں، اس لیے کہ تم طبیعتاً جانور ہو، کیوں نہ تم جانور ہی بنا دیے جاؤ؟اور جانور بھی ایسے جو خاص ہوں کیوں کہ تم انسانوں میں بھی خود کو خاص سمجھتے رہے ہو۔ تم انسانوں کے مشابہ بھی ہوگے اور تمہاری عادات بھی انسانوں جیسی ہوں گی۔“
ابھی اس معزز خاتون کے منہ سے الفاظ نکلے ہی تھے کہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔زمین پر بکھرے ہوئے چمچ خود بخود ہوا میں بلند ہو کر تیرنے لگے۔ یہ وہی چمچ تھے جو غریب بڑھیا کا نشانہ لے کر مارے گئے تھے۔پھر وہ تیزی سے بڑھے اور راموس بادشاہ، ملکہ اور اس کے مہمانوں پر برسنے لگے۔ وہ درد سے چلا رہے تھے لیکن انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔
سزا یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ تمام مہمانوں کے قیمتی ملبوسات جو انہوں نے جسموں پر زیب تن کر رکھے تھے،لمبے لمبے بالوں میں تبدیل ہوگئے،ان کے بازو بہت لمبے ہوگئے اور وہ بھی بالوں سے اٹ گئے۔قیمتی مال و اسباب جو ان کے سامنے بکھرا پڑا تھا چشم زدن میں غائب ہو گیا۔ وہ جو پہلے دو ٹانگوں پرچل رہے تھے، اب اچانک چاروں بازوؤں اور ٹانگوں پر دوڑنے لگے تھے اور وہ بولنے کی کوشش کرتے تو ان کے منہ سے صرف ایک ہی آواز نکلتی……”کر……کرکر……کرکر۱……ا……ا۔“
انہوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو جان گئے کہ وہ کتنے بد صورت نظر آرہے ہیں۔ وہ خود کو چھپانے کے لیے قریبی جنگل کی طرف بھاگے جہاں اب انہیں دوسرے جانوروں کے ساتھ رہنا تھااور آج تک وہ واقعی آل اولاد کے ساتھ جنگلوں میں ہی رہ رہے ہیں۔ تو یہ تھے فلپائن کے پہلے بندر،جن کی بندر جاتی اب فلپائن کے جنگلو ں میں پائی جاتی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top