skip to Main Content
کہانی انسان کی

کہانی انسان کی

ناول: حئی بن یقظان
مصنف: ابن طفیل
مترجم: پروفیسر اسحاق منصوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا آپ کو جزائر واقواق کی خبر ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ آپ میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا، البتہ سنا ضرور ہوگا۔اور آپ میں سے کچھ بچوں نے ان کے بارے میں قصے کہانیوں میں کچھ پڑھابھی ہوگا۔میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان جزیروں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرو ں۔میرے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں نے ان تک پہنچنے کی اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔میں اس کوشش میں کامیاب ہوا نہ دوسرے لوگ ہی ان جزیروں تک پہنچ سکے۔ان جزیروں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خیالی جزیرے ہیں۔جن کا اس دنیا میں کچھ وجود نہیں۔البتہ قصے کہانیوں میں اور خیا لی دنیامیں ان کا بڑا چرچا ہے۔
کچھ پرانے زمانے کے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ واقواق کے جزیرے خط استواء کے نیچے واقع ہیں اور ان جزیروں میں ایک ایسا بھی جزیرہ ہے کہ جس میں بغیر ماں اور باپ کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگو ں کا یہ خیال ہے جس کی اس ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ واقواق میں ایک جزیرہ ہے جہاں ایسے عجیب و غریب درخت ہیں جن میں پھل وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔جیسا کہ تمام درختوں میں پھل لگتے ہیں بلکہ وہاں کے درختوں میں صرف عورتیں پیدا ہوتی ہیں۔اور ان عورتوں کو جو جوان درخت سے پیدا ہوتی ہیں،”واقواق کی کنیزیں“ کہا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان جزیروں میں ایک ایسا بھی جزیرہ ہے جس کے درختوں سے عورتوں کے بجائے صرف مرد پیدا ہوتے ہیں۔
اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان عجیب و غریب جزیروں میں سے ایک جزیرے میں اس کہانی کا ہیرو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوا تھااور اسی طرح ان کی باتیں کچھ کہانی لکھنے والوں نے بیان کی ہیں۔لیکن زیادہ تر تحقیق کرنے والو ں نے ان خیالی باتوں کو سچ نہیں مانا بلکہ وہ حقیقت کی تلاش میں لگے رہے یہاں تک کہ انہیں یہ عجیب و غریب کہانی ملی جس میں بچوں کی دلچسپی کا سامان بھی ہے اور ایسی باتیں ہیں جو ان کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔اب میں تمہیں یہ کہانی سنارہاہوں۔
بہادر انسان کی پیدائش
بر عظیم، کے بے شمار جزیروں کے درمیان ایک بہت بڑا جزیرہ تھا۔اس جزیرے پر انسانوں کی آبادی تھی۔انہی میں سے ایک شخص ان کا بادشاہ تھا۔اس کی ایک بہن تھی۔جو بہت ہی خوبصورت تھی۔بادشاہ اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے اپنی بہن کی رعایا میں سے کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ پھر اسے اپنے بہنوئی کی عزت کرنی پڑتی اور جس طرح وہ جزیرے کے دوسرے لوگوں پر ظلم کرتا تھا۔اپنے بہنوئی پر ظلم نہیں کرسکتاتھا۔
بادشاہ کی بہن کا ایک رشتہ دار تھاجس کا نام ”یقظان“ تھا۔وہ بہت نیک انسان تھا اور بہترین اخلاق کا مالک تھا۔ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بادشاہ کو ایک جنگ کے لئے بہت دور جانا پڑا۔کئی مہینے گزر جانے کے با وجود جب بادشاہ واپس نہیں آیا تو اس کے گھر والوں نے سوچا کہ بادشاہ مر گیاہے یاکسی جنگ میں قتل کردیا گیا ہے،یہ سوچ کر بادشاہ کی بہن کی شادی یقظان کے ساتھ کردی۔البتہ یہ شادی خفیہ طور پر ہوئی اور کسی کو اس کی مطلق خبر نہ ہوئی۔سال کے بعد ان کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کے چہرے سے ذہانت اور عقل مندی ٹپکتی تھی۔وہ بچہ بہت خوبصورت بھی تھا۔اس کی ماں اسے بڑے پیار سے دودھ پلاتی اور سارا دن اس کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اس کا بھائی (بادشاہ) اپنی جنگوں سے کامیاب و کامران واپس آگیا۔اب کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی،نہ بادشاہ کے رشتہ داروں میں اور نہ اس کی بہن میں کہ وہ بادشاہ کو اس خفیہ شادی کے بارے میں بتاسکے۔جوکہ اس کی غیر موجودگی میں کردی گئی تھی۔کیونکہ لوگ اس کے غصے سے خوف زدہ تھے اور اس کے ظلم اور انتقام سے ڈرتے تھے۔بچے کواس کی ماں نے اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا لیکن وہ ہر وقت ڈرتی رہتی تھی کہ پتہ نہیں کس وقت یہ راز فاش ہوجائے اور اس کا بھائی(بادشاہ)اسے اور اس کے بچے کو قتل کرڈالے۔وہ اسی سوچ میں پریشان تھی۔اس کو زیادہ دیر تک چھپا یا نہیں جاسکتا اور اس پریشانی سے کس طرح نجات حاصل کی جائے۔اس مصیبت سے نکلنے کی اسے یہ صورت نظر آئی کہ اس بد نصیب بچے کواس جزیرے سے بہت دور بھیج دیا جائے تاکہ بُرے انجام سے بچ جائے۔
ایک دن ماں نے بچے کو دودھ پلایا، پھر اسے بڑے پیارومحبت سے ایک صندوق میں بند کردیا اور اس صندوق کواچھی طرح بند کیا اور اسے پوشیدہ طور پر سمندر کے کنارے لے گئی اور اس صندوق کو سمندر کی موجوں میں ڈالنے کافیصلہ کرلیا۔محبت کے باعث اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔غم کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔اس بچے کا نام حئی (زندہ)رکھا تا کہ اللہ اسے زندگی عطا کرے۔پھر اسے یہ کہتے ہوئے سمندر کی موجوں پر رکھاکہ”اے اللہ! بے شک آپ نے اس بچے کو وجود بخشا جبکہ اس دنیا میں اس کا نام و نشان بھی تھا۔آپ نے اسے ہر تکلیف سے بچا کر رکھا۔آپ نے اس کی ہر ضرورت کو پورا کیا۔میں اب اسے آپ ہی کے حوالے کر رہی ہوں کہ اب آپ ہی اس پر اپنا لطف و کرم کریں گے۔میں آپ کے فضل اور نعمت کی امیدوار ہوں۔اس سمندر میں،میں اسے اس ظالم اور جابر بادشاہ کے ڈر سے ڈال رہی ہوں۔اے میرے پروردگار،اے سب سے زیادہ رحم کرنے والی ہستی،اب اسے کسی ایسے شخص کے حوالے نہ کرنا جو اس پر رحم کرے۔“
پھر اس عورت نے اس صندوق کو سمندر میں ڈال دیا۔پھر ایسا ہوا کہ پانی کا ایک ریلا آیا اور اسی رات اس صندوق کوپانی کی موج جزیرہ واقواق کے ساحل پر لے گئی۔پانی سال میں ایک مرتبہ اتنی دور تک جاتا تھا۔پانی نے اسے ایک ایسے جنگل میں ڈال دیا تھاجس میں بے شمار درخت تھے، جس کی مٹی بہت زیادہ زرخیز تھی اور گھنے درختوں کی وجہ سے وہاں نہ سورج کی روشنی پہنچتی تھی اور نہ ہی با رش کا پانی پہنچ پاتاتھا۔یہ صندوق کچھ دنوں تک اسی طرح پڑارہا۔سمندر کے پانی کی وجہ سے اس کی کیلوں کو زنگ لگ گیااور لکڑیاں کمزور پڑگئیں۔جب بچے کو زور کی بھوک لگی تو وہ چیخنے چلانے لگا اور صندوق میں بے چینی سے اچھلنے لگا۔اس کے رونے کی آواز اس ہرنی کے کانوں میں پڑی جس کابچہ گم ہوچکا تھا۔
در اصل ہرنی کے بچے کوایک عقاب اُٹھا لے گیا تھاجبکہ ایک دن وہ اپنے گھر میں اپنی ماں (ہرنی) کو بتائے بغیرجنگل میں کھیلنے چلا گیاتھا۔ہرنی اپنے اسی بچے کی تلاش میں تھی۔ اس نے جب بچے کی چیخیں سنیں تو اس نے سوچا شاید یہ میرے گمشدہ بچے کی چیخیں ہوں۔ جہاں سے آواز آرہی تھی وہ اس جانب چل دی۔یہاں تک کہ اس صندوق تک پہنچ گئی جس میں بچہ رورہا تھا۔کچھ ہرنی کی کوششوں سے اور بچے کے ہاتھ پاؤں مارنے سے صندوق کا ڈھکن کھل گیا۔پہلے تو ہرنی کو حیرت ہوئی۔پھرروتے ہوئے بچے کو دیکھ کر اس کی محبت جاگ اٹھی۔وہ بچے کو چومنے چاٹنے لگی اور اسے اپنے سینے سے چمٹالیا اور انتہائی پیار سے اسے اپنا دودھ پلایا۔ اب تو اس کا یہ معمول بن گیا کہ وہ بچے کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور اسے ہر تکلیف سے محفوظ رکھتی۔یہ ہرنی جو بچے کی پرورش کررہی تھی ایک انتہا ئی زرخیززمین اور سرسبز و شاداب چرا گاہ میں رہتی تھی۔جہاں ہرنی کے کھانے کے لئے گھاس بہت زیادہ تھی اور بے شمار قسم کے درخت بھی تھے، اس طرح سے وہ ہرنی بہت ہی صحت مند ہوگئی اور اس کا دودھ بھی بہت بڑھ گیا۔اس طرح یہ ہرنی بچے کو خوب دودھ پلاتی اور ہر وقت بچے کے آس پاس ہی گھومتی رہتی تھی صرف کبھی کبھی چرنے چُگنے کے لئے ذرا دور نکل جاتی لیکن فوراً ہی واپس آجاتی۔
دو سال کے بعد
بچے کو ہرنی سے اتنی محبت ہوگئی کہ وہ تھوڑی دیر بھی ہرنی کی جدائی برداشت نہیں کرسکتاتھا۔جب کبھی ہرنی تھوڑی دیر کے لئے دور چلی جاتی تو بچہ زور زور سے رونے لگتا تو مہربان ہرنی اس کے رونے کی آواز سن کرفوراً اس کے پاس چلی آتی۔اتفاق سے اس جزیرے میں شیرو چیتے جیسا کوئی درندہ نہیں تھا اس لئے بچہ امن و امان سے بڑھتا رہااور اپنی ماں کے دووھ سے پروان چڑھتا رہا۔یہاں تک کہ اس کی عمر دو سال ہو گئی۔
اب بچہ چلنے پھرنے لگا۔اس کے دانت بھی نکل آئے تھے۔جہاں ہرنی جاتی، بچہ بھی اس کے پیچھے پیچھے جاتا۔ہرنی بچے سے بہت پیارکرتی تھی اور اسے ایسی جگہ لے جاتی تھی جہاں بہت زیادہ پھل دار درخت ہوتے تھے۔پکے ہوئے میٹھے میٹھے پھل درختوں سے نیچے گر جاتے،ہرنی اپنے بچے کو کھلاتی تھی۔ان پھلوں میں سے جن کا چھلکا سخت ہوتا انہیں سخت دانتوں سے توڑ دیتی اور جب بچہ دودھ پینا چاہتا تو اسے خوب دودھ پلاتی تھی اور جب پیاسا ہوتا تو اسے پانی پر لے جاتی۔جب دھوپ اسے تنگ کرتی تو اسے اپنے سینے سے چمٹالیتی، سلاتی۔ جنگل میں صبح شام آتے جاتے جنگلی گائے کے ایک ریوڑ سے ان کی دوستی ہوگئی۔بچہ اور ہرنی جنگلی گائے کے ریوڑ سے محبت کرنے لگے اور جنگلی گائے کا ریوڑ بھی ان سے محبت کرنے لگا۔یہ ریوڑ بھی ہر وقت بچہ اور ہرنی کے ساتھ رہنے لگا اور جس جگہ یہ دونوں رات کو رہتے تھے اس کے قریب ہی یہ ریوڑ بھی رات گزارتا۔ بچہ ہر کام میں ہرنی کی نقل لگا۔جیسی آوازیں ہرنی کے منہ سے نکلتی ویسی ہی آوازیں وہ نکالنے کی کوشش کرتا حتیٰ کہ دونوں کی آوازوں میں کسی قسم کا فرق نہیں پایا جاتا تھا۔اسی طرح یہ بچہ گائے کے اس ریوڑ کی آوازوں کی نقل بھی اتارنے لگا جو اس کے ساتھ رہتاتھا۔وہ گائیں اس سے محبت کرتی تھیں اور وہ ان سے محبت کرتا تھا۔اسی طرح یہ بچہ ان تمام پرندوں اور جانوروں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا جن کی آوازیں وہ دن رات جنگل میں سنتارہتا تھا۔خاص طور پر وہ ہرنی کی آوازوں کی زیادہ نقل کرتا تھا۔مدد کے لئے بلانے کی آواز الگ تھی۔پیارو محبت کی آواز الگ تھی۔بھوک اور پیاس کی آواز الگ تھی۔اسی طرح جنگل کے تمام جانور مختلف کاموں کے لئے مختلف قسم کی آوازیں نکالتے تھے۔ اب یہ بچہ جانوروں کی آوازیں اور بولیوں سے مانوس ہو چکا تھا۔اس طرح تمام جانور اور پرندے بھی اس سے مانوس ہوچکے تھے۔اس کے دل و دماغ میں ان سب جانوروں کی مختلف شکلیں جم گئی تھیں۔کبھی وہ کسی جانور کے بارے میں سوچتا کبھی، اس کا دل مور کو دیکھنے کو چاہتا اور کبھی وہ بندر کے بارے میں سوچ کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا۔
میں اتنا کمزور کیوں ہوں
وہ تمام جانوروں پر غور کرتا، وہ دیکھتا کہ ان سب کے جسم بالوں اور پروں سے چھپے ہوئے ہیں اور ان کے بالوں اور پروں کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہ بھی دیکھتا کہ کچھ جانور بہت تیز رفتار ہیں۔ کچھ جانوروں میں بہت زیادہ طاقت ہے۔کچھ جانوروں کے دانت اور ان کے پنجے اور ان کے ہاتھوں کے ناخن اور سینگ ان کے لئے ہتھیاروں کاکام دیتے ہیں جن کے ذریعے وہ مقابلے کے وقت اپنی حفاظت کرتے ہیں اور ان ہی ہتھیاروں سے شکار کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے بار ے میں سوچتا کہ اس کا جسم اس قسم کے بالوں اور پروں سے خالی ہے، جانوروں کی طرح اس کے پاس نوکیلے پنجوں کا ہتھیار بھی نہیں اور نہ ہی ان جیسی طاقت اس میں موجود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جانور اس پر غالب آجاتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا تھا۔وہ اپنے ہم عمر جانوروں کے بچوں کو دیکھتا،خاص طور پر ہرنی کے بچوں پر غور کرتا کہ ان کے سروں پر سینگ ہیں اور کچھ عرصے بعد یہ بچے اس سے دوڑنے میں بھی تیز ہو گئے ہیں۔ وہ ان سب چیزوں کے بارے میں سوچتا رہتا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اسی طرح وہ دیکھتا کہ تمام جانور دم والے ہیں اور اس کی کوئی دم نہیں ہے۔ اسے اس بات پر کبھی حیرت ہوتی اور کبھی افسوس ہوتا۔

پتے سوکھ کر جھڑ جاتے تھے
یہ سب باتیں سوچتے سوچتے وہ تقریباً سات سال کا ہوگیا۔ اسے یہ احساس ہوگیا کہ جانوروں کے پاس جو چیزیں ہیں بال و پر، دم اور پنجے،ایسی چیزیں اس کے جسم میں اب کبھی بھی پیدا نہیں ہوں گی۔ اس نے لمبے لمبے پتے اپنے آگے اور پیچھے باندھ لئے اور مضبوط او ر لمبی گھاس سے پٹی بنا کر اسے اپنی کمر پر باندھ لیا اور اسی پٹی سے اپنے آگے پیچھے اس کے بہت سے پتے لٹکائے لیکن یہ پتے تو تھوڑے ہی دنوں کے بعد سوکھنے لگے اور گرنے لگے۔ اب وہ پتوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر چپکا دیتا اور ایک دوسرے کو آپس میں جوڑ دیتا تا کہ اس کا جسم چھپ جائے اور اس طرح شاید پتے زیادہ عرصے تک نہ گریں۔ بہرحال پتے تھوڑے ہی عرصے بعد سوکھنے لگتے اور آخر کارسوکھ کر گر جاتے۔ اسی طرح اس نے درختوں کی ٹہنیاں کاٹیں اور انہیں سیدھا کیا، ان لکڑیوں سے وہ اپنے اوپر حملہ کرنے والے درندوں کو بھگاتا اور کچھ جانوروں پر وہ سواری کرتا۔ اس کامیابی سے حئی بن یقطان کو اپنے اوپر اعتماد پیدا ہوا اور اسے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ بہت سارے جانوروں سے افضل و برتر ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی سوچنے لگا کہ مختلف جانوروں کو کس طرح اپنی خدمت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب وہ جانوروں کے پیدائشی ہتھیار یعنی سینگ، پنجوں وغیرہ کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں تھا۔ اس طرح اب اسے دم کی بھی پروا نہیں رہی تھی۔
پہلا لباس
اسی دوران جب کہ اس کی عمر سات سال کے قریب تھی، وہ پتوں کے لباس سے کچھ بیزار ہونے لگا۔اسے بار بار پتے بدلنے پڑتے۔ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ کسی پرندے کے بازو اور پر کاٹ کر اپنے جسم پر پتوں کے لباس کی جگہ لگا لے۔ البتہ حیّ کو یہ بات عجیب لگی کہ دوسرے جانور اپنے مرے ہوئے ساتھیوں کے پاس نہیں جاتے بلکہ ان سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ اپنے اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ کچھ دنوں بعد ایسا ہوا کہ اس نے ایک باز مراہوا دیکھا اور یہ دیکھ کر اسے تعجب ہوا کہ دوسرے جانور اس مردے سے ویسی نفرت نہیں کرتے جیسی اپنے مردوں سے کرتے تھے۔ اس موقع کو اس نے غنیمت سمجھا۔ اس نے مردہ باز کے دونوں بازو کاٹ لئے اور اس کی پوری دم بھی صحیح سلامت کاٹ لی۔ ایک بازو اس نے اپنے دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف باندھ لیا اور پیچھے بیچ میں دم لگا دی۔ اسی طرح اس کی کھال کے بھی دو حصے کر لئے۔ ایک حصہ اپنے سینے پر لگا لیا اور دوسرا پیٹھ پر لگا لیا۔ اس طرح اسے ایک لباس مل گیا۔جس سے اس کے جسم کو حرارت بھی ملتی تھی اور اس کی حفاظت بھی ہوتی تھی۔ اس لباس سے دوسرے جانوروں پر اس کا رعب اور دبدبہ بھی قائم ہوگیا۔ اب کوئی جانور اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔اب وہ اس ہرنی کے ساتھ انتہائی سکون اور اطمینان سے رہنے لگا جو اسے دودھ پلاتی تھی اور اس کی پرورش کرتی تھی۔کیونکہ نہ تو وہ اس ہرنی کی جدائی برداشت کر سکتا تھا اور نہ ہی وہ ہرنی اس کی جدائی برداشت کر سکتی تھی۔ اس طرح امن کی فضامیں وہ دونوں زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ ہرنی بوڑھی ہوگئی اور کمزور ہوگئی۔ اب حئی ابن یقظان اس ہرنی کو سر سبز چراگاہوں میں لے جاتا اور اسے اچھے اور میٹھے میٹھے پھل کھلاتا۔ وہ اس ہرنی کی ہر طرح سے خدمت کرتا اور اس کا ہر وقت خیال رکھتا کہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ اس ہرنی نے بچپن میں جس پیار و محبت سے اس کی پرورش کی تھی وہ سب باتیں اسے اچھی طرح یاد تھیں۔
آہ! وہ مر گئی
اب ہرنی دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی موت کا وقت آگیا ہے۔ آخر ایک دن موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا جس سے کسی کو فرار نہیں۔ اس ہرنی کا جسم حئی بن یقطان کی آنکھوں کے سامنے بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔جب اس نے ہرنی کو اس حال میں دیکھا تو اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور قریب تھا کہ رنج و الم کے مارے اس کی جان بھی چلی جاتی۔ اس ہرنی کا لقب ”ام عزہ“ تھا۔حئی ہمیشہ ہرنی کو اسی لقب سے پکارا کرتا تھا۔ آج بھی اس نے حسب معمول ام عزہ کو آواز دی۔ وہی آواز جسے سن کر ام عزہ جواب میں ایک عجیب سی آواز گلے سے نکالتی تھی لیکن اسے جواب نہیں ملا۔اب حئی نے اپنی پوری طاقت سے آواز نکالی۔ لیکن اب بھی اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے اس کی دم کو دیکھا، اس کی آنکھوں کو دیکھا،ہرنی کے جسم کے ایک ایک عضو کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ اسے کہیں بھی کوئی زخم نظر نہ آیا اور نہ کہیں کوئی بیماری نظر آئی۔ حئی پوری کوشش کر رہا تھا کہ اسے یہ پتا چل جائے کہ ہرنی کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ پہلے کی طرح اب کیوں نہیں بولتی۔ اس کے جسم کے کس حصے میں خرابی واقع ہو گئی ہے اور جسم کے کس عضو کو ایسی بیماری لگ گئی ہے کہ اب نہ وہ حرکت کرتی ہے اور نہ بات کرتی ہے۔ حئی اس جستجو میں لگا ہوا تھا کہ اس خرابی کو دور کروں تاکہ اس مہربان ہرنی کودوبارہ زندگی مل جائے تا کہ یہ ہرنی پہلے کی طرح کھاتی پیتی اور چلتی پھرتی نظر آئے لیکن حئی اپنی پوری کوشش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
حئی سوچ میں ڈوب گیا
حئی یہ سوچنے لگا کہ جب وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے یا آنکھوں کے سامنے کوئی چیز آجاتی ہے تو جب تک وہ آنکھیں نہ کھولے اور جب تک آنکھوں کے سامنے پڑی ہوئی چیز کو ہٹا نہ دیا جائے وہ کوئی بھی چیز نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح جب وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے تو اسے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ اسی طرح جب وہ اپنی ناک کو اپنے ہاتھ سے بند کر دیتا ہے تو اس کو اچھی یا بری کسی قسم کی بھی بو محسوس نہیں ہوتی۔ ان خیالات کی روشنی میں اس نے یہ سوچا کہ اس ہرنی کی دیکھنے، سننے اور سونگھنے کی قوتوں کے سامنے کوئی رکاوٹ آگئی ہے، جس کی وجہ سے نہ وہ دیکھ سکتی ہے نہ کوئی آواز سن سکتی ہے اور نہ کوئی چیز سونگھ سکتی ہے۔ اس نے سوچا کہ اگر اس رکاوٹ کو دور کر دیا جائے تو یہ ہرنی دیکھنے، سونگھنے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گی۔
ہرنی کو زندہ کرنے کی کوشش
یہ سوچ کر حئی نے اس ہرنی کے تمام اعضا کا جائزہ لیا اور کافی دیر تک ان کو ٹٹولتا رہا اور تحقیق میں مشغول رہا لیکن اسے اس کا کوئی ظاہری سبب نظر نہیں آسکا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ ہرنی کا ہر عضو ساکن اور بے حرکت ہو چکا ہے تو لازماً اسے کوئی ایسی بیماری لگ گئی ہے جو سارے جسم پر چھا گئی ہے۔
اس نے یہ سوچا کہ اس مہربان اور پیاری ہرنی پر کوئی ایسی بیماری آگئی ہے جو اس کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ شاید یہ بیماری اس کے جسم کے اندر کہیں ہے۔ اس نے اپنے دل میں سوچاکہ ہرنی کے جسم کے اندر کا کوئی حصہ بے حرکت ہوگیا ہے اور اس وجہ سے پیاری ہرنی بے حرکت ہوچکی تھی۔ حئی نے یہ بھی سوچا کہ اس عضو کو میں اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا لیکن یہی عضو ہرنی کے جسم کا سب سے اہم جزو ہے اور اسی عضو کی وجہ سے شاید اس کے جسم میں زندگی کی لہر دوڑ رہی تھی اور اب اسی عضو پر کوئی مصیبت پڑ گئی ہے جس کی وجہ اس کا پورا جسم بے کار ہو گیا ہے۔ اگر میں اس عضو کا پتہ چلا لوں اور اس بیماری کو دور کردوں تو ہرنی پھر پہلے کی طرح زندگی گزارنے لگے گی اور اس کے تمام اعضا پہلے کی طرح سے حرکت کرنے لگیں گے۔
زندہ رہنے کا راز
حئی اس سے پہلے بہت سے مردہ جانوروں اور پرندوں کے جسم دیکھ چکا تھا کہ ان کے جسموں میں پیٹ، سینے اور ان کے علاوہ کہیں بھی کوئی کھوکھلی جگہ نہیں پائی جاتی تھی۔ اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ اہم ترین عضو جو ہرنی کی زندگی کا باعث تھا اور جس کی وجہ سے ہرنی کے تمام اعضا حرکت کیا کرتے تھے۔ وہ انہی مقامات میں سے کسی جگہ ہونا چاہیے۔ ران میں، سینے میں یا پیٹ۔ اسے بار بار یہ خیال آتا کہ یہ اہم ترین عضو کسی درمیانی جگہ پر ہونا چاہیے۔ اس کی فطرت اور طبیعت بھی اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ ایسا عضو جو تمام جسمانی اعضا کو کنٹرول کرتا ہے۔ انہیں قوت اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ وہ لازماً ان سب کے بیچ میں ہونا چاہیے۔ جب حئی نے اپنے اوپر غور کیا تو اس نے محسوس کیا کہ کسی عضو کے چلنے کی آواز اس کے سینے میں سے آ رہی ہے۔اس نے سوچا کہ یہی وہ اہم ترین عضو ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے دوسرے جسمانی اعضا کو دیکھا جیسے ہاتھ، پاؤں، کان، ناک، آنکھ۔ اس نے یہ سوچا کہ ان کے بغیر بھی میں زندہ رہ سکتا ہوں۔ ان میں سے کسی کے ختم ہو جانے سے میری پوری زندگی ختم نہیں ہو جائے گی۔ پھر اس نے دوبارہ سینے سے مسلسل آنے والی انتہائی منظم آواز پر پھر سے غور کیا۔ اسے یہ یقین ہوتا گیا کہ اس عضو کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اسی طرح اس نے غور کیا کہ جب کبھی اس کا جنگل میں کسی درندے سے مقابلہ ہوتا ہے تو وہ سب سے زیادہ اپنے سینے کو بچانے کی فکر کرتا ہے کیونکہ اس کے دل ودماغ میں یہ خیال بیٹھ چکا تھا کہ یہی عضو زندگی کی بنیاد ہے۔ جب اسے یہ پورا یقین ہوگیا کہ وہ عضوجو اس ہرنی کی زندگی اورموت کا سبب ہے وہ سینے میں چھپا ہوا ہے۔ تو اس نے سینے کو چیرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح تحقیق اور جستجو میں شاید اسے کامیابی نصیب ہو جائے اور وہ اس بیماری کو دور کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
امید اور خوف
وہ یہ سوچتا تھا کہ اس کایہ کام اس مصیبت سے کسی بہت بڑی مصیبت میں گرفتار نہ کردے۔اس نے اپنے دل میں کہا کہ کہیں میرا یہ کام ہرنی کے ساتھ بھلائی کے بجائے برائی نہ بن جائے اور ہرنی کو زندگی دینے کے بجائے موت کا سبب نہ بن جائے۔میں کیا کروں؟ہوسکتا ہے کہ جب میں اس کا سینہ چیروں تو یہی اس کی موت کا سبب بن جائے!اس طرح اس کی زندگی کی امید ختم ہوجائے۔پھر اس نے سوچا اور بہت دیر تک سوچتا رہا اور اپنے آپ سے پوچھتا رہا کہ اس نے ہرنی کے سوا کسی اور جانور کو اس حالت میں دیکھا ہے اور پھر وہ جانور دوبارہ زندہ ہوگیا ہو۔ تب اس نے سوچاکہ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔اب اس نے سوچا کہ اگر اس نے ہرنی کو اسی حال میں چھوڑ دیا تو دوسرے جانوروں کی طرح پڑی پڑی ختم ہوجائے گی۔البتہ اگر وہ اس چھپے ہوئے عضو کو تلاش کرلیتا ہے تو دوبارہ اس ہرنی کے زندہ ہوجانے کا امکان ہے۔
ہرنی کا آپریشن
اب حئی نے ہرنی کا آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیااور اس کا سینہ چیر نے کی بات طے ہوگئی تاکہ سینے میں جو کچھ ہے اس کی تحقیق کی جاسکے۔اس نے اپنے اس فیصلے کو نافذ کرنے میں ذرا بھی شک و شبہ سے کام نہیں لیا۔اس نے نوک دار سخت پتھر اٹھائے۔ اسی طرح چھری جیسی سوکھی ہوئی لکڑیوں کے ٹکڑے لے لئے۔اس نے ہرنی کے دونوں بازو کاٹ دئیے۔اس کا دل کامیابی کے لئے بے چین و بے قرار تھا۔جب وہ سینے کے پاس پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ یہاں کوئی سخت چیز ہے۔اب اس کا یہ خیال یقین میں بدلنے لگا کہ اتنی زیادہ سخت حفاظت لازماً اسی اہم عضوکی کی جاری ہے جو پورے جسم میں زندگی کی روح دوڑا رہا ہے۔ اب اسے یہ خیال آنے لگا کہ جب وہ اس سخت چیز سے آگے بڑھے گا تو وہ اس منزل کو پالے گا جس کی اسے تلاش ہے۔اب اس نے اس پردے کو چیرنے کی کوشش کی۔اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس کے لئے اپنی اس ضرورت کی تکمیل بہت مشکل ہوئی کیونکہ اس کے پاس ایسے آلات نہیں تھے جن سے وہ یہ کام لے سکتا۔ اس کے پاس تو صرف نوک دار پتھر اور لکڑیاں تھیں۔لیکن حئی نے قسم کھائی کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کر کے رہے گا اسے کوئی چیزروک نہیں سکتی۔ اب اس نے پتھروں کو تیز کیا اور اس کی کھال کو بڑی ہنر مندی سے کاٹنے لگا۔یہاں تک کہ اس میں ایک سوراخ ہوگیا۔اب وہ پھیپھڑوں تک پہنچ گیا۔پھیپھڑوں کو دیکھتے ہی اس نے یہ سمجھا کہ یہی وہ مخصوص عضو ہے۔اب وہ اسے باربار الٹنے پلٹے لگا تاکہ اس جگہ کو دیکھ لے جہاں اس کوئی بیماری یا تکلیف پہنچی ہے تاکہ اسے دور کردے۔اگر کوئی رکاوٹ آگئی ہے تو اس رکاوٹ کو بھی وہ ہٹا سکے۔

ہرنی کا دل
پھیپھڑوں کے اوپرسینے میں اس نے دل کو دیکھا جو ایک جھلی میں لپٹا ہوا تھا۔ دل کے آس پاس ایسی چیزیں بھی موجود تھیں جو اس کی حفاظت کر رہی تھیں۔اس نے سوچا کہ یہی وہ عضو ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔اس عضو میں بڑی حرارت اور طاقت محسوس ہوتی ہے۔ پھر اس نے اپنے دل میں کہا کہ یہ عضو جسم میں پایا جاتا ہے۔بڑے خوبصورت انداز میں بنا ہو ا ہے۔اس میں کہیں ٹکڑے نہیں ہیں۔یہ گوشت بھی زیادہ سخت محسوس ہوتاہے۔ اس عضو کی طرح اور کوئی عضو اتنی حفاظت سے کسی غلاف میں لپیٹ کر نہیں رکھا گیا۔ ضرور یہی وہ چیز ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔ اب اس نے دل کی جھلی کو ہٹا کر اسے اندر سے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ بہت کوشش کے بعد وہ اس جھلی کو ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔
دل کا آپر یشن
اب اس نے بڑی احتیاط سے دل کو وہاں سے کا ٹ کر الگ کر لیا۔اسے شر و ع میں ا یسا محسو س ہو ا کہ اس د ل کے ا ند رکوئی خا لی جگہ نہیں ہے۔ اس نے دل کو بڑے غو ر سے د یکھا مگر ظا ہر ی طو ر پر ا سے کوئی بیما ر ی نظر نہیں آ سکی۔اس نے ا پنا ہا تھ دل پرر کھا اور مختلف جگہوں سے جب د با کر د یکھا تو اسے محسوس ہو ا کہ دل میں خا لی جگہ مو جو د ہے۔حئی نے اپنے دل میں کہا ”شا ید میر امقصد ا سی عضو کے ا ند ر موجو د ہے۔ اب میں جلد ہی ا سے پا لو ں گا۔“ جیسے ہی اس کے دل میں یہ خیا ل آیااس نے دل کو چیر ڈا لا۔ وہ کیا د یکھتا ہے کہ دل میں دو خا لی جگہیں ہیں۔ایک اس کے د ا ئیں طر ف ہے اور د و سرا اس کے با ئیں طر ف ہے۔پہلے حئی نے دا ئیں طر ف کی خا لی جگہ کو د یکھا۔ وہ حصّہ جمے ہو ئے خو ن کے ٹکڑ و ں سے بھر ا ہو ا تھا۔پھر اس نے با ئیں طرف کو دیکھا۔دل کا یہ حصّہ بالکل خالی تھا۔اب حئی نے سو چا کہ جس چیز کی مجھے تلا ش ہے، وہ لا ز ما ًان دو نو ں میں سے کسی ایک میں مو جو د ہے۔کچھ سو چ کر ا س نے ا پنے آپ سے کہا کہ جہا ں تک اس د ا ئیں جگہ کا تعلق ہے جس میں خو ن کے ٹکڑ ے جمے ہو ئے ہیں، ا یسا محسوس ہو تا ہے کہ جب سا را جسم بے حس و حر کت ہو گیا تو اس حصّے نے بھی ا پناکا م کر نا چھو ڑ دیا۔
اب حئی کو خیا ل آ نے لگا کہ شا ید و ہ ا پنی کو شش میں کا میاب نہ ہو سکے۔اس نے ا پنے دل میں سو چا کہ جب بھی کسی جسم سے خو ن کو نکلتے د یکھا تو وہ جم جا تا ہے۔ اس خو ن کا بھی یہی معا ملہ لگتا ہے۔ مجھے تو دل میں زند گی کے اس پو شید ہ را ز کی تلا ش ہے جس کے نتیجے میں سارا جسم حر کت کر تا ہے۔وہ د ھڑکتا ہو ا دل جو زند گی کا سر ما یہ ہے۔ اس جمے ہو ئے خو ن سے مجھے کچھ سر و کار نہیں، یہ ز ند گی کا را ز نہیں ہو سکتا۔کتنی با ر ا یسا ہو ا کہ جا نوروں نے مجھے ز خمی کر د یا اور جسم سے بہت سا خو ن بہہ گیا لیکن اس کے با و جو د مجھ پر یہ کیفیت طا ر ی نہیں ہو ئی جو اس ہر نی پر طا ر ی ہے اور نہ ہی میر ے ا عضا اس طر ح بے حس و حر کت ہوگئے۔ جہاں تک دل کے دائیں جانب کا تعلق ہے جس میں خون جما ہوا ہے، اس میں میرا مطلوب و مقصود نہیں ہے۔البتہ دل کے بائیں جا نب کو میں خالی دیکھ رہا ہوں اس میں میرے کام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس خالی جگہ میں کوئی چیز نہیں تھی جو یہاں سے رخصت ہوگئی ہو اور دل کا یہ حصہ بے کار پیدا نہیں کیا گیا کیوں کہ جسم کے ہر عضو کو کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے،پھر یہ جگہ کیوں خالی ہے۔بے شک یہ جگہ اس طاقت کا مرکز ہے جو پورے جسم کوحرکت و حرارت فراہم کر رہی ہے۔اب اس کے رخصت ہو جانے سے پورا جسم ساکن ہو گیا اور اس قوت کے جسم سے نکل جانے کے بعد اس جسم کی کوئی قدرو قیمت اور اہمیت باقی نہیں رہی۔کافی سوچ بچار کے بعد حئی کو یہ یقین ہوگیا کہ اس کی وہ انتہائی پیاری ماں جس نے اسے پیار و محبت سے پروان چڑھایا، وہ اس جسم سے رخصت ہوگئی ہے۔وہ تو اس پوشیدہ طاقت میں موجود تھی جواس جسم کو حرکت و حرارت فراہم کر رہی ہے۔حئی اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانوں اور دوسرے حیوانات کے جسم کی مثال لاٹھی کی طرح ہے جسے انسان کا ہاتھ کام میں لاتا ہے۔
میت کی تدفین
اس طرح ہرنی کا جسم سرد ہوگیا اور اس سے بدبو نکلنے لگی اور اب حئی پریشان ہوا۔وہ بدبو سے بیزار ہو کر سوچ رہا تھا کہ اس مردہ کو کس طرح دفن کیا جائے؟ اسی پریشانی کی حالت میں اس نے دو کوؤں کو لڑتے دیکھا کہ کافی لڑائی کے بعد ایک کوّا تو مرگیا دوسرے کوے نے زمین کا ایک چکر لگایا۔پھر ایک جگہ پر گڑھا کھود ااوراس مردے کو لے کر گڑھے میں ڈال کر اس پر مٹی ڈال دی۔اب حئی نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ کوّا مجھ سے کتنا اچھا ہے۔ اس نے کتنی عمدگی سے مردہ ساتھی کو دفن کردیا جبکہ اس سے پہلے ان دونوں میں لڑائی بھی ہوچکی تھی۔ میں کتنا بے وقوف ہوں کہ مجھے اپنی ماں کو دفن کرنا بھی نہیں آتا۔ اس کوّے کو دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ اس ہرنی کو کس طرح دفن کیا جائے۔ اب حئی نے جلدی سے ایک گڑھا کھود ااور انتہائی ادب و احترام سے اپنی ماں کے مردہ جسم کو اس میں رکھ کر اس نے مٹی ڈال دی۔
جزیرے کی سیر
اب حئی مسلسل اسی چیز کے بارے میں سوچتا رہا جس نے اس کی ماں کے جسم کوبے حس و حرکت کردیا تھا۔وہ روح جو جسم میں زندگی کا راز ہے جب جسم سے رخصت ہوتی ہے تو جسم بیکا ر ہوجاتا ہے اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔حئی اسی طرح مسلسل روح کے بارے میں سوچتا رہا لیکن اسے پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کیا چیز ہے بلکہ اس پر پریشانی چھائی رہی۔ اس نے بے شمار ہر نیوں کو دیکھا کہ وہ سب اپنی شکل و صورت میں اس کی ماں کی طرح ہیں۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام ہرنیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔اسی طرح جو چیز اس کی ماں میں قوت و حرارت کا سبب تھی وہی چیز ان سب ہرنیوں کی حرکت و حرارت کا سبب ہے۔ اب اسے تمام ہرنیوں سے محبت ہوگئی۔وہ ان ہرنیوں کو خوب پیار کرتا کیوں کہ وہ سب ہرنیا ں اس کی ماں کی شکل و صورت جیسی تھیں۔حئی اس طرح کئی سالوں تک اس جزیرے میں گھومتا پھرتا رہا۔ وہاں وہ مختلف جانوروں اور درختوں کو دیکھتا۔ کبھی جزیرے کے ساحل پر چلاجاتا۔اس کے دل میں چھپی ہوئی خواہش تھی کہ کیا اس جزیرے میں مجھ جیسی بھی کوئی مخلوق پائی جاتی ہے،جیسے ہر جانورجیسے بے شمار جانور اور ہر درخت جیسے بے شما ر درخت موجود ہیں۔ اسے کافی تلاش اور جستجو کے باوجود اپنی شکل و صورت جیسا کوئی نہ مل سکا۔اسے جزیرے کے چاروں طرف دور دور تک نیلگوں پانی موجیں اٹھاتا ہوا نظر آتا۔اسے کبھی کبھی یہ خیال آتا کہ یہ جزیرہ ہی ساری کائنات ہے۔
آگ کی دریافت
ایک دن اچانک لمبی جھاڑیوں میں آگ کے شعلے بھڑکنے لگے جب اس کی نظر آگ پر پڑی تو اسے یہ بڑی عجیب چیز معلوم ہوئی۔کچھ دیر کے لئے اس پر خوف کی کیفیت طاری ہوگئی۔ایسی عجیب چیز اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔اب وہ آہستہ آہستہ آگ کے قریب آنے لگا۔جب آگ کے قریب پہنچا تو آگ سے نکلنے والی روشنی اور تپش پر غور کرنے لگا۔اس نے دیکھا کہ آگ کی لپٹ میں آنے والی ہر چیز کے فنا کے گھاٹ اتر کر راکھ بن جاتی ہے۔اب اس کی دہشت میں مزید اضافہ ہوگیا۔حئی کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے جرأت اور حوصلہ مندی کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔اس نے اپنا ہاتھ آگ میں ڈال کر ایک انگارا اٹھانا چاہا،لیکن آگ کو ہاتھ لگاتے ہی اس کا ہاتھ جھلس گیا اور وہ انگارے کو اُٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
آگ کا فائدہ
پھر اس نے ایسی لکڑی دیکھی جو ہر طرف سے چھلی ہوئی نہیں تھی۔ جہاں سے لکڑی کو آگ نے نہیں پکڑا تھا اس طرف سے اس نے لکڑیوں کو اٹھا لیا۔دوسری طرف آگ جل رہی تھی۔اسی طرح وہ اس جگہ لے جانے میں کامیاب ہوگیا جسے اس نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ حئی اکیلا ایک غار میں رہتا تھا۔اسے اپنی رہائش کے لئے یہی جگہ اچھی لگی۔اس نے اس جلتی ہوئی لکڑی کو ایک کونے میں رکھا اور اس پر سوکھی گھاس اور بڑی بڑی لکڑیاں ڈالتا رہا،اس طرح سے یہ آگ دن و رات جلتی رہے۔ حئی چاہتا تھا کہ آگ ہمیشہ جلتی رہے۔ اسے یہ آگ بہت اچھی لگی تھی۔خاص طور پررات کو آگ سے اس کی محبت بڑھ جاتی تھی۔کیوں کہ رات میں وہ سورج کی جگہ روشنی بھی فراہم کرتی تھی اور گرمی کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہورہی تھی۔آگ سے اس کی محبت بڑھ گئی۔ وہ یہ سوچنے لگا کے میرے پاس جو چیزیں ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔
آگ کی طاقت
حئی نے دیکھا کہ آگ ہمیشہ اوپر کی طرف جاتی ہے اسے یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اس کا تعلق بھی ان آسمانی چیزوں سے ہے جنہیں وہ آسمان پر چمکتاہوا دیکھتا ہے۔اس نے دیکھا کہ آگ میں جو چیز ڈالی جاتی ہے وہ جل جاتی ہے۔ وہ جل کر ختم ہوجاتی ہے اور آگ اس پر غالب آجاتی ہے۔
ٓآگ پر گوشت بھوننا
حئی نے سمندر کے کنارے پڑے ہوئے بہت سارے سمندری جانوروں اور مچھلیوں میں سے ایک مچھلی اٹھائی اور اسے آگ میں ڈال دیا۔جب مچھلی آگ میں بھن گئی تو اس کے بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔یہ خوشبو حئی کو بہت اچھی لگی اور اس میں کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے تھوڑی سی مچھلی کھائی تو اسے بڑا مزا آیا۔اس دن کے بعد تو حئی کو گوشت کھانے کی عادت پڑگئی۔اب وہ اکثر گوشت بھونتا اور مختلف قسم کے جانوروں کے گوشت سے لطف اندوز ہوتا۔وہ مختلف بحری اور برّی جانوروں کا شکار کرنے لگا۔یہاں تک کہ وہ اس میں ماہر ہوگیا۔اب تو اس کی محبت آگ سے اور زیادہ بڑھ گئی۔
حئی کے خیالات
آگ کی خوبصورتی اوراس کے فوائد اور طاقت کو دیکھ کر آگ سے اس کی دلچسپی بڑھ گئی اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جو چیز اس کی ماں کے دل سے نکل گئی تھی،آگ جیسی ہی کوئی چیز ہوگی۔اسے اپنے اس خیال پر یقین ہونے لگا کیونکہ وہ دیکھتا تھا کہ جاندار جب تک زندہ ہے اس میں گرمی پائی جاتی ہے۔اور جب مرجاتا ہے تو ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔اس نے دیکھا کہ یہ قانون عام ہے۔اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔اس کے دل نے ان خیالات کومزید تقویت پہنچائی۔مزید تقویت اس بات سے پہنچی کہ وہ خود اپنے سینے میں گرمی محسوس کرتا ہے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں سے اس نے ہرنی کے جسم کو کاٹا تھا۔اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ کسی جانور کو پکڑ کر اسکے دل کو چیر کر اس کھوکھلی جگہ کو دیکھے جو اس کی ماں کے دل میں بھی خالی تھی۔ہوسکتا ہے کہ اس زندہ جانور کے دل کا وہ حصہ آگ جیسی ہی کسی چیز سے بھرا ہوا ہو۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید آگ یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز حیوانات کے دل میں حرارت اور زندگی پیدا کرتی ہے۔مجھے یہ لازماً تحقیق کرنی چاہیے کہ ممکن ہے دل کے اس حصے میں مجھے کسی قسم کی روشنی یا آگ نظر آئے۔
جانور کا دل
ابھی اس کے دل میں یہ خیال جما ہی تھا کہ اس نے ایک جانور پکڑا اور اس کے ہاتھ پاؤں اس نے کنڈے پر باندھ دیئے۔ اب اس نے اسی طرح اس کا سینہ چاک کیا جس طرح کہ اپنی ماں کا سینہ چاک کیا تھا۔اس طرح وہ دل تک پہنچ گیا۔پہلے اس نے دائیں جانب کو دیکھا تو وہ خالی جگہ آبی بخارات سے بھری ہوئی تھی جوکہ سفید کُہرے سے مشابہ تھا۔اس جگہ اس نے اپنی انگلی ڈالی تواسے اتنی زیادہ گرمی محسوس ہوئی گویا اس کی اُنگلی جل رہی ہے۔اسکے بعد یہ جانور فوری طور پر مر گیا۔ اب حئی کو یقین ہوگیا کہ یہی گرم گرم آبی بخارات اس جانور کی زندگی کا سبب تھے اور یہی وہ چیز ہے جو تمام حیوانات کو زندگی کی حرارت سے مالا مال رکھتی ہے۔یہ چیز جب کسی جاندار سے جدا ہو جاتی ہے تو وہ مر جاتاہے۔ پھر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ جانوروں کے تمام اعضاء کے بارے میں تحقیق کرے۔
روح اور جسم
مسلسل سوچنے سے اس پر یہ بات ثابت ہوئی کہ جانوروں میں ہر جانور کے بہت سارے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس کے باوجود ہر جاندار کی روح ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ تمام روحوں کا ایک ہی مرشد ہے۔ اِس طرح سے تمام کاموں میں یہی روح در اصل کام کر رہی ہوتی ہے۔جسم کے تمام کام اسی روح کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ روح ارادہ کرتی ہے اور جسم اس پر عمل کرتا ہے۔روح خواہش کرتی ہے اور جسم اس کی تکمیل کردیتا ہے۔

زندگی کاسامان
ّ حئی ان حقیقتوں کے بارے میں بہت زیادہ سوچتا رہتا تھا۔ ان حقیقتوں کی رہنمائی اس کی عقل اور اس کی فکر نے کی تھی۔اس کی یہ رائے بن گئی کہ یہ سب حقائق صحیح ہیں۔ان میں شک نہیں کیا جاسکتا۔اس طرح یہ تمام باتیں جانوروں کی روح پر اس طرح سے صادق آتی ہیں جیسا کہ دوسری چیزوں کے بارے میں بیان کی گئی ہیں۔یہی روح جسم کے تمام اعضاء کو حرکت میں لاتی ہے۔ اسی روح نے جسم کے ہر حصے کو زندگی عطا کی ہے۔ حئی کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ جانوروں کی روح ایک ہی ہے البتہ وہ مختلف کاموں کے لئے مختلف اعضاء کو استعمال کرتی ہیں اور اپنی مرضی کی تکمیل کرلیتی ہیں۔جب یہ روح آنکھ کے عضو کو استعمال کرتی ہے تو اسے بصارت(دیکھنا) کہا جاتا ہے۔ جب یہ روح کان کے عضو کو استعمال کرتی ہے تو اسے سمع (سننا) کہا جاتا ہے۔ یہی روح جب ناک کو استعمال کرتی ہے تو اسے سونگھنا کہاجاتا ہے۔ یہی روح جب زبان کو استعمال کرتی ہے تو اسے ذائقہ (چکھنا) کہا جاتا ہے۔یہی روح جب جلد اور گوشت کو استعمال کرتی ہے تو لمس (چھونا) کہا جاتا ہے اور یہی روح جب جسم کے کسی بھی عضو کو کام میں لاتی ہے تو اسے حرکت کہا جاتا ہے۔جب یہ روح جگر اور معدے کو کام میں لاتی ہے تو اسے غذا اور خوراک کہا جاتا ہے۔
روح کی فضیلت
اوپر جتنے کام بیان کئے گئے ہیں، ان تمام کاموں کو جانوروں کے اعضاء انجام دیتے ہیں لیکن یہ تمام کام انجام دینے کے لئے روح نے مختلف راستے بنا رکھے ہیں جسے اعصابی نظام کہا جاتا ہے۔ جب کبھی یہ راستے ٹوٹ جاتے ہیں یا بند ہوجاتے ہیں تو متعلقہ عضو بے کار ہوجاتا ہے۔ یہی روح تمام اعضاء میں گردش کرتی ہے۔کسی بھی وجہ سے، کسی بھی جسمانی عضو میں اگر روح نہ پہنچ پائے تو وہ عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔بالکل اسی ہتھیار کی طرح سے جو خراب ہو جاتا ہے تو اسے کوئی استعمال نہیں کرتا، پھر وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
اسی طرح جب یہ روح پورے جسم سے نکل جاتی ہے یا کسی طور پر ختم ہوجاتی ہے تو سارا جسم کام کرنا چھوڑدیتا ہے اور اس پر سکوت کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔
حئی کا اکیسواں سال
اب حئی بن یقظان کی عمر اکیس سال ہوگئی۔اس دوران اس نے انواع و اقسام کے کام کئے۔مختلف جانوروں کی کھال اتار کر اپنا لباس بناتا اوراورانہی کھالوں سے اس نے اپنے چلنے پھرنے کے لئے جوتے بھی بنالیے۔مختلف چوپایوں کے بالوں کو وہ دھاگے کے طور پر استعمال کرنے لگا۔اسی طرح جوٹ(پٹ سن) کے ریشوں سے اور ہر ریشے دار درخت سے اس نے دھاگے کا کام لیا۔اسی طرح جانوروں کے مضبوط کانٹوں جیسی ہڈیوں کو وہ کنگھی کی طور پر استعمال کرنے لگا۔اسی طرح بانس کو رگڑ کر اسے دھاری دار بنا لیا۔
حئی کا گھر
حئی نے پرندوں کو دیکھا، وہ محنت کرکے اپنا گھر بنالیتے ہیں۔ پرندوں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی گھر بنالیا۔وہاں وہ آرام کرتا اور شکار سے جو غذا بچ جاتی اسے رکھ چھوڑتا۔اسی طرح اس نے بہت سارے بانس توڑ کر اس گھر کا ایک دروازہ بھی بنالیا تاکہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی جانور اندر نہ آسکے۔اس طرح حئی نے اپنی عقل مندی،اپنے تجربہ اور سوجھ بوجھ سے اپنا گھر بھی تعمیر کرلیا اور یوں اس کی زندگی میں آہستہ آہستہ سلیقہ پیدا ہوتا گیا۔
شکار کا سامان
حیّ نے سوچا کہ جن جانوروں کو اور پرندوں کو اس نے پالا ہے، انہیں شکار کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح اس نے کچھ مرغیاں وغیرہ پالیں۔جن کے انڈوں اور چوزوں کو وہ استعمال میں لاتا ہے۔اسی طرح جنگلی گائے کے لمبے لمبے سینگوں کو اس نے بانس اور لکڑیوں پر مضبوطی سے باندھ دیا۔آگ کے ذریعے انہیں مزید مضبوط اور خوبصورت بنادیا۔وہ نیزے جیسی چیز بن گئی۔ اسی طرح اس نے کچھ جانوروں کی کھال کو ملا کر زرہ کے طور پر پہننا شروع کردیا۔کیوں کہ اسے اکثر جنگلی درندوں کے حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ یہ زرہ اس کی حفاظت کا کام کرتی تھی۔
چوپایوں کا استعمال
حئی نے محسوس کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بہت کام لے سکتا ہے اور اس نے دیکھا کہ تمام جانوروں کے مقابلے میں اس کے ہاتھ سب سے زیادہ کام آتے ہیں۔اس نے سوچا کہ اس کے باوجود جب بھی وہ کسی جانور کو پکڑ نا چاہتا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔اس لئے وہ اس کا پیچھا نہیں کرسکتا۔اس مشکل کو حل کرنے کے بارے میں حئی سوچنے لگا۔ بہت سوچنے کے بعد اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کچھ تیز رفتار جانوروں سے دوستی کرنی چاہیے۔ انہیں چارا کھلا یا جائے۔ ان سے محبت کی جائے اور پھر ان پر سواری کی جائے۔ اِس گمنام جزیرے میں کچھ گھوڑے موجود تھے اور وہ آہستہ آہستہ انہیں سدھانے لگا۔ آخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ان کی پیٹھ پر اس نے جانوروں کی کھالیں بچھادی اور ان کے منہ میں لگام ٖڈال دی۔ اب بڑے مزے سے وہ ان گھوڑوں کو،گدھوں کو،سواری کے لئے استعمال کرنے لگااور اس طرح اس کی وہ خواہش پوری ہوگئی کہ تیز بھاگنے والے جانوروں کو کس طرح پکڑا جائے اور پھر ان کا کس طرح پیچھا کیا جائے۔اکیس سال کی عمر کو پہنچنے تک وہ جانوروں کے بارے میں بہت کچھ سیکھ چکا تھا۔
اکیس سال کے بعد
اب اس نے اپنے ارد گرد موجود ہر قسم کی نباتات،معدنیات،جمادات،حیوانات،مختلف قسم کے پتھر،مٹی،پانی، آبی بخارات، برف، سردی،گرمی،دھواں،ہر چیز پر غور کرنا شروع کردیا۔ اس نے دیکھا کہ ان کی بے شمار خصوصیات ہیں۔ اور بہت سارے کام ہیں، کچھ کام ایک دوسرے کی ضد میں ہیں۔ وہ ان معاملات پر بہت زیادہ سوچنے لگا۔اِس نے دیکھا کہ کچھ کاموں میں یہ سب چیزیں ملتی جلتی ہیں۔ اور کچھ کاموں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ان تمام چیزوں کو شمار کرنا تقریباًنا ممکن ہے۔جب اس نے بہت زیادہ غوروفکر کیا تو اسے یہ چیزیں بھی اپنے جسمانی اعضاء کی طرح نظر آنے لگیں۔ یہ کچھ باتوں میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور کچھ کاموں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
انسان کیا ہے
ّ حئی غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کے بے شمار اعضا ہیں۔ انکی بناوٹ اور ان کے کام ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں ذرّہ برابر بھی جدائی نہیں ہے۔ اِس لئے یہ سب مل کر ایک ہی چیزہیں۔ان میں جو فرق نظر آتاہے، اس روح کی وجہ سے ہے جوتمام اعضا کو کنٹرول کرتی ہے۔
جانور کیا ہے
اسی طرح اس نے تمام جانوروں پر غور کیا۔ ہر قسم کے جانور کے بارے میں بہت سوچا۔مثلاًہرن، گھوڑے، گدھے،اور ہر قسم کے پرندے۔اس نے کیا سوچا؟ اس نے ایک عجیب بات سوچی۔اس کی عقل نے اسے بالکل صحیح نتیجے پر پہنچا دیا کہ یہ تمام جانور اپنے ظاہری اعضااور پوشیدہ اعضا میں اور خواص کے معاملے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔صرف تھوڑی سی باتوں میں ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اِن سب میں ایک ہی روح پائی جاتی ہے۔مختلف جسموں میں جاکر روح نے مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں۔اگر تمام روحیں ایک بڑے سے برتن میں جمع کرلی جائیں تو وہ ایک ہی چیز بن جائے گی اور اس کی ایک ہی شکل ہوگی۔ اس لحاظ سے تمام ہرن ایک ہی قسم کے ہیں۔ تمام گائے، بیل ایک ہی قسم کے ہیں۔ تمام گھوڑے ایک ہی قسم کے ہیں۔
مشترکہ خصوصیات
اب اس نے تمام جانوروں کے بارے میں سوچا۔بہت زیادہ غوررفکر کیا تو کس نتیجے پر پہنچا؟ اس نے دیکھا کہ ان تمام جانوروں میں خواص پائے جاتے ہیں۔اسی طرح نشونماکے لئے ان سب کو غذا کی ضرورت ہے۔یہ سب جانور حرکت کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے جہاں چاہیں وہاں جاسکتے ہیں۔ اب حئی اس نتیجے پر پہنچا کہ خواص،غذا اور حرکت یہ حیوانات کی روح کے خاص خاص کام ہیں۔ان مشترکہ کاموں کے علاوہ جو مختلف خصوصیات مختلف جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔وہ بنیادی اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔اس لئے تمام جانوروں کی روح ایک ہی قسم کی ہے۔اس نے اس بات کو ایک بہت خوبصورت تشبیہ سے سمجھا۔ان مختلف حیوانات میں جو مختلف روحیں پائی جاتی ہیں ان کی مثال اس پانی کی طرح ہے جسے بہت سے بر تنوں میں ڈال دیا جائے تو پانی کی شکل برتن جیسی ہوجائے گی۔کچھ برتن گرم ہو ں گے اور کچھ ٹھنڈے ہوں گے لیکن ان سب میں پائی جانے والی چیز کی حقیقت ایک ہی ہے۔
نباتات کیا ہیں
پھر وہ مختلف درختوں اور پودوں پر غور کرنے لگا۔اس نے دیکھا کہ نباتات کی بھی بے شمار قسمیں ہیں لیکن ان قسموں کے اختلاف کے باوجود یہ درخت اور پودے اپنی ٹہنیوں میں، پتوں میں،پھولوں میں،پھلوں میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔اس نے سوچا کہ اس کا معاملہ بھی حیوانات جیسا ہے۔ان سب میں ایک ہی چیز کام کر رہی ہے جیسا کہ حیوانات میں روح کار فرما ہے۔ اس طرح اس نے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا کہ ان تمام نباتات کی ایک ہی جنس ہے۔اس نے دیکھا کہ یہ تمام نباتات غذا حاصل کرتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں۔
حیوانات اور نباتات
اب حئی اپنے دل میں حیوانات اور نباتات کا مقابلہ کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ یہ دونوں ہی غذا حاصل کرتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں، البتہ حیوانات اور نباتات میں فرق یہ ہے کہ حیوانات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں،ان میں کچھ ظاہری خواص پائے جاتے ہیں اور یہ کہ کچھ باتوں کو سمجھ بھی جاتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ نباتات بھی کچھ باتوں میں حیوانات کی طرح ہیں کہ بعض پودوں کے پھول سورج کی سمت گھوم جاتے ہیں اور اسی طرح جڑیں اور ٹہنیاں بھی جہاں سے انہیں غذا ملتی ہے، اسی طرف کا رخ کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ چیزیں بھی حیوانات اور نباتات دونوں میں مشترک ہیں۔ایک میں عمدہ اور مکمل طریقے سے موجود ہیں اور دوسرے میں ناقص انداز میں۔ اس کی مثال بھی پانی جیسی ہے۔ ایک قسم کا پانی جما ہوا ہوتا ہے دوسرا مائع اور سیال،اس تمام سوچ بچار کے نتیجے میں حئی اس نتیجہ پر پہنچا کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔

جمادات کی خصوصیات
حئی نے ان چیزوں کو دیکھا جن میں ظاہری خواص نہیں پائے جاتے۔ نہ وہ غذا حاصل کرتی ہیں اور نہ ہی وہ گھٹتی بڑھتی ہیں۔ جیسے پتھر،مٹی،پانی،ہوا اور آگ۔اس نے دیکھا کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی لمبائی، چوڑائی محدود ہے۔اس میں فرق واقع نہیں ہوتا۔اس میں سے بعض چیزیں رنگ دار اور بعض کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔کچھ چیزیں گرم اور کچھ چیزیں ٹھنڈی ہیں۔ یہ بات بھی اس کے مشاہدے میں آئی کہ گرم چیزیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں اور ٹھنڈی چیزیں گرم۔پانی بھاپ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور بھاپ پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اسی طرح جلنے والی چیزیں انگارے اور راکھ میں تبدیل ہوجا تی ہیں۔شعلے اور دھویں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔دھواں اگر کسی پتھر سے ٹکرائے تو اس پر اپنے نشانات چھوڑدیتا ہے۔اس نے سوچا کہ سب کے سب اصل میں ایک ہی ہیں۔ان کی شکلیں مختلف ہیں اور خصوصیات مختلف ہیں لیکن ان سب کے باوجود حیوانات،نباتات،اور جمادات میں کچھ مشترکہ صفات پائی جاتی ہیں۔
مشترکہ صفات
ایک مدت تک حئی کے خیالات یہی رہے۔پھر اس نے زندہ اور مردہ چیزوں پر غور کیا۔وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سب چیزوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ یا تو یہ اوپر کی طرف جاتی ہیں جیسے آگ اور دھواں وغیرہ۔جب کہ پانی یا پتھر یا حیوانات کے اعضایا نباتات کے مختلف حصے یہ سب نیچے کی طرف حرکت کرتی ہیں۔زمین کی سخت سطح پر پہنچ کر یہ سب چیزیں رک جاتی ہیں۔یہ سب چیزیں زمین پھاڑ نہیں سکتیں۔اگر زمین پھاڑ سکتیں تو مزید حرکت کرتی رہتیں۔کیوں کہ جن چیزوں کو نیچے پھینکا جاتا ہے، تو وہ مڑتی مڑاتی اور گرتی گراتی آخری حد تک پہنچ جاتی ہیں۔اسی طرح اوپر جانے والی چیزیں جب تک ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو وہ اوپر ہی جاتی رہتی ہیں۔بسااوقات دائیں بائیں مڑ کر بھی اوپر نکل جاتی ہیں۔
حئی نے اس بات کابھی تجربہ کیا کہ کسی کھال یا مشک میں اگر ہوا بھری جائے، پھر اس کا منہ بند کرکے اسے پانی کے نیچے لے جایا جائے۔جب بھی وہ مشک پانی کے اوپر آنے کی کوشش کرے گی۔یہاں تک کہ وہ پانی کی سطح پر آجاتی ہے۔اب وہ ہوا کی طرح نہیں اڑتی۔
پانی کی خصوصیات
اب حئی نے پانی پر غور کرنا شروع کیا۔ اس نے دیکھا کہ جب پانی جم جاتا ہے تو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ اس جمی ہوئی حالت میں پانی نیچے کی طرف جاتا ہے۔جب پانی کو گرم کرلیا جائے۔آ گ پر رکھ کر یا سورج کی گرمی سے گرم ہوجائے،تواس کی ٹھنڈک ختم ہوجاتی ہے۔لیکن اب بھی نیچے کی طرف جانے کی خصوصیت باقی رہتی ہے لیکن پانی جب بہت زیادہ گرم ہو کر بھاپ بن جاتا ہے تو اس کی خصوصیت تبدیل ہوجاتی ہے۔اب وہ نیچے جانے کے بجائے اوپر کی طرف جاتا ہے۔
موجودات کا منبع
آخرکار حئی اس نتیجے پر پہنچا کہ موجود چیز کو کسی وجود بخشنے والے نے وجود بخشا ہے۔اس لحاظ سے وہ ان تمام چیزوں کے خالق کے بارے میں سوچنے لگا۔اس نے بار بار انفرادی طور پر تمام اشیاء پر غور کیا۔اس نے دیکھا کہ و ہ تمام چیزیں فنا ہوجانے والی ہیں۔ اس نے سوچا کہ ان تمام چیزوں میں کوئی ایک بہت بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
اس نے یہ بھی دیکھا کہ ان تمام چیزوں میں بے شمار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔پانی کو اگر حرارت مل جائے تو وہ بھاپ بن کر اوپر کی طرف اڑنے لگتا ہے۔اسی طر ح انسانی جسم بھی مختلف کام انجام دیتا ہے۔ کبھی اس پر غصے کی کیفیت ہوتی ہے۔کبھی پیارو محبت کی۔کبھی وہ صحت مند ہے تو کبھی بیمار۔ ان سب چیزوں کو قابو میں رکھنے میں یقینا کوئی زبر دست قوت ان کے پیچھے ہے۔
اسی طرح اپنی ذہانت،غور و فکر،مشاہدات،تجربات کے نتیجے میں حئی اللہ پر ایمان لانے کی منزل پر پہنچ گیا کہ وہی تمام مخلوقات کا خالق ہے۔یہ دنیا،یہ چرند پرند،حیوان درندے،پہاڑ،کوہسار، دریا غرض یہ کہ سب کچھ اسی نے بنایا ہے۔
پچاس سال کے بعد
اب حئی پچاس سال کا ہو چکا تھالیکن اس میں غور و فکر کی عادت اب بھی باقی تھی بلکہ وہ اپنے سوچنے کی وجہ سے اچھا خاصا فلسفی،اور سمجھ دار آدمی بن گیا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جس جزیرے میں حئی ابن یقظان پہنچا تھا، اس کے قریب ہی ایک اور جزیرہ تھا۔وہاں کے لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اس کی فرماں برداری کرتے تھے۔اس جزیرے میں دین کی صحیح تعلیمات پہنچ چکی تھیں۔اللہ کے رسول ؐاور ان کی لائی ہوئی تعلیمات پر یہ لوگ ایمان لاچکے تھے۔یہ دین اس جزیرے میں مسلسل پھیل رہا تھا اور اس کے اثرات دن بہ دن بڑھتے جارہے تھے۔حتیٰ کہ ایک دن اس جزیرے کا بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا۔اس نے جزیرے کے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جس پر تمام لوگ خوشی خوشی مسلمان ہوگئے۔اس جزیرے میں دو نیک جوان رہتے تھے ایک کا نام ”اسال“ اور دوسرے کا نام ”سلامان“ تھا۔یہ دونوں نوجوان بھی مسلمان ہوئے۔دونوں اسلام پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔یہ شریعت کے تمام احکامات کا خیال کرتے اور شریعت کے تمام فرائض پابندی سے انجام دیتے۔دین نے جن کاموں سے منع فرمایا، ان کے قریب بھی نہ جاتے۔ اس طرح یہ دونوں دین کی باریکیوں کو بہت اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔اسال دین کے پوشیدہ،باطنی اور روحانی باتوں کی گہرائیوں میں جانے کی کوشش کرتا۔وہ دین کے اسرارورموز کو سمجھنے لگا تھا۔اور اس کی پوشیدہ باریکیوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا تھا۔اس کا دوست اسال کے ظاہری الفاظ کا خیال کرتا اور اس کی پابندی کرتا تھا۔البتہ اس کے اسرار ورموز کی گہرائیوں میں جانے سے وہ دور رہتا تھا۔وہ بہت زیادہ سوچ بچار بھی نہیں کرتاتھا۔یہ دونوں دین میں مخلص تھے۔اللہ کی عبادت نہایت خشوع و خضوع سے کرتے تھے۔اپنے نفس پر پوری طرح قابو رکھتے۔ اپنی خواہشات نفسانی اور لغو خیالات پر قابو رکھتے تھے۔
اسال کو تنہائی پسند تھی۔وہ لوگوں سے دور رہنا چاہتا تھا کہ اسی طرح کامیابی اور نجات مل سکتی ہے۔لیکن اس معاملے میں سلامان کی رائے مختلف تھی۔ وہ لوگوں سے میل ملاپ کو ترجیح دیتا تھااور اجتماعیت کو پسند کرتا تھا۔اس کے خیال میں اسی طرح کامیابی نصیب ہوسکتی تھی۔ اسے ان پڑھ اور جاہل لوگوں کو دین سمجھانے کا موقع مل گیا تھا۔انہیں نیکی کا راستہ دکھانے اور گناہوں کے برے نتائج سے ڈر ایا جائے۔ انہیں ہدایت کا راستہ سمجھایا جائے اور گمراہی کی تاریکیوں سے نکالا جائے۔
اسال نے تنہائی اختیار کرلی۔کیوں کہ اس کے مزاج میں ہمیشہ غوروفکر کی عادت تھی۔ اس کی یہ خواہش خلوت اور تنہائی میں ہی ہوسکتی تھی البتہ سلامان نے اجتماعیت کو اختیار کیا کیوں کہ اس کے مزاج میں اسراروموز کی گہرائیوں میں ڈوبنے کی عادت نہیں تھی۔وہ بہت زیادہ غوروفکر سے بہت زیادہ دور رہنا چاہتا تھا۔اس کے خیال میں عام انسانو ں کے درمیان رہ کر دین کا کام کرنے میں انسان ہر قسم کے وسوسوں سے دور رہتا ہے۔اس کے دل میں غلط خیالات نہیں آتے اور شیطانی حملوں سے پناہ مل جاتی ہے۔
جدائی
اسال اور سلامان میں جو اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔ایک انفرادیت پسند تھا دوسرا اجتماعیت پسند تھا۔یہی ان دونوں میں جدائی کا سبب بن گیا۔اسال نے جب قریبی جزیرے کے بارے میں سنا۔یہ وہی جزیرہ ہے جہاں حئی رہتا تھا۔یہاں کی سرسبزی اور شادابی یہاں کے خوشگوار آب و ہوا کے بارے میں اسے کوئی معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ اس نے سوچا کہ اس جزیرے میں اسے اپنی مرضی کی تنہائی حاصل ہوجائے گی۔وہاں رہ کر وہ آسانی سے اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ اب اس نے مصمم فیصلہ کرلیا کہ اس جزیرے کی طرف کوچ کر جائے تاکہ لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر اپنی پوری زندگی سکون و اطمینان سے گزارے۔
اسال کی روانگی
اسال نے اپنا سارا مال و اسباب جمع کیا اور اس جزیرے پر پہنچنے کے لئے ایک کشتی کرائے پر لی۔اس کے بعد جو دولت اس کے پاس بچ گئی تھی۔وہ اس نے غریبوں،مسکینوں اور محتاجوں میں تقسیم کردی۔اپنے دوست سلامان سے الوداعی ملاقات کی اور کشتی پر سوار ہوگیا پھر ملاح اس جزیرے کی طرف روانہ ہوگیا۔
دو درویش کی زندگی
اسال اس جزیرے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتاتھا۔اس کی عظمت اور پاکیزگی بیان کرتا تھا۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات اور بلند اور ارفع و اعلیٰ کمالات پر غور کرتا رہتا۔ اس کا تعلق اللہ سے کبھی نہیں ٹوٹا۔اس کا دل ہمیشہ یادِربانی میں مصروف و مگن رہتا۔اس کے دل و دماغ میں کبھی برے خیا لات پیدا نہ ہوتے۔ جب بھی اسے بھوک لگتی تو وہ اس جزیرے کے پھل کھالیتا یا کسی جانور کا شکار کرلیتا جس کے ذریعہ وہ اپنی بھوک کو مٹالیتا اور پھراسی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مگن ہوجاتا۔
وہ بڑی خوشیوں اور مسرتوں میں تھا۔اپنے رب کی عبادت اور اپنے خالق سے ہر وقت دعاؤں اور مناجات میں مصروف رہنے کی وجہ سے اسے نہایت سکون اور اطمینان کی دولت حاصل ہوگئی تھی۔یہاں رہتے ہوئے وہ روزانہ اللہ کے لطف و کرم،اس کی رحمتوں اور برکتوں اور اس کی بے پایاں عنایت کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ اس کا رب کس طرح اس کی خوراک اور ضروریات کی تکمیل کر رہا ہے۔اب اس کا یقین اور پختہ ہوگیا اور ایمان کی دولت سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہونے لگیں۔
ا ب حئی اپنے فلسفیانہ خیالات میں غرق رہتا۔اپنے باریک افکار اور نظریات کی گہرائیوں میں ڈوبا رہتا۔اسے اپنی اس فلسفیانہ سوچ بچار سے صرف تھوڑی دیر کے لئے الگ رہنے کا موقع ملتاتھا جب وہ قریب میں موجود کوئی بھی خوراک حاصل کرنے لئے اٹھتا تھا۔ جس کے حصول کے لئے اسال جزیرے میں گھومتا تھا اسے وہاں کوئی انسان نظرنہ آیااور نہ ہی وہاں انسانی زندگی کے کوئی اور آثار موجود تھے۔ یہ د یکھ کراسال کو بہت خوشی ہوئی کیوں کہ وہ تو تنہائی کا شوقین تھااور انسانوں کی بھیڑ سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتا تھا۔

اچانک ملاقات
ایک مرتبہ ایساہو ا کہ حئی اپنی غذا کی تلاش میں گھوم رہا تھا اور اسال اس سے الگ تھلگ رہ کر اللہ عبادت کرنا چاہتا تھا۔اسی لئے وہ اپنا گھر چھوڑ کر انسانوں سے دوراس جزیرے میں آگیا تھا۔اس نے سوچا کہ اگر میں نے اس آدمی سے ملاقات کی تو اس وقت جو تنہائی اور خلوت مجھے میسر ہے وہ برباد ہو جائے گی اور میری تمام امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔البتہ حئی اسال کے بارے میں سوچتا رہا کہ یہ کیسی انوکھی چیز ہے کیوں کہ وہ اس سے پہلے جتنے جانوروں کو دیکھ چکا تھا،ان سب سے یہ مختلف تھا۔
اسال کا فرار
اسال نے اون اور بالوں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ حئی نے سوچا کہ دوسرے جانوروں کی طرح یہ بھی اس کا قدرتی لباس ہے جو اس کے جسم پر پیدا ہوا ہے۔ حئی کافی دیر تک اسے حیرانی اور تعجب سے دیکھتا رہا۔البتہ اسال موقع پاتے ہی وہاں سے فرار ہوگیا،اس نے سوچا کہ یہ آدمی اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہ کردے۔
تحقیق و جستجو،اور چیزوں کی حقیقت تک پہنچنا حئی کی طبیعت کا جز بن چکا تھا۔اس نے دیکھا کہ اسال بہت تیز دوڑرہا ہے۔وہ
اسال کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔پھر حئی آہستہ چلنے لگا۔وہ اس کے پیچھے رہ کر دختوں میں چھپ گیا۔اب اسال نے یہ سوچا کہ جو آدمی اس کے پیچھے آرہا تھا،وہ واپس چلاگیا ہے۔
اسال کی عبادت
اسال پھر عبادت میں مشغول ہوگیا۔نماز پڑھتا، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتا،دعائیں مانگتا،اپنے گناہوں پر روتا اور خوب گڑ گڑاتا تھا۔ اس خشوع و خضوع کی کیفیت میں اسے کسی چیز کی خبر نہ رہی۔جب کہ حئی اس کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن اسال کو اس کا احساس نہیں تھا۔حئی نے اسے نماز پڑھتے دیکھا،اس کی تلاوت کی میٹھی آواز سنی، اس کو دعائیں مانگتے دیکھا اور گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تو اسے یہ سب باتیں بہت اچھی لگیں۔اس نے اس کی خوبصورت آواز سنی۔ اس کے جو کلمات سنے اس میں ایک ترتیب اور وزن موجود تھا۔ایسی آواز اس نے آج تک کسی جانورسے نہیں سنی تھی۔اس نے اس اجنبی کی صورت پر غور کیا۔اسے ایسے لگا کہ وہ دونوں ایک جیسے ہی ہیں۔جب اس کے لباس پر بہت زیادہ غور کیاتو اسے پتہ چلا کہ اس اجنبی نے میری طرح کوئی لباس بنا کر پہن لیا ہے۔یہ اُون اور بال اس قدرتی لباس کا حصہ نہیں۔حئی نے سوچا کہ کوئی بہت بڑی چیز ہے،شاید یہ ان تینوں میں سے ہے،جنہیں علم ہوتا ہے۔ اب تو اسال سے ملاقات کے لئے اس کا شوق اور بڑھ گیا۔اس نے سوچا کہ اسال کے پاس جو کچھ ہے اسے دیکھنا چاہیے۔ وہ رو کیوں رہا تھا اور عبادت کر رہا تھا۔
ملاقات
اسال کو اس کے قریب آنے کا پتا چلا تو وہ دوبارہ تیزی سے دوڑنے لگا۔پھر حئی اس کے پیچھے تیزی سے ڈوڑا اور آخر کار اس کو پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔اسال نے دیکھا کہ حئی نے مختلف جانوروں کی کھالوں اور بالوں کا لباس بنا کر پہن رکھا ہے۔اس کے اپنے بال لمبے ہوچکے ہیں۔اس نے سوچا کہ یہ آدمی مجھ سے تیز دوڑ سکتا ہے اور قوت میں بہت زیادہ ہے۔اب تو اسے حئی سے خوف محسوس ہونے لگا۔پھر ہاتھ اور آنکھوں کے اشارے سے وہ حئی سے رحم کرنے کی درخواست کرنے لگا۔اس نے اپنی زبان سے بھی اس سے رحم کی درخواست کی لیکن وہ اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا اور اسے پتا نہیں تھا کہ یہ کون ہے، البتہ وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ مختلف جانوروں کے پیار و محبت کی آوازیں اس نے سیکھی تھیں۔ان آوازوں سے اس نے کام لیا۔پیار سے اسال کے کندھے پر ہاتھ پھیرا۔اس سے اپنی محبت اور الفت کا اظہار کرنے لگا۔اب اسال کو کچھ اطمینان ہوا اور اسے یقین ہوگیا کہ حئی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔
دو اجنبی
اسال کو فلسفہ اور قدیم علوم سے محبت تھی اوراس کے لیے اس نے بہت سی پُرانی زبانیں سیکھیں۔بلکہ ان زبانوں کا ماہر ہو چکا تھا۔ اب وہ حئی کو مختلف زبانوں میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔اسے مایوسی ہوئی کیوں کہ حئی اس کی زبان سمجھنے سے مجبور تھا۔ یہ سب گفتگو حئی کے لیے تعجب خیز تھی۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کون ہے۔البتہ حئی نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اس سے محبت کر رہا ہے اور اس کے لیے نیک جذبات رکھتا ہے۔اب دونوں اجنبی ایک دوسرے کے بارے میں فکر مند تھے۔
اسال کا کھانا
اسال اپنے آبائی جزیرے سے کھانے پینے کی چیزیں لے کرچلا تھا۔ اس میں سے کچھ تو اب تک بچی ہوئی تھیں۔یہ کھانا اسال نے حئی کو پیش کیا۔حئی نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ہے کیوں کہ اس نے پہلے ایسی کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا۔اسال نے اس میں سے چند لقمے کھائے اور حئی کو اشاروں سے کہا کہ وہ بھی کھائے لیکن حئی اس عجیب و غریب چیز کے بار ے میں سوچتا ہی رہا۔ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی،اس نے سوچا کہ مجھے یہ چیز کھا نی چاہئے یا نہیں کھانی چاہئے۔شروع میں وہ کھانے کے لیے رکا رہا۔جبکہ اسال اسے مسلسل کھانے کے لیے کہتا رہا۔حئی کو اسال سے محبت ہو چکی تھی۔اس نے سوچا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا تو اسال ناراض ہو جائے گا۔ اس نے یہ سوچ کر کھانا شروع کردیا جب اس نے کھانا چکھا تو اسے خیال آیا کی اس کھانے کے نتیجے میں وہ کسی تکلیف کا شکار نہ ہوجائے۔ وہ ایسی چیز کھا رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔اب اپنے کھانے پر کچھ افسوس ہونے لگا۔ اس نے سوچا کی اسال کو چھوڑ کر اسے اپنے گھر واپس چلے جانا چاہیے لیکن دوسری طرف اجنبی کی حقیقت معلوم کرنے کا شوق اس کے دل میں پوری شدت سے موجزن تھا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیاکہ مجھے یہیں رہنا چاہئے تاکہ اس کی حقیقت معلوم کر سکوں اور جب مجھے پوری معلومات حا صل ہوجائیں گی تو میں اپنی پرانی زندگی کے روز و شب میں لوٹ جاؤں گا اور دوبارہ غورو فکر میں مشغول ہو جاؤں گا۔یہ سوچ کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے اسال کے ساتھ رہنا چاہئے۔
حئی کا استاد
اسال نے دیکھا کہ اس کا ساتھی حئی تو کسی قسم کی گفتگو نہیں کر سکتا۔ اس نے سوچا کہ یہ آدمی میرے دین کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا سکتا۔ اب اس نے یہ سوچا کہ اس آدمی کو دین کی باتیں بتائی جائیں،اسے کوئی زبان سکھائی جائے،اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات بتائیں جائیں تو مجھے بہت زیادہ اجر و ثواب ملے گا۔یہ سوچ کر اسال نے حئی کو سب سے پہلے بولنا سکھایا۔وہ موجود چیز کی طرف اشارہ کرتا، اس کا نام بولتا۔حئی اس کے بولے ہوئے الفاظ دہراتا۔اس طرح اسال نے حئی کو تمام چیزوں کے نام یاد کرادیئے۔جب حئی تمام چیزوں کے نام سیکھ گیا تو وہ آہستہ آہستہ بولنے لگا۔تھوری سی مدت میں وہ زبان سمجھ گیا۔اب اسال نے حئی سے اس کی حقیقت کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔حئی نے بتایا کہ اسے اپنی ابتدا کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔اسے نہ تو اپنے باپ کا پتا ہے نہ ماں کی خبر۔ وہ تو صرف اس ہرنی کو جانتا ہے جس نے اس کی پرورش کی تھی۔ اس نے اپنے سارے حالات اسال کو بتائے۔اور یہ بھی بتایا کہ وہ علم میں اس طرح تر قی کرتا رہا۔اور سوچ و بچار اور غورو فکرکے اس اعلیٰ مقام تک پہنچا ہے۔جب اسال نے اس کی یہ ساری عجیب و غریب باتیں سنیں اور اس کی سمجھ بوجھ کا اندازہ لگایا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس کے دل میں حئی کی قدرو قیمت بڑھ گئی اور وہ حئی سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا۔ حئی کی داستان سن کر اسال کا ایمان بڑھ گیا۔اس کا یقین طاقت ور ہو گیا۔اس کے دل کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کا دماغ روشن ہوگیا۔اب دین کی ہر بات آسانی سے اس کی سمجھ آجاتی۔دین کا مشکل سے مشکل مسئلہ اس کے لئے آسان ہوگیا۔دین کے پیچیدہ مسائل وہ بڑی آسانی سے سمجھنے لگا۔اس طرح وہ دین کے انتہائی عقل مند اور سمجھ دار علما کی صف میں شامل ہو گیا۔
اب اسال حئی کو بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا۔کیوں کہ وہ حئی کو اللہ کے نیک بندوں میں شمار کرنے لگا۔اسے اولیاء اللہ میں سے سمجھتا تھا۔جنہیں نہ خوف ہوتا نہ ہی غم،اب اسال حئی کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھنے لگا اور اس کے اشارے پر چلنے لگا۔اس دن سے اسال حئی کا بہترین دوست اور مخلص ترین ساتھی بن گیا۔
شریعت کی فضیلت
حئی اسال سے بہت سے سوالات پوچھتا رہا۔اسال اسے اپنے جزیرے کے بارے میں،وہاں کی لوگوں کی بارے میں،ان کی زندگیوں کے بارے میں اور سچے دین کے ان تک پہنچنے سے پہلے جو ان کے معاشرے کی حالت تھی،ان سب چیزوں کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نے حئی کو بتایا کہ ان کے پاس نور ہدایت پہنچ چکا ہے اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی آگئی ہے۔اب اسال نے حئی کو یہ بتا یاکہ جنت کیا ہے۔ دوزخ کیا ہے؟حشر نشر ِ ِ،حساب و کتاب، میزان،پل صراط،اچھے اعمال اور بُرے اعمال کا بدلہ،روز قیامت کے حالات،ایک ایک چیز اسال نے حئی کو سمجھادی۔حئی کو یہ باتیں بہت آسانی سے سمجھ آگئیں، کیوں کہ غوروفکرکی وجہ سے وہ جس نتیجے پر پہنچا تھا۔یہ ساری باتیں اس کے مطابق تھیں۔اسے یقین تھا کہ جو سچا اور امین پیغمبرؓ یہ سیدھاسادہ اور سچا دین لے کر آیا ہے۔اسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہی بھیجا ہے اوروہی رسول ﷺ،اللہ کے دربار میں بہت بڑے مرتبے کا مالک ہے۔اس نے جو کچھ بتایا ہے، وہ حق ہے۔ اس کی ہر بات سچی ہے۔حئی رسول ﷺ کے تابع دار اور فرماں بردار امتیوں میں شامل ہوگیا۔
حئی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کیا چیزیں فرض کی ہیں۔اسال نے اسے نماز،زکوٰۃ،روزہ،حج اور جہادفی سبیل اللہ کے بارے میں بتایا اور ان سب کاموں کی حکمتیں بھی اسے سمجھائیں۔حئی یہ ساری چیزیں معلوم کر کے بہت خوش ہوا اور ان تمام چیزوں پر اس نے پورے خلوص سے عمل کرنا شروع کردیا۔کیوں کہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ جس رسولﷺ نے یہ تعلیم دی ہے۔وہ سچا رسول ہے۔
حئی کے خیالات
ایک بات حئی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔جو باتیں اسال نے اسے سمجھائی تھیں۔ ان میں یہی ایک بات تھی جس کی حکمت وہ اب تک نہیں سمجھ سکاتھا کہ لوگ مال و دولت کیوں جمع کرتے ہیں اور خورد و نوش کے سامان کی ذخیرہ اندوزی کیوں کرتے ہیں جبکہ یہی چیز لوگوں کو باطل کی طرف لے جاتی ہے اور حق سے دور کرتی ہے۔اس معاملے میں اس کی رائے یہ تھی کہ ہر شخص کو اپنی ضرورت کے مطابق سامان دنیا حاصل کرنا چاہئے جس سے اس کی زندگی باقی رہے۔ جہاں تک مال و دولت کا تعلق ہے، اس کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ دین نے مال و دولت کے بارے میں جو احکامات دیئے ہیں،جیسے زکوٰۃ کے احکامات اور اس کی تقسیم،اسی طرح لین دین کے احکامات،سود کی ممانعت اور اسی طرح چوری اور ڈاکے کی سزائیں۔یہ سب باتیں اسے بڑی عجیب لگتی تھیں۔وہ کہتا تھا کہ اگر لوگ ان تمام احکامات کو سمجھ جاتے تو اپنے غلط کاموں سے باز آجاتے۔حق اور انصاف کے مطابق زندگی گزارتے۔مال و دولت کی لالچ نہ کرتے۔دولت جمع نہ کرتے۔ اگر ان میں دنیا کی لالچ نہ ہو تی تو انہیں زکوٰۃ کے احکامات کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ نہ چور چوری کرتا اور نہ ہی ان کے ہاتھ کاٹے جاتے۔
حئی کے یہ خوبصورت خیالات اس نظریے کی وجہ سے تھے کیوں کہ وہ تمام انسانوں کو نیک اور پارسا سمجھتا تھا۔اسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ کچھ انسانوں پر ان کی حیوانی خواہشات غالب آجاتی ہیں اوروہ ان خواہشات کی غلامی کرتے ہوئے جانوروں سے بھی نچلے درجے میں پہنچ جاتے ہیں۔

اسال کی گفتگو
لوگوں کی خرابیوں کے بارے میں حئی کی فکرمندی جب بہت بڑھ گئی اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ان برائیوں سے نجات مل جائے تو اس نے ارادہ کیا کہ مجھے ان کے پاس جانا چاہیے۔اور انہیں حق بات سمجھانی چاہیے۔انہیں ان برائیوں پر خبردار کرنا چاہئے۔حئی نے اس سلسلے میں اپنے ساتھی اسال سے گفتگو کی اور اس سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی ترکیب ہوسکتی ہے کہ ہم اس جزیرے میں پہنچ جائیں تاکہ لوگوں کو نجات اور کامیابی کی راہ دکھا سکیں تاکہ لوگ سیدھے راستے پرآجائیں۔اسال نے اسے جزیرے کے زیادہ تر لوگوں کی حا لت سمجھائی کہ ان کی عادتیں خراب ہو چکی ہیں۔اللہ کے احکامات کی روگردانی ان کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے لیکن وہ یہ باتیں نہیں سمجھ سکا۔اس کے دل میں لوگوں کی اصلاح کی امید اسی طرح موجزن تھی۔
سمندر کے کنارے
اسال کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ شاید اللہ تعالیٰ حئی کے ذریعے سے کچھ لوگوں کو ہدایت دے دے۔خاص طور پر وہ لوگ جن میں نیکی اوراخلاص موجود ہے۔یہ سوچ کر اس نے حئی کی تائید کی اور اس کی تجویز کو پسند کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس کی تمام تمناؤں کو اور اچھے خیالات کو پورا فرمائے اور ان دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جزیرے تک جانے کے لئے انہیں سمندر کے پار جانے کی کوئی صورت نکالنی چا ہیے۔چنانچہ ان دونوں نے اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں کیں کہ اے پروردگار ہمارے اس کام کے لیے کوئی راستہ پیدا فرما دے۔
کشتی میں
اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان ہی دنوں ایک کشتی سمندر میں اپنا راستہ بھول گئی۔تیز ہواؤں اور خوفناک موجوں نے کشتی کو اس جزیرے کے قریب پھینک دیا۔جب یہ کشتی جزیرے سے لگ گئی تو کشتی والوں نے اسال اور حئی کو ساحل پر کھڑا دیکھا۔ وہ ان دونوں کے قریب آئے۔اسال نے ان سے گفتگو کی اور درخواست کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی میں بٹھا کر ساتھ لے جائیں۔کشتی والوں نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی،اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک ایسی ہوا چلائی جس نے کشتی کو بہت جلد جزیرے پر پہنچا دیا۔
جزیرے کی معززین
وہ دونوں کشتی سے اتر کر شہر میں چلے گئے۔انہوں نے حئی کے بارے میں پوچھا تو اسال نے انہیں حئی کے سارے حالات بتادیئے۔ اب تو حئی کے گرد لوگوں کا ایک جمگھٹا لگ گیا۔ہر طرف سے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے۔ہر ایک کے دل میں اس کی بڑائی اور عظمت تھی۔ وہ سب لوگ حئی کی بہت زیادہ عزت کررہے تھے۔اب اسال نے حئی کو بتایا کہ یہ تمام لوگ اس جزیرے کے خواص اورمعززین ہیں۔ ان کا شمار جزیرے کے دانا اور عقلمند انسانوں میں ہوتا ہے۔جزیرے کے تمام لوگوں میں یہی سب سے زیادہ سمجھدار ہیں۔وہ اگر ان عقلمند معززین کو دین کی صحیح تعلیم سمجھانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو عام لوگوں کو دین کی تعلیمات سمجھانا تقریبا نا ممکن ہوگا۔اس وقت اس جزیرے کا سردار سلامان تھا، جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں کہ وہ اسال کا دوست تھا۔ وہ مل جل کر کام کرنے کو پسند کرتا تھا اور تنہائی سے نفرت کرتا تھا۔

خوشی کے بعد ناراضگی
اب حئی لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے لگا۔انہیں دین کی تعلیمات اور دینی احکامات کی حکمتیں سمجھاتا۔جب لوگوں کی دینی معلومات میں اضافہ ہوا تو انہیں اپنے خیالات اور نئے نظریات سے آگاہ کرنے لگا۔اس نے لوگوں کو بتایا کہ حق کیا ہے۔باطل کیا ہے۔ وہ انہیں دین کا سیدھا اور صحیح راستہ دکھاتا۔جاہل اور غلط قسم کے لوگوں نے دین کے نام پر غلط کام شروع کر رکھے تھے۔اس سے منع کرتا۔اب لوگوں کی نفسانی خواہشات اور دنیاوی مفادات پر ضرب پڑنے لگی تو حئی کی باتوں کا برا ماننے لگے۔اپنی اصلاح کرنے کے بجائے حئی پر تنقید کرنے لگے۔وہ دل ہی دل میں سخت ناراض ہوتے تھے لیکن حئی ان کا مہمان تھااور سلامان کا دوست تھا،اس لئے وہ منہ پر حئی کو بُرا بھلا نہیں کہتے تھے۔اب وہ حئی سے دور دور رہنے لگے تھے۔
حئی کی ناکامی
اس کے باوجود ابھی تک حئی لوگوں سے مایوس نہیں ہوا تھا۔وہ رات دن لوگوں کو پیارو محبت سے دین کی باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا۔ وہ خلوت اور جلوت میں لوگوں کو بتاتا کہ دین کے حقیقی احکامات کیا ہیں اور لوگوں کی من گھڑت باتیں کیا ہیں۔لیکن لوگ اس کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھے بلکہ دن بہ دن لوگ اس سے دور ہوتے جارہے تھے اور دن بہ دن لوگوں میں نافرمانی اور برائی بڑھتی جارہی تھی۔ بظاہر لوگ دین سے محبت اور عشق کااظہار کرتے تھے لیکن غلط تعلیم و تربیت،فاسد اور گندے ماحول،بری عادات،نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت اور کم علمی کی وجہ سے وہ حق اور دین کو اس طرح اختیار کرنے کے لئے تیار نہ تھے جو دین کا حقیقی تقاضا تھا۔بلکہ وہ دین کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔وہ صحیح علماء سے دین کی صحیح باتیں سیکھنا نہیں چاہتے تھے۔حئی یہ سب دیکھ کر ان سے مایوس ہوگیا۔اسے اصلاح کی امید نہ رہی۔
لوگوں کی گمراہی
اب حئی نے لوگوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔وہ ان کے بارے میں غور و فکر کرتااور اس نتیجہ پر پہنچا کہ لوگوں میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔انہوں نے مختلف طریقے اختیار کر رکھے ہیں اور بے کار بحثوں میں دن رات پڑے رہتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں،اب وہ لوگوں سے دور رہنے لگا۔وہ اس بات سے مایوس ہوگیا کہ لوگ سیدھے راستے پر آجائیں گے۔کیوں کہ وہ دیکھ رہا تھاکہ ہر فرقہ یہی سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے۔ لوگ آخرت سے غافل ہوچکے ہیں۔ فنا ہوجانے والی دنیا کی حقیر چیزیں جمع کرنے میں مگن ہیں۔یہ دیکھ کر اس کا دل دکھتاتھاکہ ایک دوسرے سے مال و اسباب میں آگے بڑھنے کی خواہش نے لوگوں کو پاگل بنادیا ہے۔وہ پوری زندگی مال جمع کرتے کرتے قبروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں کتنی ہی اچھی نصیحت کی جائے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔انہیں کتنی ہی پیاری بات کہی جائے وہ اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔اب دن بہ دن ان کی مخالفت اور نفرت بڑھتی چلی جارہی تھی۔کوئی دلیل ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہورہی تھی۔ان پر جہالت اور تاریکی پوری طرح چھا چکی تھی۔گناہ کے سبب سے دل زنگ آلودہ ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے تھے۔اب بہت بڑا عذاب ہی ان کا مقدر بننے والا تھا۔
جہالت کی تاریکی
حئی نے جب دیکھا کہ عذاب اور تباہی کے بادل ان پر چھاچکے ہیں۔ہلاکت اور بربادی کی آگ نے انہیں گھیرلیاہے۔سوائے چند لوگوں کے کوئی بھی ان میں سے دین پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ان کی دین داری بھی اصل میں دنیا کمانے کے لئے ہے۔وہ دین کے احکامات کو چھوڑ چکے ہیں۔اپنی مرضی سے جس چیز پر چاہتے ہیں عمل کرتے ہیں باقی احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔آخرت کے بدلے دنیا خریدلی ہے۔تجارت اور کاروبار میں اتنے مشغول ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوگئے ہیں۔انہیں اس دن کا کوئی خیال نہیں جب ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی کا بدلہ لیا جائے گا۔حئی اب اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اب ان پر محنت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔یہ گمراہی کو چھوڑ کر سیدھے راستے پر اب نہیں آئیں گے۔عوام کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ دین کے احکامات پر دنیاوی رسم و رواج کی وجہ سے عمل کرتے ہیں تاکہ ان کی دنیا کی زندگی صحیح طور پر گزرتی رہے۔دین کے جس حکم کی دنیا کے لئے ضرورت نہیں سمجھتے اسے چھوڑدیتے۔
کامیابی کا راستہ اور بربادی کی راہ
حئی نے سوچا کہ آخرت کی دائمی کامیابی حاصل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ان لوگوں میں سے چند ہی لوگ کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔جو آخرت کی کامیابی چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے اور جو بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے تو بھڑکتی ہوئی آگ میں اس کا ٹھکانہ ہے۔اس سے بڑھ کر اور کونسی مصیبت اور بدبختی ہوسکتی ہے۔انسان اپنی پوری زندگی کو پاکیزہ بنالے۔ صبح کی بیداری سے لے کر رات کی نیند تک اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرے تو اسے دنیا میں بھی کوئی مصیبت اور غم نہیں ہوگا اور آخرت کی کامیابی بھی اس کے لئے ہے۔لیکن انسان دنیا کی گھٹیا چیزوں کے پیچھے پڑجاتا ہے۔مال جمع کرنے لگتا ہے۔خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے۔تھوڑے سے فائدے اور وقتی لذت کے لئے آخرت کو بھول جاتا ہے۔مکرو فریب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ریاکاری کے لئے دین داری اختیار کرتا ہے۔شہرت اور دنیا کے فائدے کے لئے حج کرتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے۔ ایسے سیاہ اعمال ہیں جیسے سیاہ رات میں کسی سیاہ سمندر کی موجوں کے نیچے کوئی کشتی غرق ہو چکی ہو۔
کہانی کا اختتام
جب حئی کو لوگوں کے حالات کا صحیح اندازہ ہوگیا اور وہ سمجھ گیا کہ ان کی اکثریت کی حالت حیوانوں کی طرح ہے۔ہر کام کے لئے کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں اور جسے جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہی کام وہ شخص انجام دیتا ہے۔حئی نے فیصلہ کیا کہ اب اسے یہاں سے چلا جانا چاہیے کیونکہ اسے یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔اسال نے اسکے خیال سے اتفاق کیا۔ اب حئی اور اسال نے لوگوں سے الوداعی ملاقات کی اور اپنے پرانے جزیرے کی طرف روانہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اس جزیرے میں بخیر و عافیت پہنچا دیا۔ دونوں دوست اللہ کی عبادت میں اس جزیرے میں زندگی گزارنے لگے یہاں تک کہ ایک دن موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔پیارے قارئین!آپ یقیناجاننا چاہتے ہوں گے کہ جزیرے کے نافرمان لوگوں پر کیاگزری۔وہ لوگ اس جزیرے پر اب بھی رہتے ہیں۔ اب بھی وہ اسی طرح مال و دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں،آخرت اب بھی انہیں یاد نہیں۔وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ آیئے ہم ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top