گستاخان کا انجام
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گستاخانِ رسول ﷺ کے انجام کے حوالے سے ایمان افروز تحریر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دنیا میں ہر جگہ گزرے ہوئے انبیاء کی تعلیمات کو بھلایا جا چکاتھا۔انسان برائیوں میں بہت آگے بڑھ گیاتھا۔عام آدمی ظلم سے نجات اور عدل وانصاف کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھا رہاتھا۔ایسے میں اللہ تعالیٰ نے عرب کی سر زمین پر ابراہیم ؑ کی اولاد میں ایک رسول ﷺ پیدا کیا جن کو ہم آخری نبی محمدﷺکے نام سے جانتے ہیں۔آج ڈیڑھ ہزار برس آ پ ﷺکی بعثت کو گزر گئے ہیں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو ئی ہے۔آپ ﷺ کی تعلیمات نے انسان کو اسکا کھو یا ہوا مقام یاد دلایا۔انسان یہ بھول گیا تھا کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے اور مرنے کے بعد اسے کن کن باتوں کا حساب دینا ہے۔یہ تعلیمات ایسی ہیں کہ ان پر عمل کر نے والادنیا کا بہترین انسان بن جائے۔پھر آپ ﷺ نے ان تعلیمات پرعمل کرکے بھی دکھایااور آج ہمارے لئے قرآن اور حدیث پر عمل کرنا نا ممکن نہیں رہا۔
غرض آپ ﷺ نے انسان کو تعلیما ت سکھا ئیں۔ان کی تعریف کرنا انسانوں اور فرشتوں میں سے کسی کی بس کی بات نہیں ۔کتنی بری بات ہے کہ ایسی نیک اور عظیم ہستی کا دنیا میں بُرے لوگ مذاق اُ ڑائیں اور کارٹون بنائیں ۔حالانکہ دنیا کے انبیاء اوربڑے بڑے لوگ حتیٰ کہ تمام آسمانی کتابوں میں آپ ﷺ کی خدمات کی نہ صرف تعریف کی گئی ہے بلکہ آپ ﷺ کو دنیا کے لئے ایک نعمت بتا یا گیا ہے۔اب ایسی شخصیت کا مذاق کتنی بڑی تو ہین ہے۔
ذیل میں کچھ ایسے بُرے لوگوں کے واقعات دئیے گئے ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کی توہین کی تھی۔ایسے لوگوں کا کیا انجام ہوا ……آئیے…….پڑھتے ہیں۔
ابو جہل کی اسلام دشمنی ، اس کی شرارت وعداوت کاعام چرچا تھااور وہ انتہا ئی در جہ کا گستاخِ رسول ﷺ تھا۔جنگِ بدر میں دو کم سن انصاری صحابہؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔
حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف فرماتے ہیں کہ بدر والے دن میں صف میں کھڑا ہوا تھا کہ مجھے دفعتاً اپنے دونوں جانب دو نو جوا ن نظر آئے ایک نے مجھ سے سوال کی کہ چچا جان یہ بتا ئیے کہ ابو جہل کہاں ہے۔میں نے پوچھا کہ ابو جہل کا کیوں پو چھتے ہو؟کہا کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ یا ابو جہل کو قتل کریں گے یا خود مارے جا ئیں گے۔کیوں کہ وہ شانِ رسالتِ مآب ﷺ میں گستاخی کرتا ہے۔حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف فرماتے ہیں کہ ابھی میں جواب نہ دے پایا تھا کہ دوسرے نے بھی یہی گفتگو کی میں نے اشارہ سے بتادیا کہ ابو جہل وہ ہے۔بتانے کی دیر تھی وہ باز کی طرح حملہ آور ہوئے۔ایک نے ابو جہل کی ٹانگ پر وار کرکے اس کو زخمی کر دیااور دوسرا ابو جہل کو خاک میں تڑپا رہاتھا۔اتنے میں حضور ﷺ کے ایک آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ نے ابو جہل کا سر تن سے جدا کر دیا۔اللہ نے اس ظالم کو دو کم سن صحابہؓ کے ہاتھوں ذلیل کروایا۔جن کے نام حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ تھے۔یہ واقعہ غزوہء بدر ۲ ہجری کا ہے۔
کعب بن اشرف مدینہ کا یہودی اور مشہور شاعر تھا۔اس کا باپ یہودی اور ماں عرب تھی۔لہٰذا یہودیوں اور عربوں دونوں جانب اسکا بڑا اثر تھا۔رفتہ رفتہ دولت مندی کی وجہ سے تمام یہودیا نِ عرب کا سردار بن گیا۔اس کو اسلام سے سخت نفرت وعداوت تھی۔بدر میں جب عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے تو اس کو بڑا صدمہ ہوا۔ اس نے مرنے والوں کے حق میں مرثیے لکھے اور تعزیت کے لئے مکہ گیا۔اپنے شعروں میں آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا رہا۔یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کے قتل کی سازش کرنے لگا۔
آپ ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا۔حضرت محمدؓ بن مسلمہ نے اس کوبہانے سے قتل کرنے کی اجازت مانگی آپ ﷺ نے اجازت فرمادی۔حضرت محمدؓ بن مسلمہ نے پہلے اس سے دو ستی بڑھائی اور آپ ﷺ کی جھوٹی موٹی شکایت کی جس سے وہ بڑا خوش ہوا۔ اسکے بعد حضرت محمدؓ بن مسلمہ نے خواہش ظاہر کی کہ جو خوشبو اس نے لگا ئی ہو ئی ہے وہ سنگھا ئے چو نکہ خوش بو اس نے سر میں لگا ئی ہو ئی تھی اس لئے اس نے سر جھکا دیا۔حضرت محمدؓ بن مسلمہ نے سر سے پکڑ کر قتل کر دیا اور وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ یہ واقعہ ربیع الاول ۳ ہجری کا ہے۔
ایک اور یہو دی ابنِ عفک کا بھی اسی طرح کا واقعہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی شان میں گستا خیا ں کیا کرتا تھا ۔ آ پ ﷺ نے صحا بہؓ سے فرمایا کہ کو ن ہے جو اسکا معا ملہ حل کر دے۔ حضرت سالمؓ بن عمیرنے حامی بھر لی اور جا کر اسے قتل کر دیا۔
آپ ﷺ نے سلا طین کوجب اسلام کی دعوت کے لئے خطوط لکھے تو ان میں ایک خط شہنشاہِ ایران خسرو پرویز کو بھی لکھا۔خسرو پرویز بڑا ہی مغرور اور شان و شو کت والا باد شاہ تھا طریقہ یہ تھاکہ جو خطوط بادشاہ کے پاس آتے تھے ان پر سب سے پہلے باد شاہ کا نا م لکھا ہو تا تھااوریہی ایرا نیوں کا طریقہ بھی تھا مگر آپ ﷺنے اسلام کے دستور کے مطابق سب سے پہلے اللہ کا نام اور پھر آپ ﷺ کا نام لکھوایا۔خسرو اسے اپنی تحقیر سمجھا اور بولا’’ میرا غلا م ہوکر مجھے ایسا لکھتا ہے‘‘اورخط مبارک چاک کر ڈالا۔یہ خبرجب آپ ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے فر مایا جس طرح اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ایسے ہی اس کی سلطنت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جا ئیں گے۔ چند ہی دنوں کے بعد سلطنت ایران کے پرزے ہو گئے اور خسرو کے بیٹے شیرویہ نے اسے قتل کردیا۔
گویا جہاں آپ ﷺ سے محبت کرنے والے نہیں پہنچے تھے وہاں خود آپ ﷺ کو بھیجنے والے خدا تعالیٰ کی مار پڑی اور سپر پاور سلطنت کا حکمران بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔
یہ واقعہ ۶ ہجری کے آخر اور ۷ ہجری کے شروع کا ہے۔
مکہ جب فتح ہواتوآپ ﷺنے عام معافی کا اعلان فرمادیااور منادی کرادی کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے۔جو شخص ہتھیار ڈال دے یا اپنا گھر کا دروازہ بند کر لے اور جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کو امن دیا جائے گا مگر چند ایک لوگ ایسے تھے کہ جن کے بارے میں حکم ہوا کہ جہاں ملیں قتل کر دئیے جائیں اور یہ وہ لوگ تھے جو گستاخانِ رسول ﷺتھے۔فتح مکہ رمضان ۸ ہجری کو پیش آیا۔
حضرت عمرؓ کو منافقت اور منافقین سے سخت نفرت تھی۔ایک مرتبہ ایک منافق اور یہودی اپنا جھگڑا آپؓ کے پا س لے کر آئے کہ ہمارا فیصلہ فر مائیے۔یہو دی نے کہہ دیا کہ اس مسئلے کا فیصلہ حضور اکرم ﷺفرما چکے ہیں۔ مگر یہ شخص حضور اکرم ﷺ کے فیصلے سے راضی نہیں اور اسی لئے آ کے پاس آئے ہیں۔حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا ٹھہرو!میں اسکا فیصلہ کر تا ہوں اور گھر سے تلوار لا کرمنا فق کی گردن اڑادی اورفرمایا کہ جو شخص نبی ﷺ کے فیصلے سے راضی نہیں اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے اس سے بڑی اور کیا گستا خی ہوگی کہ نبی ﷺ کے فیصلے کو ٹھکرا دے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ اور صلیبیوں میں جنگیں ہورہی تھیں۔اس زمانے میں ریجی نالڈ عیسائی بادشاہ نے اس وقت جبکہ اس کے اور سلطان کے درمیان صلح ہو چکی تھی مسلمانوں کے قافلوں کو لو ٹنا مشغلہ بنالیا۔یروشلم کے بادشا ہ نے اعتراض کیا تو اس نے مذاق اڑایا ۔۱۱۸۶ہجری میں اس نے ایک مسلمان کاروان کو لوٹا اور تمام افراد کو گرفتار کر لیا۔جب انہوں نے رہا ئی کے لئے کہا تو اس نے کہا’’تم محمد ﷺپر ایمان رکھتے ہو تو اسے کیوں نہیں کہتے کہ تم کو آکر چھڑ الے‘‘ اس گستا خی کی سزااسے ٹھیک ایک سال بعد بھگتنا پڑی۔سلطان نے اس کی گستاخی کے بارے میں سن کر عہد کر لیا کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے۔چنانچہ ایک سال بعد ریجی نالڈ گرفتار ہو کر سلطان کے پاس آیاتو سلطان نے اپنے ہاتھ سے اسے قتل کرکے اپنی قسم کو پورا کیا۔
۱۹۲۹ء میں جب برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی تھی۔انگریزی حکومت’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کے تحت ہندو مسلم فسادات کرانے کے در پہ رہتی تھی۔انہی دنوں لاہور کے ایک ملعو ن ہندو راجپال نے ایک کتاب جو گستا خی رسول ﷺ پر مبنی تھی،رنگیلا رسول کے نام سے شائع کی جو سراسر مسلمانوں میں اشتعال پھیلانے کی کوشش تھی۔ اس پر مسلمان مشتعل ہو گئے اور جلسے جلوس ہو نے لگے۔ غازی علم الدین لاہور کے ایک بڑھئی کا بیٹا تھا۔اس نے بھی ایک جلسے میں اس بارے میں سنااور ارادہ کرلیا کہ گستاخ رسول کو معاف نہیں کرے گا۔ایک دن راجپال اپنی دوکان پر تھاکہ غازی علم الدین نے حملہ کرکے اس کو ٹھنڈا کردیا۔جس طرح غازی علم الدین نے لاہور میں شاتم رسول راجپال کاکام تمام کیا اسی طرح غازی عبدالقیوم نے کراچی میں نتھورام کو،غازی محمد صدیق نے قصور میں پالامل زرگرکو،غازی عبداللہ نے شیخوپورہ میں چلچل سنگھ کواور غازی عبدالرشید نے سوامی شردھند کو دہلی میں جہنم واصل کیااس طرح کے چند اور واقعات بھی پیش آئے۔تمام غازیان نے عدالت کے روبروقتل کا اعتراف کیا اور عشق رسول ﷺمیں سولی چڑھ کرسر خرو ہو گئے۔
ان تمام واقعات کو سامنے رکھنے کے بعد جو چند چیزیں سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔جب بھی کسی نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی خطرناک سازش پنہاں رہی۔کہیں مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کو ابھارنے کی،کہیں معاہدے کو توڑنے کی،کہیں8 مسلمانوں کی توجہ کا رُخ موڑنے کی اور کہیں عوام کو لڑانے اورفسادکی سازش کہ وہ متحد نہ ہو سکیں۔
۲۔نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کو مسلمان اپنے خلاف اعلانِ جنگ تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسی مذموم شرارت ہوئی،جس طرح بھی ممکن ہوامسلمانوں نے ایسے شریرانسان کو مٹا دیا۔
۳۔جولوگ آزادی رائے کا شور مچا کرگستاخی رسول ﷺکا ارتکاب کرتے ہیں، ہم ان کے بزرگوں،علماء،ان کے مذاہب یا انبیاء کی شان میں گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے نزدیک یہ سو چنا بھی کفر ہے مگر کیا وہ اپنے نسلی آبا واجداد کے بارے میں بھی نا زیبا کلما ت سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
۴۔رسول ﷺ کی شان میں گستا خی کرنے والے کی سزا میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔سزا یہی ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کی مرضی سے اور صحابہ کرامؓ نے رسول ﷺ کی مرضی سے ان کودی ۔رسول اللہ ﷺ کاعمل اور صحابہ کرامؓ کا طریقہ واضح طور پر سزا کا تعین کرتے ہیں۔
۵۔ آپ ﷺ کی گستاخی کرنے والے کو قدرت نے کبھی معاف نہیں کیا، کبھی بدر کے میدان میں دو بچوں کے ہاتھوں مروایا،کبھی ایران کے تخت پر اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل کر ادیا، کبھی عمرؓ کی تلوار نے فیصلہ کیاتو کبھی صلاح الدین کی قسم پوری ہوئی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج کے حالات میں بھی ہمیں معوذ اور معاذ، صلاح الدین ایوبی،غازی علم الدین اور غازی عبدالقیوم نظر آرہے ہیں۔اللہ نے چاہا توجو انجام شان رسالت ﷺمیں گستاخی کرنے والوں کا ہوا تھا ……وہی آج بھی ہوگا۔