برف کے قیدی
تحریر: فرانس شیل
ترجمہ: نعمان علی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شگاف کے اندر برف سے ڈھکے طاقچہ پر میاں اور بیوی صرف انتظار اور دعا ہی کر سکتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں میاں بیوی روم میں رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تفریح کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ یہ فروری 1976ءکی بات ہے کہ چالیس سالہ کلاڈیو ٹوریلا اور اس کی بیوی مارٹینا انٹونیٹا نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ سروینیا کی برفیلی تفریح گاہ کا پروگرام بنایا۔وہاں پہنچ کرپہلا ہفتہ برف پر اسکیٹنگ کرتے ہوئے گزر گیا۔
اتوار کو جب دونوں میاں بیوی نے اپنے پسندیدہ مقام پر رش پایا تو فیصلہ ہوا کہ رسی پر چلنے والی برقی گاڑی میں بیٹھ کر اوپر سے نظارہ کیا جائے اورپھر وہاں سے تصویریں کھینچنے میں منہمک ہو کر وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔جب ناشتے کی بات ہوئی تودونوں نے دوپہر کے لیے لفافوں میں بند کھانا لے جانے کا مشورہ دیا اور پھر دیگر افراد سے مل کر بقیہ پروگرام طے پایا۔ پہلے سوئس سرحد کے قریب واقع فورگن نامی پتھروں کی دیوار پر جایا جائے؟ یا پھر گیارہ ہزار چار سو اسی فٹ اونچائی پر واقع روسا کے میدان کی طرف نکلا جائے جو برف کی چٹانوں سے ڈھکا ہوا ہوگا۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ جہاں رش کم ہوگا وہیں اپنی پکنک منائیں گے۔
جب وہ پہلے فورگن جانے کیلئے کیبل کار تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس طرف جانے کیلئے کیبل کار عارضی طور پر بند ہے۔ اس طرح سب کا رخ سطح مرتفع روسا کی طرف ہو گیا۔ دوپہر سوا بارہ بجے وہ مناسب جگہ کی تلاش میں پہاڑی کی اونچائی تک پہنچ گئے۔ ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر کھڑے کلاڈیو اور مارٹینا دور پہاڑی پر چڑھتے ہوئے چھ افراد کو دیکھ رہے تھے، جو شاید کوہ پیما ہی تھے۔ سورج کی حدت آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ کلاڈیو یہاں تصویریں کھینچنے میں مصروف ہوگیا جبکہ اس کی بیوی مارٹینا چھ قدم نیچے اتر آئی۔
چند لمحات گزرے ہوں گے کہ کلاڈیو نے ایک تصویر کھینچ کر کیمرے کو نیچے کیا اور ابھی وہ اپنی فلم میں محفوظ کیے گئے نظارے ہی کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے کانوں میں اپنی بیوی کی چیخ سنائی دی۔ ”کلاڈیو!“ جیسے ہی اس نے چیخ کے مقام کی طرف نظر دوڑائی۔ یوں لگا کہ زمین نے اس کی بیوی کو اچانک نگل لیا ہے۔ جس کے اوپر اٹھے ہوئے ہاتھوں میں پکنک بیگ ابھی تک موجود تھا۔ اب مارٹینا انٹونیٹا کا سراغ صرف برف میں ہونے والے اس سوراخ میں لگ سکتا تھا۔
اس لمحے تو کلاڈیو پر سکتہ چھا گیا پھر عام انسانی ردِعمل کے تحت بھاگ کر اس جگہ پہنچا جہاں اس کی بیوی غائب ہوئی تھی اور پھر اس کا پیر بھی ایک برف کی کمزور تہہ پر پڑا اور یک دم وہ بھی نیچے گر کر غائب ہوگیا۔
پہاڑ سے پھسلنے والے برف کے تودوں کے بعد، یہ شگاف سب سے بڑی خطرے کی علامت ہیں اور جب درجہ حرارت بڑھنے سے یہ برف پگھلنے لگے تو یہ برف کی تہیں مزید خطرناک ہوجاتی ہیں۔ کلاڈیو اور مارٹینا بھی ایسے ہی کسی شگاف میں لڑھک گئے تھے۔
مارٹینا انٹونیٹا کسی ترچھی سرنگ سے پھسلی تھی اور اب وہ ایک ایسے پہاڑی طاقچہ پر گری جو زمین سے ساٹھ فٹ بلند تھا۔ اسے زخم تو نہ آئے مگر وہ اس اچانک آنے والے آفت سے بالکل چکرا کر رہ گئی۔ اس کے چہرے کے سامنے ایک آدھ گز کے فاصلے پر برف کی دیوار تھی۔ اوپر دیکھنے سے صرف آسمان کا ایک ٹکڑا نظر آتا تھا۔ اپنی پوری قوت سے اس نے چلانا شروع کر دیا۔ ”کلاڈیو! کلاڈیو!“
اسی دوران اس نے جواب سنا۔
” میں یہاں ہوں۔“
بائیں جانب دیکھنے سے اسے کلاڈیو نظر آیا جو چند برف کی سلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا مگر ٹانگیں لٹک رہی تھیں۔
وہ بہت زخمی اور پریشان نظر آرہا تھا مگر کسی طرح سنبھلنے کی کوشش کی اسے اٹھتے ہوئے کمر اور سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔
اب اس صورتحال کے آگے ان دونوں میاں بیوی کے تمام اعضاءبے بس نظر آرہے تھے۔ اوپر نظر اٹھانے سے چمکدار برفیلی دیواریں بے کم و کاست پھیلتی چلی گئیں، نہ کوئی قدم جمانے کی جگہ تھی اور نہ ہی کہیں کوئی پکڑنے کیلئے سہارا ۔ چوں کہ دیوار پر چڑھنا ناممکن تھا لہٰذا ان کا بچا¶ صرف بیرونی مدد ہی سے ہو سکتا تھا اس لیے دونوں نے مدد کیلئے چیخنا شروع کر دیا۔
” مدد! مدد!“ مگر انہیں یہ بات معلوم نہ تھی کہ برف آواز کی گھٹیا موصل ہوتی ہے۔ ان کی چیخیں ، جو ٹیڑھی میڑھی دیواروں سے ٹکرائی تھیں باہر مشکل ہی سے سنی گئی ہوں۔
شام چھ بجے تک کوئی مدد نہیں پہنچی تھی اور اندھیرا ہو چکا تھا۔ اس تنگ سے چھجے پر وقت گزارنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس ڈر سے کہ وہ سو کر اس بلند مقام سے نیچے نہ گر پڑیں آپس کی گفتگو ، چےخنے چلانے اور دعا¶ں کے ذریعے کسی طرح جاگنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اچانک ایک بھیانک اور گرجدار آواز نے ان کی گفتگو میں خلل ڈالا مگر یہ صرف پگھل کر گرنے والے ایک برف کے ٹکڑے کی آواز تھی۔
جب دن کی روشنی لوٹی، تو انہوں نے اپنے پکنک بیگ سے سینڈوچ نکال کر کھانے کی کوشش کی لیکن وہ بالکل جم چکے تھے اور یخ ربڑ کی مانند لگ رہے تھی۔ اس کے بجائے انہوں نے دیوار سے برف کھرچ کر نگل لی۔ ویسے تو ان کالباس سردی روکنے کیلئے مناسب تھا مگر چاروں طرف برف کی وجہ سے اب انہیں اپنے آپ کو حرارت پہنچانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کیلئے وہ کبھی اپنے ہاتھ ملتے اور کبھی ایک ٹانگ پر سارا وزن ڈال کر کھڑے ہوجاتے تاکہ کچھ سردی کا اثر کم ہو۔
پورے دن ، امید کے لمحات وقت گزرنے کے ساتھ مایوسی میں تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔
” مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں ضرور تلاش کر لیں گے۔“ کلاڈیو نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ لیکن اب دوسری رات بھی آچکی تھی ۔ کلاڈیو بخار میں جکڑ گیا اور اس کے دانت بجنے لگے۔ مارٹینا نے بیگ میں سے کھانے پینے کا سامان پھینک کر بیگ کلاڈیو کے سر پر الٹا دیا اس طرح وہ رات بہت ہی مشکل سے کٹی۔ عام طور پر ان راتوں میں سردی بہت ہوتی ہے اور اگر شگاف کے اندر کی بات کی جائے تو درجہ حرارت منفی دس سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔
گروہ کے بقیہ تمام افراد کی انتھک جستجو کے بعد جب کلاڈیو اور مارٹینا کا اتا پتا نہیں چلا تو باقاعدہ تلاش کیلئے منصوبہ بنایا گیا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ دونوں فورگن کی طرف نکل گئے ہوں گے اور کچھ روسا ہی میں ڈھونڈنے کا کہہ رہے تھے۔ بہرحال دونوں جگہوں پر تلاش شروع ہو گئی۔
سطح مرتفع روسا پر تلاش کنندگان ہر مشتبہ سوراخ میں دیکھ رہے تھے۔ فورگن کے سوئس حصے کی طرف ایک ہیلی کاپٹر کے عملے کو شگاف کے اندر کوئی چیز معلوم ہوئی۔ معلوم کرنے کیلئے ایک ٹیم کو جب بھیجا گیا تو نہایت المناک دریافت ہوئی ۔ وہ یہ کہ ایک نوجوان سوئس جوڑے کی لاشیں برآمد ہوئیں جو دو ماہ سے لاپتہ تھے۔
٭….٭
کلاڈیو ٹوریلا کے بڑے بھائی ماریو ٹوریلا کو جب فون کے ذریعے اپنے بھائی اور اس کی بیوی کی گمشدگی کی اطلاع ملی تو وہ جلدی سے روم سے سروینیا پہنچا۔ ماریونے خود سے بھی تلاش شروع کر دی۔ اسے اپنے بھائی سے بہت محبت تھی۔ چوتھے دن تمام تلاش کنندگان اور ماریو ایک ہوٹل میں جمع ہوئے۔ سب کے چہرے نہایت اداس تھے کیوں کہ اب بچنے کی کوئی امید نظر نہےں آتی تھی۔” صرف ایک دن اور تلاش کر لیا جائے۔ صرف ایک دن اور“ ماریو نے بالآخر تمام افراد کو پھر سے تلاش پر راضی کر لیا۔
جمعرات کی دوپہر مارٹینا انٹونیٹا کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اب ان کی موت قریب ہے۔ اس کا شوہر کلاڈیو سخت بیماری کی حالت میں جی رہا تھا۔ اس کیفیت میں مارٹینا کی نظر برف کی رکھی ہوئی سلوں کے پیچھے کسی سوراخ پر پڑی۔ اس نے ہمت کرکے ان برف کی سلوں کو کھسکایا اور اس میں کسی طرح داخل ہوگئی۔ وہاں صرف ایک شخص کے کھڑے ہونے کے برابر جگہ تھی لیکن اس گھرے ہوئے کمرے سے آسمان کو دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ وہاں بے حس و حرکت کھڑی رہی اور سوچتی رہی کہ صرف خدا ہی کے اختیار میں ہے کہ زندگی دے یا ہمیں مار دے۔
٭….٭
اگلے دن بالکل صبح ، دونوجوان کسٹم ایجنٹ جیانفرانکو پانزو اور جیانپیٹرو چیا نے ایک پہاڑی راہنما جرمین آٹن کے ساتھ مل کر روسا میں تلاش شروع کی۔ آٹن ایک چست آدمی تھا اور کئی عرصے سے امدادی ٹیموں میں کام کر رہا تھا۔ یہ تینوں روسا کے انہیں شگافوں میں جھانک جھانک کر کلاڈیو اور مارٹینا کو تلاش کر رہے تھے اور پھر آٹن نے بالآخر ایک پتلی سی چیخ سن ہی لی جو مدد کیلئے تھی کیوں کہ وہ بالکل اس سوراخ کے منہ پر پہنچ گیا تھا جسے مارٹینا نے گزشتہ روز تلاش کیا تھا اور پھر کسی مدد کی آس لیے وہ وہیں کھڑے ہو کر پکار رہی تھی۔
” کیا یہاں کوئی ہے؟“ آٹن نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جھانکتے ہوئے پوچھا۔
”مدد! مدد!“ ایک دردناک آواز آئی۔
”فکر نہ کروہم جلد کچھ کرتے ہیں۔“ آٹن جواب پا کر بے تابانہ اٹھا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس شگاف کوبڑا کیا اور پھر خود کو رسی سے باندھ کر نیچے اتر گیا۔ مارٹینا انٹونیٹا اور کلاڈیو کچھ ہی دیربعد باہر آچکے تھے۔
بہت سے لوگ کلاڈیو اور مارٹینا کے بچ جانے کو ایک معجزہ کہتے ہیں۔ دونوں نہایت دردناک کیفیت سے گزر کر آئے جس میں بھوک، ذہنی تکلیف اور بیماری سب ہی کچھ شامل تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں اگر کوئی ایک ہوتا تو بچنا ناممکن تھا مگر یہ دونوں میاں بیوی ایک دوسری کی ہمت بندھاتے رہے۔
٭….٭….٭