skip to Main Content

باتونی تحفے

سائرہ شاہد
۔۔۔۔۔

نہال پور گاؤں کے ایک کِسان رحمت اللہ کی تھوڑی سی زمین تھی جِس پر وہ فصل نہیں اُگا سکتے تھے اِس لیے اُنھوں نے اپنے کھیت میں ڈھیروں سبزیاں اُگا رکھی تھیں۔ وہ شہر جا کر سبزیاں بیچتے اور اپنا حلال رزق کماتے تھے۔ اُس گاؤں کا ہر فرد خوش و خرم رہتا تھا کیوں کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا وہاں کے لوگوں کی سب سے بڑی خوبی تھی۔

۔۔۔۔۔

سردیاں اپنے عروج پر تھیں اور رحمت اللہ کے کھیت میں بہترین ذائقہ دار سبزیاں اُگی ہوئی تھیں۔
”بینگن میاں! لگتا ہے آج آپ کی باری ہے۔“مولی بی نے اپنے چمک دار سبز بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے بینگن میاں کو مخاطب کیا۔
مولی بی کی آواز سن کر بینگن کے ساتھ ساتھ گاجر، کھیرے، ٹماٹر اور مٹر نے بھی اپنی آنکھیں کھولیں۔ وہ سب لوگ سردی میں دھوپ کا مزا لے رہے تھے کہ مولی بی کی کھنکتی آواز نے سارا مزہ کِرکرا کر دیا۔
”ہوووں۔۔۔پھر سے اس کی ٹرٹر شروع ہو گئی۔“ ٹماٹر میاں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب مولی بی؟“ بینگن میاں نے اپنی سبز ٹوپی سر پر جماتے ہوئے سوال کیا اور جواب طلب نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔
”مطلب یہ کہ آج جب تم سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے تب رحمت چچا آئے تھے۔“ مولی بی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے جواب دیا۔
”وہ تو روز ہی آتے ہیں مولی باجی! کیوں صبح صبح پکا رہی ہیں ہمیں؟“ مٹر میاں جو مٹر گشتی کرنے کے بعد تھک کر آرام فرما رہے تھے جھنجلا کر بولے۔
”آج وہ بینگن میاں کو گُھور رہے تھے نکمو!“ مولی بی نے سب کو ڈپٹا۔
”ضروری نہیں بینگن ہی پکایا جائے، ہوگا وہی جو منظور خدا ہوگا۔“ گاجر بی نے اپنا چشمہ ناک پر جماتے ہوئے عاجزی سے کہا۔
”نہیں۔۔۔مجھے لگتا ہے آج رحمت چچا کھائیں گے قیمے والے بینگن۔“ مولی بی نے اِس بار خوب مزے لیتے ہوئے جواب دیا۔
”قیمے والے۔۔۔۔؟“ سب نے اپنے کان صاف کرتے ہوئے یک زبان ہو کر سوال کیا، اُنھیں لگا کہ اُنھوں نے کُچھ غلط سُن لیا ہے۔ اُن کی حیرت کو دیکھ کر مولی بی نے بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا۔ سب سبزیاں ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں جب کہ بینگن میاں کی ساری توجہ مولی بی پر تھی۔
”بینگن میاں کو جب سیخ میں ڈال کر تندور میں جھونکا جاتا ہے تو اِس کے اندر کے کیڑے بھی پَک کر قیمہ بن جاتے ہیں۔ بس اسی لیے میں نے قیمے والے بینگن کہا۔“ سب کو حیرت زدہ دیکھ کر مولی بی نے جواب دیا تو یہ سُن کر بینگن سمیت تمام سبزیاں مزے سے ہنسنے لگیں۔
”بینگن میاں کے ساتھ مجھے بھی پکایا جائے تو مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔“ ٹماٹر میاں نے اپنی چھوٹی سی سبز ٹوپی کو ٹھیک کیا اور گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا:
”لو جی! ٹماٹر میاں کا احسان یاد رکھنا بینگن میاں!“ کھیرے میاں نے مسکراتے ہوئے کہا تو سب کی دبی دبی ہنسی نکلی۔
”میری وجہ سے بھی بینگن میاں زیادہ ذائقہ دار بن جاتے ہیں۔“ وہاں ایک عجیب سی آواز گونجی تو تمام سبزیوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔
”وہاں کیا دیکھ رہے ہو؟ میری طرف دیکھو۔“ آواز دوبارہ آئی تو بولنے والے کو دیکھ کر تمام سبزیاں حیرت زدہ رہ گئیں۔
”بکری بی! آپ کیسے حصہ ڈالتی ہیں؟“
حیرت میں ڈوبا یہ سوال گاجر بی کی طرف سے ہوا تھا۔
کھیت میں گھاس چرتی ہوئی موٹی تازی بکری نے جب سبزیوں کی باتیں سُنیں تو بہت سوچ بچار کے بعد اُس نے نتیجہ نکالا کہ وہ بھی بینگن میاں کا ذائقہ اچھا کرنے میں شامل ہے۔
”ہاں بھئی! میں بھی حصہ ڈالتی ہوں، بینگن میں جب دہی ڈالا جائے تو زیادہ مزے دار، دل بہار بن جاتے ہیں۔“ بکری نے فخر سے گردن تان کر جواب دیا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
”آہا! بہت مزے دار لطیفہ ہے۔“ گاجر بی نے کہا تو مولی، مٹر اور ٹماٹر کو اتنی زیادہ ہنسی آئی کہ اُنھوں نے ہنستے ہنستے اپنے پیٹ پکڑ لیے۔
”وہ کیسے بھلا؟“ کھیرے میاں نے بات کی تہہ تک جانے کے لیے سوال کیا تو تمام سبزیاں ہمہ تن گوش ہو گئیں۔
”میں دودھ دیتی ہوں اور میرے دودھ سے دہی بنتا ہے۔ وہی دہی جب بینگن میں ڈالا جائے تو اس کا ذائقہ لذیذ ہو جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ میری وجہ سے مزے دار بینگن پکے۔“ بکری نے تفصیل سے جواب دیا تو تمام سبزیوں کے منہ کھُل گئے۔اتنے میں رحمت اللہ آتے دکھائی دیے تو ڈر سے بکری بی وہاں سے بھاگ نکلی۔ رحمت اللہ نے تمام سبزیاں پودوں سے الگ کیں اور گھر کی راہ لی۔

۔۔۔۔۔

”میں نے سوچا کہ آج تمام گاؤں والوں کو سبزیاں تحفے میں دے دوں۔“ رحمت اللہ نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھا خیال ہے، تحفہ دینا بہترین عمل ہے۔ ایسا تحفہ جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔“ اُس نے مسکراتے ہوئے رحمت اللہ کی تائید کی۔
”ان شاء اللہ پرسوں بقر عید پر سب کے گھر گوشت بنے گا، یہ رزق ضائع نہ ہوجائے اس لیے آدھی سبزیاں ٹوکری میں بھر دو تاکہ اِنھیں قریبی گھروں میں دے آؤں۔“ رحمت اللہ نے کہا تو اُس کی بیوی نے مسکرا کر سر ہلایا اور آدھی سبزیاں الگ کر دیں۔ رحمت اللہ نے سبزیوں کی ٹوکری اٹھائی اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

۔۔۔۔۔

”آپ بینگن میاں کو ڈرا رہی تھیں مولی باجی! کیا پتا تھا کہ ہم بھی کڑاہی کی زینت بننے والے ہیں۔“ مٹر میاں نے راستے میں ہی مولی بی کو اس کی شوخیاں یاد دلائیں۔
”ہم بطور تحفہ جا رہے ہیں کھیرے میاں! آپ کو پتا ہے؟ ہمارے پیارے نبی،خاتم النبیین ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے۔“ گاجر نے رسان سے سمجھایا تو تمام سبزیوں نے درود پاک پڑھا۔
”واہ! ہم باتونی تحفے؟ بلکہ صِرف مولی بی ہی باتونی تحفی ہیں۔“ کھیرے میاں نے مولی بی کے سبز لمبے بالوں کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
”اللہ کرے تمھیں نمک لگا کر کھایا جائے۔“مولی بی نے کھیرے میاں کو جواب دینا لازمی سمجھا۔
”آمین آپ کو بھی۔“ کھیرے نے بُرا منائے بغیر خُوش اخلاقی سے کہا تو تمام سبزیاں مسکرانے لگیں اس طرح تمام باتونی تُحفے نہال پور گاؤں کے ہر گھر میں پھیل گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top