skip to Main Content

ایک رات کی کہانی

عنوان:عفاریت نصف اللیل
تحریر: یعقوب شارونی
مترجم:محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بستی”شارونہ“کے آسمان پر چاند پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا۔مسعود بچوں کے درمیان بیٹھا کہانی سنارہا تھا۔ سبھی بچے اس کی پرتجسس کہانی سننے میں مگن تھے۔وہ دھیمی آواز میں کہہ رہاتھا:
”وہ سردیوں کی ایک تاریک رات تھی۔ بستی ”شارونہ“ سے گاؤں ”شیخ فضل“ کی طرف جانے والی سڑک پرایک ضعیف آدمی چلا جارہاتھا۔ یہ شخص چچا صابرتھے۔وہ اپنے پیچھے اپنے گدھے کو کھینچتے ہوئے نہایت سست روی سے رواں دواں تھے۔جیسے ہی وہ قبرستان کے قریب سے گزرے، اچانک ایسی آوازیں سنائی دیں جیسے ہڈیاں چٹخی ہوں۔عین اسی لمحے چچا صابر کا گدھا زور سے بدکا اور دوسرے ہی لمحے وہ زمین پہ گرا ٹانگیں ماررہا تھا،جیسے اس کی جان نکلی جا رہی ہو۔یہ دیکھ کر چچا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔“
مسعود نے یہاں تک کہانی سناکر جائزہ لینے کے لیے بچوں کی طرف دیکھا،وہ سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مسعود کو دیکھ رہے تھے اور ان کے چہرے حیرت کدہ بنے ہوئے تھے۔عین اسی وقت چمگادڑوں کا ایک غول”سائیں سائیں“کی آواز سے ان کے سروں کے اوپر سے تیزی سے گزر گیا۔بچوں کے جسم میں ایک سنسنی خیز لہر سی دوڑ کر رہ گئی۔
ادھر مسعود نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا:
”گدھا نیچے گرا ہوا تھا اور اس کے منھ سے دردناک آوازیں برآمد ہورہی تھیں۔چچا صابر نے ادھر ادھر دیکھا مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔تو پھر گدھے کو آخر کس نے مارا؟“
مسعود نے سوالیہ لہجے میں زوردے کر پوچھا:
”بھوتوں نے!!!“
ایک بچے نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔اس کی بات سن کرمسعود فاتحانہ انداز میں مسکرایا پھر وہ بولا:
”چچا نے پہلے تو بلند آواز سے تعوذ و تسمیہ پڑھا تاکہ بھوت دور بھاگ جائیں اور جب انھیں بھوتوں کے حوالے سے یقین ہوگیا کہ وہ بھاگ چکے ہیں تو اب چچا نے گدھے کو ہلایا جلایا تاکہ اس کی تکلیف کا اندازہ کرسکیں۔تھوڑی دیر بعد ان پہ یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ گدھے کی ایک ٹانگ پنڈلی سے ٹوٹ چکی ہے۔وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔ان کاایک پیارا رفیق بھوتوں کے ہاتھوں اپنی ٹانگ گنوا چکا تھا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اس گدھے سے کوئی کام نہ لے سکتے تھے۔“
مسعود نے بات ختم کی تو ایک لڑکا حسین بول پڑا:
”میرے والد کہتے ہیں کہ جو شخص بھوتوں سے ڈرتا ہے، اسے اس کا خوف بیس بھوتوں سے ڈراتا ہے،مطلب اس کا وہم اسے کہیں کا نہیں رہنے دیتا، پھر وہ اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔“
سب بچوں نے حسین کو دیکھا،وہ سبھی جانتے تھے کہ حسین کے ابو”جامعہ ازہر“ میں پڑھاتے ہیں اور وہ جنوں بھوتوں کے وجود کوتو مانتے تھے لیکن وہ اس بات کے قائل نہیں تھے کہ جن بھوت انسان کو ڈراسکتے ہیں۔ وہ اکثر حسین کو کہا کرتے تھے:
”بیٹا!!ایسے قصوں کو سچ نہ سمجھا کرو،لوگ تو عقل سے کام نہیں لیتے اسی لیے تو وہ خرگوش اور لومڑی تک سے بھی ڈرجاتے ہیں۔“
مسعود ان سب بچوں سے بڑا تھا،اس پہ حسین کی بات کا اثر نہیں پڑاتھا۔اس نے اس کی بات پہ کوئی تبصرہ تک نہیں کیاتھا،بلکہ وہ الٹاحسین کو گھورنے لگااور بولا:
”چلو یہ سب تو وہم ہے مگر اس کے بار ے میں کیا کہو گے جب ایک ہیولا نعیم چچا اور ان کی بیوی کے سامنے آگیا تھا۔کبھی وہ چھوٹا ہوجاتا تھاتو کبھی بڑا۔وہ دونوں بڑی مشکل سے بچے تھے کیوں کہ صبح طلوع ہوگئی تھی ورنہ وہ ہیولا انھیں نہ چھوڑتا۔“
یہاں ایک دوسرے بچے کی آوازبلند ہوئی،وہ بھی مسعود کی تائید میں بولا:
”بالکل ٹھیک،اور مجھے کامل کسان یادآگیا۔دوستو!کیا تم اس سفید بھوت کو بھول گئے جس نے کامل کسان کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ڈرایا تھااوران کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے تھے۔اس دن کے بعد سے وہ بے چارہ ہروقت روتا رہتا ہے اور دن کو بھی کھیتوں میں کام نہیں کرتا۔“
حسین ان باتوں کے مقابلے میں یہ کہنا چاہ رہاتھاکہ یہ صرف قصے ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن مسعود نے اس کو بولنے ہی نہ دیا،کیوں کہ وہ اپنے قصے کی تاثیر کم نہیں کرنا چاہتا تھا، وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔اس کے ساتھ ہی باقی بچے بھی کھڑے ہو گئے۔انھوں نے چاند کی طرف دیکھا جو بادلوں کی اوٹ میں چھپنے ہی والا تھا،ایسے میں مسعود بولا:
”آؤ دوستو، بغیر کسی تاخیر کے گھر جائیں،کہیں بھوت نہ آجائیں کیوں کہ وہ اندھیرا ہوتے ہی پھیل جاتے ہیں۔“
مسعود کی بات سن کر بچے نودو گیارہ ہوگئے۔حسین انھیں جاتے دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭
اگلے روز چھٹی کے بعد تمام بچے گھر واپس آرہے تھے کہ ان کا گزر ایک پل پر سے ہوا۔یہ پل ایک نہر پہ بنا تھا۔نہر کے ساتھ ہی مالٹوں کا ایک باغ تھا۔مالٹوں کی مخصوص مہک دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کرمسعود کی رال ٹپکنے لگی اس نے کہا:
”آؤ دوستو آج مالٹے کھاتے ہیں۔“
یہ کہ کر وہ باغ کی طرف بڑھ گیا۔بچے اس کے پیچھے پیچھے تھے جب کہ حسین برابر اپنے راستے پہ گامزن رہا۔مسعود چیخا:
”حسین!!! کب تک یوں بزدل بنے رہو گے،ہمارے ساتھ آؤ،ڈرو مت!!“
حسین غصے کے عالم میں گھوما اور کہا:
”چوری کرنابہادری نہیں ہے۔“
لیکن اس کی آواز بچوں کے شور میں دب کر رہ گئی جو اس پہ ہنس رہے تھے اور اسے ”بزدل بزدل“کہہ رہے تھے۔حسین بے چارہ صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو چوری کو بھی بہادری سمجھتے ہیں۔کاش مجھے موقع ملے تو میں ان پہ حقیقی بہادری ثابت کروں،لیکن پتہ نہیں یہ دن کب آئے گا؟؟یہی سوچتے سوچتے وہ گھر پہنچ گیا،جہاں گھر کے کافی کام اس کے منتظرتھے، جلدہی وہ کاموں میں مشغول ہوگیاتھا۔
٭٭٭
اسی روزکی بات ہے کہ شام کے وقت حاجی سالم کے گھر سے شور و غل اٹھا:
”چور!!!!چور!!! انھوں نے سب کچھ چرالیا۔“
یہ غروب آفتاب کے بعد کا وقت تھا۔اندھیرا اپنے پر پھیلا رہا تھا۔یہ شوروغل سن کربہت سارے لوگ جمع ہو گئے اوران سے حال احوال پوچھا،تب حاجی سالم کی بیوی دہائی دیتے ہوئے بولی:
”مردود کہیں کے،سونے کے زیورات لے گئے نامراد،ہم تو برباد ہوگئے۔“
وہ چیخ چیخ کر بتاتی جارہی تھی اور روتی بھی جارہی تھی:
”میں تو صرف اپنی پڑوسن رفیدہ کو ملنے گئی تھی۔وہ حج سے واپس آئی تھی نا، تو میں نے سوچا کہ اسے مبارک دے آؤں۔میں نے دروازے بھی بند کیے تھے لیکن جب میں واپس آئی تو دروازے بھی کھلے تھے اور زیورات بھی غائب تھے۔اب تم یہ نہ کہنا کہ یہ کام بھی بھوتوں نے کیا ہے۔“
حاجی سالم کی بیوی نے بھوتوں کا ذکر اس لیے کیاتھا کیوں کہ آج کل بستی کے لوگوں میں قبرستان والے بھوتوں کا بڑا چرچا تھااورکئی لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے ڈرے تھے،اب وہ ہربات کا ذمہ دار بھوتوں کو ٹھہرادیتے تھے،گویا بھوت ان کے حواسوں پہ سوار تھے۔
یہ سن کر حجام شبلی بولا:
”غضب خدا کا،یہ اس ماہ میں تیسری چوری ہے۔ اگر وہ چور میرے ہاتھ لگا تو میں اس کی گردن پہ اپنا استرا چلادوں گا۔“
ایک اوردکان دار بولا:
”لگتا تو یہی ہے کہ چور اسی شہروالوں میں سے ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کون؟؟کیوں کہ شہر کا آدمی ہی یہ باتیں جانتا ہے کہ زیورات کس کے پاس ہیں اور کتنے ہیں؟“
”ٹھیک کہ رہے ہو بھائی،ہمیں چاہیے کہ اس چور کو ڈھونڈیں،جب تک وہ چور نہیں ملتا ہمیں آرام نہیں کرنا چاہیے۔“
”ہمیں شہر کے کمشنر کو درخواست دینی چاہیے۔“
لوگ اپنے اپنے منھ کی باتیں ہانک رہے تھے۔وہ کافی دیر تک اپنی زبانوں کی ورزش کرتے رہے،اور پھر اپنے اپنے گھروں کا رخ کیا۔ عورتیں ابھی تک وہیں موجود تھیں۔ ابھی وہ وہاں سے ہٹی نہیں تھیں کہ حسین بھاگتا ہوا آپہنچا۔اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔سانس بری طرح پھولی ہوئی تھی۔صاف لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی غیرمعمولی کام ہوا ہے۔اس نے سب کو سلام کیا اور کہا:
”خالہ رفیدہ کہاں ہیں؟“
”خیر تو ہے حسین، تمہارے گھر میں کچھ ہوا ہے کیا؟“ایک عورت نے پوچھا۔
”وہ……میری امی بیمار ہیں،اور ابو گھر پہ نہیں ہیں ……اگر خالہ رفیدہ آجائیں تو……“
اس نے معنی خیزانداز میں فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔خواتین نے جب یہ سنا توفٹا فٹ خالہ کو بلالائیں اور خالہ کے ساتھ ساتھ چند اور خواتین بھی جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔جلد ہی حسین انھیں لیے گھر کی طرف جارہا تھا۔
٭٭٭
خواتین حسین کی والدہ کے گرد موجود تھیں۔اس کی امی درد سے کراہ رہی تھی۔انھیں پیٹ میں شدید درد تھا،گھر میں موجود سب ٹوٹکے آزمائے جاچکے تھے لیکن تاحال افاقہ نہیں ہورہا تھا۔
”حسین!! تم طبیب چچا کو بلا کے لاؤ،کہیں حالت بگڑ نہ جائے۔“
خالہ رفیدہ نے کہا اور حسین ”جی اچھا“کہ کر باہر نکل گیا۔اب وہ اندھیرے میں تیز تیز قدم اٹھاتا طبیب کے گھر کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ اس پہ جوش سوار تھا۔آخر وہ وہاں پہنچ گیا اور دروازے پر دستک دی۔اندر سے نسوانی آواز آئی:
”کون؟؟“
”جی میں حسین ہوں۔ طبیب چچا ہیں؟میری امی بیمار ہیں ذرا انھیں چل کر دیکھ لیتے۔“
دروازہ کھلا اور طبیب کی بیوی نظر آئی:
”تمہارے چچا تو نہیں ہیں۔وہ تو بستی کے باہر گئے ہوئے ہیں۔انھیں گاؤں شیخ فضل میں کام تھا۔وہ تو کل صبح لوٹیں گے۔تمہیں کل تک انتظار کرنا ہوگا۔“
”لیکن میری امی کی حالت درست نہیں ہے۔“حسین نے تشویش ظاہر کی۔
”بچے میں کیا کرسکتی ہوں۔اگر بہت ضروری ہے تو تم خود چلے جاؤ اور انھیں وہاں سے بلا لاؤ،تین چار کلومیٹر کاتو سفر ہے۔لیکن یادرکھنا راستے میں بھوتوں والا قبرستان بھی ہے،جانا ہے تو چلے جاؤ۔“
یہ کہ کر خاتون نے دروازہ بند کر دیا۔حسین بے حس و حرکت کھڑا رہ گیا۔حسین کافی دیر تک وہیں کھڑا رہا۔اس کے دل ودماغ میں قبرستان اور بھوت کے الفاظ گونج رہے تھے۔اسے خوف محسوس ہونے لگا تب اس کے دل نے کہا:
”حسین تم تو اس قسم کی باتوں پہ یقین نہیں رکھتے ہو،پھر کیوں ڈر رہے ہو۔یہی موقع ہے اپنی بہادری دکھاؤ۔اگر کوئی بھوت نظر آئے گا تو اسے آیت الکرسی پڑھ کر بھگا دینا۔“
یہ باتیں سوچ کر اس کا خوف کم ہو گیا۔وہ گھر گیا۔وہاں سے اس نے ایک لاٹھی اٹھائی،جیب میں مقدس اوراق رکھے اور ایک ٹارچ بھی اٹھا لی۔اب وہ طبیب چچا کو بلانے کے لیے تیار تھا۔جلدہی وہ گھر سے نکل کر اندھیرے میں گم ہوگیا۔
٭٭٭

وہ چند قدم ہی دور چلاتھا کہ اسے اپنے دوست وجیہ کا خیال آگیا۔اس نے سوچا کہ اگر اسے ساتھ لے لیا جائے تو ڈر خوف بھی کم ہوجائے گا اور تنہائی بھی دور ہوجائے گی۔وہ سیدھا وجیہ کے گھرگیا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔جب وجیہ کی والدہ نے یہ بتایا کہ وجیہ گھر پہ نہیں ہے تو وہ حیران رہ گیا۔
”وجیہ تو گھر سے باہر نہیں جاتا خالہ؟“اس نے دریافت کیا۔
”بالکل بیٹا،لیکن آج وہ اپنے دوستوں کے ساتھ عمیر کے گھر پہ ہے اور وہاں کوئی تقریب ہے۔“
اس کی والدہ نے کہا تو وہ ان کا شکریہ ادا کرکے عمیر کے گھر کی طرف چل پڑا۔وہاں جاکر تواس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔عمیر کا گھر کسی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔عمیر اپنے دوستوں کے ہمراہ خوش گپیوں میں مگن تھا۔جلدہی حسین نے وجیہ کو ڈھونڈھ لیا اور اس کا ہاتھ پکڑے ایک طرف لے گیا۔
”حسین تم؟“وجیہ حیران رہ گیا۔
”میں تمہیں بتاتا ہوں۔“حسین نے کہا تو وجیہ اسے ٹکرٹکر کر دیکھنے لگا۔
اسی اثنا میں وہاں سے مسعود گزرا۔اس نے جب حسین کو وہاں دیکھا تو اس کے ہونٹوں پہ طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ سیدھا اس کی طرف لپکا اور طنزیہ لہجے میں بولا:
”ارے یہاں تو بڑے بڑے لوگ آرہے ہیں۔“
حسین نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور وجیہ کو پکڑ کر تقریباً گھسیٹتا ہوا وہاں سے دور لے گیا۔
”اوہو حسین،خیرتو ہے؟“وجیہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
”وجیہ مجھے تمہاری مدد درکار ہے۔“حسین نے اس کی طرف پرامید نگاہوں سے دیکھا۔
”کیا ہوا یار،پہلے یہ تو بتاؤ۔“وجیہ کے چہرے پہ الجھن تھی۔
”میری امی سخت بیمار ہیں،مجھے ابھی اور اسی وقت طبیب چچا کو بلانے جانا ہے جو کہ گاؤں شیخ فضل میں گئے ہوئے ہیں۔“حسین نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا۔
”ابھی اور اسی وقت اور وہ بھی گاؤں شیخ فضل؟“
وجیہ کے چہرے پہ گاؤں کا نام سن کر خوف پھیل چکا تھاکیوں کہ شیخ فضل گاؤں کے قریب واقع قبرستان کے قصے ہر ایک کی زبان پہ تھے، تاہم حسین کا مسئلہ چونکہ اہم تھا اس لیے وجیہ اس کے ساتھ چلنے پہ آمادہ ہوگیا۔جلدہی وہ روشنیوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنے سفر پہ رواں دواں ہوگئے تھے۔
٭٭٭
رات حد سے زیادہ تاریک تھی۔اندھیرا بہت زیادہ تھا۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہاتھا۔ دونوں دوست ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تھے اور آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے۔یہ سفر تقریباً تین چار کلومیٹر تھا۔کوئی آدھے گھنٹے بعد وہ اس خطرناک جگہ تک پہنچ گئے تھے جس کے بارے میں درجنوں قصے مشہور تھے۔گاؤں شیخ فضل کا قبرستان ان کے سامنے تھا۔اس قبرستان کے ساتھ ہی وہ شاہراہ تھی جس پہ دونوں دوست گامزن تھے۔اچانک ایک طرف سے کھٹکا ساہوا اور ایک عجیب سی روشنی لہرائی اور دونوں دوستوں کے دل اچھل کر حلق میں آگئے،قریب تھا کی وجیہ کی چیخ نکل جاتی مگر حسین نے بروقت اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا اور آہستگی سے بولا:
”شش۔۔خاموش!!“
حسین نے اسے دلاسہ تو دیا تھا لیکن سچ تو یہی تھا کہ مارے خوف کے اس کا گلہ بھی خشک تھا اور اس کے دانت خوف کے مارے بج رہے تھے۔
”حسین اب کیا کریں؟“وجیہ کے دانت بھی مسلسل موسیقی نشرکررہے تھے۔
”کوئی اچھی بات یادکریں اور سفر بھی جاری رکھیں۔“حسین نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
اسی اثناء میں انھیں تیزسرسراہٹ سی سنائی دی جیسے کوئی وزنی چیز گھسیٹ کر لے جارہاہو۔یہ آوازیں قبرستان سے آرہی تھیں۔
”واپس چلیں یار!!! خدا کے لیے!!!“وجیہ نے گڑگڑا کر کہا۔
”نہیں دوست،ہم واپس نہیں جائیں گے۔“
اب کی بارحسین کے لہجے میں عزم تھا۔اسے اپنی امی کی حالت زار یاد آگئی تھی اور یوں اس کا خوف بھی کم ہوگیا تھا۔
”ٹھیک ہے!!!“وجیہ کے منھ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔
اسی وقت ایک عجیب سی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی،آواز ایسے تھی جیسے کوئی زور سے ہنسا ہو۔آواز صاف قبرستان کی طرف سے آئی تھی۔یہ انسانی آواز نہیں تھی بل کہ یوں لگ رہاتھا جیسے کوئی دیو ہیکل بھوت ہنسا ہو،حسین اور وجیہ ڈر کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ چکے تھے۔ وجیہ کی حالت کافی خرا ب تھی۔حسین نے اسے تسلی دی اور سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
”وجیہ مجھے لگتا ہے کوئی ہمیں جان بوجھ کر ڈرارہاہے۔“
”کیا مطلب؟“وجیہ نے بھی سرگوشی کی۔
”لگتا ہے کہ یہاں کوئی راز ہے۔کوئی ایسا چاہتاہے کہ ہم یہاں سے نہ گزریں۔“حسین نے سوچ میں گم لہجے میں کہا۔
اس وقت وہ کسی جاسوس کی مانند سوچ رہاتھا۔یہ خیال ابھی ابھی اس کے دل میں آیا تھا۔اسے ہنسنے کی آوازسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے کوئی بناوٹی انداز میں یہ سب کررہا ہو،لہٰذا اس نے بھی ایک منصوبہ سوچ لیا۔وہ بولا:
”وجیہ ہم ایسے ظاہر کریں گے جیسے ہم واپس جارہے ہوں۔“
”ظاہرکریں گے؟کیامطلب؟“وجیہ کے منھ سے نکلا۔
”ہاں تم دیکھتے جاؤ بس۔“
حسین نے کہا اور پھر وہ بلند آواز میں ہکلاتے ہوئے بولا:
”چچ……چلو بھئی واپس چلیں ……مجھے تو بہت ڈر لگ رہاہے،کہیں کوئی بھیڑیا نہ آجائے اور ہمیں کھا نہ جائے۔“
اس کی آوازمیں شدید خوف تھا۔اس کے بعد وہ بھاگتے ہوئے واپس مڑ گئے جیسے وہ بستی شارونہ کی طرف جارہے ہوں۔کچھ دور جا کر حسین رکا اور کہا:
”دوست اب ہم بغیر کسی شور کے واپس قبرستان جائیں گے تاکہ پتہ چلائیں کہ وہاں کون ہے؟“
”اوہ،لیکن یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔“وجیہ نے لرز کر کہا۔
”دیکھا جائے گا،آؤ چلیں۔“
یہ کہ کر دونو ں مکمل احتیاط سے آگے بڑھے۔اب کی بار وہ محتاط انداز میں آگے بڑھے اور قبرستان میں داخل ہوگئے،اچانک انھیں درویش بابا کی قبر والے حجرے سے ایک روشنی سی نکلتی دکھائی دی۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔وہ ایک سایہ تھا جو ہاتھ میں ننھا سا چراغ لیے باہر نکلا تھااور پھر واپس چلا گیاتھا۔حسین اور وجیہ آہستہ آہستہ آگے بڑھے اور اس حجرے کی دیوار کے ساتھ جا پہنچے،اب انھیں اندر سے آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔اب تو یہ صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ وہاں دو آدمی چھپے ہوئے تھے۔اچانک انھوں نے ایک آواز سنی:
”شکر ہے کہ میں نے انھیں بروقت دیکھ لیا ورنہ مشکل ہوسکتی تھی۔“
”ہاں صاف ظاہر ہے۔ ہم نے تو وزنی صندوق اٹھائے ہوئے تھے،اس لیے وہ ہمیں دیکھ کر شک کرسکتے تھے۔“ایک اور آواز آئی۔
”ہاں،اب ہمیں یہ کام آج رات ہی مکمل کرلینا چاہیے،یہاں سونا رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔“پہلی آواز سنائی دی۔
”بالکل درست،لیکن مجھے بھوک بھی لگی ہے،تم ایسا کرو کہ شارونہ سے کھانا لے آؤ اور حال احوال بھی معلوم کر لو کیوں کہ ہم نے آج ایک اور کام بھی کرنا ہے۔“دوسری آواز سنائی دی۔
”اور وہ کیا؟“حیران ہوکرپوچھا گیا۔
”تاجر نعمان کی دکان کی صفائی،ہاہاہاہاہاہا……“ہنس کر کہا گیا۔جواب میں دوسرا شخص بھی ہنستا چلاگیا۔
دونوں دوست حیرت سے بت بنے ہوئے تھے۔انھوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ دبا کر اپنے جوش کا اظہار کیا کہ کیسے انھوں نے بھوتوں کا راز تلاش کرلیا۔کچھ دیر وہ دونوں وہیں دبک کر بیٹھے رہے، اس کے بعد دونوں آہستگی سے اٹھے اور گاؤں کارخ کیا کیوں کہ انھوں نے ابھی طبیب چچا کو بلانا تھا۔کچھ دیر بعد وہ طبیب کو ساتھ لیے واپس روانہ تھے۔یہ پرانے دور کی کہانی ہے۔اس دور میں اگرچہ گاڑیاں زیادہ نہیں تھیں لیکن طبیب نے مریضہ کی حالت کے بارے میں سن کر گاؤں کے تاجر ملک قائم سے کار مانگ لی تھی، تاکہ مریضہ تک پہنچنے میں تاخیر نہ ہو۔حسین سوچ رہاتھا کہ یہ طبیب حضرات بھی کس قدر دعائیں سمیٹتے ہیں کہ ہر وقت مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے تیار رہتے ہیں۔بیس پچیس منٹ بعد وہ گھر پہنچ گئے۔طبیب نے حسین کی امی کو دیکھا اور پھر کچھ ٹیکے لگادئیے،جس سے اس کی امی کی حالت بہتر ہونے لگی۔ وہاں سے مطمئن ہونے کے بعدحسین وجیہ کو ساتھ لیے بستی کے کمشنر کے گھر پہنچا اور انھیں جگایا۔وہ برے برے منھ بناتے باہر آئے اور کہا:
”لڑکو!!اس وقت کیا مصیبت ٹوٹ پڑی تم پر؟“
حسین نے انھیں ساری روداد سنائی۔کمشنر کو پہلے تو اس بات پہ یقین نہیں آرہاتھا لیکن جیسے ہی حسین نے بتایا کہ وہ لوگ آج تاجر نعمان کی دکان کا صفایا کرنے والے ہیں تو کمشنر کے کان کھڑے ہوگئے۔اس نے فوری طور پہ حرکت کی اور وہاں سادہ لباس والے اہلکار تعینات کردئیے۔کافی دیر بعد ان کی طرف سے اشارہ موصول ہوا اور وہ سب وہاں موقع پہ جاپہنچے۔اس وقت سبھی سپاہی خفیہ اندازمیں چھپے بیٹھے تھے اور وہ سب دکان کی نگرانی کررہے تھے جہاں ایک مشکوک شخص چکر لگارہاتھا۔یہ ایک بجے کا وقت تھا۔سبھی لوگ محوِاستراحت تھے۔ اس وقت دکان کے ارد گرد چکر لگانا کسی شریف آدمی کا کام تو نہ تھا۔وہ سب موقع کی تاک میں تھے۔اچانک ان کی نگاہیں دکان کی چھت پہ پڑیں جہاں دو سایے حرکت کرتے دکھائی دئیے۔
”وہ بے وقوف چھت کی اینٹیں ہٹاکر اندر داخل ہوں گے۔“کمشنر نے منھ بناکر کہا اور پھر اپنی مونچھوں کو تاؤ دینے لگا۔
”ہائے ظالم ہیں یہ لوگ۔“تاجر نعمان نے دانت پیس کر کہا۔
”میاں ان بچوں کو دعائیں دو۔“
کمشنر نے حسین کا کندھا تھپتھپایا۔اپنی تعریف سن کر حسین اور وجیہ کا چہرہ کھل اٹھا۔اسی وقت انھیں وہ سایے غائب ہوتے دکھائی دئیے،یقینا وہ دکان میں اتر چکے تھے۔اب وہ سب آگے بڑھے اور تاجر نعمان نے آہستگی سے دکان کا تالہ کھول دیا،دوسرے ہی لمحے وہ سب آندھی طوفان کی طرح دکان میں گھس گئے۔تاجر نے بٹن چلا کر بلب آن کردیا اور اندر گھسے چور روشنی میں نہا گئے،ان کے چہروں پہ حیرت اور ڈر پھیل گیا تھا۔
”جی جوانو!!کیا خریدنے آئے ہو؟“تاجر نعمان نے پھاڑکھانے والے لہجے میں کہا۔
”پکڑلو ان خبیثوں کو۔“کمشنر نے بلند آواز سے کہا اورسپاہی حرکت میں آگئے۔
جلدہی چوروں کو حوالات بھیج دیاگیا۔کمشنر نے حسین اور وجیہ کو ساتھ لیا اور قبرستان میں سے سونے کے دوصندوق برآمد کر لیے۔ اگلے روز پوری بستی میں حسین اور وجیہ کے چرچے تھے۔ان کی ایک رات کی بہادری انھیں بہت پراعتماد بناچکی تھی۔وہ بہت خوش تھے کہ ان کی وجہ سے ظالم چور پکڑے گئے اور لوٹا ہوا مال بھی بازیاب ہوگیا تھا۔جب وہ اسکول پہنچے تو ایک عجیب منظر ان کے سامنے تھے۔ہیڈماسٹر صاحب،تمام اساتذہ اور تما م طلباء دروازے پہ ان کے منتظر تھے۔ان کی نگاہوں میں ان دونوں کے لیے محبت اور پیار تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top