skip to Main Content

باب دوم: سہ ماہی ادبیات اطفال کی نثر کا موضوعاتی مطالعہ

باب دوم
سہ ماہی ادبیات اطفال کی نثر کا موضوعاتی مطالعہ

اکادمی ادبیات پاکستان ۔۔۔۔ایک تعارف:
اکادمی ادبیات پاکستان علم وادب کی کاوشیں کرنے والا ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔اس ادارہ کا قیام1976ء میں عمل میں آیا۔یہ ادارہ ادبی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہے۔اس کا قیام مرحوم وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹوکے ہاتھوں ہوا۔’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ ملکی اور عالمی ادب کے فروغ کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی ادبی وتحقیقی اور ترجمہ شدہ کتب شائع کرتا آرہا ہے۔ ان کتب میں بہت سے ادیبوں کا تحقیقی اورتخلیقی کام شامل ہے۔ادب کے حوالے سے کچھ کتب سلسلہ وار بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔اکادمی کی ادبی خدمات کا مختصر جائزہ یہ ہے:
(1) پاکستانی ادب کے معمار:
اس عنوان سے اکادمی ادبیات پاکستان نے بہت سے ادیبوں کی شخصیت اور فن کے حوالہ سے متعدد کتب شائع کی ہیں۔چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
٭ ڈاکٹروزیر آغا،شخصیت اور فن
٭ پطرس بخاری،شخصیت اور فن
٭ ڈاکٹر وحید قریشی،شخصیت اور فن
٭ ابن صفی شخصیت اور فن
٭ انتظارحسین شخصیت اور فن
یوں اس طرح کی کتب کی تعداد درجنوں میں ہے۔
(2)انتخاب پاکستانی ادب، سال بہ سال:
اس حوالہ سے ہر سال پاکستانی ادب سے شاعری اور نثر کا عمدہ انتخاب جمع کیا جاتا ہے اور پھر اسے شائع کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔یوں نثر اور شاعری پر بہت سی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔
(3) کتابیات :
یہ ادارہ پاکستانی ادب کی سال بہ سال کتابیات بھی شائع کرتا ہے۔
(4)اخبارات و جرائد کا اجرائ:
اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت کئی ادبی اخبارات و جرائد شائع ہو رہے ہیں،جن کے نام یہ ہیں:
٭ سہ ماہی ادبیات،(1987سے)
٭ سہ ماہی ادبیات اطفال،(2017سے)
٭ خبر نامہ اکادمی(1983سے)
اکادمی ادبیات پاکستان کا کتب خانہ چالیس ہزار سے زائد ذخیرہ کتب پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر شفیق الرحمٰن ، اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے۔ آج کل ڈاکٹر انعام الحق جاوید اکادمی کے چئیرمین ہیں۔
اغراض و مقاصد:
اکادمی کی طرف سے جاری شدہ تفصیلات کے مطابق اکادمی ادبیات پاکستان کے مقاصد درج ذیل ہیں :۔
(1)ایکٹ کے احکامات اور ان کے تحت وضع کردہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں پاکستانی زبانوں اور ادب کے فروغ اور ملک میں اہل قلم کی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے تمام حکومتی نظام ہائے کار کی نگرانی اور انھیں مربوط کرے گی۔
(2) پاکستانی زبانوں اور ادب کے فروغ اور ملک میںاہل قلم کی برادری کی فلاح و بہبود سے متعلقہ پالیسی پر وفاقی حکومت کو مشاورت فراہم کرے گی۔
(3) زبان و ادب کے شعبے میں تحقیقاتی منصوبوں کے لیے ترجیحات کا تعین کرے گی اور ان منصوبوں پر کام شروع کرے گی۔
(4) ادب اور ادبی سرگرمیوں سے وابستہ مختلف ادبی اداروں اور محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لے گی اور ان کے نئے منصوبوں کی چھان پھٹک اور ان کاتجزیہ کرے گی اور ان کے لیے مالی امداد فراہم کرے گی۔
(5) ملک کے مختلف خطوں کے لوگوں میں اعلی تریک جہتی اور فکری مفاہمت کے فروغ کے لیے قومی اور علاقائی زبانوں سے منتخب ادب پاروں کاترجمہ اور ان کا بین للسانی ترجمہ کرانے کے لیے ایک’’ بیت الترجمہ‘‘ قائم کرے گی۔
(6) قومی اور علاقائی زبانوں میں حوالہ جاتی معیاری کتابوں جیسے لغات، قاموسوں وغیرہ کی تیاری کے عمل کو فروغ دے گی اور اس کی نگرانی کرے گی۔
(7) ایک لسانیاتی تجربہ گاہ، ایک لسانیاتی کتب خانہ اور مرکز دستاویزات قائم کرے گی تاکہ نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ قومی اور علاقائی زبانوں پرہونے والے کام میں سہولت پیدا ہو۔
(8) نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ قومی اور علاقائی زبانوں میں تخلیقی تحریروں کے فروغ کے لیے موزوں اقدامات کرے گی یا ان سے متعلق سفارشات دے گی۔
(9) پاکستانی ادب سے غیر ملکی قارئین کومتعارف کرنے کے لیے موزوں اقدامات کرے گی یا ان سے متعلق سفارشات دے گی۔
(10) اردو، انگریزی اور دیگر پاکستانی زبانوں میں ادبی رسالے شائع کرے گی۔
(11) زبان و ادب سے متعلقہ تمام امور کے لیے مشیروں کی ایک مستند مجلس مہیا کرے گی۔
(12) مختلف ادبی انعامات اور اعزازات کے لیے مستحقین کو نامزد کرے گی یا ان سے متعلق سفارشات دے گی۔
(13) زبان و ادب سے متعلق بین الاقوامی اجتماعات میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرے گی یا اس سے متعلق اُسے سفارشات دے گی۔
(14) پاکستان زبانوں اور ادب کے لیے ممتاز اہل قلم کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کرے گی اور ان کی قومی اہمیت کی تحقیقی تحریروں کی اشاعت کابندوبست کرے گی۔
(15) حاجت مند اہل قلم کی مالی مدد کرے گی اور اہل قلم کے مفادات کی نگہداشت کرے گی۔
(16) ادبی تحریروں کی طباعت و اشاعت میں معاونت کرے گی۔
(17)ملک میں طباعت و اشاعت کی صنعت کی ترویج کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔
(18)مختلف اسامیاں پیدا کرے گی اور ان کے لیے ایسی شرائط و ضوابط کے تحت افراد کا تعین کرے گی جو ضوابط کے ذریعے مقررکردہ ہوں۔
(19)اکادمی کی مالیات، حسابی کھاتا جات اور سرمایہ کاری کی نگرانی کرے گی اور اس سے متعلقہ قواعد وضع کرے گی۔
(20)استعداد کار میں اضافے اور معلومات کے تبادلے کے لیے دوسرے ملکوں میں ہم منصب اداروں سے رابطہ کاری اور ان سے معاملات طے کرے گی۔
(21)اپنے افسروں اور عملے کی اہلیتوں میں بہتری کے لیے کام کرے گی۔
(22)اپنے اثاثہ جات کے بہترین استعمال کے مقصد سے کام اور سرگرمیاں کرے گی جو یہ موزوں سمجھے۔
(23)متعلقہ وزارت کے ذریعے زبانوں اور ادب پر غیر ملکی تیکنیکی معاونت والے منصوبوں کے نفاذ میں تعاون کرے گی۔
(24)معاہدے کرے گی، ان کے مطابق عمل پیرا ہو گی، انھیں بدلے گی یا ان کی تنسیخ کرے گی۔
(25) پاکستانی زبانوں اور ادب کی ترویج اور ملک میں اہل قلم برادری کی فلاح و بہبود سے متعلق مجلس یا وفاقی حکومت کی طرف سے تفویض کردہ کوئی بھی کام یا سرگرمی سرانجام دے گی۔
ادب اطفال کی ترویج میں اکادمی ادبیات پاکستان کا کردار
بچوں کے ادب کی ترویج میں اکادمی ادبیات پاکستان کا کردار قابل قدر ہے۔ اکادمی نے ادب اطفال کے لیے کئی پہلو سے کام کیا ہے ۔اس کا خلاصہ یہ ہے :
1))مطبوعہ کتب :
٭ بچوں کا ادب (پاکستانی شاعروں کی منتخب نظمیں) شیما مجید1999ء
٭ بچوں کا ادب (پاکستانی ادیبوں کی منتخب کہانیاں) شیما مجید1999ء
٭ دیگر کتب میں بھی ضمناً ادب اطفال کے بارے میں لکھا گیا ہے جیسا کہ ابن صفی شخصیت اور فن وغیرہ۔
2) (سہ ماہی ادبیات کے خاص نمبرز :
سہ ماہی ادبیات کا پہلا شمارہ جولائی1987ء میں منظر عام پرآیا تھا ۔ادبیات اپنے اولین شمارے اب تک باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے ۔ یہ ایک خالص ادبی جریدہ ہے ۔ادبیات ہر تین ماہ بعد اردو میں شائع ہوتا ہے ۔ پچھلے بتیس برسوں میں اس جریدے نے تمام پاکستانی زبانوں کے ادب کو اردو کے قارئین تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ سہ ماہی ادبیات کی ایک خصوصیت اس کے خصوصی نمبر ز بھی ہیں۔یہ خاص نمبرز کئی موضوعات اور کئی شخصیات پہ ہیں۔ بچوں کے ادب پہ بھی خاص نمبر نکالے گئے ہیں۔ یہ تین شمارے ہیں جو دوہزار صفحات پہ مشتمل ہیں۔
٭ شمارہ 92،93 بچوں کا ادب (جلد اول : عالمی ادب سے انتخاب)
٭ شمارہ، 94،95 بچوں کا ادب (جلد دوم :قومی ادب ،حصہ نظم)
٭ شمارہ 99بچوں کا ادب (جلد سوم : قومی ادب ،حصہ نثر)
ان شماروں کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
جلداول :(شمارہ نمبر 92 اور 93)
یہ شمارہ جولائی تا دسمبر 2011 میں شائع ہوا۔ شمارے کا ٹائٹل ہے ’’بچوں کا ادب نمبر‘‘ اور اس میں’’بچوں کا عالمی ادب ‘‘کی تخصیص کی گئی ہے۔یہ شمارہ746 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ہر ملک کی الگ الگ کہانیاں شامل ہیں۔بچوں کا عالمی ادب میں صرف نثر کو شامل کیا گیا ہے اورکہانیوں کے اردو تراجم پیش کیے گئے ہیں۔ اس جلد میں تقریباً اکسٹھ ممالک کے ادیبوں کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔
جلد دوم :(شمارہ نمبر 94اور 95)
ادبیات کا خصوصی شمارہ برائے بچوں کا ادب جلد دوم سن دو ہزار بارہ میں منظر عام پر آیا۔جلد دوم قومی ادب کے حصہ نظم پہ مشتمل ہے۔اس میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا گراں قدر ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔ یہ جلد493 صفحات پہ مشتمل ہے اور اس میں درج ذیل عنوانات کے تحت شاعری شامل ہے:
٭حمد
٭نعت
٭سوہنی دھرتی
٭ملت کا پاسبان
٭کلاسیکی شاعری سے انتخاب
٭نظم کہانی
تمثی٭ل
٭اثاثہ
٭پاکستانی زبانوں کا ادب
جلد سوم :(شمارہ نمبر 99)
یہ شمارہ سن دو ہزار تیرہ میں منظر عام پر آیا۔یہ شمارہ بچوں کا ادب جلد سوم، قومی ادب حصہ نثر پہ مشتمل ہے۔اس میں ادب اطفال کی نثری اصناف کو شامل کیا گیا جیسا کہ ڈرامہ، کہانیاں، اور پاکستانی زبانوں کے تراجم۔یہ جلد770 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں درج ذیل اصناف شامل ہیں:۔
٭کہانیاں
٭کہاوت کہانیاں
٭مضامین
٭میرا بچپن (مشاہیر ادباء کی زندگی )
٭مزاح
٭پاکستانی زبانوں کے تراجم
یوں ادبیات کے یہ تین شمارے بچوں کے ادب کی بہت بڑی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیںاور اس کا سہرا اکادمی کے سر بندھتا ہے۔
3) (سہ ماہی ادبیات اطفال کا اجراء :
پاکستان میں سرکاری سرپرستی میں بچوں کا یہ واحد رسالہ ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہو رہا ہے، اس کا آغاز اپریل 2017 سے ہوا، اس کے دس شمارے آچکے ہیں۔یہ ایک سہ ماہی رسالہ ہے اور ہر رسالہ میں بیسیوں کہانیاں اور درجنوں نظمیں شائع ہوتی ہیں۔
شمارہ وار تخلیقات کی تفصیل درج ذیل ہے:
شمارہ نمبر کہانیاں نظمیں تراجم کل تخلیقات صفحات
ایک چھبیس بارہ چھے چوالیس 168
دو بیس بارہ سولہ اڑتالیس 162
تین بیس بارہ دس بیالیس 150
چار پندرہ بارہ ایک اٹھائیس 128
پانچ پندرہ بارہ چار اکتیس 128
چھے چوبیس بارہ دو اڑتیس 128
سات بیس بارہ تین پینتیس 139
آٹھ۔نو تئیس چودہ دو انتالیس 136
دس بائیس گیارہ پانچ اڑتیس 144
یوں ان دس شماروں کی تخلیقات درج ذیل ہیں:۔
کل کہانیاں:185عدد
کل نظمیں:109عدد
کل تراجم:49عدد
کل صفحات:1283عدد
آنے والے صفحات میں سہ ماہی ادبیات اطفال کے ان دس شماروں کا موضوعاتی جائزہ پیش کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
ادب اطفال کی نثری اصناف کا جائزہ
نثر کا لفظ تین حروف سے مل کر بنا ہے۔ جن میں ’’ن۔ث۔ر ‘‘شامل ہیں۔ اس کا لفظی معنی ’’بکھیرنا‘‘ہے جبکہ نثر کے مقابل صنف نظم کا لفظی معنی ہے ’’موتیوں کو لڑی میں پرونا ‘‘۔یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ نظم میں الفاظ کو موتیوں کی طرح پرو دیا جاتا ہے اور نثر میں نثر نگار انہیں آزادانہ طریقے سے بکھیر دیتا ہے۔ نثر اردو ادب میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔نثر ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں مصنف، ادیب،یا لکھاری بغیر کسی پابندی کے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔یعنی مافی الضمیر کے اظہار کا آزاد ذریعہ نثر ہے۔نثر اردو ادب کے ایک بازو کی حیثیت رکھتی ہے ۔اردو نثر کا باقاعدہ آغاز1800ء میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہوا۔ ادب اطفال کی نثری اقسام درج ذیل ہیں:۔
٭ افسانوی ادب
ٍٍٍٍ٭ غیر افسانوی ادب
اس کی تفصیل یہ ہے:۔

افسانوی ادب:
1۔کہانی
2۔ ڈراما
3۔ناول
غیر افسانوی ادب:
1۔درسی کتب
2۔ معلوماتی و سائنسی کتب
3۔ اسلامی و تربیتی کتب
یہ چھ اقسام ہیں۔ اب ہم ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں:۔
1۔ کہانی :
کہانی ہر دور میں لکھی، سنی اور سنائی گئی ہے۔ کہانی کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کہانی سننا اور سنانا پسند کرتا ہے۔ قدیم زمانے ہی سے کہانی سننا اور سنانا انسانی سماج کا حصہ تھا۔ لوگ جمع ہوتے تھے اور ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔دور نبوی میں بھی قصے سننے سنانے کا ثبوت ملتا ہے۔اس دور میںقصے کہانیاں سننے کا شوق اس قدر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشا کے بعد اس کام سے منع کیا ہوا تھا تاکہ لوگ صبح کی نماز کے لیے بروقت بیدار ہو سکیں۔
بچے کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں اور بچپن میں کہانی سننا ان کی سب سے بڑی تفریح ہوتی ہے۔ دور حاضر میں بھی بچے کہانی میں پہلے کی طرح رغبت رکھتے ہیں مگر ہمارے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے کتب بینی کا رجحان کم ہو گیا۔ اس لیے اب بچے کہانی سننے اور جاننے کے شوق کو کارٹونز اور موویز دیکھ کر پورا کرتے ہیں۔بچوں کے ادب میں ہیئت اور موضوع کے لحاظ سے کہانی کی مختلف شکلیں ہمارے سامنے ہیں،مثلا
٭کہانیوں میں الفاظ کی تحدید ہو۔جیسے سولفظی کہانیاں ، پچاس لفظی کہانیاں،بیس لفظی کہانیاں۔
٭ کہانیوں میں حروف کی تحدید ہو ۔جیسے غیر منقوط کہانی وغیرہ
٭ کہانیوں میں موضوع کی تحدید ہو۔جیسے مذہبی موضوعات میں آیت کہانی،حدیث کہانی،فقہ کہانی وغیرہ اور دیگر موضوعات میں سائنسی،جادوئی،سماجی اور مہماتی کہانیاں وغیرہ۔

2۔ ڈراما:
ڈراما ادب کی اہم صنف ہے۔ ڈراما’’نقالی‘‘ کو کہتے ہیں۔ یہ نقالی دراصل زندگی کی عکاسی کا نام ہے۔ڈرامہ خود زندگی نہیں بلکہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں پلاٹ، کردار، زبان وبیان اور مکالمے بنیادی اجزاء ہیں۔ بچے بچپن ہی سے نقال ہوتے ہیں اور وہ تمام حرکات و سکنات اپنے والدین اور گرد و پیش کے لوگوں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے ادب میں ڈراما کی خاص اہمیت ہے۔لیکن جس طرح بچوں کے لیے کہانی لکھتے ہوئے اسلوب اور موضوع کا خیال رکھا جاتا ہے ویسے ہی ڈراما میں بھی ان امور کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
بچوں کے ادب میں باقی اصناف کی نسبت ڈراما میں کم لکھا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈراما کا باب بالکل ہی خالی ہے۔ بچوں کے لیے بہت سارے ادیبوں نے ڈرامے لکھے ہیں اور ان میں سے اکثر یک بابی ہیں۔بچوں کے لیے یک بابی ڈراما ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ بچوں کے پاس ڈراما کا میدان اکثر سکول کا اسٹیج ہوتا ہے اور وہاں سہولیات اور وقت کی تنگی کو دیکھتے ہوئے یک بابی ڈراما سب سے آسان رہتا ہے جبکہ طویل ڈراموں میں سہولیات بھی وافر ہونی چاہیئں اور بچوں کے پاسوقت بھی زیادہ ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ طویل ڈراموں سے بچے بیزار بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا بچوں کے لیے آسان، دلچسپ، مختصر اور اخلاقی اقدار پہ مبنی ڈرامے لکھے جانے چاہئیں۔
چند اہم ڈراموں کے مجموعے یہ ہیں :
1۔ دیانت (1931ء ) ڈاکٹر ذاکر حسین ۔یہ بچوں کا پہلا ڈراما قرار پایا ہے ۔
2۔ شریر لڑکا (ڈرامہ) ڈاکٹر سیدہ عابدہ حسین
3۔ آؤ ڈرامہ کریں (مجموعہ) محمد مجیب
۔ بچوں کے ڈرامے (مجموعہ) اظہر افسر
5۔ استانی جی (ڈراما) میرزا ادیب
6۔ لاٹری کا ٹکٹ (ڈراما) شوکت تھانوی
7۔ بچوں کے تھیٹر(تاریخی ڈراموں کا مجموعہ ) خان احمد حسین خان
8۔ انوکھا دربار (ڈراما) امتیاز علی تاج
9۔ ننھی گڑیا (ڈراما) غلام عباس
10۔ آئی برسات آئی( مجموعہ) بانو سرتاج
3۔ ناول:
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناویلا کے معنیٰ ہیں’’نیا پن‘‘۔ ناول کی مختصر تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میںپلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع شامل ہیں۔ بچے جب بالغ عمری کے قریب ہو جاتے ہیں تو وہ طویل کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں اور یہ طویل کہانیاں انہیں ناول کی صورت میں ملتی ہیں۔ کہانی کی طرح ناول بھی مختلف موضوعات کے حامل ہوتے ہیں اور موضوعات کے اعتبار سے ان کی درج ذیل اقسام ہیں:
1۔ اخلاقی و اصلاحی ناول :
ایسے ناول بچوں کے لیے اصلاحی مواد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا موضوع معاشرے کے مسائل اور ان کا حل ہوتا ہے۔بچے اخلاقی ناولوں سے تہذیب و اقدار سے روشناس ہوتے ہیں۔یسے ناولوں کے موضوعات میں گھر، محلہ، بازار، سکول، ہسپتال، عدالت، باہمی دکھ سکھ، معاشرتی رنجشیں اور صلح صفائی شامل ہوتے ہیں۔
2۔ تاریخی ناول:
یہ ایسے ناول ہوتے ہیں جن کا پلاٹ یا مرکزی کردار تاریخ سے لیا جاتا ہے ۔تاریخی ناول بچوں میں شعور و آگاہی پیدا کرتے ہیں۔ بچے اپنی تہذیب سے واقف ہوتے ہیں۔تاریخی ناول لکھنا بھی قدرے مشکل کام ہوتا ہے کیوں کہ اس میں تخلیق کار کو ماضی کی تہذیب کی تصویر کشی کرنا ہوتی ہے۔اور قاری کے سامنے بھی ماضی کے نقوش اجاگر کرنا ہوتے ہیں۔ ایسے ناولوں میں مسلم فاتحین سیریز کے ناول سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ محمود غزنوی کی زندگی پہ لکھا گیا ناول ’’ایک تھا بت شکن ‘‘ بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔
3۔ جاسوسی ناول:
بچے ایسے ناولوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ جرم و سزا، خیر وشر ان کا بنیادی موضوع ہوتا ہے ۔ان ناولوں سے بچوں کے اندر حب الوطنی اور فرض شناسی کے جذبات اجاگر ہوتے ہیں۔ ان ناولوں سے بچوں کا ذہن بھی وسیع ہوتا ہے ۔بچوں کے ادب میں عمران سیریز، انسپکٹر جمشید سیریز کے ناول بہت مقبول ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ماضی کے ناول نگاروں میں ابن صفی کا نام سب سے معروف ہے کیوں کہ عمران سیریز کے تخلیق کار بھی ابن صفی ہی ہیں۔
4۔ ایڈونچر ناول:
اس نوع کے ناولوں میں مہماتی زندگی ، جنگل کے حالات، شکاریات کے واقعات اور پراسراریت پہ مشتمل ناول ملتے ہیں۔کیوں کہ ان تمام ناولوں میں ایڈوینچر ہوتا ہے۔ اردو ادب میں کرشن چندر کا ناول الٹا درخت اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ ابن آس محمد کے ناول ’’سکندر‘‘ ،’’جنگلادمی‘‘ اور’’ملکہ نارنیہ ‘‘قابل ذکر ہیں۔

5- سائنسی ناول:
سائنسی ناول سائنسی موضوعات پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ان میں جدید ایجادات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے ایسے ناول حیرت و استعجاب کا باعث ہوتے ہیں۔ آج کل سائنسی ایجادات کی بھرمار ہے تو بچوں کے ادب میں ایسے کردار سامنے لائے جارہے ہیں جو سائنسی ترقی کی بدولت حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان صلاحیتوں اور قوتوں کے بل بوتے پر مشکل مراحل سے گزر کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں تو اس نوع کے ناول میجک رئیلزم کے زمرے میں آتے ہیں ۔ جیسے حال ہی میں آنے والا امجد جاوید کا ناول ’’جی بوائے ‘‘قابلِ ذکر ہے۔انگریزی ادب میں سپرمین، اسپائڈر مین اور اس نوع کے دیگر ناول سائنسی ناول شمار ہوتے ہیں۔
2۔ غیر افسانوی ادب :
کہانی، ڈراما اور ناول کے علاوہ نثری سرمایہ غیر افسانوی ادب کہلاتا ہے ۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے صرف افسانوی ادب کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے غیر افسانوی ادب کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیگر ممالک کے ادب اطفال میں دیگر کتب بھی دیکھتے ہیں۔- بچوں کے غیر افسانوی ادب کے عناصر بہت سارے ہیں لیکن ہم انہیں چند بنیادی اقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔
1۔ د ر سی کتب:
بچوں کے لیے تعلیمی نقطہ نظر سے لکھی گئی کتب درسی کتب کہلاتی ہیں۔ان درسی کتب میں اگرچہ افسانوی عناصر مثلاً کہانی اور ڈرامہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں لیکن ان کی شمولیت بھی درسی پہلو سے ہوتی ہے اس لیے درسی کتب کو غیر افسانوی ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بچوں کی درسی کتب کو خوب صورت طباعت اور موٹے حروف میں لکھا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں دیدہ زیب تصاویر بھی ہوں تاکہ بچے ان کی طرف مائل ہوں۔ ماضی میں مولوی محمد اسماعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی بچوں کی درسی کتب کے مرتبین میں سر فہرست رہے ہیں اور ان کی درسی کتب ہر لحاظ سے جامع تھیں ۔
2۔ معلوماتی و سائنسی کتب :
اس زمرے میں بچوں کے لیے معلوماتی اور مفید کتب شامل کی جا سکتی ہیں۔- بچے نت نئی ایجادات کے بارے میں پڑھ کر خوشی حاصل کرتے ہیںاور یہ مطالعہ ان کے تجسس و جستجو کو مہمیز دیتا ہے۔سب سے پہلے مولوی ذکاء اللہ نے سائنسی مضامین پر مشتمل کتابیں انگریزی سے بچوں کے لیے اردو میں منتقل کیں ،جو بچوں کے سائنسی ادب میں قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تصانیف زیادہ تر اسکولوں کے طلبا کے لیے تھیں اس لیے ان میں رنگینی اور عبارت آرائی اور ادبی دلچسپیاں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ان کے علاوہ محمد اسمٰعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بے حد معیاری کتب تیار کیں۔ان کتابوں کیخاص بات یہ ہے کہ ان میں معلوماتی مضامین بھی شامل کیے گئے جو بچوں کو مختلف موضوعات پر سیر حاصل مواد فراہم کرتے تھے ۔مثال کے طور پر درج ذیل موضوعات کو دیکھیے :۔
1۔ ہوا کے بارے میں
2۔پانی کی معلومات
3۔کوئلے کی کان کیا ہے
4۔ریلوے انجن کی ایجاد
5۔چھاپہ خانہ کی ایجاد
6۔پہیے کی ایجاد
7۔ کاغذ کی ایجاد وغیرہ۔
اس ضمن میں ہمارے ادیبوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ دور حاضر کی ایجادات سے بچوں کو کیسے روشناس کرایا جائے اور بچوں کے لیے لکھی گئی ایسی کتب کا اسلوب عام فہم اور دلچسپ ہونا چاہیے تاکہ بچے رغبت سے پڑھیں۔ معلوماتی کتب میں ہم جغرافیائی معلومات ، جانوروں کے بارے میں معلومات، پھلوں سبزیوں کے بارے میں معلومات اور ان کے فوائد، انسائیکلوپیڈیاز ، سوالات و جوابات پہ مبنی کتب اور جنرل نالج کتب کو شامل کر سکتے ہیں جبکہ سائنسی کتب سائنسی ایجادات کے متعلق ہوتی ہیں۔
3۔ اسلامی کتب :
بچوں کے لیے اسلامی موضوعات پر لکھی گئی کتب بھی نہایت اہم ہیں۔ ان کتب کی بدولت بچے اپنے مذہب کے بارے میں جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر کتب، دینی سوالات و جوابات پہ مبنی کتب، اور اسلامی آداب زندگی پہ مبنی کتب قابل ذکر ہیں۔- ہفت روزہ ’’بچوں کا اسلام‘‘ میں مولانا محمد اسماعیل ریحان نے بچوں کے لیے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا عنوان تھا’’آؤ اسلام سیکھیں‘‘’۔ یہ سلسلہ آسان زبان میں دینی معلومات فراہم کرتا تھا اور بچے اسے بے حد پسند کرتے تھے۔اس کے علاوہ دیگر رسائل میں بھی بچوں کے لیے اس طرح کا کوئی نہ کوئی سلسلہ ہوتا ہے جس سے بچے فیض یاب ہوتے ہیں۔
یہ ادب اطفال کی نثری اصناف ہیں جن کے نقوش ہمارے ہاں شائع ہونے والے رسائل و جرائد اور کتابوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں، آئندہ ابواب میں ہم اکادمی ادبیات پاکستان کے جاری کردہ رسالہ’’سہ ماہی ادبیات اطفال‘‘ (اسلام آباد) کا مطالعہ کرکے انہی اصناف کو تلاش کریں گے۔پہلا باب سہ ماہی ادبیات اطفال کی نثر پر مشتمل ہے۔سہ ماہی ادبیات اطفال کے دس شماروں میں شائع ہونے والی نثر میں کہانیوں کی تعداددو سو کے قریب ہے۔اس لیے اب ہم بچوں کے ادب میں کہانی کے کردار پر بحث کریں گے۔
بچوں کا ادب اور کہانی:
اردو زبان و ادب کی تاریخ تو بہت قدیم ہے لیکن ادب اطفال کی تاریخ اس قدر قدیم نہیں۔اردو میں ادب اطفال کاآغاز کس دور میں ہوا۔؟یہ بات یقین سے تو نہیں کہی جا سکتی البتہ اکثر محققین کے مطابق آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔ ڈاکٹر خوش حال زیدی ،ڈاکٹر محمودالرحمان اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی اس بارے میں یہی رائے ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:۔
’’کتابیات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میںبچوں کا ادب سترہویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصے میں لکھا جانا شروع ہوگیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی خاصا کام ہوا ہے۔ ‘‘ (1)
ڈاکٹر جمیل جالبی کے اقتباس سے ادب اطفال کے آغاز کی قطعی تاریخ تو معلوم نہیں ہوتی البتہ اس سے ادب اطفال کی شروعات کا اشارہ ضرور ملتا ہے۔ڈاکٹر جالبی کا یہ قول اس لیے بھی مستند سمجھا جاتا ہے کہ دیگر محققین بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔مثال کے طور پر سب سے پہلے ڈاکٹر محمودالرحمان کی تحقیق کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بچوں کا ادب اورنگ زیب کے عہدسے شروع ہوا۔اورنگ زیب کا عہد 1658ء سے1707 تک محیط ہے اور یہ وہی تاریخ بنتی ہے جس کا ذکر جمیل جالبی نے کیا ہے۔ڈاکٹرمحمودالرحمان اپنی کتاب’’ اردو میں بچوں کا ادب‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:۔
’’اردو میں بچوں کے ادب کا آغاز اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے ہوتا ہے۔اس زمانے میں نو عمر افراد کے لیے متعددکتابیں تصنیف کی گئیں جو زیادہ تر لغت پر مشتمل تھیں مثلا’’خالق باری‘‘،’’ایزد باری‘‘،’’اللہ باری‘‘،’’صنعت باری‘‘ وغیرہ۔انتمام کتابوں کی غرض وغایت یہ تھی کہ بچوں کو نہایت آسان اور دل چسپ اشعار کے ذریعے عربی و فارسی الفاظ کے معنی سے آشنا کرایا جائے۔بہادر شاہ ظفر کے دور میںمرزا غالب نے بھی اپنے بھانجے عارف کے دونوں بچوں کی تعلیم وتدریس کی خاطر’’قادر نامہ‘‘ کے نام سے ایک نصابی کتاب لکھی تھی جو تمام تر لغت پرہی مشتمل ہے۔‘‘(2)
اس اقتباس سے ہمیں ادب اطفال کے اولین دو ر اور اس دور کی اولین کتب کا علم ہوتا ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں بچوں کے لیے لغت پہ مشتمل کتب لکھی گئیں۔یہ تمام کتب منظوم تھیں کیوں کہ ماہرین تعلیم کا خیال تھا کہ نظم بچوں کو جلد یاد ہو جاتی ہے۔اس کے بعد نثر ی اسالیب میں کتب منظر عام پر آئیں اور ’’رانی کیتکی ‘‘کی کہانی بچوں کی پہلی نثری کتاب مانی جاتی ہے۔بچوں کا نثری ادب افسانوی اور غیر افسانوی دو حصوں پرمشتمل ہے۔چونکہ اس باب میں ہم نے سہ ماہی ادبیات اطفال کی کہانیوں کا موضوعاتی مطالعہ پیش کرنا ہے،اس لیے ہم بچوں کے افسانوی ادب کے بارے میں پڑھتے ہیں۔
اردو میں افسانوی ادب کی شروعات داستانوں سے ہوئی۔یہ داستانیں فارسی اور عربی سے ترجمہ ہوئیں۔یہ داستانیں ہمارے معاشروں میں بے حد مقبول ہوئیں۔ان داستانوں کی بدولت زبان وادب نے بہت ترقی کی۔اس کے بعد افسانوی ادب میں ناول اور پھر افسانے نے جنم لیا۔انسان کی مصروفیت کی وجہ سے داستانوں کو ترک کر کے مختصر اصناف کو ترویج دی گئی۔بچوں کے لیے افسانہ کی جگہ مختصر کہانی پیش کی گئی۔کہانی کے اولین نمونے پنج تنتر کی کہانیوں اور شیخ سعدی کی حکایات میں ملتے ہیں۔کہانی کی تحریری پیش کش سے پہلے بھی کہانی ہمارے معاشرے کا حصہ رہی ہے۔سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی لوک کہانیوں اور روایتی قصوں کی وجہ سے کہانی نے اپنی مقبولیت کی سلطنت قائم کر لی تھی۔بعد میں تحریری صورت میں آنے کی بنا پر اسے مزید مقبولیت ملی۔اب کہانی ادب اطفال کی سب سے اہم صنف سمجھی جاتی ہے۔کہانی کیا ہے؟ اس کی جامع تعریف کیا ہوگی؟آئیے اس بارے میں پڑھتے ہیں۔
نذیر انبالوی لکھتے ہیں:۔
’’بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانی کی تعریف یہ ہے۔٭بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانی مختصر،دل چسپ اور زندگی کے کسی ایک پہلو کو بیان کرے۔٭ بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانی واقعات کا ایسا مجموعہ ہوتی ہے جو دل چسپی سے لبریز ہو۔‘‘(3)
اس اقتباس میں کہانی کی تعریف نہایت آسان لفظوں میں بیان کی گئی ہے اور کہانی کے بارے میں تین اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جو کہ یہ ہیں:۔
٭ کہانی مختصر ہو۔
٭ کہانی دل چسپ ہو۔
٭ زندگی کی ایک پہلو پر مشتمل ہو۔
اختصار پہ اس لیے زور دیا گیا ہے کہ بچے طویل تحاریر نہیں پڑھ سکتے ۔اس کے علاوہ جو کہانی بچوں کے لیے لکھی جائے اس کا دلچسپ ہونا از حد ضروری ہے۔اگر کہانی دل چسپ نہ ہو تو بچے اسے بالکل نہیں پڑھیں گے۔اور اس طرح لکھنے والے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ کہانی زندگی کے ایک واقعہ پر مبنی ہوجسے ہم وحدت تاثر بھی کہہ سکتے ہیں۔اگر کہانی زندگی کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرتی ہے تو اسے کہانی نہیں بلکہ ناول کہا جائے گا۔لہذا بچوں کے لیے کہانی لکھتے وقت درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:۔
(1)بچوں کی عمرکا خیال:
ادب اطفال کے محققین نے بچوں کو عمر کے لحا ظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔یہ حصے پرائمری،مڈل اور ہائی ہیں۔ایک کہانی نگار کو کہانی لکھتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کس عمر کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہے۔اگر وہ پرائمری طبقہ کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہے تو اسے درج ذیل امور کا خیال رکھنا ہو گا:۔
٭کہانی مختصر ہو۔
٭آسان الفاظ کا استعمال ہو۔
٭کہانی میں فلیش بیک کی تیکنیک استعمال نہ کی جائے۔
٭دل چسپ اور تفریح پہ مبنی ہو۔
٭پرندوں اور جانوروں کی تماثیل پہ مشتمل ہو۔
اسی طرح مڈل اور ہائی طبقہ کے بچوں کی عمر کو سامنے رکھتے ہوئے کہانی لکھی جائے۔
(2)بچوں کی دل چسپیوں کا خیال:
کہانی نگار کو کہانی لکھتے ہوئے بچوں کی دل چسپیوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔عام طور پر بچے درج ذیل اقسام کی کہانیاںپسند کرتے ہیں:۔
٭پرستان کی کہانیاں
٭مزاحیہ کہانیاں
٭جادوئی کہانیاں
٭جانوروں کی تمثیلی کہانیاں
٭سائنسی کہانیاں
٭مہماتی کہانیاں
٭کھیل کود کہانیاں
کہانی نگارکو کو ئی ایسا موضوع نہیں چننا چاہیے جو بچوں کی دل چسپی کے دائرے سے باہر ہو۔
(3)بچوں کی ضروریات کا خیال:
اسی طرح کہانی نگار کو چاہیے کہ وہ زمانے کی ضروریات کو بھی سامنے رکھے اور بچوں کی تعلیمی،معاشرتی،اخلاقی اور مذہبی ضرورت کے مطابق کہانیاں لکھے۔تاکہ بچے ان کہانیوں کو پڑھ کر ان سے مثبت اثر لیں۔
(4)بچوں کے رجحانات:
بچے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔کہانی نگار کو اپنی کہانیوں میں بچے کو کل کے بارے میںبھی سوچنے کا رخ دینا چاہیے تاکہ بچے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ کر اپنی منزل متعین کر سکیں۔بچوں کے رجحانات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔کہانی نگا رکو بچے کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ذہن سازی کرنی چاہیے۔
(5)بچوں کی استعداد کا خیال:
بچے معصوم اور ناپختہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔کہانی نگا ر کو کہانی لکھتے ہوئے ان کی استعداد بھی پیش نظر رکھنی چاہیے۔مثال کے طور پر چھوٹے بچے مشکل الفاظ اور طویل کہانیاں نہیں پڑھ سکتے۔اسی طرح بڑی عمر کے بچے فلسفیانہ امور نہیں سمجھ سکتے،لہذا کہانی نگار کو ان امور کے بارے میں خیال رکھنا چاہیے۔
(6) زبان وبیان کا خیال :
بچوں کی کہانیاں دور دور تک پڑھی جاتی ہیں۔اس لیے کہانی نگار کو کسی ایک انداز کو نہیں اپنانا چاہیے۔ہر علاقائی زبان کی کچھ چیزیں اور باتیں صرف اسی علاقہ کا حصہ ہوتی ہیں،اس لیے کہانی نگار کو ایسی علاقائی باتیں کہانی کا حصہ نہیں بنانی چاہئیں۔کہانی نگار کو اوسط زبان و بیان سے کام لینا چاہیے۔اسی طرح کہانی نگار کو تشبیہات ،استعارات،تلمیحات اور علم بیان کی دیگر صنعتیں اپنی کہانی میں استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔
سہ ماہی ادبیات اطفال کی کہانیوں کا موضوعاتی جائزہ:
سہ ماہی ادبیات اطفال میں شائع ہونے والی کہانیوں کو موضوعات کے اعتبار سے کئی اقسام میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔اب ہم ان میں سے ہر قسم کی کہانیوںکا تفصیلی جائزہ لیں گے۔یہ اقسام ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:۔

1۔ اسلامی و مذہبی کہانیاں
2۔اخلاقی و اصلاحی کہانیاں
3۔سماجی و معاشرتی کہانیاں
4۔ تمثیلی کہانیاں
5۔ مزاحیہ کہانیاں
6۔ جاسوسی کہانیاں
1۔ سہ ماہی ادبیات اطفال کی اسلامی و مذہبی کہانیاں:
بچوں کے ادب میں نثر کا وجود کہانی کی صورت میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ بچے بچپن سے کہانیاں تقریری انداز میں سنتے آ رہے ہوتے ہیں اس لیے جب وہ متن پڑھنے کے لائق ہوتے ہیں تو تحریری کہانیاں ان کی توجہ کا اولین مرکز ہوتی ہیں۔اردو میں بچوں کے لیے ہر موضوع پر کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ یہ موضوعات تفریحی بھی ہیں اور سنجیدہ بھی۔ انہی سنجیدہ و بامقصد موضوعات میں سے ایک اہم موضوع اسلامی و مذہبی کہانیاں ہے۔ ایسی کہانیاں کسی بھی واقعے کے گرد بنی جاتی ہیں اور اس میں مطلوبہ نصائح یا معلومات کو کہانی کے کرداروں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
ایسی کہانیاں بچوں کی تعمیر سیرت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماضی کی اسلامی کہانیوں میں صرف نصائح ہوتی تھیں اس لیے عموماً یہ دیکھا جاتا تھا کہ بچے ان سے کتراتے ہیں۔ دور حاضر کے ادب اطفال میں اسلامی کہانیوں کو بھی جدید خطوط پر لکھنے کا رواج چل نکلا ہے جس میں کہانی کے اندر صرف نصائح نہیں ہوتیں بلکہ اس میں مزاح، تجسس، منظر کشی ، اور واقعاتی رنگ کے ذریعے اسے بچوں کے لیے دلچسپ بنا دیا گیا ہے اور بچے بھی انہیں پہلے کی نسبت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایسی کہانیوں کے بارے میں ڈاکٹر خوشحال خان زیدی بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ مصنف اپنے اسلوب میں بہتری لا کر ایسی کہانیوں کو بچوں کے لیے دلچسپ بنائے، وہ لکھتے ہیں:
’’مذہبی کہانیوں میں مذہبی واقعات، مذہب کی بنیادی باتیں اور مذہبی بزرگوںکی زندگی کے حادثات اور ان کے کرداروں پر مبنی کہانیاں بچوں کی عام فہم زبان میںپیش کی جاتی ہیں۔جن کا مقصد بچوں کے کردار، اعلیٰ اوصاف کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ مذہب کی بنیادی تعلیم بھی دینا ہے۔ عموماً بچوں کی دلچسپی ایسی کہانیوں میں کم ہوتی ہے، چنانچہ ایسی کہانیوں کو دلچسپ، پرکشش، مفید بنانے میں مصنف کے اسلوب نگارش، اور طرز تحریر کی بڑی اہمیت ہے۔‘‘(4)
ایسی کہانیاں مختلف پہلوؤں سے لکھی گئی ہیں۔ان کہانیوں کا اسلوب یہ ہوتا ہے کہ کہانی کی بنت میں اسلامی تعلیمات یا اسلامی واقعات کو شامل کیا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں قرآن، حدیث، سنت، فقہ اور اسلامی واقعات میں تاریخ اور قصص شامل ہیں۔قرآن مجید سے متعلقہ اسلامی کہانیاں مختلف پہلوؤں پر لکھی گئی ہیں۔ اگر مختلف قرآنی کہانیوں کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اسالیب میں کہانیاں لکھی جا چکی ہیں:۔
پہلا اسلوب:
اسلامی ومذہبی کہانیوں کے ضمن میں قرآن پاک سے اخذ کردہ کہانیاں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔اس حوالے سے درج ذیل طریقوں سے کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔
یسی کہانیاں جن میں قرآنی آیت کا مفہوم کہانی میں پیش کیا جائے۔مثال کے طور پر قرآن پاک کی سورہ حجرات میں ایک آیت کا ترجمہ یوں ہے:
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہیں پسند ہے کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔‘‘
اس آیت میں ایک حکم دیا گیا ہے کہ غیبت کرنا جائز نہیں، اور اس کی ممانعت کو سمجھانے کے لیے ایک مثال بھی دی گئی ہے۔ اس آیت پہ کہانی لکھنے والا کوئی ایسا منظر پیش کرے گا جس میں کچھ بچوں کو غیبت کرتے دکھایا گیا ہوگا اور کچھ کو انہیں روکتے دکھایا گیا ہو گااور اسی منظر نامہ میں کہانی نگار آیت کو کہانی کا حصہ بنا دے گا۔
یسی کہانیاں جن میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ان قصوں کو لکھا جائے جو قرآن پاک میں بیان کیے گئے ہیں اور مستند تفاسیر میں ان کی وضاحت بھی موجود ہے۔مثال کے طور پرحضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا سمندری سفر، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بت شکنی۔
یسی کہانیاں جن میں قرآن پاک میں مذکور جانوروں پر کہانی لکھی جائے۔مثال کے طور پرقرآن پاک میں پہلے پارے میں گائے کا ذکر ہے تو بچوں کو آسان اسلوب میں اس گائے کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ گائے کس کی تھی؟؟ اسے بنی اسرائیل والے کیوں خریدنا چاہتے تھے؟؟اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک پرندہ ہدہد تھا۔ وہ پرندہ کس قوم کی جاسوسی کررہا تھا اور کیوں؟؟
ایسی کہانیاں جو قرآن پاک میں موجود غزوات پہ مشتمل ہوں۔مثال کے طور پرغزوہ بدر، احد وغیرہ کے واقعات کو دل چسپ انداز میں پیش کرنا۔
کسی آیت یا سورت کے شان نزول پہ کہانی لکھی جائے۔مثال کے طور پر قرآن پاک کی سورہ انفال کی ابتدائی آیات ایک خاص واقعہ کے ساتھ منسلک ہیں کہ جب غزوہ بدر اختتام پذیر ہوا تو مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں کیوں کہ یہ پہلی اسلامی لڑائی تھی۔لہذا اب سوال یہ تھا کہ اسلام میں مال غنیمت کی تقسیم کے اصول نئے ہوں گے یا پہلے والے قواعد کی روشنی تقسیم کا عمل مکمل ہو گا۔
دوسرا اسلوب:
اسلامی کہانیوں کا دوسرا بڑا ماخذحدیث ہے۔احادیث پہ مشتمل کہانیاں بھی کئی پہلوؤں سے لکھی گئی ہیں۔ ان کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے:۔
ایسی کہانیاں جن میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کا کا ذکر کیا جائے ،مثلاً سلام کرنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا، خندہ پیشانی سے ملنا، مسواک کرنا، کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
ایسی کہانیاں جن میں حدیثی وعظ و نصیحت کو، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کسی حکم یا ممانعت کو یا کسی اور واقعہ کو پیش کیا جائے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت مثال سے سمجھائی،نماز پنج گانہ ادا کرنے والے کی پاکیزگی سمجھانے کے لیے نہر کی مثال پیش کی،اسی طرح ایک بار آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سخت خوف کے عالم میں اکیلے مدینہ کا چکر لگایا، یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوہ صفا پر اہل مکہ سے خطاب کیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں پہ ظلم و تشدد سے منع فرمایا،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پڑوسیوں کے احکامات بتائے۔وغیرہ
ایسی کہانیاں جن میں حدیث کی دعائیں پیش کی جائیں مثلاً مسجد میں داخل ہونے کی دعا، دودھ پینے کی دعا وغیرہ،ایسی کہانیوں کو دعا کہانی کا نام بھی دیا گیا ہے۔
ایسی کہانیاں جو حدیث میں موجود دل چسپ واقعات کو کہانی کے انداز میں پیش کریں مثلاًایک سفر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمندری مچھلی عنبر ملی، ایک صحابی رسول برق رفتاری میں گھوڑے کے ہم پلہ تھے۔
اسی طرح اسلامی کہانیوں میں’’ فقہ کہانی‘‘ ایک نیا اضافہ ہے جس میں کہانی کی بنت میں فقہی مسئلہ شامل کیا جاتا ہے۔ اس نوع کی کہانیوں میں روز مرہ پیش آنے والے مسائل کو کہانیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے مسائل جو اہم ہوں اور پوری ملت اسلامیہ ان پہ متفق ہو مثلاً گری ہوئی چیز ملنے پر کیا کرنا چاہیے، نماز میں غلطی ہوجانے کی صورت میں کیا کیا جائے گا، وغیرہ۔ اس نوع کی پہلی باضابطہ کہانی ماہنامہ ’’ بچوں کا تنزیل‘‘ ملتان ماہ مئی، دو ہزار بیس میں شائع ہوئی جس کا عنوان ہے’’ صندوق کا راز‘‘۔اسلامی تاریخ کے سچے واقعات بھی اسلامی کہانیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان واقعات میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے واقعات بھی لکھے گئے ہیں۔مثلاًخلفائے راشدین کے بارے میں کہانیاں،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر مشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہانیاں وغیرہ۔
سہ ماہی ادبیات اطفال کے دس شماروں میں بھی درجنوں اسلامی کہانیاں شامل اشاعت ہوئی ہیں، ذیل میں ان کہانیوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
(1)آگ، محمد نعیم امین:
پہلی اسلامی کہانی شمارہ نمبر ایک میں شامل اشاعت ہے۔اس کہانی کا عنوان آگ ہے۔یہ ایک حدیث کہانی ہے۔چونکہ حدیث پاک میں حسد کو ایسی آگ قرار دیا گیا ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے،اس لیے کہانی نگار نے بھی اس کہانی کا عنوان حسد طے کیا ہے۔ اس کہانی میں حسد کی آگ کا نقصان بتایا گیا ہے۔ اس کہانی میں دو بچے راشد اور زین دکھائے گئے ہیں۔ دونوں اسکول کے طالب علم ہیں۔ راشداسکول کا کند ذہن اور نالائق بچہ ہے جبکہ زین ذہین لڑکا ہے، لیکن اس میں ایک بری عادت ہے کہ وہ راشد کا مذاق اڑاتا ہے۔ راشدکو چونکہ اس سے حسد ہوتا ہے اس لیے وہ انتقاماً اس کاحل شدہ پیپر چرا کر خراب کر دیتا ہے اور زین فیل ہو جاتا ہے۔بعد میں حقیقت کھل جاتی ہے اور راشد پکڑا جاتا ہے۔ پرنسپل صاحب دونوں کو بلوا کر سمجھاتے ہیں۔ کیوں کہ راشد اور زین دونوں کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔راشدکوحسد کی آگ جلا رہی ہوتی ہے جبکہ زین دوسروں کا مذاق اڑانے کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔اس کہانی میں حسد کے متعلق معروف حدیث بھی پیش کی گئی ہے جو کچھ یوں ہے:
’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے۔‘‘
کہانی نگار نے اس کہانی میں حدیث پاک کی تعلیم کو نہایت سہل انداز میں کہانی کا حصہ بنایا ہے،اس کہانی کا ایک پیرا گراف دیکھیے:
’’راشد پھر بولنے لگا۔’’ا س دن مس پیپر لے کر آپ کے پا س آرہی تھیں،کہ زین کا پیپرنیچے گرگیا،پہلے تو میں پیپر واپس کرنے لگا تھامگر میرے ذہن میںخیال آیا اور میں پیپرلے کراپنی کلاس میں گیااور اس وقت چھٹی ہو چکی تھی، میںنے پیپرکو خراب کیااور پھر نیچے آیا تو مس پیپرمیز پر رکھ کرواپس آپ کے آفس میں گئیں، میں نے پیپر واپس پرچوں میںرکھ دیااور پھرخود گھر روانہ ہو گیا۔‘‘راشد پوری بات بتا کر چپ ہو گیا۔کچھ دیر کلاس میںخاموشی رہی ،پھر پرنسپل بولے۔’’رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:’’حسد سے بچوبے شک حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو‘‘(5)
یوں کہانی نگار نے راشد کی حسد والی خامی کو حدیث پاک کی روشنی میںواضح کردیا اور اس خامی کا نقصان بھی بتادیا۔
(2) روشنی بلا رہی ہے، ابن آس محمد:
دوسری اسلامی کہانی کا عنوان ہے ’’روشنی بلا رہی ہے‘‘۔یہ ایک حدیث کہانی ہے۔اس کہانی میں ایفائے عہد کا سبق دیا گیا ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ’’ جان‘‘ نامی ایک عیسائی ہے۔ اسے ملازمت کے حصول کے لیے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے جو کونسلر کے پاس سے ملنا ہے۔ جان اپنے محلے دار صدیق بھائی سے مدد کی درخواست کرتا ہے کہ وہ اسے کونسلر سے کرداری سرٹیفیکیٹ بنوادیں۔ صدیق بھائی تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ انہیں گلی میں چھوڑ کر گھر سے کاغذات لینے جاتا ہے ۔اس دوران اس کا ایک اور دوست آجاتا ہے اور وہ اسے کونسلر کے پاس لے جانے کی پیش کش کرتا ہے۔جان اس دوست کے ساتھ چلا جاتا ہے لیکن صدیق بھائی کونہیںبتاتا۔
ادھر صدیق بھائی وعدے کے مطابق اسی جگہ رکے رہتے ہیں اور جان کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔جب کئی گھنٹوں بعد جان اپنے کسی کام کی غرض سے اس گلی سے گزرتا ہے تو صدیق بھائی کو وہاں بیٹھ کر چونک جاتا ہے۔ صدیق بھائی اسے بتاتے ہیں کہ وہ وعدے کے مطابق اس کا انتظار کر رہے ہیں۔کیوں کہ ان کے دین میں ایفائے عہد کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس لیے وہ وعدہ کرنے کے بعد یہاں سے نہیں جاسکتے تھے۔ جان یہ سن کر گنگ ہوجاتاہے اوروہ اسلام سے متاثرہو نے لگتا ہے۔
اس کہانی میںا یفائے عہد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس حکم کی بجا آوری کے دوران صبر سے مدد لینا ہوگی جیسے کہانی کے مرکزی کردار صدیق بھائی نے کیا۔اس کہانی سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:۔
’’صدیق بھائی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔’’کیسے چلاجاتا،وعدہ تویہیں ٹھہرنے کا کیا تھا۔‘‘آپ ۔۔۔۔آپ نے۔۔۔آپ نے اتنی اہمیت دی مجھے۔‘‘جان ہکلا کر رہ گیا۔صدیق بھائی کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔’’شاید تمھیں اتنی اہمیت نہیں دی۔۔۔لیکن اپنے وعدے کوضرور اہمیت دی ہے۔۔شاید تمھارے علم میںنہیں ہو گا بھائی جان۔۔۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جو وعدہ کرو اسے پوراکرو۔‘‘(6)
کہانی نگار نے اس اقتباس میں کہانی کا مرکزی خیال سمودیا ہے۔یہ کہانی موضوع اور پیش کش کے لحاظ سے ایک شان دار کہانی ہے۔
(3) دوسرا کون تھا؟، رابعہ حسن:
یہ ایک اسلامی کہانی ہے۔اس کہانی میں آیت الکرسی کی فضیلت اور طاقت بیان کی گئی ہے۔ ایک دس سالہ لڑکا ناصر دادی کے گھر کھیلنے جاتا ہے اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ رات ہو جاتی ہے۔ رات کے وقت اپنے گھر جاتے ہوئے اسے خوف محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے پیچھے کوئی آ رہا ہو۔ تب اسے دادی جان کی بات یاد آتی ہے کہ ہمیں خوف کے وقت آیت الکرسی کا ورد کرنا چاہیے۔ تب ناصر آیت الکرسی پڑھتا ہے اور اس کے دل میں سکون سا اتر جاتا ہے۔ اس کہانی میں بچوں کی رہنمائی کی گئی ہے کہ انہیں کس حال میں بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔کہانی سادہ سی ہے لیکن اس میں پیش کیا گیا سبق بچوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کہانی میں جہاں کہانی نگار نے آیت الکرسی کی اہمیت کا ذکر کیا ہے وہ پیراگراف اس کہانی کی روح ہے،ملاحظہ کریں:۔
’’اور جب میں نے آیت الکرسی پڑھی تو وہ بھاگ کیوں گیا؟ اس نے معصومیت سے اپنے ذہن میںکلبلاتا ہوا سوال پوچھ ڈالا۔اس لیے کہ آیت الکرسی اللہ کا کلام ہے اور اس میں بہت طاقت ہے۔امی جان کے سمجھانے پر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔‘‘(7)
یہ کہانی بچوں کے اندر یقین کو اجاگر کرتی ہے جو شخصیت سازی کے لیے بہت ضروری ہے۔
(4)حکم، حفصہ فیصل :
یہ ایک حدیث کہانی ہے۔اس میں یتیم کے احکامات بتائے گئے ہیں۔بلال کے چچا اور چچی ایک حادثے میں جاں بحق ہو جاتے ہیں اور بلال کا چچازاد بھائی نعمان ان کے گھر آجاتاہے۔نعمان چونکہ ایک یتیم بچہ ہوتا ہے اس لیے بلال کے ابو اس کا بے حد خیال کرتے ہیں۔اس بات پہ بلال بہت آزردہ ہوتا ہے اور وہ نعمان کو اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے۔تب اس کے والد اسے ایک حدیث سناتے ہیں کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس جمی ہوئی تھی۔ایک صحابی پریشان حالت میں آئے اور پوچھا کہ حضرات ،میرا بچہ گم ہو گیا ہے،میں بہت پریشان ہوں۔ایک صحابی نے انہیں خبر دی کہ آپ کا بچہ باغ میں دیگربچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔وہ صحابی خوش ہو کر جانے لگے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رکو،اپنے بچے کودیکھ کربلند آواز سے میرا لال،میرا بیٹا کہہ کرنہ پکارنا، ہو سکتا ہے کہ کوئی یتیم بچہ یہ سن لے اور اسے اپنے مرحوم والدین یاد آ جائیں۔‘‘
یتیم کے بارے میں یہ احکامات سن کر بلال کا دل صاف ہو جاتا ہے اور وہ بھی اپنے چچازاد بھائی نعمان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔اس کہانی میں کہانی نگار نے ہمارے معاشرے کے ایک اہم مسئلہ کو موضوع بنایا ہے۔یتیم کے بارے میں کئی احادیث میں توجہ دلائی گئی ہے لیکن کہانی میں بیان کردہ حدیث مبارکہ تو یتیم کے حقوق کے بارے میں ہمیں مزیدمحتاط بناتی ہے۔اس کہانی کا آخری پیراگراف دیکھیں:
’’بیٹا نہ تو میری محبت میں کمی آئی ہے اور نہ توجہ میں۔اورآپ نے یتیم پر شفقت کرنے والے اور کفالت کرنے والے کے متعلق تو اللہ اور رسول کے فرمان سنے ہی ہیں۔ابو محبت سے بلال کو دیکھتے ہوئے بولے۔بلال کا سر ندامت سے جھکا ہوا تھا۔امی کی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔جب کہ دروازے کے پیچھے کھڑے نعمان کے دل سے اپنے تایا کے لیے دعائے خیر نکل رہی تھی۔‘‘(8)
(5)کرائے کا مکان، فرزانہ روحی اسلم:
یہ ایک اسلامی کہانی ہے۔اس کا عنوان قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم پیش کررہاہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے،اس دنیا میں انسان مسافر کی مانند ہے۔ یہ کہانی بھی اسی مرکزی خیال کو لیے ہوئے ہے۔آمنہ ایک غریب لڑکی ہے۔اس کا گھر خوب صورت نہیں ہے۔وہ ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتی ہے۔اسے اکثر اوقات ایسے خواب نظر آتے ہیں جن میں وہ بڑے باغات اور اونچے محلات میں گھوم رہی ہوتی ہے۔اس کی امی اسے سمجھاتی ہیں کہ اسے آخرت میں اس سے بہتر محلات ملیں گے۔یہ سن کر وہ اپنی کاپی میں لکھتی ہے:
’’نام۔ آمنہ
پتا ۔کرائے کا مکان
مستقل پتا ۔جنت‘‘
اس کہانی میں غریب و نادار طبقہ کی عکاسی بھی کی گئی ہے جو مال و دولت کی فراوانی سے محروم رہتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک بچی کے دل و دماغ پر آخرت کی لازوال نعمتوں کا یقین غالب آگیا اور پھر وہ اپنی کاپی پر بھی اس کے بارے میں لکھ ڈالتی ہے۔لیکن یہ کہانی سراسر نصیحت پر مبنی ہے۔یہ کہانی چھوٹی عمر کے بچوں کے پڑھنے لائق نہیں ہے کیوں کہ اس کے مطالعہ سے ان کے اندر جمود اور مایوسی آسکتی ہے،مثلا ایک پیراگراف دیکھیں:
’’اس گھر میں تم نے جو کچھ دیکھا،اس سے ہرگز متاثر نہ ہونا۔یہ سب مادی چیزیں ہیں،بے جان ہیں ،ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔ ۔اہمیت صرف انسان کی ہوتی ہے،اس کی خوبیوں کی،اس کی اچھائیوں کی،اس کے علم و ہنر کی،تعلیم وتربیت کی۔رہ گئے یہ سجے سجائے گھر،درودیوار،مکان،ساز وسامان،جوضروری نہیں ہے کہ سب کے پاس ہوں۔‘‘(9)
ظاہر ہے اس طرح کی کہانی ابتدائی بچوں کے لیے نہیں ہے۔ممکن ہے کہ وہ اس سے اثر لیں اور آگے بڑھنے اور محنت کے جذبے کو ترک کر ڈالیں۔اس لیے یہ کہانی ان بچوں کے لیے مفید ہوگی جو سمجھ دار ہوں اور جو اپنی غربت و ناداری سے پریشان ہوں۔مزید ایسے بچے بھی اس سے نصیحت لیں گے جو امارت کی حالت میں ہیں کہ ان کی یہ قیمتی چیزیں عارضی ہیں،لہذا ان پہ اترانا نہیں چاہیے۔

(6)اشارہ نہ کرنا، حفصہ فیصل :
یہ ایک حدیث کہانی ہے۔اس کہانی میں دو شرارتی بچے دکھائے گئے ہیں جو شرارتوں کے ذریعے گھر بھر کا سکون غارت کرتے ہیں۔ایک دن وہ آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں جس سے گھر کی چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں۔اس نقصان پہ ان کی امی کچن سے چھری لے کر آتی ہیں اور بچوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ میں تمہیں مار ڈالوں گی۔ایسے میں گھر کے بزرگ دادا جی اپنی بہو اور پوتوں کو بٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک سناتے ہیں کہ’’ مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان پہ چاقو یا چھری سے اشارہ کرے۔‘‘
یہ حدیث سن کر امی بے خود ہو کر رونے لگتی ہیں۔امی کو روتا دیکھ کر دونوں شرارتی بچے امی سے معافی مانگ لیتے ہیں اور شرارتوں سے باز آجاتے ہیں۔اس کہانی میں بچوں کے لیے سبق ہے کہ وہ حد سے زیادہ شرارتیں نہ کریں،اور اس میں بڑوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ غصے کو قابو میں رکھیں،کیوں کہ غصے میں شیطان انسان کا ہاتھ بن جاتا ہے اور وہ کوئی بھی غلط کام کرا سکتا ہے۔اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے وقت اطمینان سے بیٹھ جانے کا حکم دیا ہے۔اس کہانی کا ایک حصہ دیکھیں:
’’دیکھو بہو،میں نے کئی بار تمھیںایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن آج تمھارا غصہ دیکھ کر مجھے گمان ہوا کہ تم واقعی چھری پھینک دو گی؛حالانکہ تمھاری نیت انھیں ڈرانے ہی کی تھی،لیکن بیٹاڈرانے اور سزا دینے کے دوسرے بھی طریقے ہیں۔یہ طریقہ بعض اوقات زندگی بھر کا پچھتاوابن جاتا ہے۔‘‘(10)
(7)جانور اور انسان، راکب راجہ:
یہ ایک مذہبی کہانی ہے۔اس کہانی میں اخلاق حسنہ کی ترغیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں۔کہانی کچھ یوں ہے کہ جواد اپنے گاؤں میں رہتا ہے۔وہ اس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے کہ کچھ جانور آپس میں لڑتے ہیں جبکہ کچھ آپس میں ہنسی خوشی کھیل رہے ہوتے ہیں۔اس مشاہدہ کے بعد وہ اپنے والدین سے اس بار ے میں پوچھتا ہے۔تب وہ انہیں بتاتے ہیں کہ اچھائی کے بدلے اچھائی اور برائی کے بدلے برائی جانوروں جیسا طرزِ عمل ہے۔ہمیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا ہے کہ برائی کا بدلہ بھی اچھائی سے دیا جائے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑا کرکٹ ڈالنے والی بڑھیا کے ساتھ کیا،یا پھر وادی طائف میں اپنے اوپر پتھر برسانے والوں کے ساتھ کیا۔اس لیے ہمیں وسیع ظرف سے کام لینا چاہیے۔اس کہانی میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاق کا اعلیٰ درجہ بتایا گیا ہے۔کہانی کا ایک پیراگراف دیکھیے:
’’جواد ابو کی ساری باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا ،کیوں کہ وہ بھی ایسی ہی سوچ رکھتا تھا کہ جو کلاس فیلوز اس کے اچھے ہیں ،ان کے ساتھ وہ خوشی سے ہنستے ہوئے ملتا ہے، اورجو کلاس فیلوز اسے اچھے نہیںلگتے تھے، ہاتھ تو وہ انہیں بھی وہ ملا لیتا تھاپر منہ بناتے ہوئے،لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ واقعات سننے کے بعدجواد نے اپنے برے کلاس فیلوزسے بھی ہنسی خوشی سے ملنا شروع کردیا اور اخلاق سے پیش آنے لگا،جواد کے اس اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کے بری عادات رکھنے والے کلاس فیلوز بھی جواد کو چاہنے لگے۔‘‘(11)
(8)اچھا ارادہ، سیدہ شاہ بینہ شاہین:
یہ ایک اسلامی کہانی ہے۔اس کہانی میں نماز کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔کہانی میں دو کردار ہیں۔سعد اور اس کے دادا جی۔دادا سعد کو نماز پہ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔سعد کہتا ہے کہ میں آرہا ہوں لیکن وہ نماز پہ نہیں آتا۔دادا جان اس کے نہ آنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔اسی طرح اسکول میں بھی جب نماز کا وقفہ ہوتا تو سعد لائبریری میں جا کرمطالعہ شروع کر دیتا۔ایک دن وہ حسب سابق اپنے پسندیدہ شاعر علامہ اقبال کامطالعہ کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا دوست فاران آجاتاہے۔وہ اسے نماز پہ چلنے کی دعوت دیتا ہے۔سعد بتاتا ہے کہ اس نے سردی کی وجہ سے وضو ہی نہیں بنایا۔فاران اسے بتاتا ہے کہ تمہارے پسندیدہ شاعر علامہ اقبال نے کبھی نماز قضاء نہیں کی۔یہ سن کر سعد وعدہ کرتاہے کہ وہ آئندہ نماز قضاء نہیں کرے گا۔یہ کہانی کرداروں اور پلاٹ کے اعتبار سے کمزور کہانی ہے۔منطقی انجام بھی غیر مناسب اور جلد بازی پہ مبنی ہے۔نمازکے بارے میں کوئی آیت ،حدیث تو کجا علامہ اقبال کا کوئی شعر یا واقعہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔
(9) حی علی الفلاح،نذیر انبالوی:
اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جو اچھی نیت رکھتا ہے،وہ اچھی مراد پا لیتا ہے۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔گویا اس کہانی کا بنیادی تصور اسی حدیث سے لیا گیا ہے۔کہانی میں اگرچہ علامتی رنگ غالب ہے اور تمثیل کے پیرائے میں کہانی کو پیش کیا گیا ہے لیکن نتیجہ یہی نکالا گیا ہے کہ نیکی کی نیت کرلینے سے نیکی کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔کہانی میں ایک مائیک دوسرے مائیک پر اس لیے رشک کرتا ہے کہ وہ مسجد میں اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ اسے صرف گانے بجانے کی محافل میں استعمال کیا جاتا ہے۔جیسا کہ کہانی کا یہ پیراگراف دیکھئے:
’’میں آج بہت خوش ہوں۔یہ آواز سلور مائیک کی تھی۔’’میں جانتا ہوں کہ تم کیوں خوش ہو‘‘گرین مائیک بولا۔’’جو مائیک بھی محفل قراء ت ونعت میں جاتا ہے میری طرح خوش ہو کر واپس آتا ہے۔بہت خوب صورت محفل تھی۔‘‘سلور مائیک نے کہا۔’’آج تک مجھے ایسی
بابرکت محفل میںجانے کا موقع نہیں ملا۔نہ جانے کب ایسا ہوگا‘‘۔گولڈن مائیک نے آہ بھرتے ہوئے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔‘‘(12)
پھر ایک دن گولڈن مائیک کی قسمت جاگ جاتی ہے۔اس کی سچی آہیں رنگ لے آتی ہیں اور اسے مسجد سے اذان کی صدا بلند کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔اس کہانی میں آخری جملوں میں کہانی نگار اپنا مرکزی خیال یوں پیش کرتا ہے:
’’جب نیت اچھی ہو تو منزل مل جاتی ہے۔’’کاش‘‘تبھی حقیقت کا روپ دھارتا ہے جب نیت اچھی ہو۔نیتوں ہی سے مرادیںملتی ہیں۔‘‘
(10) سونے کا تاج، کاوش صدیقی:
یہ کہانی حفظ قرآن پاک کی ترغیب دے رہی ہے۔لیکن کہانی نگار نے اس پیغام کو ایک خوب صورت کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ کہانی ایک گائوں کی ہے جس کا نام محراب پور ہے۔وہاں اللہ بخش نامی ایک دیہاتی رہتا ہے۔وہ جب بھی زرگر کی دکان کے سامنے سے گزرتا ہے تو اسے شوکیس میں سجا سونے کا تاج بہت اچھا لگتا ہے لیکن وہ ایک غریب ہے،اس کے اندر تاج خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ایک دن اللہ بخش کھیتوں میں پانی لگا رہا تھا کہ اسے سانپ نے ڈس لیا۔گائوں میں مناسب طبی امداد نہ ہونے کے باعث اللہ بخش اللہ کو پیارا ہو گیا۔اللہ بخش کا ایک بیٹا رسول بخش تھا۔اسے حفظ قرآن کا شوق ہو گیا۔اس نے گائوں کے قاری صاحب سے پڑھنا شروع کر دیااور پھر ایک دن وہ حافظ بن جاتا ہے۔اسی رت وہ خواب میں اپنے والد کو سونے کا تاج پہنے دیکھتا ہے۔کہانی میں یہ منظریوں بیان کیا گیا ہے،پڑھئے:
’’یہ کیا ہورہا ہے۔میرے ابا کو تاج کس لیے پہنایا جا رہا ہے؟تمھیں نہیں معلوم؟اس شخص نے حیرت سے کہا۔تمھارے ابا کوتاج تمھاری وجہ سے پہنایا جا رہا ہے لیکن کیوں؟رسول بخش نے حیران ہوکے پوچھا۔میں نے ایسا کیا کیاہے؟تم نے قرآن مجیدحفظ کیا ہے اور جس بچے نے قرآن مجیدحفظ کیا ہوتا ہے،اللہ تعالی اس کے والدین کوبلند مرتبہ عطا کرتے ہیں۔اس کو تاج عطا کرتے ہیں۔وہ یہ کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔‘‘(13)
یہ کہانی جہاں غریبوں کے مسائل کو اجاگر کر رہی ہے،وہیں اس کہانی میں بچوں کو قرآن مجیدحفظ کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔یہ ایک اچھی کہانی ہے۔
(11) اخلاص کی دولت، حفصہ فیصل:
یہ ایک حدیث کہانی ہے۔اس کہانی میںاخلاص کے بارے میںایک حدیث پیش کی گئی ہے۔کہانی میں دو دوست دکھائے گئے ہیں ۔ایک کا نام اکمل ہے جو کہ موچی ہے جب کہ دوسرے کانام صابر ہے جو کہ بڑھئی ہے۔اکمل کا کام نہیں چل رہا ہوتا تو وہ سوچتا ہے کہ میں بڑھئی کا کام سیکھ لوںلہذا وہ اپنے دوست صابر ے پاس کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اسے بڑھئی کا کام سکھا سکے۔صابر اس کا مذاق اڑاتا ہے اور اکمل بے چارہ اداس ہوکر گھر چلا جاتا ہے۔اکمل کی ماں اسے اخلاص سے کام کرنے کی تلقیں کرتی ہیں۔اکمل اخلاص نیت سے کام شروع کر دیتا ہے اور ایک دن اس کی بہت بڑی دکان ہوتی ہے۔ایک عرصے بعد اس کی ملاقات اپنے پرانے دوست صابر سے ہوتی ہے،صابر اس کی ترقی دیکھ کر کہتا ہے:
’’ہاں! !میرے دوست یہ تمھاری نیت کا ہی انعام ہے ،کیوں کہ میں نے چند دن پہلے ہی امام صاحب کے خطبے میں یہ حدیث نبوی ﷺ سنی تھی کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:اخلاص والوں کے لیے خوش خبری ہو کہ وہ اندھیرے میں چراغ ہیں،ان کی وجہ سے سخت فتنے دور ہو جاتے ہیں۔اور آج تم اس حدیث کی عملی تفسیر نظر آرہے ہو۔‘‘(14)
یہ کہانی لگن کے ساتھ کام کرنے کی اہمیت بھی واضح کررہی ہے کہ اگر کوئی کام مستقل مزاجی سے کیا جائے تو کامیابی قدم چومتی ہے،جیسے اکمل نے مستقل مزاجی سے کام کیا تو اس نے کاروبار میں ترقی حاصل کر لی۔
(12)گم شدہ ڈائری،نذیرانبالوی:
’’گم شدہ ڈائری‘‘ ایک اسلامی کہانی ہے جس میں جھوٹ کی مذمّت کی گئی ہے اور فکر آخرت کا درس دیا گیا ہے۔یہ کہانی نذیر انبالوی کی لکھی ہوئی ہے۔کہانی یوں ہے کہ حمزہ ایک امیر گھرانے کا لڑکا ہے۔ایک دن اس کی ذاتی ڈائری گم ہو گئی۔اس نے ڈائری کی چوری کا الزام گھریلو ملازم رحمت بابا پہ لگا دیا۔حمزہ نے کہا کہ انہوں نے ڈائری ردی کے ساتھ بیچ دی ہے۔اس بات کی تصدیق کے لیے وہ سب ردی والے سے ملتے ہیں لیکن ڈائری نہیں ملتی۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ در اصل وہ ڈائری تو دادا جان کے ہتھے لگ جاتی ہے اور دادا جان اس میں اپنے پوتے کی کارستانیاں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔اس میں حمزہ کی شرارتیں پڑھ کرداداجان اسے بلاتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’یہ لو اپنی ڈائری پڑھو۔‘‘
ڈائری کے اس صفحے پر حمزہ کی شرارت درج ہوتی ہے جس میں اس نے جھوٹ بول کر ہم مکتب دوست کو سزا دلوائی تھی۔یہ پڑھ کر حمزہ کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔دادا جان کہتے ہیں تم ڈائری کے لیے فکر مند تھے کہ کہیں یہ کوئی پڑھ نہ لے،کیوں کہ اس میں تمہاری ایسی باتیں درج ہیںجو تمہارے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔دادا جان اسے سمجھاتے ہیں کہ تم یہ ڈائری تو چھپا لو گے لیکن اعمال نامہ کی ڈائری کیسے چھپاؤ گے ؟؟اعمال نامہ کی ڈائری تو گم نہیں ہو سکتی۔سوچو اس دن اپنی ڈائری پڑھ کر تمہیں سر جھکانا پڑا تو کیا ہوگا؟اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’دادا جان نے سارا قصہ جان کر کہا:’’یہ ڈائری جو تم لکھ رہے ہو،یہ توگم بھی ہو سکتی ہے مگر ایک ڈائری اور لکھی جارہی ہے،جوکبھی گم نہیں ہو سکتی،تم کوشش کرو، جب وہ ڈائری تمھارے سامنے ہوتو تمھیں اس ڈائری کی طرح شرمندگی اٹھانا نہ پڑے‘‘۔’’وہ ڈائری کون سی ہے ؟‘‘حمزہ نے آنسوپونچھتے ہوئے پوچھا۔دادا جان نے کہا:اس ڈائری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ ق میںکرتے ہوئے کہاہے:’’اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا، اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم انھیں جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ و جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔جب (وہ کوئی کام کرتاہے)تو دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں لکھ لیتے ہیں۔‘‘(15)
یوں اس کہانی کے ذریعے مصنف نے فکر آخرت کا سبق پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ مزید اسباق یہ ہیں:
٭ اچھے اعمال کی تلقین
٭ کسی پہ بلاوجہ شک نہ کیا جائے
2۔سہ ماہی ادبیات اطفال کی اخلاقی واصلاحی کہانیاں:
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہزاروں مخلوقات پیدا کیں اور انہیں تمام سہولیات عطا کیں۔پانی ،ہوا،خوراک اور دیگر ضروریات وافر مقدار میں موجود ہیں۔یہ سہولیات تمام مخلوقات کو میسر ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف بنایا ہے۔انسان کو عقل و شعور سے نواز کر اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھ دیا گیا۔انسان اور دیگر جان داروں میں وجہ امتیازعقل اور اخلاقی اقدار ہیں۔انسان کی اخلاقی اقدار اسے روحانی طاقتیں عطا کرتی ہیں جن سے دیگر مخلوقات محروم ہیں۔دیگر مخلوقات صرف جسمانی طاقتوں کی حامل ہیں،ان کے پاس روحانی طاقتیں ناپید ہیں لیکن انسان جسمانی اور روحانی دونوں طاقتیں رکھتاہے۔
دنیا میں جتنے مذاہب موجود ہیں ان سب میں اخلاقی اقدار کا درس دیا گیا ہے بلکہ اخلاقیات تمام مذاہب میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لیے ہر مذہب نے اخلاقی اقدار پہ زور دیا ہے۔اسلام میں بھی اخلاقیات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘
اخلاق سے کیا مراد ہے۔اہل فلاسفہ نے اس پر طویل مباحث سپرد قلم کیے ہیں۔ہم یہاں اس بارے میں مختصر طور پر پڑھیں گے۔سب سے پہلے اخلاق کے لغوی معانی دیکھتے ہیں۔فیروزاللغات میں لفظ اخلاق کے ذیل میں درج ہے:
’’اخلاق:خلق کی جمع(1)پسندیدہ عادتیں۔اچھی خصلتیں(2)خوش خوئی۔اچھابرتاؤ۔ملنساری۔کشاد ہ پیشانی۔خاطرمدارات۔آئو بھگت۔ (3)(فلسفہ)وہ علم جس میں تہذیب نفس اور سیاست مدن پر بحث کی جاتی ہے۔علم الاخلاق۔اخلاقیات۔‘‘(16)
اخلاقیات کے بار ے میں کتاب’’ بچوں کا اسلامی انسائیکلوپیڈیا‘‘ میں لکھا ہے:۔
’’وہ اچھے کام جو بار بار کیے جائیں اور خوب صورت عادتیں بن جائیں،ان کو اخلاق کہتے ہیں۔اس کا واحد خلق ہے۔یہ واحد تمام اخلاق کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔اسلام اپنے پیروکاروں کو عمدہ اخلاق ا ختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’اور بے شک آپ خلق عظیم پر (کاربند) ہیں۔‘‘(17)
اس اقتباس سے ہمیں اخلاق کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ یہ زندگی گزارنے کا ضابطہ ہے اور اس کے بغیر اجتماعی زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ایک کامیاب انسان کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہونا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں اور اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔کیوں کہ بچوں کے لیے جہاں اچھا لباس اور اچھی خوراک اہم ہوتی ہے وہیں بچوں کا اچھے اخلاق سے متصف ہونا بھی ضروری ہے۔بچوں کی اخلاقی تربیت میں اخلاقی و اصلاحی کہانیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔
اسلامی کہانیوں اور اخلاقی کہانیوں میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔اگر کہانی میں اچھے اخلاق کی تعلیم قرآن،حدیث اور اسلامی آثار کی روشنی میں دی گئی ہو تو اسے اسلامی کہانی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا اور اگر صرف اچھے اخلاق کی تعلیم دی جائے،اور اس میں اسلامی حوالہ جات شامل نہ ہوں تو اسے اصلاحی و اخلاقی کہانیوں میں شمار کریں گے۔اخلاقی کہانیوں میں عام طور پر درج ذیل موضوعات پر کہانیاں ملتی ہیں:
بہادری،سچائی،امانت ،دیانت ،ایثار،حب الوطنی،شکر،سخاوت،خوش گفتاری،حسن کردار،صفائی،محنت ،اطاعت والدین،ہمت ،انسان دوستی، احترام،انصاف پسندی،امن پسندی وغیرہ۔
سہ ماہی ادبیات اطفال میں بہت سی اصلاحی و اخلاقی کہانیاں موجود ہیں۔اب ہم ان کہانیوں کا موضوعاتی جائزہ لیں گے۔سب سے پہلے ہم حب الوطنی کے اخلاقی سبق پہ مشتمل کہانی ’’دوستی یا دشمنی ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ کہانی ڈاکٹر افتخار کھوکھر صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔یہ ایک اخلاقی کہانی ہے۔اس کہانی میں بچپن کے دو دوست ریحان اور فاروق دکھائے گئے ہیں۔یہ دوست ایک عرصے سے بچھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اب ان کی ملاقات ایک ورکشاپ پہ ہوتی ہے۔ان میں سے ایک دوست فاروق نامی امیر ہوتا ہے جبکہ دوسرا ریحان غریب ہوتا ہے۔امیر دوست غریب کی غربت پہ اظہار افسوس کرتا ہے اور اسے اپنا ایڈریس دے کر ملنے کا کہتا ہے۔ شام کو غریب دوست اس کی عالیشان کوٹھی پہ ملنے پہنچتا ہے تو دوران ملاقات امیر دوست اسے ایک پیشکش کرتا ہے، جسے قبول کرنے کی صورت میں وہ مالا مال ہو جاتا۔پیشکش یہ ہوتی ہے کہ ملک دشمن جاسوس بن جاؤ تو پیسے ملیں گے۔غریب دوست وطن فروش نہیں ہوتا ہے لہٰذا وہ یہ پیشکش ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور اس امیر غدار دوست کی اطلاع پولیس کو دے کر اسے گرفتار کرا دیتا ہے۔
اس کہانی میں درج ذیل اخلاقی اسباق ہیں:
(1): وطن سے محبت
(2): ایمان داری
(3): مادیت سے اجتناب
اس طرح کی ایک اور کہانی ’’تعمیر وطن‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔یہ کہانی شیخ فرید نے لکھی ہے اس کہانی میں بھی حب الوطنی کا مرکزی خیال اجاگر کیا گیا ہے۔یہ کہانی ایک بچے کی وطن سے محبت کی مثال دے رہی ہے۔کہانی میں یہ سبق پیش کیا گیا اگر انسان محنت اور لگن سے کام کرے تو ہر ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔کہانی میں ایک پرانے خستہ حال سکول کا ذکر ہے جہاں ایک بچے میاں محمد کی آمد ہوتی ہے۔وہ سکول کی بدحالی دیکھ کر اسے ٹھیک کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور چپکے چپکے سے سکول کی دیکھ بھال شروع کر دیتا ہے۔وہ چھٹی کے بعد اسکول کی ٹوٹی ہوئی چیزیں مرمت کرنا شروع کر دیتا ہے۔یوں ٹوٹے ہوئے پنکھے، بینچ، اساتذہ کی کرسیاں اور دیگر اشیاء ٹھیک ہونے لگتی ہیں۔ اسکول کے پرنسپل کو شبہ ہو جاتا ہے کہ کوئی نیک بچہ ہی ایسا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔پھر ایک دن پرنسپل صاحب اسے دیکھ لیتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:
’’تب پرنسپل نے نہایت پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ہاں تم دیوار بنا رہے ہو۔’’جج جج جی سر۔‘‘،’’میاں محمد تم دیوار نہیں بلکہ تعمیر وطن کاکام کر رہے ہو‘‘،پھر انہوں نے میاںمحمد کے ہاتھ سے کدال لیتے ہوئے کہاتم دیوار پر اینٹیں رکھتے جاؤ، میں تمھیں مٹی دیے جاؤں گا۔’’جی آپ؟‘‘ ۔میاں محمد حیران ہونے لگا۔ہاں میں۔میں بھی تعمیر وطن میں حصہ دار بننا چاہتا ہوں۔پھر بڑے پیار سے بولے میاں محمد اگر میرے وطن کا ہر بچہ میاں محمد بن جائے تومیرے ملک کا کونا کونا سنور جائے۔کاش کاش ایسا ہو۔‘‘(18)
اس کہانی میں اسکول کی مثال دے کر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ہم وطن کی تعمیر کے لیے کمر کس لیں اور خلوص نیت سے کام شروع کریں تو وطن کو بھی سنوارا جا سکتا ہے۔
اسی طرح وطن سے محبت کو اجاگر کرتی ایک اور کہانی ’’یا اللہ پاکستان کی خیر ہو‘‘ہے۔اسے شیخ فرید نے لکھا ہے۔اس کہانی میں بھی ارض پاک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ہم ہر سال جشن آزادی مناتے ہیں۔ہم سب کا اعتقاد ہے کہ ہمیں یہ پیارا ملک اللہ تعالیٰ نے بطور انعام دیا ہے۔کہانی نگار ہماری توجہ اسی طرف کر رہا ہے کہ ہم اپنے وطن کے لیے دعائیں بھی کیا کریں۔کہانی میں گل محمد نامی محب وطن آدمی جب اپنے دوستوں کو جشن آزادی کی خبر دیتا ہے تو وہ بہت ہنستے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کے مطابق یہ خبر تو سب کو معلوم ہے۔گل محمد انہیں بتاتا ہے کہ میرا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کل یوم آزادی کے موقع پر گھروں میں نوافل اداکریں اور ملک عزیز کے لیے ڈھیروں دعائیں کریں۔یہ ایک مختصر سی کہانی ہے۔اس کہانی میں پیش کیا گیا پیغام ہر سچے پاکستانی کی دل کی آواز ہے۔
وطن کی اہمیت اجاگر کرتی ایک اور کہانی ’’چھوٹی سی بھول ہے‘‘۔اس کہانی میں دو بھائی دکھائے گئے ہیں جن میں سے ایک پاکستان کے قیام کا حامی نہیں ہے اور وہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان ہی رہ جاتاہے۔اسے ہندوستان میں رہنے پہ فخر ہوتا ہے اور وہ خود کو سچا ہندوستانی کہلاتا ہے۔لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ غلط تھا۔اس کے محلے دار اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اس کے بیٹے کو اسکول میں ہندو مارتے پیٹتے ہیں کہ تم مسلمان ہو اور آخر کار اسے پاکستان کا جاسوس قرار دے کر مار دیا جاتاہے۔اس المیاتی کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جب تفتیش کار اس سے پوچھ گچھ کرتے ہیں:
’’محلے داروں کو شبہ ہے کہ تم جاسوس ہو۔’’یہ جھوٹ ہے،الزام ہے،میں سچا ہندوستانی ہوں‘‘۔میں نے سخت لہجے میں جواب دیا۔’’کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ تم مسلمان ہو اور تمھارے والد انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے؟‘‘اس نے پوچھا۔’’یہ درست ہے۔‘‘ کیا یہ بھی درست ہے کہ تمھارا بھائی آج کل پاکستان میں ہے ؟’’جی ہاں یہ بھی درست ہے۔‘‘تو اور کیا ثبوت چاہتے ہو اپنے جاسوس ہونے کا۔تمھارا بھائی سرحد پار بیٹھ کر تمھارے ذریعے سے اہم معلومات حاصل کرسکتا ہے،یہاں تخریب کاری کرا سکتا ہے۔‘‘(19)
اس کہانی میں کہانی نگار نے یہ سبق پیش کیا ہے کہ ہمیں پاکستان کی قدر کرنی چاہیے۔اگر یہ ملک نہ بنا ہوتا تو پتہ نہیں ہم کس حال میں ہوتے۔ یہ کہانی پاکستان سے محبت کے جذبات کو اجاگر کرتی ایک خوبصورت کہانی ہے۔
وطن کی تعمیر وترقی ایک سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔اس نوع کی ایک اور کہانی’’ پاکستان تو میرا ہے‘‘ہے۔ یہ کہانی بابائے ادب اطفال پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی نے لکھی ہے۔ اس کہانی میں مرکزی کردار دو چھوٹے بچے سعد اور حسن ادا کر رہے ہیں۔سعد چھوٹا ہے اور حسن بڑا۔ دونوں پوتے اپنے دادا جی سے خوب نوک جھونک کرتے ہیں اور ہنستے کھیلتے ہیں۔اچانک گلی میں گٹر کے ابلنے سے پانی نکلتا ہے اور چہار سو بو پھیل جاتی ہے اور راستہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔دونوں ننھے بچے کہتے ہیں کہ دادا جی پاکستان تو ہمارا گھر ہے اور اگر یہ گندگی ہٹا کر اس راستے کو صاف نہ کیا گیا تو ہمارا گھر کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو گا لہٰذا ہمی جلد از جلد اسے ٹھیک کرنا چاہیے۔معصوم بچوں کے یہ جذبات سن کر دادا جان اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ ان کے پوتے محب وطن ہیں۔اس کہانی میں بہت سارے اخلاقی اسباق ہیں جیسے
(1)حب الوطنی
(2)ملک کا خیال گھر کی طرح
(3)نیک نیتی
(4)صفائی پسندی
حب الوطنی کے اخلاقی سبق سے معمور ایک اورکہانی’’ سنہری کرن‘‘ ہے جسے عبدالصمد نے لکھا ہے۔یہ ایک علامتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں حب الوطنی، اتفاق، اخوت اور ایثار کے اصلاحی اسباق پوشیدہ ہیں۔کہانی میں ملک پاکستان کو ایک ہسپتال سے تشبیہ دی گئی ہے اور چاروں صوبوں کو ہسپتال کے وارڈز سے تعبیر دی گئی ہے۔ایک زخمی کو جو کہ پنجابی ہوتا ہے، ہسپتال کے دیگر وارڈز میں جگہ نہیں ملتی کیوں کہ وہ پنجابی ہوتا ہے۔ایک نوجوان اس زخمی کو باری باری سندھ، خیبر اور بلوچستان وارڈز میں لے جاتا ہے مگر وہ اس مریض کو لینے سے انکار کر دیتے ہیں تب وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں ایمان ہوں۔اگر تم اتحاد و اتفاق سے نہیں رہو گے تو تمہارا ایمان تم سے روٹھ کر دور چلا جائے گا۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’نوجوان نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور کہا ’’خدا کے لیے تم لوگ اب اپنے مریض کا علاج کرو،جو مررہا ہے۔اس کی سانسیں ختم ہورہی ہیں۔یہ خطرناک حالت میں ہے۔خدا کے لیے تم لوگ ہی مسیحائی کرو۔اس پاک ہسپتال کی آبرو بچا لو۔یہ ہسپتال لاچار اور غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہی بنایا گیا تھا مگر یہاں تعصب کا ڈیرا ہے۔تم سب ایک ہو مگر ایک دوسرے کے خلاف ہو۔اس غلطی کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی‘‘۔نوجوان جذباتی انداز میں گڑگڑا رہا تھا۔‘‘(20)
یہ کہانی صوبہ اور علاقہ پرستی کے بجائے وطن پرستی کا سبق پیش کر رہی ہے۔
وطن سے وابستہ ایک اور کہانی’’ سوہنی دھرتی‘‘ ہے۔یہ ایک المیاتی کہانی ہے۔یہ مزمل صدیقی کی ادبی کہانی ہے۔اس کہانی میں ایک ادیب کا ذکر ہے جو ایک ریڈیو پہ کلام اقبال کی ریکارڈنگ کے لیے جاتا ہے مگر ریڈیو والے اسے ملازمت سے فارغ کر دیتے ہیں کیوں کہ ان کے مطابق اب کوئی آدمی کلام اقبال نہیں سنتا۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخی کتاب لکھنے والے ادیب کی کتاب نہیں بکتی۔یہ کہانی المیہ ہے کہ ہماری حب الوطنی رفتہ رفتہ مٹتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں پاکستان،اور اس کے بانی بزرگ بھولتے جا رہے ہیں۔وہ بانیان پاکستان جن کی شبانہ روز کوششوں سے ملک بنا،ان کی شاعری میں لوگوں کی دل چسپی کم ہوتی جارہی ہے۔کہانی نگار نے اس پیرے میں کہانی کا مرکزی خیال پیش کیا ہے:
’’کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس جذبے سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھااگر اسی جذبے سے اس کی تعمیر کرتے تو آج سوہنی دھرتی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔‘‘(21)
اس کہانی میں المیہ دکھایا گیا ہے کہ ہم سوہنی دھرتی سے دور ہو رہے ہیں۔آج ہم اپنے اسلاف اور اپنی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
’’حب الوطنی‘‘ کے موضوع کے بعد ہم سہ ماہی ادبیات اطفال کی وہ کہانیاں دیکھتے ہیں جن میں بہادری کا اخلاقی سبق پیش کیا گیا ہے۔اس سلسلے کی پہلی کہانی ’’سلام! بہادر چن ژی‘‘ ہے۔یہ کہانی چینی لوک کہانی ہے۔اس کہانی میں ایک سپاہی چن ژی کی فرض شناسی اور بہادری کا واقعہ پیش کیا گیا ہے۔ چن ژی کا تعلق ثیانگ زی گاؤں سے ہے۔ثیانگ زی ایک ایسا گاؤں ہے جو دو دریاؤں کے بیچ واقع ہے۔ایک سال تیز بارشوں کی وجہ سے وہاں سیلاب آ جاتا ہے۔حکام وہاں کے لوگوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے فوج بھیجتی ہے۔
چن ژی بھی اس امدادی دستے میں شامل ہے۔وہ ایک کشتی میں بائیس بچوں کو بٹھاتے ہیں۔ان میں چن ژی کی اکلوتی بیٹی بھی شامل ہوتی ہے مگر چن ژی نے نہ تو اسے کوئی اہمیت دی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی جذباتی انداز اپنایا۔کشتی بائیس بچوں کو لے کر چلی تو اچانک پانی کا ایک ریلہ آیا اور کشتی الٹ گئی۔بچے ڈوبنے لگے اور چن ژی انہیں بچانے کے لیے کوششیں کرنے لگا۔اسے اگرچہ اپنی بیٹی کا خیال بھی آیا لیکن اس نے سب بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا اور بلاتفریق بچوں کو نکالنے لگا۔اس دوران اسے اپنی بیٹی کو تلاش کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ یوںشومئی قسمت سے اس کی بچی ڈوب کر مر جاتی ہے۔لوگ چن ژی کی غیر جانبداری، بہادری، بے لوثی اور مساوات سے بہت خوش ہوتے ہیں۔
اس طرح کی ایک اور کہانی محافظ ہے ۔اس میں بھی بہادری کا درس دیا گیا ہے۔اسے عرفان رامے نے لکھا ہے۔یہ ایک مہماتی کہانی ہے۔اس کہانی میں میجر فاخر مرکزی کردار ہے جو اپنی بیٹی کی سالگرہ کی تقریب کو چھوڑ کر ایک آپریشن میں حصہ لیتا ہے اور ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرتاہے۔اس دوران وہ دشمنوں کے ہاتھوں اغوا ہو جاتاہے لیکن موقع ملنے پر وہ ان کے چنگل سے آزاد ہو جاتاہے۔وہ چونکہ شدید زخمی ہوتا ہے ،اس لیے اس کا علاج معالجہ ہوتا ہے۔آپریشن کے نتیجے میں اس کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑتی ہے اور وہ مصنوعی ٹانگ کے سہارے زندگی گذارتا ہے۔اسے اپنے وجود پہ فخر ہوتا ہے جو دھرتی کے کام آتا ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’کئی ماہ ہسپتال میں گزارنے کے بعد میجر فاخر مصنوعی ٹانگ کے سہارے چلتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلے تو بہت سے افسر اور جوان وہاں موجود تھے۔ ان استقبال کرنے والوں میں میجر فاخرکی بیٹی فاطمہ بھی تھی، جو ہاتھ میں پکڑا ہوا چھوٹا سا سبز ہلالی پرچم لہرا کر اپنے جاں باز والد کی عظمت کو سلام پیش کررہی تھی۔اس وقت میجر فاخر کی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ تھی مگر چہرے پر فخر اور اعتماد سے صاف ظاہر ہورہا تھاکہ یہ معذوری ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں،جوانہیں ملک دشمنوں سے لڑتے ہوئے ملی تھی۔‘‘(22)
یہ کہانی بچوں کے دلوں میں بہادری پیدا کرتی ہے۔اس سے ملتی جلتی ایک اور کہانی’’ صف شکن‘‘ ہے۔اسے الطاف حسین نے لکھا ہے۔اس میں بھی ایک فوجی جوان کی بہادری اورمہم جوئی پیش کی گئی ہے۔ اس کہانی میں پاک فوج کے ایک جوان کی بہادری کو بیان کیا گیا ہے۔ایک فوجی جوان جنگ کے دوران اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ بہت زخمی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ میں آخری گولی اور آخری سانس تک لڑوں گا۔ نرسنگ سٹاف اسے علاج معالجہ کے لیے پیچھے لے جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ بدستور آگے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔
اس کے بعدمیڈیکل سٹاف اسے واپس علاج معالجے کے لئے لے کر آتا ہے۔ تندرست ہونے کے بعد وہ دوبارہ اپنے پلٹون کے ساتھ ملتا ہے اور بہادری کی ایک مثال قائم کر دیتا ہے۔ جب آخر میں اسے دشمن کی کئی گولیاں لگتی ہیں اور اس کی روح پرواز کر رہی ہوتی ہے تو تب بھی وہ اپنے’’ آخری گولی اور آخری سانس ‘‘کے وعدے کو پورا کرتاہے۔اس کہانی میں بچوں کو بہادری اور حوصلے کا سبق دیا گیا ہے۔اس کہانی میں یہ بتایا گیا ہے کہ وطن کی حفاظت کرنے والے کس قدر بہادر ہوتے ہیں اور وہ شجاعت و بہادری سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
سہ ماہی ادبیات اطفال میں بہادری کے اخلاقی سبق کو اُجاگر کرتی ایک اور کہانی ہے ۔کہانی کا عنوان’’ حسن کی بہادری‘‘ ہے۔ حسن ایک چرواہا ہے۔وہ بکریاں چرا رہا ہوتا ہے کہ اسے ریل کی پٹڑی اکھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔یہ دیکھ کر وہ ڈر جاتا ہے کہ اگر ریل گاڑی آگئی تو پٹڑی کے ٹوٹنے کی وجہ سے خطرناک حادثہ پیش آجائے گا۔ادھر ریل گاڑی کے آنے کی آوازآنے لگتی ہے۔حسن کے ذہن میں ایک ترکیب آتی ہے۔تب وہ تیزی سے دوڑتا ہے۔اوراپنی جان پر کھیل کر ریل گاڑی کو حادثہ سے بچاتا ہے۔
بہادری کے اخلاقی سبق پر مشتمل ایک اور منفرد کہانی’’ معصوم عزم‘‘ ہے۔اسے ڈاکٹر اسلم فرخی نے پیش کیا ہے۔یہ ملک افریقہ کی کہانی ہے۔اس کہانی میں دو دوستوں کی مہم جوئی اور بہادری دکھائی گئی ہے جو اپنے چچا کی سائیکل تلاش کررہے ہوتے ہیں۔کہانی یوں ہے کہ می سی پو کے چچا اپنی سائیکل پر قلفیاں بیچتے ہیں۔ایک دن می سی پو کے دوست سی پو نے کہا کہ ایک دن ہم تمہارے چچا کی سائیکل پر سواری کرکے لطف اندوز ہوں گے۔می سی پو نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا کہ میں اپنے چچا سے اس بار ے میں ضرور بات کروں گا۔اسی شام می سی پو نے چچا سے اجازت مانگی تو انہوں نے تھوڑی سی پس وپیش کے بعد اجازت دے دی۔
اگلے روز وہ چچا کے ہمراہ قلفیاں بیچنے کی مہم پر نکل پڑے۔چچا نے بہت سی جگہوں پر رک کر قلفیاں بیچیں۔جب ساری قلفیاں بک گئیں تو وہ واپسی کے لیے چل پڑے۔راستے میں ایک جگہ می سی پو کا چچا سٹور سے ضروری اشیاء لینے گیا اور سائیکل لڑکوں کو سونپ گیا۔لڑکے ادھر اُدھر چیزیں دیکھنے لگے اور اسی اثناء میں ایک چور نے سائیکل چرا لی۔جب لڑکوں نے سائیکل گم پائی تو ان کی سٹی گم ہو گئی۔اس دل چسپ کہانی کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں :
’’سائیکل یہاں تو نہیں ہے۔می سی پو کا دل بیٹھ گیا۔دونوں دوست چاروں طرف دیکھنے لگے۔ادھر اُدھر دوڑے۔سائیکل جہاں کھڑی تھی ۔اس جگہ کو غور سے دیکھا۔ہر طرف ڈھونڈا،مگر سائیکل ہو تو نظر آئے۔‘‘(23)
ادھر چچا سٹور سے واپس آئے تو سائیکل غائب تھی۔اب وہ تھانے رپورٹ درج کرانے گئے مگر پولیس نے کوئی حوصلہ افزا بات نہ کی۔کئی دن تک سائیکل کا کوئی سراغ نہ ملا۔دونوں دوست بہت پریشان تھے کیوں کہ ان کی لاپروائی سے سائیکل چوری ہوئی تھی۔ایک دن سی پو نے ایک آدمی کو وہی سائیکل چلاتے دیکھا۔اس نے اس کے گھر تک اس کا تعاقب کیا۔ پھر اس نے سارا ماجرا می سی پو کو بتایا۔دونوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر اپنی سائیکل واپس لی اور جب سائیکل بازیاب ہو گئی تو پولیس نے چور کو گرفتار کر لیا۔
بہادری کے موضوع پر ایک اور کہانی’’ چچا شکاری‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔اس کہانی میں ایک بہادر اور مارشل آرٹس جاننے والے بچے کی کہانی ہے جو ظالم چچا شکاری نامی آدمی کو چاروں شانے چت کردیتا ہے۔چچا شکاری مار کھانے کے بعد علاقہ چھوڑ دیتا ہے اور علاقے بھر کے لوگ اس کے مظالم سے نجات پا جاتے ہیں۔اس کے علاوہ سہ ماہی ادبیات اطفال میں دیگر موضوعات پر بھی اخلاقی کہانیاں موجود ہیں۔
ایک اور اخلاقی کہانی شجر کاری کے فوائد اوراطاعت والدین کے موضوع پر ہے ۔کہانی کا عنوان محسن ہے۔یہ علی اکمل تصور کی لکھی ہوئی کہانی ہے۔اس کہانی میں بڑوں کی نصیحت نہ ماننے کا نقصان بتایا گیا ہے۔ جمالی ایک غریب لکڑ ہارا ہے، اس کا باپ بیمار ہے،لہذا لکڑیاں کاٹنے کی ذمہ داری اسی پہ آ پڑتی ہے۔وہ اکیلا جنگل روانہ ہونے لگتا ہے تو باپ اسے تین نصیحتیں کرتا ہے۔پہلی یہ کہ بیٹے ہوش سے چلنا جوش سے نہیں،دوسری یہ کہ پرندوں کے شور مچانے پہ چھپ جانا کیوں کہ یہ خطرے کی علامت ہوتی ہے تیسری یہ کہ خشک درخت کاٹنا سبز نہیں۔جمالی جنگل میں تو پہنچ گیا مگر اس نے اپنے باپ کی نصیحتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں۔ندی کنارے ہی ایک سر سبز درخت لہلہا رہا تھا۔جمالی نے اس درخت کو کاٹنا شروع کر دیا۔
وہ درخت کاٹ رہا تھا کہ پرندوں نے شور مچایا۔لیکن وہ پرندوں کے شور پہ بھی نہ چونکا اور اپنے کام میں لگا رہا۔اچانک اسے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔وہ فوراً درخت پر چڑھ گیا۔شیر درخت کے نیچے آ کر غرا رہا تھا۔اسی اثناء میں اسے اپنی کمر پہ سانپ کی پھنکار سنائی دی۔اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک سانپ منہ کھولے بیٹھا تھا۔چونکہ وہ درخت ندی کے کنارے تھا اس لیے جمالی نے سوچا کہ نیچے ندی میں چھلانگ لگا دیتا ہوں لیکن وہ یہ دیکھ کر ساکت رہ گیا کہ ندی میں مگرمچھ تیر رہا تھا۔اس کے حواس کھو کر رہ گئے۔وہ ہر طرف سے پھنس چکا تھا۔اچانک اسے اپنے باپ کی نصیحت یاد آئی کہ ہوش سے کام لینا ہے۔اس نے ہوش سے کام لیا اور ایک لکڑی کی مدد سے سانپ کو مگرمچھ پہ گرادیا۔اس کے بعد وہ خود بھی ندی میں کود گیا۔ندی میں تیرتے ہوئے اسے ایک درخت کا تنا ملا۔وہ اس تنے پر سوار ہو گیا۔اس کے ذہن میں آیا کہ جس درخت کو تو کاٹ رہا تھا،اب وہی درخت محسن بن کر تمھاری جان بچا رہا ہے۔اورپھر وہ تیرتا ہوا دور نکل آیا۔یوں وہاپنے باپ کی نصیحت اور محسن درخت کی وجہ سے تین مصیبتوں سے بچ گیا۔یہ ایک عمدہ اخلاقی کہانی ہے۔
اگلی کہانی شکر کے موضوع پر ہے۔اس کا عنوان ہے’’ خدا کی نعمتیں‘‘۔اس کہانی میں شکر کا اخلاقی سبق پیش کیا گیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔یہ احمد عدنان طارق کی ماخوذ کہانی ہے۔اس کہانی میں ایک گونگا بہرا بچہ بابر ہے جو مرکزی کردار کادوست ہے۔بابر بہت باہمت لڑکا ہے۔وہ اپنی معذوری کے باوجود زندگی کی دوڑ میں پرجوش انداز میں پیش پیش ہے۔ وہ ہنستا بھی اور کھیلتا بھی ہے۔اسے سیروتفریح بھی بہت پسند ہے۔ایک بار ایک ڈاکٹر صاحب نے بابر کا معائنہ کیا اور اسے شہر میں خصوصی بچوں کے مرکز میں بھیجنے کا مشورہ دیا تاکہ بابر کچھ نہ کچھ بول سکے۔ایسے مراکز میں خصوصی افراد کی تربیت کی جاتی ہے۔بابر وہاں سات ماہ رہتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو وہ بول رہا ہوتا ہے۔بابر کی امی اسے بولتا دیکھ کر اس سے لپٹ جاتی ہے۔کہانی میں اس جذباتی موقع کی منظر کشی یوں کی گئی ہے:
’’بابر کہنے لگا۔’’امی جان ،میری پیاری امی جان!!! ۔‘‘یہ کہہ کر وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور ماں کے گلے لگ گیا۔وہ دونوں گلے لگے ہوئے تھے اور بس کی سواریاں اور کنڈیکٹر انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔‘‘(24)
یہ ایک اخلاقی کہانی ہے اس میں بچوں کے لیے سبق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر دانی کریں۔اس کے بعد والی کہانی عاجزی ،انکساری کے موضوع پر ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں مٹی سے پیدا کیا۔غرور و تکبر ہمیں زیبا نہیں ہے۔کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو لائق ہے۔لہذا ہمیں کسی چیز کو حقیر اور بے فائدہ نہیں سمجھنا چاہیے۔اس کے بعدایک اور کہانی کا جائزہ لیتے ہیں۔اس کہانی کا عنوان ہے ’’نہیں ہے چیز نکمی کوئی‘‘۔یہ کہانی نوید مرزا کی لکھی ہوئی ہے۔اس میں یہ اخلاقی سبق پیش کیا گیا ہے کہ ہر چیز کا اپنا مقام مرتبہ ہے لہٰذا کسی چیز کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔اس کہانی کے مطابق شہر کے بیچوں بیچ ایک خالی پلاٹ پر باباجی نے جھونپڑی لگائی ہوئی ہے۔سب لوگ انہیں اپنی دانست میں فالتو اور بے فائدہ سمجھتے ہیں۔ایک دن ایک تعمیراتی کمپنی وہاں پہنچتی ہے اور بابا جی کی جھونپڑی ہٹا دیتی ہے کہ وہاں پر ایک پلازہ تعمیر ہونا ہے۔ باباجی ایک اور کونے میں فروکش ہو جاتے ہیں۔پلازہ بن جاتا ہے۔ایک روز چند دہشت گرد پلازہ میں بم چھپانے آ جاتے ہیں۔بابا جی یہ سب کچھ چپکے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔باباجی بھاگ کر پلازے میں گھستے ہیں اور چھپا ہوا بم نکال کر باہر کو دوڑتے ہیں۔پلازہ سے نکلتے ہی بم پھٹ جاتا ہے اور باباجی سینکڑوں لوگوں کی جان بچاتے بچاتے راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔یوں ایک ایسا وجود جسے سب بے کار گردانتے تھے،اتنے سارے لوگوں کی جان بچا کر امر ہو گیا۔
اس طرح کی ایک اور کہانی کا عنوان خالص لہو ہے۔اس کہانی کا مرکزی خیال اس کے آخری جملے میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’سیاہ رنگت کے پیچھے شیشے کی طرح صاف دل اور بدبودار لباس کے پیچھے خوشبودار بدن ہو سکتے ہیں۔‘‘
کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر اسے برا نہیں سمجھنا چاہیے۔کہانی میں ارسلان نامی شخص ہسپتال میں اپنی مریض والدہ سے ملنے جاتا ہے تو اس کی ٹکر ایک سیاہ رنگ کے پھٹے حال شخص سے ہو جاتی ہے۔ ارسلان اسے بہت برا بھلا کہتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کی والدہ کو لہو کی ضرورت ہوتی ہے۔ارسلان چیخ چیخ کر لوگوں سے مدد مانگتا ہے، رشتے داروں سے مدد مانگتا ہے لیکن کوئی بھی مدد کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اتفاق سے اسی سیاہ رنگت کے شخص کا لہو مریضہ سے ملتا ہے۔تب وہ اپنا لہو دے دیتا ہے۔ ارسلان بہت حیران ہوتا ہے۔وہ اس شخص سے اپنے رویے پہ معذرت کرتا ہے اور آئندہ کے لیے ایسے رویے سے توبہ کر لیتا ہے۔وہ سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کارخانے میں کوئی نکما نہیں اس لیے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس کے بعد والی کہانی بچوں کی اصطلاح کے موضوع پر ہے۔اخلاقی سبق یہ ہے کہ بچوں کو ضد نہیں کرنی چاہیے۔ عرب بچے کے عنوان سے یہ کہانی غلام عباس کی لکھی ہوئی ہے جو کہ مشہورِ زمانہ افسانہ نگار گزرے ہیں۔یہ کہانی عرب کی تہذیب و ثقافت کو ظاہر کررہی ہے۔قدیم دور میں جب عرب تاجر اونٹوں کی قطاریں بنا کر صحراؤں میں سفر کیا کرتے تھے تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اس کہانی میں ایسا ہی منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ایک عرب تاجر تجارت پر جانا چاہتا ہے تو اس کا بیٹا علی ساتھ جانے کی ضد کرتا ہے۔وہ اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ضد پہ اڑا رہتا ہے۔بالآخر وہ اسے ساتھ لے جاتا ہے۔راستے میں سخت طوفان آتا ہے اور وہ صحرا میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔صحرا میں پیش آنے والی مشکلات کی منظر کشی یوں کی گئی ہے:
’’آندھی ہے کہ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی ہے اور ریت ہے کہ ننھے ننھے چھروں کی طرح کپڑوں میں سوراخ کر کر کے بدن میں گھستی چلی جاتی ہے۔لیکن علی باپ کی گود میں چادر کے نیچے اس سے بالکل محفوظ ہے۔ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہے۔اسباب پر گز گز ریت کی تہہ جم گئی۔‘‘(25)
علی کو سخت پیاس لگ جاتی ہے لیکن پانی نہیں ہوتا۔علی کو اپنی ضد کی وجہ سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔پھر بہت مشکل کے بعد وہ وہاں سے نکلتے ہیں تب علی یہ عزم کرتا ہے کہ وہ آئندہ ضد نہیں کرے گا. یہ ایک اخلاقی کہانی ہے جس میں یہ اسباق پیش کیے گئے ہیں:
(1) بچوں کو ضد نہیں کرنی چاہیے.
(2)ماں باپ کا کہا ماننا چاہیے
(3)مشکل حالات میں صبر سے کام لینا چاہیے
’’گیلی پتلون‘‘ کے عنوان سے سلیم فاروقی نے ایک اصلاحی کہانی لکھی ہے۔اس کہانی میں بچوں کو گپ بازی اور جھوٹ بولنے سے روکا گیا ہے۔یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی میں ایک گپ باز لڑکا شایان مرکزی کردار ہے۔ شایان بچوں کو اپنے ناکردہ کارنامے سنا سنا کر حیران کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ میں نے پچھلی رات چوروں کو بھگایا۔ میں نے پولیس کو اطلاع دے دی وغیرہ۔ یوں گپیں ہانکنا اس کی عادت بن جاتا ہے۔ایک دن شایان اسی طرح گپ چھوڑ رہا ہوتا ہے کہ ایک پولیس انسپکٹر اس کی باتیں سن لیتا ہے۔وہ شایان کو سبق سکھانے کے لیے گرفتار کرکے تھانے لے جانا چاہتا ہے کہ تم نے چوروں کو دیکھا تھا تو اب چوروں کا حلیہ بتاؤ۔انسپکٹر کے مصنوعی غصہ پر شایان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے اور سارے بچے ہنسنے لگتے ہیں۔اس واقعہ کے بعد شایان گپ بازی چھوڑ دیتا ہے۔
اگلی کہانی بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ہے۔اس کہانی میں بچوں کو اپنی صلاحیتیں پہچاننے کا درس دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ بچہ اپنے اندر موجود صلاحیت کو جاننے کے بعد ہی اسے استعمال کر سکتا ہے۔ایک آدمی کنگال ہو اور اس کے گھر کے صحن میں سونا چھپا ہوا ہو اور اسے سونے کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو تو اس سونے کا کیا فائدہ۔بالکل ایسے ہی ایک بچے کے پاس اعلیٰ قسم کی خوبیاں ہیں،ذہانت ہے لیکن وہ ان خوبیوں سے واقف ہی نہیں اور نہ ہی کبھی اس نے یہ خوبیاں استعمال کیں تو ان خوبیوں کا کیا فائدہ ہوگا۔خود کو پہچانو بھی ایسی ہی کہانی ہے جس میں ایک عقل مند ٹیچر اپنے سٹوڈنٹ پہ انفرادی توجہ دے کر اس کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار کرتی ہے۔ٹیچر کے دوستانہ رویے سے سعد میں تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ پڑھائی میں دل چسپی لینے لگتا ہے۔اس کہانی میں ٹیچر کا سعد سے ابتدائی بات چیت اور سوال پوچھنے کا انداز ملاحظہ فرمائیے:
’’سعد ،حاضری لگوائیں اور منہ سے ’’یس میم‘‘ کہیں۔ٹیچر نے سعد کو مخاطب کیا۔وہ کچھ نہیں بولالیکن ٹیچر کا اصرار تھا کہ وہ اپنی زبان سے حاضری لگوائے۔سعد پریشان ہو گیا ،ٹیچر بہت پیار سے اس کے قریب آئیں اور کہا:’’آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا نام کتنا پیارا ہے، اور آپ خود بھی کتنے پیارے بچے ہو،اپنا نام اپنی زبان سے لو اورحاضری لگواؤ۔شاباش!سعد کے لیے یہ تجربہ بہت نیا تھا۔ٹیچر کس قدر محبت سے بولی تھیں۔بے اختیار اس نے اپنا نام پکارا:سعد ذوالفقاراورٹیچر نے بھرپور خوشی سے تالی بجائی،یہ ٹیچر کی پہلی کامیابی تھی۔مستقبل کا ایک معمار امید کی طرف لوٹ رہا تھا۔‘‘(26)
ٹیچر اس سے پریشانی کی وجہ پوچھتی ہیں تو وہ اکیلے پن کی شکایت کرتا ہے۔تب ٹیچر اسے نماز، قرآن پاک کی تلقین کرتی ہیں۔ ٹیچر کے مشورے سے سعد خود کو پہچان لیتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔
اس کے بعد والی کہانی ’’نیکی‘‘کا مرکزی خیال احسان کا بدلہ احسان ہے۔کہانی کا ایک کردار عبدالستار ہے جو ایک کمزور بوڑھے شخص کو لفٹ دیتا ہے اور اسے گھر لے جانے کے لیے گوشت بھی دلواتا ہے۔عبدالستار ایک ہوٹل پر ڈیلی ویجز پر کام کرتا ہے۔جس دن وہ بوڑھے کی مدد کرتا ہے،اس دن اس کا مالک اسے دیہاڑی نہیں دیتا تو وہ بے حد پریشان ہوتا ہے کیونکہ آج اس نے اپنی بیٹی کو پیزا لے کر دینا ہوتا ہے۔راستے میں اسے اس کا دوست نوید ملتا ہے۔نوید اور وہ موٹرسائیکل پہ سوار جارہے ہوتے ہیں کہ ایک جگہ نوید سائیکل رکوا کر ایک بیکری سے گھر کا سامان خریدتا ہے۔اس سامان میں وہ اپنے دوست عبدالستار کے لیے ایک پیزا بھی لے کر آتا ہے۔جب نویداپنے دوست کو پیزا والا شاپر دیتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ یہ میری طرف سے میری بھتیجی کے لیے ہے۔یہ دیکھ کر عبدالستار کا دل پکارتا ہے کہ تم نے بوڑھے پہ احسان کیا لہذا اس احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں مل گیا ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحطہ فرمائیں:۔
’’یہ رکھ لیں،میں نے لائبہ کے لیے لیا تھا۔کیامطلب؟عبدالستار حیران رہ گیا۔’’میںلائبہ بیٹی کا چاچا ہوں،پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ خریدوں اور لائبہ کونظرانداز کردوں‘‘۔اب عبدالستار کے لیے انکار کرناممکن نہ تھا،عبدالستار نے ہاتھ میںموجود شاپر جب کھول کر دیکھا توحیرت زدہ رہ گیا،بے اختیار اس کی زبان سے نکلا:’’اے اللہ!خاموش دلوں کی فریاد بھی تو ہی سنتاہے:شاپر میں پیزا موجود تھا۔‘‘ (27)
اس کے بعد والی کہانی بچوں کو ضد سے دور رکھنے کے اخلاقی سبق پہ مشتمل ہے۔کہانی کا عنوان’’ عہد‘‘ ہے۔یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس میں ایک ضدی لڑکے فاران کی کہانی پیش کی گئی ہے۔وہ اپنے والدین سے بے جا ضد کرتا ہے اور طرح طرح کی فرمائشیں کرتا ہے۔ایک دن اس کے دادا اسے سمجھاتے ہیں کہ والدین تمہیں جہاں جہاں روکتے ہیں وہاں تمہارا ہی فائدہ ہوتا ہے۔مثلاً تمہیں نہر میں نہانے سے روکتے ہیں کہ کہیں تم ڈوب نہ جاؤ۔ پٹاخے چلانے سے روکتے ہیں تاکہ تمہارے ہاتھ نہ جل جائیں۔ دادا جان کی باتوں سے فاران سمجھ جاتا ہے اور وہ عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ ضد نہیں کرے گا۔
اس کے بعد’’ محفل کے آداب ‘‘کے عنوان سے ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی میں مجلسی آداب میں تہذیبی اصولوں کو اپنانے کا سبق پیش کیا گیا ہے۔تہذیب و شائستگی سے نہ صرف آدمی کا اپنا وقار بڑھتا ہے بلکہ اس کے مربی والدین کی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔کہانی نگار نے ہمیں اپنے بچپن کا واقعہ سنایا ہے کہ ایک بار وہ سب رت جگا کی محفل میں گئے جو کہ شادی کی ایک تقریب ہوتی ہے۔اس محفل میں چودھری صاحب کے بیٹے خوب شرارتیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں جبکہ مصنف اور اس کے دوست عثمان اور سعید بھلے مانس بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔کچھ عرصہ بعد رت جگا کی تقریب دوبارہ ہوتی ہے تو صاحب دعوت چودھری کو کہلوا بھیجتے ہیں کہ آپ تو ضرور تشریف لائیے گا، سر آنکھوں پر مگر اپنے صاحبزادوں کو نہ لائیے گا۔اس کہانی میں نوری اور فضلی کی شرارتوں کا منظر ملاحظہ فرمائیں:
’’اس شور شرابے میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ چوہدری صاحب کے دونوں صاحب زادے نوری اور فضلی یک دوسرے کے پیچھے بھاگ دوڑ رہے تھے، اور نوری فضلی کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ زور زور سے چیخ بھی رہا تھادوڑتے دوڑتے ایک جگہ فضلی کا پاؤں اچانک ایک لڑکی کے غرارے میں پھنس گیا اور فضلی اس لڑکی کے اوپرگر گیا۔اس کے پیچھے نوری بھاگ رہا تھا،وہ بھی دھم سے اس کے اوپر آن گرا۔‘‘(28)
ان شرارتوں سے جہاں نوری فضلی کی سبکی ہوئی وہیں اس کے والدین کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کہانی میں بچوں کو اچھا بننے کی تلقین کی گئی ہے۔
اگلی کہانی میں بھی بچوں کو شرارتوں سے باز رہنے کا سبق پیش کیا گیا ہے۔عموما بچے جس شرارت کو چھوٹا اور عام سمجھ رہے ہوتے ہیں،وہی شرارت ایک بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوجاتی ہے۔’’اف وہ آگ‘‘ کے عنوان سے یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی کے ذریعے بچوں کو ان غلطیوں سے بچنے کا سبق دیاگیا ہے جو بظاہر تو بہت معمولی سی ہوتی ہیں لیکن ان کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔کہانی ایک مختصر سے واقعہ پہ مشتمل ہے۔نزہت اور سلیم گھر میں امی جان کو نہ پا کر آلو بھوننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے مکان کے پچھلے حصے میں یہ خفیہ کارروائی مکمل کرتے ہیں لیکن وہاں سے واپسی پر وہ جلتی آگ کو بجھانا بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے مکان کے پچھلے حصے میں پڑے سامان کو آگ لگ جاتی ہے۔امی گھر آتی ہیں تو آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں۔وہ سب گھر والوں کو متوجہ کرتی ہیں اور سب مل جل کر آگ بجھادیتے ہیں۔سلیم اور نزہت بہت شرمندہ ہوتے ہیں اور وہ عزم کرتے ہیں کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔
’’وہ میرا انتظار کر رہا ہے ‘‘ایک نابینا لڑکے کی کہانی ہے۔اسے الطاف حسین نے لکھا ہے۔یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی میں ہمت و حوصلے کا پیغام دیا گیا ہے۔کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نابینا لڑکا سڑک عبور کرنے لگتا ہے تو اس کے سامنے بس آ جاتی ہے تب دو لڑکے بھاگ کر اس کی مدد کرتے ہیں۔وہ اس لڑکے کو دیکھ کر چلنے کا مشورہ دیتے ہیں تب وہ انہیں بتاتا ہیکہ میں نابینا ہوں۔دونوں لڑکے اپنے رویے پر نادم ہوتے ہیں۔نابینا لڑکا انہیں بتاتا ہے کہ وہ ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔وہ انہیں اپنی تعلیمی کتابوں اور نصاب کے بارے میں بھی معلومات دیتا ہے کہ وہ کس طرح ابھری ہوئی سطح کے الفاظ پہ انگلیاں پھیر کر لفظوں کو محسوس کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔وہ نابینا لڑکا اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید ہوتا ہے۔وہ اپنے ملک کی ترقّی کے لیے کچھ کر دکھانے کا خواہاں ہوتا ہے۔اس کے جذبات کو دیکھ کر وہ دونوں لڑکے کہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ملک کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے کیوں کہ یہ ملک ہمارا بھی انتظار کر رہا ہے۔اس کہانی میں وطن سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔
دودھ کا گلاس کے عنوان سے ماخوذ کہانی ڈاکٹر عمران مشتاق نے لکھی ہے۔یہ کہانی احسان کا بدلہ احسان کے مرکزی خیال کو پیش کررہی ہے۔حلیمہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے۔وہ غریب ہونے کے باوجود بھی سخی ہے اور ہر مسافر اور مہمان کی خاطر داری کرتی ہے۔ایک بار ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور ایک نوعمر مسافرلڑکے نے پانی مانگا۔اس نے پانی کے بجائے اسے دودھ پیش کیا۔وقت گذرتا گیا۔وہ لڑکا ڈاکٹر بن گیا جبکہ حلیمہ بھی اپنے گھر والی ہو گئی۔ایک بار وہ شدید بیمار ہوئی۔اس کا علاج معالجہ ہوا۔جب ہسپتال والوں نے انہیں بل تھمایا تو وہ بہت زیادہ تھا تب وہ اس ڈاکٹر ارسلان کے پاس گئے اور انہیں بل میں نرمی کی گزارش کی۔ڈاکٹر ارسلان اور حلیمہ نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔تب ڈاکٹر ارسلان نے بل پر لکھا:
’’میری اچھی بہن۔اس ہسپتال کا بل تو برسوں پہلے آپ نے ایک ٹھنڈے اور میٹھے دودھ کے گلاس سے چکا دیا تھا۔‘‘(29)
یوں اس نوعمر مسافر لڑکے نے ڈاکٹر بن جانے کے بعد بھی اس دیہاتی لڑکی کے احسان کو یاد رکھا۔یہ کہانی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ عربی جماعت ہفتم صفحہ88 پر موجود اور اس میں ڈاکٹر ارسلان کو طلحہ کے کردار کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔تاہم مصنف نے اس کا باقاعدہ حوالہ نہیں دیا۔صرف یہ لکھا ہے کہ مرکزی خیال ماخوذ ہے۔
انوکھی تربیت بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک عمدہ کہانی ہے۔یہ کہانی بچوں کی تربیت کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہے۔اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کلاس کے شریر بچے کی شرارتوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے کلاس کا مانیٹر اور ذمہ دار بنا دیا جائے یوں وہ ذمہ داری کے بوجھ تلے دب کر شرارتوں سے باز آجاتاہے اور ایک مفید طالب علم بن جاتاہے۔کہانی میں ایسے ہی ایک لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے ساتھ کلاس کے شریر لڑکوں کو ملا کر ہم جماعت دوستوں کی کاپیاں اور کتابیں چرالیتا یے اور طرح طرح کی شرارتوں سے اسکول میں افراتفری پھیلا دیتا ہے۔تب اس کے اساتذہ اسے معاف کرتے ہوئے کلاس کا مانیٹر بنا دیتے ہیں۔وہ اس حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جاتاہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’میں کلاس میں گیا تو انھوں نے ٹیبل کے پاس کھڑا کرکے ہیڈماسٹر صاحب کے دیے ہوئے تحفے سب کو دکھا کر خوب تالیاں بجوائیں، ساتھ ہی اعلان کیا کہ آج سے کلاس کا مانیٹر میں ہوںیہ کہتے ہوئے انھوں نے سیکنڈ کلاس مانیٹر کا بیج میری شرٹ پر لگا دیا،وہ خواب جو میں بند آنکھوں سے دیکھا کرتاتھا،آج کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا مگر میری آنکھیں میرے اساتذہ کرام اور ہم جماعتوں کے سامنے جھکی ہوئی تھیں۔اساتذہ کی مہربانی،محبت اور انوکھی تربیت سے ان آنکھوں نے جھکنا سیکھ لیا تھا۔‘‘(30)
’’اصل چراغ‘‘ کے عنوان سے یہ کہانی محنت کے اخلاقی سبق کو اُجاگر کررہی ہے۔ایک لڑکا نوادرات کی دکان میں پڑے چراغوں کو رگڑ رہا ہوتا ہے کہ ایسے میں اسے دکان کا مالک دیکھ لیتا ہے۔وہ ایک معمر شخص ہوتا ہے۔وہ بچے کو بلا کر اسے اپنے پاس بٹھاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ الہ دین کے چراغ کی کہانی حقیقت نہیں ہے۔اصلی چراغ کو پانا ہے تو سخت محنت سے کام لو اور خوب دل لگا کر پڑھو۔یہ نصیحت اس لڑکے کو سمجھ آجاتی ہے۔وہ محنت کرکے بڑا آدمی بن جاتاہے۔اس کے بعد کافی سالوں بعد وہ اسی نوادرات کی دکان میں آتا ہے اور اس دکان دار کو اپنا واقعہ یاد دلا کر اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کیوں کہ اسی نے اسے اصلی چراغ دیا تھا۔
’’کیک نے سکھایا سبق‘‘ بچوں کو ضد سے باز رکھنے کا سبق پیش کر رہی ہے۔اس کہانی میں بچوں کو ضد سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔کہانی میں ایک بچی فروا اپنی سالگرہ پر کارٹون کی شکل والا کیک خریدنے کی ضد کرتی ہے۔جب کیک آجاتاہے تو سارے بچّے کیک دیکھنے کے لیے امڈ آتے ہیں اور اسی دوران میز کا کپڑا کھینچنے سے کیک نیچے گر جاتا ہے۔فروا یہ منظر دیکھ کر بھاگتی ہے تو اس کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ گر کربری طرح متاثر ہوتی ہے۔اس کو چوٹیں آتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اسکول نہیں جا سکتی اور نہ ہی پیپرز دے پاتی ہے۔یوں وہ اپنی کلاس فیلوز سے پیچھے رہ جاتی ہے۔وہ سوچتی ہے کہ اگر میں ضد نہ کرتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔اس کے بعد ضد کرنے سے توبہ کر لیتی ہے۔
اس کے بعد ایک اور کہانی ہے جس کا عنوان ہے’’ ہر کام میں حد‘‘۔یہ بچوں کے لیے لکھی گئی ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی میں دو دوست ہیں۔ راحیل اور جواد۔راحیل اور جواد دونوں لائق فائق بچے ہیں لیکن راحیل گیمز کے چکروں میں پڑ جاتاہے۔وہ گھنٹوں موبائل فون گیمز کھیلتا ہے جس سے اس کی پڑھائی متاثر ہونے لگتی ہے۔جواد اسے سمجھاتا ہے لیکن راحیل کوئی بات نہیں سنتا۔تب جواد اسکول کے پرنسپل صاحب کو اس بارے میں بتاتا ہے اور پرنسپل صاحب راحیل کو سمجھاتے ہیں کہ ہر تفریح والے کام کوحد اور اعتدال میں رہ کر کرنا چاہیے۔
امانت کے عنوان سے احمد داؤد نے کہانی لکھی ہے۔یہ کہانی امانت داری کے مرکزی خیال کو پیش کر رہی ہے۔زمین پہ گری پڑی چیز کو اس کے مالک تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔یہ کہانی بھی اسی حوالے سے ہے۔محمد جان اور فقیر علی نو عمر لڑکے ہیں۔انہوں نے ردی چننے کے لیے شہر کے علاقے آپس میں تقسیم کر رکھے ہیں۔وہ سارا دن ردی کاغذ چنتے ہیں اور شام کو انہیں بیچ کر پیسے کماتے ہیں۔ایک روز ایک بنگلے کے سامنے سے گذرتے ہوئے فقیر علی کو ایک لفافہ ملتا ہے جس میں ایک قیمتی ہار موجود ہوتا ہے۔کہانی نگار نے اس منظر کو یوں پیش کیا ہے:
’’فقیر علی کی نظر بند لفافے پر گئی تو اس نے جھٹ اس کو اٹھا کر ٹٹولا اور کھولنا چاہا،لیکن کوٹھی کے اندر ٹہلتے کتے نے بھونک کر اس کو ڈرا دیا۔فقیر علی نے جلدی سے بھاری لفافے کو بوری میں ڈالا اورآگے بڑھ گیا۔‘‘(31)
وہ ہار اُٹھائے گھر آجاتاہے۔جب اس کی امی کو اس باریمیں پتا چلتا تو وہ فقیر علی کو امانت داری کا سبق یاد دلاتی ہیں۔اگلی صبح فقیر علی اس بنگلے کی طرف جاتاہے اور ہار اس کے مالک کو لوٹا کر سرخ رو ہوتا ہے۔
اگلی کہانی میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو بنا محنت توکل کر کے کامیابی پانا چاہتے ہیں۔اور کہتے ہیں اللہ مالک ہے۔اس کہانی کا عنوان بھی یہی ہے۔اللہ مالک ہے۔اور اسے فرزانہ روحی اسلم نے لکھا ہے۔ہمیں یقیناً توکل اور بھروسہ کرنا چاہیے لیکن محنت اور حرکت کا حکم بھی تو اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔اس کہانی میں ان لوگوں کی اصلاح کی گئی ہے جو ہر کام اللہ تعالی کے سپرد کرکے خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس تحریرمیں ایسے فرد کی کہانی ہے جو بچپن ہی سے کام بیزار ہوتا ہے۔ اسے جو بھی کام سونپا جاتا، وہ اسے ادھورا چھوڑ دیتا ہے اور یہی کہتا اللہ مالک ہے۔یہ فرد جو کہ کہانی کا مرکزی کردار ہے، عمران ہے۔
وہ بچپن میں پودے لگاتا ہے اور روزانہ ان کو دیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک ہی رات میں پودے بڑے ہو جائیں۔ لیکن اس کے والدین اسے سمجھاتے ہیں کہ اس میں وقت لگے گا اور تمہیں اپنی ذمہ داری مستقل مزاجی سے نبھانی ہوگی۔ پودوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اب عمران بڑا ہو گیا ہے اور ایک دفتر میں نوکری کے لیے جاتا ہے ۔وہاں اس نے تین ماہ ٹرائل پہ کام کرنا ہوتا ہے اور سخت محنت کرکے مالک کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے اپنے والدین کی وہ ساری باتیں یاد آ جاتی ہیں جس میں انہوں نے عمران کو مستقل مزاجی کا درس دیا تھا ۔عمران عزم کرتا ہے کہ وہ یہاں مستقل مزاجی سے کام کرے گا۔ اس کہانی میں مستقل مزاجی کی صفت اپنانے پر زور دیا گیا ہے اور یقیناً یہ بہت اعلی صفت ہے۔
اگلی کہانی میں بڑوں کے احترام کا اخلاقی سبق پیش کیا گیا ہے۔کہانی کا عنوان استاد کا احترام ہے۔یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔ یہ کہانی ایک لڑکے عاصم کی ہے جو ہوم ٹیوشن پڑھتا ہے۔اس کے اساتذہ جب اسے پڑھانے آتے ہیں تو وہ انہیں انتظار کراتا ہے اور وقت پر پڑھنے نہیں آتا۔وہ پڑھائی کے بجائے کھیل کود اور موبائل گیمز میں لگا رہتا ہے۔ اس کے والدین اسے بہت سمجھاتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتا۔ ایک دن اس کے ٹیچر آئے ہوتے ہیں لیکن وہ ٹی وی کے پروگرام میں مگن ہوتا ہے۔یہ اس کا پسندیدہ پروگرام ہوتا ہے۔ وہ اپنے ٹیچر کو انتظار کرواتا ہے اور پھر انہیں ملازم کے ہاتھوں کہلوا بھیجتا ہے کہ میں آج نہیں پڑھنا چاہتا۔ اس بری حرکت پر اس کے والدین بہت ناراض ہوتے ہیں اور اسے ڈانٹتے ہیں لیکن وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ تب اس کے ابو قاسم صاحب اسے اپنے بچپن کے واقعات بتاتے ہیں کہ وہ لوگ اپنے اساتذہ کا کس قدر احترام کرتے تھے۔اس کے بعد عاصم اپنے ٹیچر سے معافی مانگ لیتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے اساتذہ کا احترام سیکھ جاتا ہے۔اس کہانی کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:
’’شاباش بیٹا شاباش !غلطی کا احساس ہی انسان کو صحیح اور سچے راستے چلنے کا موقع فراہم کرتا ہے مجھے تم سے یہی امید تھی۔قاسم علی نے کہاور آگے بڑھ کر بیٹے کو گلے سے لگایا۔‘‘(32)
یہ کہانی بچوں میں اساتذہ کا احترام کرنے کے جذبات پیدا کرتی ہے۔یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔
ایک اورکہانی’’ ندامت‘‘ میں حسد کی مذمّت کی گئی ہے۔یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔اس کہانی میں بچوں کو حسد کے برے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔گل رخ امیر گھرانے کی لڑکی ہے جبکہ اس کے پڑوس میں رہنے والی لڑکی تانیہ غریب ہے جس کی امی وفات پا چکی ہیں۔گل رخ کے والدین بہت نیک نیت ہیں اور وہ تانیہ کو اپنی بیٹی کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔گل رخ کو یہ چیز پسند نہیں۔وہ اسکول میں تانیہ کی بہت بے عزتی کرتی ہے۔وہ سب کے سامنے جتلاتی ہے کہ تانیہ غریب ہے،اس کی فیس ہم ادا کرتے ہیں،اس کو یونی فارم بھی ہم لا کے دیتے ہیں۔تانیہ یہ طعنے سن کر بہت غم زدہ ہو جاتی ہے اور وہ بیمار پڑ جاتی ہے۔اس کی بیماری کی خبر سن کر گل رخ کے والدین اسے ہسپتال لے جاتے ہیں،تب تانیہ انہیں گل رخ کی زیادتیوں کے بارے میں بتاتی ہے۔اپنی بیٹی کی باتیں سن کر گل رخ کے والدین سخت شرمندہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی درست تربیت نہیں کر پائے۔گل رخ یہ منظر دیکھ کر بہت شرمندہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنے والدین کی نیکی کو احسان جتلا کر ضائع کر دیا ہے۔
’’یاد رکھنے کی بات‘‘ ایک عمدہ اخلاقی کہانی ہے۔اس کہانی میں مستقل مزاجی اور ہمت کا درس دیا گیا ہے۔اسیتصور عباس سہو نے لکھا ہے۔اس کہانی میں ایک ایسے لڑکے کو دکھایا گیا ہے جو بچپن ہی سے پینٹنگ کا شوق دل میں رکھتاہے۔اس کے اسکول کے استاد سر اکمل صاحب اسے مشورہ دیتے ہیں کہ تم کسی ماہر فن سے اصلاح لو۔وہ ایک ماہر آرٹسٹ سے اصلاح لینے کے لیے جاتا ہے لیکن وہ اسے وقت نہیں دیتا اور مختلف مصروفیات کا عذر کر کے اسے ٹال دیتا ہے۔تب وہ لڑکا مایوس ہو جاتاہے اور پینٹنگ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔کافی عرصے بعد اس کی ملاقات اس کے اسکول دور کے سر اکمل صاحب سے ہوتی ہے۔ سر اکمل کی باتوں کو مصنف نے یوں بیان کیا:
’’اسد بیٹا ،ایک بات یاد رکھنا۔دنیا میں کوئی بھی انسان حرفِ آخر نہیںہوتا۔کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوتا۔ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ور خامیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ضروری نہیں کہ سراج الدین صاحب اگر خود ایک اچھے مصور ہیں تو وہ ایک اچھے ٹیچر بھی ثابت ہوں۔‘‘(33)
سر اکمل اسدکی مایوسی کو ختم کرتے ہیں اور اسے پینٹنگ کے لییدوبارہ تیار کرتے ہیں۔اس بار اسے ایک اچھا استاد بھی میسر آجاتاہے اور پھر اس کی بنائی ہوئی پینٹنگ مقابلہ جیت جاتی ہے۔
3۔سہ ماہی ادبیات اطفال کی سماجی و معاشرتی کہانیاں:
لفظ معاشرہ عربی کے لفظ’’ عشر‘‘ سے ماخوذ ہے۔اس کا معنی ہے دس۔معاشرہ دس یا دس سے زائد افراد کے اکٹھے مل جل کر رہنے کو کہتے ہیں۔جب انسان مل جل کر رہتے ہیں تو انہیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے مسائل سماجی و معاشرتی مسائل کہلاتے ہیں۔مسائل انسانی معاشرے سے وابستہ ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی انسانوں کے پاس ہوتا ہے۔معاشرتی کہانیاں ایسے مسائل اور ان کا حل پیش کرتی ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بچوں کے لیے بہت سی معاشرتی کہانیاں ہیں۔معاشرتی کہانی میں بھی کوئی نہ کوئی اصلاحی سبق کارفرما ہوتا ہے لیکن ہم اسے اصلاحی کہانیوں کے زمرے میں اس لیے شامل نہیں کرتے کہ یہ اصلاحی سبق فرد واحد سے وابستہ نہیں بلکہ پورے معاشرے سے وابستہ ہے۔
اگر کہانی میں فرد واحد کی اصلاح مطلوب ہو تو وہ کہانی اخلاقی و اصلاحی کہانی کہلائے گی لیکن اگر اس میں معاشرتی مسائل زیر بحث آئیں تو یہ معاشرتی کہانی ہوگی۔بچوں کے ادب میں سماجی کہانیاں سماج اور معاشرے سے متعلق ہوتی ہیں اور ان میں سماج کے مسائل پہ روشنی ڈالی جاتی ہے اور مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں سکول سے متعلق کہانیاں، گھریلو شب و روز پہ مبنی کہانیاں، غربت کے مسائل پہ کہانیاں، تعلیمی امور میں بچوں کی راہ نمائی پہ کہانیاں اور معاشرے کے نیکی و بدی کے موضوع پر مبنی کہانیاں شامل کی جا سکتی ہیں۔ یہ کہانیاں بھی مقصدیت کا پہلو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔
اب ہم ان معاشرتی کہانیوں پہ بحث کریں گے:۔
’’کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا‘‘ معاشرے میں ہونے والی طبقاتی تقسیم کی کہانی ہے۔ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم موجود ہے۔اس کے علاوہ مذہب اور فرقوں کی تقسیم نے بھی پر پھیلا رکھے ہیں۔یہ کہانی معاشرے کے اقلیتی طبقہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو بیان کررہی ہے۔یہ کہانی بچوں کے معروف ادیب اختر عباس نے لکھی ہے۔اس کہانی میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی مذمت کی گئی ہے۔
ایک گاؤں میں نذیر نامی ایک عیسائی رہتا ہے۔اس کی ماں صفائی کا کام کرتی ہے۔وہ بہت غریب ہوتے ہیں۔گاؤں کے چوہدری بہت بھلے مانس آدمی تھے۔انہوں نے نذیر کو پڑھائی کی طرف راغب کیا۔نذیر نے تعلیم حاصل کی اور میٹرک کے بعد بلدیہ کے دفتر میں ریکارڈ کیپر بن گیا۔ ایک دن سپروائزر نے زبردستی گٹر صاف کرنے بھیج دیا اورنذیر ڈوب کر مر گیا کیوں کہ اس نے پہلے کبھی یہ کام کیا ہی نہیں تھا۔اس کہانی کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:۔
’’لیاقت مسیح سر جھکائے کھڑا رہاپھر ڈرتے ڈرتے بولا:۔’’مائی باپ!!!! نذیر تو نہیںہے جی!‘‘نہیںہے! مطلب ؟سعیدوفا غصے سے دھاڑے۔’’حرام خور ہو تم سب ایک ایک کو دیکھ لوں گا،سرکارسے تنخواہیں لیتے ہو،آدھی تمھاری جیب میں اور آدھی ان کی جیب میں جو ہوتے ہی نہیںمیںکچھ کرتا ہوںتم سب کا بندوبست۔نہیں ہے ،کیسے نہیں ہے وہ؟‘‘۔’’نہیں جناب‘‘وہ منمنایایہ بات نہیںہے، ماں مریم کی قسم !میں بے قصور ہوںآپ کو یاد ہوگا پچھلے ہفتے وہ۔۔ ۔کیاپچھلے ہفتے وہ۔۔۔مائی باپ!آپ نے نیو ٹائون کے گٹر وں کوکھولنے کاحکم اورپھر دھمکی دی ،کہ زیادہ بک بک کی تو سیدھانوکری سے نکلوادوں گا،صاحب!! آپ کے دفتر سے نکلا تو نذیر ’’فائلیں ‘‘لے کر لائبریری جارہا تھا،مجھے اس پر اوراس کے سفیدکپڑوں پرپہلے ہی بڑا غصہ تھا جی،ہماری ذات کا لڑکا۔ہم سے بلند اور الگ ہوکر کرسی پر بیٹھتا تھا۔روز سارے سویپر شکایت کرتے تھے میںنے اسے بلا کر کہا کہ تم اصل میں سویپر ہی ہو۔آج اپنا اصل کام کرکے آئو۔‘‘(34)
اس کے بعد وہ گٹر صاف کرتے ہوئے ہی چل بسا کیوں کہ اس نے پہلے ایسا کام نہیں کیا تھا۔اس کہانی میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ انسانیت کے ناتے سوچنا چاہیے۔اگلی کہانی ایک المیاتی موضوع پر مشتمل کہانی ہے۔کہانی کا عنوان ’’حسرت‘‘ ہے۔محمد شعیب مرزا نے اس تحریر میں ایک واقعہ پیش کیا ہے جو ان کے مشاہدے میں آیا ہے۔ یہ واقعہ ایک المیہ ہے۔واقعہ یوں ہے کہ بچوں کی ایک این جی اوز نے غریب بچوں کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا۔ یہ پروگرام فائیو سٹار ہوٹل میں تھا۔ غریب بچے لائے گئے۔ان کی تصاویر بنوا کر انہیں واپس بھیج دیا گیا اور باقی شرکاء کھانا کھانے لگے مگر بچوں کو کچھ نہ دیا گیا۔بچے شیشے کی دیواروں سے جھانک کر حسرت سے دیکھتے رہ گئے۔اس تحریر کا بنیادی خیال اس پیرے میں پیش کیا گیا ہے:۔
’’ہم ڈائننگ ہال میں داخل ہو گئے۔مجھے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔میں نے کھانا لیااور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگا۔ابھی میں نے دو تین نوالے ہی لیے تھے کہ لابی میں کھڑے بچوں میں سے دو بچے شیشے کے ساتھ منہ لگا کرڈائننگ ہال کے اندر جھانکنے لگے۔ان کے چہروں پر ایسی حسرت تھی کہ میرے لیے نوالہ نگلنا مشکل ہو گیا۔مجھے لگاجیسے ابھی میری آنکھیںچھلک پڑیں گی۔میں نے کھانا وہیں چھوڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتاہوٹل سے باہر نکل آیا۔‘‘ (35)
یہ تحریر ہمارے دوغلے رویوں کی عکاس ہے۔یہ ایک معاشرتی سچائی ہے جو مصنف نے پیش کی ہے۔
اس کے بعد کہانی’’ مستقبل کے معمار‘‘ ہے۔یہ کہانی رانا محمد شاہد نے لکھی ہے۔ اس میں معاشرے کے برے رویوں کا ذکر ہے۔کچھ طلباء بس میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔جب کنڈیکٹر ان سے کرایہ مانگتا ہے تو وہ کرایہ نہیں دیتے۔مزید برآں وہ بے چارے کنڈیکٹر کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔مصنف نے یہ معاشرتی مسئلہ بیان کیا اور آخر میں یہ سبق پیش کیا کہ ایسا برتاؤ وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل نہ کی ہو جبکہ تعلیم یافتہ لوگ ایسا نہیں کرتے۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی تعلیم ادھوری اور بے فائدہ ہے۔’’چراغ تلے‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی کہانی والدین کے لیے اخلاقی سبق پیش کر رہی ہے۔اس کہانی میں ایسے والدین کا تذکرہ ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں اور انہیں وقت نہیں دیتے۔وہ سیاست دان بھی ہوتے ہیں، اچھے کاروباری بھی ہوتے ہیں،وہ اپنی تمام مصروفیات میں فرض شناس ہوتے ہیں لیکن وہ اچھے ماں باپ نہیں ہوتے۔ اس کہانی میں ایک بچہ ماں باپ سے حساب سمجھنے کے لیے جاتا ہے مگر وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر انکار کر دیتے ہیں۔آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ فیل ہو جاتا ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس دیکھیں:۔
’’رپورٹ کارڈ کے ساتھ ایک پرچہ بھی منسلک تھا۔جو فرحان کی کلاس ٹیچر نے لکھا تھا۔انھوںنے پرچہ پڑھنا شروع کر دیا۔’’مسز تقی!! !ماشاء اللہ آپ بہت اچھی سماجی کارکن ہیں۔آپ کی خدمات معاشرے کے لیے قابل فخر ہیں۔آپ پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔آپ نے’’ ٹیوشن سینٹرز ‘‘بنوائے۔آپ مختلف اداروں کے بچوں کو وقت دیتی ہیں۔۔۔مگر افسوس آپ نے اپنے بیٹے فرحان کو بالکل وقت نہیںدیا۔جس کی وجہ سے آپ کا بیٹا فیل ہو گیا۔‘‘(36)
اس کے بعد کہانی’’پہلا سبق ‘‘کو دیکھتے ہیں جو کہ نذیر انبالوی کی لکھی ہوئی کہانی ہے۔جو ہمیں معاشرے میں ہونے والے سیاسی جھگڑوں کی وجوہات اور ان کے سدباب کے بار ے میں بتاتی ہے۔اس کہانی میں ایک گاؤں کا واقعہ پیش کیاگیا ہے۔ ایک گاؤں میں دو چودھری باہمی مخالف ہوتے ہیں۔ایک کا نام چودھری مبارک اور دوسرے کا نام چودھری اقبال ہے۔وہ دونوں ایک میلے میں اپنے کتے لڑاتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چودھری اقبال کا کتا موتی ہار جاتا ہے اور ٹائیگر جیت جاتا ہے۔اس ہار پہ چودھری آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور دونوں پارٹیاں آپس میں لڑنے لگتی ہیں۔ اس لڑائی میں کئی آدمی زخمی ہوتے ہیں۔یہ خبر دونوں چودھریوں کے بیٹوں کو بھی ملتی ہے۔وہ دونوں ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔وہ آپس میں مشورہ کرکے گاؤں کی اس دشمنی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔اس منصوبے کے مطابق وہ اپنے اپنے کتے کو اغوا کرا کر ایک ہی جگہ رکھتے ہیں تاکہ دونوں کتے آپس میں مانوس ہو جائیں۔ایک دو ہفتے بعد دونوں کتے آپس میں مانوس ہو جاتے ہیں۔تب وہ کتوں کو لیے اپنے والدین کے سامنے لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب یہ کتے اکٹھے رہ کر ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے ہیں اور دوست بن گئے ہیں تو ہم انسان ایسا کیوں نہیں کرتے؟؟کہانی کا یہ خوب صورت منظر یوں بیان کیا گیا ہے:۔
’’دونوں چودھری آگے بڑھے اور کھڑکی سے کمرے میں جھانکنے لگے۔دونوں کے لیے اندر کا منظر ناقابل ِیقین تھا۔انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔موتی اور ٹائیگر ایک ہی برتن میں دودھ پی رہے تھے۔دونوں چودھری سارا معاملہ سمجھ گئے۔ان کے بیٹے انھیںاس راستے پر لے آئے تھے جو صلح کی طرف جاتا تھا۔‘‘ (37)
اس پہ دونوں چودھری بہت شرمندہ ہوتے ہیں اور ان کی دشمنی پکی دوستی میں بدل جاتی ہے۔اس کہانی میں معاشرے میں رہنے سہنے کاطریقہ سکھایا گیا ہے۔ یہ کہانی انسان دوستی کا درس دیتی ہے۔
’’دھواں‘‘ سماجی برائی منشیات کے بارے میں لکھی گئی کہانی ہے۔ایک حافظ قرآن لڑکا دلبر اپنے باپ دل دار کے نشے کی وجہ سے سخت پریشان ہوتا ہے۔ایک بار ماہ رمضان میں وہ تراویح پڑھانے سے انکار کر دیتا ہے اور جب محلے والے انکار کی وجہ پوچھنے اس کے گھر آتے ہیں تو وہ ان کے سامنے ایک شرط پیش کرتا ہے کہ اگر میرے ابا جی نشہ چھوڑ کر روزے رکھنا شروع کر دیں تو تب میں تراویح پڑھاؤں گا۔نوعمر دلبر کا جذبہء خیر خواہی دیکھ کر دل دار کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ نشہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔اس کہانی میں کہانی نگار نے ہمیں منشیات کے بارے میں معلومات سے بھی آگاہ کیا ہے۔یوں اس کہانی میں ایک معاشرتی برائی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔منشیات کے بارے میں پیش کی گئی معلومات کو اس پیراگراف میں دیکھیں:۔
’’پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق22سے25ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیںایک اور اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی موت تمباکونوشی کے باعث ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہے۔‘‘(38)
’’آگہی سے پہلے‘‘ نامی یہ کہانی ہمیں ایک معاشرتی برائی سے آگاہ کررہی ہے۔ایک لڑکا گھر میں اکیلا بیٹھا ہوتا ہے اور اس کے گھر والے بازار گئے ہوتے ہیں۔گھر میں تنہا بیٹھے بیٹھے اسے خیال آتا ہے کہ موبائل فون پر کسی اجنبی سے بات کی جائے۔وہ کئی نمبر ملاتا ہے مگر کوئی اس سے بات چیت نہیں کرتا۔پھر اچانک ایک اجنبی سے بات چیت ہو جاتی ہے وہ بہت نرم مزاج کا لگ رہا ہوتا ہے اور جلد ہی وہ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ اجنبی لڑکے سے اس کے گھر کی تمام باتیں پوچھ لیتا ہے اور پھر فوراً جوس لیے اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔جوس میں بے ہوشی والی دوا ہوتی ہے۔لڑکا بے ہوش ہو جاتا ہے اور وہ اجنبی گھر کا قیمتی سامان لوٹ کر چلا جاتا ہے۔
اس کہانی کے دو رخ ہیں:۔
٭ ایک یہ کہ کسی پہ بھروسہ نہ کریں اور بچے اجنبی لوگوں سے بات چیت نہ کریں۔
٭ دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں ایسے دورخے لوگ بھی ہیں جو موقع پاکر ہم نوچ کر کھانے سے بھی نہیں چوکتے۔
’’کامیابی‘‘ ایک معاشرتی بیماری کو بے نقاب کررہی ہے۔اس کہانی کا تعلق تعلیم سے ہے۔ہمارے ہاں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں بچے کو اس کی صلاحیتوں کے برعکس میدان میں دھکیل دیا جاتاہے اور جب وہ اس میدان میں ناکام ہو جاتاہے تو اسے نکما اور سخت سست کہا جاتا ہے۔مثلا خان دان میں فلاں کا بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے تو میرا بچہ بھی ڈاکٹر ہی بنے گا حالانکہ وہ بچہ ایک اچھا انجینئر بن سکتاتھا۔وہ ایک اچھا لیکچرار بن سکتاتھا لیکن غلط میدان میں اتارنے کی وجہ سے اس کا پورا کیرئیر تباہ ہو جاتاہے۔ایسی ہی ایک کہانی کامیابی ہے جس میں حذیفہ نامی لڑکے کو گھر والے ڈاکٹر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ناکام ہو جاتا ہے تو مجبوراً ایک فیکٹری میں ملازمت شروع کر دیتا ہے۔حذیفہ کی دل چسپی انجینئرنگ میں ہوتی ہے اور وہ گھر میں چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا ہے۔ اس دوران فیکٹری کی ایک مشین خراب ہو جاتی ہے۔مالک بہت پریشان ہوتا ہے تب حذیفہ یہ پیشکش کرتا ہے کہ وہ مشین بنا سکتا ہے۔حذیفہ مشین بناکر مالک کو حیران کر دیتا ہے اور مالک اسے بھاری معاوضہ بھی دیتا ہے۔یوں وہ ایک کامیاب مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔اس کہانی کاایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:۔
’’سرمیں نے سنا ہے کہ آپ جاپان سے انجینئرز بلا رہے ہیں۔اس مشین کے لیے؟ حذیفہ نے اعتماد سے سوال کیا۔’’ہاںپھر؟؟‘‘ انھوں نے سوالیہ نظروں سے حذیفہ کو دیکھا۔’’سر!اس میں آپ کا کتنا خرچ آئے گا؟۔کم از کم تین ساڑھے تین لاکھ،مگر تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو؟انھوں نے ابرو چڑھائے۔سر!!! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ایک موقع دیں،اگر مشین ٹھیک ہو جائے تو آپ مجھے ڈیڑھ لاکھ دے دیجیے گا۔‘‘(39)
یوں حذیفہ کامیابی کی راہ پر چل پڑتا ہے اور اس کی صلاحیتیں آزاد ہو جاتی ہیں۔
’’بچہ پارٹی زندہ باد‘‘ کے عنوان سے یہ کہانی معاشرے میں شرحِ خواندگی بڑھانے کی عملی کوششوں کے حوالے سے ہے۔اس کہانی میں کچھ باہمت بچے دکھائے گئے ہیں جو معاشرے کے مزدور اور غیر تعلیم یافتہ بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔وہ ورکشاپ اور ہوٹلوں پہ جا کر بچوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔پہلے پہل تو سبھی ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن وہ بچے ہار نہیں مانتے اور اسی طرح لگے رہتے ہیں تب کچھ بچے، بچہ پارٹی کے اسکول میں داخل ہو جاتے ہیں اور جلد ہی ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔یہ کہانی ایک تعمیری سوچ کے گرد گھومتی ہے کہ اگر انسان ارادہ کرے تو ہر کام ممکن ہو سکتا ہے۔ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق بچہ پارٹی اسکول بھی شہر بھر میں مقبول ہو جاتا ہے۔اس کہانی میں چونکہ پورے معاشرے کی خواندگی کی سوچ پیش کی گئی ہے اس لیے اسے معاشرتی کہانی میں شمار کیا جائے گا۔’’سیلفی‘‘ ایک ایسی معاشرتی کہانی ہے جو ہمارے معاشرے کی سوچ و فکر کی عکاسی کرتی ہے۔اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ میڈیا کی بہت بڑی طاقت ہے۔ایک عام سماجی کارکن کے ساتھ جب شہر کا میئر سیلفی بناتا ہے تو وہ راتوں رات مشہور ہو جاتاہے۔اور جلد ہی اسے ایک این جی او ملازمت سے نواز دیتی ہے۔اس کہانی میں مصنف نے میڈیا کے مثبت استعمال پر زور دیا ہے اور اس کی اہمیت بیان کی ہے۔
’’کمال بابو‘‘ معاشرے کے غریب اور باہمت شخص کی کہانی ہے۔کمال دین ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ چھوٹا سا تھا جب اس کے ابو وفات پا گئے تھے۔اب گھر کے تمام مسائل اس کے کمزور کندھوں پر آ پڑے تھے۔کمال اور اس کی ماں زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔کمال دین محنت مزدوری کرتا رہا اور اپنے بہن بھائیوں کو تعلیم دلاتا رہا۔اس کے ابو کی خواہش تھی کہ کمال دین افسر بابو بنے گا لیکن ایسا تو نہیں ہو پاتا لیکن کمال دین نے اپنے بہن بھائیوں کو انجینئر اور ڈاکٹر بنادیا اور اب ان کے گھر کے گیٹ پر نیم پلیٹ پر لکھا ہوا ہے:’’رہائش گاہ ڈاکٹر جمال، انجینئر بلال اور کمال بابو۔‘‘یہ ایک معاشرتی کہانی ہے جس میں غریب طبقے کے مسائل پیش کیے گئے ہیں۔
اگلی کہانی بھی اوپر والی کہانی سے ملتی جلتی کہانی ہے۔’’ پھول والا‘‘ نامی کہانی سفید پوش طبقے کی بدحالی اور ان کی سخت محنت کو اجاگر کرتی ایک خوبصورت کہانی ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے سفید پوش لوگ ہوتے ہیں جو بہت زیادہ بدحال ہوتے ہیں۔انہیں بے شمار معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ محنت کو ترجیح دیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے ہیں۔اس کہانی میں، کہانی نگار نے اپنا واقعہ بتایا ہے کہ ایک روز ان کی کار ٹریفک سگنل پر رکی ہوتی ہے کہ ایک پھول بیچنے والا لڑکا آجاتا ہے۔کہانی نگار اس سے پانچ سو کے پھول خرید لیتا ہے تو اس کے بچے اسے فضول خرچی کہتے ہیں تب وہ انہیں اپنی کہانی سناتا ہے کہ جب ان کے دادا جان فوت ہو گئے تھے تو وہ بھی پھول بیچتے رہے اور پھول بیچ بیچ کر گھر کے معاشی بحران کو کنٹرول کیا تھا۔ یہ کہانی سن کر کہانی نگار کے بچے ماہا اور عباد بہت متاثر ہوتے ہیں۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:۔
’’اس لیے بیٹا کبھی کبھی ایسے لوگوں سے یوں بھی کچھ خرید لیتے ہیں۔جن کی عزت نفس اتنی ہوتی ہے کہ وہ بجائے دوسروں پر بوجھ بننے کے دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔جی پاپامیں سمجھ گیا ہوں۔عباد نے نادم لہجے میں کہا۔‘‘(40)
یہ پیرا اس کہانی کا مرکزی پیرا ہے۔اس پیرے میںایسے سفید پوش لوگوں کی مدد کی ترغیب دی گئی ہے جو ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ محنت مزدوری کرکے اپنا رزق کماتے ہیں۔
’’توتے میں جان‘‘ بھی ایک معاشرتی کہانی ہے۔اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ معاشرے کے مخیر حضرات اپنے ملازموں کو حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔اپنے ملازموں کو بھی اپنی مانند انسان سمجھنا چاہیے۔کہانی میں مومن نامی بچے نے ایک توتا پالا ہوا ہے۔مومن ملک حسنین کا بیٹا ہے۔راجہ ان کا گھریلو ملازم ہے۔راجہ کا بیٹا بیمار ہو جاتاہے جس کے علاج معالجہ کے لیے اسے ایڈوانس تنخواہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ملک حسنین ایڈوانس تنخواہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔راجہ دل برداشتہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر وہ مومن کا پالتو توتا چوری کر کے چلا جاتاہے۔مومن اپنے توتے کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھتاہے لہٰذا توتے کی وجہ سے وہ بیمار پڑ جاتاہے تب ملک حسنین کو خیال آتا ہے اور وہ راجہ کے گاؤں چلا جاتاہے۔راجہ توتے کے ساتھ بیٹھا ملک صاحب کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔راجہ ملک صاحب کو کہتا ہے کہ اب آپ کو احساس ہو رہا ہو گا کہ بیٹے کی بیماری سے کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔اب آپ اپنا توتا لے جائیں۔ملک حسنین کو ندامت ہوتی ہے اور وہ راجہ سے معافی مانگ لیتا ہے اور اسے ایڈوانس تنخواہ بھی دے دیتا ہے۔
’’طاقت ‘‘بھی میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کرتی کہانی ہے۔ہمارے معاشرے میں میڈیا بہت بڑی طاقت ہے۔اس طاقت کا درست اور مثبت استعمال معاشرے میں بہتری لانے کا ضامن بن جاتا ہے۔کہانی میں ایک صحافی حماد کو متعارف کرایا گیا ہے جو ایکسپو سینٹر میں موجود برگر والے کو پریشان دیکھ کر پریشانی کی وجہ پوچھتا ہے۔برگر والا اسے بتاتا ہے کہ اس کی بیٹے کے دل میں سوراخ ہے جس کی سرجری کے لیے اسے رقم درکار ہے۔صحافی اپنے قلم کی طاقت آزماتا ہے۔وہ اخبار میں کالم لکھ کر مخیر حضرات سے برگر والے کے بیٹے کے لیے مدد کی درخواست کرتاہے اور یوں ایک کاروباری شخصیت اس کی مدد کے لیے رقم فراہم کر دیتی ہے۔اس طرح حماد کی وجہ سے برگر والے کی آواز معاشرے تک پہنچ پاتی ہے۔اس کہانی کا ایک پیراگراف دیکھیں:۔
’’ہمیں برگر والے کے لیے کچھ کرنا چاہیے،مگر اتنی بڑی رقم کہاں سے لائیں؟بیگم نے برگر کھاتے ہوئے حماد سے کہا۔بیگم کی بات سن کر حماد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔اس کے دفترجانے کا وقت بھی ہوچکا تھا۔اگلے دن کے اخبار میں نام ور صحافی کی تحریر جگ مگا رہی تھی۔انھوں نے تحریر کے آخر میں برگر والے کے بیٹے کے لیے مالی مدد کی درخواست کی تھی کام ختم کر کے وہ صبح ہی گھر پہنچتا تھا۔ابھی وہ گھر پہنچا ہی تھا کہ مشہور کاروباری شخصیت شکیل احمد نے اسے فون کیا:حماد صاحب! میں برگر والے کے بیٹے کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔وہ بولے۔‘‘(41)
یوں قلم اور صحافت کی طاقت سے ایک مستحق آدمی کی مدد ممکن ہوئی اور اس کامیابی کا سہرا صحافی کے سر بندھا۔ ’’دھان کے کھیت ‘‘نامی یہ کہانی جاپان کی لوک کہانی ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار ہاماگوچی ہے جو اپنے بیٹے یامو کے ساتھ پہاڑی پر بنے ایک خوبصورت گھر میں رہتا تھا۔وہ بہت سادہ اور مخلص آدمی تھا۔غریبوں کی مدد کرنا اس کی جبلت میں شامل تھا۔اس کا بیٹا یامو اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ ہم اپنی محنت کسی اور کو کیوں دیں۔وہ لوگ دھان کی فصل اگاتے اور خوب فصل ہوتی۔ایک دن یامو بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک زلزلہ آیا۔ساری چیزیں الٹ پلٹ ہو گئیں۔ان کے پہاڑی گھر کے ارد گرد بھی دراڑیں پڑ گئیں۔نیچے واقع گاؤں میں بھی افراتفری مچی ہوئی تھی۔اس زلزلے کے ساتھ ایک اور آفت یہ ٹوٹی کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے بہنے والی ندی میں طغیانی کے آثار نظر آنے لگا۔ایسا سال میں کئی بار ہوتا تھا اور ہر بار ہاماگوچی کے بروقت خبردار کرنے پر گاؤں والے پہاڑی پر پناہ لے کر خود کو اور اپنے جانوروں کو بچاتے تھے۔لیکن آج اس افراتفری میں کوئی بھی ہاما گوچی کی آواز نہیں سن رہا تھا،نہ ہی اس کے اشارے دیکھے جا رہے تھے۔اب ہاماگوچی کے پاس ایک حربہ باقی تھا اور وہ تھا آگ جلا کر لوگوں کو خبردار کرنا۔اس نے دھان کے پکے ہوئے کھیت کو گاؤں والوں کی خاطر آگ لگادی اور یوں گاؤں والے اس سیلاب سے بچ پائے۔انہوں نے مل جل کر پہاڑی پر گھر بنائے اور اکھٹے رہنے لگے۔ہاماگوچی کی اس نیکی کو گاؤں والے ہمیشہ یاد کرتے رہتے اور اسے لاتعداد تحفے دیتے رہتے۔آج بھی جاپان میں ہاماگوچی کا کردار ایک مثالی کردار سمجھا جاتاہے۔یہ کہانی معاشرتی رکھ رکھاؤ اور معاشرتی میل جول کے اصولوں کو واضح کرتی ہے۔اس میں ہمسائے کے حقوق بتائے گئے ہیں۔
اس کہانی کا ایک اقتباس کہانی کے مرکزی خیال کو واضح کرتا ہے،ملاحظہ فرمائیں:۔
’’ہاماگوچی نے بہت منع کیا لیکن انھوں نے اس کی ایک نہ سنی۔اس کاخیال تھا کہ یوں اس کی نیکی رائیگاں چلی جائے گی۔دھان کے بدلے دھان لینے کا مطلب یہ ہوگاکہ میں نے اپنی نیکی بیچ دی،لیکن گائوں کے بزرگوں نے بتایا کہ اس کی نیکی اپنی جگہ قائم رہے گی اور اس کی نیکی کا پورا پورا صلہ ملے گا۔‘‘(42)
’’میں انتقام لوں گا‘‘ کے عنوان سے ایک کہانی معاشرے کے عدم برداشت کے رویے کی عکاسی کررہی ہے۔اس کہانی میں دو محلے دار خورشید اور ارشد آپس میں لڑتے ہوئے نظرآتے ہیں اور ایک غیر مرئی کردار انہیں اکسا کر مزید لڑا رہا ہے۔یہ نہ نظر آنے والا کردار شیطان ہے جس کی وجہ سے لڑائی میں یہ نوبت آجاتی ہے کہ خورشید کے بھانجے ارشد کی ٹانگ میں گولی مار دیتے ہیں۔ارشد کا بیٹا عبدالقیوم دور شہر میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔جب وہ گھر آتا ہے تو اس کے رشتہ دار اور عزیز اسے باپ کا بدلہ لینے پر اکساتے ہیں لیکن عبدالقیوم لڑائی جھگڑے پر یقین نہیں رکھتا۔وہ کچھ دن انتظار کرتاہے اور پھر وہ خورشید اور اس کے بھانجوں کو بلواتا ہے جو پولیس کے ڈر سے چھپے ہوتے ہیں۔وہ سارے خاندان کے سامنے ان کو کہتا ہے کہ میں آج تم سے انتقام لوں گا اور میرا انتقام یہ ہے کہ میں تمہیں معاف کر دوں گا۔یہ بات سن کر سارے حیران رہ جاتے ہیں اور خورشید اور اس کے بھانجوں کے سر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جھک جاتے ہیں جیسے وہ اپنے گریبانوں میں جھانک کر انسانیت ڈھونڈ رہے ہوں۔’’ پانی لے لو‘‘ ہمارے معاشرے کی بخیلی پہ چوٹ کرتی ایک خوبصورت کہانی ہے۔اس کہانی میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں تب برکت اور اضافہ ہوتا ہے جب وہ مل جل کر استعمال کی جائے اور لوگوں کو بانٹ کر دی جائے۔اس بات کو سمجھانے کے لیے ایک کہانی پیش کی گئی ہے کہ ایک بستی میں ایک نہر بہہ رہی ہوتی ہے جس کا پانی بہت ٹھنڈا اور میٹھا ہوتا ہے۔وہاں باہر کے مسافر آکر رکتے ہیں اور پانی استعمال کرتے ہیں۔بستی والوں کو یہ بات پسند نہیں آتی اور وہ پانی کے بدلے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں جس پہ مسافر پیاسے چلے جاتے ہیں۔اس کہانی کا یہ منظر یوں بیان کیا گیا ہے:۔
’’ان ہی دنوں وہاں سے ایک قافلہ گزرا۔انھوں نے آبادی اور شفاف پانی کی نہر دیکھی تواپنی جیپ روکی اور چند دن قیام کا رادہ ظاہر کیا۔اب بستی والوں کا شک یقین میں بدل گیا کہ ہو نہ ہو،ہم پر سرکار حکمرانی کرنے کے بہانے تلاش کررہی ہے اور ہم پر قبضہ جماناچاہتی ہے۔لہذا انھوں نے سب سے پہلے یہ کہا کہ پانی کی قیمت دیںورنہ یہاں سے آگے بڑھ جائیں۔جب کہ ان مسافروں کا کہنا تھا کہ پانی کسی کی ملکیت نہیں ہے اس لیے کوئی اس کی قیمت طلب نہیں کرسکتا۔دونوں اپنی اپنی باتوں پر اڑ گئے۔‘‘(43)
اس کے بعد وہ قافلہ تو پیاسا ہی چلا گیا۔اس تکبر پہ اللہ تعالی نے انہیں سزا دی۔اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کی نہر خشک ہو گئی۔تب بستی والوں کو احساس ہوا اور اب مشہور یہی ہے کہ اب اس بستی کے باشندے مسافروں کو روک روک کر پانی لے لو،پانی لے لو کی صدائیں لگاتے ہیں۔
’’خلش‘‘ بھی ایک معاشرتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں کہانی نگار نے پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ ان کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ کہانی کا مرکزی کردار عنبر نامی لڑکی ہے۔ان کے پڑوسی ان سیمختلف قسم کی چیزیں مانگتے رہتیہیں۔عنبر کی امی انہیں تمام چیزیں دے دیتی ہیں لیکن عنبر کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وہ امی کو کہتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کبھی نمک،کبھی چھری،کبھی دیا سلائی اور کبھی پیسے مانگ لیتے ہیں۔امی اسے سمجھاتی ہیں کہ برت برتاؤ کی چیزیں پڑوسیوں کو نہ دینا درست نہیں ہے۔ایک روز پڑوسی لڑکی تابندہ پیسے مانگنے آ جاتی ہے۔اس وقت عنبر کو غصہ آیا ہوتا ہے لہذا وہ اسے سخت باتیں سنا دیتی ہے لیکن جب اس کی امی اسے سمجھاتی ہیں تو وہ نادم ہوتی ہے اور پھر تابندہ سے اپنے سخت رویے پہ معذرت کرتی ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس دیکھیں:۔
’’پھر اب کیا کروں؟۔عنبر نے پوچھا۔تم اللہ سے معافی مانگو اور تابندہ سے بھی۔اللہ سے معافی مانگنا تو آسان ہے مگر کسی بندے سے معافی مانگنا بڑا مشکل کام ہے۔عنبر نے کہا۔اگر تمہاری کسی بات سے کسی کو تکلیف ہوئی ہے،کسی کا دل دکھا ہے تو اس سے معافی مانگواور اپنے دل میں کہو کہ آئندہ میں ایسا کام نہیں کروں گی۔امی نے سمجھایا۔‘‘(44)
اس کہانی کے ذریعے بچوں کو حقوق العباد کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔
’’خود غرض‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی یہ کہانی معاشرے کی بے حسی اور مطلب پرستی کو نمایاں کررہی ہے۔اس کا مرکزی خیال اس کے عنوان میں پوشیدہ ہے۔خود غرض،مطلبی دوست کو کہا جاتا ہے۔اس تحریر میں بھی ایک ایسے دوست کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے بچپن کے دوست کوبھی بھول جاتا ہے۔ زاہد اس کابچپن کا دوست ہوتا ہے اور سخت بیمار ہوتا ہے لیکن اس کے پاس اس کی بیمار پرسی کے لئے وقت نہیں ہوتا اور وہ بیمار پرسی کے لیے نہیں جا سکتا۔یہاں تک کہ اس کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کی نماز جنازہ بھی ادا کردی جاتی ہے۔ وہ مصروفیات کی بنا پر نماز جنازہ میں بھی شرکت نہیں کر سکتا۔آخر کار اس کی رسم قل خوانی کا موقع آتا ہے اور اس کا عزم صمیم ہوتا ہے کہ وہ قل خوانی پہ ضرور جائے گا،لیکن عین موقع پر اسے یاد آتا ہے کہ آج تو فلاں عزیز کی سالگرہ ہے،لہذا وہ سالگرہ میں چلا جاتا ہے۔اس کہانی میں دنیا کے فانی اور مطلبی ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
’’بہروپیا ‘‘اسم با مسمی کہانی ہے۔اس کہانی میں ایک ایسا شخص دکھایا گیا جو بہروپیا ہے۔اس کے دو چہرے ہیں۔اس کہانی میں معاشرے کے ان دو چہرے والے منافقین کو بے نقاب کیاگیا ہے جو اپنی اصلیت چھپانے کے لیے دوہرے نقاب پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے اور باطن کچھ اور ہوتا ہے۔ کہانی یہ ہے کہ شہر میں بچے اغوا ہو رہے ہوتے ہیں۔ اغوا کی وارداتیں بڑھتی چلی جا رہی ہوتی ہیں۔اسی دوران شہر کی ایک مشہور شخصیت،جن کو’’ بھائی جان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، شہر سے غائب ہو جاتی ہیں۔ بھائی جان کے جانے پر پورا شہر گویا سوگ میں ڈوب جاتا ہے،کیونکہ وہ ہر ایک کے ساتھ پیار،محبت اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں خبر ملتی ہے کہ بھائی جان کو دوسرے شہر کی پولیس نے اغوا کاروں کے گروہ کے ساتھ پکڑ لیا ہے۔تب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ بھائی جان دراصل بچوں کے اغوا کاروں کا گینگ چلاتے تھے- جس بچے کو بھائی جان اپنا چچا زادبتاتے رہے تھے وہ بھی اغوا شدہ بچہ ہوتا ہے۔ تب وہاں کے لوگوں کو بھائی جان کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کہانی میں بچوں کے لئے سبق ہے کہ وہ کسی ایسے شخص پر اعتماد نہ کریں جو ان کے لئے اجنبی ہو چاہے وہ کیسا ہی اچھا،عمدہ اخلاق والا کیوں نہ ہو ہو۔یہ کہانی بچوں کے لیے نہایت سبق آموز کہانی ہے۔اس کہانی کا ایک اہم اقتباس دیکھیں:۔
’’دورانِ تفتیش اس نے بتایا کہ اس کا طریقہ واردات یہی تھا کہ کسی بھی علاقے یا محلے میں جاکرپہلے اپنا اعتمادبحال کرتا تھا۔جس کے لیے وہ بچوں کوتحفے تحائف دیتا تھااورچندغریبوں کی مدد کیا کرتا تھا،اور پھروہ علاقہ اچانک چھوڑ دیتا تھا،اور جب اس علاقے کے بچے دوسرے محلے میںاس سے ملنے آتے تھے تو چند بچوں کو گفٹ دینے کے بہانے چالاکی سے روک لیتا تھااور دوسروںکو واپس گھر بھیج دیتا تھااور پھر بڑی چالاکی سے انہیں مٹھائی یا چاکلیٹ یا کولڈڈرنک میں بے ہوشی کی دوا دے کر بے ہوش کرکے اغوا کر لیتا تھا۔‘‘(45)
یوں اس کہانی کے ذریعہ بچوں کو خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے تاکہ بچے ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔
’’سبز تحفہ‘‘ کے عنوان سے کہانی بھی ایک معاشرتی کہانی ہے۔اس کہانی میں ماحولیاتی مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔یہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ماحول قدرتی نہیں رہا اور آلودگی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی قلت ہے۔اس کہانی میں شجر کاری کی ترغیب دی گئی ہے۔شیراز شہر میں رہتا ہے اور اس کا گاؤں جانے کو بہت دل کرتا ہے۔آخر کار وہ اسکول کی تعطیلات کے دوران گاؤں چلا جاتا ہے۔گاؤں میں اسے چاروں طرف سبز لہلہاتے کھیت اور درخت نظر آتے ہیں۔وہ اس ماحول میں بہت آسودگی محسوس کرتاہے۔جب وہ واپس شہر لوٹتا ہے تو وہ ایک سبز تحفہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔یہ سبز تحفہ شجر کاری کا عزم ہوتا ہے۔وہ اپنے گھر میں پودے لگا کر اسے سبز تحفے سے سجا دیتا ہے۔
ایک اور معاشرتی ماحولیاتی کہانی’’ندی کاس انتقام ‘‘ہے۔اس کہانی میں یہ سبق پیش کیا گیا ہے کہ ہمیں پانی کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہئیے اور پانی کی قدر کرنی چاہئیے۔اس کے علاوہ قدرتی ماحول کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی ہے کہ یہ ماحول انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔اس کہانی میں ایک گائوں کے پاس بہتی ندی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ندی کے ایک کنارے پر خوش حالی ہے کیوں کہ انہوں نے قدرتی ماحول کی قدر کی جبکہ دوسرے کنارے پر ویرانی اور اجاڑپن نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کیوں کہ وہاں کے ایک لالچی تاجر نے پانی کے ٹینکر بھر بھر کر شہر میں بیچے اور یوں ندی کا پانی فیکٹری کی نذر ہو گیا اور اس کا اپنا بیٹا بھی پانی کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار بن گیا۔اس کہانی کا ایک پیراگراف دیکھیں:۔
’’واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ گائوں میں بدحالی کے پھیلنے اور ماحول کی آلودگی کی وجہ سے لوگوں کی صحت خراب ہونے لگی۔لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرنے لگے۔ ایسے ہی وقت میں فیکٹری کے مالک کا بیٹا گم ہو گیا۔پانی کے تاجر نے تمام لوگوں کو اپنے بیٹے کی تلاش میں دوڑایااور ڈھونڈنے والے کے لیے بہت بڑے انعام کا اعلان کیا۔گائوں کے لوگ اس لڑکے کو ڈھونڈنے کے لیے دور دور تک پھیل گئے مگر کئی دنوں تک اس کا سراغ نہ ملا۔تاجر انتہائی پریشان تھالیکن اس فیکٹری پہلے کی طرح ہی چل رہی تھی اور نیلی ندی کا پانی اب خشک ہونے کے قریب تھا،پھر ایک شام پانی بالکل ختم ہو گیا تو لوگوں نے عجیب منظر دیکھا،ندی کے درمیان میں تاجر کے بیٹے کی لاش پڑی تھی۔‘‘(46)
4۔ سہ ماہی ادبیات اطفال کی تمثیلی کہانیاں:
بچہ جب اس دنیا میں شعور کی نگاہ سے دیکھنا شروع کرتا ہے تو اس کے لیے بہت سی چیزیں حیران کن ہوتی ہیں۔وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے بارے میں سوالات کرتاہے اور ان کے بارے میں جاننے کا شدت سے متمنی ہوتا ہے۔انسانوں کے ساتھ تو بچہ پہلے ہی دن سے منسلک ہوتا ہے،اس لیے وہ انہیں کافی حد تک سمجھتا اور جانتا ہے لیکن جانور،چرند،پرند،جمادات اور نباتات اس کے لیے نئی چیزیں ہوتی ہیں اور وہ ان کے بارے میں پوچھ کر اپنی حس تجسّس کو تسکین پہنچاتا ہے۔
کہانی سننا بچے کو بے حد پسند ہوتا ہے۔کہانیوں سے بچے واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنے ذہن میں ان واقعات کی تخیلاتی تصویر بناکر لطف اندوز ہوتے ہیں۔کہانیوں سے بچوں کی سوجھ بوجھ بڑھتی ہے کیوں کہ اس طرح ان کے تخیل کی پرورش و پرداخت ہوتی ہے اور ان کے ذہن کی نشوونما ہوتی ہے۔پھر عام انسانی کہانیوں اور دیگر جان داروں کی کہانیوں میں بچے کی دل چسپی کا فرق واضح ہے۔جیسے بچہ دیگر جان داروں میں زیادہ دل چسپی لیتا ہے ویسے ہی وہ ان کی کہانیوں میں دل چسپی لیتا ہے۔جب وہ کہانیوں میں جانوروں،پودوں اور پرندوں کو آپس میں بولتے دیکھتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک نئی اور نرالی دنیا ہوتی ہے اور وہ اس کہانی کو عام کہانیوں سے زیادہ دل چسپی سے سنتا ہے اور اس کہانی میں چھپے پیغام کو زیادہ اہمیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتا ہے۔
ایسی کہانیوں کو تمثیلی کہانیاں کہاجاتاہے۔تمثیل نگاری صرف جانوروں کی کہانیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز کو تمثیل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔تمثیل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی ہے مثال دینا۔گویا تمثیل نگاری میں کسی بات کو سمجھانے کے لیے مثال کا سہارا لیا جاتا ہے۔تمثیلی کہانی کی مختصر تعریف یہ ہے :
’’ایک ایسی بیانیہ کہانی جس کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ایک بالائی اور دوسری زیریں۔بالائی سطح کہانی کو پیش کرتی ہے جب کہ زیریں سطح کہانی کے اخلاقی سبق کو پیش کرتی ہے۔گویا ہم اسے کہانی کے مجازی اور حقیقی حصّے کہہ سکتے ہیں۔ کہانی کی بالائی سطح مجازی پہلو لیے ہوئے ہوتی ہے اور زیریں سطح میں حقیقی پہلو پنہاں ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر گیان چند جین اسی بارے میں لکھتے ہیں:
’’تمثیل کے کردار دراصل کسی دوسرے کردار کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ان سے وہ مراد نہیں ہے جو ظاہراً نظر آتا ہے بلکہ ان کے نیچے موج تہ نشین کی طرح کچھ اور معنیٰ چھپے رہتے ہیں۔اس طرح تمثیل استعاروں کی زنجیر ہوتی ہے۔‘‘(47)
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمثیل واقعہ اور نصیحت لکھنے کا ایک خاص انداز ہے جس میں واقعہ یا نصیحت کو کچھ مثالی کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاتاہے تاکہ وہ واقعہ یا نصیحت سہولت سے سمجھ میں آجائے۔ تمثیلی کہانیاں ایک طرح سے استعارہ کی مانند ہوتی ہیں اور ان میں بھی استعارے کی طرح دو تہیں ہوتی ہیں۔ایک ظاہری تہہ جس میں کہانی ہوتی ہے اور ایک باطنی تہہ جس میں سبق ہوتا ہے۔مثلا آپ شہد کی مکھی اور فاختہ کی کہانی کو دیکھیں۔ظاہری طور پر دیکھا جائے تو فاختہ بہتی ہوئی شہد کی مکھی کی جان بچاتی ہے اور بعد میں وہی مکھی شکاری کو کاٹ کر اس کا نشانہ خطا کروا کر فاختہ کو بچاتی ہے۔اس کہانی کی دوسری تہہ میں ایک اخلاقی سبق ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے ساتھ دینا چاہیے۔
تمثیلی کہانیوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
نمبر ایک : متحرک ذی روح جان داروں کی تماثیل مثلاً
٭انسانوں کی کہانیاں یا پھرانسانی اعضاء کو مجسم کردار بنا کر تمثیل نگاری جیسے آنکھ ،ناک ،دل ،
٭جانوروں کی کہانیاں
٭پرندوں کی کہانیوں
٭حشرات الارض کی کہانیاں
نمبر دو: غیر متحرک ذی روح جان داروں کی تماثیل مثلاً
٭درختوں،پودوں کی کہانیاں
٭پھلوں پھولوں کی کہانیاں
نمبر تین : غیر متحرک،غیر ذی روح چیزوں کی تماثیل مثلاً
٭غیر مرئی اور مجرد تصورات کی تجسیم ،
جیسے اوصاف رذیلہ اور اوصاف حمیدہ کی مجسم کہانیاں مثلا سچ جھوٹ کو مجسم صورت میں لانا ،کاہلی اور محنت کی مجسم تمثیل وغیرہ۔ادب اطفال میں اس نوع کی کہانیاں نذیر انبالوی صاحب زیادہ لکھ رہے ہیں۔ان کا لکھا ہوا ایک’’ ناول فاتح کون ؟‘‘ اس کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اس ناول میں اچھی اور بری صفات مجسم حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار نظر آتی ہیں۔
تمثیلی کہانیاں انگریزی میں’’فیبل‘‘ کہلاتی ہیں۔ہندوستان میں اس نوع کی کہانیوں میں’’پنج تنتر ‘‘کی تمثیلی کہانیاں بہت شہرت رکھتی ہیں۔اس کتاب کی کہانیوں کے دنیا کی ہر زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ذیل میں ہم سہ ماہی ادبیات اطفال کی تمثیلی کہانیوں کا جائزہ لیں گے۔ااس جائزے ،یں ہے کہانی میں موجود تمثیل کا خلاصہ پیش کیا جائے گا تاکہ اس کی تفیہم ہو سکے۔
(1) اب نہیں، اب نہیں ، فرزانہ روحی اسلم:
یہ کہانی فرزانہ روحی اسلم کی لکھی ہوئی ہے۔کہانی کا مرکزی خیال ماں کی خدمت ہے۔کہانی میں پیش کیا گیا کردار اپنی ماں کی بیماری کے دوران اس کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔کہانی نگار نے یہ پیغام دل چسپ اسلوب میں پیش کیا ہے۔کہانی میں ایک جانور بھالو دکھایا گیا ہے جس کا نام چنکو ہے.اس کی ماں بیمار ہوتی ہے اور اسے شہد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔چنکو بہت ہی فرماں بردار بچہ ہے۔وہ اپنی ماں کے لیے شہد لانے کے لیے کافی جتن کرتا ہے اور آخر کار شہد لے آتا ہے۔اس کے اس کی ماں گاجر کی فرمائش کرتی ہے تو وہ گاجر لاتا ہے۔پھر وہ مچھلی لے کر آتا ہے اور یوں وہ اپنی ماں کی غذا کا خیال رکھتا ہے۔اس کہانی میں جانوروں کے ذریعے تمثیل پیش کی گئی ہے اور اس تمثیل کا مقصد خدمت والدین کا درس دینا ہے۔
(2)گلابی ربن ،سمیرا انور:
یہ ایک جانور کہانی ہے۔کیٹی اور میٹی دو بلیاں ہیں۔وہ دونوں سہیلیاں ہیں۔ ایک دن کیٹی کا گلابی ربن گم ہو گیا تب وہ ایک جاسوس بلی کے پاس گئے جس کا نام ٹینی تھا۔جاسوس بلی کھوج لگاتی ہے تو وہ ربن اس کی سہیلی کے گھر سے مل جاتا ہے۔اس پہ کیٹی کو بہت افسوس ہوتا ہے مگر اس کی امی اسے معاف کرنے کی تلقین کرتی ہے۔تب وہ اپنی سہیلی میٹی کو معاف کر دیتی ہے۔یہ تمثیل معاف کرنے کے اخلاقی سبق پہ مشتمل ہے۔
(3)یہ بچہ کس کا ہے ،تسنیم شریف :
یہ تمثیل پرندوں کی کہانی پہ مبنی ہے۔ اس کہانی میں دو دوست ہیں۔مرغا اور نر بطخ۔بطخ کی بیوی انڈے سینے کے لیے بیٹھی اور بیمار پڑ گئی۔اس کے بہت سے انڈے بھی خراب ہو گئے۔اب اس کے پاس صرف ایک انڈا تھا۔نر بطخ اس آخری انڈے کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ اپنے دوست مرغے کے پاس گیا اور اس سے گزارش کی کہ وہ اس کا انڈا اپنی بیوی کے انڈے کے ساتھ رکھ لے شاید اللہ تعالیٰ انہیں بھی اولاد سے نواز دے۔مرغا اس کا انڈا مرغی کے انڈوں کے ساتھ رکھ دیتا ہے۔کچھ دنوں بعد چوزے نکل آتے ہیں۔اب بطخ، اس کی بیوی اور مرغا سارے مل کر مرغی بی کو ساری بات بتادیتے ہیں اور اس سے بطخ کا چوزہ مانگتے ہیں۔مرغی پہلے تو واویلا مچاتی ہے کہ یہ بچہ میرا ہے۔لیکن بعد میں اس شرط پر بچہ دے دیتی ہے کہ آئندہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔اس وعدے کے ساتھ بطخ اپنا بچہ لیے واپس چلی جاتی ہے۔مرغی اپنے بچوں کو اپنے پاس سنبھال لیتی ہے۔اس تمثیل کے ذریعے ممتا کی لازوال محبت کو نمایاں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ضمنی طور پر سچ کی تلقین بھی کی گئی ہے۔اگر مرغا چوری چھپے انڈا نہ رکھتا بلکہ مرغی کو اعتماد میں لیتا تو یہ زیادہ بہتر ہوتا اور مرغا جھوٹ بولنے سے بھی بچ جاتا۔
(4)یہ کہانی مجھے بہت پسند تھی، سر شیخ عبدالقادر:
یہ تمثیل بھی ایک جانور کہانی پہ مبنی ہے کیوں کہ اس میں جانور بولتے چالتے نظر آرہے ہیں۔ اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بلی گھر میں بیٹھی ہوتی ہے کہ اچانک اسے سوچ آتی ہے کہ ہم دنیا میں کیوں ہیں؟ ہمیں پیدا کرنے کا کیا مقصد ہے۔وہ اس سوال کے جواب کے لیے اپنے دوست کتے سے رجوع کرتی ہے۔کتا اسے کہتا ہے کہ میرے نزدیک تو سونا، کھانا اور پینا زندگی کے مقاصد ہیں اور بس۔بلی اس جواب سے مطمئن نہیں ہوتی۔وہ ایک چڑیا سے یہی سوال کرتی ہے لیکن چڑیا جواب دینے کے بجائے اس سے خوف زدہ ہو کر اڑ جاتی ہے کہ کہیں بلی اسے کھا نہ جائے۔ بلی وہاں سے مایوس ہو کر بیل کے پاس جا کر سوال کرتی ہے تو بیل جواب دیتا ہے کہ مجھے تو یہی معلوم ہے کہ میں کام کرنے کے واسطے پیدا ہوا ہوں۔بلی کو یہ جواب بھی مطمئن نہ کر سکا۔اب اس نے الو کے پاس جانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ اس نے سن رکھا تھا کہ الو بڑا سیانا جانور ہے۔الونے بلی کا سوال سنا اور بولا ہم اس پہ کافی سوچ و بچار کرتے رہے ہیں اور اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم سوچنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔لیکن ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ہم نے کیا سوچنا ہے لہٰذا ہم اس پہ سوچ و بچار کرتے رہتے ہیں۔بلی اس جواب سے کافی مطمئن ہوئی کہ ہمیں سوچنا چاہیے۔
اس کہانی کو ہم تمثیلی کہانی شمار کر سکتے ہیں۔بلی ایک عاقل انسان کا استعارہ ہے جو اپنی زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے جبکہ کتا، چڑیا اور بیل صرف مادی ضروریات کو مدنظر رکھنے والے افراد ہیں۔الو عقل و دانش کا استعارہ ہے جو سوچنے کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔اگر اس کہانی کو ایک تمثیل پہ محمول کیا جائے تو یہ ایک اصلاحی کہانی ہے جس میں بچوں کو جانوروں کی مثال دے کر سوچ و بچار کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔
(5)چار اطخ چار بطخ ،فرزانہ روحی اسلم:
یہ تمثیل ایک جانور کہانی پہ مبنی ہے۔تمثیل کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہمارا قدرتی ماحول کیوں بگڑ رہا ہے اور اس بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے؟کہانی میں چار بطخیں دکھائی گئی ہیں۔جب وہ پانی میں تیرتی ہیں تو انہیں وہاں کا پانی گندا اور بدبودار ملتا ہے۔وہ آبی اور زمینی آلودگی سے بہت پریشان ہوتی ہیں ایسے میں ان کے پاس ایک عجیب مخلوق آتی ہے۔عجیب مخلوق بطخوں کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدام اٹھاتی ہے۔اور بطخوں کو آلودہ پانی کی جگہ صاف شفاف پانی مہیا کردیا جاتاہے۔اس کے علاوہ وہ عجیب مخلوق اس آلودگی کا ذمہ دار انسان کو ٹھہراتی ہے اور ایک دن اسے جال کی مدد سے پکڑ لیتی ہے اور بطخوں کو کہتی ہے:’’تم فکر مند نہ ہو، دنیا میں گندگی اور بد صورتی پھیلانے والوں کو اب ہم پکڑ کر لے جائیں گے، تاکہ انہیں دنیا میں رہنے کے رنگ ڈھنگ سکھا سکیں۔‘‘
(6)تدبیر ،علی اکمل تصور:
یہ تمثیل بھی ایک جانور کہانی پہ مبنی ہے۔اس کا مرکزی خیال مثنوی مولانا روم جلد اول سے ماخوذ ہے۔ مولانا روم کا انداز یہ ہے کہ وہ قصہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اسباق اور باریک نکتوں کے بیان میں مشغول ہو جاتے ہیں اس لیے ان کے ہاں ایک قصہ کی تکمیل بہت طوالت لے جاتی ہے. مثنوی مولانا روم جلد اول میں یہ قصہ شعر نمبر 975 سے شعر نمبر 1375 تک (صفحہ نمبر 41 تا 58) مبسوط ہے۔قصہ یہ ہے کہ ایک جنگل میں جانوروں نے شیر سے عہد کیا کہ ہم روزانہ ایک جانور آپ کی خدمت میں پیش کردیا کریں گے، آپ شکار کی زحمت نہ کیا کریں۔کیوں کہ جب آپ شکار کے لیے نکلتے ہیں تو کئی جانور زخمی ہوتے ہیں اور کئی ایک جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس معاہدے کے بعد جانور روزانہ قرعہ اندازی کرتے اور جس کے نام قرعہ نکلتا اسے شیر کے پاس بھیج دیا جاتا۔
ایک دن خرگوش کے نام قرعہ نکلا۔ اس نے ایک ترکیب سوچی۔ وہ شیر کے پاس تاخیر سے پہنچا۔جب شیر نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ راستے میں ایک اور شیر بیٹھا ہوا ہے اور وہ آپ کو بادشاہ بھی نہیں مانتا۔شیر غصے سے پاگل ہو گیا اور اس کا پتہ پوچھا تاکہ اسے سزا دے سکے۔خرگوش نے اپنے منصوبے کے تحت شیر کو ایک پرانے کنویں کا پتہ بتایا۔ شیرنے وہاں پہنچ کر کنویں میں جھانکا تو وہاں اسے اپنا عکس نظر آیا۔شیر نے اسے اپنا مخالف شیر سمجھ کر کنویں میں چھلانگ لگا دی اور یوں مظلوم جانوروں کی خرگوش کی چالاکی کی وجہ سے جان چھوٹ گئی۔
پیش نظر کہانی میں علی اکمل تصور کا اسلوب الگ ہے۔انہوں نے اس میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔اس کہانی کے مطابق جس دن قرعہ خرگوش کے نام نکلا تو اس کے دوست کچھوے نے کہا کہ آج تمہاری جگہ میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چل پڑے۔راستے میں کچھوے نے کہا کہ تم شیر کو بہلا پھسلا کر کنویں تک لے آؤ میں اسے غصہ دلاؤں گا، یوں وہ کنویں میں چھلانگ لگا کر مر جائے گا۔ خرگوش نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس نے ویسے ہی کیا جیسے کچھوے نے کہا تھا۔اس طرح ان کی جان شیر سے چھوٹ گئی۔اس تبدیلی کے باوجود یہ ایک ماخوذ کہانی ہی ہے لیکن ماخوذ ہونے کی تصریح موجود نہیں ہے۔اس تمثیل کے ذریعے عقل کے استعمال کی تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ ایک مشہور مثل ہے کہ جوان کی قوت بازو سے بوڑھے کا مشورہ زیادہ طاقت رکھتاہے۔
(7)نیلی بطخ کی کہانی،شعیب خان:
یہ ایک جانور کہانی ہے۔ایک جنگل میں نیلی بطخ رہتی ہے۔اس کا رنگ ڈھنگ دیگر بطخوں سے الگ تھلگ ہوتا ہے۔ایک دن ایک بوڑھا توتا اسے بتاتا ہے کہ تم خاص بطخ ہو اور تم نے غریب انسانوں کی مدد کرنی ہے۔بطخ پہلے تو اس بات کو مذاق میں ٹال دیتی ہے مگر توتا اسے بتاتا ہے کہ تم خاص بطخ ہو۔تم سونے کے انڈے دو گی۔تم ہر سال میں تین انڈے دو گی۔ان میں سے ایک انڈا جنگل میں دینا اور باقی دو انڈے کسی غریب کے گھر دینا اور یہ غریب تمہیں شیشم کے درخت کے نیچے ملیں گے۔یہ کہہ کر توتا اڑ جاتا ہے۔اگلے دن بطخ پہلا انڈا دیتی ہے اور اسے چھپا دیتی ہے۔اس کے بعد وہ شیشم کے درخت کے پاس جاتی ہے تو وہاں ایک غریب آدمی اداسی کی حالت میں بیٹھا ہوتا ہے۔وہ بطخ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے اور اسے پکڑ لیتا ہے۔بطخ اس کے گھر جا کر دو انڈے دیتی ہے اور وہ غریب آدمی امیر بن جاتا ہے۔اس دوران اسے وہی توتا ملتا ہے اور اسے واپس جنگل جانے کا کہتا ہے۔بطخ غریب کی مدد کر کے بہت خوشی محسوس کرتی ہے اور واپس جنگل چلی جاتی ہے۔اس تمثیل میں یہ سبق دیاگیا ہے کہ اپنے پیسوں سے غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔
(8)لنگڑا مونی،سمیرا انور:
یہ تمثیل غرور کا سر نیچا کے مرکزی خیال پہ مبنی ہے۔مونی ایک شرارتی چوزہ ہے۔وہ ہروقت کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے۔اس کی ماں بی مرغی نے اسے کئی بار اسیسمجھایالیکن اس پہ کوئی اثر نہیں پڑا۔روزانہ اس کے ہمسائے اس کی شکایت لگاتے مگر مونی تو غرور اور تکبر میں مبتلا ہوتا ہے۔وہ اپنی پھرتی اور طاقت پہ مغرور ہوتا ہے۔لہذا وہ شکایت لگانے والوں کو بھی مارتا پیٹتا ہے، تب وہ مظلوم اسے بددعا دیتے ہیں لیکن مونی ان کا مذاق اڑاتا رہتا ہے۔ایک روز قدرت کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور ایک شکاری کتا اس پہ حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی ٹانگ توڑ دیتا ہے یوں اسے تکبر اور ظلم کی سزا مل جاتی ہے۔

(9)پریشانی کا علاج، حنیف رامے:
یہ تمثیل عقل و دانش کی اہمیت نمایاں کررہی ہے۔اس تمثیل میں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہر فیصلہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔کہانی یہ ہے کہ جنگل کا بادشاہ شیر بوڑھا ہو جاتاہے۔اس کے دو بیٹے ہوتے ہیں جو جڑواں ہوتے ہیں۔شیر چاہتا ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو بادشاہت سونپ دوں لیکن کس کو؟؟وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا۔آخر کار اسے الو ایک ترکیب بتاتا ہے۔ترکیب یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے دونوں بیٹوں کو ہمسایہ ملک پہ چڑھائی کے لیے بھیج دیتا ہے۔ہمسایہ ملک کا بادشاہ چونکہ بہت زیادہ ظلم کر رہا ہوتا ہے اس لیے وہاں کے جانور بھی اس کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔دونوں بھائی بہادری سے لڑتے ہیں اور ظالم شیر کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔اس موقع پر بوڑھا شیر سامنے آتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اب مجھے یہ پریشانی نہیں رہی کہ میں اپنی بادشاہت اپنے کس بیٹے کو دوں۔اب ہمارے پاس دو ملک ہیں۔یہ کہہ کر شیر ایک بیٹے کو ہمسایہ ملک کی بادشاہت دے دیتا ہے جبکہ دوسرے کو اپنی بادشاہت سونپ کر سرخ رو ہو جاتاہے۔
(10)جنگ ، علی اکمل تصور:
یہ ایک جانور کہانی ہے۔کہانی میں جنگل کا منظر پیش کیا گیا ہے۔شیر جانوروں پہ پے در پے حملے کرنا شروع کر دیتا ہے۔سبھی جانور مشورہ کرتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔تب وہ جنگل چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور راتوں رات دریا کے اس کنارے پر آباد ہوجا تے ہیں۔اب وہ شیر سے تو محفوظ ہوتے ہیں لیکن ان کا باہمی اتفاق و اتحاد ٹوٹ جاتا ہے۔وہ آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں۔اس نا اتفاقی کی نحوست سے قحط سالی ہوجاتی ہے اور بہتا ہوا دریا بھی خشک ہو جاتا ہے۔دریا کے خشک ہوتے ہی ان کا سابقہ دشمن شیر ان پر حملہ کر دیتا ہے۔تب ایک بزرگ جانور انہیں اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔سب جانور اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور یوں وہ شیر کو مار بھگاتے ہیں۔اس تمثیل کہانی میں مصنف نے اتحاد و اتفاق کے فوائد و ثمرات بیان کیے ہیں۔
(11)بھالو کی سالگرہ ،تسنیم شریف:
یہ ایک خوب صورت تمثیلی کہانی ہے۔اس کہانی میں بغیر ریاکاری کے غریبوں کی مدد کا سبق دیا گیا ہے۔اس کہانی میں جو جانور دکھائے گئے ہیں ان میں ننھابھالو،پنٹو بندر،بھالو کی امی اور پنٹو کی امی شامل ہیں۔پنٹو اور بھالو دوست ہیں۔بھالو کی سالگرہ پہ پنٹو کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں ہوتے۔یہ بات بھالو کی امی سن لیتی ہیں۔وہ چپکے سے پنٹو کے لیے کپڑے خرید کر اس کے گھر کے باہر رکھ دیتی ہیں۔یوں کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور پنٹو اپنے دوست کی سالگرہ پر خوشی خوشی چلا جاتا ہے۔

(12)دل سے نکلی دعا،خلیل جبار:
یہ تمثیل دعا کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ دعا مانگنے کا طریقہ بھی سمجھا رہی ہے۔اس تمثیلی کہانی میں مرکزی کردار مونی ہے۔مونی ایک ننھی چڑیا ہے۔وہ اپنے والدین کے ساتھ جنگل میں رہتی ہے۔جنگل میں کچھ عرصے سے بارشیں نہیں ہو رہیں جس کی وجہ سے قحط سالی ہوتی ہے اور اس علاقے سے بہت سارے پرندے بھی ہجرت کر جاتے ہیں۔مونی بھی چاہتی ہے کہ وہ یہاں سے کہیں اور ہجرت کر جائیں لیکن اس کے والدین اس بات پر راضی نہیں۔ایک روز مونی گھر سے باہر ہوتی ہے کہ ایک چیل اس پہ حملہ آور ہوتی ہے
وہ اس سے بچنے کے لیے ادھر اُدھر پناہ ڈھونڈھتی ہے اور دل سے دعائیں بھی کرتی ہے۔اس کی جان مشکل سے بچ پاتی ہے۔شام کو جب وہ یہ واقعہ اپنے والدین کو سناتی ہے تو اس کی چڑیا امی کہتی ہیں کہ بیٹی تم نے دل سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں چیل سے بچا لیا کیوں کہ دل سے نکلی دعا فورا قبول ہوتی ہے۔اب تم نے سچے دل سے قحط سالی کے خاتمے اور بارش کے لیے دعا کرنی ہے۔چڑیا کی بات سن کر مونی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔پھر مونی نے اللہ تعالیٰ پہ توکل کرتے ہوئے دعا کی۔کچھ دیر بعد ہی بارش شروع ہوگئی۔مونی نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔بارش کی وجہ سے جنگل ہرا بھرا ہو گیا اور ہجرت کر کے جانے والے چرند پرند بھی واپس آگئے یوں مونی کا جنگل پہلے کی طرح پر رونق ہو گیا۔
(13)میاؤں بلی ،محمد ابراہیم:
یہ ایک مختصر سی تمثیلی کہانی ہے۔اس تمثیلی کہانی میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوست سوچ سمجھ کر بنائے جائیں۔جب مرغی بلی کو دوست بناتی ہے تو اس پہ بے حد بھروسہ کرتی ہے۔ایک دن مرغی کہیں جارہی ہوتی ہے تو وہ اپنے بچوں کو بلی کے پاس چھوڑ جاتی ہے۔بلی کی حیوانی خصلت جاگ جاتی ہے اور وہ مرغی کے بچوں پہ حملہ آور ہو جاتی ہے۔عین اسی وقت مرغی آجاتی ہے اور وہ اپنے بچوں کو بچا لیتی ہے۔اس دن کے بعد مرغی دوست بنانے میں محتاج ہو جاتی ہے۔
(14)گلہری کا جذبہ،نعمان فاروق:
یہ تمثیلی کہانی ہے۔اس کہانی میں ایثار کا سبق پنہاں ہے۔ایک بار موسم سرما میں شدید برفباری ہوتی ہے۔سب جانور اپنے جمع شدہ اناج کے سہارے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے ہوتے ہیں۔گلہری کے گھر کے ساتھ ہی چوہوں کا گھر ہوتا ہے۔گلہری روزانہ چوہوں کے بچوں کی رونے کی آوازیں سنتی ہے۔اس نے جب چوہیا سے رونے کی وجہ معلوم کی تو اس نے بھوک کا بتایا۔چونکہ اس نے اناج جمع نہیں کیا ہوتا اس لیے ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔گلہری ایثار کرتے ہوئے اپنا اناج چوہوں کو دے دیتی ہے۔جب برف باری تھمتی ہے اور جانور باہر نکلتے ہیں تو انہیں گلہری مردہ حالت میں ملتی ہے۔
(15)ننھا پانڈا، سمیرا انور:
یہ تمثیلی کہانی بچوں کو حفظانِ صحت کے اصول سمجھا رہی ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک پانڈا ہے۔وہ صبح سویرے سیر کے لئے جاتا ہے۔ اس کی امی اسے کہتی ہیں کہ میں تمہارے لیے کھانا بنا رہی ہوں لہذا تم جلدی سے گھر آجانا۔ لیکن وہ جنگل میں جا کر کر بیٹھ جاتا ہے اور مٹی کے ساتھ کھیلنے لگ جاتا ہے۔کھیلنے کے ساتھ ساتھ وہ مٹی کھانے لگتا ہیجس سے اس کے پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے۔اب اسے حکیم ہرن کے پاس لے جایا جاتا ہے جو اس کا علاج کرتا ہے اور اسے تلقین کرتا ہے کہ وہ آئندہ مٹی نہ کھائے۔
(16)ماں جیسی،علی اکمل تصور:
یہ تمثیلی کہانی ممتا کی عظمت کو اجاگر کر رہی ہے۔اس کہانی میں دو چڑیا مرکزی کردار ہیں۔تاشی اور کمیلی۔تاشی کمیلی کو دیکھتی ہے کہ وہ ندیدوں کی طرح دانہ دنکا چن رہی ہے۔وہ کمیلی کے اس انداز کو ناگواری سے دیکھتی ہے۔اگلے روز کمیلی نے پھر وہی روش اختیار کی کہ جلدی جلدی دانے چگے اور پھررر سے اڑ گئی۔اب تاشی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ اگر کمیلی نے یہی طریقہ اختیار کیا تو وہ اسے ضرور سبق سکھائے گی۔اگلے روز دانہ دنکا چگتے وقت تاشی نے کمیلی پہ حملہ کر دیا۔کمیلی کا پوٹا دانوں سے بھرا ہوا تھا۔اسے کھانسی آئی اور سارے دانے باہر نکل آئے۔یہ دیکھ کر کمیلی ہائے میرے بچے،ہائے میرے بچے کہتی کہتی اڑ گئی۔تب کمیلی کی ماں نے اسے سمجھایا کہ بعض اوقات کسی کو نامناسب حالات میں کچھ ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو کہ بظاہر درست نہیں ہوتے لیکن ان حالات میں ان کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔لہذا ہمیں ہر کسی کو اپنے نقطہء نظر سے نہیں چانچنا چاہیے بلکہ دوسروں کا نقطہء نظر بھی سننا چاہیے۔تاشی بہت شرمندہ ہوتی ہے وہ کمیلی سے معافی مانگ لیتی ہے اور کمیلی اسے معاف کر دیتی ہے۔
(17)کوئی آئے گا,،عبدالرشید فاروقی:
یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔یہ کہانی ایک پرندے کی زبانی پیش کی گئی ہے۔اس کہانی میں پرندہ ایک بے بس مسلمان کا استعارہ ہے۔کہانی نگار نے دکھایا ہے کہ جیسے ایک بے بس پرندہ مظلوموں کی مدد کا عزم کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے یہ موقع عنایت کر دیتے ہیں۔لہذا ہمیں بھی خود کو بے بس سمجھ کر صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ حسب توفیق مظلوموں کی مدد کرنی چاہیے۔اس کہانی میں کشمیر کے مظالم پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ایک پرندہ درخت پہ بیٹھا ہوتا ہے اور ظالم فوج کے ایک نہتے ماں بیٹے پر کیے جانے والے تشدد کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔پرندہ اس ظلم پہ افسردہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہے کہ کاش اسے ابابیل جیسی طاقت مل جائے تو وہ ان ظالموں کا قلع قمع کر دے۔
ایک روز پرندہ دوبارا یہی ظلم ہوتے دیکھتا ہے تو اب اس سے رہا نہیں جاتا۔وہ فوجیوں پہ حملہ آور ہوتا ہے۔فوجیوں کی توجہ پرندے کی طرف ہو جاتی ہے۔فوجی پرندے کو نشانہ بناتے ہیں۔فائر پرندے کے پروں کو لگتا ہے اور وہ گر جاتاہے۔اسی اثناء میں اس کی نظر ان مظلوموں پہ پڑتی ہے جو تیزی سے بھاگ کر فرار ہورہے ہوتے ہیں۔پرندہ بہت سکون محسوس کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ مظلوم ظلم و زیادتی سے بچ جاتے ہیں۔
(18)ناشکرا کوا ،خلیل جبار:
یہ تمثیلی کہانی شکر کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔تمثیل میں جو کہانی پیش کی گئی ہے وہ یوں ہے کہ ایک کوا اپنے سیاہ رنگ کو ناپسند کرتا ہے۔ایک دن وہ مور کو دیکھتا ہے تو اس کی خوب صورتی دیکھ کر حیران رہ جاتاہے۔اسے ان سے حسد ہونے لگتا ہے۔وہ اپنی ماں سے مور کی خوب صورتی کا ذکر کرتا ہے تو اس کی ماں اسے سمجھاتی ہے کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس لیے اللہ تعالٰی کی کسی تخلیق کو برا نہیں کہنا چاہیے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ایک دن ایسا ہوا کہ کوا شکاری کے جال میں پھنس گیا۔کوے کو لگا کہ اس کی زندگی ختم ہو جائے گی لیکن جب شکاری نے ایک کوے کو جال میں پھنسے دیکھا تو اسے خوب برا بھلا کہا کہ تجھ بدصورت کو پکڑ کر میں کیا کروں گا اور اسے آزاد کردیا۔کوے نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جس بدصورتی کو میں عذاب سمجھتا تھا آج اسی کی بدولت مجھے آزادی ملی ہے۔اس نے آئندہ کے لیے نا شکری سے توبہ کر لی۔
(19)احساس ،سید عثمان عبداللہ:
یہ بھی ایک تمثیلی کہانی ہے۔اس کہانی میں محنت کا سبق دیا گیا ہے۔کہانی ایک قید چڑیا کی ہے۔قیدی چڑیا جب آزاد پرندوں کو دیکھتی ہے تو ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے۔کہانی نگار قیدی چڑیا سے بات چیت کرتا ہے اور اس کی اداسی کی وجہ پوچھتا ہے۔چڑیا بتاتی ہے کہ اگرچہ مجھے یہاں بنا کسی تگ و دو کے صبح شام اچھا کھانا مل رہا ہے لیکن جو مزا محنت کرکے کھانے میں ہے وہ بیٹھ کر کھانے میں نہیں۔کہانی نگار چڑیا کی یہ باتیں سن کر اپنی زندگی پہ نظر دوڑاتا ہے تو اسے ندامت کا احساس گھیر لیتا ہے کیوں کہ وہ بھی بنا محنت کے بے کاری کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔چڑیا کی باتوں سے اس کا ضمیر جاگ جاتاہے اور وہ قیدی چڑیا کو آزاد کر کے محنت کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
(20)ایکا، مہ جبین تاج ارزانی:
یہ تمثیلی کہانی اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے۔کہانی میں منکو نامی شریر بندر کی دم درخت کی شاخ کے ساتھ بری طرح پھنس گئی۔وہ درد کے مارے چیخنے چلانے لگا۔اسے تکلیف میں دیکھ کر سبھی جانور اکٹھے ہو گئے اور اس کی دم کو شاخ سے نکالنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔بلآخر تانی چوہے کی مدد سے شاخ کو کاٹا گیا اور منکو کی جان چھوٹی۔اس کہانی میں جانوروں کے باہمی اتفاق اور احساس ہمدردی کو اُجاگر کرکے بچوں کو اخلاقی سبق دیا گیا ہے۔

(21)نافرمانی کی سزا ، ملک محمد احسن:
یہ بھی ایک تمثیلی کہانی ہے۔اس کہانی میں غرور کا انجام دکھایا گیا ہے۔افریقہ کے جنگل میں جمبو نامی ایک ننھا ہاتھی چیونٹیوں کو نقصان پہنچاتا رہتا۔اس کی ماں اسے کئی بار سمجھا چکی تھی لیکن اس کے کان پر جوں بھی نہ رینگتی۔ادھر چیونٹیاں بھی جمبو کی وجہ سے سخت پریشان تھیں۔ایک دن انہوں نے جمبو کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔جیسے ہی جمبو چیونٹیوں کو کچلنے آیا ،چیونٹیاں اس کی سونڈ میں گھس گئیں۔اوراسے کاٹ کاٹ کر ادھ موا کر دیا۔ہاتھی شدید زخمی حالت میں چیخنے چلانے لگا،تب اس کی ماں اسے گھر لے گئی۔اس واقعے کے بعد ہاتھی نے غرور سے توبہ کر لی اور چیونٹیوں کو نقصان پہنچانا بند کر دیا۔
(22)ایک تھی چڑیا، ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی:
یہ تمثیل کہانی ان ماؤں کے لیے سبق آموز ہے جو اپنے بچوں کو توجہ نہیں دیتیں۔بچہ اپنی ماں سے توجہ اور محبت چاہتا ہے۔جب یہ توجہ اور محبت اسے ماں سے نہیں ملتا تو وہ بھی ماں کو اس کا مقام ومرتبہ نہیں دیتا۔کہانی میں ایک بے پروا چڑیا کو دکھایا گیا ہے جو اپنے انڈے ہاتھی کو سونپ جاتی ہے۔ہاتھی انڈوں کا بے حد خیال رکھتا ہے۔جب بچے نکلتے ہیں تو چڑیا بچے لینے آجاتی ہے۔ہاتھی کہتا ہے کہ تم ان بچوں سے پوچھ لو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔بچے تو ہاتھی سے مانوس ہوتے ہیں اور اسے ہی اپنی ماں سمجھتے ہیں لہذا وہ چڑیا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
(23)نیولے کی غلطی،جاوید بسام:
یہ تمثیلی کہانی حسد کے انجام کو نمایاں کر رہی ہے۔حسد کرنے والا صرف اپنی نیک نامی اور نیکیاں جلاتا ہے۔اس کے علاوہ اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔اس کہانی میں بھی ایک مختصر سا واقعہ پیش کیا گیا ہے جس میں ایک نیولہ ایک گلہری سے حسد کرتا ہے۔وہ اس کی ترقی اور تیز رفتای دیکھ کر جلتا بھنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ ایک سانپ کے ذریعے اسے مروانے کی منصوبہ بندی کرتاہے لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ادھر گلہری کو نیولے کے حسد کا پتہ چلتا ہے تو اسے دکھ ہوتا ہے۔وہ نیولے کے پاس جا کر کہتی ہے کہ تم مجھ سے حسد کرتے ہو حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ تمھاری صلاحیتیں تو مجھ سے بھی زیادہ ہیں۔تم زمین میں گہرے بل بنا سکتے ہو ،سانپ کو مار سکتے ہو،تیز دوڑ سکتے ہو۔تمھیں چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانو اور ان میں اضافہ کرو ۔گلہری کی باتیں سن کر نیولے کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ گلہری سے معافی مانگ لیتا ہے۔
(24)کربھلا ،ہو بھلا ، ماہ نور میمن:
یہ تمثیلی کہانی ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا سبق دے رہی ہے۔چڑیا اور کوئل پڑوسی ہیں۔ایک بار کوئل بیمار ہوتی ہے تو چڑیا اس کی عیادت کرتی ہے،اسے کھانا پہنچاتی ہے۔جب کوئل تندرست ہو جاتی ہے تو چڑیا اس کی دعوت کرتی ہے۔دعوت والے دن کوئل چڑیا کے گھر جاتی ہے تو اسے ایک چیل نظر آتی ہے۔چیل چڑیا کے بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے لیکن کوئل کی بروقت مدد سے چڑیا کے بچے بچ جاتے ہیں۔یوں کوئل احسان کا بدلہ احسان سے دیتی ہے۔
(25)کوکی اور مومی ،سمیرا انور:
یہ تمثیلی کہانی بھی حسد اور جھوٹ کی مذمّت پہ مبنی ہے۔کہانی میں کوکی کوئل کو پیش کیا گیا ہے جو جنگل میں ہردلعزیز ہے۔اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے سب اس کے گرویدہ ہیں۔ایک دن جنگل میں مومی نامی چڑیا اپنا گھر بنا کر آباد ہوتی ہے۔وہ بہت خوب صورت ہوتی ہے لیکن جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ سب جانور کوکی کے ساتھ ہیں تو وہ جھوٹ کا سہارا لے کر کوکی کی عزت خاک میں ملانے کا منصوبہ بناتی ہے۔ایک دن شدید طوفان آتا ہے اور بہت سارے پرندوں کے گھونسلے اڑ جاتے ہیں۔کوکی اپنی بہن پنکی کی مدد کے لیے چلی جاتی ہے۔اس کے جانے کے بعد مومی سارے جانوروں سے یہ جھوٹ بولتی ہے کہ کوکی اس مشکل وقت میں ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی ہے۔سارے جانور کوکی سے بدگماں ہو جاتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد انہیں حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اور وہ مومی کے جھوٹ کو جان جاتے ہیں۔جب مومی کا راز فاش ہوجاتا ہے تو وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جنگل سے نودو گیارہ ہوجاتی ہے۔
(26)بھنورا اور بھونڈ،راکب راجہ:
یہ تمثیلی کہانی اچھے اور برے دوست کی پہچان اجاگر کر رہی ہے۔کہانی ایک بھنورے کی ہے جو طوفان میں دور جا گرتا ہے اور اپنے باغ سے دور ہو جاتا ہے۔وہ راستہ بھٹک چکا ہوتا ہے۔ایسے میں اسے ایک بھونڈ ملتا ہے۔یہ ایک بے وضع کیڑا ہوتا ہے جو گندگی کا رسیا ہوتا ہے۔بھنورا اسے اپنا ہم شکل سمجھ کر اپنا دوست بنا لیتا ہے۔لیکن وہ یہ دیکھ کر ششدرہ رہ جاتاہے کہ بھونڈ گوبر میں گھس کر گوبر کا رس چوس رہا ہوتا ہے۔وہ اسے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے لیکن بھونڈ نہیں رکتا۔یہ تو اس کی روزمرہ کی غذا ہوتی ہے۔وہ دونوں اکٹھے سفر کرتے رہتے ہیں ۔پھر بھنورے کو اپنا باغ نظر آجاتا ہے اور وہ اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔جب بھنورا واپس اپنے گھر جاتا ہے تو وہ ساری کہانی اپنے والدین کو سناتا ہے۔اس کے والدین اسے سمجھاتے ہیں کہ ہر ہم شکل ہم عمل نہیں ہوتا لہذا دوست بنانے سے پہلے اس کی عادات دیکھ لینی چاہئیں۔
5۔ سہ ماہی ادبیات اطفال کی مزاحیہ کہانیاں:
ہنسی علاجِ غم ہے۔ہنسنا مسکرانا انسانی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔صبح سے شام تک مختلف کاموں میں الجھے ہوئے انسان کی زندگی ایک مشین کی مانند ہو جاتی ہے اور وہ ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے،اس لیے اسے مسرت، شادمانی اور خوشی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔انسان یہ خوشی بہت سے ذرائع سے حاصل کر سکتا ہے۔انہی خوشی فراہم کرنے والے ذرائع میں سے ایک ذریعہ مزاحیہ ادب بھی ہے۔مزاح کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے معاشرے کے ناہموار رویوں کی اصلاح ہلکے پھلکے انداز میں مزاح اور طنز کے اسلوب میں بات کر کے کی جاتی ہے کہ یہ طریقہ زیادہ نافع رہتا ہے۔مزاح نگار کئی طریقوں سے مزاحیہ عناصر پیدا کرتاہے۔ان میں سے کچھ مشہور طریقے یہ ہیں:
(1)موازنہ:
دو چیزوں کا آپس میں موازنہ کرکے ان کی مشابہت اور تضاد کی کیفیات سامنے لا کر مزاح کی صورت پیدا کرنا۔جیسے اونٹ اور گائے کا موازنہ کرکے قارئین کے لیے ہنسی مزاح کے عناصر پیدا کرنا۔اونٹ اور گائے میں جانور ہونا ان کی مشابہت ہے اور ان کی ساخت،بناوٹ اور افعال میں تضاد ہے۔ یا دوگاڑیوں کے چلنے کا موازنہ کر کے ان میں مشابہت اورتضاد کی کیفیات کو اُجاگر کرنا وغیرہ۔
(2)لفظی ہیر پھیر:
یہ مزاح کا ایک اور عنصر ہے۔اس طریقہ میں مزاح نگار تحریر میں ذومعنی الفاظ کا استعمال کرتا ہے یا الفاظ کا تکرار کرتاہے اور اس سے مزاحیہ پہلو نکالتا ہے جیسے: ’’میاں ،لگن کو لگن سے پکڑے رکھو کہیں گر نہ جائے۔‘‘
اس میں ایک لگن برتن ہے جبکہ دوسرے لگن سے مراد شوق و دل چسی ہے۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے مزاح پیدا کرنے کے زمرے میں پیروڈی اور تحریف بھی ایک اہم طریقہ ہے جس کے ذریعے الفاظ کے ردوبدل سے مزاح پیدا کیا جاتاہے۔فیض کی ایک غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:۔

تمھیں کیا بتائوں کہ کیا ہے
شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

اب ان اشعار کی جو پیروڈی پطرس بخاری نے کی ہے ،وہ دیکھیں:

تمھیں کیا بتاؤں کہ کیا ہے
سگ راہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا گزرنا
اگر ایک بار ہوتا

(3) مزاحیہ واقعہ نگاری:
یہ طریقہ بہت عام ہے۔اس میں مزاح نگار کوئی مزاحیہ واقعہ پیش کرتاہے اور اس سے ہنسنے کا سامان پیدا کرتاہے۔جیسے مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ سے مضمون’’ اور آنا گھر میں مرغیوں کا‘‘ میں مرغیوں کے گھر میں اودھم مچانے کے ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:۔
’’ایک دن موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔تھکا ماندہ بارش میں شرابورگھر پہنچا تو دیکھا کہ تین مرغے میرے پلنگ پر ہیں۔سفید چادر پر جا بجا اپنجوںکے تازہ نشان ہیں۔البتہ میری قبل از وقت واپسی کے سبب جہاں جہاں جگہ خالی رہ گئی وہاں سفید دھبے نہایت بدنما معلوم ہورہے تھے۔میں نے ذرا درشتی سے سوال کیا:ــ’’آخر یہ گلا پھاڑ پھاڑ کے کیوں چیخ رہے ہیں؟بولیں:’’آپ تو خواہ مخواہ الرجک ہو گئے ہیں۔یہ بے چارے چونچ بھی کھولیںتوآپ سمجھتے ہیںکہ مجھے چڑا رہے ہیں؟‘‘میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔دل نے کہا ’’بس بہت ہوچکا،آئو آج دوٹوک فیصلہ ہو جائے۔اس گھر میں اب یا تو یہ رہیں گے یا میں‘‘میں نے بپھر کر کہا۔ان کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو بھرآئے۔ہراساں ہو کر کہنے لگیں’’مینہ برستے میں آپ کہاں جائیں گے؟‘‘(48)
(4) مزاحیہ کردار نگاری:
اس طریقہ میں مزاح نگار کوئی کردار تخلیق کرتاہے اور اس کے واقعات کے ذریعے مزاح پیدا کرتا ہے۔بچوں کے ادب میں اس طریقہ کو سب سے زیادہ آزمایا گیا۔اس ضمن ہم چچا چھکن کے کردار کو بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔چچا چھکن بچوں کے لیے پہلا مزاحیہ کردار تھا۔اس کے بعد بیسیوں کردار سامنے آئے۔ذیل میں ہم چند کرداروں کا ذکر کرتے ہیں۔
1۔ چچا چھکن از امتیاز علی تاج
2۔اول جلول از محمد یونس حسرت
3۔ چچا حیرت از ادریس قریشی
4۔ ماموں ملال از ضیاء اللہ محسن
5۔ چچا تیز گام از محمد فہیم عالم
6۔ چچا خوش باش از عبدالرشید فاروقی
7۔کاشان(جن بچہ) از عبدالرحمن ابدالی
8۔ تایا ناتواں از محمد شعیب مرزا
9۔میاں وہمی از محمد توصیف ملک
10۔ واحد بھائی از محمد نوشاد عادل
ان مزاحیہ کہانیوں کے ذریعے بچوں کے چہرے پر شگفتگی اور مسکراہٹ کے پھول سجتے ہیں اور بچے لطف لیتے ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی بچوں کے لیے مزاحیہ کہانیاں موجود ہیں،آئیے ان کہانیوں کا جائزہ لیں:۔
(1)ایک مزے دار مشاعرہ ،احمد حاطب صدیقی:
یہ سہ ماہی ادبیات اطفال کی پہلی مزاحیہ تحریر ہے۔اسے معروف شاعر احمد حاطب صدیقی نے لکھا ہے۔کہانی میں ایک بچہ خواب کے دوران سبزیوں کا مشاعرہ دیکھتا ہے،جہاں مختلف پھل اور سبزیاں اپنا اپنا کلام پیش کر رہی ہیں۔کہانی کچھ یوں ہے کہ اسامہ ایک طالب علم ہے جو نہم جماعت میں پڑھتا ہے۔اس کے ابو پھل اور سبزیاں بیچتے ہیں۔اسامہ ہر صبح ابو کے ساتھ سبزی منڈی جاتا ہے اور پھلوں اور سبزیوں کی خریداری میں ابو کی مدد کرتا ہے۔ایک رات وہ سبزیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے سوتا ہے تو ایک خواب دیکھتا ہے۔ اسی خواب میں اسے سبزیوں اور پھلوں کا مشاعرہ سننے کو ملتا ہے۔اس مشاعرے میں سبزیاں اور پھل شعراء کی صورت میں متجسم ہو کر اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔اس مزاحیہ مشاعرے کا کچھ حصہ ملاحظہ فرمائیں۔ذیل میں پیاز کے اشعار ہیں:۔

مری داستان قیمت وہ سنا سنا کے روئے
مجھے گھر منگوانے والے، مجھے گھر منگا کے روئے
مجھے ساتھ لائے وہ خوش خوش دکان سے مکاں تک
جو چھری سے مجھ کو کاٹا، تو کچن میں جا کے روئے

اس کے بعد آلو کے شعر دیکھیں:۔

مرا بستر ہے مٹی، ریت، بالو
ہے مجھ میں خاکساری، میں ہوں آلو
نہیں سالن کباب اور چپس پر بس
بناتے ہیں مرا بھرتا کچالو(49)

یہ دل چسپ مشاعرہ بارہ صفحات پہ مشتمل ہے۔اس میں مختلف سبزیوں اور پھلوں کی شاعری موجود ہے۔
(2)میاں وہمی ،معظمہ تنویر:
بچوں کا مزاحیہ ادب اگرچہ کمی کا شکار رہا ہے لیکن یہ رجحان کسی نہ کسی صورت میں باقی رہا ہے۔ماضی میں ادیب بچوں کو مزاح فراہم کرنے کے لیے مزاحیہ کردار تخلیق کرتے تھے جیسا کہ حاجی بغلول، چچا چھکن وغیرہ۔ دور حاضر میں بھی ایسے کئی خوب صورت کردار پیش کیے جا رہے ہیں۔ میاں وہمی بھی ایسا ہی مزاحیہ کردار ہے ۔میاں وہمی ایک ایسا کردار ہے جو ہر وقت وہم کرتا رہتا ہے۔اسے بہت سارے وہموں نے گھیر رکھا ہے۔مثلاً ایک دن انہیں یہ وہم لاحق ہو جاتاہے کہ کہیں گھر میں چور نہ آجائیں۔ایک بار وہ دن کو سو رہے تھے کہ انہیں وہم ہوا کہ چارپائی کے نیچے چور ہے۔وہ اٹھے اور نیچے جھانکا اگلے ہی لمحے وہ بے ہوش ہو چکے تھے۔ہوش آنے پر پوچھا گیا کہ کیا دیکھا تھا؟۔ کہنے لگے ایک منحوس چور تھا۔گھر والوں نے چارپائی کے نیچے سے پڑا آئینہ نکال کر ان کے سامنے کیا اور پوچھا یہی تھا؟موصوف حیرت سے بولے۔ہاں یہی تھا، پکڑا گیا منحوس۔اس کہانی میں ایسا ہی واقعاتی مزاح ہے۔ یہ ایک عمدہ مزاحیہ کہانی ہے۔اس کہانی کا ایک دل چسپ پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:
’’میاں وہمی کے بارے میں آپ کو ایک اور بات بتائیں کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں اتنے محتاط ہیں کہ صحت ہی برباد کر لی ہے۔ مثلاً وہ دودھ بالکل نہیں پیتے،وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ گرم دودھ کے پینے سے ان کی زبان پر چھالا پڑ گیا تھا۔اس لیے اب تو وہ چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔کسی کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا نہیں کھاتے بلکہ عین حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق پنا کھانا خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کوئی اور کھا لے تو اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑ سکتا ہے۔‘‘(50)
دیکھیے اس کہانی میں ایک وہمی آدمی کے مختلف بے بنیاد اوہام کو طنزو مزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کہانی کا مطالعہ جہاں بچوں کے لبوں پر تبسم بکھیرے گا وہیں وہ اس قسم کے اوہام سے بھی دور ہوں گے۔
(3)آئس کریم لٹیرے ،مہ جبین تاج ارزانی:
یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔اس میں بچپن کی ایک شرارت بیان کی گئی ہے۔کہانی نگار نے ایک لڑکے مبشر کے اوپر بیتنے والا واقعہ پیش کیا ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دن اسکول میں انگریزی کے معلم چھٹی پر تھے۔اس دوران ایک آئس کریم والے کی آواز آئی تو بچے مبشر کا بیگ لیے بھاگے کیوں کہ انہیں علم تھا کہ اس میں پیسے ہیں۔جلد ہی سب بچے مبشر میاں کے پیسوں پر عیاشی کرتے نظر آ رہے تھے کہ اچانک ہیڈ ماسٹر صاحب آ پہنچے۔سب بچوں نے اپنی اپنی آئس کریم نیچے پھینک دی۔اس کے بعد سب کو خوب ڈانٹ پڑی اور کمرہ بھی صاف کرنا پڑا۔اس کہانی میں واقعاتی مزاح پیش کیا گیا ہے۔اس کہانی کا ایک منظر دیکھیے:
’’اچانک بائیں جانب سے ہیڈماسٹر صاحب کا غصے میں اسٹرابیری فلیور کی طرح سرخ چہرہ نمودار ہوا۔سب گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔گھبراہٹ میں، افشاں نے فرزانہ کے بستے میں آئس کریم ڈال دی تو علی نے افشاں کے بستے میں۔ساجد نے ناہید کے جیومیٹری بکس میں آئس کریم چھپادی،ناہید نے ساجد کی ڈیسک کے اندر رکھ دی۔طاہرہ نے دوپٹے کے اندر آئس کریم والا ہاتھ کر لیامینگو فلیور کے پیلے رنگ نے اس کی یونیفارم کو پیلا کر ڈالا۔کسی نے میز کے نیچے رکھ دی تو کسی نے فرش پرپھینک کر اس پر جوتا رکھ دیا،آئس کریم پھینک کر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا ، کیونکہ ہیڈ ماسٹر صاحب سب کو رنگے ہاتھوں پکڑ چکے تھے۔‘‘(51)
یہ اس کہانی کا سب سے مزاحیہ منظر ہے۔بچوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے بچنے کی پوری کوشش کی لیکن یہ شرارت کیسے چھپ سکتی تھی لہذا ان سب کو خوب ڈانٹ پڑی۔
(4)چچا حیرت کا حلوا،محمدادریس قریشی:
محمدادریس قریشی بچوں کے ادب کے معروف مزاح نگار ادیب ہیں جو کئی عشروں سے بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔ چچا حیرت ان کا لافانی کردار ہے۔اس کردار پہ ان کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس کہانی میں بھی ان کا مزاحیہ کردار چچا حیرت بچوں کو ہنسا رہا ہے۔کہانی یوں ہے کہ چچا حیرت نے انڈوں کا حلوا بنانے کی ٹھانی اور نصف درجن انڈے لے کر گھر پہنچے۔ان کے ساتھ عیدا اور شیدا بھی تھے۔یہ دونوں ان کے دوست تھے۔چچا نے انہیں اپنے لذیذحلوہ بنانے کے قصے سنا سنا کر اپنا گرویدہ بنا لیا۔اب انہوں نے دوستوں کو بیٹھک میں بٹھایا اور خود حلوا بنانے لگے۔حلوا بنانے کے دوران دروازے پر دودھ والا پیسے لینے آن پہنچا تو چچا اس کے ساتھ لمبی چوڑی بحث میں مصروف ہو گئے،جب واپس آئے تو حلوا کوئلہ بن چکا تھا۔چچا بہت افسردہ ہو گئے کیوں کہ اب عیدا اور شیدا نے ان کا خوب مذاق اڑانا تھا۔اچانک دروازہ بجا اور ایک بچہ خیرات کا حلوا لیے آ پہنچا۔چچا نے وہ حلوا پکڑا اور عیدا اور شیدا کے سامنے لاکر رکھ دیا۔پھر چچاکے ساتھ ساتھ شیدا اور عیدا بھی خیرات والا حلوا کھانے لگے تبھی چچا بولے:
’’حیرت ہے، کمال ہے، یہ تو بہت مزے کا ہے۔یقیناً ان کے ہاں گوالا سوجی بھوننے کے وقت میں نہیں آیا ہوگا۔‘‘
یہ ایک مزے دار کہانی ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اچانک باہر سے دروازے پر دستک ہوئی۔وہ باہر گئے تو دروازے پر دودھ والا کھڑا تھا۔’بابو جی آج تو پیسے لے کر ہی جاؤں گا،ورنہ دودھ نہیں دوں گا۔‘ارے کم بخت تمھاری بھابی کہیں گئی ہیں،پیسے ان کے پاس ہیں۔لہذا کل لے لینا۔دودھ نہیں دو گے تو ہم حلوے کے بعدچائے کیسے پئیں گے۔چچا بولے ۔’جی ہاں،کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑا ہی رہتا ہے،چلیں دودھ لے لیں ،کل سے آگے نہیں جانے دوں گا‘۔وہ بولا۔دودھ لے کر چچا اندر آئے تو کچھ جلنے کی بو آئی :’’او میرے خدا!! سوجی تو کافی جل چکی ہے۔‘‘(52)
اس کہانی میں حلوا بنانے کا ایک عام سا موضوع ہے لیکن کہانی نگار نے اس میں بھی مزاحیہ پہلو نکال لیے ہیں۔یقینا اس میں مصنف کا کمال ہے۔
(5)بلی نہیں ملی،معظمہ تنویر:
یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔کہانی یہ ہے کہ منی کی بلی گم ہو گئی۔اسے چاروں طرف ڈھونڈا گیا مگر بلی نہیں ملی۔ منی کا کزن کامی اسے بہت سمجھاتا ہے مگر منی بلی کی جدائی میں مسلسل روتی رہتی ہے۔آخر ایک دن کامی صبح سویرے منی کے گھر پہنچ کر ایک تھیلا لہرا کر کہتا ہے کہ تمہاری بلی مل گئی۔منی بلی کو دیکھتی ہے تو اس کا رنگ، نقش نین سب کچھ اپنی بلی جیسا لگتا ہے لیکن اس کی آواز بدلی ہوئی ہوتی ہے۔کامی کہتا ہے کہ بلی تمہاری جد ائی میں روتی رہی ہے اس لیے اس کی آواز بھی بدل گئی ہے اور عادات میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اب یہ چوہے بھی کھا جاتی ہے۔منی یہ سن کر کچھ پریشان ہوتی ہے کیوں کہ اس کی بلی پہلے تو ایسے نہیں کرتی تھی۔لیکن پھر بھی وہ خوش تھی کہ اس کی بلی واپس تو مل گئی ہے۔اس دل چسپ صورت حال کو کہانی میں ملاحظہ فرمائیں:
’’تمہاری بلی مل گئی،اب لاؤ میرا انعام ۔منی نے جھٹ تھیلے سے بلی نکالی تو خوشی سے دیوانی ہوگئی۔یہ تو سچ مچ اس کی مسٹی تھی۔وہی گہری سبز آنکھیں،کھڑے نوکیلے کان ،ملائم کھال اور اس پر تین کالی دھاریاں،ویسی ہی گپھے دارصرف اس کا میاؤں میاؤں کرنے کا انداز کچھ بھدا تھالیکن کامی نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ منی کی جدائی میں رورو کر بلی کا گلہ بیٹھ گیا ہے،جو چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔انعام کی رقم پانے کے بعد کامی نے سب کو اپنی بہادری کا قصہ سنانا شروع کیا کہ کس طرح اس نے ظالم کتوں کے چنگل سے بلی کو چھڑایااور سب کو مار بھگایا۔‘‘(53)
منی بلی پاکر بہت خوش تھی اور بقول کہانی نگار رونے والا انجن بھی خاموش تھا۔اب وہ بلی کو نہلانا چاہتی تھی مگر کامی اسے منع کر دیتا ہے۔آخر دو چار دن بعد منی بلی کو نہلاتی ہے تو یہ راز کھلتا ہے کہ کامی نے کسی اور بلی پہ رنگ کر کے اسے منی کی بلی جیسا بنا دیا ہے۔یہ دیکھ کررونے والا انجن دوبارہ اسٹارٹ ہو جاتاہے۔ وہ’’ پھک پھک پھکا پھک‘‘ رونا شروع کر دیتی ہے ایسے میں وہاں کامی پہنچ جاتا ہے۔اس نے ایک نئی اور خوب صورت بلی اٹھا رکھی ہوتی ہے۔ نئی بلی اگرچہ منی کو بہت پسند آتی ہے لیکن وہ پرانی بلی کو یاد کرکے روتی ہے کہ بلی نہیں ملی۔
(6)انکل بد حواس،عاطف حسین شاہ:
یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔اردو ادب اطفال میں چچا چھکن کے بعد ان جیسے کئی مزاحیہ کردار تخلیق ہوئے۔انکل بدحواس بھی انہی میں سے ایک ہے۔اس کردار پہ پہلے معروف ادیب خلیل جبار بھی چار پانچ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔اس کہانی میں ایک عام سا واقعہ ہے جس سے مزاح پیدا کیا گیا ہے۔انکل بد حواس اسم با مسمی ہیں۔انہیں ہر کام کے دوران بدحواسی گھیرے رہتی ہے۔ایک روز وہ صبح سویرے بیدار ہو کر آنا فانا تیاری کرتے ہیں اور موٹر سائیکل کو کک مار کر شہر کی راہ لیتے ہیں۔راستے میں موٹر سائیکل پنکچر ہو جاتی ہے تو انکل بدحواس بس پہ لٹکتے ہوئے شہر جا پہنچتے ہیں۔وہاں پہنچ کر وہ رکشے والے کو کچہری جانے کا کہتے ہیں۔رکشے والا قدرے حیران ہوتا ہے اور انکل بد حواس پہ یہ خوفناک انکشاف کرتاہے کہ آج تو کچہری میں ہفتہ وارچھٹی ہے۔یہ سن کر انکل بد حواس بے ہوش ہوتے ہوتے بچتے ہیں اور پھر واپس گھر کی طرف چل دیتے ہیں۔ان کی بدحواسی کا ایک منظر کہانی نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں:
’’انکل بد حواس چوں کہ موٹر سائیکل کی سواری کر رہے تھے،اس لیے وہ ہوا کے تھپیڑوں میں قدرے سکون محسوس کر رہے تھے۔اسی سکون کی کیفیت میں انکل بدحواس پر وجدان طاری ہونے لگا۔یہ وجدان اس قدر بے ساختہ تھاکہ ان کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔اب وہ مسلسل جھول رہے تھے۔اچانک ان کے کانوں سے ایک لڑکھڑاتی ہوئی آواز ٹکرائی:’’لالہ جی ٹائر پھاڑنے کا ارادہ ہے کیا؟‘‘انکل بدحواس نے ماتھے پرسلوٹوں کی رونق چہرے پر بکھیرتے ہوئے بریک لگائی اور جھک کر ٹائر کی جانب دیکھا۔ٹائر کی پنکچر شدہ حالت دیکھ کر انہیں اپنی وجدانی کیفیت کا سبب معلوم ہو گیا۔‘‘(54)
(7)اس کے بعدکیا ہوا؟الطاف حسین:
یہ بھی ایک مزاحیہ کہانی ہے۔ اس کہانی میں لفظی اور واقعاتی مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ کہانی میں بدنام زمانہ ٹیم’’فتو الیون‘‘کے کرکٹ میچ کی روداد بیان کی گئی ہے۔کہانی میں مرکزی کردار’’ہم‘‘کے صیغے میں موجود ہے اور اپنی روداد بیان کر رہا ہے۔مرکزی کردار کرکٹ کے کھیل سے بالکل نابلد ہے لیکن اس پہ کرکٹ کھیلنے کا جنون سوار ہے۔وہ محلے کے معروف کرکٹر استاد ساجد سے کرکٹ سکھانے کی التجاء کرتاہے۔استاد ساجد اسے پہلے کرکٹ کی تھیوری سمجھاتے ہیں اور اس کے بعد پریکٹیکل۔
کچھ دنوں بعد محلے میں دو ٹیموں کے مابین میچ ہوتا ہے جس میں مرکزی کردار کو بھی شامل کر دیا جاتاہے۔وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ کسی طرح سے اس کا بلا گیند کو چھو جائے مگر ایسا نہیں ہوتا،ہاں البتہ گیند اسے اس زور سے چھو جاتی ہے کہ وہ جبڑا تھامے نظر آتا ہے۔انجام کار فتو الیون یہ میچ بری طرح سے ہار جاتی ہے۔اس میچ کا ایک منظر دیکھیے جو کہ حد درجہ مضحک ہے:
’’چند منٹ کے بعد کھیل دوبارہ شروع ہوا۔اسی جبڑا توڑ بولر نے ہم پر دوسرا حملہ کیا۔ہم نے بایاں گھٹنا کریز پر ٹیک کر گیند کو کھیلنے کی کوشش کی، لیکن گیند بیٹ پر آنے کے بجائے براہ راست ہمارے سینے پر آلگی۔تڑررررن تڑررررن تڑررررنکی آوازیں سنائی دیں، اور ہمارے دائیں بائیں فیلڈنگ کرنے والوں نے ہمیں حیرت بھرے انداز میںدیکھا، اور ہم شان بے نیازی سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے دشمنوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم کوئی معمولی بلے باز نہیں،پورے بندوبست کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔اب انھیں یہ تو نہیں بتا سکتے تھے کہ سینے پر بندھی ٹرے کے باعث اللہ نے ہمیں مرنے سے بچا لیا تھا۔‘‘(55)
اس کے علاوہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جنہیں پڑھتے ہی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔وہ الفاظ اور فقرے دیکھیے:
(1)’’وکٹ کیپر نے نعرہ تکلیف بلند کیا۔‘‘
(2)’’گیند ناقابلِ دست درازی فیلڈراں کے لیبل کے ساتھ باؤنڈری کی طرف اڑ گئی۔‘‘
(3)’’ہم نے جلدی جلدی گگلی کی طرح اچھلتے دل کو کھیلنے پر آمادہ کیا۔‘‘
یہ کہانی اردو ادب اطفال کے مزاحیہ گوشے میں ایک شان دار اضافہ ہے۔
(8)جب میں ننھا سا تھا،شوکت تھانوی:
شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا۔ان کی وجہ شہرت ان کے مزاحیہ کالم بنے تھے۔تاہم انہوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا ہے۔یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔اس کہانی میں مصنف نے ایک ننھے منے بچے کی آپ بیتی پیش کی ہے۔بچہ بتاتا ہے کہ وہ بچپن میں کہانی سنتا تھا کہ بادشاہ کا مرغا انار اور اخروٹ کھاتا ہے تو اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی تھی کہ میں بھی مرغا بن جاؤں۔لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک مرغے کو ذبح کر کے کھایا جارہا ہے تب میں نے مرغا بننے سے توبہ کر لی۔ایک دن باجی انار کھا رہی تھیں کہ میرا جی للچایا،میں نے باجی کو کہا کہ پرانے دور میں بادشاہ اپنے مرغوں کو انار کھلایا کرتے تھے۔آج آپ بھی بادشاہ بن جائیں اور مرغے کو انار کھلائیں۔باجی نے میری بات حیرت سے سنی اور بولی:لیکن مرغا کہاں ہے؟دوسرے ہی لمحے میں مرغا بن گیا۔باجی انار پھینکتی گئیں اور میں مرغا بن کر انار چٹ کرتا گیا۔اس کہانی میں واقعاتی مزاح ہے۔یہ کہانی ننھے منے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔
(9)چچا چھکن نے جھگڑا چکایا،امتیاز علی تاج:
چچا چھکن ادب اطفال کا اولین مذاحیہ کردار ہے۔یہ کردار اگرچہ انگریزی ادب کے انکل پوجر کی کہانیوں سے ماخوذ ہے تاہم امتیاز علی تاج کے قلم نے انہیں نیا وجود بخشا ہے۔چچا چھکن ہمارے معاشرے کا ہی ایک غیر معمولی فرد نظر آتا ہے۔اس کی جھلاہٹیں،حماقتیں اور مکاریاں اردو ادب اطفال میں خاص چیز ہیں۔اس کہانی میں بھی چچا محلے کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔لیکن ان کی کوششوں سے جھگڑا ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔اس کہانی میں سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’چچا کرتے کے بٹن لگاتے ہوئے باہر نکلے، دیوان خانے میں پہنچ کر آرام کرسی پر دراز ہو گئے،ٹانگیں سمیٹ کر اوپر دھر لیں۔بولے میںحاضر ہوں،فرمائیے کیا بات ہوئی؟سارا واقعہ بیان کیجیے لیکن مختصر طورپر۔مولوی صاحب اور خان صاحب دونوں کی تیوری چڑھی ہوئی تھی،منہ پھلائے لال لال آنکھوں سے ایک اس طرف ایک اس طرف تک رہا تھا۔چچا کا تقاضا سن کر دونوں کے دونوں کچھ کسمسائے مگرچپ کے بیٹھے رہے۔میر صاحب نے مہر سکوت توڑی:حضرت بات تو اصل میںبڑی معمولی تھی۔چچا نے کہا آپ تمہید کو جانے دیجیے،مطلب کی بات کہیے۔‘‘(56)
اس کے بعد چچا نے دونوں ہمسایوں کا جھگڑا سنا۔جھگڑا یہ تھا کہ خان صاحب نے مولوی صاحب پہ یہ الزام لگایا کہ وہ اپنے گھر کی کھڑکی سے ان کے گھر میں جھانک کر مستورات کو دیکھتے ہیں۔مولوی صاحب اس پہ قسم کھاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔چچا چھکن دونوں کو ناقابلِ عمل مشوروں سے نوازتے ہیں اور بالآخر جھگڑے کا اختتام مزید جھگڑے پر ہوتا ہے اور اس کوشش میں چچا کو بھی ایک عدد تھپڑ رسید کیا جاتا ہے۔ملاحظہ کریں:
’’چچا بولے:یہ ہاتھا پائی ٹھیک نہیں۔خان صاحب نے میر صاحب کو دھکیلا تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے جا لگے۔چچا نے ہاتھ پکڑنا چاہا تو ایک زناٹے دار تھپڑ انہیں بھی رسید کیا۔میر صاحب تو چپکے کھڑے رہ گئے۔چچا دو قدم پیچھے ہٹ کر بولے:’’ہائی یو‘‘لیکن خان صاحب کس کی سنتے ہیں،مولوی صاحب کو گردن سے پکڑ کر دھکیلتے ہوئے باہر نکل گئے۔‘‘(57)
یہ کہانی گیارہ صفحات پر مشتمل ہے۔اتنی طویل کہانی چھوٹے بچوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔یہ کہانی ہائی طبقہ کے بچوں کیلئے مناسب ہے۔
(10)منوں میاں کی تصویر،پروفیسر عفت گل:
اس کہانی میں واقعاتی مزاح ہے۔منوں میاں گھر بھر کے لاڈلے ہیں۔ایک بار ان کے اسکول والوں نے ایک تصویر مانگی۔اب منوں میاں کی امی نے انہیں تیار کرایا تاکہ تصویر بنائی جا سکے لیکن منوں میاں تو پورے گھر کے لاڈلے تھے اس لیے انہوں نے ہر موقع پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں یوں ان کا تصویر بنانا ایک مشکل مسئلہ بن گیا۔آخرکار بڑے جتن کر کے ان کی تصویر بنی ۔تصویر بننے کی یہ دل چسپ کہانی کئی صفحات پر مشتمل ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’بیٹا سیدھے بیٹھ جاؤ،ادھر دیکھو کیمرے کی طرف۔بابا نے کہا۔منوں میاں یہ کیا بدتمیزی ہے۔تم سب کوتنگ کر رہے ہو۔سامنے دیکھوکیمرے کی طرف۔ماما نے انہیں ڈانٹا۔آپ کیوں غصہ کررہی ہیں۔منوں میاں نے انہیں پوچھا اور رونے لگے۔’’ارے بیٹی اسے کچھ مت کہو۔میں اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ہمارا بیٹا تو بہت پیارا ہے،کہنا مانتا ہے،ہے نہ بیٹا؟ادھر سامنے دیکھو شاباش ‘‘دادا جان نے کہا۔آپ کو پارک لے کر چلیں گے۔پارک کا نام سن کر منوں میاں فوراً کرسی سے اتر پڑے۔سب کو ہنسی آ گئی۔‘‘(58)
اس کہانی میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ بچوں کو ہمیشہ پیار سے سمجھانا چاہیے۔یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔
7۔ سہ ماہی ادبیات اطفال کی جاسوسی کہانیاں:
جرم وسزا پہ مشتمل کہانیاں جن میں قانون کی بالادستی دکھائی جائے اور مجرموں کو پکڑنے کی روداد پیش کی جائے جاسوسی کہانیاں کہلاتی ہیں۔یہ سب جاسوسی کہانیوں کا مرکزی خیال ہوتا ہے۔ عموماً جاسوسی کہانیوں میں کسی بھی قسم کا جرم مثلاً چوری، اغوا، ڈاکا، قتل، اور تخریب کاری کا منصوبہ دکھایا جاتا ہے اور پھر کسی خیر کے کردار کے ذریعے اس شر کی طاقت کو شکست دلوائی جاتی ہے۔سعید لخت نے انسپکٹر سعید کے کارنامے لکھے اور غلام رسول زاہد صاحب نے اپنی پولیس سروس کے دوران پیش آنے والے واقعات کو کہانیوں کا رنگ دیا۔ بچے اپنی فطری عادت سے مجبور ہو کر کھوج و کرید کے متمنی ہوتے ہیں اس لیے جاسوسی کہانیاں انہیں بطور خاص پسند ہوتی ہیں۔ بچوں کے معروف ادیب اشتیاق احمد نے بچوں کا اسلام میں سرور مجذوب کے قلمی نام سے سینکڑوں جاسوسی کہانیاں لکھی ہیں۔
اردو میں جاسوسی یا سری ادب کاباقاعدہ آغاز تراجم سے ہوتا ہے۔اس سے پہلے ہماری داستانوں میں تجسس،سراغ رسانی اور باریک بینی سے کھوج و کریدکے آثار ملتے ہیںجو کہ جاسوسی کہانیوں کا خاصہ ہیں۔لیکن اردو ادب میں خالص جاسوسی کہانیاں تراجم کی صورت میں منظر عام پر آئیں۔ان تراجم میں مغربی کہانیوں کو اردو قالب میں اس طرح ڈھالا گیا کہ ان کی مغربی فضاکو اپنے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا۔مثال کے طور پر ہیرو کا نام انگریزی تھا تو اس کا نام اپنے ہاں رائج ناموں پر رکھ دیا گیا۔اس ضمن میں ظفر عمر وہ پہلے مترجم ہیں جنہوں نے ’’نیلی چھتری‘‘ کے عنوان سے ایک جاسوسی ناول ترجمہ کیا۔اور اس ناول کے ہیرو’’آرسین لوپن‘‘ کا نام تبدیل کرکے بہرام رکھا۔
مرزا حامد بیگ تراجم پر کافی تحقیقی کام سپرد قلم کر چکے ہیں،انہوں نے ظفر عمر کے تراجم کے بارے میں لکھا ہے:۔
’’ظفرعمر خودمحکمہ پولیس سے متعلق تھے۔1937عیسوی میں ریٹائر ہوئے۔انھوں نے مارس لیبلانک کے فرانسیسی زبان کے ناول کو’ نیلی چھتری‘ کے عنوان سے ترجمہ کرنے کے بعدخود جاسوسی ناول لکھے، اور اپنے دیکھے بھالے جرائم پیشہ افراد کی نفسیات اور ان کی عیاریوںکو بڑی مہارت سے پیش کیا۔‘‘(59)
ظفر عمر کے ساتھ ایک اور نام فیروزدین مراد بھی لیا جاتا ہے ۔یہ دونوں ہم عصر ہیں اور دونوں نے جاسوسی ناولوں کے تراجم کیے ہیں۔اس کے علاوہ منشی تیرتھ رام فیروزپوری نے بھی سینکڑوں جاسوسی ناولوں کے تراجم کیے۔مرزا ہادی رسوا جواپنے ناول ’’ امرائو جان اد‘‘ا کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں،نے بھی ماری کوریلی کے کچھ جاسوسی ناول ترجمہ کیے۔بعد میں ابن صفی نے طبع زاد جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے۔انہیں جاسوسی ادب کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ابن صفی کے بعد اشتیاق احمد نے بے شمار جاسوسی ناول لکھے۔ابن صفی کی وفات کے بعد ان کے ناولوں کے کرداروں پر بہت سارے مصنفوں نے لکھا۔ان مصنفین میں سے مظہر کلیم ایم اے اور ظہیر احمد کو کافی شہرت ملی۔جاسوسی کہانیاں بھی جاسوسی ناولوں کی طرح ہوتی ہیں۔فرق صرف طوالت کا ہے کہ ناول طویل ہوتا ہے اور کہانی مختصر۔
’’جاسوسی کہانیوں سے مراد ایسی کہانیاں ہے جن میں سراغرسانی،پیچیدہ الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی مہم جوئی اور جرم وسزا پہ مشتمل کہانیاں ہوں۔‘‘
ڈاکٹر احسن فاروقی نے بھی جاسوسی ناول کی اس سے ملتی جلتی تعریف پیش کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔
’’ایک قسم کے ناول اور بھی ہیں جنمیں کوئی بھید ہوتا ہے،کوئی ایسا رازجن کا انکشاف مختلف طریقوں پر ناول کے پورے قصے کے ذریعہ ہوتاہے ایسے ناول کو جاسوسی ناول (detective novel)کہا جاتا ہے۔‘‘(60)
جاسوسی کہانی میںدرج ذیل خصوصیات ہونی چاہیئں:۔
٭تجسس اور سسپنس سے بھرپورپلاٹ
٭اعلی صلاحیتوں کے حامل کردار
٭جوش وولولہ سے معمور بیانیہ
٭فکاہیہ و مزاحیہ مکالمے
سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی جاسوسی کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔ان کی تفصیل ذیل میںپیش کی جارہی ہے۔پہلی جاسوسی تحریردودھ والا ہے۔یہ کہانی ندیم اختر کی لکھی ہوئی ہے۔یہ ایک جاسوسی کہانی ہے۔اس میں سراغ رسانی کا ایک واقعہ پیش کیا گیا ہے۔سراغ رساں دو لڑکیاں عبیرہ اور افرا ہیں۔کہانی نگار نے ان دو کرداروں کا تعارف کہانی میں یوں پیش کیا ہے:
’’سکول میں چاہے تقریری مقابلہ ہو یا ڈرائنگ،پی ٹی شو ہو یا کوئز مقابلے،دونوں کی جوڑی بہت مقبول تھی۔اسکول میں ان کے بہت سے کارنامے بھی مشہور تھے۔جیسے ایک بار انہوں نے لنچ چور پکڑے تھے۔جو طالبات کے بیگوں سے لنچ بکس چرا کر غائب ہو جاتے تھے۔‘‘(61)
عبیرہ اور افرا کے ساتھ ان کے گھر کے دیگر افراد بھی شامل ہیں۔عبیرہ گروپ لیڈر ہیاور اس گروپ کا نام ’’مشن سکوارڈ‘‘ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ان کے محلے میں دودھ فراہم کرنے والا گوالا دودھ میں پانی اور کیمیکل ملا کر انہیں بیمار کر رہا ہوتاہے۔ عبیرہ افرا لوگوں نے اس کے گاؤں کا پتہ کرایا اور وہاں جا پہنچے۔گاؤں کے چوہدری حاکم ان بچوں کے رشتہ دار بھی تھے اس لیے انہیں کوئی مشکل نہ ہوئی۔وہ دودھ والے کے گھر پہنچے تو وہاں مصنوعی طریقے سے دودھ بنایا جا رہا تھا۔اس طرح بچوں کی کوشش سے مضر صحت دودھ کی فروخت رک گئی۔اور ایک مجرم بے نقاب ہو گیا۔اس کہانی میں دلچسپی اور تجسس کے عناصر موجود ہیں:
’’ارے یہ تو مشن اور بھی آسان ہوگیا۔عبیرہ خوشی سے بولی۔۔گھر کی چار دیواری چھوٹی تھی۔جسے پھلانگنا آسان تو نہیں لیکن مشکل بھی نہیں تھاگاؤں کی راتیںاندھیری ہوتی ہیں۔اندھیرا مکمل چھا چکا تھا۔شکیل ان میں چونکہ سب سے بڑا تھا،اس نے ہی دونوں ہاتھ دیوار کی منڈیرپر رکھا اور ایک جھٹکے سے وہ دیوار کے اوپر تھا۔اسے اندر کودنے کی ضرورت نہیں پڑی کیوں کہ سامنے ہی لالٹین کی روشنی میں کیمیکل کی بوریاں،واشنگ پاؤڈر اور کوکنک آئل کے ٹین پڑے تھے۔‘‘(62)
یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔کہانی میںپلاٹ ،واقعات اور تجسس بدرجہ اتم موجود ہے۔
دوسری کہانی ’’قتل کا معما‘‘نامی ہے۔یہ کہانی اعظم طارق کوہستانی نے لکھی ہے۔یہ سراغ رسانی پہ مشتمل کہانی ہے۔اس کہانی میں بدیسی جاسوسی کہانیوں جیسا رنگ غالب ہے۔ لیکن یہ کہانی ترجمہ یا ماخوذ نہیں ہے۔یہ ایک طبع زاد جاسوسی کہانی ہے۔ کہانی یہ ہے کہ میڈیکل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نذیر کی ہلاکت ہوجاتی ہے۔وقوعہ یوں پیش آتا ہے کہ ایک مجرم چوری کی نیت سے نزیر کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور نذیر کی مداخلت پر اسے خنجر مار کر بھاگ جاتا ہے۔اس وقوعے کیوقت نذیر کا روم میٹ یونس موجود ہوتا ہے۔وہ نذیر کو ایمرجنسی میں ہسپتال لے جاتا ہے لیکن وہ دم توڑ دیتا ہے۔
عمار سلجوقی ایک پولیس آفیسر ہے۔وہ اس کیس کی تفتیش کرتا ہے۔وہ جلد ہی چور کو پکڑ لیتا ہے۔چور اعتراف کرتا ہے کہ اس نے نذیر کو خنجر مارا تھا لیکن اس نے پھیپھڑوں میں مارا گیا خنجر نہیں نکالا تھا جبکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق خنجر نکلا ہوا تھا۔اور میڈیکل رپورٹ کی رو سے پھیپھڑوں میں لگا ہوا خنجر نکالنا بہت مہلک ثابت ہوا اور مریض دم توڑ گیا۔ عمار سلجوقی کا شک یونس کی طرف جاتا ہے کہ پھپھڑوں میں لگا خنجر اسی نے نکالا ہوگا۔وہ اس نکتے پر تفتیش کرتاہے، تب یہ راز کھلتا ہے کہ یونس نذیر سے خار کھاتاتھا اور اکثر دونوں کے درمیان تلخی بھی ہوتی رہتی تھی اس لیے یونس نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور نزیر کے پھیپھڑوں میں لگا ہوا خنجر نکال دیا جس سے اس کی جلدی موت ہوگئی۔کہانی کے اس اہم موڑ کو کہانی نگار نے یوں پیش کیا ہے:
’’اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔خنجر نذیر کے پھیپھڑوں میں اتر چکا تھااور میڈیکل کا طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے ،کہ پھیپھڑے میں لگا خنجرنکال لینا خنجر نہ نکالنے سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔میڈیکل کی رو سے ایسی حالت میں خنجر نکال لیا جائے تو زخمی فوراً مرجاتا ہے لیکن اگر خنجر کو آپریشن کے ذریعے نکالا جائے تو زخمی کے بچنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔‘‘(63)
تفتیش کے دوران یونس بھی اعتراف کر لیتا ہے کہ اس رات اس نے جان بوجھ کر نزیر کے پھیپھڑوں میں لگا ہوا خنجر نکال دیا تھا۔جس سے وہ جلدی دم توڑ گیا۔اگر یونس خنجر نہ نکالتا تو نزیر بچ جاتا۔یوں یونس کی میڈیکل کی تعلیم بجائے مفید ہونے کے مہلک ثابت ہوئی اور نذیر سے کیے جانے والے حسد نے اسے مجرم بنا دیا۔یہ ایک اچھی کہانی ہے۔اس میں جدید معلومات کے ساتھ ساتھ تجسس کے عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔
تیسری جاسوسی کہانی ’’تم نے اچھا نہیں کیا‘‘ہے۔یہ عبدالرشید فاروقی کی لکھی ہوئی ہے۔یہ ایک جاسوسی کہانی ہے۔اس کہانی میں عبدالرشید فاروقی نے اپنے تخلیق کردہ جاسوس کرداروں دانی، مانی اور شانی کو پیش کیا ہے۔یہ تینوں کردار نوعمر بچے ہیں اور نجی طور پر جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے رہتے ہیں۔اس کہانی میں بھی وہ اپنے دوستوں کے بلانے پر ان کے گھر آتے ہیں اور یہ پتہ چلاتے ہیں کہ نانی جان کا پان دان کس نے اور کیوں چھپایا ہے۔کہانی ایک گھر سے متعلقہ ہے۔گھر میں کچھ شریر بچے اپنی نانی سے کچھ پیسے مانگتے ہیں۔نانی انہیں پیسے نہیں دیتیں،تب وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح نانی اماں کی پیسوں والی تھیلی اڑا لیں مگر نانی اماں تھیلی ہر وقت اپنے ساتھ چپکائے رکھتی ہیں۔اب شریر بچے ایک پلان بناتے ہیں۔وہ نانی اماں کا پان دان چرا کر اسے باغ میں ایک جگہ دفن کر دیتے ہیں۔اب نانی بہت پریشان ہوتی ہے۔بچے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب نانی اماں پیسوں والی تھیلی سے دور جائیں اور انہیں پیسے چرانے کا موقع ملے لیکن انہیں یہ موقع ملتا ہی نہیں۔
اس موقع پر دانی، شانی اور مانی جاسوس بن کر معاملہ سلجھانے آ جاتے ہیں۔دوران تفتیش مالی بابا انہیں بتاتا ہے کہ آج صبح ایک بچہ باغ میں زمین کھود رہا تھا لیکن میں نے توجہ نہیں دی۔وہ مطلوبہ جگہ پہنچتے ہیں تو وہاں پان دان چھپا ہوتا ہے۔تب انہیں بچوں کے منصوبے کا پتہ چلتا ہے۔وہ نانی جان کو ساری بات سے آگاہ کردیتے ہیں۔اب بچے سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں اور نانی اماں ان کی اس حرکت پر انہیں کہہ رہی ہوتی ہیں کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔اس کہانی میں ایک عام سا واقعہ ہے لیکن مصنف نے اسے خاص جوڑ توڑ سے پیش کیا ہے جس سے یہ بہت پرتجسس ہو گیا ہے۔کہانی کے پلاٹ کی کمزوری عمدہ مکالمہ نگاری اورمزاح نگاری نے دور کردی ہے۔اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’لڑکو!!!لگتا ہے اس بوڑھے نے ہی میرا پا ن د ان چرایا ہے۔‘‘امی آپ مالی بابا پر بلاوجہ الزام لگا رہی ہیں۔وہ آپ کا پان دان کیوںچرائیں گے بھلا؟۔اس لیے کہ اسے میرے پان کھانے سے چڑہے۔وہ تنک کر بولیںچڑ تو مجھے بھی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ آپ کی چور میں بھی ہو سکتی ہوں۔امی نے برا سا منھ بنایا۔بالکل تو ہوسکتی ہیں۔دانی نے جلدی سے کہا تو انھوںنے اسے بری طرح گھورا۔‘‘(64)
اگلی کہانی کا عنوان ’’جھکے سر‘‘ ہے۔یہ کہانی بھی دانی، مانی اور شانی کے جاسوسی کارنامے کی ایک کڑی ہے۔اس کہانی میں دانی برادرز اپنے محلے کی کرکٹ ٹیم میں چھپے ان کھلاڑیوں کا راز افشاء کرتے ہیں جو میچ فکسنگ کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔یہ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو مخالف ٹیم سے پیسے لیتے ہیں اور جان بوجھ کر ہار جاتے ہیں۔اگرچہ کہانی میں تجسس کی کمی ہے لیکن چونکہ یہ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی ہے اس لیے اس میں شامل مزاح، جوڑ توڑ اور کرداروں کی نوک جھونک اسے دل چسپ بناتی ہے۔کہانی اس وقت زیادہ دل چسپ ہوجاتی ہے جب چچا عبداللہ نامی ایک کردار موبائل فون سے تصاویر بنا کر جاسوسی عمل کا حصہ بنا ہوا ہے۔اس کہانی کا اقتباس دیکھیں:۔
’’ان کے موبائل میںسلیم کا موبائل نمبر ایک ثبوت ہے۔باقی یہ رہے۔عبداللہ چچانے اپنا موبائل سب کے سامنے کردیا۔ایک فوٹو تھی جس میں ایک لڑکا دروازے سے کان لگائے کھڑا تھا۔’’اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ یہ تو واقعی سلیم کا ملازم ہے۔راجونے حیرت سے کہا۔اب یہ آوازیں بھی سن لیں ۔شانی نے اپنے موبائل کا بٹن دباتے ہوئے کہا۔ڈرائنگ روم میں بچوں کی آوازیں گونجنے لگیں،بچے بھی وہ سب باتیں بتا رہے تھے جو شانی پہلے ہی بتا چکا تھا،تینوں کے جھکے سر اور جھکتے چلے گئے۔پھر ان کی آنکھیں بہنے لگیں۔‘‘ (65)
یہ ایک نئے موضوع پہ مبنی جاسوسی کہانی ہے۔
’’توتے کا اغوا‘‘ کے عنوان سے سید محمود حسن نے ایک کہانی لکھی ہے۔کہانی یہ ہے کہ تنویر صاحب کے پاس ایک ایسا توتا ہے جو تین زبانوں میں باتیں کرتا ہے۔اس کا نام ٹیٹو ہے اور یہ فلپائن سے خریدا گیا ہے۔ اس کا چاروں طرف چرچہ ہے اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے ہیں۔توتے کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جہاز، ریل گاڑی اور سائرن جیسی آوازیں بھی نکال لیتا ہے۔تین چور بالا، کالا اور فجو اس توتے کی تاڑ میں ہوتے ہیں۔آخر کار ایک دن وہ تنویر صاحب کے گھر میں گھس کر توتا چوری کر لیتے ہیں۔توتا شور مچا مچا کر ان کے سر میں درد کر دیتا ہے۔رات کو جب سارے چور سو رہے ہوتے ہیں تو توتا پولیس کے سائرن جیسی آوازیں نکالتا ہے۔چور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں کہ شاید پولیس آگئی ہے۔وہ سب بھاگ کر ایک ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔اس دوران بہت سے لوگ انہیں یہ کہتے ہوئے پکڑ لیتے ہیں کہ تم چور ہو، تمہاری تصاویر تو اخبارات میں بھی لگی ہوئی ہیں۔چور بہت پریشان ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا۔بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ تنویر صاحب کے گھر میں لگے سیکیورٹی کیمروں کی وجہ سے ایسا ممکن ہو۔یہ ایک دل چسپ کہانی ہے جس میں توتے کی ذہانت اور مہم جوئی کو پیش کیا گیا ہے۔جرم وسزا کے گرد بنی گئی ایک عمدہ تحریر ہے۔اس کہانی میں مزاح کا عنصر بھی شامل ہے۔ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:۔
’’لیکن ہماری تصویریں کیسے آگئیں؟تینوں حیران تھے۔۔اچانک ایک رعب دار آوازگونجی:جاہلو!تمھاری تصویریںاس لیے آگئیںکہ تنویر خان کے گھر میںحفاظتی کیمرے لگے تھے، جنھوں نے ساری واردات کی ریکارڈنگ کر لی تھی اور تمھاری تصویریں ہم نے وہیں سے لی ہیں۔۔ایک بھاری بھرکم پولیس آفیسر ان کے سروں پر کھڑا تھا۔لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہو چکے تھے انھیں گھیرلیا گیا تھا۔بھاگنے کی کوئی جگہ نہیںتھی۔‘‘ (66)
اگلی کہانی ’’ہیرے کی تلاش‘‘ ہے۔یہ محمد مزمل صدیقی نے لکھی ہے۔یہ بھی ایک جاسوسی کہانی ہے۔اس میں مجرم لوٹنے کا انوکھا منصوبہ بناتے ہیں۔منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ وہ اخبار میں جھوٹا اشتہار دیتے ہیں کہ سیٹھ نوید صاحب اپنے ہیرے فروخت کرنے کے خواہاں ہیں لہٰذا پہلے آئیں اور پہلے پائیں،حالانکہ سیٹھ نوید کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔چونکہ سیٹھ صاحب شہر کے نامور آدمی ہوتے ہیں اس لیے بہت سے کاروباری ان کے بتائے ہوئے پتے پر رقم لیے پہنچتے ہیں۔ ادھر مجرم سیٹھ نوید کے گھر پہنچ کر انہیں پکڑ کر باندھ دیتے ہیں۔ان کے ٹیلی فون اپنے قبضے میں لے لیتے ہیںاور آنے والے خریداروں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں وہ بہت سارے لوگوں کے پیسے چھین لیتے ہیں۔پھر پولیس کو اطلاع مل جاتی ہے اور مجرم پکڑے جاتے ہیں۔اس کہانی میں کہانی نگار نے جرم کا ایک اچھوتا موضوع پیش کیا ہے۔اس عمدہ کہانی کا ایک پیراگراف دیکھیں:۔
ــ’’لیکن انسپکٹر صاحب یہ سب کیا ڈرامہ ہے؟نوید صاحب نے سوال کیا۔آپ خود دیکھ لیں۔انسپکٹر نے اخبار کے کونے میں شائع ہونے والے اشتہار کی طرف اشارہ کیا۔’’مغلیہ دور کے چند بیش قیمت ہیرے فروخت کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔قیمت صرف پانچ لاکھ روپے ادائیگی نقد،پہلے آئیں پہلے پائیں‘‘نیچے نوید صاحب کے گھر کا ایڈریس اور ملنے کا وقت درج تھا۔لیکن ہمارے پاس تو کوئی ہیرا نہیں ہے اور یہ اشتہار بھی میں نے نہیں دیا۔نوید صاحب حیرت سے بولے۔‘‘(67)
’’قیمتی کتاب‘‘ کے عنوان سے اگلی کہانی جرم و سزا کے گرد گھومتی ایڈونچر کہانی ہے۔پروفیسر صدیقی کے پاس ایک قیمتی کتاب ہوتی ہے جس میں اہم فارمولے ہوتے ہیں۔ایک نامعلوم شخص وہ کتاب چرانا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ ان کے ملازم کو بھی خرید لیتا ہے لیکن پروفیسر صدیقی ایک ہوشیار آدمی ہوتے ہیں اور وہ سخت حفاظتی انتظامات کیے ہوئے ہوتے ہیں۔مزید یہ کہ انہوں نے ایک نقلی کتاب وہاں رکھی ہوتی ہے جس سے دشمن دھوکا کھا جاتا ہے اور نقلی کتاب لے جاتا ہے۔ اس لیے ان کی قیمتی کتاب چوری ہونے سے بچ جاتی ہے۔اس کہانی میں پراسرار مناظر،کہانی کا ایکشن سے بھرپور بیانیہ اسے بچوں کے لیے دل چسپ بنا دیتا ہے۔ایک اقتباس دیکھیں:۔
’’رات کا نجانے کون سا پہر تھا۔زیرو پاور بلب کی سبز روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ہرطرف گہری خاموشی کا راج تھا۔منصور ابھی تک جاگ رہاتھا۔پھروہ سیدھالیٹ کر چھت کو گھورنے لگا۔اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو غور سے دیکھا،اس وقت رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔اس نے اٹھ کر کھڑکی کا پٹ ذرا سا کھولا اور باہر جھانکا:کہاں مر گیا کم بخت؟وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا اورواپس پلٹ کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔‘‘(68)
اگلی کہانی کا عنوان ہے’’شاطر بونا‘‘۔یہ کہانی دانی،مانی اور شانی سیریز کا حصہ ہے۔اس کہانی میں کہانی نگار نے مافوق الفطرت عناصر کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیا ہے جو کہ تین بونے ہیں۔یہ بونے دانی،مانی اور شانی کے پاس اپنے گمشدہ خرگوش کو بازیاب کرانے کا کیس لے کر آتے ہیں۔چنانچہ دانی،مانی اور شانی بونوں کے دیس میں جا کر خرگوش کو تلاش کرتے ہیں اور اس جرم کا ذمہ دار سردار کا بیٹا چھق چھق نکلتا ہے جو خرگوش کے گوشت کا ذائقہ چکھنے کی خاطر خرگوش کو قتل کر دیتا ہے۔دانی مانی اور شانی چھق چھق بونے کے جرم کے ثبوت پیش کرکے اُسے گرفتار کرا دیتے ہیں۔یہ سراغرسانی پہ مشتمل کہانی ہے۔اس میں بونوں کی شمولیت کہانی کو بچوں کے لیے دل چسپ بنادیتی ہے۔اس کہانی کا ایک پیراگراف دیکھیں:۔
’’اچھے لڑکے!تم نے بتایا نہیں۔کیاتم ہماری مدد کروگے؟ضرور کروں گاان شاء اللہ مانی مسکرایا۔’’میں ٹُن ٹُن ہوںاور یہ ٹِن ٹِن ہے۔‘‘نیلی ٹوپی والا تعارف کرا رہا تھا کہ تیسرا بونا جلدی سے بول اٹھا:’’اور مجھے ٹَن ٹَن کہتے ہیں۔میں ان سب سے بڑا ہوں۔‘‘اوہ کیا یہ نام عجیب نہیں ہیں۔ دانی نے حیرت کا اظہار کیا۔‘‘(69)
’’شیرو کے چور‘‘بھی ایک جاسوسی کہانی ہے۔اس کہانی میں شیرو نامی ایک مرغے کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر تین دوست گروپ یعنی دانی،مانی اور شانی اس مرغے کو بازیاب کراتے ہیں۔کہانی میں بوبی نامی لڑکے کا مرغا چوری ہوجاتا ہے۔چور مرغا چرا کر اسے مانی کے گھر میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ مانی کی بدنامی ہو۔مانی بھی اس چیز کو بھانپ لیتا ہے اور وہ شانی اور دانی کی مدد سے مرغے کو محفوظ مقام پر چھپا دیتا ہے اورپھر وہ تینوں اصل چوروں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔تفتیش کے بعد انہیں علم ہوتا ہے کہ چور بوبی کے مخالف ہیں اور مرغا چرانے میں مدد بوبی کے بھائی نے کی ہے ۔اس انکشاف کے بعد مانی مرغا لے کر بوبی کے حوالے کر دیتا ہے اور یوں یہ دل چسپ کیس ختم ہو جاتا ہے۔اس کہانی میں سے ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:۔
’’جی ہاں !چوری ان تینوں نے مل کر کی تھی۔تم اپنے بھائی کی جیب چیک کر لو،اس میں اچھے خاصے پیسے ہوں گے۔اس کی پھولی ہوئی جیب چیخ چیخ کر میری بات کی تصدیق کر رہی ہے۔اس چوری میں تمھارا بھائی یوں شامل ہوا کہ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔شیرو نے گھوم پھر کر آخرتمھارے گھر میں آجاناتھا۔اس لیے یہ اس منصوبے میں شامل ہو گیا۔‘‘(70)
یوں دانی برادرز اپنے خلاف ہونے والی سازش ناکام بنا دیتے ہیں۔

حوالہ جات
1۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر۔پیش لفظ، مشمولہ اُردو میں بچوں کا ادب،مرتب: محمود الرحمن،ڈاکٹر۔اسلام آباد،مقتدرہ قومی
زبان اردو،طبع اول اکتوبر 1992،صفحہ 3
2۔ محمود الرحمن،ڈاکٹر۔ اُردو میں بچوں کا ادب،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان اردو،طبع اول اکتوبر 1992،صفحہ 7
3۔ نذیر انبالوی،آئیے لکھنا سیکھیں مع کہانی کیسے لکھیں،لاہور،بچوں کا کتاب گھر طبع 2018صفحہ60
4۔ خوش حال خان زیدی،ڈاکٹر،اردومیں بچوں کا ادب صفحہ 99
5۔ محمد نعیم امین،آگ، کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال، شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی
ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ125
6۔ ابن آس محمد،روشنی بلا رہی ہے،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017، صفحہ نمبر75،76
7۔ رابعہ حسن،دوسرا کون تھا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر95
8۔ حفصہ فیصل،حکم،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر4، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی
ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018، صفحہ نمبر89
9۔ فرزانہ روحی اسلم،کرائے کا مکان،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 4، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018،صفحہ نمبر78
10۔ حفصہ فیصل،اشارہ نہ کرنا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر5، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018،صفحہ نمبر93
11۔ راکب راجہ،جانور اور انسان،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر6،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018، صفحہ نمبر77
12۔ نذیر انبالوی،حی علی الفلاح،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 8،9، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019،صفحہ نمبر40
13۔ کاوش صدیقی،سونے کا تاج،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 8،9، (مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019،صفحہ نمبر98

14۔ حفصہ فیصل،اخلاص کی دولت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 8،9،
(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019،صفحہ نمبر107
15۔ نذیر انبالوی،گم شدہ ڈائری،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر60
16۔ فیروزالدین،مولوی،فیروزاللغات،لاہور،فیروز سنز،باراول2010،صفحہ76
17۔ محمد یحییٰ خان،بچوں کا اسلامی انسائیکلوپیڈیا،لاہور،دارالسلام پبلشرز،صفحہ33
18۔ شیخ فرید،تعمیر وطن،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی
ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017، صفحہ نمبر68
19۔ محمد عرفان رامے،چھوٹی سی بھول،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر8،9، (مدیر:اختر
رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019،صفحہ نمبر86
20۔ عبدالصمد مظفر،سنہری کرن،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر87
21۔ محمد مزمل صدیقی،سوہنی دھرتی،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017، صفحہ نمبر121
22۔ محمد عرفان رامے،محافظ،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 5، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018،صفحہ نمبر80
23۔ اسلم فرخی،ڈاکٹر،معصوم عزم،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر5،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018،صفحہ نمبر12
24۔ احمد عدنان طارق،خدا کی نعمتیں،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017، صفحہ نمبر83
25۔ غلام عباس،عرب بچے،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر2، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر15
26۔ فرخندہ شمیم،خود کو پہچانو،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017، صفحہ نمبر80
27۔ وقار عثمان نیکی،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،
اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر109،110
28۔ صلاح الدین احمد،محفل کے آداب،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات
اطفال شمارہ نمبر 3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017،صفحہ نمبر16
29۔ عمران مشتاق،ڈاکٹر،دودھ کا گلاس کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر4، (مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018،صفحہ نمبر56
30۔ فضیلت بانو،ڈاکٹر،انوکھی تربیت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر4، (مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018،صفحہ نمبر61
31۔ احمد داؤد،امانت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 6، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی
ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018،صفحہ نمبر17
32۔ محمد نوید مرزا،استاد کا احترام،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر6، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018، صفحہ نمبر82
33۔ تصور عباس سہو،یاد رکھنے کی بات،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر6، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018،صفحہ نمبر110
34۔ اختر عباس،کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1، (مدیر:اختر
رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر52
35۔ محمد شعیب مرزا،حسرت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر75،
36۔ غلام رضا جعفری،چراغ تلے،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر139
37۔ نذیر انبالوی،پہلا سبق،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2017،صفحہ نمبر47
38۔ خواجہ مظہر نواز صدیقی،دھواں،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر78
39۔ راحت عائشہ،کامیابی،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر2،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017، صفحہ نمبر98
40۔ راحت عائشہ،پھول والا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017،صفحہ نمبر99
41۔ غلام محی الدین ترک،طاقت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر4،
(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018، صفحہ نمبر85
42۔ رحمان مذنب،دھان کے کھیت،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر5، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018،صفحہ نمبر31
43۔ فرزانہ روحی اسلم،پانی لے لو،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 5، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018،صفحہ نمبر86
44۔ عفت گل اعزاز،پروفیسر،خلش کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر6، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018، صفحہ نمبر45
45۔ سید محمود حسن،بہروپیا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر6،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018،صفحہ نمبر68
46۔ محمد شعیب خان،ڈاکٹر،ندی کا انتقام،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر10، صفحہ نمبر103
47۔ گیان چند جین،تحریریں،لکھنئو،سرفراز قومی پریس،طبع دسمبر 1964،صفحہ 270
48۔ مشتاق احمد یوسفی،چراغ تلے،حیدرآباد،حسامی بک ڈپو،طبع 1984،صفحہ 120
49۔ احمد حاطب صدیقی،ایک مزے دار مشاعرہ،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1،(مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017، صفحہ نمبر32،33
50۔ معظمہ تنویر،میاں وہمی،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر84
51۔ مہ جبین تاج ارزانی،آئس کریم لٹیرے،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر102
52۔ ادریس قریشی،چچا حیرت کا حلوا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017، صفحہ نمبر47
53۔ معظمہ تنویر،بلی نہیں ملی،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 3،صفحہ نمبر92
54۔ عاطف حسین شاہ،انکل بد حواس،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 6، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2018،صفحہ نمبر114
55۔ الطاف حسین،اس کے بعد کیا ہوا؟،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر7، (مدیر:اختر
رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبرتادسمبر2018،صفحہ نمبر79
56۔ امتیاز علی تاج،چچا چھکن نے جھگڑا چکایا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال
شمارہ نمبر10، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2019، صفحہ نمبر13
57۔ امتیاز علی تاج،چچا چھکن نے جھگڑا چکایا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 10، (مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر2019،صفحہ نمبر19
58۔ عفت گل اعزاز،پروفیسر،منوں میاں کی تصویر،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر8،9(مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019، صفحہ نمبر52
59۔ مرزا حامد علی بیگ،اردو میں ترجمے کی روایت،اسلام آباد،دوست پبلی کیشنز،2016،صفحہ 568
60۔ محمد احسن فاروقی،ڈاکٹر،سید نور الحسن ہاشمی ڈاکٹر،ناول کیا ہے؟لکھنئو،طبع 1948،صفحہ 114
61۔ محمدندیم اختر،دودھ والا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر95
62۔ محمدندیم اختر،دودھ والا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 1،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر99
63۔ اعظم طارق کوہستانی،قتل کا معما،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر1، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تا جون 2017،صفحہ نمبر110
64۔ عبدالرشید فاروقی،تم نے اچھا نہیں کیا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 2،(مدیر:اختر رضا
سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جولائی تاستمبر 2017،صفحہ نمبر57
65۔ عبدالرشید فاروقی،جھکے سر،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017،صفحہ نمبر69
66۔ سید محمود حسن،توتے کا اغوا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017،صفحہ نمبر89
67۔ محمد مزمل صدیقی،ہیرے کی تلاش،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر 3،(مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اکتوبر تادسمبر 2017،صفحہ نمبر104
68۔ غلام رضا جعفری،قیمتی کتاب،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر4، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تامارچ2018، صفحہ نمبر64
69۔ عبدالرشید فاروقی،شاطر بونا،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر5، (مدیر:اختر رضا سلیمی)،
اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،اپریل تاجون2018، صفحہ نمبر56
70۔ عبدالرشید فاروقی،شیرو کے چور،کہانی مشمولہ سہ ماہی ادبیات اطفال شمارہ نمبر8،9،
(مدیر:اختر رضا سلیمی)،اسلام آباد،اکادمی ادبیات پاکستان،جنوری تاجون2019، صفحہ نمبر63

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top