skip to Main Content

۷ ۔ طائف کا مرحلہ

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔۔

قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ
اے محمدؐ ! کہہ دیجیے کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔
(الاعراف: ۱۵۸)

نئی راہیں
جب سردارانِ قریش جان جاتے ہیں کہ اُن کا کوئی بھی ہتھکنڈا کامیاب ثابت نہیں ہو رہا تو ایک مرتبہ پھر دارالندوہ میں میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ اس مرتبہ فیصلہ ہوتا ہے:
’’تشدد اور جھگڑا کرنے کی صورت میں بات مزید پھیل رہی ہے اور تجسس پیدا ہو رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپﷺ کی بات ہی نہ سُنی جائے، جس گلی میں محمدﷺ داخل ہوں، لوگ اِدھر اُدھر کھسک جائیں۔‘‘
یہ حربہ بڑا ہی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ اگلے روز آپ ﷺ سارا دن مکہ کی گلیوں میں دعوتِ حق کے لیے گھومتے رہتے ہیں۔ مگر کوئی بھی دعوتِ حق سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ حالت دیکھ کر آپﷺ کو یقین ہوجاتا ہے کہ
’’مکہ کی زمین اب دعوتِ حق کے لیے بنجر ہوچکی ہے۔‘‘
چنانچہ فیصلہ فرماتے ہیں کہ اب مکہ سے باہر نکل کر دعوتِ حق کا کام کرنا چاہیے۔
ظالموں کے بیچ
نبی کریم ﷺ اپنے غلام زید بن حارثہ کے ہمراہ جانب مشرق نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ راہ میں جو بھی قبیلہ آتا ہے۔ اُس کے سامنے اسلام کی حقانیت رکھتے جاتے ہیں۔ بالآخر پچاس(۵۰) میل کی مسافت طے کرنے کے بعد طائف۱؂ کا سرسبزو شاداب علاقہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں آپ ﷺ پہلے بھی بغرضِ تجارت آ چکے ہیں اور اس مرتبہ اِن کے دل کی یہ خواہش اُنھیں یہاں کھینچ لائی ہے کہ:
’’شاید زرخیز زمین کی طرح لوگوں کے دِل بھی دعوتِ حق کے بیج کے لیے زرخیزثابت ہوں۔‘‘
بنو ثقیف قبیلے کے تین سردار عبدیالیل، مسعود اور حبیب۲؂ یہاں کے کرتا دھرتا متصوّر ہوتے ہیں اور سب سے قوی پوزیشنیں انہی کی ہیں۔ حضوراکرم ﷺ کو یقین ہے کہ:
’’اگر یہ تینوں سردار دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہیں تو پورا طائف مطیع ہوجائے گا۔‘‘
اسی ارمان کودِل میں بسائے اِن سرداروں کے پاس پہنچتے ہیں اور دعوتِ حق کھول کھول کر ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ بھی فرماتے ہیں:
’’میں آپ لوگوں کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ آپ اِسلام کے کام میں میری مدد کریں اور میری قوم کے جو لوگ میری مخالفت کررہے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں میری حمایت کریں۔‘‘
مگر یہ عقل کے اندھے اور مغرور، نورِ حق سے سینوں کو منور کرنے کے بجائے بپھر جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک کہتا ہے:
’’اگر اللہ نے تمھیں رسول بنایا ہے۔ تو میں کعبے کے پردے نوچ ڈالوں گا۔‘‘
دوسرا کہتا ہے:
’’ارے کیا اللہ کو تمھارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی مناسب آدمی نہ مل سکا۔‘‘
تیسرا دعوتِ حق کا جواب یوں دیتا ہے:
’’قسم اللہ کی! میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر بقول تمھارے تو خدا کا رسول ہے۔ تو تم سے بات کرنا خلافِ ادب ہے اور اگر تو خدا کا نام لے کر جھوٹ بولتا ہے تو اس قابل نہیں کہ تجھ سے بات کی جائے۔‘‘
زہر میں بجھے الفاظ کے نشتر آپﷺ کے ارمانوں بھرے دِل کو مجروح کر دیتے ہیں۔ نہایت شکستہ دِل کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’خیر جو سلوک تم نے مجھ سے کیا، سو کیا لیکن یہ بات اپنے آپ تک ہی مخفی رکھنا۳؂۔‘‘
مگر ظالم اس بات پر اکتفا نہیں کرتے۔ قوم کے لُچّے لفنگوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیتے ہیں کہ وہ انھیں بستی سے باہر نکال دیں۔
نبی کریم ﷺ کے گرد طائف کے لونڈوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے۔ بات طعنوں اور گالیوں سے چل کر سنگ زنی پہ جا پہنچتی ہے۔ طائف والے سڑک کی دونوں اطراف کھڑے پتھر اُٹھا اُٹھا کر مار رہے ہیں۔ جسم اطہر خون سے تر ہوگیا ہے۔ زخموں کی تاب نہ لا کر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر پکڑ کر اُٹھا دیا جاتا ہے۔ اب ظالموں نے پتھرگھٹنوں اور ٹخنوں پر تاک تاک کر مارنے شروع کر دیے ہیں۔ تاکہ شدّتِ درد ناقابل برداشت ہو جائے۔ پتھر برسانے کے ساتھ ساتھ وہ مغلّظات بھی بکے جا رہے ہیں۔زیدؓ بن حارثہ برابر اس کوشش میں ہیں کہ آپﷺ کی جانب پھینکے جانے والے پتھر اُن کے جسم سے رُک جائیں اور آقاؐ بچ جائیں، مگر روکیں تو کس کس پتھر کو؟ درندوں کا سیلاب چہار جانب موجود ہے۔ اِسی کوشش میں زیدؓ بن حارثہ کا اپنا سر بھی پھٹ جاتا ہے۔
طائف کے لونڈے محمدﷺ کو شہر سے باہر ایک انگوروں کے باغ کے پاس چھوڑآتے ہیں۔ آپ ﷺ اِسی باغ میں ربِّ کائنات کے حضور سربسجود ہوجاتے ہیں۔ دوگانہ سے فارغ ہوکر درد بھری آواز میں دُعا کرتے ہیں:
اَللّٰہُمَّ الیک اشکو ضعف قوتی و قلۃ حیلتی و ہوانی علی النّاس یا ارحم الراحمین۔ انت ربی الی من تکلنی الٰی بعید یَجْہمنی او الٰی عدو ملیکۃ امری ان لم یکن علی غَضْبُکَ فلا ابالی ولٰکن عافِیْتک ہی اوسع لی اعوذ بنورو و جہک الذی اشرقت لہ الظلمت وصلع علیہ امرالدنیا والاٰخرۃ من ان ینزل بی غَضبک او یحل علی سخطک لَک العبتی حتٰی ترضٰی ولاحول ولاقوۃ اِلاَّ بک۔
’’اے اللہ! اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں، تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیا بیگانہ ترش رو کے یا اُس دشمن کے جو کام پر قدرت رکھتا ہے۔ لیکن مجھ پر تیرا غضب نہیں۔ تو مجھے اسکی کچھ پرواہ نہیں۔ کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیری ذات کے نور سے پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں کہ تیرا غضب مجھ پر اُترے یا تیری ناراضگی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔‘‘
انگوروں کے باغ کے مالک عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ۴؂ بن ربیعہ نے بھی آپﷺ کا یہ حال دیکھ لیا ہے۔ اُن کی بھی رگِ حمیت پھڑکتی ہے۔ اپنے نصرانی غلام عداس کو پکارتے ہیں اور انگور کے خوشوں سے ایک طشتری بھر کر عداس کو کہتے ہیں کہ جا کر آپ ﷺ کو پیش کرے۔ عداس انگور محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ تو آپﷺ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے۔‘‘
پڑھ کر انگور تناول فرماتے ہیں۔ عداس حیران رہ جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے:
’’خدا کی قسم! اس ملک میں تو کوئی بھی ایسی بات نہیں کہتا۔‘‘
آپﷺ اُس کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے دریافت فرماتے ہیں:
’’تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟‘‘
عداس:
’’میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔‘‘
رسول کریم ﷺ:
’’تم مرد صالح یونس من متّٰی کی بستی کے رہنے والے ہو۔‘‘
عداس:
’’خدا کی قسم!جب میں نے نینویٰ چھوڑا تھا تو اُس وقت وہاں دس آدمی بھی ایسے نہ تھے۔ جو یہ جانتے ہوں کہ متّٰی کون ہے؟ پھر آپ اُن کو کیسے جانتے ہیں؟‘‘
رسول کریمﷺ:
’’وہ میرے بھائی ہیں۔ وہ بھی نبی تھے، میں بھی نبی ہوں۔‘‘
عداس:
’’بے شک آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر عداس آگے بڑھتا ہے اور آپﷺ کا سر، ہاتھ اور پاؤں چوم لیتا ہے۔ دور سے عتبہ اور شیبہ بھی اس منظر کا نظارہ کر رہے ہیں۔ عداس کو یہ حرکت کرتے دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہنے لگتے ہیں:
’’لو یہ غلام بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ۔‘‘
قریب آنے پر عداس سے پوچھتے ہیں کہ:
’’تم نے یہ کیا حرکت کی؟‘‘
عداس جواب دیتا ہے:
’’اِس سے بہتر کوئی شخص روئے زمین پر نہیں ۔جو بات اس نے بتائی ہے کوئی اور نہیں بتا سکتا۔‘‘
مگر عتبہ اور شیبہ دونوں عداس کو ڈانٹ دیتے ہیں کہ:
’’خبردار! جو تم نے اپنا دین چھوڑا۔‘‘
لیکن عداس کے اندر جو انقلاب برپا ہو رہا ہے بھلا وہ اِس ڈانٹ ڈپٹ سے کیسے رُک سکتا ہے!
سنگلاخ زمین
نبی پاک ﷺ ’’قرن۵؂ الثعالب‘‘ کے مقام پر موجود ہیں۔ ایک بدلی سر پر سایہ کیے ہوئے ہے اور شدت کی دھوپ سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
آپ ﷺ اس بدلی کی جانب دیکھتے ہیں، تو اُس میں سے جلیل القدر فرشتہ جبرائیل برآمد ہوتا ہے اور پکار کر کہتا ہے:
’’اے محمد! اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ جان لیا جو آپ کی قوم نے آپ سے کیا اور جس طرح دعوتِ حق کا جواب دیا۔ یہ پہاڑوں کا فرشتہ ہے۔ اِسے آپ جو چاہیں حکم دیں۔‘‘
بدلی سے نکل کر پہاڑوں کا فرشتہ آ سامنے ظاہر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے:
’’اے محمد! اللہ نے آپؐ کا قول قوم کے نام اور دعوت کا جواب سُن لیا ہے۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ آپؐ کے ربّ نے مجھے بھیجا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ان دونوں پہاڑوں کوآپس میں ملا دوں اور یہ ظالم ان کے درمیان پس کے رہ جائیں۔‘‘
مگر آپ ﷺ جواب دیتے ہیں:
’’نہیں، مجھے اُمید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرنے والے ہوں گے۔‘‘
پھر یہاں سے آپﷺ سوئے مکہ روانہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن مکّہ سے باہر ہی نخلہ کے مقام پر رُک جاتے ہیں۔ انھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ طائف میں جو کچھ بیتی اُس کی خبر اہل مکّہ کو ہوچکی ہوگی اور اب کفارِ مکہ کے عزائم پہلے سے زیادہ جارحانہ اور ظالمانہ ہوں گے۔ پیش بندی کے طور پر معطم۶؂ بن عدی کے پاس پیغام بھیجتے ہیں کہ:
’’کیا تم مجھے پناہ دینے کے لیے تیار ہو، تاکہ میں اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں۔‘‘
معطم کہا مان۷؂ جاتا ہے۔ اور یوں آپﷺ شہر مکہ میں ایک مرتبہ پھر آ جاتے ہیں۔ اگلے روز صبح معطم کے بیٹے تلواروں کے سائے میں آپﷺ کو حرم لے جاتے ہیں۔ جہاں وہ حرم کا طواف کرتے ہیں۔
لیکن آپﷺ کا دِل اَب مکہ سے اچاٹ ہوچکا ہے اور انھیں قوی یقین ہے کہ دین اسلام کی جڑیں اس زمین پر اب پھل پھول نہیں سکتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ مکہ سے پچاس میل مشرق کی جانب سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ پانی کی سہولت بھی موجود تھی۔ کھیتیاں اور باغات اپنے جوبن پر تھے۔ نسبتاً ٹھنڈا مقام تھا۔ خوش حالی کی وجہ سے لوگ لا اُبالی ڈھب کے ہوگئے تھے اور دنیا پرستی میں خوب مگن تھے۔ سود خوری وہاں عام تھی۔

۲۔ یہ تینوں عمرو بن عمیر بن عوف کے لڑکے تھے۔ حضورؐ نے اِن کے گھر سے دعوتِ کا آغاز اِس لیے کرنا مناسب سمجھا کہ اِن کے گھر میں قریش کی ایک عورت صفیہ بنت معمزحمحی موجود تھی۔

۳۔ یہ بات حضورؐ نے اس لیے فرمائی کہ اگر قریش کو اس بات کا علم ہوگیا تو وہ زیادہ جری ہوجائیں گے یا اس نقطہ نظر سے کہ عوام اِن باتوں سے متاثر نہ ہوجائیں۔

۴۔ یہ دونوں قریش کے سردار اور ربیعہ کے بیٹے تھے۔

۵۔ اس مقام کو ’’قرن النازل‘‘ بھی کہتے ہیں یہ اہل نجد کی میقات ہے۔ جہاں سے ان کو احرام باندھنا ہوتا ہے۔ اور یہ مکّہ سے اونٹ کی سواری پر ایک شبانہ روز کی مسافت پر واقع ہے۔ (س۔غ)

۶۔ یہ عدی بن نوفل کا بیٹا تھا۔ قریش کا نرم دل اور خدا ترس بزرگ تھا۔ شعب ابی طالب کے موقع پر اس نے مقاطعہ کے خلاف تحریک اُٹھائی۔ یہ آخر وقت تک ایمان نہیں لایا۔

۷۔ حضورؐ نے عبداللہ بن اریقط کو اخنس بن شریق کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ آپ کو اپنی پناہ میں لے لے مگر اس نے کہا کہ میں تو حلیف ہوں اور حلیف، قریش کے اصلی قبیلوں کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپؐ نے عبداللہ بن اریقط کو سہیل بن عمرو کے پاس بھیجا۔ اُس نے کہا: بنی عامر بن لوئ بن کعبہ کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد آپؐ نے معطم بن عدی کے پاس بھیجا۔ جو بنی عبد مناف کی شاخ بنی نوفل میں سے تھا۔ اُس نے پناہ دینے کا اعلان کیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top