skip to Main Content

۵ ۔ ابرہہؔ کا ہاتھی

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ‘ایک بڑے ڈیل ڈول کا ہاتھی ہوں ۔میری سونڈ لمبی ہے لیکن یہ نہ سمجھنا کہ میرا کسی جنگل یا چڑیا گھر سے تعلق ہے ۔میں اپنی عجیب و غریب کہانی آپ کو سناتا ہوں امید ہے آپ اسے شوق سے سُنیں گے ۔
میری کہانی حبشہ (افریقہ کے ایک ملک ) سے شروع ہوتی ہے۔جس کے جنگلوں کے اونچے اونچے درختوں کے درمیان ‘میں آزاد پھرا کرتا تھا ۔ایک دن کی بات ہے کہ اچانک کچھ لوگوں نے مجھے رسّوں میں جکڑ لیا اور شہر لے جا کر مجھے بادشاہ کے لشکر میں شامل کر دیا ۔لوگ میرا ڈیل ڈول دیکھ کر خوف کھاتے تھے اور جب میں چلتا تھا تو میرے قدموں کی آواز سے کانپ اٹھتے تھے کیونکہ جدھر جو چیز میرے راستے میں آتی تھی روند سی جاتی تھی ۔یہ میری ہی طاقت تھی اور میرا ہی رعب اور دبدبہ تھا جس کی بناء پر حبشہ والوں نے یمن (جنوبی عرب )پر قبضہ کر لیا۔ میرے مالک کا نام ابرہہ تھا۔اس نے مجھے اپنا خاص ہاتھی بنا لیا ۔اگر چہ اس کے لشکر کے تمام ہاتھی ایک بڑی عبادت گاہ کی تعمیر کے لئے پتھر اور لکڑیاں لے جانے پر معمور تھے مگر نہ جانے کیوں ابرہہ ؔ نے اس کام پر مجھے نہ لگایا ۔
ابرہہؔ مکّہ میں موجود خانۂ کعبہ سے زیادہ بڑی سطح پر یہ عبادت گاہ بنا رہا تھا ۔تا کہ لوگ کعبہ کے بجائے اس کا طواف کریں ۔ابرہہ نے اس نئی عبادت گاہ پر سونے کے نقش نگار بنوائے تا کہ لوگ اس کی چمک دمک سے اس کی طرف کھنچے چلے آئیں اور بجائے خانہ کعبہ کے اس کا حج کریں ۔
ابرہہؔ حبشی تھا۔ اس کی زبان عربی نہ تھی۔ وہ عرب کے لوگوں سے حسد کرتاتھا ۔اسے اپنے علاقے ،اپنی حکومت اور اپنی طاقت پر ناز تھا۔اس کاخیال تھاکہ اُس کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے عرب کے بے شمار قبائل جو اس کی طاقت میں اس کے برابر نہ تھے ،اس کی طرف رُخ کریں گے مگر ایسا نہ ہوا۔لوگ پہلے کی طرح خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کو جاتے رہے اور جو خواب اُس نے دیکھا تھا ،پورا نہ ہوا ۔ابرہہؔ کو اپنی اِس ناکامی کا شدید رنج ہوا ۔اور اسے بے حد طیش آیا ۔اُس نے ارادہ کر لیا کہ وہ خانہ کعبہ کو گرا دے گا ۔اس کا خیال تھا کہ خانۂ کعبہ کا وجودنہ رہے گا تو لوگ خود بخود سونے سے بنی ہوئی اس نئی عبادت گاہ کی طرف آنا شروع کر دیں گے، اس لیے ابرہہؔ نے مکہ پر چڑھائی کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا۔اس لشکر میں ،مَیں بھی شامل تھااور ظاہر ہے کہ میں اپنی حیثیت کے مطابق لشکر کے آگے آگے اپنے سوار ابرہہؔ کو لے کر چل رہا تھا۔اور ابرہہ یہ چاہتا تھا کہ میں اُسے خانۂ کعبہ تک لے جاؤں اور اپنے بھاری جسم سے خانۂ کعبہ کو ڈھادوں ۔جیسا کہ میں اس سے قبل ابرہہؔ کے دشمنوں کے بے شمار گھروں کو ڈھا چکا تھا ۔لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ اس مرتبہ نہ جانے کیوں میرا دل ایسا کام کرنے کو نہ چاہتا تھا لیکن یہ بات بھی میرے بس میں نہ تھی کہ میں ان سے علےٰحدہ ہو جاؤں کیونکہ میں ابرہہؔ کے لشکر میں گھِرا ہوا تھا اور آگے آگے چل رہا تھا ۔
رستے میں لشکر والے مکّہ اور مکّہ والوں کی باتیں کر رہے تھے اور خانۂ کعبہ کے متعلق کہانیاں سُنا رہے تھے ۔ان ہی لشکر یوں کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ ایک نبی حضرت ابراہیم ؑ تھے جنھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ اللہ کے حکم پر اس کو تعمیر کیا تھا۔یہ دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تھا ۔حضرت ابراہیم ؑ بہت فضیلت والے پیغمبر تھے ۔ان کی نسبت کئی ان ہونی باتیں میں نے سُنیں ۔مثال کے طور پر یہ کہ ان کی قوم نے اُن کو اِس لئے آگ میں ڈال دیاتھا کہ وہ ان کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور بتوں کی عبادت سے روکتے تھے مگر ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے آگ نے آپ پر کوئی اثر نہ کیااور آپ زندہ سلامت آگ سے نکل آئے۔یہ باتیں سُن کر یقین ہو گیا کہ کعبہ بھی نہایت بزرگی والی جگہ ہے ۔ مجھے لشکریوں کی زبانی یہ بھی پتا چلا کہ یہ کعبہ امن کا گھر ہے جو اس میں داخل ہوا اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔اس گھر میں بے شمار کبوتر آکر بسیرا کرتے ہیں ۔اِدھر اُدھر پھرتے ہیں مگر نہ کوئی ان کے قریب جاتا ہے، نہ اُن کو نقصان پہنچاتا ہے ۔لوگ اس گھر کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔اس میں عبادت کرتے ہیں اور انھیں اس سے بہت محبت ہے ۔
راستے میں مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مکہ والے میری آمد کی خبر سُن کر بہت ڈر گئے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ میرے سامنے جو چیز آئے گی روند سی جائے گی ۔
اب ہمارے اور خان�ۂ کعبہ کے درمیان صرف ایک رات کی مسافت رہ گئی تھی اِس کے بعد نہ کعبہ ہوتا اورنہ مکّہ اور مکّہ کی ہر چیز تباہ و برباد ہو جاتی ۔مکّہ والوں کے پاس کوئی لشکر نہ تھا جو ہمارا راستہ روک سکتا ۔اس لئے کعبہ اورمکّہ کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ لشکر میں موجود ہر شخص میری طرف فخر سے دیکھتا اور یہ کہتا ’’اے بہادر ہاتھی آگے بڑھتا جا ۔اے ابرہہؔ کے ہاتھی تیز تیز چل تا کہ ہم جلد مکّہ پہنچیں اور کعبہ کو ڈھا دیں ۔‘‘
مکّہ کے باہر ہمارے لشکر نے مکّہ والوں کے بہت سے اونٹ پکڑلئے ۔ابھی ہم مکّہ میں داخل نہ ہوئے تھے کہ مکّہ کے سردار عبدالمطلب ؔ ‘میرے سردار ابرہہؔ کے پاس آئے اور اُن سے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ابرہہ نے کہا حیرت کی بات ہے کہ تمھیں اپنے اونٹوں کی فکر ہے ۔مگر اس گھر کی کوئی پروا نہیں جس کی وجہ سے تم لوگوں کو دنیا میں اتنی عزت ملی ہے ۔عبدالمطلب نے جواب دیا’’ اونٹ میرے ہیں اور گھر اللہ کا ہے۔ وہ اپنے گھر کو خود بچائے گا ۔‘‘
عجیب بات ہے کہ جب عبدالمطلب کا یہ جواب میں نے سُنا تو میرا جسم کانپنے لگا۔میں نے ایک شدید تھکاوٹ محسوس کی ۔ایسا لگا کہ میرے قدم آگے نہیں بڑھتے ۔پھر کیا دیکھتا ہوں کہ سب ہی کا یہی حال ہے ۔لشکر کے دوسرے ہاتھی ،گھوڑے ،اونٹ اور تمام لشکری اسی کیفیت میں ہیں ۔ہر ایک اپنی جگہ پر گُم صُم کھڑا ہے ۔ایسا لگتا تھا کہ ہر ایک کے پاؤں زمین میں دھنس گئے ہیں ۔کسی ایک میں بھی کعبہ کی طرف قدم بڑھانے کی سکت نہ رہی تھی ۔
میرا سردار ابرہہؔ بھی اس صورتِ حال سے بہت گھبرا گیا۔مگر اس نے پھر بھی یہ کوشش کی کہ میں کسی طرح آگے بڑھوں۔ اس نے مجھے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے، آگے چلنے کیلئے دھکا دلوایا۔حتیٰ کہ جلتی ہوئی لکڑی میرے جسم پر لگائی ۔لیکن جوں ہی میرا رُخ کعبہ کی طرف ہوتا ،میں بالکل ساکت ہوجاتا ۔میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ میرے ساتھ کچھ بھی ہو، نہ اب میں آگے بڑھوں گا اور نہ خانہ کعبہ کو نقصان پہنچاؤں گا۔اِدھر ابرہہ یہ پکّا ارادہ کر چکا تھا کہ جب تک میں خانۂ کعبہ کو تباہ نہ کردوں اور مکّہ والوں کو بھگا نہ دوں، وہ واپس نہ لوٹے گا۔
اچانک ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔میں کیا دیکھتا ہوں کہ بے شمار چھوٹے چھوٹے پرندے ہمارے اوپر آگئے اور آسمان ہم سے چھُپ گیا ۔ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ۔ایسا لگتا تھا جیسے میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں ۔اسی لمحے مجھے لشکریوں کی چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں وہ کہہ رہے تھے ۔’’ارے یہ تو ابابیلیں ہیں جو ہم پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینک رہی ہیں۔‘‘ جِسے کنکری لگتی وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا ۔دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار ہاتھی ،گھوڑے ،اونٹ اور لشکری گرنے لگے ۔جِسے یہ کنکری لگی وہ نہ بچا ۔ میں یہ منظر دیکھ کر بہت ہی خوف زدہ ہوا ۔زندگی میں ،مَیں نے ایسا ہولناک منظر کبھی نہ دیکھا تھا ۔اب میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکا یک ایک نور زمین و آسمان کے درمیان پھیلتا جا رہا تھا اور اس نور نے خانۂ کعبہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے ۔
آناً فاناًابرہہؔ کالشکر تباہ ہو گیا ۔مجھے دور سے عبدالمطلب سردارِ مکّہ نظر آئے جنھیں مکّہ والے مبارک باد دے رہے تھے خانۂ کعبہ اپنی جگہ پر صحیح و سالم موجود تھا ۔اور جو لشکر اسے مٹانے آیا تھا خود ہی مِٹ گیا۔
میں نے عبدالمطلب ؔ کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے سُنا کہ اُنھوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چاندی کی زنجیر ہے جو اُن کی پشت سے ظاہر ہوئی ۔اُس کا ایک سرا زمین پر اور دوسرا آسمان پر تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ایسا محسوس ہوا کہ اس زنجیر نے درخت کی شکل اختیار کر لی ہے جس کے تمام پتّے نور کے ہیں اور ہر پتّے سے انسان چمٹے ہوئے ہیں ۔کچھ بوڑھوں نے عبدالمطلب کے خواب کی یہ تعمیر بتائی کہ ’’ان کے بیٹے عبداللہ کو اللہ تعالیٰ ایک ایسا فرزند عطا کرے گا جس کے ماننے والے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہوں گے ۔‘‘
اس تعبیر پر اہلِ مکّہ عبدالمطلبؔ کو مبارک باد دے رہے تھے ۔کچھ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ کے گھر آنے والے بچّے کا آپ کیا نام رکھیں گے ؟عبدالمطلبؔ نے جواب دیا کہ میں اس کانام محمدﷺ رکھوں گا تا کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق ان کی خوبیاں بیان کرتی رہے ۔
مجھ عظیم ہاتھی کی کہانی کا انجام یہ تھا کہ میرے ساتھ ابرہہؔ اور اس کا زبردست لشکر سب ہی مِٹ گئے اور ہمارے مٹنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اس دنیا میں حضورِ اکرم ﷺ تشریف لائے ۔مکّہ بھی باقی ہے اور اللہ کا گھر بھی اور تا قیامت اسی طرح قائم و دائم رہے گا ۔دنیا میں مسلمان جہاں کہیں ہوں اس کی طرف دن میں پانچ مرتبہ مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔لاکھوں مسلمان حج کے لئے یہاں آتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے میرے اس واقعے کا ذکر اس طرح کیا ہے ۔
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والو ں کے ساتھ
کیا کیا ۔کیا اللہ نے ان کی چا ل کو ناکام نہیں کر دیا؟ا ن کے اوپر اللہ نے ابابیلوں کے جھُنڈ
کے جھُنڈبھیجے جو ان پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں برسا رہے تھے اور انھیں کھائے ہوئے بھوسے
کی طرح کر دیا۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top