skip to Main Content

۴ ۔ حلیمہ کا گدھا

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔

میں صدیوں پہلے عرب کے صحرا میں رہتا تھا۔میری مالکہ کا نام حلیمہ سعدیہ تھا۔اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق عرب کے خوش حال گھرانے اپنے بچے کو بدوی عورتوں کے کے گھر بھیج دیتے تھے تاکہ وہ ان کے بچوں کو دودھ پلائیں اور بچے آزاد فضامیں پلیں بڑھیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب بچوں کے لئے ڈبوں میں خشک دودھ نہیں ملتا تھا۔حلیمہ سعدیہ ایسی ہی ایک بدوی خاتون تھیں جو بچوں کو دودھ پلایا کرتی تھیں۔ان کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ وہ اپنے خاوندحارث کے ساتھ صحرا میں ایک خیمے میں رہا کرتی تھیں۔ان کا کوئی گھر نہ تھا۔ جس علاقے میں وہ رہتی تھیں وہاں بارش بہت کم ہوتی۔سبزہ نہ ہونے کے برابر تھا اور لوگ بڑے غریب تھے۔مناسب چارہ نہ ہونے کی وجہ سے میں بیچارہ گدھا خاصا لاغر اور کمزور تھا۔
ایک دن حلیمہ نے خیمے کے باہر سے مجھے لیا۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں اب دوسرے جانوروں کے ساتھ چراگاہ کی طرف لے جایا جاؤں گا جہاں مجھے سر سبز گھاس کھانے کو ملے گی۔ ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ حلیمہ اپنے چھوٹے بچے سمیت مجھ پر سوار تھیں اور اس کا بچہ اس کی گود میں تھا۔ ہر وقت روتا رہتا۔حلیمہ کا شوہر حارث ایک بوڑھی اونٹنی پر سوار تھا۔ ہم صحرا سے گزررہے تھے۔ہوا سخت گرم تھی۔ کمزوری اور گرمی کی وجہ سے میں مشکل سے اپنے پاؤں اٹھا سکتا ۔تھوڑی دیر بعد تھکاوٹ بھی محسوس ہونے لگی اور یوں لگا کہ اب میں آگے نہ جا سکوں گا۔اور حلیمہ کا بچہ تھا جو چپ ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔
حلیمہ نے سوچا کہ بچے کو دودھ پلادے تو شاید چپ ہو جائے لیکن حلیمہ کے پاس دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔حلیمہ کا شوہر بولا کہ تو کیوں دوسرا بچہ دودھ پلانے کی غرض سے لانے کے لیے نکلی ہے؟جبکہ تیرے پاس اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔حلیمہ نے جواب دیاکہ جب میں دوسرا بچہ دودھ پلانے کے لئے لاؤں گی تو اس کے گھر والے ضرور کچھ نہ کچھ رقم دیں گے جس سے میں کھانے پینے کا سامان خریدوں گی اور جب میں پیٹ بھر کر کھاؤں گی تو میں اس قابل ہو سکوں گی کہ نہ صرف اپنے بچے کو بلکہ اس بچے کو بھی دودھ پلاسکوں گی۔
پھر حلیمہ کہنے لگی کہ اب تو مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ایسا بچہ ملے جس کے گھروالے دولت مند ہوں اور جو خاصی رقم ہمیں دے دیں۔اب مجھے یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟ میں نے اپنی ساتھی اونٹنی سے پوچھا کہ تم میرے مقابلے میں صحراکے رستوں کو خوب جانتی ہو بتلاؤ تو سہی کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟اونٹنی نے جواب دیا کہ ہم مکہ جا رہے ہیں۔مکہ کا نام سنتے ہی میرے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایسا لگا کہ مجھ میں چلنے کے لئے خوب طاقت آگئی ہے۔ اب کیا تھا کہ میں تیزی سے دوڑرہا تھا۔ ایسا کیوں ہوا یہ مجھے بھی نہیں معلوم ۔ہم مکہ ان لوگوں سے پہلے پہنچ گئے جو ہم سے پہلے روانہ ہوئے تھے۔حلیمہ نے میرا شکریہ ادا کیا اور بچے کی تلاش میں نکل گئی۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو تھکی ہاری تھی اور غمگین دکھائی دیتی تھی۔میں نے اسے اپنے خاوند سے کہتے ہوئے سنا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم خالی ہاتھ ہی واپس جائیں گے۔اب تو بھوک اور تھکاوت بھی بڑھ گئی ہے۔مجھے بے چاری حلیمہ پر اس لئے بہت ترس آیاکہ کوئی بھی خوش حال گھرانہ اپنے بچے کو ایک کمزوراور لاغر عورت کے حوالے نہ کرنا چاہتا تھا۔
حلیمہ کی تمام ساتھی عورتوں کوبچے مل گئے۔ صرف ایک یتیم بچہ رہ گیا جسے حلیمہ کی کسی ساتھی عورت نے اس خوف کی وجہ سے نہ لیا تھاکہ ایک یتیم بچے کی طرف سے اسے کیا ملے گا۔
تھوڑی دیر بعد میں نے حلیمہ کو یہ کہتے سنا کہ چلو خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے کہ میں اس یتیم بچے کو ہی لے چلوں۔وہ دوبارہ شہر کی طرف چلی اور تھوڑی دیربعد اپنی گود میں ایک بچے کو لئے ہوئے آئیں۔ایک بے حد حسین جمیل بچہ جیسے چودھویں کا چاند ہو۔حارث بچے کی طرف بڑھا اور جب اس کی نظر بچے پر پڑی تو اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔اس نے اپنی بیوی حلیمہ سے پوچھاکہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اور اس کا کیا نام ہے؟
حلیمہ نے جواب دیا کہ اس کا نام محمد(ﷺ) ہے اور اس کے باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبد المطلب ہے۔ اس کے دادا قریش کے سردار ہیں اور یہ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔اس کی والدہ آمنہ کا قریش کے ایک معزز گھرانے سے تعلق ہے۔آمنہ کے والد ایک معزز عرب سردار تھے جن کانام وہب تھا۔یہ باتیں سن کر حارث کی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔دونوں بچوں کے ساتھ حلیمہ مجھ پر سوار ہو گئی۔حلیمہ کا بچہ محمد ﷺکی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا۔محمد ﷺ بھی بہت خوش نظر آرہے تھے۔حارث بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوا اور ہم روانہ ہوگئے۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں چل نہیں بلکہ تیزی سے دوڑ رہا ہوں۔میں ان تما م جانوروں سے آگے نکل گیا جو ہمارے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔پھر میں نے ان جانوروں کو بھی جا لیا جو ہم سے پہلے مکہ سے نکلے تھے۔ اپنے جسم میں ،میں نے ایک عجیب سی طاقت محسوس کی ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے کافی عرصہ کسی چراگاہ میں کھانے پینے میں وقت گزارا ہے اور خوب سیر ہو چکا ہوں۔ حارث کی اونٹنی کی بھی کچھ ایسی حالت تھی۔وہ بے چاری پتلی کمزور ہونے کے باوجود ایسی تیز رفتاری سے چل رہی تھی کہ جیسے وہ اونٹنی نہ ہو بلکہ گھوڑا ہو۔اب ہم حلیمہ اور حارث کے خیمے تک پہنچ چکے تھے۔ہمارے خیمے پرپہنچنا تھا کہ یوں لگا جیسے بے شمار خیر وبرکتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں۔ہمارا حال ہی بدل گیا۔پہلے تو کئی مہینوں سے آسمان سے بارش کا ایک قطرہ بھی نہ گرا تھا۔اب کیا دیکھتے ہیں کہ بادل اکٹھے ہونے شروع ہوئے۔زور سے بارش ہوئی اوردیکھتے ہی دیکھتے زمین جل تھل ہوگئی۔ہر طرف سبزہ اور گھاس نکلنے لگی۔بھیڑ بکری،اونٹ ،میں اور میرے ساتھی جس طرف جاتے انہیں کثرت سے چارہ اور پانی ملتا۔ہر چیز ہی بدل گئی۔زمین، آسمان،فضاء، لوگ، مویشی، خیمے، یوں لگتا تھا جیسے ہر چیز کا رنگ نکھرآیا ہے۔یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ محمد ﷺ ہمارے درمیان آگئے تھے۔
جہاں تک حلیمہ کا تعلق ہے اس کی خوش نصیبی کی انتہا نہ تھی ۔پہلے تو یہ تھا کہ اس کے پاس اپنے بچے کو پلانے کے لئے دودھ نہ تھا مگر اب یہ حال تھا کہ اپنے بچے اور محمد ﷺ کو دودھ پلاتی ۔ وہ دونوں خوب سیر ہوجاتے۔حلیمہ اور اس کے شوہر دونوں کی حالت ہی بدل گئی۔ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا ء کی کثرت ہوگئی۔
اکثر ایسا ہوتا کہ حلیمہ محمد ﷺ کو لے کر مجھ پر سوار ہوتیں اور صحرا میں جاتیں۔مجھے صحرا کی گرمی کا احساس تک نہ ہوتا۔بلکہ یوں لگتا تھا جیسے کسی بادل نے ہم پر سایہ کر لیا ہے اور سورج کی گرمی سے ہم کو بچائے ہوئے ہے۔یہ لمحے جب محمد ﷺ مجھ پر سوار ہو کر جاتے تھے مجھے بہت ہی مبارک لگتے تھے۔
محمدﷺ دو سال کے ہو گئے تو آپ کا د ودھ چھڑا لیا گیا۔قاعدے کے مطابق اب محمد ﷺ کو ان کی والدہ کو واپس کیا جانا تھا۔حلیمہ محمد ﷺ کو لے کر مجھ پر سوار ہوئی اور ہم مکہ کی طرف چلے۔
سارے راستے حلیمہ خاموش رہی۔ اور ایسا لگتا تھا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو،ہم مکہ میں داخل ہوئے اور محمد ﷺ کے گھر پہنچے ۔حلیمہ میرے اوپر سے اتریں اور محمد ﷺ کو لے کر گھر میں داخل ہوئیں۔تھوڑی دیر بعد میں نے گھرمیں حلیمہ کو یہ کہتے سنا ’’ اے آمنہ ! اس بچے کو میرے پاس کچھ اور عرصہ رہنے دو۔‘‘اس کی باتوں سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ آمنہ کی منت کر رہی ہے۔حلیمہ کا دل بھی بھر آیا تھا آخر کار آمنہ نے حلیمہ کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق محمد ﷺ کو اپنے ساتھ واپس لے جائے۔
اب ہم واپس لوٹے ایسا لگتا تھا جیسے میں خوشی سے ہوا میں تیر رہا ہوں۔جو مجھے دیکھتا اسے یقین نہ آتا کہ یہ رفتار ایک گدھے کی ہے جب ہم واپس گھر پہنچے تو حارث کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا کہ محمد ﷺہمارے ساتھ دوبارہ واپس آگئے ہیں۔محمد ﷺ پھر ہمارے ساتھ رہنے لگے۔خیر و برکت کی بارشیں ہم پر ہوتی رہیں۔ہماری خوش نصیبی اور مسرت کی انتہا نہ تھی ۔ اسی طرح دن اور مہینے گزرتے گئے کہ ایک دن سیدہ حلیمہ کا بیٹادوڑتا ہوا آیا اور رورو کر کہنے لگا کہ دو شخص جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے آئے اور میرے بھائی محمد ﷺ کو پکڑ کر لے گئے۔حارث زور سے چلایا ’’ہائے غضب ان دونوں نے انہیں پکڑ لیا۔ارے محمد ﷺ تو ہمارے پاس امانت ہے۔ اب ہم کیاجواب دیں گے؟‘‘حلیمہ اور اس کا شوہر دوڑکر محمد ﷺ کی تلاش میں باہر بھاگے۔ میں بھی پیچھے پیچھے نکلا کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے؟ہم نے محمد ﷺ کو صحرا میں کھڑا پایا۔ان کے چہرے پر ایک عجیب نور تھا۔
باوجود اس کے کہ محمد ﷺ بالکل صحیح سلامت تھے حلیمہ اور اس کا شوہر حارث بہت ڈر گئے تھے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ محمد ﷺ کو ان کی والدہ کو واپس کر دیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کو کچھ ہو نہ جائے۔
اب ہم دوبارہ مکہ گئے اور محمد ﷺ کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آئے ۔ ہم تو محمد ﷺ کو مکہ چھوڑ آئے لیکن اپنے پیچھے محمد ﷺ ہمارے لئے تمام خیر و برکتیں چھوڑ گئے۔خوب بارش ہوئی ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ہمارے لئے کھانے پینے کو کثرت سے تھا اور ہم سب خوش و خرم تھے۔ بعد میں جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ دو انسان نہیں فرشتے تھے جو اللہ کے حکم سے رسول ﷺکے قلب مبارک کو پاک کرنے آئے تھے،میں بہت ہی خوش ہوا۔دراصل یہ فرشتے آپ ﷺ کو رسالت کی ذمہ داری کے لئے تیار کرنے آئے تھے۔پیارے نبی ﷺ پر لاکھوں درود و سلام ہوں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top