skip to Main Content

۴۔حضور ﷺ کی سیرت طیبہ

پروفیسر عفت گل اعزاز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو!
اللہ تعالیٰ نے رسول پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو تمام مسلمانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ قرار دیا۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ(ترجمہ)”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات آپ لوگوں کیلئے اسوہ حسنہ ہے۔“اس دنیا کی تاریخ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، ان کا عمل،ان کا اخلاق،ان کی پوری زندگی ایک آئیڈیل زندگی نظر آتی ہے جو ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا،ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا

۱۔سچائی:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولا۔کبھی جھوٹ بولنا پسند نہ فرمایا۔یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا کہتے تھے۔اس وقت جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو بلایا اور اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے اس پار سے ایک لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے آرہا ہے تو کیا تم یقین کرلو گے؟“سب لوگوں نے اتفاق رائے سے کہا۔”ہاں،کیونکہ تم سچے ہو۔“آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی کی وجہ سے لوگ آپ کو”صادق“ کہتے تھے۔
۲۔وعدے کو پورا کرنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کسی سے کوئی وعدہ کیا، اسے ضرور پورا کیا۔یہاں تک کہ ایک بار جب لین دین کے معاملے میں کسی شخص نے کہا کہ وہ ابھی آتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،”ٹھیک ہے،میں یہاں رہوں گا۔“وہ شخص گھر جا کے اپنے کاموں میں اس بات کو بھول گیا۔تین دن بعد اس کو یاد آیا تو وہ شخص بھاگا بھاگا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے انتظار کر رہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وجہ سے وہاں سے نہ ہٹے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول دیا تھا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے ہٹ جاتے تو دوسرے شخص کو زحمت ہوتی۔اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندل کو اپنے ساتھ مدینہ نہ لے جاسکے کیونکہ یہ وعدہ ہو چکا تھا کہ کوئی شخص مکہ سے مدینہ نہ جا سکے گا۔ہر چند کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ ابو جندل آپ کے ساتھ چلتے لیکن اس طرح وعدہ خلافی کا امکان تھا۔
۳۔امانت داری:آپ صلی اللہ علیہ و سلم سچے تھے، اس لئے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بہت بھروسہ تھا۔ وہ بے دھڑ کے اپنی امانتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھوا دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی امانتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس محفوظ ہیں اور انہیں کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔جس وقت ہمارے پیارے نبیﷺ ہجرت کے ارادے سے مکہ سے نکل رہے تھے تو آپﷺ نے لوگوں کی امانتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیں اور کہا کہ لوگوں کو صبح یہ امانتیں واپس کر دینا حالانکہ وہ ایک مشکل وقت تھا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امانتوں کا خیال رکھا۔ہر مومن شخص میں یہ تینوں خوبیاں ہوتی ہیں جبکہ منافق شخص وہ ہوتا ہے جو جھوٹ بولتا ہے۔وعدہ خلافی کرتا ہے اور امانت میں خیانت کرتا ہے۔جس شخص میں یہ تینوں باتیں ہوں، اس پر کبھی کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ان بری عادتوں سے ہم سب کو بچنا چاہیے۔
۴۔انصاف پسندی:فتح مکہ کے بعد ایک مرتبہ خاندان مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت ابی الاسد نے چوری کی۔چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ قریش کے لوگ چاہتے تھے کہ فاطمہ کا تعلق ایک معزز گھرانے سے ہے، اس لیے وہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید،فاطمہ کی سفارش لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت غصّہ آیا اور فرمایا:”بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے کہ وہ غریبوں کو جرم کی سزا دیتے تھے اور امیروں سے درگزر کرتے تھے۔“انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جرم جس شخص نے بھی کیا ہو چاہے وہ کوئی غریب ہو اور بے حیثیت آدمی ہو یا معاشرے میں جس کا بڑا مقام ہو اور امیر کبیر اور صاحب حیثیت ہو،وہ سزاوار ہے اور سزا ضرور ملنی چاہیے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امیر عورت کے لیے کوئی رعایت نہ دی اور اسے سزا ملی۔
غزوہ بدر کے بعد جنگی قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی دوسرے قیدیوں کی طرح ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر لایا گیا۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسی صعوبت کبھی نہ اٹھائی تھی۔وہ تکلیف کی شدت سے کراہنے لگے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر بے چین ہوگئے۔صحابہ کرام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے قراری کی وجہ سمجھ گئے اور انھوں نے کہا،”عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:”’یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں یا سب کے ساتھ ان کو بھی اسی حال میں رہنے دیا جائے۔“کیوں کہ یہی انصاف کا تقاضا تھا۔
غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلام کی صف بندی فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کے پیٹ پر چھڑی لگا کر فرمایا”برابر ہو جاؤ!“انصاری نے کہا:”یا رسول اللہﷺ مجھے اس چھڑی سے سخت تکلیف ہوئی ہے۔آپ ﷺپیغمبر عدل و انصاف ہیں۔میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔“نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے۔“اور فوراً اپنا کرتہ اوپر اٹھایا۔انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ مبارک کو چوم لیا۔
اسی طرح وصال سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر مجھ پر کسی کا قرض ہو تو وہ مجھ سے لے لے۔“ایک صحابی نے کہا”ایک بار آپﷺ نے مجھے مارا تھا۔میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔“تمام صحابہ پریشان ہوگئے۔ہمارے پیارے نبی ﷺنے فرمایا:”ٹھیک ہے تم اپنا بدلہ مجھ سے لے لو!“اس شخص نے کہا۔”اس وقت میری پشت پر کپڑا نہ تھا۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خندہ پیشانی سے اپنا کرتہ ہٹایا تو اس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر مہر نبوت کو چوم لیا اور کہا کہ مجھے بہت مدت سے یہ آرزو تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعائے خیر کی۔
۵۔مہمان نوازی: مہمان نوازی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی وصف تھا۔گھر آنے والے مہمانوں کی ضرورخاطر مدارات کرتے۔کھانے کی جو چیز بھی موجود ہوتی،مہمان کے سامنے پیش فرماتے۔مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ۔ بعض دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھوکے رہ جاتے اور اپنے حصے کا کھانا دوسروں کو کھلا دیتے۔
۶۔سخاوت:ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کو کبھی اہمیت نہ دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دولت کے ڈھیر لگ جاتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی جلدی وہ ساری دولت حاجت مندوں میں بانٹ دیتے کہ شام تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ بھی نہ بچتا۔جب کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا یعنی کچھ مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔بلکہ ضرور کچھ نہ کچھ دے کر اسے رخصت کرتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نوے ہزار درہم آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام رقم لوگوں میں بانٹ دی۔کچھ دیر بعد ایک ضرورت مند آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اب دینے کو کچھ نہ بچاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا”تم میرے نام پر کسی سے قرض لے لو، اسے میں اتار دوں گا۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”یا رسول اللہ!آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ تکلیف نہیں دی کہ آپ اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کریں“(یعنی یہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے،پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور دوسروں کو دیں)۔اس وقت ایک انصاری نے کہا:”دیجئے ضرور دیجئے، اللہ مالک ہے،غربت کا بھلا کیا ڈر؟“رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس لطیف مذاق پر ہنس پڑے اور فرمایا:”خدا نے مجھے اسی کا حکم دیا ہے۔“ یعنی بے انتہا سخاوت اور فیاضی کا اور ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اپنایا۔
۷۔صبر:ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم جناب عبداللہ انتقال فرما چکے تھے۔چھ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ جناب آمنہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کی مامتا سے بھی محروم ہوگئے اور والد کا شفیق چہرہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہی نہ تھا۔بچپن کے زمانے ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ باپ کا پیار ملا،نہ ماں کی محبت۔پھر پیار کرنے والے دادا بھی چلے گئے۔جب نبوت عطا ہوئی تو مکہ کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر کر کے ہر بات کو برداشت کرتے چلے گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پروردگار نے اولاد عطا کی لیکن سوائے بی بی فاطمہ کے کوئی اولاد زندہ نہ رہی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے قاسم،طاہر اور ابراہیم چھوٹی عمر ہی میں چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور فرمایا:”یہ اللہ کی رضا ہے اور ہم مجبور ہیں۔“

۸۔استقامت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرب میں خدا کی وحدانیت کا پیغام پھیلانا شروع کیا تو یہ ایک بے حد مشکل کام تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ثبات کو جنبش نہ ہوئی۔یہاں تک کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب سے کہا:”اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ،وہ ہمارے آباء و اجداد کے مذہب کو برا کہتا ہے۔ وہ ہمیں احمق کہتا ہے اور ہمارے بتوں کی بے عزتی کرتا ہے۔ تم اسے منع کرو کہ وہ ان باتوں سے باز آجائے یا تم بیچ میں سے ہٹ جاؤ یا تم میدان میں آ جاؤ تاکہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہو جائے۔“
حضرت ابوطالب جانتے تھے کہ قریش اپنی بات کے پکے ہیں۔انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا:”بیٹا مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ جسے میں برداشت نہ کر سکوں۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کیا اور پوری سچائی سے فرمایا”چچا!اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں،تب بھی میں اس کام سے باز نہ آؤں گا۔“
اس عزم صمیم کا اندازہ کرکے حضرت ابوطالب سمجھ گئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اپنا مشن جاری رکھیں گے۔آپ نے پھر یہی کہا: ”بیٹا جو تیرے دل میں ہے تو وہی کر۔میں تیرا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔“حضرت ابو طالب نے زندگی بھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ انہیں کافروں کے ظلم و ستم سے بچایا اور انہیں اس عظیم جدوجہد میں کبھی تنہا نہ چھوڑا۔
۹۔سادگی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عالیشان محلوں میں نہیں رہے۔نہ کبھی قیمتی لباس زیب تن فرمایا۔سادہ لباس پہنا،سادہ غذا کھائی،لوگوں سے سادہ دلی کے ساتھ ملتے۔کبھی غرورو تکبر نہ فرمایا۔ہمیشہ انکساری اور عاجزی کا طریقہ اپنایا۔اپنی ضرورتوں کو محدود رکھا۔ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے تو دیکھا کہ کسی جانور کی تین کھالیں لٹک رہی تھیں۔ایک برتن میں تھوڑے سے جو رکھے تھے۔ایک چارپائی پڑی تھی جو سخت اور کھردرے بانوں سے بنی گئی تھی جس پر گدا تک نہ تھا۔ صرف ایک تکیہ پڑا تھا جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ”قیصر و کسریٰ کے رہن سہن کی شان دیکھیے اور یہ دونوں جہانوں کے بادشاہ کا حال ہے کہ کمر مبارک پر چارپائی کے سخت اور کھردرے بان کی وجہ سے نشان پڑ گئے ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا یہ بات اچھی نہیں کہ ان کے لیے اس دنیا کی آسائشیں ہیں اور ہمارے لئے آخرت کی نعمتیں۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”یقینا ہمارے لئے آخرت ہی بہتر ہے۔“
جب مسجد نبوی تعمیر ہوئی، وہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے لئے حجرے بھی تعمیر کرائے جو انتہائی سادہ تھے۔ان حجروں کی دیواریں کچی اینٹوں کی اور چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔دروازے پر کمبل کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ان میں دنیا کے عظیم ترین انسان اور ان کی ازواج نے انتہائی سادگی کے ساتھ زندگی گزاری۔
۱۰۔دنیا کی حیثیت: ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرا ہوا بکری کا بچہ پڑا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:”تم میں سے کوئی اسے لینا پسند کرے گا۔“سب نے انکار کیا کہ یہ بھلا کس کام کا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دنیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔دنیا اور اس کی زندگی کی حیثیت ایک مرے ہوئے جانور سے زیادہ نہیں۔“اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی عیش و عشرت کو،آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کبھی اہمیت نہ دی۔
۱۱۔شجاعت و بہادری: ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بہادر،جرأت مند اور شجاعت والے تھے۔مدینہ پر جب مکہ کے کافروں نے حملہ کیا تو آپﷺ خود مجاہدین کو لے کر میدان جنگ میں گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اور حق کا فیصلہ کرنے والی جنگوں میں بذات خود حصہ لیا اور دشمن سے مقابلہ کیا۔بہادری سے لڑے اور میدان جنگ میں موجود رہے یہاں تک کہ رب العزت نے آپﷺ کو فتح اور نصرت سے نوازا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات میں خود شرکت فرمائی۔غزوہ حنین کے دوران جب دشمنوں نے گھاٹیوں، گھروں اور راستوں پر پہلے سے پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی اور اچانک مسلمان فوجیوں پر حملہ کیا تو بہت سے لوگ گھبرا کر میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں جمے کھڑے رہے اور انہوں نے لوگوں کو پکارا کہ”واپس میدان میں آؤ۔میں محمد بن عبد المطلب،خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“حضرت عباس نے بھی لوگوں کو پکارا یہاں تک کہ لوگوں کو ہمت ہوئی اور وہ دوبارہ میدان میں لوٹ آئے اور کامیابی ان کا مقدر بنی۔یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے خود بہادری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو ان جنگوں کے لیے تیار کیا اور اپنی افواج میں ہمت و حوصلہ کی بجلی بھردی ورنہ تعداد میں مسلمان، کافروں یہودیوں اور نصرانیوں سے بہت کم تھے اور سازوسامان بھی ان کے مقابلے میں بہت کم تھا۔
۱۲۔مروت: غزوہ حنین کے بعد جنگی قیدیوں میں حضرت شیما آئیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن تھیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یاد دلانے پر پہچان لیا۔فرط محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت اور احترام سے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور ان کی خواہش کے مطابق رخصت کیا۔
۱۳۔عفو و درگزر:یہ بات سب جانتے ہیں کہ اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر تکلیفیں دیں۔ان کے ساتھ کس قدر ظلم کیے اور کیسا دشمنی کا رویہ اپنایا۔ جب یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس ہجری کو فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں تو اعلان فرما دیتے ہیں:”امن ہے ہر شخص کے لئے جو حرم میں آ جائے،اپنے دروازے بند کر لے، حکیم بن حزام یا ابوسفیان کے گھر آ جائے۔“یعنی کوئی بدلہ نہیں،کوئی لڑائی نہیں،کوئی انتقام نہیں اور جب وہ ظالم لوگ جنہوں نے آپ پر ظلم ڈھائے تھے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا کرکٹ کی بارش کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برساتے تھے۔یہاں تک کہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے محبوب وطن سے نکال کر دم لیا،وہ سب،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نیک اور پاکیزہ دل،ہر طرح کی عداوت،بغض،حسد اور انتقام سے پاک تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلے دل سے معافی کا اعلان فرماتے ہیں۔”جاؤ تم سب آزاد ہو،آج تم پر کوئی گرفت نہیں!“
۱۴۔امن پسندی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مشن امن تھا۔جنگ وجدال،فساد،لڑائی،جھگڑے اور بدامنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل پسند نہ تھے۔لیکن جب دشمنان اسلام نے خود بڑھ بڑھ کر حملے کرنے شروع کئے تو اللہ کے حکم کے مطابق اپنے تحفظ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تلوار اٹھانا پڑی اور اسلام کی حفاظت کے لیے میدان جنگ میں اترنا پڑا۔جنگ تبوک کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کو لے کر آگے بڑھے لیکن دشمن مقابلے پر نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کی سلامتی کے لیے خود کوئی حملہ نہ کیا اور بستیوں پر کوئی لوٹ مار نہ کی اور واپس لوٹ آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاوجہ جنگ سے گریز کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں کبھی پہل نہ کرتے تھے لیکن جب دشمن خود مقابلے کے لیے ہتھیار لے کر حملہ کرتا ہے تو اس صورت میں اپنے دفاع کے لئے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہی حکمت عملی اپنائی۔
۱۵۔علم سے محبت:غزوہ بدر کے موقع پر جو قیدی پکڑے گئے، ان سے کہا گیا، جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں۔اس خدمت کے عوض انہیں رہا کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو علم سے محبت کرنا سکھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی جانا پڑے“ (ان دنوں چین کے لوگ علم والے مانے جاتے تھے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت سب کیلئے علم حاصل کرنا ضروری قرار دیااور ان کو جنت کے راستوں کا نشان قرار دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مدرسہ قائم کیا جہاں اصحاب صفہ کے قیام کا انتظام فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم معلم تھے اور لوگوں کو دین کی باتوں کی تعلیم دیتے تھے۔بری باتوں سے روکتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسری ازواج مطہرات عورتوں کو دین کی باتیں بتاتی تھیں اور دنیا کی زندگی اور یہاں کے صحیح طور طریقے بھی بتاتی تھیں، امت مسلمہ کی رہنمائی فرماتی تھیں،اس طرح عورتوں کے مسئلے حل ہو جاتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی امت کی رہنمائی کا یہ سلسلہ برقرار ہے۔
۱۶۔میانہ روی:زندگی کے معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ روی کو پسند فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادات میں بھی میانہ روی کا درس دیتے تھے۔فضول خرچی،اسراف بے جا اور نمود و نمائش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں کوئی گنجائش نہ تھی۔
۱۷۔خوش مزاجی:ایک مرتبہ ایک بڑھیا آپ اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے جنت کی دعا فرمائیں کہ خدا مجھے جنت میں جگہ دے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہیں جائیں گی۔“وہ عورت غمگین ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کے کہا:”اللہ تعالیٰ جنت میں داخل ہونے سے پہلے سب کو جوان کر دے گا۔“یہ جواب سن کر وہ بڑھیا خوش ہوگئی۔
ایک بار ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا:”میں نہایت غریب ہوں،محنت مزدوری کرتا ہوں،میرے پاس کوئی جانور نہیں جو بوجھ اٹھا سکے۔مہربانی فرما کے مجھے بیت المال سے ایک اونٹ عنایت فرمائیے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر کہا:”ٹھیک ہے،ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے۔“وہ آدمی کچھ پریشان ہو گیا اور بولا:”یا رسول اللہ! مجھے تو بڑا انٹ چاہیے جو میرے کام آ سکے۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا:”کیا اونٹ،اونٹنی کا بچہ نہیں ہوتا؟“
زاہر ایک بدو تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیہات کے متعلق کام کا حکم دیتے تو وہ حکم بجا لاتا۔زاہر ایک دن بازار میں کچھ سودا بیچ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے جا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا اور پوچھا:”بتاؤ میں کون ہوں؟“وہ پہچان نہ سکا۔جب اسے معلوم ہوا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو وہ بے حد خوش ہوا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں کہا:”اس غلام کو کون خریدتا ہے؟“زاہر کہنے لگے: ”یارسول اللہ!مجھ جیسے ناکارہ غلام کو جو بھی خریدے گا،نقصان میں رہے گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم خدا کی نگاہ میں ناکارہ نہیں ہو۔“

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر شفقت اور مسکراہٹ کی روشنی چھائی رہتی، جو خوش مزاجی کو ظاہر کرتی تھی۔
۱۸۔شرم و حیا:انسان کو تمام برے کاموں سے جو چیز روکتی ہے وہ شرم و حیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشیں کنواری لڑکی سے زیادہ شرم و حیا رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں نیچی رہتی تھیں۔فحش گفتگو اور بے شرمی کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم میں شرم و حیا نہیں تو جو چاہو کرو۔“یعنی شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو برے کاموں سے دور رکھتا ہے اور جب شرم و حیا کا احساس ہی ختم ہو جائے تو انسان برے سے برے کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بے شرمی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتے تھے۔
۱۹۔صفائی: مشہور حدیث ہے:”صفائی نصف ایمان ہے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی اور پاکی کا ہمیشہ بہت خیال رہتا تھا۔اپنا جسم اور لباس اور گھر صاف ستھرا رکھتے تھے۔ایک بار ایک شخص نہایت برے حلیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔اس کے بال الجھے تھے، کپڑے میلے اور بوسیدہ تھے،جسم پر میل جما ہوا تھا۔سب لوگ ا سے عجیب عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا۔اسے نہانے دھونے اور صاف کپڑے تبدیل کرنے کو کہا۔ذرا دیر بعد وہ شخص آیا تو اس کا حلیہ بدل چکا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی خوفناک شیطان کی طرح نظر آنے سے کیا یہ بہتر نہیں؟“
۲۰۔رزق حلال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سب سے افضل کھانا وہ ہے جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے حاصل کیا گیا ہو۔“محنت مشقت کر کے رزق کمانا نہایت احسن کام ہے۔اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو حرام مال کھلانا سختی سے منع ہے۔مدینہ میں ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کی درخواست کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی چیز تو ہوگی۔ وہ ایک پیالہ اور ٹاٹ کا ٹکڑا لے آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر صحابہ نے دو درہم میں یہ چیزیں خریدیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رقم اس کے ہاتھ میں دی اور کہا:”ایک درہم میں کچھ کھانے پینے کا سامان لے آؤ اور ایک درہم کی رسی اور کلہاڑی خرید لو۔کل سے جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹو اور انہیں بیچ کر گزارا کرو۔“اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محنت کر کے روزی کمانے کی ہدایت فرمائی۔
موت ایک اٹل حقیقت: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”موت تحفہ ہے مومن کا۔“(بیہقی) سو اس تحفے سے خوش ہونا چاہیے۔اگر عذاب کا ڈر ہو تو اس سے بچنے کی تدبیر کرے یعنی اپنی کوتاہیوں پر توبہ کرے اور نیکی اختیار کرے۔قرآن پاک میں صاف بتا دیا گیا ہے۔”کسی جان کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے سوا مر سکے۔لکھا ہوا وقت مقرر ہے۔“اسی طرح قرآن پاک میں آیا ہے۔”کل نفس ذائقۃ الموت“ (ترجمہ)”ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:”مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ؟میری اور دنیا کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی سوار چلتے چلتے کسی درخت کے نیچے سایہ لینے کو ٹھہر جائے پھر اس کو چھوڑ کر آگے چل دے۔“(احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ ہنسنے اور بہت بلند بانگ قہقہے لگانے کو پسند نہیں کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم لذتوں کو توڑنے والی موت کو زیادہ یاد کرو تو وہ تمہیں غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے لہٰذا موت کو زیادہ یاد کیا کرو۔“
بچوں سے محبت:
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں سے بہت محبت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے ہمیشہ بہت محبت بھرے لہجے میں بات کرتے۔ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے۔ننھے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے۔انہیں بہلانے کے لیے طرح طرح کی آوازیں نکالتے۔ انہیں کچھ کھانے کی چیز کھجور وغیرہ دیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ سے بہت پیار تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے منبر پر تشریف فرما تھے اور خطبہ شروع ہی کرنے والے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا دونوں نواسے نئے کپڑے پہنے سامنے سے آ رہے ہیں۔انہیں دیکھ کر منبر سے نیچے اتر آئے اور دونوں کو گود میں لے کر پیار کیا۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لاڈلے نواسے حسین رضی اللہ عنہ کوکندھوں پراٹھائے گلی سے گزر رہے تھے۔ایک صحابی نے جو یہ منظر دیکھا تو بے اختیار بولے:”سبحان اللہ کیا عمدہ سواری ہے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر جواب دیا:”سوار کی طرف دیکھو، وہ بھی تو کسی سے کم نہیں۔“
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کو پیار کر رہے تھے، انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا منہ چوما تو ایک صحابی اقرع بن حابس نے دیکھا تو تعجب سے بولے:”میرے دس بیٹے ہیں،میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔“
ایک بار ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئے۔ ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بچی بھی تھی۔وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگی۔مہر نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پرابھرا ہوا گول سا نشان تھا۔بچی کے والد نے اسے مہر نبوت سے کھیلنے سے منع کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی سے کہا:”اسے کھیلنے دو۔“
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بچوں کے قریب سے گزرتے تو خود السلام علیکم کہتے۔چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو رستے میں جو بچے ملتے، انہیں بڑی شفقت سے اپنے پاس یعنی سواری پر بٹھا لیتے۔جب موسم کا نیا پھل آتا تو سب سے پہلے کسی بچے کو عنایت فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ جس شخص کواولاد دے اور وہ اس سے محبت کرے، اس کا حق بجا لائے تو وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا۔“
والدین سے حسن سلوک
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کا درجہ بہت بلند قرار دیا۔قرآن پاک میں آیا ہے:”اور والدین،رشتے داروں، یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔“(سورہ البقرہ) اسلام کی رو سے یہ انسانی حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔تمام انسانوں میں والدین کا حق سب سے زیادہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:””جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔“یعنی جو شخص اپنی ماں کی خدمت کرے گا وہ ضرور جنت کا حق دار بنے گا۔اس کی بڑی وجہ سیدھی سی ہے۔والدین اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔خود تکلیف اٹھا کر بچوں کو آرام دیتے ہیں،ان کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں۔انہیں لباس،خوراک مہیا کرتے ہیں۔جب لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہوتا تو وہ اپنا پیٹ کاٹ کے بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔اس لئے اولاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان احسانات کا بدلہ اچھے عمل سے دیں۔اپنے ماں باپ کی عزت کریں،ان کی خدمت کریں،ہمیشہ ان کا ادب و احترام کریں اور کبھی ان سے برا سلوک نہ کریں۔ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:”یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”تیری ماں۔“اس شخص نے پھر سوال کیا:”پھر کون؟“آپﷺ نے جواب دیا:”تیری ماں۔“ایک شخص نے تیسری دفعہ پوچھا:”اس کے بعد کون؟“آپﷺ نے فرمایا:”تیری ماں۔“اس شخص نے پھر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”تیرا باپ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کر کے جنت نہ حاصل کر سکے وہ خوار ہوا۔“
بڑھاپے میں جب انسان کمزور و ناتواں ہو جاتا ہے،اسے اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے،اس کی خدمت کی جائے۔اس لیے اولاد کی یہ سعادت مندی ہے اور اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے اور جو شخص سعادت سے محروم رہا وہ بڑا بدبخت ہوا۔
ایک بار ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ:”مجھے جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دیجیے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:”کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟“اس نے کہا:”جی ہاں!دونوں موجود ہیں اور بوڑھے ہیں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جاؤ ان کی خدمت کرو،یہی تمہارا جہاد ہے۔“
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے کہا:”اپنے ماں باپ پر تو کوئی لعنت نہیں بھیج سکتا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر کوئی شخص،کسی کے باپ کو گالی دے،توجواباً وہ شخص اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہے گا،اس طرح پہلے گالی دینے والا شخص اگر اپنی زبان پر قابو رکھتا تو اس کے والدین پر بھی لعنت نہ بھیجی جاتی ہے۔“
بزرگوں کا احترام
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بزرگوں کا بے حد احترام کرتے۔ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے والد بزرگوار کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔وہ اپنے والد کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لئے لائے تھے۔ان کے والد کافی بوڑھے ہو چکے تھے اور نابینا بھی تھے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا:”تم نے ان کو کیوں زحمت دی، میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔“
عورتوں پر احسان
اسلام سے پہلے کے زمانے میں عورتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔انہیں کم تر اور کم حیثیت سمجھا جاتا تھا۔بعض شقی لوگ ایسے بھی تھے جو ننھی بچیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔بیٹیوں کو وہ محبت اور اہمیت حاصل نہ ہوتی تھی جو بیٹوں کو حاصل تھی۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے اس طبقے پر احسان عظیم کیا اور عورتوں کو عزت و توقیر بخشی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو”رحمت“کا نام دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس شخص نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کی،یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں اور ان کی شادی کر دی جائے تو وہ جنت میں اس طرح میرے ساتھ ہوگا جس طرح یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔“بیٹیاں چاہے دو ہوں یا ایک بھی ہو تو اس کی تربیت کا اجر اور صلہ یہی بتایا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بیٹیاں ماں باپ کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔“بیٹیوں کے لباس،خوراک اور تعلیم کی ذمہ داری ان کے باپ پر ڈالی گئی ہے اور شادی کے بعد ضروریات زندگی کی فراہمی شوہر کے ذمہ ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے،بحیثیت ماں،عورت کو اتنی وقعت واہمیت بخشی کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا گیا۔بیوی کی حیثیت سے شوہر کو اس کی عزت کا محافظ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھانے والا بنا دیا گیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کا،گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور ان کے ساتھ نہایت محبت اور نرمی کا سلوک کرتے۔ایک بار ازواج مطہرات سفر میں تھیں اور ساربان اونٹوں کو تیز چلانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دیکھو آبگینے ہیں،آبگینے۔ذرا احتیاط سے چلو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو مقدس بندھن قرار دیا اور فرمایا:”النکاح من سنتی“نکاح کے بعد بیوی کی حیثیت سے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا محافظ قرار دیا۔

معذوروں سے ہمدردی:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں معذوروں اور محتاجوں کے لئے بہت نرمی،شفقت اور محبت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنایا تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور عزت سے زندگی بسر کر سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ انہیں معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہو اور انہیں کوئی حقیر نہ سمجھے۔
مدینہ میں ایک لڑکی رہتی تھی جو ذہنی طور پر معذور تھی۔وہ سارا دن شہر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی،کبھی خاموش ہو جاتی اور کبھی خوب شور مچاتی۔ ایک دن وہ مسجد نبوی میں آئی،جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے۔اس نے آ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کھینچا اور کوئی کام کرنے کے لیے کہا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:”بی بی!میں تمہارا کام ضرور کروں گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ چلے گئے اور اس کا کام کر دیا۔
اسی طرح ایک نابینا شخص،جس کا نام بصیر تھا،وہ بیمار پڑ گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بیماری کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گئے اور ان کی طبیعت پوچھی۔
غزوہ تبوک میں اسلامی لشکر کو کامیابی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا:”کچھ لوگ ایسے ہیں کہ نہ تو انہوں نے لڑائی میں حصہ لیا،نہ منزلیں طے کیں، وہ مدینہ ہی میں رکے رہے لیکن پھر بھی وہ غازیوں کے ساتھ ہیں۔صحابہ کو تجسس ہوا کہ وہ کون لوگ ہو سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ معذور لوگ جو جذبہ جہاد رکھنے کے باوجود کسی عذر کی بنیاد پر جہاد میں شریک نہ ہو سکے۔“
حضرت بلال حبشہ کے باشندے تھے۔مکہ کے قریشی سردار کے ہاں غلام تھے۔جب حضرت بلال نے اسلام قبول کیا تو ان پر بہت ظلم ڈھائے گئے۔انہیں تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا جاتا۔ان کی زبان کو بھی زخمی کر دیا گیا تا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لے سکیں۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر ان مظالم کا کوئی اثر نہ ہوا۔وہ ایمان پر ڈٹے رہے لیکن ان کی زبان پر کچھ تتلاہٹ سی آ گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت بلال سے بہت محبت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کا موذن مقرر فرمایا۔کسی صحابی نے کہا:”بلال،اذان کے الفاظ صحیح طرح سے ادا نہیں کر سکتے۔کسی اور شخص کو موذن مقرر کر دیا جائے تو بہتر ہو جو اذان صحیح طریقے سے ادا کر سکے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز پسند نہ کی اور فرمایا:”اللہ تبارک و تعالیٰ کو بلال کی غلط زبان ہی پسند ہے۔“فتح مکہ کے وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے بام کعبہ پر اذان دلوائی۔
ایک بار غزوہ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک بستی سے ہوا جہاں منافقین کی اکثریت رہتی تھی۔وہاں ایک شخص رہتا تھا جو نابینا تھا اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا۔آواز سن کر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور فضول باتیں کرنے لگا۔اس کی گستاخی پر صحابہ کرام کو بہت غصہ آیا۔انہوں نے اس شخص کو پکڑلیا اور چاہتے تھے کہ اسے اس بدتمیزی پر سخت سزا دیں لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”چھوڑو۔اسے کچھ نہ کہو،یہ آنکھ ہی کا نہیں،دل کا بھی اندھا ہے۔“صحابہ کرام نے اسے چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے۔
یتیموں کے والی
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیموں،کمزوروں اور بے سہارا لوگوں سے بہت زیادہ محبت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت ان کمزوروں اور بے بس لوگوں کی مدد کے لیے کمربستہ رہتے تھے۔مکہ میں ایک دولت مند شخص نے مرنے سے پہلے اپنے اکلوتے بیٹے اور تمام مال و اسباب کو اپنے ایک دوست ابوجہل کے حوالے کردیا۔اس شخص نے کچھ عرصہ تو اس یتیم لڑکے کا خیال رکھا، پھر اس کا خرچہ بند کر دیا،پھر اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا اور خود عیش کرنے لگا۔وہ لڑکا بے حد پریشان رہنے لگا۔کچھ لوگوں کو جب اس بات کا پتہ چلا اور اس لڑکے نے ان کی مدد چاہی تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ ابوجہل ہماری بات نہیں مانے گا۔تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔وہ تمہاری مدد کریں گے۔اس یتیم لڑکے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی حق تلفی دیکھ کر اداس ہو گئے اور ابو جہل کے پاس پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا:”یتیم کا حق مارنا بڑا ظلم ہے۔اس بچے کو اس کا حق دے دو۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نے ایسا اثر کیا کہ ابو جہل نے فوراً اس کے خرچے کی رقم نکال کر دے دی۔اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو اس کا حق دلوایا،اور وہ لڑکا خوش ہو گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نوعمری کے زمانے میں مکہ میں ”حلف الفضول“معاہدے میں شرکت کی،جس کا مقصد غریبوں،مسافروں اور کمزور لوگوں کی مدد کرنا تھا اور انہیں ظالموں کے ظلم سے بچانا تھا۔
جانوروں پر رحم
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں پر شفقت اور مہربانی تو کرتے ہی تھے،ان کی رحم دلی اور نرمی جانوروں کیلئے بھی تھی۔ایک دفعہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔اس کے ہاتھ میں ایک رومال تھا۔ اس نے رومال کھول کے دکھایا تو اس کے اندر فاختہ اور اس کے بچے بیٹھے ہوئے تھے۔اس شخص نے بتایا کہ جنگل میں کسی جھاڑی میں یہ بچے پڑے ہوئے تھے۔ اس نے ان بچوں کو اٹھا کر رومال میں ڈال لیا۔کچھ دور چلنے کے بعد کیا دیکھا کہ اس کے سر کے اوپر کوئی پرندہ بڑی بے قراری سے پھڑپھڑا رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔یہ فاختہ تھی جو اپنے بچوں کے لیے چکر کاٹ رہی تھی۔اس شخص نے رومال زمین پر رکھ کر کھول دیا تو فاختہ اپنے بچوں کے ساتھ رومال پر آ کر بیٹھ گئی۔اس طرح رومال میں فاختہ اور اس کے بچے موجود تھے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا کہ”تم نے ان معصوم پرندوں کو بے گھر کر کے بہت برا کیا۔ جاؤ انہیں واپس چھوڑآؤ۔“
اہل عرب کے ہاں عجیب و غریب دستور تھے،جن میں جانوروں پر خوب ظلم کیا جاتا مثلاً جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی سواری کے جانور کو اس کی قبر پر باندھ دیتے،اور اسے نہ پانی دیا جاتا نہ چارہ۔وہ بے چارا جانور اسی طرح بھوکا پیاسا مر جاتا۔ایسے جانور کو بلیہ کہا جاتا تھا۔اسی طرح عرب کے لوگ جانور کو کسی چیز سے باندھ کر اس پر نشانہ لگاتے تھے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کو ناجائز قرار دیا اور حکم دیا کہ اس طرح کسی جانور کو نشانہ نہ بنایا جائے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کچھ لڑکوں کو دیکھا جو ایک مرغی کو باندھ کر تیر سے نشانہ لے رہے تھے۔آپ نے ان لڑکوں کو منع کیا اور انہیں بتایا کہ ایسا کرنے والے لوگوں پر آنحضورﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔
ایک اور بے رحمی کا مشغلہ یہ تھا کہ زندہ جانور کے جسم کے کسی حصے کا گوشت کاٹ کر کھا جاتے تھے۔مثلاً اونٹ کے کوہان اور دنبہ کی چکی کو کاٹ لیتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح زندہ جانور کے کٹے ہوئے گوشت کو مردار قرار دیا اور اس کا کھانا منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجی۔
بلا ضرورت کسی بھی جانور کو قتل کرنا اور انھیں تکلیف دینا اور جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا،انہیں مارنا بھی ناجائز ہے۔بلاوجہ چڑیوں کو مارنا،اسی طرح چیونٹی،شہد کی مکھی، ہدہد اور صرو کو مارنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے۔کسی بھی جاندار کو خواہ وہ جانور ہو یا پودا ہو، اسے تکلیف دینا برا کام ہے اور اس کی پرورش اور حسن سلوک نیک عمل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص درخت لگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور چڑیا یا دوسرے جانور دانہ یا اس کے پتے کھاتے ہیں تو یہ ایک صدقہ کا کام ہے جس کا اجر ملے گا۔“محض تماشا کی خاطر جانوروں کو لڑانا بھی منع ہے،جس سے وہ بے وجہ زخمی ہوجائیں۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے،ایک صاحب نے چولہا جلایا،عین اسی جگہ چیونٹیوں کا بل تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے صحابہ سے فرمایا:”بجھاؤ،بجھاؤ۔“
ایک حدیث میں آیا کہ ایک مسافر کہیں جا رہا تھا،راستہ میں اسے سخت پیاس لگی۔ایک جگہ کنواں نظر آیا،لیکن وہاں کوئی ڈول نہ تھا۔وہ شخص با مشکل کنویں میں اترا،پانی پیا اور باہر نکل آیا۔باہر نکل کے اس نے دیکھا۔ایک کتا وہیں کھڑا تھا اور پیاس کے مارے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔اس شخص نے پیروں سے موزہ نکالا اور دوبارہ اندر کنویں میں اترا اور کتے کے لئے موزے میں پانی بھر کے لے آیا۔کتا فوراً پانی پینے لگا۔خدا نے اس شخص کی اس نیکی پر اس کو بخش دیا۔
ایک دفعہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک طرف شور اٹھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک اونٹ بھاگا جا رہا ہے اور کچھ لوگ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔اونٹ آپﷺ کے سامنے آ کر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔اتنی دیر میں اونٹ کے پیچھے بھاگنے والے لوگ وہیں پہنچ گئے۔انہوں نے بتایا کہ یہ اونٹ اب بوڑھا ہو چکا ہے اور کام کاج کے لائق نہیں رہا، اس لیے وہ اسے ذبح کرنا چاہتے ہیں۔اونٹ بڑی بے بسی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر ترس آگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے مالکوں سے کہا کہ اس اونٹ نے ایک لمبے عرصے تک تم لوگوں کی خدمت کی ہے۔اب اگر یہ اونٹ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے تو آپ اس کی کچھ خدمت کر دیں۔ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لی اور اونٹ کو آزاد کرکے چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
ایک بار ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:”میں نے خاص اپنے اونٹوں کے لیے پانی کے حوض بنوائے ہیں۔کبھی کبھار،وہاں بھولے بھٹکے اور اونٹ بھی آ جاتے ہیں،اگر میں انہیں بھی پانی پلا دیا کروں تو مجھے اس کا ثواب ملے گا؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہر پیا سے یا زندہ جاندار کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو اس کا ثواب ملتا ہے۔“
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ دیکھا جو بلبلا رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اس کی کنپٹی پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا:”یہ کس کا اونٹ ہے؟“ایک انصاری نوجوان نے بتایا کہ”میرا ہے یا رسول اللہ۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خدا نے تمہیں ایک جانور کا مالک بنایا ہے،اس بارے میں خدا سے نہیں ڈرتے،اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس پر جبر کرتے ہو۔“تمام جانداروں کا خصوصاً گھر میں پلنے والے جانوروں اور پرندوں کی خوراک کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔انہیں پانی اور دانہ وقت پر دینا چاہیے۔ان کی حفاظت کا ٰخیال رکھنا چاہیے۔موسم کے اثرات یعنی سردی،گرمی اور دھوپ سے بچانا چاہیے اور ان کے ساتھ ہمدردی اور نرمی کا سلوک کرنا چاہیے۔اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی بھی طرح ان جانداروں کو تکلیف نہ ہو۔ کیوں کہ جو جاندار ہمارے گھر میں پل رہے ہوں ان کا پوری طرح خیال رکھنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے اور ہم اس کے لیے جواب دہ ہوں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہ نما:
انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک اللہ کے وجود کو دل کی گہرائی سے تسلیم کرے کہ وہی اللہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔اس نے انسان کو پیدا کیا۔انسان کا مرنا اور جینا اسی کے اختیار میں ہے۔جب وہ کسی کو زندہ رکھنا چاہتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی۔جب وہ کسی کو موت دینا چاہتا ہے تو کسی میں طاقت نہیں کہ موت کو روک سکے۔اس دنیا میں اللہ ہی کا قانون چلے گا۔یہ قانون نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریعے بندوں تک پہنچایا گیا ہے۔انسان کا فرض ہے کہ اس قانون کی پابندی کرے تاکہ وہ فلاح پائے۔رسول ہونے کی حیثیت سے جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، اس پر عمل کرنا چاہیے اور جس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، اس سے بچنا چاہیے۔
انسان جو خدا کو اپنا مالک اور معبود تسلیم کر لیتا ہے تو وہ دوسروں کی غلامی سے بچ جاتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ کے حکم پر عمل کرے اور یہ سوچ کر زندگی گزار ے کہ ہم کو اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔یہ زندگی ایسی نہیں کہ یہاں جو چاہے کرتے پھرو اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا بلکہ منہ سے نکلنے والی ہر بات کا حساب دینا ہوگا،ہر کام کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرنے کے بعد اٹھنا ہوگااور ساری زندگی کے اعمال کا حساب کتاب دینا ہوگا۔
کچھ مذاہب میں اس بات کو بہت اچھا سمجھا جاتا ہے کہ خدا کا ولی وہ ہوتا ہے جو دنیا کو ترک کردے اور ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہے۔ اور دنیا کے کاموں سے ہٹ کے زندگی گزارے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق انسان اس دنیا میں بھرپور زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔زندگی میں دوسروں کے ساتھ معاملات میں اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک دنیا دار بن کر رہے اور ہر حیثیت میں خدا کے احکامات کی پابندی کرتا رہے خواہ وہ تجارت ہو،سیاست ہو،معیشت ہو،معاشرت ہو،عدالت ہو یا دفاع ہو،ہر شعبہ زندگی میں پاکیزہ اخلاق اور شائستہ رویہ اپنائے کہ اس طریقے سے زندگی بھی کامیاب گزرتی ہے،اور آخرت بھی سنورتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں زندگی کے ہر شعبے میں بحیثیت سپہ سالار،تاجر،مبلغ،سیاست دان،قانون دان،معلم اور گھریلو زندگی میں خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے بھرپور زندگی گزاری اور ایسی تابندہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک کے لیے قابل تقلید ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سربراہ مملکت:
زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے،انسان کو اس کے حکم کی اطاعت لازمی ہے۔انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔خدا کے احکامات کے تحت کاروبار حکومت چلانا ہی رب کی اطاعت ہے۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتظامیہ،عدلیہ اور مقننہ کے افسر اعلیٰ تھے۔اس شہر کا نظم و نسق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی مدینہ سے باہر جاتے تو کسی نہ کسی صحابی کو اپنا قائم مقام بنا کر جاتے۔مسجد نبوی ہی میں آپ کا سادہ دفتر قائم تھا۔
قرآن پاک میں آیا ہے مومنین کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔”و امرھم شوریٰ بینھم“(سورہ شوریٰ) (ترجمہ)”ان کا حکم آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔“چنانچہ کسی امر پر مشورے کے لیے شوریٰ کا اجلاس طلب کیا جاتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے فیصلوں کا احترام کرتے اور انہیں عملی جامہ پہنایا جاتا۔جنگ احد کے وقت آپ شہر میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن صحابہ کی رائے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے باہر کھلے میدان میں جنگ لڑنے پر آمادہ ہوگئے اور جنگ احد شہر سے باہر ہی لڑی گئی۔
امور سلطنت میں بہت سی ذمہ داریاں مختلف صحابہ کو سونپی گئی تھیں۔
*حضرت زبیر رضی اللہ عنہ صدقات اور زکوٰۃ کی آمدنی کا حساب رکھتے۔
*حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ معاہدے تحریر کرتے اور لین دین کا ریکارڈ رکھتے تھے۔
*حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہوں اور امراء کو خطوط لکھواتے تھے اور خطوں کے جوابات بھی وہی دیتے تھے۔
*وحی لکھنے کے کام کے انچارج حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔وحی لکھنے کا کام چالیس افراد سر انجام دیتے تھے۔
*حضور صلی اللہ علیہ وسلم،خالد بن سعید رضی اللہ عنہ سے وقت ضرورت لکھنے لکھانے کا کام لیتے تھے۔
*مال غنیمت کے حساب کتاب کی ذمہ داری معیقب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھی۔
*حضرت زیاد رضی اللہ عنہ غیر ملکی خط وکتابت کے انچارج تھے۔
*سرکاری امور کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہتی تھی۔
*جنگ میں کامیابی کے بعد اسلامی حکومت میں نئے علاقے شامل ہوتے جاتے۔امور سلطنت کو بہتر طور پر چلانے کے لئے رسول خدا نے ان علاقوں میں والی یاگورنر مقرر کئے تھے۔
مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے آغاز ہی میں وہاں بسنے والے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ اہل مکہ سے جو معاہدہ کیا،اسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے جو شاندار فتوحات کا پیش خیمہ بنا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ماہر قانون:
مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقدمات کا فیصلہ احکام خداوندی کے مطابق فرماتے تھے۔دوسرے علاقوں میں مقدمات کا فیصلہ قاضی کیا کرتے تھے جن کا تقرر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے۔سورہ مائدہ میں آیا ہے:”تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس قانون حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے،لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔“ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے:”اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں تو ایسے لوگ کافر ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ عدل و انصاف کے مطابق فرماتے۔ایک بار ایک یہودی اور ایک منافق جو بظاہر مسلمان ہو چکا تھا جس کا نام بشر تھا،ان دونوں کے درمیان لین دین کے معاملے پر اختلاف رائے ہوا۔دونوں نے سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انصاف کرائیں۔ چنانچہ وہ دونوں فیصلے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا معاملہ سنا تو یہودی حق پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔بشراس فیصلے سے مطمئن نہ ہوا۔اس نے سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت نرم مزا ج ہیں اسی لیے انہوں نے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا۔چلو حضرت عمر فاروق سے فیصلہ کراتے ہیں۔اس نے بتایا کہ پہلے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرا چکے ہیں لیکن اس سے مطمئن نہیں ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو کہا:”اچھا ابھی فیصلہ ہوتا ہے۔“ آپؓ نے اس کا سر اڑا دیا۔جو شخص مسلمان ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر متفق نہ ہو، اس کا یہی فیصلہ مناسب ہے۔
حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن بھیجا جا رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:”جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ آجائے تو تم کس طرح فیصلہ؟“حضرت معاذ نے جواب دیا:”کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر کتاب اللہ میں وہ فیصلہ نہ ملے تو؟“حضرت معاذ نے جواباً کہا:”جو رسول خداﷺ نے فیصلہ کیا(یعنی حدیث سے) اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ فیصلہ ان میں سے نہ ہو جو رسول نے کیا پھر کیا کرو گے؟“انہوں نے جواب دیا:”اپنی رائے سے اجتہاد کر لوں گا اور کوتاہی نہ کروں گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خدا کا شکر ہے۔“
اسلامی قانون کے یہی تین ذرائع ہیں یعنی قرآن مجید،حدیث اور اجتہاد۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ماہر معاشیات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایک بہتر ین اور نقائص سے پاک معاشی نظام دیا۔اس میں دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی اور نہ ہی سلطنت میں کوئی حاجت مند رہ سکتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دولت جمع کرنے پر قانونی پابندیاں لگائیں۔
۱۔ہر قسم کا سودی کاروبار ممنوع قرار دیا۔
۲۔جوا کے ذریعے دولت کمانا ممنوع قرار دیا۔
۳۔جن چیزوں کا کھانا پینا حرام ہے ان کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی۔
۴۔دولت کمانے کے وہ تمام طریقے جن سے افراد یا سماج کو نقصان پہنچتا ہو،ممنوع کر دیے گئے۔
۵۔ناپ تول میں کمی کر کے دولت جمع کرنے پر پابندی لگائی گئی۔
۶۔چند ہاتھوں میں دولت کا جمع ہونا،ممنوع قرار دیا گیا۔ایسے اصول وضع کیے گئے جن سے دولت تقسیم ہو اور معاشرے میں گردش کرتی رہے،مثلاً وراثت،ہبہ(تحفہ دینا) اور زکوٰۃ و صدقات۔ان بنیادی اصولوں پر عمل درآمد سے ریاست میں خوشحالی اور مالی استحکام آسکتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آمدن کے ذرائع یہ تھے:
۱۔مال غنیمت: جنگ جیتنے کے بعد میدان جنگ سے دشمن کا جو مال و اسباب حاصل ہوتا تھا، اس میں سے ۵/۴ حصہ فوج میں تقسیم ہوجاتا تھا اور ۵/ ۱حصہ سربراہ مملکت کے اخراجات کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔
۲۔زکوٰۃ: صاحب حیثیت افراد سے زکوٰۃ لی جاتی تھی۔
۳۔صدقات: مال دار افراد رضاکارانہ طور پر صدقات دیتے تھے۔
۴۔جزیہ:غیرمسلم رعایا سے ان کے جان و مال کی حفاظت کے بدلے رقم لی جاتی تھی۔
۵۔خراج: یہ مالیہ تھا جو غیر مسلموں سے وصول کیا جاتا تھا۔جنگ خیبر کے بعد یہودیوں سے ان کی آدھی پیداوار خراج میں لی جاتی تھی۔
۶۔فئے:دشمن اپنا مال چھوڑ کر بغیر لڑے بھاگ جاتا تھا تو وہ مال بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا تھا،اسے فے کہا جاتا ہے۔
صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی کے لیے ہر قبیلے پر حاکم مقرر کیا جاتا تھا جو عموماً اس قبیلے کا سردار ہوتا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس بازاروں میں جاتے اور ناپ تول اور اشیاء کی فروخت کا معائنہ فرماتے اور گورنروں کے اعمال پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر:
جو شخص چیزوں کے لین دین،خرید و فروخت کے ذریعے اپنی روزی کماتا ہے یا کسی بھی قسم کا کاروبار کرتا ہے اسے تاجر کہا جاتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لوگ تجارت کرتے تھے،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت کا پیشہ اپنایا اور تجارت کے معاملات میں اپنی دیانت داری کی وجہ سے اتنا نام کمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان پر اعتبار کیا اور اپنا سامان تجارت ان کے ذریعے شام بھیجوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت دیانتداری کے ساتھ ان کا مال فروخت کیا اور بہت سا نفع کمایا۔
نبوت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کرتے رہے۔اکثر تاجروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا حصہ رکھوا دیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں کو بھی تجارت کی ترغیب دیتے تھے اور انہیں تجارت کے اصول بتاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاروبار میں جھوٹ بولنے،دھوکہ اور فریب دینے سے منع فرمایا۔چیزوں میں ملاوٹ کرنے کو معیوب قرار دیا۔حرام مال کھانے سے منع فرمایا۔ماپ تول میں درستی رکھنے کی ہدایت کی،اگر مال میں کوئی عیب ہو تو اس کے بارے میں خریدار کو پہلے بتا دیا جائے،ذخیرہ اندوزی کی سختی سے ممانعت فرمائی۔ناجائز منافع لینے اور جھوٹی قسم کھانے سے منع کیا اور ان تمام اشیاء کی تجارت کو منع فرما دیا جس سے انسان کو نقصان پہنچتا ہو،مثلاً شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں۔ اسی طرح کاروبار میں سود کو حرام قرار دیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آٹھ سال کے عرصے میں تقریبا ۲۷ جنگوں میں حصہ لینا پڑا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جنگوں میں فعال کردار ادا کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت ایک سپہ سالار مسلمانوں کی بے سروسامانی کے باوجود شاندار کامیابی حاصل کی اور صرف ڈھائی سو مسلمان شہید،ایک قیدی اور صرف ۱۲۷ مسلمان زخمی ہوئے جب کہ دشمنوں کے پانچ ۷۵۹ آدمی مقتول ہوئے،۶۵۶۴ آدمی قید کیے گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت بہادر اور جری فوجی تھے۔ساری فوج سے پہلے آپﷺ دشمن پر وار کیا کرتے تھے۔غزوہ حنین کے موقع پر جب مسلمان فوجی گھبر ا کر ادھر ادھر بھاگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں بہادری سے کھڑے رہے اور ساتھیوں کو پکارا، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر لپک کر آئے اور دشمن سے مقابلہ کیا۔
مدینہ میں دشمن کے حملے کا ڈر تھا۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی گھوڑے پر سوار ہوکر دور تک دیکھنے چلے گئے،پھر واپس آکر صحابہ کو تسلی دی کہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ جو نہایت بہادر اور دلیر تھے، فرماتے تھے کہ جب گھمسان کا رن پڑتاتو ہم رسول اللہ ﷺکی اوٹ لے لیا کرتے تھے۔
ضبط،تدبر اور فنون جنگ میں مہارت سے وہ حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے جس کے ذریعے خونریزی کم سے کم ہواور ملک زیادہ سے زیادہ فتح ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مجاہدوں سے گہری ہمدردی اور محبت رکھتے تھے اور جنگی قیدیوں سے نہایت عمدہ سلوک کرتے تھے۔
دنیا کی تاریخ میں کوئی آپﷺ جیسا جرنیل نہیں گزراجس نے اتنی شاندار فتوحات حاصل کی ہوں اور دشمن کے دانت اس طرح کھٹے کیے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سربراہ خاندان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی زندگی گزاری۔گھر کے اندر ایک عام انسان کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے بھی تھے،جاگتے بھی تھے،کھاتے بھی تھے،پیتے بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی باتوں سے خوش ہوتے،بری باتوں پر ناراض بھی ہوتے۔سرزنش بھی کرتے اور شاباش بھی دیتے۔ازواج مطہرات پر حد درجہ شفقت و مہربانی فرماتے۔ان سے محبت کرتے اور ان کا خیال کرتے۔گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے۔مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار حبشہ کے لوگ کرتب دکھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو موقع فراہم کیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کی اوٹ سے تماشہ دیکھ سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرنے والا ہو۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں بہت انصاف سے کام لیتے اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتے تھے۔جب کوئی بات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہوتی تو آپﷺ سرزنش ضرور فرماتے۔جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا کہ ان کا قد چھوٹا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! تم نے ایک ایسی بات زبان سے نکال دی ہے کہ اگر وہ سمندر میں بھی ملا دی جائے تو اس کی کڑواہٹ سمندر کو بھی تلخ کرکے رکھ دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو اور رشتہ داروں کو نیکی کے کاموں کی تلقین کرتے۔یہاں تک کہ انتقال سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا سے کہا:”آخرت کے لئے کچھ (نیک کام) کرلو،میں تمہیں نہ بچا سکوں گا۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں اور خصوصاً نواسوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملازموں کے ساتھ بھی نہایت مہربان تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین شوہر،بہترین والداورنہایت مہربان آقا تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت مبلغ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اچھی باتوں اور اچھے کاموں کی طرف بلایا۔چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول اور نبی بنایا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبے میں مبلغ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکلات برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی تبلیغ کا مشن جاری رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے جو احکامات خداوندی ملتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:”جو لوگ یہاں حاضر ہیں،وہ ان لوگوں تک میری باتیں پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے پوچھا:”قیامت کے روز جب میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟“
اس وقت حاضرین نے کہا:”ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرم لہجہ میں نہایت شفقت کے ساتھ،حکمت کی باتیں بتائیں۔عمدہ نصیحتیں کیں،حسب موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلانہ سوال و جواب اور بحث برائے بحث بھی کی جاتی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر و تحمل سے کام لیتے، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے مطمئن ہو جاتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر لوگوں کو دین حق دینے کا مشن جاری رکھا اور پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب و کامران کیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔“علم کی طلب ہر مسلمان کا فرض ہے،علم جنت کے راستوں کا نشان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے،آسمان و زمین والے،سب کے سب یہاں تک کہ چیونٹیاں اور پانی میں موجود مچھلیاں بھی علم پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لئے دعا کرتی رہتی ہیں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں سب سے پہلے مکتب کا آغاز کیا،اسے صفہ کہا جاتا تھا اور یہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا جنہوں نے اپنی زندگیاں علم دین حاصل کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔یہ لوگ قرآن مجید اور حدیث کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو فروغ دیا یہاں تک کہ مسلمانوں کے دل میں علم حاصل کرنے کا ولولہ بڑھتا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم باتوں ہی باتوں میں اپنے شاگردوں کو اخلاق کا درس دیتے،تمدن کے اصول بتاتے،تجارت کے اصول سکھاتے، صنعت و حرفت کی خوبیاں بتاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”طالب علم کو علم کی تلاش میں موت آ جائے تو وہ شہید ہوتا ہے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا:”جب تم جنت کی پھلواریوں سے گزرو تو جی بھر کے فائدہ اٹھاؤ۔“صحابہ نے پوچھا:”جنت کی پھلواریاں کیا ہیں؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”علمی مجالس۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں علم کی روشنی پھیلائی،علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازمی قرار دیا۔علم کو عظمت اور فضیلت کا معیار ٹھہرایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے بہترین معلم قرار پائے۔اسلام میں عبادات پانچ ہیں جن کا اادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(۱) نماز،(۲) زکوٰۃ،(۳) روزہ، (۴) حج،(۵) جہاد۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فرض عبادات کی ہمیشہ پابندی کی،ان عبادات کا صحیح طریقہ بتایا اور مسلمانوں کو ان عبادات کی پابندی کی سخت تاکید کی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اچھے اخلاق کی تربیت دی تاکہ ان کے آپس میں تعلقات اچھے رہیں اور معاشرے میں امن و سکون رہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات:
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ“(سورۃ الاحزاب) (ترجمہ)”تمہارے لیے اللہ کے رسول میں پیروی کا اچھا نمونہ ہے۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جس طرح عمل کیا اور جس عمدہ اخلاق سے لوگوں کے ساتھ پیش آئے،یقیناً وہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ایسی بہت سی احادیث ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتی ہیں اور اچھے اخلاق کی تاکید کرتی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان پاک ہوتا ہے، وہ نجس نہیں ہوتا۔“
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑے اور نہ اس کی تحقیر کرے۔
ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون،مال اور آبرو حرام ہے۔
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں یعنی وہ اپنی زبان اور اپنے عمل سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے۔
جو کسی مسلمان کا پردہ رکھے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں اور آخرت میں اس کا پردہ کیے رکھے گا۔
مسلمان باہم ایک دوسرے سے مل کر اس طرح مضبوط ہوتے ہیں جس طرح دیوار،کہ اس کے ایک حصے سے دوسرا حصہ مضبوطی حاصل کرتا ہے یعنی جس طرح اینٹیں آپس میں جڑ کر مضبوط دیوار بناتی ہیں۔
ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق ہیں: جب بیمار پڑے، اس کی عیادت کرے۔اس کی موت (یعنی جنازے) پر حاضر ہو۔وہ دعوت کرے تو اسے قبول کرے۔جب ملے تو سلام کرے۔جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کہے،وہ غائب ہو یا حاضر ہو،اس کی خیر خواہی کرے۔
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:”کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟“
انہوں نے جواب دیا:”مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس درہم اور مال و متاع نہ ہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میں مفلس وہ آدمی ہے جو روز قیامت روزہ اور زکوٰۃ اور عبادات لے کر آئے گا۔اگر اس نے کسی کو گالی دی ہو گی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کو مارا ہوگا۔بس مظلوم کو اس کی نیکیوں میں سے حصہ دے دیا جائے گا اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور لوگوں کا تقاضا باقی رہے تو مظلوموں کی خطائیں بھی اس پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے ان گناہوں کے سبب نار جہنم میں پھینک دیا جائے گا،ایسا شخص درحقیقت مفلس ہوگا۔“
مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔نفل نمازوں،رات بھر کی شب بیداری،نفل روزوں کی بھوک پیاس سے جو درجہ حاصل ہوتا ہے وہی درجہ حسن اخلاق سے حاصل ہو سکتا ہے۔
جب تمہاری نیکی تمہیں خوشی بخشے اور تمہاری بدی تمہیں غمگین کر دے تو تم مومن ہو۔علم حاصل کرو اور لوگوں کو پڑھاؤ۔دینی مسائل اور وراثت کے احکام خود سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔قرآن کا علم خود حاصل کرو اور لوگوں کو سکھاؤ۔
روزہ اور قرآن مجید(کی تلاوت) بندے کی سفارش کریں گے۔
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ رک جاتا ہے مگر تین کاموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ایسا کام جو موت کے بعد بھی جاری رہے اور اس کا نفع موت کے بعد بھی اسے پہنچتا رہے۔وہ علم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں اور نیک اولاد جو والدین کے لئے دعا کرتی رہے۔نیک کاموں میں کنواں،تالاب،مسجد،مدرسہ،ہسپتال،کتب خانہ،پل اور خدمت خلق کے ادارے قائم کرنا،شامل ہیں۔اس کے علاوہ کتاب،شاگرد اور عالم فاضل وارث چھوڑ کر جانا،اور نیک اولاد،کیوں کہ ان اعمال میں مرنے والا ذریعہ اور سبب بنتا ہے اس لیے اس کی جزاء کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے۔

عمدہ اخلاق:
۱۔نرمی: معاملات میں سختی اور سخت گیری کے بجائے نرمی اور سہولت اختیار کرنی چاہیے۔جب کوئی بات نرمی سے کی جاتی ہے تو وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے۔حضرت عائشہ نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔”خدا نرم ہے وہ نرم خوئی کو پسند کرتا ہے۔“جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ بھلائی سے محروم رہا۔
۲۔خوش کلامی: قرآن پاک میں آیا ہے۔”قولو للناس حسنا“(ترجمہ)”اور کہو لوگوں سے اچھی بات۔“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے،نہ لعنت بھیجتا ہے،نہ بدزبانی کرتا ہے اور نہ فحش باتیں کرتا ہے یعنی مسلمان کے منہ سے کلمہ خیر ہی نکلتا ہے۔ بدگوئی اور بد کلامی شیطان کے کام ہیں۔“
ایک صحابی نے پوچھا:”جنت کس کو ملے گی؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے خوش کلامی کی،بھوکوں کو کھانا کھلایا،اکثر روزے رکھے اور اس وقت نماز پڑھی کہ جب دنیا سوتی ہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھی بات کرنا صدقہ ہے۔“
ایک صحابی نے پوچھا:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے سب سے زیادہ ڈر کس چیز کا ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا:”اس کا ڈر۔“
عفو و درگذر:
معاف کرنا خدا کی صفت ہے۔ جو لوگ دوسروں کے قصور معاف کرتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کو معاف کرے گا۔قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے: ”اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے،وہ ایسا ہو جائے گا گویا دوست ہے۔“(سورہ حمٰ)
جب کوئی شخص دوسرے شخص پر ظلم کرتا ہے تو دوسرے شخص کو غصہ ضرور آتا ہے لیکن اس غصے پر قابو پانا اور لوگوں کے قصور معاف کرنے کی جزاء یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور مغفرت ہمارے ساتھ ہوگی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عفو درگزر سے کام لیا اور دشمنوں کو معاف کرنے کی شاندار مثالیں قائم کیں۔
امیر کی اطاعت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو تو اس کی اطاعت کرو۔“معاشرے میں ڈسپلن اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امیر یا سردار یا لیڈر کی اطاعت کی جائے۔خدا جس کو عزت دیتا ہے، مرتبہ دیتا ہے تو اس کی عزت کرنی چاہئے۔اس کی بے عزتی اور نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان شخص کے لئے لازم ہے کہ اپنے حاکم کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، خواہ اسے پسند ہو یا نہ ہو،بشرطیکہ وہ ایسی بات کا حکم نہ دے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو۔“
خاکساری اور عاجزی:
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:”لوگوں سے بے رخی نہ بر تو اور زمین پر اکڑ کے نہ چلو۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عجز و انکساری کا رویہ اپنایا۔غرور،تکبر اور احساس برتری کو ناپسند فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص خدا کیلئے خاکساری کرتا ہے،خدا اس کو بلند کر دیتا ہے۔“خاکساری،انسان کی چال ڈھال اور بات چیت سے ظاہر ہوتی ہے۔
سچائی:
سچائی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کے دل کو، اس کی زبان کو،اس کی نگاہ کو، ہر قسم کی برائی سے بچاتی ہے۔سچا شخص راست باز ہو گا۔ ایماندار ہو گا۔وعدے کا پابند ہوگا۔اس کے دل میں پاکیزگی ہو گی۔سب لوگوں کو اس پر بھروسہ ہوگا۔اس کا عمل پاکیزہ ہوگا،ان کی گواہی سچی ہوتی ہے اور ایسے لوگ معاملات کو سنبھالنے والے ہوتے ہیں۔
رحم:
مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی کرتے ہیں اور یہ ایک بہترین وصف ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔“
خدمت خلق:
ہر وہ کام جس سے خلق خدا کا بھلا ہو،خدمت خلق کہا جاتا ہے مثلاً کسی ضعیف شخص کا کام کر دینا،راستے سے پتھر یا کانٹے ہٹا دینا،پیاسے کو پانی پلانا،بھوکے کو کھانا کھلانا،کسی کی مدد کرنا،اپنے بڑوں اور چھوٹوں کے کام آنا۔خدمت خلق کا بہت اجر ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔
امانت داری:
لین دین کے معاملے میں پوری دیانتداری اختیار کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اگر کوئی شخص کسی جگہ ملازم ہے تو اس کو اپنی تمام ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرنی چاہئیں۔اس میں وقت کی پابندی،پورا کام،ذمہ داری اور فرض شناسی سے تمام مقررہ اوقات میں دفتر میں موجودگی شامل ہے اور یہی امانت داری ہے۔جب کسی معاملے میں کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو اپنی رائے ایمانداری سے دی جائے۔کسی کے راز کو راز رکھنا بھی امانت داری ہے۔
عدل و انصاف:
مسلمان کو ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔کسی کے ساتھ بے انصافی کی جائے تو اس ایک غلطی کی وجہ سے اس شخص کی نہ صرف یہ کہ حق تلفی ہوتی ہے،اس کو بددلی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسرا فریق مفت میں تمام فائدے حاصل کر لیتا ہے،جن کاوہ جائز حقدار نہیں ہوتا۔
عیادت:اگر کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کے لیے ضرور جانا چاہیے اور اس کو صحت کی دعا دینی چاہیے۔ایک عورت جو ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکتی اور تکلیف دیتی تھی،ایک دن وہ بیماری کی وجہ سے کوڑا پھینکنے نہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے اس کے گھر گئے۔
احسان یا بھلائی:
دوسرے لوگوں کی ساتھ نیک سلوک کرنا جس سے انہیں آرام ملے اور ان کا دل خوش ہو،احسان کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم کہتے ہو کہ اگر لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے،اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے،بلکہ اپنے آپ کو اس پر مطمئن کر لوکہ اگر دوسرے احسان کریں تو تم احسان کرو گے،اور اگر وہ برائی بھی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔“یعنی تم اپنے آپ کو اس طرح رکھو کہ لوگ تمہاری ایذا رسانی سے بچیں۔یعنی تم کسی کے حق میں تکلیف دہ نہ بنو۔جب کوئی احسان کرے تو اس کااحسان ماننا چاہیے۔ کسی کی نیکی پر اس کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔احسان فراموشی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
خودداری:
یہ وہ اخلاقی سبق ہے جس سے انسان اپنی عزت،شان،مرتبہ اور حیثیت کی حفاظت کرتا ہے۔یہ خود داری عین شرافت ہے۔انسان کی چال ڈھال،لباس،بول چال ہر چیز سے شرافت کا اظہار ہونا چاہیے،اس میں اس بات کا خیال ضرور ی ہے کہ اس میں غرور اور تکبر کا شائبہ تک نہ ہو اور کسی دوسرے شخص کی تحقیر نہ ہو۔اگر کسی شخص میں خود داری نہیں ہوتی تو کسی دوسرے کے دل میں اس کا وقار اور عزت بھی نہیں ہوتی۔
بہادری:
خدا کی راہ میں بہادری کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرنا بہادری ہے۔غزوہ حنین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میدان میں موجود رہے اور بہت سے مجاہد خوفزدہ ہوکر جنگ کے میدان سے چلے گئے۔بہادری کے ساتھ اپنے درست مؤقف پر ڈٹے رہنا بہادری ہے۔کسی ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا عین جہاد ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں شجاعت اور بہادری کو سراہا گیا ہے کیونکہ نیک لوگوں میں یہ طاقت ہونی ضروری ہے تاکہ وہ ظلم و ستم کو روک سکیں اور باطل قوتوں کو شکست دے سکیں۔

سخاوت:
کھلے دل کے ساتھ اپنی دولت یا مال و اسباب دوسرے کے حوالے کرنے کو سخاوت کہا جاتا۔اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرنا ایک اعلیٰ وصف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے ابوذر،مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس رہ جائے۔مگر یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کو رکھ چھوڑوں،میں کہوں گا کہ اس کو خدا کے بندوں میں دائیں بائیں بانٹ دو۔“
پڑوسی کے حقوق:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خدا کی قسم وہ مومن نہ ہوگا۔“یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کہی، پھر فرمایا:”وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔“ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہے،اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔“پڑوسیوں کو تحفے تحائف بھیجنے چاہئیں۔کھانے پینے کی اشیاء بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ”حضرت جبریل نے پڑوسی کے اتنے حقوق بتائے کہ میں سمجھا کہ کہیں ان کو وراثت کا حق بھی نہ دلا دیں۔“
”مومن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کے کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔“یعنی پڑوسی کی خبر گیری کرنی چاہیے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔اس کی مدد کرنی چاہئے۔
خوشی کے موقع پر:
خوشی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ دف بجائی جائے اور بچیاں خوشیوں کے گیت گائیں۔شادی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار مسرت کے لیے گانے اور ڈھول وغیرہ بجانے کی اجازت دی تاکہ نکاح کا اعلان ہو سکے اور سب کو اس کا علم ہو جائے کہ فلاں شخص کی شادی فلاں عورت کے ساتھ ہوئی ہے۔
ایک دفعہ شادی کے گھر میں بچیاں گانے گا رہی تھیں۔حضرت عامر بن سعید نے ناگواری سے کہا:”اے صحا بیان رسول،اے شرکائے بدر،تمہارے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔“کسی نے جواباً کہا:”جی چاہے تو بیٹھ کر سنو ورنہ چلے جاؤ،ہمیں رسول اللہﷺ نے اس کی اجازت دی ہے۔“
ایک بار ایک انصاری لڑکی کی شادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کروائی۔اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عائشہ!تم گانے کا انتظام نہیں کراتیں،حالانکہ انصار کا قبیلہ گانے کو پسند کرتا ہے۔“
یہ عید کے دن کا ذکر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو لڑکیاں بیٹھی خوشی کے گیت گا رہی تھیں،حضور قریب ہی لیٹے تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ گیت سنے تو انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا:”رسول خدا کے گھر میں یہ کیا شیطانی ہنگامہ مچا رکھا ہے۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے ابو بکر! ہر قوم کے لیے عید کا ایک دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے۔“(یعنی اس دن گانا مباح ہے)۔
عیدالفطر اور عیدالاضحی مسلمانوں کے دو تہوار ہیں۔تہوار کے موقع پر نئے کپڑے پہننا،نہانا دھونا،شکرانہ ادا کرنا،اچھے کھانے پکانا،خود کھانا اور عزیزوں کو کھلانا،ایک دوسرے سے ملنا ملانا اور خوشی کا اظہار کرنا پسندیدہ عمل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ خوشی و مسرت کے گیت گانا اور دوسرے کھیل تماشے کرنا اور دیکھنا بھی پسندیدہ ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کھیل تماشا دکھانے اپنے ساتھ لے کر گئے۔انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے کے اوپر سے تماشا دیکھا۔
غم کے موقع پر:
زندگی میں غم کے لمحے بھی ضرور آتے ہیں۔جب کوئی قریبی عزیز مر جاتا ہے تو انسان کے دل پر غم و اندوہ کا پہاڑ سا آگر تا ہے۔اس کیفیت میں انسان روتا اورچیختا ہے۔ بہت سے لوگ اور خصوصاً عورتیں ایسے میں منہ پر تھپڑ مارتی ہیں،چھاتی کوٹتی ہیں،ماتم کرتی ہیں،سر کے بال کھول کر بین کرتی ہیں۔بہت سے لوگ گریبان پھاڑتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رسوم سے سختی سے منع کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص گریبان پھاڑ تا،گالوں پر طمانچے مارتا ہے،جاہلیت کی طرح چیختا چلاتا اور بین کرتا ہے،وہ میری امت میں سے نہیں۔“کیوں کہ مرنے والے کو،عزیزوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔اس لیے صبر سے کام لینا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جنازے کے پیچھے کوئی آگ اور باجا لے کر نہ جائے۔“آپ نے سوگ کی مدت کا تعین فرمایا:”کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ تین دنوں سے زیادہ سوگ کرے۔“البتہ بیوہ کو چار مہینے دس دن سوگ کرنے کا حکم دیا۔
کسی عزیز کی موت پر آنکھوں سے آنسو نکلنا فطری عمل ہے۔لیکن زور زور سے چیخنا اور بین کرنا منع ہے۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادے حضرت ابراہیم نے وفات پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے گرے۔آپ ﷺکے منہ سے نکلا:”ہم جانتے ہیں کہ موت تو امرحق ہے اور وعدہ سچا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے بھی پہلے جانے والوں کے ساتھ جا ملیں گے، اگر ایسا نہ ہوتا، تب ہم ابراہیم کا الم اس سے بھی زیادہ کرتے۔آنکھ میں آنسو ہے،دل میں غم ہے مگر ہم کوئی بات ایسی نہ کہیں گے جو اللہ کو ناپسند ہو۔“
ہمدردی کا تقاضا ہے کہ جس مسلمان کے گھر میں کوئی مرجائے تو اس کے عزیز،دو ست یا محلے کے لوگ اس کے ہاں کھانا بھیجیں کیونکہ غم کی وجہ سے ایسے موقع پر کھانا پکانے کا ہوش نہیں رہتا۔
موت پر صبر کرنا چاہیے۔سورہ حدید میں آیا ہے (ترجمہ)”تاکہ تمہارے ہاتھ سے جو جاتا رہے اس پر غم نہ کرو۔“غم کی خبر سننے پر”انا للہ وانا الیہ راجعون“ (ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) پڑھنا چاہیے۔
مسلمان کو اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے۔غم کی حالت میں آنسوؤں کا بہنا قدرتی عمل ہے لیکن بیان کرکر کے رونا اورر لانا اور اللہ سے شکوہ کرنا منع ہے۔اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اس کی مرضی میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں۔بندے کی بندگی کا یہی تقاضا ہے کہ وہ راضی برضار ہے اور صبر سے کام لے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔مومن پر جو غم یا صدمہ پڑتا ہے،پروردگار کے ہاں اس کا بڑا اجر ہے، اسی لیے غم کے اظہار میں دیوانگی کی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور صبر و رضا کا مظاہرہ کرنا ہی ایک مومن کی شان ہے۔
بری خصلتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند تھیں:
ایسے اخلاق و عادات جن کو اللہ تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے اور جن سے بچنے کا حکم اس نے اپنے بندوں کو دیا ہے،بری خصلتیں کہلاتی ہیں۔انہیں برائیوں کی وجہ سے معاشرے ابتری کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر قابو نہ پایا جائے تو پوری قوم کی تباہی شروع ہوجاتی ہے۔یہ تمام برے کام قابل نفرت ہیں۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برے کاموں سے بچنے اور دور رہنے کا حکم دیا ہے۔
جھوٹ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ گناہ کے کام کرنے لگتا ہے اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے گا اور دوزخ میں جائے گا۔“جھوٹ کی وجہ سے بہت سی برائیوں کا رستہ کھل جاتا ہے۔ایسا شخص ہر برائی کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔جو جھوٹا ہو گا وہ اپنے محسن کا احسان نہیں مانے گا،وہ برے سے برے کام کرنے میں بھی ذرا نہیں جھجکے گا۔وہ ہر گناہ پر دلیر ہو جائے گا۔جھوٹ بول کر وہ دوسروں پر الزام بھی لگا دیتے ہیں۔جھوٹے شخص کے لئے جھوٹی قسم کھانا بھی عادت بن جاتی ہے۔ایسے لوگ دوسروں کے بارے میں بھی خوب جھوٹ بولتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں۔ان برائیوں کا فائدہ بڑا عارضی ہوتا ہے۔جب جھوٹ کھلتا ہے تو ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں رہتی۔
وعدہ خلافی:
جب کوئی شخص کسی کام کے لئے وعدہ کرتا ہے اور پھر جان بوجھ کر وہ کام نہ کرے،یہ وعدہ خلافی ہے۔وعدہ خلافی کی وجہ سے دوسرے فریق کو بعض دفعہ بہت زحمت اٹھانا پڑتی ہے اور اس سے بہت زیادہ نقصان بھی ہو جاتا ہے۔وعدہ خلافی کے نتائج برے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں اور وعدہ خلافی کرنے والے پر دوسروں کو اعتبار نہیں رہتا۔
خیانت:
کسی کا مال یا حق ادا کرنے میں ایمانداری نہ برتنا خیانت ہے۔دوست ہو کر دوستی نہ نبھانا اور زبان سے کچھ کہنا اور دل میں کچھ رکھنا بھی خیانت ہے۔کسی کا راز دوسروں پر ظاہر کر دینا اور دشمنوں کو چوری چھپے امداد کرنا،یہ سب خیانت کے کام ہیں۔ان سے بچنا ضروری ہے۔
غداری:
یہ خیانت ہی کی ایک قسم ہے اور یہ بہت بڑی برائی ہے۔تاریخ میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جب غدار نے اپنے ذاتی فائدے کے لالچ میں مسلم قوم کے راز دشمن کے حوالے کردیئے۔اس طرح یہ غدار لوگ پوری قوم کو اتنا بڑا نقصان پہنچاتے ہیں کہ صدیوں تک جس کی تلافی نہیں ہو پاتی۔حدیث میں ہے:”قیامت کے دن ہر غدار کا ایک جھنڈا ہوگا۔“یعنی جس سے غداری یا بدعہدی کی تشہیر ہوگی۔غدار شخص عمر بھر کے لیے بد نام ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی بدنامی اور سزا کا مستحق ہو گا۔

بہتان:
یہ جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ اس کے مطابق کسی بے قصور کو قصوروارٹھہرادیا جائے۔کسی شخص سے ایسی بات منسوب کر دی جائے جو اس نے کہی نہ ہو،بہتان ہے۔بہتان توڑنا سخت گناہ کی بات ہے اور کسی کو تکلیف دے کر گناہ کا بوجھ اپنے سر لادنا،نہایت افسوس کی بات ہے۔بہتان باندھنے والا خدا تعالیٰ کے حضور فاسق ہو جاتا ہے اور اس کی گواہی کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔
حسد: ایک حدیث ہے:”جس کو نعمت دی جاتی ہے اس سے حسد کیا جاتا ہے۔“یعنی جب خدا کسی بندے کو علم و فضل،مال و دولت،عزت و شہرت یا کوئی دنیاوی یا دینی نعمت عطا فرماتا ہے تو کوئی شخص اس بات کو پسند نہ کرے،اور اس کے دل میں یہ خواہش ہو کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اس کیفیت کا نام حسد ہے۔حسد کی وجہ سے ایک ادنیٰ شخص،ایک بڑے شخص کابدخواہ ہو سکتا ہے۔
جب ایک شخص کسی بلند منصب پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے برابر کے لوگوں کو یہ بات گراں گزرتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس شخص سے یہ منصب چھن جائے تو یہ ہمارے برابر آ جائے اور ہم سے اونچا نہ رہے۔جب کسی کو شرف ملتا ہے تو وہ معمولی آدمی،غیر معمولی رتبہ حاصل کر لیتا ہے تو ان کو اس پر حیرت اور بے یقینی ہوتی ہے۔
حسد،دل کی ایک بیماری ہے۔بعض لوگوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے کہ جب کسی کو بہتر حالات میں دیکھتے ہیں تو ان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو ان کو مسرت ہوتی ہے۔اس طرح کے لوگ ہر دوسرے شخص سے حسد کرتے ہیں۔ حسد نہایت بری خصلت ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم لوگ حسد سے بچو،کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔“حسد کرنے والا دوسروں پر ظلم کرنے کو آمادہ رہتا ہے کیونکہ اس کے دل میں حسرت کی آگ تو پہلے ہی کی بھڑکی ہوئی تھی۔جب وہ دوسروں پر ظلم کرے گا تو نہ صرف یہ کہ گناہ گار ہوگا بلکہ اپنی تمام اچھائیوں کو اس آگ میں جھونک دے گا۔اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بھی اور ہر مسلمان کے لئے اس خطرناک چیز یعنی حسد سے بچنے کی ہدایت کی۔سورہ فلق میں آیا ہے۔”کہو کہ میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں ……حسد کرنے والوں کی برائی سے کہ جب وہ حسد کرنے لگیں۔“
ظلم:
کسی پر ناحق ظلم کرنا،زیادتی کرنا،حسد کی وجہ سے آگے بڑھ کر دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا اور دوسروں کو ناحق تکلیف دینا ظلم ہے۔اسلام میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر کسی پر ظلم کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ لے،اس پر کوئی ملامت نہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“صحابہ نے پوچھا:”مظلوم کی تو مدد کی جاسکتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے ہو؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کو ظلم کرنے سے روکے۔“
مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے، اس لیے مظلوم کی بددعا سے بچنا چاہیے۔
لعنت بھیجنا:
کوئی ایسی بات کرنا جس سے کسی کی توہین ہو،کسی کو گالی دینا اور کسی کو برا کہنا اور لعنت بھیجنا،نہایت بری بات ہے۔بدزبانی یعنی بری زبان استعمال کرنا،اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی شخص اپنے بھائی کو فاسق و کافر نہ کہے،کیوں کہ اگر وہ فاسق نہ ہوگا،تو یہ تہمت،خود تہمت لگانے والے پر لوٹ آئے گی۔“بدگوئی اور گالی گلوچ سے لڑائی جھگڑا بڑھتا ہے۔
اس طرح زمانے کو برا کہنا،جانوروں پر لعنت بھیجنا بھی غلط ہے۔ ایک بار ایک شخص کی چادر اڑنے لگی تو اس نے ہوا پر لعنت بھیجی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہوا پر لعنت نہ بھیجو،وہ صرف خدا کی فرماں بردار ہے۔“
گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ لڑنا جھگڑنا کفر ہے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن،دوسروں پر طعن کرنے والا،بے حیا اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا۔“
چغل خوری:
چغلیاں کرنے والے دوسروں کے درمیان تعلقات خراب کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار قبرستان سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان میں سے ایک پر عذاب ہورہا ہے کہ وہ چغلی کھاتا پھرتا تھا۔“یہ بداخلاقی کمزور،پست حوصلہ اور ناقابل اعتبار لوگوں میں پیدا ہوتی ہے۔یہ ایک بداخلاقی ہے۔لوگ ناپسندیدہ باتوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں تاکہ انہیں دوسروں تک پھیلائیں اور لوگوں میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں۔ایسے لوگ باتوں کو خوب نمک مرچ لگا کر انہیں بڑھا چڑھا کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں تاکہ اختلافات کو ہوا دی جائے اور خوب لڑائیاں جھگڑے ہوں۔ اس کا نتیجہ قتل و غارت گری تک بھی پہنچتا ہے۔
غیبت:
کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ غیبت کا بہت گناہ ہے اور یہ ایسا گندا اور مکروہ فعل ہے کہ اس کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا غلیظ اور برا کام قرار دیا گیا ہے۔غیبت کرنے میں انسان کی دوسرے انسان کے بارے میں بدخواہی شامل ہوتی ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے عیب کو معاشرے میں پھیلا کر ان کے حق میں کانٹے بو تے ہیں اور اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کا ظلم ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے۔
بدگمانی:
بدگمانی ایک وہم ہے۔کسی کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس نے فلاں برا کام کیا ہوگا،بدگمانی ہے۔بدگمانی سے نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک جھوٹی بات ہوتی ہے۔بدگمانی نہایت بری عادت ہے،اس سے بچنا چاہیے۔
بغض و کینہ:
دل میں کسی کے خلاف دشمنی کا جذبہ پالے رکھنا بغض و کینہ کہلاتا ہے۔دل میں کسی کے خلاف کینہ رکھنا اس وجہ سے برا ہے کہ اس طرح ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا حق ادا نہ کر سکے گا۔بغض و کینہ رکھنے سے انسان کا اپنا دل بھی صاف نہیں رہتا اور وہ موقع دھونڈتا رہتا ہے کہ دوسرے کو کس طرح نقصان پہنچائے۔اس وجہ سے انسان حقوق العباد پورے نہیں کر پاتا۔حدیث میں ہے:”تین لوگوں کی بخشش نہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو دل میں کینہ رکھتا ہے۔“ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دنوں سے زیادہ چھوڑے۔تین دن جب ہو جائیں تو ان میں سے ایک دوسرے سے آکر ملے۔ پھر سلام کرے تو اگر دوسرے نے جواب دیا تو مزدوری دونوں کو ملی،اور اگر اس نے جواب نہیں دیا تو وہ گناہ لے کر لوٹا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پیر اور جمعرات کو انسان کے اعمال پیش ہوتے ہیں کہ جس نے خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا،خدا اس کو معاف فرماتا ہے،لیکن جن دو آدمیوں میں آپس میں کینہ ہوتا ہے تو خدا فرماتا ہے کہ ان دونوں کو ابھی رہنے دو جب تک کہ یہ میل کر لیں۔“
غیض و غضب:
کچھ لوگوں کو ذرا سی بات پر بہت زیادہ غصہ آتا ہے۔غصے میں وہ بالکل دیوانے ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت میں بہت سی غلط باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں یا غلط کام سرزد ہو جاتے ہیں۔غصہ شیطان کا کام ہے۔اس لیے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لالچ و طمع:
مال سے محبت اور مال کو خرچ نہ کرنا،اور دوسروں کے مال پر بھی بری نظر رکھنا اور یہ چاہنا کے سب کچھ مجھے مل جائے،یہ سب باتیں لالچ کہلاتی ہیں۔حرص و طمع کا جذبہ دوسروں سے حسد پر اکساتا ہے،دوسروں کا مال چھیننے اور دوسروں کی جان لینے پر اکساتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حرص سے بچو کہ اس نے تم سے پہلوں کو برباد کیا۔اسی نے ان کو آمادہ کیا کہ انہوں نے خون بہایا اور حرام کو حلال سمجھا۔“
سود خوری:
جاہلیت کے زمانے میں ادھار کی رقم کے ساتھ اضافی رقم یعنی سود بھی ادا کیا جاتا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اضافی رقم بڑھتی جاتی تھی یہاں تک کہ اصل سے کئی گنا سود بڑھ جاتا۔قرآن پاک میں سود کی ممانعت کی گئی ہے۔سود خوری کی سزا جہنم ہے اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود پر گواہ ہونے والے اور سود کی دستاویز لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔سودی کاروبار کا یہودیوں میں بہت رواج تھا۔آج بھی ہے اور یہ قبیح کاروبار آج ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔
شراب نوشی:
شراب نوشی کا عرب میں بہت رواج تھا۔شراب پی کر انسان کے حواس ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ہر وہ شے جس کا کھانا پینا عقل اور ہوش کو ختم کر دے خمر ہے۔ہر وہ شے جو نشہ پیدا کرے،حرام ہے۔ایک بار ایک صحابی نشہ کی حالت میں نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے سورہ کافرون میں کچھ غلطی کی،اس لئے پہلے شراب پی کر نماز پڑھنا منع کیا گیا،اس کے بعد شراب کو حرام قرار دیا گیا۔شراب پینا،اسے پلانا، بنانا، بیچنا، خریدنا، لینا، لے کر جانا سب حرام قرار دیا گیا۔
ناپ تول میں کمی بیشی:
ناپ تول میں کمی یا زیادتی کرنے والے،دوسروں کے حق کو گھٹا دیتے ہیں۔یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے اور بددیانتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دیا۔زندگی کے معاملات میں نہایت ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ حصہ تقسیم کیا جانا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے جو ترازو قائم کی ہے اس میں پوری سچائی اور ایمانداری سے کام لینا چاہیے۔
چوری:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب چور چوری کرتا ہے تو اس میں ایمان نہیں رہتا۔“چوری کرنے والا سمجھتا ہے کہ جب بندے ہمیں چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہے تو خدا بھی ہم کو نہیں دیکھتا۔اس طرح چوری کرنے والا خدا کے حاضر و ناظر ہونے پر یقین نہیں رکھتا۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹ دینا ہے تاکہ وہ آئندہ چوری نہ کر سکے۔اگر کوئی شخص دوسرے شخص کی اجازت کے بغیر کوئی چیز لے لیتا ہے تو یہ غلط کام ہے۔ جس کا مال ہے اگر وہ اپنی خوشی یا اجازت سے دیتا ہے یا معاہدہ پر دیتا ہے تب تو ٹھیک ہے۔

غرور:
غرور و تکبر ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ایک متکبر شخص عام لوگوں کو کمتر سمجھتا ہے۔اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں،جب لوگوں سے ملتا ہے تو چاہتا ہے کہ لوگ پہلے اسے سلام کریں، اس کے لئے محفل میں فوراً جگہ بنائیں۔اس کو سب سے بڑا سمجھا جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔“جب صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کھڑے ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:”عجمیوں کی طرح تعظیم میں کھڑے نہ ہوا کرو۔“ایک خوبرو شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:”مجھ کو یہ پسند ہے کہ میرا جوتا اور کپڑا عمدہ ہو۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خدا حسن کو پسند کرتا ہے یعنی اس بات کو غرور نہیں سمجھا جائے گا کہ وہ اچھی چیزیں استعمال کرے،اپنی ذات،حسب و نسب،عہدے،شکل و صورت،دولت،خاندان کی وجہ سے غرور میں مبتلا ہونا اچھی بات نہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے نزدیک بڑا شریف وہی ہے جو تم میں پرہیزگار ہے۔“
رشوت اور کمیشن:
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست قائم کی،اس ریاست میں دور دور تک کے علاقے شامل ہو چکے تھے۔اس لیے مملکت کا انتظام چلانے کے لئے بہت سے افسروں کو مقرر کیا گیا۔یہ لوگ نظم و نسق سنبھالنے کے اور مالیات کی وصولی کے بھی ذمہ دار ہوتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کام پر نظر رکھتے تھے اور خداترس اور دیندار لوگوں کا تقرر فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمال (افسروں) کورعایاسے ہدیہ اور تحفہ قبول کرنے سے منع فرمایا۔ایک دفعہ ایک عامل نے آکر بتایا کہ یہ صدقہ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔حمد و ثناء کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عامل کا کیا حال ہے کہ ہم اس کو بھیجتے ہیں تو آ کر کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ میرا مال ہے۔تو اپنے ماں یا باپ کے گھر میں بیٹھ کر نہیں دیکھتا کہ اس کو تحفے ملتے ہیں یا نہیں؟قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اس میں سے جو مال لے جائے گا وہ قیامت میں اپنی گردن پر لاد کر لائے گا۔اونٹ،بکری،گائے جو بھی ہو۔“پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر تین مرتبہ فرمایا:”خداوند……میں نے پہنچا دیا۔“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
کوئی شخص جب اپنا کوئی نا جائز مقصد پورا کر وانے کے لئے کسی بااختیار شخص کو کچھ مال یا تحفہ دے کر اپنے موافق کرے تو یہ رشوت کہلاتی ہے۔اس طرح جائز حقدار کے بجائے وہ حق کسی ایسے شخص کو مل جاتا ہے جو اصل حقدار نہیں ہوتا۔اور وہ جائز حقدار محروم رہ جاتا ہے۔یہ بے انصافی کی ایک قسم ہوئی۔اس وجہ سے با اختیار لوگوں کو مال و دولت کا چسکا لگ جاتا ہے جو انھیں بیٹھے بٹھائے مفت میں ہاتھ آنے لگتی ہے۔ یہی لالچ بڑھتا چلا جاتا ہے اور حقدار اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔اور یوں پورا معاشرہ بے آرام،اور ناآسودہ ہونے لگتا ہے اس لیے رشوت اور کمیشن ایسی برائیاں ہیں جس سے بچنا بیحد ضروری ہے۔
دکھاوا اور نمائش
انسان کے اعمال میں نیت کا خلوص اور سچائی ہونی ضروری ہے۔اگر اس کے عمل کا مقصد محض دکھاوا اور نمائش ہے تو وہ نیک عمل بے فائدہ ہی رہے گا۔منافق لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے تاکہ لوگ انہیں نیک اور مسلمان سمجھیں۔عرب لوگ محض نام و نمود کے لیے اپنا کل سرمایہ لٹا دیتے تھے۔اسلام نے صدقہ و خیرات کا حکم دیا لیکن اس میں دکھاوا شامل نہ ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ خدا کے ہاں قیامت کے دن خدا کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔خدا سات آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے گا جن میں ایک شخص وہ ہوگا جس نے صدقہ اس طرح چھپا کر دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو یہ معلوم نہ ہوا کہ اس نے دہنے ہاتھ سے کیا دیا۔“
رسول،خدا کا ایک پیغامبر
خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:”اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔“(سورہ الذاریات)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی بندگی اور اس کی اطاعت کے لئے آتا ہے۔اس لئے اس کے احکامات کی اطاعت کرنا ضروری ہوتا ہے۔انسان یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ اس کے پروردگار کے احکامات کیا ہیں؟کن کاموں کو اللہ تعالیٰ پسند کرے گا اور کن کاموں سے وہ ناخوش ہو گا۔سوال یہ ہے کہ ان حکامات کے بارے میں انسان کو کیسے پتہ چلے گا؟یعنی کوئی ذریعہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو انسان کو ان احکامات کے بارے میں بتائے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی ضروریات پوری کرنے کے انتظامات کئے یعنی اس کے لیے خوراک پیدا کی،پانی بنایا،ہوا پیدا کی،زمین بنائی کہ وہ گھر تعمیر کرے اسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس دنیا میں اپنے رسول بھیجے کہ وہ ایک بہترین طریقے سے لوگوں کی رہنمائی کریں۔چنانچہ رسول وہ قاصد یا پیامبر ہوتا ہے جو اللہ کا پیغام دوسروں تک پہنچائے۔نبی کا مطلب ہے خبر دینے والا،اس لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خبر دینے والا،لوگوں کی رہنمائی کرنے والا نبی کہلاتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:”اے محمد! ہم نے تم سے پہلے بھی صرف آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔“(سورہ یوسف) ایک اور جگہ سورہ ابراہیم میں آیا ہے:”ان کے رسولوں نے کہا کہ ہم بھی تمہارے ہی جیسے بشر ہیں۔“
ہر قوم میں نبی بھیجے گئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کس کے سپرد کرنی چاہیے۔نبی معصوم ہوتے ہیں۔ان سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔نبی شیطان کی مداخلت سے محفوظ ہوتے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے اور ان احکامات کو لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی غلطی نہیں کرتے۔تمام انبیاء خدا تعالیٰ نے بھیجے ہیں لیکن ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء کے مقابلے میں ایک امتیاز عطا فرمایا۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے:”مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص اپنی ہی قوم کے لئے نبی بنا کر بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تمام انسانوں کیلئے ہیں اور تمام زمانوں اور تمام ملکوں کے لیے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کو مکمل کر دیا گیا جیسا کہ سورہ مائدہ میں آیا ہے:”آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندکیا ہے۔“
رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے تمام معاملات میں رہنمائی کی ہے۔انسان کی زندگی کا کوئی ذاتی معاملہ ہو یا اجتماعی، معاشی، سیاسی،معاشرتی اور روحانی،تمام معاملات میں ہدایات موجود ہیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:”تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔“(سورہ الاحزاب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الاانبیاء ہیں۔“(سورہ الاحزاب)
حدیث ہے:”میرے بعد کوئی نبی نہیں،میرے بعد اب کوئی نبی ہوگا نہ رسول۔“اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور بے ایمان و بددیانت ہے اور محض دھوکے باز ہے اور اس کو درست ماننے والا صریح غلطی کرتا ہے۔اس بات کا یقین ضروری ہے کہ رسول بھی عام انسانوں کی طرح ہوتا ہے۔وہ خاندان رکھتا ہے۔ دوسرے انسانوں سے اس کے تعلقات ہوتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک انسان تھے۔انہوں نے دوسرے انسانوں کی طرح اپنی زندگی اس دنیا میں گزاری،بچپن،نوجوانی،جوانی اور پختہ عمر انہوں نے گزاری،شادیاں کیں،آپ ﷺ صاحب اولاد ہوئے،بازاروں میں خرید و فروخت کے کام کیے،تجارت کا پیشہ اپنایا،رزق کمایا،اپنے ہاتھوں سے محنت کی،جنگیں لڑیں، دوستوں اور دشمنوں سے معاملات کیے،لوگوں تک اللہ کے احکامات پہنچائے اور اس مشن کو کامیابی سے مکمل کیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔بلاشبہ وہ انسان تھے،سب سے زیادہ نیک اور بہترین اخلاق و بہترین عمل والے انسان کہ ان کی گزاری ہوئی زندگی کا ہر عمل اور ان کا اخلاق تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے تاکہ ہم ان کی زندگی گزاریں اور فلاح پائیں۔
اکیسویں صدی اور امت کی ذمہ داریاں
اس وقت کہ جب دنیا میں اکیسویں صدی کی آمد آمد ہے اور سائنسی ایجادات کا وہ اژدھام ہے کہ زندگی بڑی تیز رفتار ہو چکی ہے اور نہایت مختلف انداز اختیار کر گئی ہے۔ٹیلی ویژن،سیٹلائٹ،ڈش انٹینا،کے ذریعے ایک جگہ کی خبریں اور واقعات دور دراز کے ممالک میں اسی وقت لاکھوں لوگ دیکھ سکتے ہیں،کمپیوٹر لمبے چوڑے پیچیدہ حسابات سیکنڈوں میں کر کے دکھا دیتا ہے۔ اور تو اور انٹرنیٹ کے ذریعے آپ دنیا کے ممالک میں بسنے والے لوگوں سے منٹوں میں نہ صرف پیغامات دے سکتے ہیں بلکہ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔تیز رفتار ہوائی جہاز،مختصر وقت میں آپ کو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچا سکتے ہیں۔فیکس مشین کے ذریعے دستاویزات منٹوں میں دور دراز تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ان ہی وجوہات کے سبب اب دنیا کو گلوبل ولیج کا نام دیا جارہا ہے یعنی فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ اب دوری کوئی چیز نہیں رہ گئی۔ہر جگہ فوری رابطہ ہو سکتا ہے اور فوری رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔
ہم لوگ جو خدا کے فضل سے مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے،مسلم معاشرے میں پروان چڑھے،اس وقت ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔ہماری دو ذمہ داریاں ہیں:
اپنی اصلاح کی جائے۔زندگی کے معمولات میں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی کام ہم غلط کر رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں،وعدہ خلافی کر رہے ہیں،دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں،وہاں اپنی اصلاح کریں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثال کو اپنائیں۔اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزاریں۔
اس کے بعد ہمارا یہ فرض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی ان لوگوں تک پہنچائیں جو اسلام کی تعلیمات سے نا آشنا ہیں۔رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اور اپنی سنت کا جوتحفہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اور ہمیں جو ہدایات دی ہیں ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔”اچھے کام کا حکم دو اور برے کام سے روکو۔“سو اس حکم کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دی جائے اور برے کاموں سے منع کیا جائے۔
جب ہم میں سے ہر مسلمان اپنی اصلاح کرلے گا،ذاتی خامیوں اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا،لوگوں کے درمیان نفاق نہیں رہے گا تب مسلمان قوم متحد ہو سکے گی۔وہ مسلمان جو آج مختلف قوموں میں بٹے ہوئے ہیں،یہ سب لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ایک مضبوط قوم بن جائیں گے۔تب یقینا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پا لیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top