skip to Main Content

۳ ۔ رسول ﷺ کی اونٹنی

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔

میرا نام قصویٰ ہے ۔ میں ایک اونٹنی ہوں۔مجھے اور میرے ساتھیوں کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔میں صحرا میں لمبا سفر کرنے کے باوجود نہ تھکتی ہوں اور نہ مجھے پیاس لگتی ہے۔
میں مکہ میں رہا کرتی تھی ۔یہ وہ زمانہ ہے جب محمد ﷺ نے خداءِ واحد کی عبادت کی تبلیغ شروع کی۔نبی ﷺ کے دوست ابوبکرؓ میرے مالک تھے۔
جب کفار مکہ نے نبی ﷺ کو قتل کرنے کا آپس میں معاہدہ کیا تو اللہ کے حکم پرنبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے ہجرت کرکے مدینہ جانے کا فیصلہ کیا۔آپ دونوں کافروں سے چھپ کر مکہ سے روانہ ہوئے۔ مکہ کے باہر مدینہ کے راستے میں ایک غار میں پناہ لی۔اس غار کو غار ثور کہتے ہیں۔یہی وہ جگہ ہے جہاں پر مجھے اور میری بہن اونٹنی کو لایا گیا۔میر ی بہن مجھ سے زیادہ طاقت ور اور تیز چلنے والی تھی۔غار ثور سے جب مدینہ کی طرف ہمارا سفر شروع ہوا تو نبی ﷺ مجھ پر سوار ہوئے۔اور میری اونٹنی بہن پر ابوبکرؓ۔ یہ سفر طویل تھا لیکن نہ جانے کیوں نہ میں تھکی اور نہ گرمی نے مجھے پریشان کیا۔ میں یوں چل رہی تھی جیسے تازہ دم ہوں،اور مجھے کوئی بوجھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔بات دراصل یہ تھی کہ میں ایک عظیم سفر پر ایک عظیم مہاجر کو اپنی پیٹھ پر بٹھائے لئے جا رہی تھی۔
اس مبارک سفر میں، میں نے نبی ﷺ سے متعلق کئی عجیب و غریب واقعات دیکھے۔ان میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک کبوتری اور ایک مکڑی نے غار کے دروازے پر ایسا ڈیرہ جمالیا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا جیسے غار میں کافی دن سے کوئی آیا ہی نہیں اور پھر اسی وجہ سے مکہ کے کافرجو نبی ﷺ کی تلاش میں غار کے دروازے تک پہنچ گئے تھے۔اس خیال سے واپس چلے گئے تھے کہ اس غار میں کوئی نہیں ہو سکتا۔دوسرا حیران کن واقعہ سراقہ بن مالک کاہے جو اپنے گھوڑے پر پیچھا کرتے ہم تک آ پہنچا۔مگر نبی کی انگلیوں کا اشارہ ہوتے ہی اس کے گھوڑے کے پاؤں ریت میں دھنس گئے۔اس کی التجا پر نبی ﷺ نے اشارہ کیا۔گھوڑے کے پاؤں ریت سے نکل آئے۔مگر جوں ہی دوبارہ وہ آگے بڑھاپھر اس کے گھوڑے کے پاؤں ریت میں دھنس گئے۔اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔اس مرتبہ بھی نبی ﷺ نے اس کو معاف کر دیا اور اس کے بعد سراقہ بن مالک واپس چلا گیا۔
تیسرا واقعہ ایک کمزور بکری کا ہے۔جو سفر کے دوران ایک بستی میں نبی ﷺ کو پیش کی گئی۔اس کی مالکہ ایک عورت تھی جس کا نام ام معبد تھا۔اس بکری کے دودھ بالکل نہ تھا۔مگر جب نبیﷺنے اپنا مبارک ہاتھ اس پر پھیراتو اللہ کی قدرت سے اس میں اتنا دودھ آگیا کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔
چوتھی بات جس نے مجھے حیران کیا وہ یہ تھی کہ کہا ں تو ہم مدینہ کا سفر گیارہ دن میں طے کیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ یہ سفر صرف آٹھ دن میں طے ہوگیا۔باوجود اس بات کے کہ بہت سے کافر ہماری تلاش میں تھے۔جن سے بچنے کے لیے ہم رات کو سفر کرتے اور دن کو آرام کرتے ۔میں سارے راستے یہ دعا کرتی رہی کہ ہمارا یہ سفر خیریت سے طے ہو ۔
ہر وہ واقعہ جو راستے میں پیش آیا اس بات کی نشان دہی کرتا تھا کہ رسول ﷺ ایک عظیم ہستی ہیں۔اور یہ کہ اللہ ان کے ساتھ ہے۔
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب یثرب( جو بعد میں مدینۃ النبی کہلانے لگا)کے کھجور کے درخت دور سے نظر آئے تو میرے دل میں ایک عجیب سی خوشی تھی ۔خوشی اس بات کی کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے دشمنوں سے نجات پائی تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ دیکھیں یثرب والے نبی ﷺ کا کیسے استقبال کرتے ہیں؟یثرب والوں کو پہلے ہی پتا چل چکا تھا کہ نبی ﷺ ہجرت کرکے ان کے شہر آرہے ہیں۔ جب ہم یثرب پہنچے تو کڑی دھوپ تھی ۔ایک شخص جو درخت پر چڑھا ہوا تھا چیخ چیخ کر کہنے لگاکہ وہ دیکھو وہ دیکھوتمہارا مہمان آگیا۔پھر کیا تھا ہر طرف سے مبارک اورخوش آمدیدکی آوازیں گونجنے لگیں اور نبیﷺ کا استقبال کرنے والے دل کی گہرائیوں سے اللہ اکبر،اللہ اکبر(ا للہ بڑا ہے،اللہ بڑاہے) پکار رہے تھے۔مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے تمام زمین استقبال کے جوش وخروش میں رقص کررہی ہے۔اور سارا شہر رسول ﷺ کے استقبال کے لیے نکل آیا ہے۔پھر ہم یثرب میں داخل ہوئے تو نبیﷺ مجھ پر سے اترے اور حضرت ابو بکرؓکے ساتھ ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔لوگ خوشی میں دف (ڈھول ) بجا رہے تھے۔ان میں سے بیشتر نے اگر چہ نبی ﷺ کو پہلے نہ دیکھا تھا۔مگر وہ آپﷺ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
ایک عورت نے اپنی ہمسائی سے پوچھا کہ ان دونوں میں سے نبی ﷺ کون ہیں؟تو دوسری نے بتایا کہ جو زمین پر بیٹھے ہیں وہ نبی ﷺ ہیں اور جنہوں نے اپنی چادر سے نبی ﷺ پر سایہ کیا ہوا ہے وہ ابوبکرؓ ہیں۔
لوگ آگے بڑھ بڑھ کر آپ ﷺ کے ہاتھ کو بوسہ دے رہے تھے اور آپ سے درخواست کرتے تھے کہ ہمیں سچا راستہ دکھائیے۔نبی ﷺ انہیں تلقین کرتے تھے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کریں۔ بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کریں اور صرف خداءِ واحد کی جو سب سے عظیم تر ہے عبادت کریں۔
اس کے بعد رسول ﷺ اٹھے اور مجھ پر سوار ہو گئے۔میں بڑی حیران ہوئی جب انھوں نے میری رسی کو ڈھیلا چھوڑدیا۔مدینہ کے لوگ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔مدینہ کے بچے بچیاں ایک نہایت ہی سریلا گیت گا رہے تھے ۔جس کے الفاظ یہ تھے:
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب لشکر علینا مادعااللہ داع
ایما المبعوث فینا جنت با لا مرالمطاع
ان ٹیلوں کے پیچھے سے جہاں ہم شہرجانے والوں کو الوداع کہتے ہیں ایک چااند ہم پر طلوع ہوا ہے جس بات کی نبی ﷺ نے ہمیں دعوت دی ہے اس پر اللہ کا شکر کرنا ہم پر واجب ہوگا۔اے اللہ کے رسول آپ وہ پیغام لے کر آئے ہیں جس کی ہم نے تعمیل کرنی ہے ۔اے نبی ﷺ آپ کی آمد سے ہمارے شہر(مدینہ) کی عزت بڑھ گئی ہے۔خوش آمدید خوش آمدید، اللہ کی طرف اے پیار سے بلانے والے۔
دھیرے دھیرے یہ قافلہ مدینہ کی گلیوں سے گزرتا رہا۔ اور میں اس کے درمیان خوشی سے جھومتی جھومتی آگے بڑھ رہی تھی۔ لوگوں کی آنکھوں سے مسرت چھلک رہی تھی اور ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ہر گھرانہ یہ چاہتا تھا کہ رسول ﷺ اس کے مہمان بنیں۔ لوگ چاہتے تھے کہ میری رسی تھام لیں ۔اور اپنے گھروں کی طرف لے جائیں مگر پیارے نبی ﷺ ہر ایک سے یہی کہتے کہ میری رسی نہ پکڑیں۔ میں وہیں بیٹھ جاؤں گی جہاں اللہ کا حکم ہوگا۔اچانک ایک جگہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے قدم بے جان ہو گئے ہیں اور مجھ میں آگے بڑھنے کی سکت نہیں ہے۔میں وہیں پر بیٹھ گئی۔ نبی ﷺ مجھ پر سے اترے اور آپ نے پوچھا کہ یہ جگہ کس کی ہے؟
لوگوں نے بتایا کہ اس زمین کے مالک دو یتیم بچے ہیں۔ان بچوں نے خواہش ظاہر کی کہ نبی ﷺ تحفے کے طور پر یہ زمین قبول فر مالیں۔لیکن پیارے نبی ﷺ کے حکم پر حضرت ابوبکرؓ نے اس کی قیمت ادا کی۔اب اسی جگہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہوا۔
مسلمانوں نے نبی ﷺ کے ساتھ مل کر اسی جگہ مسجد بنائی اور اس کے ساتھ آپ ﷺ کے رہنے کے لئے حجرہ۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ نبی ﷺ نے مدینہ والوں کو انصار کا خطاب دیا ۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے مکہ کے مہاجرین کی مدد کی تھی۔اور ان کی مہمان داری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔
مدینہ والے مجھے بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ انہیں مجھ سے بڑی عقیدت تھی ۔ اس وجہ سے کہ اس عظیم سفر میں ،میں سرکار دوعالم ﷺ کے ساتھ رہی۔ اور اللہ کے حکم پر چلی اور اللہ کے حکم سے اس جگہ قیام کیا جہاں آج مسجد نبوی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top