skip to Main Content

۳ ۔ ایک عظیم ہونہار ؐکی عظیم کہانی

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔

والدہ ماجدہ کے اِنتقال کے بعدحضور ﷺ کے دادا عبدالمطلب کو آپ ﷺ کی دیکھ بھال کا شرف حاصِل ہوا ۔ انھوں نے یہ خوشگوار فریضہ کمال شفقت سے ادا کرنا شُروع کیا۔مگر ننھّے محمّد ﷺ ابھی والدہ کی وفات کے صدمہ سے ہی نہ سنبھلنے پائے تھے کہ نیک سیرت دادا بھی اِنتقال کر گئے ۔اِس وقت آپ ﷺ کی عمر بمشکل آٹھ سال تھی ۔بچپن ہی سے آپ ﷺ پر غموں اور دُکھوں کے جانکاہ بوجھ پے در پے پڑتے رہے ۔جب آپ ﷺ داداجان کے جنازہ میں شریک ہو کر قبرستان کی جانب روانہ ہُوئے تو راستہ بھر آنسوؤں کی لڑیاں آپ ﷺ کے معصوم گالوں پر مسلسل ٹپکتی رہیں ۔ننھّے محمّد ﷺ یاس و غم کی ایک مجسّم تصویر دکھائی دیتے تھے ۔
سردارعبدالمطلب کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے اورحضور ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ ﷺکی پرورش کا ذمّہ لیا۔چنانچہ اُنھوں نے بڑی شفقت اور فراست سے اس نازک فریضہ کی انجام دہی شُروع کی ۔وہ آپ ﷺ سے اپنے بچّوں سے بھی زیادہ شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے ۔اور اِنتہائی کوشش کرتے تھے کہ حضور ﷺ کو اپنی یتامت کا قطعی احساس نہ ہونے پائے ۔
گلّہ بانی سے اِنسانی رہنمائی تک
سب سے پہلا باقاعدہ شغل جو آپ ﷺنے اختیار کیا گلّہ بانی تھا۔اِس شغل کی اِبتداء اُن دنوں ہی ہو چکی تھی جب آپ ﷺ اپنی دُودھ ماں حلیمہ سعدیہ کے صحرائی خیمہ میں زیرِ پرورش تھے ۔بعد میں آپﷺ کو اپنے خاندان اور مکّہ کے بعض دُوسرے لوگوں کی بکریاں چرانے کا اتّفاق بھی ہُوا ۔
آئندہ زندگی میں آپ ﷺ اپنے اس ابتدائی شغل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے طور پر اکثر یادکیا کرتے تھے ۔آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’نبوّت کے لیے گلّہ بانی بنیادی شرط ہے ۔گلہ بانی کے بغیر منصب نبوت تک رسائی نا ممکن ہے ۔حضرت موسیٰ ؑ گلّہ بان تھے ۔حضرت داؤد ؑ نے بھی گلہ بانی کی ہے ۔میں بھی اپنے خاندان کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔‘‘
چرواہے کی زندگی بے حد عجیب ہوتی ہے ۔جب وہ ریوڑ لے کر کھُلی فضا ؤں کی جانب نکلتا ہے تو اُسے فطرت اور زندگی پر غور و فکر کرنے کا موزوں موقع میسر آتا ہے ۔زمین پر پھیلا ہُوا سبزہ ،خوبصورت درخت ،عجیب و غریب جھاڑیاں اور اُوپر نیلگوں آسمان کی چھولداری فکر وعمل میں نکھار کی تحریک کا باعث بنتے ہیں ۔بکریوں کی خوراک اور حفاظت کا اہتمام کرتے کرتے چرواہے کو مخلوقِ خُدا کے ذہن اور جِسم کے لیے پاکیزہ خوراک مہیّا کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔لوگوں کو ہر قسم کی بدیوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے ڈھنگ سُوجھتے ہیں ۔اور ےُوں انجام کار ایک گلّہ بان انسانیت اور کائنات کی نگہبانی کے لے تیّار ہوجاتا ہے ۔
گلّہ بانی کے اسی قسم کے معنی خیزمشاغل اِنسان کے سامنے بڑے تعمیری خیالوں کے خاکے اُبھارتے ہیں ۔اگر چرواہا زیرک ہو تو اُس کے جسم اور روح کے لے نایاب خوراک مہیّا ہوجاتی ہے۔پھر اُسے اِن ابتدائی تجربوں کو وسعت دینے اور اُنھیں مختلف حالات اور معاملات میں استعمال کرنے کی رغبت محسوس ہوتی ہے ۔چراگاہوں میں مویشی چرانے کا ابتدائی تجربہ رفتہ رفتہ نئی شکلیں اختیار کرنے لگتا ہے ۔اس مرحلے پر اگر چرواہا فہم و فراست سے کام لے تو اُس پر مخلوق خدا کے فکروعمل کو معنی خیز سمتیں دینے کے رموز کھلنے شروع ہو جاتے ہیں ۔پریشان انسانیت کو اطمینان بخش ہدایت سے فیض یاب کر نے کے مؤثّر ڈھنگ سُوجھتے ہیں ۔چنانچہ مویشی چراتے چراتے چرواہا انسانوں کی جامع رہنمائی کی مکمّل تربیت حاصل کر لیتا ہے ۔اُس میں یہ اعتماد پُوری طرح اُجاگر ہو جاتا ہے کہ اُس نے کاروانِ انسانیت کو منزل تک پہنچا دینا ہے ۔
جب چرواہے کی زندگی ا س مقام پر پہنچتی ہے تو انسانی بودوباش اور تہذیب و تمدّن میں عزم واُمید اور تعمیروتخلیق کے مثبت امکانات روشن ہو جاتے ہیں اور چرواہے کی شخصیّت ایک محسن کائنات کی حیثیت سے واضح طور پر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے ۔
داستان گوئی کی طرف میلان
حضور ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نیکیوں اور بھلائیوں سے بھرا پڑا ہے۔مکّہ کی تعیش پسند زندگی اور اس کی دلچسپیاں آپ ﷺ کے مقدس جسم اور مطہر و رُوح کو پھسلانے میں قطعی ناکام رہیں ۔قدیم عرب میں افسانہ گوئی کا رواج عا م تھا ۔چنانچہ ،اس فن میں کمال رکھنے والوں کی ایک خاصی بڑی جماعت پیدا ہو چکی تھی ۔دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر لوگ رات کو کسی مقررہ مقام پرجمع ہو جاتے اور کوئی منجھا ہُواداستان گو دلچسپ قِصے کہانیاں شُروع کر دیتا ۔یہ سلسلہ اکثر رات بھر جاری رہتا اور لوگ بڑے شوق سے یہ داستانیں سُننے میں مگن رہتے ۔
ابتدائی عمر میں ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے بھی داستان گوئی کی محفل میں شریک ہونا چاہا تھا۔لیکن جب آپ ﷺاِس تفریح کے لیے روانہ ہُوئے تو اِتّفاق سے راستے میں ایک مکان میں شادی کی محفل زوروں پر تھی ۔آپ ﷺ یہ تماشہ دیکھنے کے لیے ٹھہر گئے تو وہیں نیند آگئی۔اور ےُوں آپ ﷺنہ تو شادی کے ہنگاموں سے لُطف اندوز ہو سکے اور نہ داستان گوئی کے مرکز تک پہنچ سکے۔
تفریحوں سے محرومی کے دلچسپ واقعات
عہدِ گلّہ بانی سے متعلق حضور ﷺ کی یاد داشتیں دلچسپ بھی ہیں اور اخلاقی پہلو سے بے حد اہم بھی۔اس دور کے ایک واقعہ کو حضور ﷺنے ان بے تکلف الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے:’’میرے لیے ان مشاغل میں کوئی کشش نہ تھی ،جن سے کفّارِمکّہ لُطف اندو زہوتے تھے ۔مگر دو موقعوں پر جب میں نے ان تفریحوں سے قدرے محظوظ ہونا چاہا تو میرے اور میری خواہشوں کے درمیان اللہ تعالیٰ حائل ہوگئے ۔چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور قریش کا ایک اور نوجوان چرواہا مکّہ کی پہاڑیوں پر اپنے ریوڑ چرا رہے تھے ۔میں نے اُس سے کہا :’’میں کچھ آرام اور تفریح کی خاطر رات بھر کے لیے شہر جا رہا ہوں ،ذرا میری بکریوں کا بھی خیال رکھنا۔میرا ساتھی راضی ہو گیا تو میں شہر کی جانب چل نکلا ۔ابھی آبادی کے پہلے مکان کے قریب ہی پہنچا تھا کہ مجھے دَف اور بانسری کی سُریں سنائی دیں ۔مُجھے بتایاگیا کہ اہلِ خانہ جشن شادی میں مشغول ہیں ۔میں بھی اُن میں جا بیٹھا اور موسیقی سُننے لگا ۔مگر ہُوا ےُوں کہ خُدا وند تعالیٰ نے میرے کان ہی بند کر دیے ۔پھر مُجھ پر ایسی غنودگی طاری ہُوئی کہ صُبح سُو رج نکلنے پر ہی آنکھ کھُلی ۔مُجھے پتہ ہی نہ چلا کہ شادی کے اُس جشن میں کیا کُچھ ہوتا رہا ۔جب میں چراگاہ میں اپنے ساتھی کے پا س لوٹا تو اُسے سارا واقعہ جُوں کا تُوں سُنا دیا ۔‘‘
دوسرے واقعے کا ذکر آپ ﷺ نے ےُوں فرمایا ہے :’’اِسی طرح ایک دفعہ اور میں رات کو اِسی مقصد کے لیے مکّہ شہر کی جانب روانہ ہُواتو پھر وُہی بات ہُوئی ۔میرے کانوں میں یکا یک گانے بجانے کی آواز آئی مجھے ایسے محسوس ہُوا جیسے وہ کوئی آسمانی نغمہ تھا ۔لیکن پھراُسی لمحہ مجھے دفعتاًنیند نے آگھیرا ۔صُبح تک میری آنکھ لگی رہی ۔اس کے بعد تو پھر کبھی مُجھے اِس قِسم کا کوئی خیال تک نہ آیا حتیٰ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوّت کا اعزاز بخشا ۔‘‘
عظیم بچپن کی معصوم یادیں
عہدِشباب میں جو تند رست و توانا نوجوان پھسلن اور لغزشوں سے محفوظ رہے اُس کی سیرت و کردار کی عظمتوں کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔دِن بھر کی مشقتوں کے بعد چند لمحے دلچسپ کہانیوں یا صحت مند موسیقی سے جی بہلانے میں کیا مضائقہ ہے ۔مگر ایک بر گزیدہستی جسے ساری کائنات کی نگہبانی سونپی جا رہی ہو ،اُس کے بلند منصب کے لیے اس قسم کی عامیانہ تفریحوں میں شمولیت شاید شایا نِ شان نہ ہو ۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ حضور ﷺ عہدِ شباب کے تما م تر لمحات پاکیزہ غورو فکر اور اِنسانی بھلائی کے کاموں ہی میں بسر ہُوئے اور وقت کی تمام لغزشیں اور پھسلنیں آپ ﷺ کے عزم و استقلال کو متزلزل کرنے میں قطعی ناکام رہیں ۔
زمانہ رسالت میں بھی حضور ﷺ گلّہ بانی ایسے سادہ اور پُر لُطف مشغلہ کا کبھی کبھی ذکر فرمایا کرتے تھے ۔ایک دفعہ آپ چند صحابہؓ کے ساتھ ایک جنگل سے گزرے ۔کچھ ساتھی ایک بیری سے بیر توڑ توڑ کر کھانے لگے تو آ پ ﷺ نے فرمایا :’’جو بیر خوب سیاہ ہو جاتے ہیں زیادہ مزے دار ہوتے ہیں ۔یہ میرا اُس زمانے کا تجربہ ہے جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتاتھا ۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top