skip to Main Content

۲ ۔ ننھے مُحمّد ؐ کااِبتدا ئی بچپن

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی بی حلیمہ ننھے محمد ﷺ کو گود میں لیے بخیریت تما م اپنے صحرائی گاؤں پہنچ گئیں ۔اس سال قحط کی وجہ سے چراگاہوں میں سبزہ وغیرہ کا نام و نشان تک نہ تھا ۔چنانچہ بکریاں پالنے والے چرواہوں کو بُہت دقّتوں کا سامنا تھا مگر جب حلیمہ کی بکریاں چراگاہ سے لوٹتیں تو دُودھ سے بھری ہوتیں ۔دُوسرے لوگ جب اپنی بکریاں دوہتے تو خشک تھنوں سے دُودھ کا ایک قطرہ تک ہاتھ نہ آتا ۔مگر حلیمہ کی بکریوں میں دُودھ کی ریل پیل تھی ۔دونوں میاں بیوی جی بھر کے دُودھ پیتے اور بچّوں کو بھی پلاتے ۔
گاؤں کے باقی چرواہوں کو حلیمہ کی بکریوں پر بُہت رشک آتا تھا ۔وہ اپنی بکریوں کو بھی اُسی جگہ چرواتے جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی تھیں ۔مگر اس سے کوئی فرق نہ پڑتا ۔اُ ن کی بکریاں ویسی کی ویسی بھُوکی پیاسی لَوٹتیں اور دُودھ کا ایک قطرہ تک نہ دیتیں ۔چنانچہ رفتہ رفتہ گھر گھر اِس بات کا چرچا ہونے لگا کہ بی حلیمہ نے جس بچّے کو گود لیا ہے اُس میں خیروبرکت کا کوئی خاص ہی راز پوشیدہ ہے ۔
پانچ سال صحرامیں
بی حلیمہ کی ایک نیک خصلت بچی شیماء بھی تھی ۔اُسے آنحضرت ﷺ سے بُہت اُنس تھا ۔وُہی آپ ﷺ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ حلیمہ ہر چھ سات ماہ بعد حضور ﷺ کو مکّہ لے آتیں اور آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ اور رشتہ داروں کر دکھا کر واپس لے جاتیں ۔جب آپ ﷺ دُو برس کے ہُوئے تو آپ ﷺ کا دُودھ چُھڑوا دیا گیا ۔آپ ﷺ شکل و صورت سے بہت صحت مند نظر آتے تھے ۔بی حلیمہ آپ ﷺ کو لے کر حضرت آمنہ کی خدمت میں حاضر ہُوئیں ۔
حلیمہ اب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں کہ وہی ننھا منّا یتیم جسے گود لینے کے لیے کوئی بھی تیّار نہ ہو تا تھا ،کس قدر حیرت انگیز بچّہ تھا ۔اُنھیں آپ ﷺ سے بے پناہ اُنس بھی ہو چکا تھا ۔اس لیے وہ آپ ﷺ کو کچھ عرصہ اور اپنے ہاں رکھنا چاہتی تھیں ۔چنانچہ اُنھوں نے حضرت آمنہ سے اس خواہش کے بارے میں بات چیت کی ۔اپنی بات پر اصرار کر تے ہُوئے بی حلیمہ نے کہا :’’صحرا کی کھُلی فضاننھے محمد ﷺ کو بہت راس آئی ہے ۔ویسے بھی مکہ میں وبا پھیلی ہُوئی ہے اِس لیے بہتر یہی ہو گا کہ آپ اس نیک شگون بچے کو کچھ عرصہ اور میرے صحرائی خیمہ ہی میں رہنے کی اجازت دے دیں ۔‘‘
یہ استدلال اس قدر معقول تھا کہ حضرت آمنہ کچھ عرصہ اور اپنے لختِ جگر سے جُدا رہنے پر راضی ہو گئیں ۔چنانچہ حضور ﷺ کچھ اور مدّت کے لیے حلیمہ کی تحویل میں رہائش کے لیے لوٹا دیے گئے ۔جُوں جُوں آپ ﷺبڑے ہوتے گئے آپ ﷺ اپنے دُودھ بھائیوں کے ساتھ اکثر بکریاں چرانے بھی نکل جایا کرتے تھے ۔بکریاں چرانے اور گلّہ بانی کے ابتدا ئی تجربہ کے علاوہ آنحضور ﷺ کو بعد کی زندگی میں بھی اِس دِلچسپ اور مفید شغل کا موقع ملتا رہا۔چنانچہ آپ ﷺ کئی سال تک اپنے خاندان اور مکّہ کے بعض دیگر اشخاص کی بکریاں چراتے رہے ۔گلّہ بانی کے دوران آپ ﷺ کو کائنات اور زندگی پر غور کرنے کے مواقع ملتے رہے ۔آپ ﷺ اپنے اس تجربہ کا ذکر بڑے فخر سے کرتے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا کرتے تھے ۔
ننھے مُحمّد ﷺ کی گم شُدگی
جب آپ ﷺ پانچ برس کے ہُوئے تو بی حلیمہ نے سوچا کہ اب آپ ﷺ کو اپنی والدہ کے پا س لَوٹا دینا چاہیے ۔چنانچہ وہ آپ ﷺکو لے کرمکّہ چلی گئیں ۔اِتّفاق سے آپ ﷺان سے چھُوٹ کر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ میں کھو گئے ۔حلیمہ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔اُنھوں نے بہتیرا تلاش کیا مگر آپ ﷺ کا کوئی سُراغ نہ ملا ۔تھک ہارکر وہ روتی چلاّتی آپ ﷺ کے دادا سردار عبد المُطلب کے پاس پہنچیں اور اُنہیں سارا واقعہ کہہ سُنایا ۔
عبدالمُطلب سخت پریشان ہُوئے اور آپ ﷺ کے مل جانے کی دعائیں کرتے ہُوئے سیدھے خانہ کعبہ جا پہنچے۔ابھی وہاں کھڑے ہی تھے کہ آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل اورقریش کے ایک اور نوجوا ن ملے ۔وہ حضور ﷺ کو اُٹھا ئے ہُوئے تھے ۔اُنھوں نے بتایا کہ ننھّامُحمّدﷺاُنھیں مکّہ کی پہاڑیوں میں ملا تھا۔عبدالمطلب نے دونوں نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا ۔آپ نے حضور ﷺ کو کندھے پر بٹھا لیا ۔خانہ کعبہ کے گرد گھومتے رہے اور اپنے پوتے کے لیے دُعائیں مانگتے رہے ۔اِس کے بعد اُنھوں نے آپ ﷺ کو اپنی والدہ کے ہاں بجھوادیا ۔
سفر میں والدہ کی وفات
حضور ﷺ کی والدہ آپ ﷺ کو پا کر بے حد خوش ہُوئیں۔چنانچہ آ پ ﷺ اپنے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے ۔نگہداشت کے لیے ایک نیک خصلت خاتون ،اُمِّ ایمن ،آپ ﷺ کی دایہ مقرر ہوئیں ۔آپ ﷺ تقریباََچھ برس کے تھے کہ آپ ﷺ کی والدہ نے سوچا کہ مدینہ لے جا کر آپ ﷺ کو اپنے ماموؤ ں سے ملایا جائے اور اپنے والد ماجد کی قبر بھی دکھائی جائے ۔چنانچہ آپ ﷺ کی والدہ آپ ﷺ ،آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب اور آپ ﷺ کی دایہ اُمّ ایمن کو ساتھ لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوئیں ۔
مدینہ میں ان لوگوں نے ایک ماہ قیا م کیا ۔آپ ﷺنے وہاں وہ مکان بھی دیکھا جس میں آپ ﷺ کے والد محترم کا اِنتقال ہُوا تھا ۔غم زدہ والدہ نے آ پ ﷺ کو آپ ﷺ کے والدِ ماجد کے حالات سُنائے ہوں گے ۔چنانچہ اُن دِنوں آپ ﷺ کو اپنی یتامت کا احساس ہونے لگا ۔پھر یہ لوگ مکّہ لَوٹنے کے لیے روانہ ہُوئے ۔مگر ابھی راستے میں ہی تھے کہ ابواء نامی گاؤں میں آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ بیمار ہُوئیں اور وفات پا گئیں ۔اُنھیں وہیں دفن کر دیا گیا ۔
ننھے محمّد ﷺ پیاری والدہ کی اچانک وفات پر آبدیدہ ہوگئے ۔اُنھوں ﷺنے و الدہ کو والد کی نا گہانی موت پر چُپکے چُپکے آنسو بہاتے دیکھا تھا ۔اب جب آپ ﷺ کی والدہ بھی آپﷺ کو تنہا چھوڑ کر دنیا سے رُخصت ہو گئیں تو یتیمی کا پُورا بوجھ آپ ﷺ کے نازک کندھوں پر آپڑا ۔آپ ﷺ بے حد افسردہ خاطر ہُوئے ۔شفیق دایہ امِّ ایمن نے آ پﷺ کی دلجوئی کی اور دلاسے دیتی ہوئی آپ ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ واپس پہنچ گئیں ۔
پُرانی یادیں ،پُرانی محبّتیں
اگر چہ اس سفر میں مدینہ میں آپ ﷺ کا قیام بے حد مُختصر تھا تاہم پھر بھی کئی باتیں آپ ﷺ کے حافظہ میں جُوں کی تُوں محفوظ رہ گئیں ۔چنانچہ کئی سال بعد جب مدینہ سے گُزرے تو ایک مکان کی طرف دیکھ کر فرمایا :’’اِسی مکان میں میری والدہ نے قیام کیا تھا ۔‘‘ایک تالاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :’’یہی وہ تالاب ہے جس میں نے تیراکی سیکھی تھی ۔‘‘ایک میدان کو دیکھاتو فرمایا :’’یہی وہ میدان ہے جہاں میں ننھی اَنیسہ سے کھیلا کرتا تھا ۔‘‘
اِسی طرح بی بی حلیمہ اور امّ ایمن کی یاد اور احترام لمحہ بھر کے لیے بھی آپ ﷺ کے دل سے محو نہ ہُوئے ۔آئندہ زندگی میں جب بھی وہ آپ ﷺ کے پا س آتیں ،آپ ﷺاحتراماًکھڑے ہو جاتے ۔’’میری ماں !میری ماں ‘‘کہہ کر اُن سے لپٹ جاتے ،اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر اپنے ہاتھوں سے بچھاتے ،جب تک وہ بیٹھ نہ جاتیں آپ ﷺ احتراماًکھڑے رہتے اور اُن سے اس قدر شفقت اور احترام سے باتیں کرتے کہ دیکھنے والے حیرت اوررشک سے دنگ رہ جاتے ۔
ایک دفعہ خُشک سالی کی وجہ سے مکّہ میں قحط پڑا تو بی بی حلیمہ حضور ﷺ کی طرف تشریف لائیں ۔ آپ ﷺ نے اُن کی بڑی خاطر مدارت کی ۔جب وہ واپس لَوٹنے لگیں تو آپ ﷺ نے اُنھیں ایک اُونٹ اور چار بکریاں تحفہ میں پیش کیں ۔
ایک مرتبہ حلیمہ بی بی کی بیٹی شیماء چند اور جنگی قیدیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے پیش کی گئیں ۔آپ ﷺ اُن سے بڑی شفقت اور احترام سے پیش آئے اور اُن کی خواہش کے مطابق اُنھیں فوراًاپنے قبیلے واپس بجھوا دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top