skip to Main Content

۱ ۔ سَدا بہار پھُولؐ کی کہانی

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔

بہار ایک وجد آفریں موسم ہے ۔گلستانوں میں نئی کونپلیں ‘نئے شگوفے پھُوٹتے ہیں ۔ڈالی ڈالی خوشنما پھُول کھِل اٹھتے ہیں ۔رنگا رنگ پرندوں کے سُہانے نغمے دِل لبھاتے ہیں ۔فضا میں ہر سُو مسرّتوں اور مسکراہٹوں کی لہر سی دوڑ جاتی ہے ۔خشک ویرانوں میں بھی شادابی کا رنگ جمنے لگتا ہے ۔ پریشان ذہنوں اور پُژمردہ چہروں پر اُمّید اور زندگی نئی کروٹیں لینے لگتے ہیں ۔
پھر جُوں جُوں دن گزرتے جاتے ہیں بہار کی رونق ماند پڑ تی جاتی ہے ۔پھُول مُرجھانے لگتے ہیں ۔ہنستے بستے چمن زار سُونے سُونے لگتے ہیں ۔اور ایک دِن ایسا بھی آتا ہے جب پھُولوں کی تمام خوشبُوغائب ہو جاتی ہے اور لوگ اگلی بہار تک سبزہ اور مہک کو ترستے ہیں ۔
سدا بہار پھُول کی مہک
کوئی ڈیڑھ ہزار برس کی بات ہے کہ ہماری اِس کائنات میں ایک ایسی حیرت انگیز بہار آئی تھی جو پھر کبھی ختم ہی نہ ہُوئی ۔اُس بہارمیں ایک باغ میں ایک خوشنما پھول کھِلا تھاجس کی مہک بے حد مفرّح تھی ۔بہار ختم ہوئی ۔خزاں گزری ۔گرما شروع ہُوا۔سرما کے تُند وتیز جھونکے چلے ۔پودوں اور درختوں سے رونق ختم ہُوئی ۔پرندوں نے چہچہاناچھوڑ دیا ۔مگر اُس سدا بہار پھُول پر اِس سے کوئی ناگوار اثر مرتّب نہ ہُوا۔اس کی مہک بس بڑھتی ہی چلی گئی ۔پھر ہوا کے جھونکوں نے اُس حسین پھُول کے بیج اور کونپلیں دُنیاکے بے شمار باغوں میں پھیلا دیں ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے کائنات کے گوشے گوشے میں خو ش نما پھُولوں کی ایسی د لفریب قسمیں پھیلنے لگیں جن کی مہک سدا بہار تھی ۔جن کے گرد پرندے ہر موسم میں محبت اور مسرّت کے گیت گاتے تھے اور جو افسردہ چہروں کو نئی رونق اورنئی زندگی بخشتے تھے۔
وہ حسین پھُول آج بھی ساری دُنیا کے باغوں کی زینت ہے ۔ہر خطّہ کے لوگ اس سدا بہار پھُول کی خوشبُو سے لُطف اندوز ہوتے چلے آرہے ہیں ۔اِس خوشنما پھُول کو کھِلے مُدّ تیں بےِت چکی ہیں ۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی مہک میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔
اور آج سبھی لوگ مانتے ہیں کہ ایسا دلفریب پھُول کبھی کہیں کھِلا ہے اور نہ کھِلے گا ۔سدا بہار کے اِس حسین پھُول کی کہانی انوکھی بھی ہے اور دل چسپ بھی ۔
بہترین اِنسان کی پیدائش
یہ پیارا پھُول موسمِ بہار میں جزیرہ نما ئے عرب کے مشہور شہر مکّہ میں کھِلا تھا ۔اُس علاقے کے مردّجہ کیلنڈر کے مطابق یہ مبارک دِن ۱۲ربیع الاوّل ،عام الفیل تھا ۔عیسوی حساب سے آپ ﷺ کا یو م ولادت ۲۲اپریل ۵۷۱ء بنتا ہے ۔اُس مسرتوں بھرے دِن دُنیا کے سب سے بڑے اور سب سے پیارے انسان یعنی حضرت محمّدصلّی اللہ علیہ وسلّم پیدا ہُوئے تھے ۔
آپ ﷺ کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا۔عبداللہ بہت نیک سیرت اور بلند کردار نوجوان تھے ۔حضرت آمنہ اپنے نیک شوہر کی طرح نہایت بلند اخلاق خاتون تھیں ۔آپﷺ کے دادا عبدالمُطلب مشہور قبیلہ قریش کے معزز سردار بھی تھے اور مکّہ شہر کے رئیس بھی ۔چنانچہ آنحضور ﷺ والداور والدہ دونوں اطراف سے اعلیٰ خاندانی اِوصا ف اور اچھّی شہرت میں پروان چڑھے ۔
اُس زمانے کے عرب میں دستور تھا کہ شادی کے بعد دُلہا میاں کچھ عرصہ دُلہن کے ہاں قیام کرتا تھا ۔چنانچہ جناب عبداللہ شادی کے بعد تین دن تک اپنی محترم بیوی آمنہ کے گھر ٹھہرے رہے ۔پھر آمنہ بی بی کو ساتھ لے کر اپنے آبائی گھر لوٹ آئے ۔کچھ عرصہ بعد تجارت کے سلسلہ میں آپ کو شام جانا پڑا ۔واپسی پر چندماہ سفر میں رہنے کے بعد آپ مکّہ لوٹتے ہُوئے مدینہ ٹھہرے تو بیمار پڑ گئے ۔یہ علالت جان لیوا ثابت ہُوئی اور آپ انتقال فرما گئے ۔آپ کو مدینہ ہی میں دفن کر دیا گیا ۔
آپ کی وفات کی خبر مکّہ پہنچی تو آپ کے گھر کہرام مچ گیا ۔اپنے جواں سال رفیقِ حیات کی بے وقت موت کے صدمے سے حضرت آمنہ رنج و غم میں ڈوب گئیں ۔سردار عبدالمطلب بھی نوجوان بیٹے کی نا گہانی موت سے بے حد پریشان ہُوئے ۔
ولادت کی مسرّتیں اور ضیافتیں
دِن گُزر تے گئے اور کچھ عرصہ بعد غم زدہ آمنہ کے ہاں ایک خُوبصورت بچّہ پیدا ہُوا ۔جس سے اُن کی افسردہ طبیعت قدرے سنبھلنے لگی ۔
آپﷺ کے دادا عبدالمُطلب کو پوتے کی پیدائش کی خبر ملی تو خوشی سے جھُوم اُٹھے ۔سب کام کاج چھوڑ کر اپنی بیوہ بہو کے گھر پہنچے ۔نومولود کو سینے لگایا اور اُسے چُومتے چاٹتے خانہ کعبہ میں جا داخل ہُوئے ۔اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا اور آپ ﷺ کے لئے دعائیں مانگیں ۔پھر واپس لوٹے اور بچّے کو آرام سے حضرت آمنہ کی گودمیں ڈال دیا ۔کافی سوچ بچار کے بعد آپ نے پوتے کا نام محمّد رکھا ۔اس خوبصورت عربی لفظ کا مطلب ہے ’’قابلِ تعریف ‘‘۔گو عرب میں اس قسم کے ناموں کا رواج نہ تھا مگر آپ کو یہی نام پسند آیا ۔
ولادتِ سعید کے ساتویں روز سردار عبدالمُطلب نے ایک نفیس اُونٹ ذبح کیا اور قبیلہ قریش کے تمام لوگوں کو اپنے ہاں ضیافت پر مدعو کیا۔کھانے کے بعد مہمانوں نے پوچھا کہ آپ نے نومولود کا نام آباء واجداد کے ناموں پر رکھنے کی بجائے ایک قدرے غیر مانوس سے نام کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟
آپ نے جواب دیا :’’میری خواہش ہے کہ یہ بچّہ خُدا اور بندوں کے نزدیک آسمان اور زمین پر تحسین وآفرین کا اہل ثابت ہو۔‘‘
دُودھ ماں کی تلاش میں دِقّتیں
مکّہ کے شریف اور امیر گھرانوں کا دستور تھا کہ جب ان کے نوزائیدہ بچّے آٹھ دن کے ہو جاتے تو وہ انھیں دُودھ پلانے والی ایسی مخصوص عورتوں کے حوالے کر دیا کرتے جو صحراؤں میں رہتی تھیں ۔ان عورتوں کو فن دایہ گری میں خاص مہارت ہوتی تھی ۔وہ شرفاءِ شہر کے اِن شِیر خوار بچّوں کو اپنے ساتھ صحرا کی کھُلی فضا میں لے جاتیں اور وہیں ان کی تربیت اور پرورش میں مصرُوف ہو جا تیں ۔اِن خدمات کا اُنھیں با ضابطہ معاوضہ ملتا ۔بچّوں کی پرورش کرنے والی یہ صحرا نور د عورتیں اکثر مکّہ میں آتی جاتی رہتیں اور اپنی پسند کے شِیر خوار بچّوں کی تلاش میں رہتیں ۔جب ایسے بچّے ذرا سیانے ہو جاتے تو اُنھیں اُن کے والدین کو لَوٹا کر اپنی محنت کامعقول معاوضہ وصُول کر لیتیں ۔
آنحضرت ﷺ کی ولادت کے چند روز بعد مکّہ کے نواحی صحراؤں کی چند دایہ عورتیں شیر خوار بچّوں کی تلا ش میں قافلہ کی صُورت شہر میں داخل ہُوئیں ۔اِس قافلہ میں بوڑھی اور لاغر حلیمہ سعدیہ بھی شامل تھیں ۔اتّفاق سے قافلے کی سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی شِیر خوار بچّہ مل گیا۔مگر ضعیف و ناتواں حلیمہ کی گود خالی کی خالی رہی ۔حضور ﷺ کی والدہ نے تقریباًتمام عورتوں سے آپ ﷺ کے لیے بات چیت کی ۔مگر اس خیال سے کہ ایک یتیم بچّے کے گھر سے کیا معاوضہ ملے گا ہردایہ آپ ﷺ کو گود لینے سے صاف انکار کر تی رہی ۔
جب حضرت آمنہ نے بی بی حلیمہ کو اس کام کے لیے آمادہ کر نے کی کوشش کی تو اس کے دِل میں یہی خیال آیا کہ وہ ایک یتیم بچّے کو لے کر کیا کرے گی ۔اُس کی بے سہارا والدہ پرورش کی محنت کا معقول معاوضہ کیسے ادا کر سکے گی ۔چنانچہ باقی والیوں کی طرح اُس نے بھی ننھّے محمّد ﷺ کو گود میں لینے سے معذوری ظاہر کر دی ۔
اِتنے میں دایہ عورتوں کا قافلہ صحرا کی جانب واپس لَوٹنے لگا تو حلیمہ کو کوئی کام نہ ملنے سے فکر دامن گیر ہوئی ۔وہ سخت شش و پنج میں پڑگئی ۔اُس نے اپنے خاوند حارث سے صلاح مشورہ شُرروع کیا ۔اُس کا خیال تھا کہ خالی ہاتھ گھر لَوٹنے سے بہتر ہے کہ اِس یتیم بچّے ہی کو ساتھ لے لیا جائے ۔جسے گود لینے کو کوئی بھی راضی نہ ہوتا تھا ۔حارث کو بھی یہ بات پسند آگئی ۔وہ بولا :’’ہاں !یہ ٹھیک ہے ۔کیا عجب کہ ہمارے لیے اسی میں بہتری ہو ۔‘‘چنانچہ حلیمہ نے بالآخر حضر ت آمنہ کی تجویز قبول کر لی اور حضور ﷺ کو گود میں لے لیا ۔
مریل گدھی اور بوڑھی اونٹنی
اس رسمی کارروائی کے بعد دونوں میاں بیوی قافلہ کے ہمراہ اپنے صحرائی خیمہ کی طرف لوٹنے کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ حلیمہ کے پاس سواری کیلئے فقط بھورے رنگ کی ایک دبلی پتلی گدھی اور دودھ کے لیے ایک بوڑھی اونٹنی تھی۔اُن دنوں مکّہ کے گردو نواح کا علاقہ سخت خشک سالی اور شدید قحط کی زد میں تھا ۔جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ مہیا کرنے میں بہت دقتیں پیش آتی تھیں۔آتی دفعہ حلیمہ بی بی اس دُبلی پتلی اور بھوکی پیاسی گدھی پر سوار ہو کر بڑی مشکل سے مکہ پہنچی تھیں ۔راستہ میں اُن کی مریل گدھی قافلہ کی باقی گدھیوں سے بار بار پیچھے رہ جاتی تھی۔ اُس کی ہمسفر عورتوں کو حلیمہ کی اس سست رفتاری پر بہت الجھن محسوس ہوتی تھی اور وہ غصے میں حلیمہ بی بی کو سارا راستہ کوستی چلی آئیں تھیں ۔
ننھے محمد ﷺ کی والدہ سے بات طے ہو گئی تو بی بی حلیمہ نے آپ ﷺ کو سینے سے لگا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی خشک چھاتی میں دودھ اتر آیا۔ حضور ﷺ نے خوب جی بھر کے دودھ پیا ۔آپﷺ کے ساتھ حلیمہ بی بی کے اپنے بچے یعنی آپ ﷺ کے دودھ بھائی نے بھی خوب سیر ہو کر دودھ پیا ۔اور دونوں بچے اطمینان سے سو گئے ۔ حلیمہ حیران بھی تھیں اور خوش بھی ۔انھیں اچھی طرح یاد تھا کہ انھوں نے اس سے پہلی رات پریشانی کے عالم میں جاگ کر کاٹی تھی۔ کیونکہ ماں کا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے ان کا بچہ رات بھر روتا رہا تھا ۔اسے اونٹنی کا دودھ بھی میسر نہ آسکا تھا کیوں کہ بوڑھی اونٹنی کے تھن بھی خشک تھے۔
بی بی حلیمہ کا شوہر حارث اپنی بوڑھی اونٹنی کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہے کہُ اس کے تھن دودھ سے لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ جب اسے دوہاگیا تو اس سے دودھ بکثرت حاصِل ہوا ۔جسے میاں بیوی نے خوب سیر ہو کر پیا اور وُہ رات اُنھوں نے سکون سے گزار دی ۔
صُبح ہوئی تو حارث نے حیرت سے کہا : ’’اے حلیمہ! مجھے تو پختہ یقین ہونے لگا ہے کہ جس بچے کو ہم نے گود لیا ہے ،برکتوں والی کوئی خاص ہستی معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘
حلیمہ مسکرائیں اور بولیں : مجھے بھی ایسے ہی دکھائی پڑتا ہے۔کیونکہ ہم پر تو ابھی سے ہی برکتوں اور نعمتوں کی بارش شروع ہو چکی ہے۔‘‘
جب وہ اپنے صحرائی گاؤں لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے تو حلیمہ نے اپنی مریل گدھی پر سوار ہو کر ننھے محمدﷺکو گود میں بٹھا لیا اور باقی قافلے کے ساتھ شامل ہو گئیں۔
قدرت خدا کی وہی مریل گدھی جو آتی دفعہ بار بار سب سے پیچھے رہ جاتی تھی اور سب کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھی اس بار آگے آگے بھاگنے لگی۔یہاں تک کے قافلے کی باقی عورتیں بار بار چلاتی:’’ اری حلیمہ ،ذرا دھیرے دھیرے چل۔یہ وہ مریل گدھی تودکھائی نہیں دیتی جس پر سوار ہو کر تو ہمارے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔ ‘‘جب حلیمہ انھیں کہتیں کہ یہ تو وہی گدھی ہے تو کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔
شام کے قریب بی بی حلیمہ ننھے محمد ﷺ کو خوشی خوشی اُٹھائے اپنے صحرائی خیمہ پہنچ گئیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top