skip to Main Content

۱۷ ۔ دم واپسیں

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔

یَااَفضل النَّاس انی کُنْتُ فی نہر
اَصْبَحْتُ منہ کمثل المفرد الصادی
اے وہ ہستی! جو تمام انسانوں میں افضل ہے۔ میں پہلے ایک دریا تھا۔اور اب دریا سے اس شخص کی طرح دور ہو گیا ہوں جو یکہ وتنہا اور پیاسا ہو!
حسان بن ثابت

جب آنکھیں چھلک پڑیں
ایک لاکھ سے کچھ زائد ہی ہوں گے مجاہدین اسلام جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ سوئے مکہ بڑھے چلے آتے ہیں۔کیا جنگ کا ارادہ ہے؟
نہیں مکہ تو فتح ہو چکا اب جنگ چہ معنی دارد؟قربانی کے جانور اس بات کی چغلی کھارہے ہیں کہ مقصد حج بیت اللہ ہے۔اس ساعت سعید کے پہنچتے پہنچتے زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں ہیں۔ فتح مکہ کے بعد ثقیف اور ہوازن کے قبیلوں سے حنین کے مقام پر معرکہ ہوا۔شام کے ایک سر دار شرجیل عمرو غسانی نے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے قافلے کو یہ اطلاع دی کہ قیصر فوج لے کر مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔تو تین ہزار کی جمعیت نے تبوک کی جانب قیصر کو راہ میں روکنے کے لیے کوچ کیا۔ان معرکوں کے علاوہ جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔اور چہارسو اسلام کا اجالا پھیلتا چلا گیا۔
اور اب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے جو ساتھی مکہ حج کے لیے جا رہے ہیں تو دلوں میں اطمینان کی کیفیت ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس بات پر رب کا شکر بجا لاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے فرض کو تکمیل تک پہنچا دیا۔مکہ پہنچتے ہیں تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے ساتھ حج کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔طواف کیا جاتا ہے۔رکوع وسجود اور قربانی کے مرحلے آتے ہیں پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) تمام اہل ایمان کو جمع کر کے خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لوگو!میں خیال کرتا ہوں میں اور تم پھر کبھی اس مجلس میں اکھٹے نہیں ہوں گے سن لو!تمھارے خون،تمھارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں۔ جیسا کہ تم آج کے دن کی،اس شہر کی،اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔اور دیکھو!تمھیں عنقریب خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا!خبر دار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگنا۔لوگو!جاہلیت کی ہر ایک بات میں اپنے قدموں کے نیچے پامال کرتا ہوں۔جاہلیت کے تمام خون ختم کرتا ہوں پہلا خون جو میرے خاندان کا ہے۔یعنی ابن ربیعہ بن حارث کا خون جو بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور ہذیل نے اسے مارڈالا تھا میں معاف کرتا ہوں۔ جاہلیت کا سود ملیا میٹ کرتا ہوں۔پہلا سود جو میں ختم کرتا ہوں وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔
لوگو!اپنی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کے جسم کو اپنے لیے حلال بنایا تمھارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی اور کو نہ آنے دیں۔اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ایسی ماردو جو نمودار نہ ہو۔
عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم انھیں اچھی طرح کھلاؤ اور اچھا پہناؤ!عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کی نصیحت کرتے رہو کیونکہ وہ تمھارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں وہ اپنی ذات کے لیے کسی چیز کی مالک نہیں ہوتیں۔
لوگو!میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔وہ اللہ کی کتاب قرآن ہے۔
لوگو!نہ تو میرے بعد کوئی اور پیغمبر ہے اور نہ ہی کوئی امت پیدا ہونے والی ہے خوب سن لو کہ اپنے رب کی عبادت کرو اور نماز پنجگانہ ادا کرو۔سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔مالوں کی زکوٰۃ نہایت خوشدلی سے دیا کرو خانہ خدا کا حج بجا لاؤ اور اپنے اولیائے امور وحکام کی اطاعت کرو جس کی جزا یہ ہے کہ تم اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو گے۔یہ کہہ کر ہمہ گوش حاضر ین سے سوال فرماتے ہیں۔
قیامت کے دن تم سے میری بابت دریافت کیا جائے گا مجھے بتاؤ کہ تم کیا جواب دو گے۔
محفل میں ایک ایک فرد پکار اُٹھتا ہے:
ہم اس کی شہادت دیتے ہیں کہ آپؐنے اللہ کے احکام ہم تک پہنچا دیے آپؐ نے رسالت ونبوت کا حق ادا کردیا آپؐ نے ہم کو کھرے کھوٹے کی بابت اچھی طرح بتادیا۔
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)یہ سنتے ہیں تو شہادت کی انگلی فلک کی جانب بلند کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اَللّٰہُمَّ اَشْہَدْ اے اللہ! تو گواہ رہ
اَللّٰہُمَّ اَشْہَدْ اے اللہ! تو گواہ رہ
اَللّٰہُمَّ اَشْہَدْ اے اللہ! تو گواہ رہ
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) خطبہ سے فارغ ہوتے ہیں تو اللہ جل شانہ ٗکی جانب سے ان آیات کا نزول ہوتا ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاO
’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کیا اور تمھارے لیے اسلام کو پسند کیا۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی زبان سے جب یہ حکم الٰہی جاری ہوتا ہے تو پاس ہی بیٹھے ہوئے ابو بکرصدیقؓ ان آیات کا مفہوم فوراًسمجھ جاتے ہیں ۔وہ جان جاتے ہیں کہ آپؐکی بعثت کا مقصد پورا ہو چکا تو دم واپسیں کا مر حلہ آپہنچا۔جونہی یہ خیال در ذہن پر دستک دیتا ہے تو آنکھوں سے آنسو پھوٹ بہتے ہیں۔
انتخاب
میرے سامنے دنیا کے خزانوں کی چابیاں اس لیے رکھی گئی ہیں کہ میں اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہوں۔اس کے علاوہ میرے سامنے جنت اور اللہ کی ملاقات بھی رکھی گئی ہے۔مجھے اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ میں دنیا کے خزانوں یا جنت اور اللہ کی ملاقات میں سے کسی ایک کو اختیار کروں۔
مولی رسول ابو مویہبتہؓمحمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہیں تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ ان الفاظ کا مطلب بھلا کون نہ سمجھے گا؟نصف سے زائد رات بیت چکی ہے۔ تھوڑی دیر قبل محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے ابو مویہبتہؓکو بھلا بھیجا تھا۔ابو مویہبتہؓپہنچ چکے تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تھا:
’’مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کروں۔‘‘
اور یوں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو مویہبتہؓکو لے کر قبرستان پہنچ گئے۔اب جو ابو مویہبتہؓ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی زبان سے الفاظ سنتے ہیں تو آنکھوں کے سامنے دنیا اندھیر ہوتی نظر آتی ہے ہمت کر کے عرض کرتے ہیں۔
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ پہلے دنیا کے خزانے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کو طلب کیجیے اور اس سے سیر ہونے کے بعد جنت بھی مانگ لیجیے۔‘‘
مگر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں:
’’نہیں ابو مویہبتہؓ۔اللہ کی قسم میں اپنے رب کی ملاقات اور جنت کو اختیار کر چکا ہوں۔‘‘
پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہاتھ بلند کرتے ہیں اور اہل بقیع کے لیے تین مرتبہ دعائے مغفرت فرماتے ہیں۔دعا سے فارغ ہو کر ابو مویہبتہؓکے ہمراہ گھر کی جانب چل دیتے ہیں۔لیکن صبح جب بیدار ہوتے ہیں تو سر مبارک میں شدید درد محسوس ہونے لگتا ہے۔
دلگداز لمحے
سات مختلف کنوؤں کی مشکوں کا پانی جسم اطہر پر ڈالا جاتا ہے تو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو کچھ سکون محسوس ہوتا ہے۔طبیعت کچھ سنبھلی دیکھ کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) سوئے مسجد چل دیتے ہیں۔مسجد میں سبھی جانثار منتظر تھے۔جب سے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بیمار ہوئے ہیں کسی کو بھی ایک پل کے لیے قرار نہیں۔اب جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مسجد میں دیکھتے ہیں تو فرط نشاط کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر بیٹھ کر پہلے شہدائے اُحد کے لیے دعائے مغفرت فرماتے ہیں پھر اپنا رخ انور جانثار وں کی طرف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تم سے پہلے ایک قوم انبیا اور صلحا کی قبور کو سجدہ گاہ بناتی تھی تم ایسی حرکت نہ کرنا۔ان یہودیوں اور نصرانیوں پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنایا۔میرے بعد میری قبر کو ایسا نہ بنانا کہ اس کی پرستش ہو!اللہ کا اس قوم پر سخت غضب ہوتا ہے جس نے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنایا ۔دیکھو میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔دیکھو میں تبلیغ کر چکا ،الٰہی تو اس پر شاہدرہ۔ الٰہی تو اس پر شاہد رہ۔‘‘
پھر صفیں درست ہوتی ہیں اور نماز ادا کی جاتی ہے ۔نماز سے فارغ ہو کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک مرتبہ پھر اہل ایمان سے خطاب فرماتے ہیں:
’’میں تم کو انصار کے حق میں وصیت کرتا ہوں کہ یہ لوگ میرے جسم کا پیر ہن ہیں اور میرے زاد راہ ہیں۔انھوں نے اپنے واجبات کو پورا کیا اور ان کے حقوق باقی رہ گئے۔ان سے اچھے افعال والوں کی قدر کرنا اور لغزش کرنے والوں سے درگزر کرنا۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) مزید فرماتے ہیں:
’’ایک بندہ کے سامنے دنیا ومافیہا کو پیش کیا مگر اس نے آخرت کو ہی پسند کیا۔‘‘
جانثاراپنے آقا کی ایک ایک بات بڑے غور سے سن رہے ہیں اور اب جو یہ الفاظ کانوں میں پڑتے ہیں تو سبھی پریشان ہو جاتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے یار باوفا ابو بکر صدیقؓ کی آنکھوں سے ضبط کے باوجود آنسو اُبل پڑتے ہیں۔
’’نہیں نہیں مگر ہم لوگ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو آپؐ پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو بکرؓ کے جذبات کا یہ عالم دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں۔
علی اِسلک یا ابابکر
ابو بکر سہولت سے کام لو۔‘‘
پھر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس مسجد کے سبھی دروازے بند کر دو صرف ابو بکرؓ کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دو!اس کا مجھ پر بھی احسان ہے۔میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکرؓکو بناتا۔لیکن اسلامی بھائی چارہ اس سے زیادہ با فضیلت ہے۔حتیٰ کہ ہم دونوں خدا کے سامنے ملاقات کریں گے۔‘‘
مسرّت کی لہر
نظریں باربار اُٹھتی ہیں اور حجرہ نبویؐ پر جم جاتی ہیں۔نماز کا وقت ہو گیا ہے۔محمدؐآ نہیں رہے انتظار کی گھڑیاں شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہیں۔ربّ کائنات سے اپنے آقا کی صحت کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔مگر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بجائے عبد۱؂اللہؓ بن زمعہ حجرہ نبوی سے برآمد ہوتے ہیں۔اہل ایمان کے قریب آکر فرماتے ہیں کہ رسولؐاللہ نے فرمایا ہے:
’’ابو بکرؓ سے کہو۔نماز پڑھائیں۔‘‘
ابو بکرؓتک یہ بات پہنچتی ہے تو دل بیٹھ جاتا ہے۔پریشانی سوار ہو جاتی ہے۔صفیں درست ہوتی ہیں تو ابو بکرؓ کی امامت میں نماز کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے۔ابو بکرؓپر رقت کی سی کیفیت طاری ہے۔ادھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طبیعت بھی کچھ سنبھل چکی ہے۔اسی لیے تو نماز میں شرکت کے لیے بڑھے چلے آرہے ہیں۔ابو بکرؓ یہ دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں کہ آقائے دو جہاں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) خود امامت فرمائیں مگر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ابو بکرؓ کی پشت پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
صَلِّی بالنَّاس
’’نماز پڑھتے رہو۔‘‘
اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) خود ابو بکرؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں نماز سے فارغ ہو کر محمدؐ(صلی للہ علیہ وسلم)اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔
’’صاحبو!آتش بھڑکا دی گئی ہے اور سیادہ ٹکڑوں کی مانند فتنوں نے رخ کر لیا ہے۔اللہ کی قسم تم میرے ذمے کوئی چیز نہیں لگا سکتے میں نے کوئی چیز حلال نہیں کی بجز اس کے جو قرآن نے حلال کی اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا بجز اس کے کہ جسے قرآن نے حرام قرار دیا۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی حالت سنبھلی دیکھ کو سبھی کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
اللہم رفیق الا علٰی
سب خوش ہیں کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحت اب پہلے سے بہتر ہے مگر کسے معلوم کہ آخری لمحات آچکے ہیں۔رب کائنات سے ملاقات کا وقت آپہنچا ہے۔حجرہ کے اندر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بستر پر دراز ہیں عائشہؓ نے پشت سے سہارا دے رکھا ہے۔پانی کا پیالہ پاس ہی دھرا ہے۔تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد پانی میں ہاتھ بھگو کر چہرہ مبارک پر مل لیتے ہیں۔جسم اطہر کالے رنگ کے کمبل سے ڈھانپ رکھا ہے ،جس سے کبھی چہرہ انور کو ڈھانپتے ہیں تو کبھی رخ اقدس سے کمبل ہٹا دیتے ہیں۔زبان سے یہ الفاظ جاری ہیں۔
لا الہ الا اللّٰہ، اِن للموت مسکرات
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں موت میں تلخی ہو اہی کرتی ہے۔‘‘
اتنے میں عبداللہ بن ابو بکرؓآپہنچتے ہیں۔ انھوں نے ہاتھ میں مسواک اُٹھا رکھی ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نظریں جو مسواک پر پڑتی ہیں تو مسواک استعمال کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے۔عائشہؓ سمجھ جاتی ہیں۔مسواک عبدالرحمن بن ابو بکرؓ سے لے کر اپنے دانتوں سے نرم کرتی ہیں اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے حوالے کرتی ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) مسواک کرتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ الرفیق الاعلٰی
اس کے ساتھ ہی ہاتھ لٹک جاتا ہے اور آنکھوں کی پتلیاں اُوپر اُٹھ جاتی ہیں
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

دم بخود
خدا کے رسولؐ رحلت فرما گئے۔
کیا کہا خدا کے رسولؐ رحلت فرما گئے؟نہیں نہیں!ایسا نہیں ہو سکتا!
جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچتی بوکھلا جاتا ہے اور تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔عمرؓ کو جو کوئی یہ کہتا ہے:
’’محمدؐ وفات پا گئے۔‘‘
تو شدت جذبات سے پکار اُٹھتے ہیں:
’’نہیں!بلکہ منافقین یہ کہہ رہے ہیں کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) وفات پا گئے حالانکہ اللہ کی قسم آپؐ فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے رب کی جانب گئے ہیں جس طرح موسیٰ گئے تھے موسیٰ ؑ چالیس رات تک اپنی قوم سے غائب رہے اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ مر گئے مگر بعد میں اپنی قوم میں پلٹ آئے تھے۔اللہ کی قسم رسولؐاللہ بھی اسی طرح پلٹ آئیں گے جس طرح موسٰی ؑ پلٹ آئے تھے۔پھر ان لوگوں کے ہاتھ اور زبانیں کاٹی جائیں گی جو یہ کہہ رہے ہیں کہ رسولؐاللہ وفات پا گئے ہیں۔‘‘
ابو بکرؓ عمرؓ کے بپھرے ہوئے جذبات مسجد کے دروازے میں کھڑے سن رہے ہیں ٹوٹا ہوادل ہے اور ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے ہیں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے حجرہ نبویؐ میں داخل ہوتے ہیں۔ سامنے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا جسد مبارک پڑا ہے ابو بکرؓ کپڑا اُٹھا کر چہرہ اقدس پر بوسہ دینے کے بعد فرماتے ہیں:
’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔!جو موت اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مقدر میں لکھی تھی وہ آگئی۔اس کے بعد آپؐ کبھی بھی موت کی تکلیف نہیں اُٹھائیں گے۔‘‘
پھر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے رخ انور کو کپڑے سے ڈھانپ کر نم آلود آنکھوں اور بوجھل قدموں سے مسجد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ عمرؓ کے جذبات کا اب بھی وہی عالم ہے۔ ابو بکرؓ آگے بڑھ کر اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے دلگیر انداز میں فرماتے ہیں:
’’صاحبو!جو لوگ محمدؐ کی بندگی کرتے تھے وہ جان لیں کہ محمدؐ وفات پا گئے لیکن جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں بے شک اللہ تو زندہ ہے وہ کبھی مرنے والا نہیں۔‘‘
پھر قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرماتے ہیں۔
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْءِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلآی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْءًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَO
’’اور محمدؐ!اس کے سوا کیا ہیں۔کہ اللہ کے رسولؐہیں۔ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر محمدؐ وفات پائیں گے یا شہید کر دیے جائیں گے تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔وہ اللہ کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچائے گا۔اوراللہ تو شکر گزار کو عنقریب جزائے خیر دے گا۔‘‘
عمرؓ ابو بکرؓ کی زبان سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنتے ہیں تو دم بخود رہ جاتے ہیں اب انھیں بھی یقین ہو چکا ہے کہ محمدؐ وفات پا گئے۔غسل اور نماز جنازہ کے بعد رحمتہ اللعالمینؐکی تد فین حجرہ نبویؐ میں ہی کی جاتی ہے۲؂۔
و بُورکُ لحدٌ منک صُمِّنَ طیِّبَا علیہ بناءٌ من صیفیح منفّدُ
’’اور اے قبر رسول!تو با برکت لحد ہو گی جس نے ایک پاک و طیب ہستی کو اپنے اندر لیا اور جسکے اوپر چوڑے چوڑے پتھروں کو تہہ بتہہ رکھ کر بنا دیا گیا ہے۔‘‘
واہستْ بلادُ الحرم وحشا بقاعہا
نفیبۃ وما کانت من الومی تُعہَرُ
فِقارا سِولی معمورۃ اللحدہنا فہا
فقیدٌ یبُکیَّہ بلاطٌ و غرقَدْ
’’مکہ اور مکہ کے قرب و جوار کے تمام مقامات سنسان ہو گئے اس امی کے غائب ہو جانے کی وجہ سے جس کے یہ بلا وعادی ہو گئے تھے یہ سب ویران ہو گئے بجر اس آباد لحدکے جس میں ہم سے کم ہو نے والا شخص جا کر ٹھہراہے جس پر شجر و حجر رو رہے ہیں۔‘‘
نجودی علیہ بالاُمُوع واعولی
لفقد الَّذی لامثلُہ الدھرَ یُوجَدُ
’’پس تو ان آنسوؤں کی اچھی طرح سخاوت کر اور اسی ہستی کے فقدان پر چیخیں مار کر رو جس کی مثال زمانہ بھر میں نہیں پائی جا سکتی۔‘‘

………….

حاشیہ:

۱۔ عبداللہ بن زمعہ قریشی اسدی ہیں ان کا شمار مدینہ والوں میں ہوتا ہے۔

۲۔ حضرت ابو طلحہؓ نے حضورؐ کی قبر کھودی اور حضرت علیؓ فضل بن عباسؓ،اسامہ بن زیدؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوف نے آپؐ کو قبر میں اُتارا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top