skip to Main Content

۱۴ ۔ خندق کا معرکہ

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔

اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاO ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدًاO
(احزاب: ۱۰ ۔ ۱۲)

(یاد کرو وہ وقت)جب دشمن اوپر اور نیچے سے آپڑے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں۔کلیجے منہ کو آ گئے۔اس وقت اہل ایمان خوب آزمائے گئے اور خوب بری طرح ہلا مارے گئے۔

چمکتی تلواریں
پتہ چلا۔پورا عرب پھرا ہوا ہے۔خبر آئی ایک سیلاب مدینہ کی طرف اُمڈا چلا آتا ہے۔کیوں اُمڈا آتا ہے یہ سیلاب؟کیا وجہ ہے کہ سارا عرب پھرا ہوا ہے؟کیا بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینا ہے۔مگر اُحد کے موقع پر ابو سفیان کہہ گیا تھا کہ بدر کے مقتولوں کا بدلہ اُحد ہے۔وجہ وہی پرانی ہے۔دشمنی بس ایک ہی ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے کفر کی سیا ہیوں کو برہنہ کیوں کیا۔ذلت وگمراہی کی تاریکیوں میں گری ہوئی قوم کو صراط مستقیم پر چلانے کی کوشش کیوں کی پتھر کے بتوں کے سامنے جھکے ہوئے انسانوں کو خدائے واحد کے دربار پر جبین نیاز خم کرنے کا راستہ کیوں بتایا۔یہی تو وہ جرم ہے کہ جس کی سزا محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور اُن کے ساتھیوں کو شروع ہی سے دی جارہی ہے اس وجہ سے تو مکہ کی گلیاں خون سے لالہ زار ہوئیں۔بدرواُحد میں انسانی جسم کٹے اور اب اہل قریش تمام قبائل کو لے کر مدینہ کی طرف چلے آرہے ہیں۔
لیکن اس پھرے ہوئے سیلاب کو روکا کیوں کر جائے۔بہت اہم اور نازک سوال ہے جانثار جمع ہیں اور مشورہ ہو رہا ہے۔سبھی کی یہی رائے ہے کہ شہر میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ سلما۱؂نؓ فارسی ایران کے رہنے والے ہیں وہاں کے جنگی طریقوں سے خوب آگاہ ہیں۔تجویز دیتے ہیں۔
’’کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنا ٹھیک نہیں بہتر یہی ہے کہ شہر اور فوج کو محفوظ کرنے کے لیے ایک جانب خندق کھود لی جائے۔‘‘
کیا خوب رائے ہے سلمان فارسیؓکی ،رائے سبھی پسند کرتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) بھی تجویز منظور فرماتے ہیں۔خندق کا نقشہ بنا دیا جاتا ہے۔شہر تین اطراف سے کھجوروں اور احاطہ بند مکانات سے رکا ہوا ہے مگر ’’حرہ شرقی‘‘اور ’’حرہ غربی‘‘سے لے کر ’’جبل سلع‘‘کے مغربی کنارے تک ساڑھے تین میل کا علاقہ ہے جہاں سے دشمن حملہ کر سکتا ہے۔چنانچہ فیصلہ ہوتا ہے ساڑھے تین میل لمبی خندق کھود ی جائے۔لیکن کون کھودے گا خندق؟کوئی اور لوگ نہیں بس یہی مجاہدین ہیں کہ جنھوں نے پھر دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا ہے۔جاڑے کی راتیں سردی سے انسان ٹھٹھررہے ہیں۔لیکن کدال مسلسل چل رہے۔کوئی مٹی ڈھورہا ہے تو کوئی پتھر سبھی مصروف سبھی منہک عمرؓ بھی ابو بکرؓ،عثمانؓبھی، علیؓ بھی زمین کا سینہ شق کرنے میں لگے ہیں۔نہ سردی کی فکر نہ بھوک کا خیال اور نہ پیاس کی طلب، مجاہدین کی ہمتیں بلند ،حوصلے جوان اور ایمان مضبوط ہیں تبھی تو سنگلاخ چٹانیں راہ میں حائل ہوتی ہیں نہ سخت زمین۔ مجاہدین کے سردار اعظم بھی ہاتھ میں کدال لیے عام مزدوروں کی طرح خندق کھودنے میں مصروف ہیں۔اور مجاہدین کے ساتھ مل کر رجز بھی پڑھے جارہے ہیں۔دیکھنے والے یہ نظارہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ ساڑھے تین میل لمبی،تیس فٹ چوڑی اور پندرہ فٹ گہری خندق تین ہزار مجاہدین صرف بیس دنوں میں تیار کر دیتے ہیں۔اب مدینہ محفوظ ہے، اب اہل ایمان محفوظ ہیں۔وہ چراغ حق بھی محفوظ ہے جسے گل کرنے کے لیے رات کی تاریکی میں ۱۲ خون کے پیاسوں نے اپنی تلواریں ننگی کر لی تھیں وہ بھی محفوظ جنھیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا،دہکتے انگاروں پر لٹایا جاتا۔اور وہ بھی محفوظ جنھیں بدرو اُحد کے معرکوں سے دو چار ہونا پڑا۔اِدھر خندق تیار ہوتی ہے اُدھر مشرکین کا لشکر دس ہزار کی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔مگر آگے تو خندق ہے۔تو کیا مدینہ اس مرتبہ بھی بچ جائے گا۔اس مرتبہ پھر ناکام ونامراد پلٹنا پڑے گا۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھی اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ آسکیں گے۔تلملاتے ہیں،تڑپتے ہیں اور خندق کو عبور کرنے کے لیے گھوڑے ٹپاٹپ دوڑاتے ہیں۔مگر کچھ بن نہیں پڑتا تو دور ہی سے پتھروں اور نیزوں کی بارش شروع کر دیتے ہیں۔مجاہدین پتھروں اور نیزوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔کوئی فکر نہیں۔فا قوں نے حالت پتلی کر رکھی ہے۔جب بھوک سے نڈھال ہوتے ہیں تو آکر سالار اعظم محمدؐسے عرض کرتے ہیں۔
’’یا رسولؐاللہ بھوک سے برا حال ہے دیکھ لیجیے پیٹ پر پتھر بندھے ہیں۔‘‘
مگر جب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے شکم مبارک سے کپڑا اُٹھاتے ہیں تو وہاں ایک کی بجائے دو پتھر بندھے نظر آتے ہیں۔جانثاروں سے لے کر سالار اعظم تک سبھی بھوک سے نڈھال مگر دشمن خدا کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے ہیں۔دن ڈھلتا ہے اور رات اپنا دامن پھیلا دیتی ہے تو سردی بھی بلا کی پڑتی ہے۔انسان سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ایک دو دن کی بات ہوتی تو برداشت کر لی جاتی محاصرہ طویل تر ہوتا جارہا ہے۔خندق عبور کرنے کی کوئی صورت نہیں۔بالآخر مشرکین بددل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی کسی صورت بھی ہمارے ہاتھ نہیں آسکتے۔خندق عبور نہیں کی جا سکے گی۔یہاں ا س سردی میں پڑے رہنا کسی طرح بھی عقلمندی نہیں۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔یہ حالت دیکھ کر سردار ان فوج کو بھی فکر لا حق ہوتی ہے۔ایک بار پھر بھر پور حملہ کیا جاتا ہے مگر خندق پھلانگنے میں ناکام رہتے ہیں بالآخر عمروبن عبدوُدجسے عرب کے باسی ایک ہزار سو رماؤں کے برابر سمجھتے ہیں اور جنگ بدر میں گھائل ہو کر گیا تھا تو عہد کیا تھا کہ جب تک بدلہ نہ لے لوں سر میں تیل نہ ڈالوں گا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ وہ ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں خندق قدرے کم چوڑی ہو جونہی ایسی جگہ نظر آتی ہے عمرو بن عبدود اور اس کے ساتھی ضرار،جبیرہ اور نوفل گھوڑوں کو مہمیز کرتے ہیں تو خندق کے اس پار پہنچ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
عمر وبن عبدود آگے آگے ہے۔گھوڑا دوڑ اتا دوڑاتا مسلمانوں کے لشکر کے سامنے آتا ہے تو چلا کر کہتا ہے:
’’کوئی ہے جو میرے مقابلے میں نکلے۔‘‘
علیؓ تڑپ کر اُٹھتے ہیں اور بڑی جرات سے جواب دیتے ہیں:
’’ہاں میں ہوں ‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) تین مرتبہ علیؓ کو توجہ دلاتے ہیں۔علیؓدیکھتے ہو۔یہ عمرو بن عبدود ہے؟ علیؓیہ سن کر عرض کرتے ہیں۔ہاں یا رسولؐاللہ میں نے دیکھا ہے یہ عمرو بن عبد ودہے۔
ایک طرف ہزار سورماؤں کے برابر عمرو بن عبدود اپنے دست وبازو کے زور پر ناز کیے میدان میں اکڑتا ہے تو دوسری طرف شیر خداعلیؓ ایمان کے جذبے سے میدان میں نکلا چاہتے ہیں۔جب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)ہر طرح سے علیؓ کو مقابلہ کے لیے تیار پاتے ہیں تو اجازت دے دیتے ہیں۔ مبارک ہاتھوں سے تلوار عنایت فرماتے ہیں اور سر پر عمامہ باندھ دیتے ہیں علیؓ ایک شان سے آگے بڑھتے ہیں۔عمرو حیران رہ جاتا ہے کون ہے جو مجھ جیسے سورما کا نام سن کر بھی میدان میں چلا آرہا ہے۔علیؓ قریب پہنچتے ہیں۔تو فرماتے ہیں:
’’دیکھو عمرو تم کہتے ہو کہ کوئی قریشی اگر مجھے تین باتوں کی دعوت دے تو میں ان میں سے ایک نہ ایک کو ضرور قبول کر لیتا ہوں۔کیا یہ تمھارا قول ہے؟‘‘
عمرو بن عبدو : ہاں
علیؓ : تو بہتر ہے اسلام قبول کرلو۔
عمروبن عبدو : یہ نا ممکن ہے۔
علیؓ : لڑائی سے واپس چلے جاؤ۔
عمرو بن عبدو : لڑائی سے واپس پلٹ جاؤں میں قر یشی عورتوں
کے طعنے نہیں سن سکتا۔
علیؓ : تو پھر آاور مجھ سے معرکہ آرا ہوا!
عمروبن عبدو : یہ سن کر حقارت سے قہقہہ لگاتا ہے اور کہتا ہے۔
’’اس زمین پر مجھ سے لڑنے کی درخوا ست کی جائے گی میں نے سوچا تک نہ تھا۔‘‘
علیؓپیادہ ہی جنگاہ میں نکلے ہیں۔عمرو بن عبدود بھی گھوڑے سے کود پڑتا ہے۔اور تلوار کے ایک ہی وار سے اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیتا ہے اور پھر علیؓ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’کون ہو تم؟‘‘
جواب ملتا ہے:
’’علیؓابن ابی طالب ‘‘
عمرو بن عبدود:
’’ علیؓ میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔‘‘
علیؓ:
’’ مگر خدا کی قسم میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تجھے قتل کر دوں‘‘
یہ سنتے ہی عمرو کے نتھنے پھول جاتے ہیں۔آنکھیں شعلے برسانے لگتی ہیں اور تلوار چمک کر بلند ہوتی ہے اور پھر پوری شدت سے آگے بڑھ کر وار کرتا ہے اِدھر علیؓ سمٹ کر ڈھال آگے کر دیتے ہیں۔ تلوار ڈھال کو چیرتی ہوئی علیؓ کی پیشانی کو چھو جاتی ہے۔اور خون کا فوارہ پھوٹ بہتا ہے۔اب شیر خدا علیؓ آگے بڑھتے ہیں۔مچلتی،تڑپتی تلوار بلند ہوتی ہے اور یوں برق کی طرح کوندی عمرو کے شانہ پر پڑتی ہے کہ کاٹ کر نیچے تک چلی جاتی ہے خون شراٹے بھر تا باہر نکلتا ہے۔دشمن خدا چکرا کر زمین بوس ہو جاتا ہے تو علیؓ اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں۔عمرو زمین پر پڑا سسکتے تڑپتے جہنم واصل ہو جاتا ہے ۔عمرو کے ساتھی یہ دیکھتے ہیں تو گھوڑوں کا رُخ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ نوفل بھاگتے بھاگتے خندق میں جاگر تا ہے۔ مجاہدین چاہتے ہیں کہ تیروں سے اس دشمن خدا کا خاتمہ کر دیں مگر وہ چلاتے ہوئے کہتا ہے:
’’مسلمانو!میں شریفا نہ موت مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
نوفل کی اس خواہش کے لیے علیؓ لپکتے ہیں تلوار ہاتھ میں لے کر خندق میں کود جاتے ہیں علیؓ کی تلوار ایک مرتبہ پھر جوہر دکھاتی ہے اور نوفل بھی موت کے گھاٹ اُتر جاتا ہے۔
محصور خاتون کا حوصلہ
’’کعب تیرا برا ہو دروازہ تو کھول۔‘‘
حُییَّ بن اخطب نضری نے بہت کوشش کی کہ بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد قرظی دروازہ کھول دے مگر کسی طرح مان نہیں رہا اب حُییَّ نے چیخ چیخ کر آوازیں دینا شروع کیں تو کعب اندر ہی سے کہتا ہے۔
’’حیّی!تو بڑا بدبخت ہے دیکھ!میں محمدؐ سے معاہدہ کر چکا ہوں اور اس معاہدہ کو نہیں توڑ سکتا کیونکہ محمدؐمیرے ساتھ ہمیشہ وفاءِ عہد اور صداقت سے پیش آئے ہیں۔‘‘
حیی تلملا کر پھر چیختا ہے:
’’تیرا ستیا ناس ہو دروازہ تو کھول میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
مگر کعب دروازہ کھولنے پر راضی نہیں ہو رہا۔ حیی ایک اور داؤ آزماتے ہوئے کہتا ہے۔
’’اللہ کی قسم!لگتا یوں ہے کہ تو نے محض اس لیے دروازہ بند کیا ہے کہ میں تیرے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو جاؤں۔‘‘
کعب جو یہ بات سنتا ہے تو غیرت میں آجاتا ہے۔اور دروازہ کھول دیتا ہے۔ تو حیی اندر داخل ہوتے ہوئے کہتا ہے:
’’واہ رے کعب تجھے کیا ہو گیا دیکھ تو میں تمھارے لیے کتنی بڑی عزت اور شہرت لے کر آیا ہوں میں قریش کو ان کے سردار وں کے ہمراہ لا رہا ہوں وہ رومہ کی طرف سے آنے والی وادی میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔قبیلہ غطفان کو بھی لایا ہوں ان کے سردار بھی ہمراہ ہیں اور وہ احد کے ایک جانب ذنب نقی میں موجود ہیں۔سب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے خون کے پیاسے ہیں سب نے عہد کیا ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں کا کام تمام کیے بغیر یہاں سے نہ ہٹیں گے۔‘‘
کعب یہ سن کر جواب دیتا ہے۔
’’اللہ کی قسم تو زمانے بھر کی ذلت اور ایسا بادل ساتھ لایا ہے جس کا پانی بہہ چکا ہے۔وہ گرجتا اور چمکتا تو ہے۔مگر اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔حیی تیرا ستیا ناس!مجھے میری حالت پہ چھوڑ دے۔اب مجھ سے معاہدہ کی خلاف ورزی نہ ہو گی۔محمدؐ نے ہمیشہ میرے ساتھ وفا داری کی ہے۔‘‘
کعب کے اس رویے سے حیی ما یوس نہیں ہوتا آگے بڑھ کر ایک اور داؤ آزماتے ہوئے کہتا ہے:
’’کعب دیکھو!آج پوری قوم کی لاج رکھنا تمھارے ہاتھ میں ہے قوم کو ذلیل ہونے دو یا عزت دو تمھاری مرضی خوب سوچ لو اور یہ بھی سن لو یہ موقع کبھی ہاتھ نہ آئے گا۔بے جھجھک تم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کا ساتھ چھوڑ دو اور فوجوں کو راستہ دے دو!میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ اگر قریش اور غطفان ہار گئے تو میں تمھارے قلعے میں ساتھ چلوں گا پھر جو کچھ تم پر بیتے گی، وہ میں بھی سہوں گا۔‘‘
حیی کا یہ وار ٹھیک نشانے پر لگا اور کعب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ کیے جانے والے معاہدہ کی خلاف ورزی پر تیار ہو جاتا ہے۔یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کا محمدؐ سے حلفیانہ معاہدہ ہے ان کا قلعہ شہرکے ایک جانب موجود ہے اب یہ حیی کی باتوں میں آکر غداری پر تل گئے ہیں تو اس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ مشرکین کی فوج کو شہر میں داخل ہونے کا راستہ مل جائے گا اور مسلمانوں کی فوج کسی طرح بھی محفوظ نہ رہ سکے گی!حیی بڑا خوش،بڑا مسرور،بھاگم بھاگ اپنے سپاہ میں پہنچتا ہے تو ہر ایک کو خوشخبری سناتا پھر رہا ہے۔مشرکین یہ خبر سنتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر حوصلے بلند ہو جاتے ہیں مسلمانوں پر یورش تیز کر دی جاتی ہے۔یہ خبر مجاہدین اسلام تک پہنچتی ہے تو تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے اس خبر کی تصدیق فرما چکے ہیں۔مجاہدین چاروں طرف سے خطرات میں گر گئے ہیں اندیشے بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ منافقین نے مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے کھسکنا شروع کر دیا۔منافقین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ:
’’۲؂محمدؐ تو ہم سے وعدہ کیا کرتے ہیں کہ ہم قیصرو کسریٰ کے خزانوں کو ہڑپ کر جائیں گے لیکن اس وقت ہمیں ایک آن بھی اطمینان نہیں۔‘‘
فاقوں پر فاقے اور ہر طرف خوف کے پہرے منافقین کے حیلے بہانے اور چبھتے فقرے،پتھروں اور تیروں کی بارش ایک سے ایک بڑھ کر کڑی آزمائش مگر تشنگان شہادت ان حالات میں بھی پرعزم ہیں اور دشمنان خدا کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔شہر میں یہودیوں کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے خواتین پہلے ہی قلعہ میں منتقل کی جا چکی ہیں۔صفیہؓقلعہ میں موجود ہیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک مشکوک یہودی قلعے کا چکر لگا رہا ہے۔صفیہؓ سمجھ جاتی ہیں کہ یہ حالات کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہودیوں کو صورت حال سے آگاہ کر سکے چنانچہ خیمہ کا ایک بانس لے کر نیچے اترتی ہیں اور یہودی کے سر پر ایسا وار کرتی ہیں کہ وہ وہیں جہنم واصل ہو جاتا ہے پھر اس کا سر کاٹ کر میدان میں پھینک دیتی ہیں۔تو یہودی خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قلعہ میں کوئی فوج موجود ہے۔
خدا کا فیصلہ
سنّاتا ہوا تیرآکر سعد بن معاذؓکی کہنی کے سامنے کی طرف پیوست ہو جاتا ہے اور ’’رگ اکحل‘‘کٹ جاتی ہے۔سعدؓتیر کھینچ کر نکالتے ہیں تو خون کا فوارہ پھوٹ بہتا ہے۔اس لمحے سعدؓکی نظریں بے اختیار آسمان کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ہاتھ اُٹھتے ہیں تو لب ہلنے لگتے ہیں اور یہ پر سوز دعادل کی گہرائیوں سے نکل کر فضا کو چیر نے لگتی ہے:
’’اے خدا!اگر قریش سے ابھی جنگ ہو نا باقی ہے تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ میری خواہش ہے کہ میں ان سے جہاد کروں کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس نے تیرے رسول ؐکو جھٹلایا۔اذیت دی۔گھر سے بے گھر کیا۔اس قوم سے زیادہ کسی اور سے لڑنے کی مجھ میں تمنا نہیں لیکن اگر اس سے جنگ ہو چکی ہے تو مجھے اس میں شہادت عطا کر اور جب تلک میری آنکھیں بنو قریظہ کے انتقام سے ٹھنڈ ی نہ ہو لیں مجھے موت نہ دے۔‘‘
ایک ایک مجاہد کے جذبات کا یہی عالم ہے۔مجاہدین پر یہ نازک وقت صرف اس لیے آن پہنچا ہے کہ بنو قریظہ والے لشکر کفار کو مدینہ میں داخل ہونے کا راستہ دینے والے ہیں۔آہ تصور سے ہی انسان کانپ اُٹھتا ہے۔عورتیں اور بچے شہر میں بے کل،مجاہدین کے سروں پر موت کے منڈلاتے سایے پتھروں اور تیروں کی بارش اور فاقوں پر فاقے۔ محمدؐاپنے ساتھیوں کو حوصلہ بھی دلارہے ہیں اور خداوند کریم سے مدد طلب فرمارہے ہیں۔انہی مشکل لمحات میں نعیم بن اسودجو کہ قبیلہ غطفان کی ایک با اثر شخصیت ہیں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
’’یا رسولؐؒ ؒ ؒ اللہ!میں تو اسلام قبول کر چکا ہوں مگر میرے مسلمان ہو نے کا علم میری قوم کو نہیں ہے اب آپ کوئی خدمت مجھ سے لینا چاہتے ہیں تو حکم فرمائیے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)نعیم کی بات سن کر فرماتے ہیں:
’’نعیم تم ہمارے اندر ایک کام کے آدمی ہو!ہو سکے تو مشرکوں کے اندر تفرقہ ڈال دو۔ کیونکہ جنگ تو مغالطہ کا نام ہے۔‘‘
نعیم وہاں سے اُٹھ کر بنو قریظہ والوں کے پاس پہنچتے ہیں۔بنو قریظہ کے لوگ پہلے ہی نعیم کے بہت گر دیدہ ہیں اب نعیم کو جو اپنی جانب آتے دیکھتے ہیں تو استقبال کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور بڑے احترام سے بٹھاتے ہیں۔نعیم اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اپنے اصل مقصد کی جانب آتے ہوئے کہتے ہیں:
’’دیکھو!مجھے تمھارے قبیلے سے جو اُلفت ومحبت ہے اس سے تم خوب آگاہ ہو اور خاص کر تم لوگوں سے مجھے محبت ومودّت ہے۔‘‘
یہ سن کر سبھی بول اُٹھتے ہیں:
’’ہاں ہاں آپ سچ کہتے ہیں ہمارے دل میں آپ کے بارے میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘
یہ سن کر نعیم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’سوچو تو سہی!قریش اور قبیلہ غطفان کی وہ کیفیت نہیں جو تمھاری ہے اس شہر میں تم رہتے ہو۔تمھارے اموال بچے اور عورتیں موجود ہیں تم انھیں لے کر کسی دوسرے شہر منتقل نہیں ہو سکتے جہاں تک قریش اور غطفان کا تعلق ہے وہ تو محمدؐ سے جنگ کرنے کے لیے آئے ہیں اگر جیت گئے تو اس سے اچھی بات کیا ہے لیکن اگر دوسری شکل آئے تو یہ اپنے شہروں کو چلے جائیں گے اور تم اکیلے محمدؐ کے رحم وکرم پر رہ جاؤ گے۔اور محمدؐ تم سے خوب نبٹ لیں گے۔تصور تو کرو کہ تم اس وقت کتنے برے پھنسو گے۔‘‘
بنو قریظہ والے یہ سنتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں بے تابی سے پوچھتے ہیں تو کیا کیا جائے؟نعیمؓلوہا گرم دیکھتے ہیں تو چوٹ لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’بہتر یہی ہے تم قریش اور غطفان کے ساتھ مل کر اس وقت تک قتال میں حصہ نہ لوں جب تک تم ان کے بڑے بڑے سردار رہن نہ رکھ لو۔اس طرح تم مطمئن رہو گے اور وہ بھی محمدؐ کو ختم کیے بغیر واپس نہ پلٹیں گے۔‘‘
یہ سنتے ہی سبھی کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کہنے لگتے ہیں۔
’’نعیم تم نے بہت ہی اچھا مشورہ دیا۔‘‘
نعیم وہاں سے فارغ ہو کر اہل قریش کے پاس پہنچتے ہیں تو ابو سفیان اور دوسر ے قریشی سرداروں سے مل بیٹھتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں:
’’دیکھو محمدؐ کی دشمنی کی وجہ سے مجھے تم سے جو تعلق خاص ہے اس سے تم خوب واقف ہو!مجھے ایک ایسی خبر ملی ہے جو بہت اہم ہے بہتر یہی ہے تم اسے صیغہ راز میں رکھو!میرا نام کسی کو نہ بتاؤ۔‘‘
اہل قریش یہ سن کر بے تابی سے پوچھتے ہیں۔
’’ہاں!ہاں نعیم بتاؤہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘
نعیمؓ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اہل یہود محمدؐ سے معاہدہ توڑنے پر نا دم ہیں اب انھوں نے محمدؐ کو پیغام بھیجا ہے کہ ہمیں معاف کر دیں ہم قریش اور غطفان کے اشراف کو پکڑ کر آپ کے حوالے کریں گے آپ ان کی گردنیں اُڑا دیں۔تم یہود تک کوئی آدمی بھیج کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہو۔بس ذرا ہو شیار رہنا اور اگر وہ بطور رہن کوئی آدمی طلب کریں تو نہ دینا۔‘‘
قریش کو ششدر چھوڑ کر نعیم اُٹھ آتے ہیں اور اپنے منصوبے کو آخری مرحلے میں داخل کرتے ہوئے قبیلہ غطفان سے ملتے ہیں اور انھیں بھی قریشیوں کی طرح ڈراتے ہیں۔اہل قریش اور غطفان یہ سنتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔محاصرہ طویل سے طویل تر ہو گیا ہے۔خندق عبور کرنے کی کوئی صورت نہیں کچھ بنو قریظہ کی جانب سے اُمید تھی وہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ابو سفیان اور دوسرے سردار عکرمہ بن ابو جہل کو بنو قریظہ کے ہاں تصدیق کے لیے بھیجتے ہیں تو وہ نعیمؓ کے کہنے کے مطابق آدمی بطور رہن طلب کرتے ہیں۔عکرمہ بن ابو جہل یہ صورت حال سرداران لشکر کو بتاتا ہے تو رہی سہی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔پھر رات شدت کی سردی پڑتی ہے۔یخ بستہ ہوائیں آندھی کا روپ دھار لیتی ہیں خیموں کی طنا بیں ٹوٹ جاتی ہیں۔چولہوں پر چڑھی دیگیں الٹ جاتی ہیں۔ہر طرف افرا تفری پھیل جاتی ہے۔مشرکین بوکھلا جاتے ہیں۔ابو سفیان یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا تو چیخ چیخ کر کہتا ہے۔
’’اے اہل قریش!بخدا اب یہ ٹھہرنے کی جگہ نہیں رہی ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔بنو قریظہ والوں نے وعدہ خلافی کی ہے موسم کا حال بھی تم دیکھ رہے ہو بہتر یہی ہے بھاگ چلو! اچھا میں تو جا رہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اونٹ پر سوار ہوتا ہے اس کے پیچھے پیچھے اہل قریش بھی کوچ کر جاتے ہیں اب قبیلہ غطفان والے یہ عالم دیکھتے ہیں تو وہ بھی ٹھہر نا مناسب نہیں سمجھتے اس طرح مدینہ کا افق ۲۹دن غبار آلود رہنے کے بعد صاف ہو جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)یہ عالم دیکھتے ہیں تو اپنے ساتھیوں سے فرماتے ہیں:
’’اب قریش تم سے لڑنے نہیں آئیں گے بلکہ تم ان سے لڑنے جاؤ گے۔‘‘
دوسرے روز محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ساتھیوں کو لے کر بنو قریظہ والوں سے نمٹنے چل دیتے ہیں مجاہدین اسلام کو آتے دیکھ کر بنو قریظہ والے قلعہ بند ہو جاتے ہیں قلعہ کا محاصرہ کر لیا جاتا ہے بالآخر۲۵ راتوں کے مسلسل محاصرہ کے بعد بنو قریظہ والے مجبور ہو کر قلعہ کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) بنو قریظہ والوں سے فرماتے ہیں:
’’تم کوئی فرد چن لو جو وہ فیصلہ کرے گا اسے میں بھی مانوں گا اور تم کو بھی ماننا پڑے گا۔‘‘
بنو قریظہ والوں کی نظر سعد بن معاذ پر پڑتی ہے۔سعد بنی قریظہ کے حلیفوں سے ہیں اس لیے وہ سعد کا نام لے لیتے ہیں کہ جو فیصلہ کریں گے منظور ہوگا۔سعد مسلمانوں سے غداری کرنے ولے اس گروہ کے مجرموں کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے۔ان کے اموال بانٹ دیے جائیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔‘‘
بے شک خدا کے مجرموں کے لیے سب سے بہتر فیصلہ یہی ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سعدؓ کی جانب سے یہ فیصلہ سنتے ہیں تو فرماتے ہیں:
’’سعد یہی فیصلہ خدا کا بھی ہے۔‘‘
اور پھر اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو سعد کی آنکھوں کو بھی ٹھنڈک محسو س ہوتی ہے۔
نوحہ
رات اپنا آدھا سفر طے کر چکی ہے آکاش پر ننھے منے ستارے جھلملا رہے ہیں یخ بستہ ہواؤں کے جھونکے مدینہ کے درو دیوار کو تھپکیاں دے رہے ہیں پورا شہر نیند کی آغوش میں ڈوبا ہو ا ہے۔ایسے عالم میں فرشتہ جبرائیل ریشمی عمامہ باندھے محمد ؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں آ حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے:
’’محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)یہ کس کی میت ہے جس کے لیے آسمان کے دروا کر دیے گئے ہیں اور عرش بھی ہل گیا ہے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)یہ سنتے ہیں تو سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔اسی حالت میں کپڑے گھسیٹتے گھسیٹتے تیزی سے باہر نکل پڑتے ہیں لمبے لمبے قدم بھرتے ہیں سعد بن معاذ کے گھر پہنچ جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ سعدؓکی روح قفس عنصری سے پر واز کر چکی ہے۔
الفراق الوداع اے عزم کی محکم چٹان
جنازہ اُٹھتا ہے تو سعدؓ بن معاذ کی والدہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آتا ہے وہ رو رو کر یہ نوحہ پڑھے جا رہی ہیں:
ویل اُمّ سعدٍ سعداً
صَرَامَۃً وَحَدَا
وَ سُود دًا و مَجْدا
وَ فَارسًا مُعَدَا
سُدّبہ مَسَدّا
یَقْدُ ہاسًا قدّا
’’سعد کی ماں کو سعد کے چل بسنے کا افسوس ہے۔جو ایک قوت نافذہ اور تلوار کی دھار تھا جو مجسم سیادت وقیادت اور مجدو مشرف تھا۔جو ہر وقت تیار سوار تھا۔جس کے ذریعے سے دشمنوں کا راستہ بند تھا۔اور جو دشمنوں کے سر کاٹ کر رکھ دینے والا تھا۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اُم سعدؓ کانوحہ سن کر فرماتے ہیں:
’’ہر نوحہ کرنے والی عورت جھوٹ بولتی ہے۔ہاں سعدؓبن معاذ کی نوحہ کرنے والی والدہ اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔رسولؐاللہ کے آزاد کردہ ہیں۔فارس الاصل رامہر مزکے رہنے والے تھے دین کی طلب میں سفر کیا سب سے پہلے مذہب نصاریٰ اختیار کیا۔اس کے لیے مشکلات برداشت کیں۔پھر حضورؐ جب مدینہ آئے تو سلیمان حضورؐ کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت تک دس آقاؤں کے غلام رہ چکے تھے یہ اڑھائی سو سال تک زندہ رہے۔۳۵ہجری میں شہر مدائن میں انتقال ہوا۔

۲۔ ابن ہشام اور نعیم صدیقی نے لکھا ہے کہ اضطراب کی ان گھڑیوں میں طنز کرتے ہوئے معیت بن میشر نے کہا تھا کہ ایک طرف تو محمدؐہمیں قیصروکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دلواتے ہیں اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص مارے خوف کے اجابت کے لیے بھی نہیں نکل سکتا۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top