skip to Main Content

۱۲ ۔ جنگِ بدر کے واقعات

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کفّارِمکّہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکرآنحضورﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی مدینہ میں آباد ہو چکے تھے ۔مکّہ کے بر عکس مدینہ میں یہ لوگ بُہت خوش تھے اور اپنے مشن میں خوب کامیاب ہو رہے تھے ۔مکّہ کے کافروں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔وُہ حضورﷺ اور اُن کے مشن کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے پر تُلے بیٹھے تھے ۔اُنھوں نے ہجرت کے فوراًبعد مدینہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں ۔وہ مدینہ کے مکار یہودیوں اور منافقوں سے بھی ساز باز رکھے ہُوئے تھے ۔اُن کے چھوٹے چھوٹے دستے مدینہ کے نواحی علاقوں کی گشت کرتے اور لوٹ مار کر کے بھاگ جاتے ۔کئی بار وہ چراگاہوں سے مسلمانوں کے مویشی بھی ہانک کر لے جاتے تھے ۔
فوجی لشکر کشی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جنگی اخراجات ہوتے ہیں۔اس لیے قریش نے اِس کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی ۔اُنھوں نے ابو سفیان کی زیرِسر کردگی تجارت کے لیے ایک بُہت بڑا قافلہ شام روانہ کر دیا ۔اِس قافلہ کے لیے مکّہ کی تقریباًساری آبادی نے حسب توفیق سامانِ تجارت فراہم کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے اور اس ساری رقم کو مدینہ کے مسلمانو ں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے استعمال کیا جا سکے ۔
مسلمان اور کافر فوجیں
مسلمانوں کو کفّار کی سازشوں اور جنگی تیاریوں کی اطلاعات برابر ملتی رہتی تھیں ۔مدینہ کے دفاع کے بارے میں حضورﷺصحابہؓ کرام سے صلاح مشورہ کرتے رہتے تھے ۔جب یہ اطلاع موصول ہُوئی کہ کفّارِمکّہ ایک بڑا لشکر لے کر مدینہ روانہ ہو چکے ہیں تو فیصلہ ہُوا کہ (ا) ایک طرف تو شام سے لوٹنے والے کفّار کے قافلہ کو قابو کر لیا جائے اور (ب) دُوسری طرف مکّہ سے حملہ آور ہونے والے لشکرِکفّار سے شہر سے باہر نکل کر بدر کے مقام پر ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے ۔
چنانچہ آپﷺ نے مسلمانوں کی ایک مختصر سی فوج تیار کی اور یہ لوگ ۱۲رمضان ۲ہجری کو بدر کی جانب روانہ ہُوئے ۔فوج کی کل تعداد ۳۱۳تھی ۔مسلمانوں کے جوشِ جہاد کا یہ عالم تھا کہ بعض کم عمر بچے بھی فوج میں شامل ہونے کے لیے سخت اصرار کرتے تھے ۔مکّہ سے کفّار بڑی شان وشوکت اور سازو سامان کے ساتھ نکلے تھے ۔اُن کا ظاہری محرّک اپنے تجارتی قافلے کو بچانا تھا ۔اُن کی فوج ایک ہزار سے زائد تھی ،جس میں سو سواروں کا ایک رسالہ بھی شامل تھا ۔عُتبہ جو اُس وقت قریش کا سب سے معزّز سردار تھا اُن کی فوج کا سپہ سالار تھا۔اور اس میں ابو جہل اور باقی تمام بڑے بڑے سردار طمطراق سے شامل تھے ۔یہ لشکر رنگ رلیاں مناتا۔شراب اور عورتوں سے جی بہلاتا اور لغوموسیقی کی تھاپ پر اُچھلتا کُودتا چلا آ رہا تھا ۔
اُدھر شام سے لَوٹتے ہُوئے قافلہ کو جب پتہ چلا کہ مدینہ سے گزرنے والی تجارتی شاہراہ میں خطرہ ہے تو سردار قافلہ ابو سفیان نے فوراًاپنا راستہ بدل لیا اور ےُوں یہ لوگ لمبے مگر محفوظ ساحلی راستے کی طرف مُڑ گئے ۔اِس طرح قافلہ مسلمانوں کی زد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔کفّار کے لشکر کو بدر کے مقام پر پُہنچ کر جب معلوم ہُوا کہ اُن کا قافلہ راستہ بدل کر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے تو اُن کے کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ اب چونکہ مسلمانوں پر لشکر کشی کا کوئی جواز نہیں رہا اس لیے معاملہ ختم کر کے مکّہ لوٹا جائے ۔مگر ابو جہل اور اُس کے تند و تیز حمایتیوں کے اصرار پر بدلے ہُوئے حالات کے باوجود جنگ لڑنے کا فیصلہ بحال رکھا گیا ۔
کفّار کی شکستِ فاش
جنگِ بدر میں گو ساری منصُوبہ بندی تمام تر حضورﷺ ہی نے کی تاہم وہ اپنے ساتھیوں سے اہم اُمور پر صلاح مشورہ ضرور فرماتے رہے۔ حضورﷺ کی سرکردگی میں ساری تیاریاں مکمّل کر کے اُس رات مسلمانوں نے مطمئن ہو کر خوب اچھی طرح آرام کیا۔ مگر خود حضورﷺ رات بھر عبادت اور دُعا میں مصرُوف رہے ۔صُبح ہُوئی تو آپﷺ نے مسلمانوں کو نماز کے لیے جمع کیا۔نماز کے بعد آپﷺ نے جہاد پر وعظ بھی فرمایا۔اس فریضہ سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے ایک تیر اُٹھایا اور صف آرائی کے لیے زمین پر مختلف لکیریں ڈالیں ۔لڑائی میں شوروغل عام معمول ہوتا ہے ۔مگر آپﷺ نے سب کو ہدایت کر دی کہ اپنے اپنے فرائض اطمینان اور خاموشی سے ادا کریں ۔
آخر کار دونوں فوجیں میدانِ بدر میں آمنے سامنے صف آراء ہو گئیں ۔مسلمانوں کا چھوٹا سالشکر اللہ سے دُعائیں مانگتااور قوّتِ ایمانی سے سر شار نہایت منظّم انداز میں میدانِ جنگ میں ڈٹا ہُوا تھا ۔اِس کے برعکس کفّار کا عظیم لشکر اپنے سازوسامان اور تعداد پر بُہت نازاں اور انتہائی مغرور حالت میں صف آراء تھا۔
لڑائی کا آغاز ہُوا۔عرب دستور کے مطابق عام لڑائی شروع ہونے سے پہلے فریقین کے چیدہ چیدہ شہسوار آپس میں تیغ زنی کیا کرتے تھے اور عام جنگ کا باقاعدہ سلسلہ اس کے بعد شروع ہوتا تھا ۔خُدا کی قدرت ان ابتدائی جھڑپوں ہی میں کفّار کا سپہ سالار عتبہ ہلاک ہو گیا اور ایک آدھ اور مشہور سردار بھی ختم ہو گئے ۔ان ابتدائی کامیابیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔عام لڑائی شُروع ہُوئی ۔تعداد اور جنگی سامان کی بر تری سے متعلق کفّار کاگھمنڈ جلدہی ٹوٹنے لگا ۔تھوڑے ہی وقفہ کے بعد ابو جہل اور کئی دُوسرے نامور سردار ایک ایک کر کے تہہ تیغ ہُوئے ۔جس سے دُشمن کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ میدانِ جنگ سے مکّہ کی جانب رُخ پھیر کر بھاگ کھڑے ہُوئے ۔مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہُوئی ۔اُن کے صرف ۱۴ آدمی شہید ہُوئے اور کوئی مسلمان قیدی نہ بنایا جا سکا ۔اِس کے برعکس قریش کے ۷۰ آدمی قتل ہُوئے اور ۷۰ ہی کے قریب قیدی بنا لیے گئے ۔
مسرّتو ں میں غموں کی ملاوٹ
مسلمانوں کے فاتحِ لشکر کی میدانِ جنگ سے ایک دن پہلے حضرت زیدؓ اور حضرت عبداللہؓ فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ پہنچے ۔دونوں صحابی جُدا جُدا راستوں سے شہر میں داخل ہُوئے ۔حضرت زیدؓ آنحضورﷺ کے اُونٹ پر سوار تھے ۔اُن کا چہرہ مسرّت سے چمک رہا تھا۔وہ چلتے جا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی شاندار فتح اور کفّار کی شکست فاش کی آنکھوں دیکھی سر گزشت بیان کرتے جا رہے تھے ۔مدینہ کے مسلمان قدرتی طور پر ان باتوں سے بے حد مسرُور ہو ئے ۔مگر یہودیوں ،بُت پرستوں اور منافقوں کو بے حد تشویش لاحق ہو رہی تھی ۔یہودیوں کے ایک سردار نے جب معرکہ بدر میں کفّار کی پٹائی کا حال سُنا تو بڑے کرب ناک انداز میں چِلّا اُٹھا :’’عرب کے اصل فرمانروا ؤں اور حرم کے پاسبانوں کے مارے جانے کے بعد موت زندگی سے بہتر ہے ۔‘‘
مکار دشمنوں نے مسلمانوں کی خوشیوں کو غم میں تبدیل کرنے کے لیے ایک عیّار منصُوبہ بنایا۔ اُنھوں نے اچانک یہ افواہ اُڑا دی کہ دراصل حضورﷺ ہلاک ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی ہے ۔اپنی بے پر کی ہوائی کو وزن دینے کے لیے اُنھوں نے جو دلائل پیش کیے اُن میں ایک یہ بھی تھا کہ حضرت زیدؓ جس اُونٹ پر سوارہوکر لوٹے ہیں وہ حضورﷺکی ذاتی سواری ہے ۔اگر آپﷺ زندہ اور فاتح ہوتے تواپنے اُونٹ کوکسی اور کے حوالے کرنے کی بجائے اس پر خود سوار ہو کر فاتحانہ شان سے مدینہ میں داخل ہوتے ۔افواہ باز یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمانوں کی’ ’شکست‘‘اور حضورﷺکی ’’ہلاکت ‘‘ کے صدمہ سے زید اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں اور فرضی ’’فتح ‘‘کی بہکی بہکی باتیں کیے جا رہے ہیں ۔
اس جانکاہ افواہ سے مدینہ کے مسلمانوں کی اُمنگوں پر اوس پڑ گئی ۔وہ بہت رنجیدہ ہُوئے ۔ہر طرف اضطراب اور افسر کردگی کی تاریکی چھا گئی ۔مگر اتفاق سے تھوڑی دیر بعد ہی چاروں طرف سے مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبریں آنے لگیں اور حضورﷺ کے صحیح سلامت ہونے کی پُوری تصدیق ہو گئی ۔اس سے مسلمانوں کی مسرّتوں کی انتہا نہ رہی او ر وہ اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنے لگے ۔اس بے پر کی افواہ کی ناکامی پر یہودی اور اُن کے حلیف بے حد کھسیانے ہُوئے ۔
جنگِ بدر کی فتح کی مسرّتوں میں ایک حقیقی غم بھی شامل تھا۔آنحضورﷺجب بدر کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو آپﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ سخت علیل تھیں ۔آنحضورﷺکی مدینہ واپسی سے قبل ہی اُن کا اِنتقال ہو چکا تھا۔آپﷺ اور سب مسلمان اس افسوس ناک موت کے صدمہ سے بے حد غم زدہ تھے ۔
جنگی قیدیوں سے بہترین سلُوک
شکست خُوردہ کفّار تو جنگ کا پانسہ پلٹتے ہی مکّہ کی جانب دُم دبا کر بھاگنے لگے تھے مگر فاتح مسلمان شام تک میدان جنگِ موجود رہے ۔اُنھوں نے مقتولین کفّار کی ساری لاشیں ایک جگہ جمع کیں اور انُھیں ایک گڑھے میں دفن کر دیا۔حضورﷺ نے دُشمن کی لاشو ں کی بے حُرمتی سے بڑی سختی سے منع کر دیا تھا ۔آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اسلام سے پہلے دُنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں موجود تھیں وُہ سب مقتولین اور اسیرانِ جنگ کے ساتھ انتہائی شرمناک اور وحشیانہ سلوک کیا کرتی تھیں ،جنھیں سُن کر اِنسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘مگر جنگی قیدیوں سے مسلمان جس حسنِ سلوک سے پیش آئے اُس کی نظیر نہیں ملتی ۔آنحضورﷺنے دو دوچار چار کی تعدادمیں قیدی صحابہ کی تحویل میں دے دیے اور اُنھیں ہدایت کی کہ اُنھیں آرام اور احترام سے رکھا جائے ۔چنانچہ صحابہ خود تو رُوکھی سُوکھی کھا کرگزارہ کر لیتے مگر قیدیوں کو بُہت اچھی طرح کھلاتے تھے ۔
قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمر وبھی تھا۔وہ شعلہ بیان مقرر تھا۔جنگِ سے پہلے وہ مکّہ میں عام جلسوں میں آنحضورﷺکے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتاتھا ۔حضرت عمرؓ نے آپﷺ سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ!اس کے نیچے کے دو دانت اکھڑوا دیں تا کہ یہ پھر اچھی طرح بات نہ کر سکے ۔‘‘آپﷺ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہُوئے فرمایا :’’اگر میں اس کے اعضاء بگاڑ وں گا تو گو میں نبیﷺ ہُوں ،خُدا اس کی پاداش میں میرے اعضاء بھی بگاڑ دے گا ۔‘‘
بعد میں جنگی قیدیوں کا فدیہ چار ہزار درہم فی کس مقرّر ہُوا۔امیر قیدیوں سے زیادہ رقم وصول کی گئی لیکن جو قیدی مفلسی کی وجہ سے فدیہ ادا کرنے کے قابل نہ تھے اُنھیں بلا معاوضہ ہی رہا کر دیا گیا۔پڑھے لکھے قیدیوں کو حُکم ہُوا کہ اگر وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سِکھا دیں تو اُنھیں بھی رہا کر دیا جائے گا۔
جنگِ بدر میں کافی مالِ غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔حضورﷺ نے سارا مال ایک جگہ جمع کرنے کا حُکم دیا ۔پھر اس میں سے پانچواں حصّہ ریاست مدینہ کے فلاحی کاموں کے لیے نکال لیا گیا۔باقی مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔شہداء کا حصّہ اُن کے وارثوں کے حوالے کر دیا گیا ۔
ماتم کی ممانعت اور اِنتقام کی آگ
بدر میں ہزیمت کی غیر متوقّع خبر پہنچی تو گھر گھر صفِ ماتم بچھ گئی ۔لیکن غیرت کی وجہ سے کفّار نے اعلان کر دیا کہ کوئی شخص رونے دھونے یا نوحہ نہ کر نے پائے ۔جنگِ بدر میں ایک مکی سردار اَسود کے تین جوان سال بیٹے مارے گئے تھے ۔شدّت غم سے اُس کی بینائی بھی زائل ہو گئی ۔اس کا دِل رونے کو بُہت ترستا تھا مگر وہ مجبُور تھا۔ایک رات اُسے اپنے مکان کے باہر کسی کے رونے کی آواز سُنائی دی ۔اسود سمجھا شاید مقتولین بدر پر رونے دھونے اور نوحہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ۔اُس نے اپنے خادم سے کہا:’’جاؤ،دیکھو باہر کون رو رہاہے ؟کیا یہ قریش کے مقتولوں کا نوحہ ہے ؟میرے سینے میں بھی آگ لگی ہُوئی ہے ۔میں بھی جی کھول کے رولوں تو قدرے تسکین ہو جائے گی ۔‘‘
خادم نے واپس آکر بتایا کہ ایک عورت کا اُونٹ گُم ہو گیا ہے اور بیچاری پریشانی کے عالم میں واویلا کر رہی ہے ۔اس پر اسود کی زبان سے بے ساختہ چند شعر نکل گئے ۔ پہلے دو شعروں کا ترجمہ یوں ہے :
اُونٹ کھو جانے پہ کیوں چلاتی ہے تُو
اِتّے سے خُسارے پہ راتوں کی نیند گنواتی ہے تُو
اے خاتوں ! کھوئی اُونٹ پہ آنسُو نہ بہا
رونا ہے تو بدر پہ رو،جہاں نصیبہ ہمارا پھوٹ گیا
الغرض گریہ زاری سے گریز کرتے ہُوئے مکّہ کے تمام چھوٹے بڑے آتشِ انتقام میں جلتے رہے ۔اور حضورﷺاور مسلمانوں کا ملیامیٹ کرنے کی تیاریوں میں ہمہ تن مصرُوف رہے ۔
جنگِ بدر میں مسلمانوں کی فتح کو بُہت زیادہ تاریخی اہمیت حا صل ہے ۔اس غلبہ کے بعد پُورے علاقہ میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی ۔کفّار کے چوٹی کے سردار ہلاک ہو چکے تھے ۔اُن کا شیرازہ بکھر چکا تھا ۔مسلمانوں کا پر چم ہر جگہ لہرانے لگا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ میں ایک ایسی فلاحی سلطنت جڑیں پکڑتی گئی جسے اسلام کی تہذیب و تمدّن کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے ۔آیندہ سالوں میں اسلامی تمدّن کے اثرات جزیرۂ نما ئے عرب کی حدود پھلانگ کر دُور دراز علاقوں میں بھی پھیلتے گئے ۔اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب دُنیا کا گوشہ گوشہ اِس کے خوشگوار اثرات سے لُطف اندوز ہُوا ۔دراصل بعدکے تمام تعمیری اِرتقاء کی اصل بنیادیں مدینہ کی اُس عظیم فلاحی سلطنت ہی میں استوار ہُوئیں جسے جنگِ بدر کے بعد حیرت انگیز استحکام نصیب ہُوا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top