skip to Main Content

۱۲ ۔ بدر کی وادی میں

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔

لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُO رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃًO فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌO
’’اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے۔ وہ باز نہ آنے والے تھے۔ جب تک اُن کے پاس دلیلِ روشن نہ آجائے(یعنی) اللہ کی طرف سے ایک ایسا رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سُنائے، جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوں۔‘‘
(البیّنہ: ۱ ۔ ۳)

نئی سازشیں
’’تم نے ہمارے شخص کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ اب لازم ہے کہ تم اُس سے لڑو۔ یا وہاں سے نکال باہر کرو۔ ورنہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم تم سب پر یک بارگی حملہ کر دیں گے۔ تمھارے جوانوں کو قتل کریں گے اور تمھاری عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔‘‘
عبد۱؂اللہ بن ابی کو قریش مکہ کی جانب سے یہ پیغام موصول ہوتا ہے۔ تو اُس کے اندر دہکنے والی حسد، کینے اور منافقت کی آتش فزوں تر ہوجاتی ہے۔ اُس کی نظروں کے سامنے ایک مرتبہ پھر وہ منظر گھوم جاتاہے جب اہل مدینہ اُس کے سر پر سرداری کا تاج رکھنے والے تھے اور کوئی فرد ایسا نہ تھا جسے اس کی ذات پر اختلاف ہو۔ مگر محمد(ﷺ)نے جس روز سے مدینہ میں قدم رکھے، اُ س کی قوم کے لوگ بھی محمد(ﷺ) کی پیروی اختیار کرنے لگے اور یوں سرداری کے سارے خواب ادھورے رہ گئے۔ آغاز میں تو وہ یہ سمجھا کہ مکہ سے اُجڑ پُجڑ کر آنے والے مہاجرین بھی اس کی سرداری میں آ جائیں گے۔
مگر وہ تو اپنے علاوہ اہل مدینہ کے لیے بھی سر دارہمراہ لائے تھے۔مدینہ کے لوگ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے قریب ہوتے چلے گئے اور پھر وہ وقت بھی آپہنچا کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) سیاسی قوت کے مالک بن گئے۔پورے مدینہ کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر مہاجرین، یہودیوں اور انصار کے درمیان معاہدہ اَمن کے تحت متحد کر دیا۔
اِسی لیے تو اُسے کھل کر مخالفت کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔ اب جو قریشِ کا یہ پیغام موصول ہوتا ہے تو اُسے کچھ نہ کچھ کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔
خط لے کر یہودیوں کے پاس جاتا ہے اور اُنھیں اشتعال دلاتا ہے کہ:
’’دیکھو! ابھی سے کچھ کر لو ورنہ اہل قریش ہم پر یلغار کر دیں گے۔‘‘
عبداللہ بن اُبی کی یہ چال کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔ یہودی محمد(ﷺ) کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ اسلحہ جمع کیا جاتا ہے کہ اِدھر محمد(ﷺ) کو بھی اس بات کی خبر ہوجاتی ہے۔ خود یہودیوں کے پاس تشریف لاتے ہیں اور اُنھیں مخاطب کرکے کہتے ہیں:
’’اے اہل مدینہ! قریش نے تم سے ایسی چال کھیلی ہے کہ اگر تم اُن کی دھمکیوں میں آ گئے تو تمھارا بہت نقصان ہوگا۔ اس لیے تم ان کی بات سننے سے انکار کر دو۔ کیونکہ اگر تم مسلمانوں سے لڑو گے تو اپنے ہی ہاتھوں اپنے بھائیوں اور فرزندوں کو قتل کرو گے، لیکن اگر تمھیں قریش سے لڑنا پڑتا ہے تو یہ غیروں کا معاملہ ہے۔‘‘
محمد(ﷺ) کی اس دل نشیں تقریر کو سن کر سبھی منتشر ہوجاتے ہیں اور عبداللہ بن اُبی کا منصوبہ خاک میں مل جاتا ہے، لیکن وہ مطمئن ہوکر نہیں بیٹھتا۔ اور اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک نیاحربہ آزماتا ہے۔ محمد(ﷺ) پر عجیب و غریب سوالات کیے جانے لگتے ہیں۔ کٹ حجتیوں، اعتراضات، الزامات اور مذاق کے نہایت اوچھے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ دعوتِ حق کے بارے میں لوگوں کے اذہان کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو باہم لڑانے کی سازشیں۱؂ ہوتی ہیں۔ منافقین یہ چاہتے ہیں کہ محمد(ﷺ) نے جو صدائے رحیل لگا کر اہل مدینہ کو خواب غفلت سے جگا دیا۔ ایک مرتبہ پھر ذلت و گمراہی میں گر جائیں۔ تاکہ یہودیوں کی فوقیت و برتری تسلیم کرائی جا سکے۔
اِدھر مدینہ کے منافقین اور یہود اگر اس جدوجہد میں مصروف ہیں تو اُدھر مکہ میں اہل قریش بھی چین سے نہیں بیٹھے ہوئے۔ اُنھیں ہر لمحہ اس بات کا ملال ہے کہ محمد(ﷺ) اُن کے ہاتھوں سے بچ نکلے۔ چنانچہ طرح طرح کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن محمد(ﷺ) کا خدا تو بہت باخبر ہے۔ اور وہ سینوں میں پنہاں رازوں تک کو جانتا ہے۔ اس لیے اُس کے برگزیدہ نبی محمد(ﷺ) بھی یہودیوں اور منافقین کی سازشوں اور اہل قریش کے منصوبوں سے ہر لمحہ آگاہ رہتے ہیں۔
جو ہوا ، درست ہوا
محمد(ﷺ) عبداللہ بن حجش کے حوالے ایک تحریر کرتے ہوئے فرمانے لگے:
’’اس تحریر کو دو دن سفر کرنے کے بعد پڑھنا اور اس میں جو حکم دیا گیا ہے۔ اُس پر عمل پیرا ہونا۔ ہمراہیوں میں سے کسی کو مجبور نہ کرنا کہ وہ تمھارے ساتھ لازماً چلیں۔‘‘
حکم محمد(ﷺ) کی تعمیل میں عبداللہ بن حجش ایک مختصر۱؂ قافلے کے ہمراہ بتائی ہوئی سمت کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ دو دن مسلسل چلنے کے بعد اپنے محبوب قائد کا لکھا ہوا فرمان کھولتے ہیں۔ تو یہ تحریر ملتی ہے:
إِذَا نَظَرت فی کتابی ہٰذا خامض حتّٰی تَنَزل نَخْلَۃً بَیْنَ مَکَّۃ والطائفِ فترصَّدَ بِہَا قُرَیْشًا وَ تَغلَّم لَنَا مِنْ أَخْبَارِ ہِمْ
’’جو تم میری اس تحریر کو پڑھو تو یہاں تک آگے چلتے جاؤ کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ آ جائے۔وہاں رہ کر قریش کی کارروائیوں پر نظر رکھو اور ان کی خبروں سے مجھے مطلع کرو۔‘‘
عبداؓاللہ بن حجش یہ تحریر پڑھ کر پکار اٹھتے ہیں۔
’’بسروچشم۔‘‘
پھر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’مجھے اللہ کے رسولؐنے حکم دیا ہے کہ میں نخلہ جاؤں وہاں سے قریش کے حالات کی نگرانی کروں اور ان کی خبروں کی اطلاع آپؐ کو پہنچاتا رہوں۔تم میں سے کسی کو مجبور کرنے سے مجھے رسولؐاللہ نے منع فرمایا ہے۔جسے شہادت سے محبت ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو اسے نا پسند کرتا ہے وہ یہیں سے لوٹ جائے۔‘‘
یہ کہہ چکنے کے بعد عبدؓااللہ بن حجش سوئے منزل رخ موڑ کر چل پڑتے ہیں۔ ہمراہیوں میں سے کوئی فرد بھی ایسا نہیں جو شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے سے ہچکچا رہا ہو!سبھی جانب نخلہ بڑھے چلے جارہے ہیں۔قافلہ نخلہ پہنچتا ہے تو پڑاؤ ڈال دیا جاتا ہے۔
قریش مکہ مدت سے مسلمانوں کے وجود کو قرطاس ہستی سے مٹانے کی سعی میں مصروف ہیں۔ اہل مدینہ پر شب خون مارنے کا سلسلہ قریش کی جانب سے شروع کیا جاچکا ہے۔کچھ عرصہ قبل کرز۱؂بن جابر الفہری نے مدینہ کی چراگاہ پر لٹیروں کی طرح حملہ کیا اور مویشیوں کے علاوہ اونٹوں کی ایک بڑی تعداد ہنکا کر مکہ لے گیا۔اسی طرح مختلف مواقع پر اہل قریش کی یہ کوشش رہی کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے ساتھیوں کو بے خبری میں جالیں۔لیکن وہ ہر لمحہ اور ہر آن انھیں چو کس پاتے،قریش کی انہی کارروائیوں کا پتہ چلانے کے لیے عبدؓاللہ بن حجش نخلہ کی وادی میں پڑاؤڈالے ہوئے ہیں۔
اسی اثناء میں قریش کا ایک قافلہ بھی نخلہ کی وادی میں آداخل ہوتا ہے۔دونوں قافلوں میں تصادم ہوتا ہے تو عمرو بن الحضرمی نامی کافر عبدؓاللہ بن حجش کے ساتھی واقد بنؓعبداللہ کی کمان سے نکلے ہوئے تیر کا نشانہ بن کر واصل جہنم ہو جاتا ہے۔جب کہ عثمان بن عبداللہ اور الحکم ۱؂بن کیسان کو قیدی بنا لیا جاتا ہے۔لیکن نوفل بن عبداللہ وہاں سے بچ نکل کر مکہ کی جانب بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔جونہی یہ مکہ پہنچتا ہے کہرام مچ جاتا ہے۔کفار کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔چونکہ یہ وقوعہ ماہِ ۲؂حرام میں پیش آیا ہے۔اس لیے اہل قریش یہ کہتے پھرتے ہیں:
’’محمدؐاور اس کے ساتھیوں نے ماہ حرام کو بھی حلال کر دیا۔ماہ حرام میں خونریزی کی اور لوگوں کو قیدی بنا لیا۔‘‘
یہود بھی اس واقعہ کو خوب اُچھالتے ہیں۔اور عجب عجب تو ضیحات کرتے ہیں۔یہود اس واقعہ کو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف فال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔
’’چونکہ عمرو بن الحضرمی کو واقد بن عبداللہ نے قتل کیا ہے۔اس لیے عمرو سے واضح ہے کہ ’عمرت الحرب‘یعنی جنگ لمبی ہو گی،حضرمی سے واضع ہے کہ ’حضرت الحرب ‘یعنی جنگ سر پر آگئی اور واقد سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ’وقدت الحرب‘یعنی جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھا۔‘‘
ادھر جب عبدؓاللہ بن حجش اور ان کے ساتھی قافلے کے اونٹوں ،مال غنیمت اور قیدیوں کو لے کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ اس کارروائی پر اظہار نا پسند یدگی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
مَا أَمَرْتُکُمْ بقتالٍ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ
’’میں نے تمھیں ماہ حرام میں کسی جنگ کا تو حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
لیکن رب ذوالجلال اپنے برگزیدہ پیغمبر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو کہتے ہیں آپؐ کفار کے پروپیگنڈے کا جواب اس طرح دیجیے۔
یَسْءَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ، قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ و إِخرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ أَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ۔۔۔ وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ
’’لوگ آپ سے ماہ حرام (میں جنگ کرنے)کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ تو کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا گناہ ہے(لیکن)اللہ کی راہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔اور اللہ کے دین سے پھیرنے کے لیے ایذائیں دینا قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔‘‘
ان آیات کے نزول کے بعد عبداللہ بن حجش اور ان کے ساتھیوں کا خوف وہراس جاتا رہتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ ہم اس بات کی امید رکھیں کہ جو کچھ ہوا وہ جہاد تھا۔اور ہمیں اس کے متعلق مجاہدین کا سا ثواب ملے گا۔‘‘
اسی لمحہ رب کائنات کی رحمت جوش میں آجاتی ہے۔اور یہ آیات نازل ہوتی ہیں۔
إِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَ جَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَۃَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
’’بے شک!جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی وہ لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔اور اللہ بڑا مغفرت اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
رب کائنات کی رحمت کا یہ عالم دیکھ کر عبدؓاللہ بن حجش مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جواب میں یہ اشعار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں
تَعُدُّوْنَ قَتْلاً فِی الْحَرَامِ عَظِیْمَۃً
وَ أَعْظَمٌ مِنْہُ لَوْ یَرَی الرُّشْدَ رَاشِدُ
صُدُوْدُکُمْ عَمَّا یَقُوْلُ مُحَمَّدٌ
وَ کُفْرٌ بِہ وَاللّٰہ رَاءٍ وَ شَاہِدُ
وَ اِخْرَاجُکُمْ مِنْ مَسْجِدَ اللّٰہِ أَہْلَہُ
لِءَلاَّ یُرَی لِلّٰہِ فی الْبَیْتِ مَسَاجِدُ
فاءِ تَاوَ إِنَ عَیَّر تَمُونَا بِقَتْلِہِ
وَ أَدْجَفَ بِالْإسْلاَمِ بَاغٍ وَ حَاسِدُ
سَقِیْنَا مِنْ ابن الْحَضْرَمِیْ وَ مَا حَنَا
بِنَخْلَۃَ لَّمَا أَؤَ قَدَ الْحَرْبَ وَاقِدُ
وَماً وَ أُبنُ عَبْدُ اللّٰہِ عُثْمَان بَیْنَنَا
یُنَازِعُہُ غُلٌّ مِنَ الْقِدِّتِدُ
’’تم لوگ ماہ حرام کے قتل کو بڑا گناہ ثابت کر رہے ہو۔حالانکہ اگر سیدھی راہ دیکھے تو اس سے بڑے گناہ حسب ذیل ہیں۔محمدؐکی تعلیمات سے مخالفت اور آپؐ سے تم لوگوں کا انکار خدا یہ سب کچھ دیکھتا ہے اور اس کا گواہ ہے۔اور اللہ کی مسجد سے اس کے رہنے والوں کو تمھارا(اس لیے )نکالنا کہ اللہ کے گھر میں اللہ کو سجدہ کرنے والا کوئی نظر نہ آئے اگر تم ہم پر اس کے قتل کا عیب لگاؤ۔اور باغی وحاسد لوگ اگرچہ اسلام میں بے چینی پیدا کرنا چاہیں۔بے شک ابن الحضرمی کے خون سے اپنے تیروں کو مقام نخلہ میں ہم نے سیراب کیا۔تب واقد نے جنگ آگ بھڑکائی۔عثمان بن عبداللہ ہمارے پاس ہے خون آلود تسمے نے اسے جکڑ رکھا ہے۔
ایک خواب
’’خیرت تو ہے عاتکہ تم نے مجھے بلوا بھیجا۷؂؟‘‘
عباسؓ بن عبدالمطلب نے گھر کی دہلیز عبور کرتے ہی اپنی پریشان پریشان بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب سے دریافت کیا۔ تو وہ کہنے لگی!
’’بھائی جان!بخدا میں نے آج شب پریشان کر دینے والا خواب دیکھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی قوم پر اس سے کوئی بڑااور مصیبت کا وقت نہ آئے۔اس لیے میں جو کچھ آپ کو بتاؤں گی براہِ مہربانی اسے اپنے ہی تک رکھیے گا؟‘‘
عباسؓ:
’’ہاں ہاں بتلاؤ تو آخر تم نے کیا خواب دیکھا؟‘‘
عاتکہ:
’’بھیا!میں نے اونٹ پر سوار ایک شخص دیکھا۔وہ سوار وادی البطخ میں آکھڑا ہوا پھر چیخنے چلانے لگا۔ ’سنو اے بے وفاؤ اپنے جدا ہونے کی جگہ تین روز کے اندر اندر جنگ کے لیے چل پڑو۔لوگو ں کا ایک جم غفیر اس کے گرد جمع ہو گیا۔وہ اس ہجوم کے ہمراہ مسجد میں داخل ہو گیا۔اور اونٹ اسے لیے خانہ کعبہ کے اوپر نمودار ہوا وہ پھر پہلے کی طرح چیخ چیخ کر کہنے لگا۔’سنو اے غدارو!اپنے بچھڑنے والے مقام کی جانب تین دن کے اندر اندر جنگ کے لیے چل پڑو۔ پھر اونٹ اسے اُٹھائے اُٹھائے بو قبیس پر نمودار ہوا۔اس مرتبہ بھی وہ اسی طرح چلایا۔اس کے بعد ایک چٹان لے کر اس نے اوپر سے لڑھکا دی چٹان لڑھکتی لڑھکتی پہاڑ کے دامن میں پہنچی اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔مکہ کے گھروں میں کوئی گھر اور احاطہ ایسا نہ رہا۔کہ جہاں چٹان کا ٹکڑا نہ گیا ہو۔‘‘
عباسؓ:
’’واللہ!یہ تو ایک اہم خواب ہے۔ مگر دیکھ تو اسے چھپا اور کسی سے بیان نہ کر۔‘‘
یہ کہہ کر عباسؓ گھر سے باہر نکل پڑتے ہیں گلی میں ہی ولید بن ربیعہ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ عباسؓ سے رہا نہیں جاتا اور ولید کو ایک جانب لے جا کر سارا قصہ سنا دیتے ہیں پھر یہ بھی کہتے ہیں:
’’دیکھو ولید!یہ بات کسی اور سے نہ کرنا۔‘‘
لیکن یہ بات جو عاتکہ کے گھر سے اس ہدایت کے ساتھ چلی کہ کسی دوسرے کو خبر نہ ہو۔ صبح تک پورے مکہ میں یوں پھیل جاتی ہے’’جیسے جنگل میں آگ‘‘شب کی ردائے سیاہ پر جب صبح کا اجالا غالب آنے لگتا ہے۔تو عباسؓ کعبہ کی جانب چل پڑتے ہیں۔طواف کعبہ سے فارغ ہو کر قریب ہی مجلس جمائے ابو جہل کے پاس جا بیٹھتے ہیں۔ابو جہل عباسؓ کو دیکھتے ہی کہنے لگتا ہے:
’’اے ابو الفضل!تم میں یہ نئی نبیہ کب سے پیدا ہوئی؟‘‘
عباسؓ کیا مطلب؟‘‘
ابو جہل:
’’اجی وہی خواب جو عاتکہ نے دیکھا۔‘‘
عباسؓ:
’’آخر اس نے کیا دیکھا؟‘‘
ابو جہل: ’’ابو الفضل سنو!کیا تمھارے لیے اتنی بات کافی نہ تھی کہ تمھارے ایک مرد نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔اب تو تمھاری عورتیں بھی نبوت کا دعویٰ کرنے لگی ہیں۔عاتکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے تین روز کے اندر اندر جنگ کے لیے نکل پڑنے کو کہا گیا ہے۔ہم بھی تین روز انتظار کرتے ہیں جو وہ کہہ رہی ہے۔اگر سچی بات نکلی تو تین روز میں کچھ ہو جائے گا اور اگر سچ نہ نکلا تو تمھارے متعلق ایک نوشتہ لکھ چھوڑیں گے کہ تم لوگ حرم میں سب سے جھوٹے خاندان کے ہو۔‘‘
عباسؓ: ’’لیکن عاتکہ نے تو کوئی خواب نہیں دیکھا۔‘‘
یہ کہہ کر عباسؓ حرم سے باہر نکل آتے ہیں۔لیکن شام کا دھند لکا پھیلنے تک بنی عبدالمطلب کی ایک ایک عورت عباسؓ کو طعنے دیتی ہے۔وہ آ آ کر کہتی ہیں:
’’کیا تم نے گوارا کر لیا کہ وہ بد کار خبیث تمھارے مردوں پر نکتہ چینی کرتے کرتے عورتوں تک پہنچ جائے؟تم سنتے رہے اور جو کچھ تم نے سنا اس پر تمھیں کچھ غیرت نہ آئی؟‘‘
عباسؓ جواب دیتے ہیں:
’’واللہ!میں نے اسے کوئی تفصیلی جواب نہیں دیا۔خدا کی قسم اگر اس نے دوبارہ بات کی تو ضرور میں تمھاری طرف سے اس کا پورا تدارک کروں گا۔‘‘
اور اب تیسرا روز بھی آ پہنچا ہے۔عباسؓ اضطراب کے عالم میں پیچ وتاب کھا رہے ہیں۔ انھیں دکھ اور پشیمانی ہے۔کہ انھوں نے مناسب موقع کھو دیا اور نا حق عورتوں کے طعنے سننے پڑے۔ دل ہی دل میں فیصلہ کرتے ہیں کہ مسجد چلتا ہوں اگر ابو جہل مل گیا اور اس نے کچھ بات کی تو ساری کسریں نکال دوں گا۔‘‘پھر مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن دبلا پتلا تیز مزاج اور تیز نظر ابو جہل معاملہ بھانپ کر فوراً دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔دفعتاً اسی لمحے ایک ایسی صدا بلند ہوتی ہے۔کہ پورا مکہ تڑپ اُٹھتا ہے۔سبھی بھاگم بھاگ صدا لگانے والے کے پاس پہنچتے ہیں۔ عباسؓ اور ابو جہل بھی آنکھ مچولی چھوڑ کر صدا لگانے والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔عجب منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔ایک سوار ہے کہ جس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔اونٹ کے کان کٹے ہوئے اور ناک چیری ہوئی ہے۔جن سے خون کے فوارے بہے جا رہے ہیں۔اونٹ پر کجا وا الٹا پڑا ہے۔ اور ۸؂وہ روایتی نذیر عریاں بن کر دہائی دے رہا ہے:
’’اے قریش کے لوگو!تمھارے سامان والے اونٹ تمھارے سامان والے اونٹ محمدؐ اور اس کے ساتھی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔اپنے اس مال کو بچاؤ جو ابوسفیان کے ساتھ ہے۔امید نہیں کہ وہ تمھیں مل جائے گا۔فریاد فریاد۔‘‘
اس مروجہ ڈرامائی انداز نے مکہ میں سخت ہیجان پیدا کر دیا ہے۔مکہ کے باسی غصے کے عالم میں اپنے جسموں کو نوچ رہے ہیں۔کچھ ہی عرصہ قبل جب مدینہ پر حملہ کی تجویز آئی تھی تو یہ طے پایا تھا کہ ابھی سے تیاری شروع کر دی جائے۔اسی لیے مکہ کا کوئی فرد ایسا نہ رہا جس نے کچھ نہ کچھ مال دے کر اس قافلے کے ساتھ نہ بھیجا ہو!حتیٰ کہ غیر تاجر عورتوں نے اپنے زیورات اور اندوختے تک لا لا کر دیے تھے۔مدعا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے اور پھر بھر پور تیاری کر کے مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔مگر یونہی یہ خبر پہنچتی ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی اس تجارتی قافلے کی گھات میں ہیں تو انھیں شک گزرتا ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو شاید ان کی تیاریوں کا علم ہو چکا ہے۔اور یہ اندیشہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں اس قافلے کا حال الحضرمی کے قافلے کا سانہ ہو!یہی وجہ ہے کہ جب غصے جوش اور غضب کے عالم میں گھروں میں پہنچ کر واپس پلٹتے ہیں تو جسموں پر ہتھیار سجے ہوتے ہیں۔اور زبانیں پکار رہی ہوتی ہیں:
’’کیا محمدؐ اور اس کے ساتھیوں نے اس قافلے کو بھی الحضرمی کے قافلے کی طرح سمجھ رکھا ہے۔بخدا! یہ بات ان پر جلد واضح ہو جائے گی۔کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
کوچ
’’یا رسولؐاللہ آپؐ کو جو مناسب معلوم ہو بتلا یئے اور وہی کیجیے۹؂۔‘‘
ابوبکرؓاور عمرؓ کی پر جوش تقاریر کے بعد مقداؓد بن عمرو نے اُٹھتے ہوئے کہا۔وہ مزید کہہ رہے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور ہم آپ ؐکے ساتھ وہ بات نہ کریں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہی تھی کہ
فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلاَ اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُوْنَ
’’آپؐ اپنے پروردگار کے ساتھ جائیں اور دونوں مل کر جنگ کریں۔ہم تو بلاشبہ یہیں بیٹھنے والے ہیں۔‘‘
بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپؐ اور آپؐ کا پروردگار دونوں چلیں لڑیں۔ہم بھی ساتھ دیں گے قسم ہے اس ذات اقدس کی کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر آپؐ برک الغما۱۰؂د تک بھی چلیں گے تو ہم ہمراہ چلیں گے۔‘‘
مقدادؓ کی ولولہ انگیز تقریر اور جذبات کی محمدؐبے حد قدر افزائی کرتے ہیں۔پھر مہاجرین سے انصار کی جانب رخ انور پھیر کر فرماتے ہیں:
أَشِیْرُوْ عَلَّی أبُّہَا النَّاسُ
اے لوگو!مجھے مشورہ ۱۱؂دو۔
اب جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک مرتبہ پھر مشورہ طلب فرماتے ہیں تو انصار سمجھ جاتے ہیں کہ روئے سخن ان کی جانب ہے۔سعدؓبن معاذ اُٹھ کر عرض کرتے ہیں:
’’شاید حضورؐ کا ارشاد ہماری طرف ہے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے مثبت میں جواب پا کر سعدؓکہتے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ! ہم آپؐ پر ایمان لائے۔آپؐ کی تصدیق کی اور شہادت دی کہ آپؐ نے جو کچھ فرمایا وہ حق ہے۔ہم آپؐ سے عہد کر چکے ہیں کہ آپؐ کی فرمانبرداری اور اطاعت کریں گے اس لیے،اے اللہ کے رسولؐآپ جہاں بھی چلیں گے ہم آپؐ کے ہمراہ ہوں گے۔اس رب کی قسم جس نے آپؐ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے۔اگر آپؐ کے ساتھ ہمارے سامنے سمندر بھی آجائیں تو ان پر بھی کود پڑیں گے۔اور ہم میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو پیچھے ہٹے ہمیں اس سے ڈر نہیں کہ ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو گا ہم اس جنگ کے لیے بھی مضبوط اور مکمل ارادے کے ساتھ تیار ہیں۔اور وہ کارنامے دکھائیں گے جن سے حضورؐ کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو گی۔‘‘
محمدؐ(صلی ا للہ علیہ وسلم) جب اپنے جانثاروں کے یہ جذبات دیکھتے ہیں تو چہرہ اقدس پر اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے۔فرط نشاط سے فرمانے لگتے ہیں:
سِیْرُوْا وَ أَبْشِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ قَد وعَدَنِیْ إِحْدَی الطَاءِفتَیْنَ وَاللّٰہِ لَکَانِی اَلْاَنَ اُنْظُرْ إِلَی مصَارِعِ الْقَومِ
’’چلو اور خوش ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ دو گرہوں میں سے ایک کا وعد۱۲؂ہ فرمایا ہے۔واللہ بے شبہہ میں ان کے بچھڑ نے کے مقامات دیکھ رہا ہوں۔‘‘
مٹھی بھر مجاہدین کا یہ قافلہ نئے عزم، ولولے اور ایک شان سے آگے بڑ ھتا بڑھتا مقام بدر کے قریب جا پڑاؤ ڈالتا ہے۔اس بے شجر وادی میں جنوبی پہاڑ کے عقب میں اہل قریش کا ایک بہت بڑا لشکر بھی پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ مکہ کے جگر ۱۳؂پارے بمثل ابو جہل،عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ،امیہ بن خلف،طعیمہ بن عدی،ابوالبختری،عاص بن ہشام۔نوفل بن خویلد،حارث بن عامر بن نوفل،نضر بن حارث،حکیم بن حزام اور سہیل بن عمرو العاص لشکر میں موجود ہیں۔مکہ کے ان سرتاج سرداروں کے علاوہ نامور پہلوان اور کارآزمودہ بہادر بھی موجود ہیں۔۳۰۰تین گھوڑوں اور سات۷۰۰سو اونٹوں پر سوار ہو کر یہ عسا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔زرہ بکتر زیب تن کیے اور سر پر خود رکھے فوج کا ہر فرد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لوہے میں ڈوبا ہوا ہے۔چمکتی تلواریں میانوں میں بندکمر سے لٹکی ہیں۔نیزے،تیر کمان ڈھالیں الغرض ہر قسم کے عمدہ ہتھیار ان کے پاس موجود ہیں۔فوجیوں کا دل لبھانے کے لیے بہترین ناچنے والیاں اور خوش گلو لونڈیاں بھی ہمراہ ہیں اور بکثرت شراب بھی۔ اگر چہ اس فوجی قافلے کو یہ خبر ہو چکی ہے کہ ابو سفیان اپنے سامان کے ساتھ مکہ پہنچ چکا ہے اور یہ پیغام بھی موصول ہو چکا ہے کہ’’ہم بخیرو عافیت پہنچ گئے ہیں اب جنگ ضروری نہیں‘‘مگر ابو جہل کا موقف یہ ہے کہ جب تک بدر تک نہ پہنچ جائیں واپس نہیں پلٹیں گے بدر میں تین راتیں بسر کی جائیں گی۔اونٹ ذبح کیے جائیں گے اور کھائے جائیں گے۔شراب کے دور چلیں گے، لونڈیاں ناچیں گی تب واپس پلٹیں گے۔اس طرح بدر میں اکٹھا ہونے سے شہرت پھیلے گی اور قریش کا رعب چھا جائے گا۔
اللہ کی مدد کا مژدہ
صدیوں سے آفتاب مشرق سے طلوع ہو کر قرطاس عالم کا مطالعہ کرتے ہوئے مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ماہتاب اور کرۂ ارض ایک دوسرے کے گرد عرصہ دراز سے یونہی گھومے جارہے ہیں۔مدتوں سے تارے رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں جھلملا جھلملا کر ارض عالم کے حادثات کو پڑھ رہے ہیں۔حضرت آدم ؑ کے اس لگائے ہوئے چمن میں کتنی ہی خزاؤں نے جنم لیا اور نہ جانے کتنی بہاروں نے اپنے رنگ جمائے۔طرح طرح کے انقلاب آئے اور تہذیب وتمدن کے کئی چولے بدلے۔لیکن آج کا چمکتا دمکتا آگ بر ساتا سورج عجب منظر دیکھ رہا ہے۔پہاڑوں کے پتھر حیران اور زمین کے تپتے ذرے ششدر ہیں۔ہوائیں حیرت سے رک سی گئی ہیں۔چشم فلک بھی واہے۔اور نظارہ کر رہی ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے تین سو تیرہ ۳۱۳مجاہدوں کو شمال میں واقع ’’عدوۃ الدنیا‘‘نامی پہاڑ کی جانب سے وادی بدر میں داخل کر رہے ہیں۔کھلی فضا میں جلتی ہوئی ریتلی زمین پر پانی کے ایک کنویں کے پاس ٹھہر جاتے ہیں۔پھر اپنے ایک جانثار صحابی کے مشورے پر کچھ اور آگے بڑھ کر ان تمام گڑھوں پر قبضہ کر لیتے ہیں جو اغلباً بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔تاکہ دشمنان خدا ان پانی کے گڑھوں سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
مجاہدین اسلام پہاڑوں کے سے عزم،جوش ایمانی اور تشنگی شہادت کے ہتھیار سنبھالے ہوئے ہیں۔اس مختصر قافلے کی بے سروسامانی بھی دیدنی ہے۔ پورے لشکر میں صرف آٹھ تلواریں، چھ یا سات بکتر،جنگلی لکڑی کے ترشے ہوئے تیر۔ یہ ہے کل سامان حرب کہ جو مٹھی بھر مجاہدین لے کر قریش کے لشکر جرار سے ٹکرانے نکلے ہیں اور اس عالم میں یہاں تک پہنچے ہیں کہ سواری کے لیے صرف د۱۴؂و گھوڑے اور ستر اونٹ ہیں۔یہاں تک پہنچتے پہنچتے جسم تھکن سے چور اور پاؤں میں چھالے پڑ چکے ہیں۔جانثار کھجور کی شاخوں اور پتوں سے ایک چھوٹی سی جھونپڑی تیار کرتے ہیں اور آکر اس خستہ حال لشکر کے سالار اعظم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے عرض کرتے ہیں۔
’’اے اللہ کے رسولؐاس جھونپڑی میں تشریف رکھیے۔‘‘
ادھر ابو جہل کو جب یہ خبر پہنچتی ہے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ہمراہیوں کے ساتھ میدان بدر میں پڑاؤ ڈال چکے ہیں۔تو وہ بھی اپنی فوج کو شام کا دھندلکا پھیلنے سے قبل ہی جنوب میں واقع ’’عدوۃ القصٰوی‘‘نامی پہاڑ کی جانب سے گزار کر بڑے طنطنے اور کروفر کے ساتھ میدان بدر میں داخل کر دیتا ہے۔قریش مکہ کی فوج مجاہدین کے قافلے سے تقریباً۲دو میل کے فاصلے پر اپنے خیمے نصب کر کے پڑاؤ ڈال دیتی ہے۔آہ!چشم فلک کو کتنا کرب انگیز منظر دیکھنا پڑ رہا ہے۔ دشمنان خدا آرام دہ خیموں کے اندر سائے میں ہیں لیکن مجاہدین اسلام سقف آسمان کے نیچے اور مسلمانو ں کے سالار اعظمؐ کو ٹہنیوں اور پتوں کی جھونپٹری میں رہنا پڑ رہا ہے۔
آکاش کہ جہاں سے دن بھر سورج زمین پر شعلے برساتا رہا اب گھنگور گھٹاؤں کی آما جگاہ بن چکا ہے۔رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلا لیے ہیں۔چندا کی دلفریب روشنی اور جھلمل جھلمل کرتے ستارے بادلوں میں کہیں کھو گئے ہیں۔مجاہدین اسلام دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے آرام وسکون کی نیند سو رہے ہیں۔لیکن کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی جھونپٹری میں مجاہدین کے سالار اعظم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)خدا وند کریم سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔دفعتاًبادل گرجتے ہیں۔بو ندا باندی رفتہ رفتہ بارش کاروپ دھار لیتی ہے۔اور پل بھر میں مجاہدین کے قبضے میں موجود گڑھے پانی سے جل تھل ہو جاتے ہیں۔ بارش برستے برستے رک جاتی ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) دربار خدا سے مسلسل رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ہاتھ بلند ہیں اور دعا فرما رہے ہیں:
اَللّٰہُمَّ ہٰذَا قُرَیْشٌ قَدْ أَقَبَلْتُ بِخَیْلاَئیہَا وَ فَخْرِہَا تُحَاوُّک وَ تُکَذِّبُ رَسُوْلَکَ، اَللّٰہُمَّ فَنَصْرَکَ الَّذِیْ وَ عَدْتَنِیْ اَللّٰہُمَّ اُحِنُہُمْ اَلْغَذَاۃَ۔
’’الٰہی!یہ قریش اپنے غرور کے ساتھ آئے ہیں۔تیری مخالفت کرتے ہوئے اور تیرے رسول کو جھٹلاتے ہوئے۔الٰہی اس مدد کا طالب ہوں جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔الٰہی آج ہی صبح ان کو ہلاک کر دے۔‘‘
پھر دعا کرتے کرتے وہ وقت بھی قریب آجاتا ہے۔دور افق کے مشرقی جانب سے رات کی سیاہی اپنا دامن کھسکا نا اور آسمان کی نیلا ہٹ اپنا اثر جمانا شروع کر دیتی ہے۔لشکر اسلام اپنی صفیں سیدھی کر چکا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی امامت میں نماز ادا کی جاتی ہے۔نماز سے فارغ ہو کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) مجاہدین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب تک کفار کی جانب سے پیش قدمی نہ ہو ہر گز حملہ نہ کرنا اگر کفار تمھاری جانب بڑھنے لگیں تو ان کو روکنے کے لیے تیر برساؤ اگر وہ نہ رکیں اور آگے بڑھتے رہیں۔تو جم کر لڑو۔خبر دار کوئی گھبرائے نہیں اور نہ ہی کوئی منہ پھیر۱۵؂ے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔اے ایمان والو!جب تمھارا معاملہ کافروں سے ہو تو تم ان کی طرف پیٹھ نہ پھیرو۔الاَّ اس حالت کے کہ ایسا پیٹھ پھیرنے میں کوئی لڑائی کا ہنر ہو۔یا پیچھے رہ جانے والی جماعت اپنی جماعت سے ملنا چاہتی ہو۔پیٹھ پھیرنا اللہ کے غضب کی طرف پلٹنا ہے۔اور ایسے پلٹنے کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔جو بہت ہی بری جگہ ۱۶؂ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے۔اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہواور اللہ کو بہت یاد کرو۔تاکہ تم مراد کو پہنچو۱۷؂۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں لڑتے وقت یوں صف باندھتے ہیں۔جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار۱۸؂ ہو۱۹؂۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) خطبہ سے فارغ ہوتے ہیں تو ہاتھ میں ایک تیر اٹھا لیتے ہیں۔اور مجاہدین کی صفیں درست کرنا شروع کر دیتے ہیں۔صفیں درست ہو جاتی ہیں تو وہ اپنی جھونپڑی کی جانب چل پڑتے ہیں۔اور رب العالمین کے آگے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ اِنْ تَہْلِکَ ہٰذَہِ الْعِصَابَۃَ الْیَوْمَ لاَ تَعْبُدُ
’’خداوند ا!اگریہ چند جانیں آج ختم ہو گئیں تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
اسی لمحے ابو بکرؓ بھی پہنچ جاتے ہیں۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو یوں رب العالمین کے حضورگڑ گڑ اکر دعا مانگتے دیکھتے ہیں۔تو آگے بڑھ کر عرض کرتے ہیں۔
’’بس کیجیے اے اللہ کے رسولؐ اللہ نے جو آپؐ سے وعدہ کیا ہے۔وہ ضرور پورا ہوگا۔‘‘
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا عرش پر جا کر رحمت خدا وندی کو جوش دلا دیتی ہے اسی لمحے جبرائیل آ حاضر ہوتا ہے ایک جنبش کے بعد محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رفیق با وفا ابو بکرؓ کو خو شخبری سناتے ہیں:
أَلْبَشرْیَا أَبَابَکرٍ أَتَاکَ نَصْرُ اللّٰہِ، ہٰذَا جِبْرِیْلُ آخِذًا بعنانِ فَرَس یَقُوْدُہُ عَلَی ثَنَایَاہُ النَّقْعُ یعنی الغبار
’’اے ابو بکرؓ خوش ہو جاؤ کہ تمھارے پاس اللہ کی امداد آگئی۔یہ جبرائیل ہے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے اسے کھینچ رہا ہے۔اور اس کے سامنے کے دانتوں پر غبار ہے۔‘‘
کامرانیاں قدم چھوتی ہیں
قریش مکہ کی فوج بڑھتے بڑھتے قریب آجاتی ہے۔تو قریش کا معروف سردار عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے ہمراہ اپنی فوج کی صف سے الگ ہو کر آگے بڑھتا ہے اور بڑے زعم سے مبارزت طلب کرتا ہے۔مجاہدین کے قافلے سے تین جو انمرد انصار عو۲۰؂فؓ بن حارث،معاذ بن حارث اور عبد۲۱؂اللہؓ بن رواحہ آگے بڑھتے ہیں۔تو عتبہ بن ربیعہ پوچھتا ہے:
’’تم کون ہو؟‘‘
انصار اپنا نام بتلاتے ہیں تو عتبہ بن ربیعہ اور اس کے ساتھی کہنے لگتے ہیں۔
’’ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
اور وہیں سے عتبہ بن ربیعہ پکارتا ہے۔
’’اے محمدؐ!ہماری قوم میں سے ایسے لوگ بھیج جو ہمارے ہمسر ہوں۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) عبیدہؓ بن حارث،حمزہؓ بن عبدالمطلب اور علیؓ بن ابو طالب کو اشارہ کرتے ہیں۔یہ تینوں مجاہدین اسلام میدان میں قدم رکھتے ہیں۔تو تلواریں تڑپ کر بلند ہوتی ہیں۔اور با ہم ٹکرا جاتی ہیں تلواروں کی جھنکار آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے چقا چق کا روپ دھار لیتی ہے۔حمزہؓ کا شیبہ سے علیؓ کا ولید سے اور عبیدہؓ کا عتبہ سے تیغ زنی کا مقا بلہ ہو رہا ہے۔بڑھ بڑھ کر حملے ہو رہے ہیں پنتیرے بدل بدل کر وار روکے جارہے ہیں۔نیزے سوا نیزے پر موجود سورج کی کرنیں مچلتی تڑپتی بلند ہوتی تلواروں پر پڑتی ہیں تو آنکھیں تلواروں کی چمک سے چندھیا جاتی ہیں۔حمزہؓ برق کی سی تیز رفتاری سے شیبہ پر ایسا کاری وار کرتے ہیں کہ وہ خاک وخون میں غلطان ہو جاتا ہے۔یہ منظر دیکھ کر لشکر اسلامی تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھتا ہے۔ابھی نعروں کی گونج ختم نہیں ہو پاتی کہ علیؓ بھی اپنے مد مقابل ولید کو جہنم واصل کو دیتے ہیں لیکن عبیدہؓ اور عتبہ کے درمیان زبر دست معرکہ جاری ہے۔دونوں شمشیر زنی کے ماہر معلوم ہوتے ہیں۔پلٹ کر وار کیے اور روکے جارہے ہیں۔لڑتے لڑتے دونوں ایک دوسرے کو بٹھا دیتے ہیں۔اور تھکاوٹ سے یہ حالت ہو چکی ہے۔کہ دونوں تقریباًنا قابل حرکت ہو چکے ہیں۔عتبہ اسی لمحے مکاری سے عبیدہؓ کے پاؤں پر ایک کاری وار کرتا ہے۔جس سے عبیدہؓ کے پاؤں کی رگ کٹ جاتی ہے۔اتنے میں علیؓ اور حمزہؓ بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر آگے بڑھتے ہیں۔تلواریں چمکتی ہیں۔اور عتبہ موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔تین ممتاز اور معزز سرداروں کے یوں مارے جانے پر کفار کی فوج میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔اسلامی لشکر کے فرحت وتشکر کے فلک شگاف نعروں سے بدر کی وادی گونج اُٹھتی ہے۔لشکر کفار غیض وغضب کے عالم میں آگے بڑھتا ہے۔پیش قدمی کے ساتھ ساتھ تیروں کی بارش بھی شروع کر دیتا ہے۔ایک سنسنا تا ہوا تیر ا سلامی لشکر کے مجاہد مہجعؓ بن۲۲؂ صالح کو جا لگتا ہے۔یہی اسلامی فوج کے پہلے شہید ہیں۔جو محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے’’سید الشہداء‘‘کا لقب پاتے ہیں۔اور تیر آ کر حارثہؓ بن۲۳؂ سراقہ کو شہید کر دیتا ہے۔دونوں فوجوں کے درمیان دست بدست لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ قریشی فوج کا ابو کراش جو سرتاپا لوہے کے لباس میں چھپا ہوا ہے۔ اور صرف دو آنکھیں ہیں جو نظر آرہی ہیں۔اپنے زعم طاقت وشجاعت میں آگے بڑھ کر زبیرؓکو للکارتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پے در پے حملے شروع کر دیتا ہے۔زبیرؓکی تلوار پہلے ہی کفار کی تلواروں سے ٹکراٹکرا کر کند ہو چکی ہے۔اب پینترے بدل بدل کر بو کراش کے واروں سے اپنے آپ کو بچا رہے ہیں۔زبیرؓ ہاتھ میں نیزہ تھام لیتے ہیں۔اور پھرتی سے دیو ہیکل بو کراش کی آنکھوں میں ایسا جھونکتے ہیں کہ کھوپڑی تک چکنا چور ہو جاتی ہے۔زبیرؓ نیزہ کھینچ کر نکالنا چاہتے ہیں۔لیکن نکل نہیں پا رہا۔بوکراش کی لاش پر چڑھ جاتے ہیں۔اور دونوں ہاتھوں سے پورا زور لگا دیتے ہیں۔تب جا کر کہیں نیزہ نکلتا ہے۔عمیرؓبن الحمام کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں۔جنھیں وہ کھا رہے تھے۔دفعتاً ان کے ذہن میں خیال آیاکہ
’’میرے اور جنت کے درمیان فاصلہ صرف شہادت کا ہے۔‘‘
کھجوریں پھینک کر آتش جنگ میں کود پڑے تھے۔اب وہ بھی بے پناہ جوش جذبے سے اپنی تلوار کے جوہر دکھا رہے ہیں۔کئی کفار ان کی تلوار کی کاٹ سے گھائل ہو چکے ہیں۔عمیرؓبن الحمام یونہی لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کر جاتے ہیں۔
ادھر عوفؓ بن الحارث محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے پوچھ رہے ہیں:
’’اے میرے آقا!یہ تو بتلائیے کہ اللہ کو اپنے بندے کی کون سی ادا زیادہ پسند ہے۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)فرماتے ہیں:
’’جب وہ بے زرہ ہو کر اپنا ہاتھ دشمن کے لہو میں ڈبو دے۔‘‘
عوفؓبن الحارث یہ سنتے ہیں تو اپنی زرہ اتار پھینکتے ہیں۔اور تلوار ہاتھ میں لے کر دشمنان خدا پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔یونہی لڑتے لڑتے شہید ہو جاتے ہیں۔دشمنان اسلام عبداللہ بن عمیر اپنے حقیقی بھائی مصعبؓ بن عمیر کو اسلامی فوج کا پرچم اٹھائے دیکھتا ہے۔تو ظالم آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کو خون میں نہلا دے مگر مصعبؓپھرتی سے پانسہ پلٹتے ہیں۔اور عبداللہ کو مقصد میں کامیاب ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
میدان جنگ عجب منظر پیش کر رہا ہے۔انسانی جسم گا جر مولی کی طرح کٹے جارہے ہیں۔کندھے سروں کے بوجھ سے آزاد ہو کر گھوڑوں کے سموں تلے روندے جارہے ہیں۔خون کے فوارے پھوٹ کر بدر کی وادی کو لا لہ زار کر رہے ہیں۔گھوڑوں کی ہنہنا ہٹ،تیغ وتبر کی چقا چق،برچھیوں اور نیزوں کی جھنجھنا ہٹ،تیروں کی فشا فش،گھوڑوں کی ٹاپوں کی ٹپا ٹپ،ہوا کی سنساہٹ،مجاہدین اسلام کی جانب سے ’’احد۲۴؂احد‘‘کے فلک شگاف نعروں کے علاوہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی کرب انگیز چیخوں سے پتھروں کے دل بھی دہل رہے ہیں۔
اسلامی فوج کے سالار اعظم محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے فرما رہے ہیں:
’’اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے۔آج جو شخص ان لوگوں سے قتال کرے گا۔اور صبر سے ثواب سمجھ کر قتل ہو جائے گا۔آگے بڑھتا ہوا ہو گا۔ پیٹھ پھیرنے والا نہ ہو گا۔تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہاتھ میں کنکریاں اٹھا لیتے ہیں اور کفار کی جانب پھینکتے ہوئے فرماتے ہیں:
شاہت الوجوہ
’’(ان کے )چہرے بگڑ جائیں۔‘‘
ادھر خدا وند کریم کی غیبی امداد بھی آپہنچتی ہے۔جانثار ان اسلام ایک نئے ولولے، جوش اور جذبے سے مزید شدت سے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔اور دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیتے ہیں۔
عکا۲۵؂شہؓ بن محض کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ جاتی ہے،وہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔تو وہ عکاشہؓ کو ایک لکڑی عنایت فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
قَاتِلْ بِہٰذَا یَا عَکَاشَۃُ
’’اے عکاشہؓ تم اسی سے جنگ کرو۔‘‘
عکاشہؓ وہ لکڑی لے کر آگے برھتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ لکڑی نے تلوار کا روپ دھار لیا ہے۔وہ اس تلوار سے ہی دشمنان اسلام پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ابو جہل اپنے بے شمار حواریوں کے درمیان اس طرح گھرا ہوا ہے جیسے درختوں کے درمیان کوئی درخت لپٹا ہوا ہو اور وہ یہ رجز پڑھے جا رہا ہے:
مَا نْتَقِمُ الْحَربُ الْعَوَانُ مِنِّی
بازِلُ عَامَیْنِ حَدِیْثٌ مِنِّی
لِمِثْلِ ہٰذَا اَوَ لَدَتٰنِی اُمِّی
’’جن لوگوں میں بار بار معرکے ہوتے رہے ہیں ایسی جنگیں بھی مجھ سے انتقام نہیں لے سکتیں۔میں اونٹ کا دو سالہ پٹھا اور تیز دانتوں والا ہوں میری ماں نے مجھے ایسے ہی کاموں کے لیے جنا ہے۔‘‘
مسلمان ’’احد احد‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے اس پر یلغار کر رہے ہیں۔مگر ابو جہل کے محافظ آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔عبد۲۶؂الرحمنؓ بن عوف کے ارد گرد معو۲۷؂ذ اور معاذ۲۸؂جا کھڑے ہوتے ہیں۔اور پوچھتے ہیں:
’’ابو جہل کہاں ہے۔‘‘
غالباًانھوں نے پہلے ابو جہل کو نہیں دیکھا ہوا عبدالرحمنؓ ایک سے پوچھتے ہیں:
’’برادر زاد ے ابو جہل کو کیا کرو گے؟‘‘
ان نوجوان مجاہدوں میں سے ایک کہتا ہے:
’’میں نے خدا سے عہد کر رکھا ہے۔کہ ابو جہل کو جہاں دیکھوں گا قتل کردوں گا۔یا خود لڑتے لڑتے مارا جاؤں گا۔‘‘
عبدالرحمنؓ جذبوں اور ولولوں کا یہ عالم دیکھتے ہیں تو دونوں کو ہاتھ کے اشارے سے بتا دیتے ہیں:
’’وہ رہا ابو جہل۔‘‘
دونوں باز کی طرح جھپٹ کر آگے بڑھتے ہیں۔معاذؓمحافظوں کو چیرتے چیرتے ابو جہل تک پہنچ کر اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔تلوار چمک کر بلند ہوتی ہے۔اور ابو جہل کی ٹانگ کی آدھی پنڈلی اڑ جاتی ہے۔خون فوارے کی صورت پھوٹ بہتا ہے۔اور دھڑام سے زمین پر آ گر تا ہے۔ادھر ابو جہل کے بیٹے عکر۲۹؂مہ نے بھی اپنے باپ کو خطرے میں گھرا دیکھ لیا ہے۔وہ پشت سے معاذؓپر حملہ آور ہو جاتا ہے۔اور اس شدت سے تلوار کا وار کرتا ہے کہ ان کا بازوں کٹ جاتا ہے۔مگر بازوں کی تھوڑی سی کھال بچ رہتی ہے۔جس سے کٹا ہوا بازو لٹکنے لگتا ہے۔معاذؓ پلٹ کر عکرمہ پر حملہ آور ہو جاتے ہیں مگر وہ لومڑی کی سی مکاری اور پھرتی سے نکل جاتا ہے۔معاذؓکو یہ کٹا ہوابازولڑنے نہیں دے رہا چنا نچہ پاؤں کے نیچے رکھ کر بالکل علیحدہ کر دیتے ہیں۔
معاذؓکے ابو جہل پر حملہ آور ہونے تک معوذؓبھی ابو جہل تک جا پہنچتے ہیں۔اور پے درپے وار کرتے ہیں۔مگر ابو جہل کے محافظین کی تلواریں یکبار گی اُٹھتی ہیں اور معوذؓ شہادت کا جام نوش کر جاتے ہیں۔لشکر کفار کے بڑے بڑے سردار جہنم واصل ہو چکے ہیں۔یہ دیکھ کر کفار کے پاؤں میدان سے اکھڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔اہل ایمان ایک مرتبہ پھر بھر پور حملہ کرتے ہیں۔تو لشکر کفار بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔کفار کو بھاگتے دیکھ کر مجاہدین اسلام بھگوڑوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں نماز ظہر تک کفار کے بہت بڑے لشکر پر مجاہدین فتح پا لیتے ہیں۔تو رب العالمین کا شکر بجا لاتے ہیں۔
اے گڑھے والو
میدان بدر کفار کی لاشوں سے اٹا پڑاہے۔عبد۳۰؂اللہؓ بن مسعود ایک ایک لاش کو غور سے دیکھتے جاتے ہیں۔انھیں ابو جہل کی لاش کی تلاش ہے۔کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اس دشمن خدا کی موت کی خبر سننے کیمنتظر ہیں۔لاشوں کو الا نگتے پھلانگتے با لآخر وہ ابو جہل کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مگر ملعون ابو جہل ابھی تک زندہ ہے۔فرش خاک پر پڑا ہے۔پیر کٹے ہوئے جسم پر بے شمار زخم خون کے فوارے پھوٹے ہوئے ہیں۔اور وہ شدت درد سے تڑپ رہا ہے۔
عبداللہؓ بن مسعود قریب جاتے ہیں اور ابو جہل کے سینے پر پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ابو جہل کہ جس کی رعونت ابھی تک ویسے ہی کی ویسی ہے کہنے لگتا ہے۔
’’اے بکریوں کے چرواہے!تو بہت اونچی جگہ چڑھ آیا ۳۱؂ہے۔‘‘
مگر عبداللہؓبن مسعود جواب دینے کے بجائے اپنی تلوار نکالتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملعون ابو جہل کی گردن تن سے جدا کر دیں۔مگر کند ہونے کے باعث یہ کام ان کی تلوار انجام نہیں دے پا رہی۔ادھر ابو جہل شدت درد سے تلملا رہا ہے۔اسے زندگی کے سانس بہت گراں معلوم ہو رہے ہیں۔اب جو عبداللہؓ بن مسعود کی تلوار نہ چل سکی تو ابو جہل اپنی تلوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
’’اس سے قتل کرو لیکن سر تن سے جدا کرتے وقت شانوں کے پاس سے کاٹنا تاکہ مرنے کے بعد بھی میرا سر بلند رہے(لعنتہ اللہ علیہ)‘‘
عبداللہؓ بن مسعود،ابو جہل کا سر تن سے جدا کر کے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
’’یہ دشمن خدا ابو جہل کا سر ہے۔‘‘
وہ دشمن خدا کہ جس نے سب سے زیادہ راہ حق میں روڑے اٹکائے۔داعی حق پر ستم ڈھائے، پتھر مارے،آوازے کسے،حتیٰ کہ قتل تک کے منصوبے بنائے۔اور پھر بدر کی وادی میں اس نیت سے پہنچا کہ مٹھی بھر مسلمانوں کو نیست ونابود کر دے گا۔آج اس ملعون کا سر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں تو قلب کو اطمینان وفرحت ہوتی ہے۔عبداللہؓ بن مسعود سے خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ :
’’مجھے اس لاش تک لے چلو۔‘‘
ابو جہل کی سر اور پاؤں کٹی لاش کو دیکھ کر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) پکار اُٹھتے ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَخْزَکَ ہٰذَا فِرْعَوْن ہٰذَہٖ الْاُمَّۃَ جُرُوْہُ اِلَی الْقللِیْبِ
’’شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے تجھے رسوا کیا۔یہ اس امت کا فرعون ہے۔ گھسیٹ کر اسے گڑھے میں پھینک دو۔‘‘
کفار کی باقی لاشیں جو میدان میں بکھری پڑی ہیں انھیں بھی گڑھے میں پھینکنے کا حکم دیا جاتا ہے۔سبھی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔مگر امیہ بن خلف کی لاش اس قدر گل سڑ اور پھول چکی ہے۔کہ اس کا اُٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔حکم ہوا:
’’اسے اسی جگہ مٹی میں دبا دو۔‘‘
چنانچہ حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔پھر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کفار کی لاشوں والے گڑھے کے قریب جا کر یوں مخاطب ہوتے ہیں:
یا أہلَ الْقَلِیْبِ یا عُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ وَ یَاشَیْبَۃَ اِبْنِ رَبِیْعَۃَ وَ یَا اُمیَّۃَ ب خَلَفَ وَ یَا أَبَا جَہْل بن ہَشَام فَعدَّدَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ فِی الْقَلِیْب ہَلْ وَحَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی قَدْ وَجدّتُ وَعَدَنِی رَبِّی حقّا
’’اے گڑھے والو!اے عتبہ بن ربیعہ،اے ابو جہل بن ہشام اور جتنے اس گڑھے میں تھے ان (سب )کے نام شمار کیے۔تمھارے پرور دگار نے جو کچھ تم سے وعدہ کیا تھا اسے سچا پایا؟مجھ سے تو میرے پروردگار نے جو وعدہ فرمایا تھا۔ میں نے اسے سچا پایا۔‘‘
ابو حذ۳۲؂یفہؓ جب محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان اقدس سے اپنے باپ عتبہ بن ربیعہ کا نام سنتے ہیں تو دل پر ایک چوٹ محسوس کرتے ہیں۔چہرے کا رنگ متغیرّ ہو جاتا ہے۔محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نظریں جو ابو حذیفہؓ کے چہرے پر پڑتی ہیں۔اور سارا معاملہ بھا نپتے ہی فرماتے ہیں:
یَا أَبَا حُذَیْفَۃَ لَعَلَّکَ قَدْ وَ خَلَکَ مِنْ شَانِ أَبِیْکَ شَیئٌ
’’اے ابو حذیفہؓ اپنے باپ کی حالت دیکھنے سے شاید تمھارے دل میں کوئی بات پیدا ہو گئی ہے۔‘‘
ابو حذیفہؓ عرض کرتے ہیں:
’’نہیں یا رسولؐاللہ میں نے اپنے باپ کے کفر یا اس کے مارے جانے پر کبھی بھی شک نہیں کیا۔لیکن میں اپنے باپ سے واقف تھا۔کہ وہ عقلمند حلیم،برتر صفات والا ہے اور اس لیے مجھے امید تھی کہ یہ صفات اسے اسلام میں لے آئیں گی مگر جب میں نے یہ دیکھا۔کہ وہ کفر کی حالت میں مرا تو میری امیدوں کو ٹھیس لگی۔‘‘
محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ سنتے ہیں تو ابو حذیفہؓ کے لیے دعائے خیر فرماتے ہیں۔
معرکے کے بعد
بوڑھا ابو۳۳؂ رافع زمزم کے قریب خیمے میں بیٹھا تیر چھیلے جا رہا ہے۔اس کے قریب ام الفضل بھی بیٹھی ہے۔دونوں باتوں میں مصروف ہیں دفعتاً کیا دیکھتے ہیں کہ ابو لہب بری طرح ہا نپتا کا نپتا پاؤں گھسیٹتا خیمے کے کنارے آ بیٹھتا ہے۔چند ساعتوں کے بعد ابو سفیان بھی ایک جانب سے نمودار ہوتا ہے تو ابو لہب کے گرد موجود لوگ کہنے لگتے ہیں:
’’لو!ابو سفیان بھی آگیا۔‘‘
ابو لہب ابو سفیان کو دیکھتا ہے۔تو اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے پوچھتا ہے:
’’با با:مجھے یہ تو بتلاؤ ان لوگوں کی حالت کیا رہی۔‘‘
ابو سفیان جواب دیتے ہے:
’’بخدا!واقعہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ہم لوگ ان کے مقابل ہوئے اور اپنے شانوں کو ان کے حوالے کر دیا۔وہ ہمیں جیسے چاہتے قتل کرتے اور جس طرح چاہتے قیدی بنا لیتے تھے۔
اللہ کی قسم اس کے باوجود لوگوں پر میں نے ملامت نہیں کی ہم ایسے لوگوں کے مقابل ہو گئے تھے کہ جو سفید رنگ کے تھے اور ابلق گھوڑوں پر زمین وآسمان کے درمیان تھے۔بخدا!وہ چیز نہ چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیزان کے مقابل قائم رہتی تھی۔‘‘
بوڑھا ابو رافع جو بڑے غور سے ابو سفیان کی باتیں سن رہا ہے۔شدت جذبات میں آکر خیمے کی طنا بیں ہاتھوں میں اُٹھا لیتا ہے۔اور پکار اُٹھتا ہے:
’’واللہ! وہ تو فرشتے تھے۔‘‘
ابو لہب یہ سنتا ہے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ایک زور دار تھپڑ بوڑھے ابورافع کے جھریوں بھرے چہرے پر جڑ دیتا ہے۔آگے بڑھ کر زمین پر دے مارتا ہے اور سوار ہو کر مارنے پیٹنے لگتا ہے۔ام الفضل یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتی۔جھٹ اُٹھتی ہے۔ایک لکڑی اُٹھا کر ابولہب کے سر پر دے مارتی ہے۔اور کہتی ہے:
’’اس کا سردار پاس نہیں اس وجہ سے تو نے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے۔‘‘
ابو لہب کا سر پھٹ چکا ہے اور خون فوارے کی صورت بہے جا رہا ہے۔سر کو سہلاتا سہلاتا ذلیل وخوار ہو کر وہاں سے اُٹھ آتا ۳۴؂ہے۔
ابو لہب کی طرح مکہ کا ایک ایک فرد بد حواس ہوا پھرتا ہے۔پہلے تو خوب روئے چلائے مرنے والوں پر آنسو بہائے، مرثیے پڑھے مگر منع کر دیا گیاکہ:
’’مقتولوں پر نہ رویا جائے کہ محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کو ہمار ے رونے کی خبر ملے گی تو وہ خوش ہوں گے۔‘‘
اور اس بات پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے کہ :
’’کوئی فرد قیدیوں کی رہائی کے لیے مدینہ نہ جائے۔‘‘
جذبات پر لگائی جانے والی ان پا بندیوں سے دوسروں کی طرح الا سودبن المطلب کا جی بھی بھرا پڑا ہے۔وہ رونا چاہتا ہے مگر رو نہیں سکتا۔اس کی اولاد میں سے ذمعہ بن الا سود،عقیل بن الاسود اور الحارث بن ذمعہ اس آفت کا شکار ہو چکے ہیں۔ الا سود کی راتیں جاگ جاگ کر اور تڑپتے ہوئے کٹتی ہیں۔دفعتاً اسے کسی عورت کے رونے کی صدا سنائی دیتی ہے۔تو جذبات بے قابو ہونے لگتے ہیں۔ اپنے خادم سے کہتا ہے:
’’ذرا جا کر خبر تو لینا کہ اپنے مقتولوں پر رونے کی اجازت مل گئی ہے۔میرے سینے میں آگ لگی ہے۔جی چاہتا ہے خوب روؤں تاکہ دل کو تسکین ہو جائے۔‘‘
غلام واپس آتا ہے تو کہتا ہے:
’’ایک عورت ہے کہ جس کا اونٹ گم ہو گیا ہے۔وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔‘‘
الا سود یہ سنتا ہے۔تو بے اختیار یہ مرثیہ کہہ اُٹھتا ہے:
أتبکیِ أَنْ یَضِلَّ لَہَا بِعِیْرٌ وَ یَمْنُعَہَا مِنَ النُّومِ السُّہُودُ فَلاَ تَبْکِی عَلَی بَکْرٍ وَلٰکِنْ عَلَی بَدْرٍ تَقَاصَرتِ الْجدُوْد
’’کیا وہ اپنے ایک اونٹ کے کھو جانے پہ روتی ہے اور بے خوابی اسے سونے نہیں دیتی۔اے خاتون!جو ان اونٹ کے کھو جانے پہ نہ رو بلکہ واقعہ بدر پہ رو کہ جس روز نصیبا پھوٹ گیا۔‘‘
ادھر مکہ میں بدر کے مقتولوں اور قیدیوں پر ماتم ہو رہا ہے تو ادھر مدینہ میں محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دے رکھا ہے۔
إسْتَوْصوا الأُسَارَی خَیْرًا
’’قیدیوں سے نیک سلوک کرنے کی وصیت یاد رکھو۔‘‘
گردش زمانہ ملا حظہ فرمائیے کہ آج وہ سہیل بن عمرو بھی قید ہے کہ جو کبھی محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں زبان طعن دراز کیا کرتا تھا۔دعوت حق کے خلاف بڑی فصیح وبلیغ تقاریر کیا کرتا تھا۔ عمرؓ اس دشمن خدا کو دیکھ کر عرض کرتے ہیں:
’’یا رسولؐاللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں سہیل بن عمرو کے سامنے کے دودو دانت توڑدوں تاکہ اس کی زبان لٹک جائے اور آیندہ جوش خطابت نہ دکھا سکے۔‘‘
مگر محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)شان عفویت سے فرماتے ہیں:
لاَ أُمَثْلُ بِہِ فَیمثِلَ اللّٰہُ بِی وَ إِنْ کُنْتُ نَبِیًّا
’’(نہیں)میں اسے مثلہ۳۵؂ نہ کروں گا کہ اللہ مجھے بھی مثلہ کر دے گا اگرچہ میں نبیؐہوں۔‘‘
قیدیوں کے کھانے پینے کا کتنا خیال رکھا جا رہا ہے۔صحابہ خود کھجوریں کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ مگر اپنی تحویل میں آئے ہوئے قیدیوں کو پیٹ بھر کھانا کھلایا جاتا ہے۔اس لیے کہ محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے قیدیوں سے نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔اسیران جنگ سے چار چار ہزار درہم فدیہ لے کر رہا کیا جا رہا ہے۔جو نادار ہیں انھیں بغیر فدیے کے ہی رہا کر دیا گیا ہے۔جبکہ جو پڑھے لکھے ہیں ان کے ذمے محض یہ ذمہ داری ہے کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں پھر وہ آزاد ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ عبداللہ نام اور اُبی بن سلول کا بیٹا تھا۔ یہ رئیس المنافقین ہے۔ اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہؓ ہے۔ لیکن اُن کا شمار زبردست صاحب فضیلت اصحابِ رسولؐ میں ہوتا ہے۔

۲۔ ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ ’’شاس بن قیس‘‘ بہت بوڑھا اور کفر کا سرگروہ تھا۔ مسلمانوں سے سخت کینہ و حسد رکھتاتھا۔ ایک روز اصحابؓ رسولؐ کی مجلس سے اُس کا گزر ہوا جس میں اوس و خزرج کے لوگ مل بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں اوس و خزرج کے درمیان سخت عداوت تھی، لیکن اب جو اسلام کی برکت سے ان میں محبت و الفت اور خوش گواری کے تعلقات دیکھے تو حسد سے جل گیا اور کہا: بنی قیلہ کے سرداران شہروں میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ واللہ! ان سرداروں کے اس مقام پر اجتماع سے ہمیں چین تو نہ آئے گا۔ یہود کے ایک کم سن نوجوان کو حکم دیا کہ ذرا ان کی طرف توجہ کر ان سے مل بیٹھ جنگ بعاث اور اس سے پہلے کے واقعات کا تذکرہ ان سے کیا کر اور انھیں وہ اشعار سنا جو انھوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں کہے تھے۔(جنگ بعاث، وہ جنگ ہے جس میں اوس و خزرج ایک دوسرے سے لڑے تھے) اُس یہودی نوجوان نے ایسا ہی کیا تو اُس وقت اِن لوگوں میں توتو میں میں ہونے لگی۔ فخر و مباہات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں قبیلوں میں ایک ایک شخص حملے کے لیے نیم استادہ ہوگیا اور ایک دوسرے سے الجھنے لگا۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنے مقابل سے کہا: ’’اگر تم چاہو تو جنگ کی ابتدا ابھی سے کر دیں۔‘‘ دوسرے نے کہا: ’’تمھارے مقابلے کے لیے سیاہ پتھریلا مقام (الحرہ) ہم نے منتخب کیا۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ہتھیار لاؤ، پتھر لاؤ کا شور مچ گیا۔ وہ سب کے سب میدانِ جنگ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ مگر حضورؐ کو اس واقعے کا علم ہوگیا اور آپؐ نے اِسے رفع دفع کر دیا۔

۳۔ عبداللہ بن حجش کے ساتھ درج ذیل افراد روانہ کیے گئے: (۱) ابوحذیفہؓ بن عقبہ، (۲) خالدؓ بن بکیران، (۳) عکاشہؓ بن محض بن حرثان، (۴) عتبہؓ بن غزوان بن جابر، (۵) سعدؓ بن ابی وقاس، (۶) عامرؓ بن ربیعہ، (۷)واقدؓ بن عبداللہ، (۸) سہیلؓ بن بیضار اس طرح عبداللہ بن حجش کو شامل کرکے کل نو(۹) ہوئے۔ یہ سبھی افراد مہاجر تھے۔ (بحران) فرع نامی معدن پر یہ قافلہ پہنچا تو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن عزوان کا اونٹ کھو گیا۔ جسے وہ دونوں اپنے پیچھے لا رہے تھے۔ چنانچہ وہ ان کی تلاش میں پیچھے رہ گئے۔ اور یوں عبداللہ بن حجش کی قیادت میں باقی چھ افراد نخلہ جا کر اُترے۔

۴۔ کرزؓنام۔باپ کا نام جابر بن حیل۔قبول اسلام سے قبل اسلام کے سخت دشمن تھے۔مدینہ پر پہلی مرتبہ انھوں نے ہی شب خون مارا تھا۔اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد اسلام قبول کر لیا۔فتح مکہ میں حضورؐ کے ہمر کاب تھے۔کرزؓحضرت خالدؓبن ولید کے دستہ میں تھے۔اتفاق سے یہ دستے سے علیحدہ ہو کر اپنے ایک ساتھی جیلشؓکے ساتھ دوسرے راستے پر پہنچ گئے۔یہاں کچھ مشرکین ملے جنہوں نے جیلش کو شہید کر دیا۔کرزؓآگے بڑھے اور مشرکین پر حملہ کر دیا۔اس جدوجہد میں یہ بھی شہید ہو گئے۔

۵۔ یہ ابو جہل کے والد مغیر ہ کے غلام تھے۔اس موقع پر گرفتار ہوئے پھر رہا کر دیا گیا۔تو انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ قبول اسلام کے بعد جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ہو گئے۔اور بئیرمعونہ کے واقعہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔
۶۔ یہ وقوعہ بقول مہاجرین کے تیس جمادی الثانی اور بقول قریش کے یکم رجب کو پیش آیا۔۲۹۔جمادی الثانی کو مہاجرین نے ہلال رجب نہیں دیکھا تھا۔جب کہ قریش کا قول ہے کہ انھوں نے ۲۹کو چاند دیکھا تھا۔اس لیے لڑائی کا دن رجب میں ہے۔اصل صورت حال یہ ہے کہ ۲۹جمادی الثانی کو چاند نظر آگیا تھا۔لیکن مہاجرین نہ دیکھ سکے۔اس طرح یہ وقوعہ ماہ حرام میں پیش آیا۔

۷۔ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام سے لیا گیا ہے۔ابن اسحاق کے حوالے سے ابن ہشام نے لکھاہے کہ مجھے ایک شخص نے جسے میں جھوٹا نہیں سمجھتا عکرمہ سے انھوں نے عباسؓکی روایت سے اور یزید بن رومان نے عروہ بن الزبیر کی روایت سنائی کہ عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ضمضم کے مکہ آنے سے تین روز قبل یہ خوا ب دیکھا تھا۔

۸۔ اطلاع ضمضم بن عمرو الغفاری نے مکہ آکر دی تھی۔

۹۔ ابن ہشام۔
۱۰۔ برک الغماد ملک حبش کا ایک مقام ہے۔اس سے مراد دور افتادہ مقام ہے۔
۱۱۔ انصار سے مشورہ لینے کیوجہ ابن ہشام نے یہ تحریر کی ہے کہ انصار نے مقام عقبہ پر جب بیعت کی تھی۔تو کہا تھا کہ ہم آپ کی ذمہ داری سے اس وقت تک بری ہیں جب تک آپ ہماری بستیوں میں نہ پہنچ جائیں۔جب آپ ہمارے پاس پہنچیں گے تو آپ ہماری ذمہ داری میں ہوں گے۔ہم آپ کی حفاظت ہر اس چیز سے کریں گے جس سے ہم اپنے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔اس لیے رسولؐکا خیال تھا۔کہ کہیں انصار یہ نہ سمجھتے ہوں کہ آپؐ کی مداد ان پر اسی صورت میں لازم ہے۔جب کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کر دے اور ان پر لازم نہیں کہ آپؐ انھیں بستیوں سے نکال کر کسی دشمن کے مقابلہ میں لے جائیں۔ انصار یہ نہ سمجھتے ہوں کہ آپؐ کی مداد ان پر اسی صورت میں لازم ہے۔جب کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کر دے اور ان پر لازم نہیں کہ آپؐ انھیں بستیوں سے نکال کر کسی دشمن کے مقابلہ میں لے جائیں۔
۱۲۔ یعنی یا تو ٹکراؤ ابو سفیان کے تجارتی قافلے سے ہو گا یا ابو جہل کے فوجی گروہ سے ایسا نہیں ہو گا کہ دونوں گروہ مل جائیں اور ان سے مقابلہ ہو۔

۱۳۔ حضورؐ کو جب سرداران قریش کے نام بتائے گئے جو اپنی فوج کے ہمراہ آئے تھے تو آپؐ نے فرمایا۔مکہ نے تمھارے مقابلے کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑے ڈال دیے ہیں۔

۱۴۔ پورے لشکر اسلامی کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک پر حضرت زبیرؓبن عوام اور دوسرے پر حضرت مرثدؓ کے والد ابی مرثدؓ سوار ہے۔

۱۵۔ ابو نعیم عبدالرحمن بن غسل حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولؐاللہ نے بدر کے دن جب ہم نے قریش کے مقابلہ میں صفیں قائم کیں اور انھوں نے ہمارے مقابلے میں صفیں قائم کیں۔تو فرمایا۔جب وہ لوگ تمھارے قریب آجائیں۔تو تیر مارنا(بخاری شریف)
۱۶۔ سورۃ انفال آیت نمبر ۱۵۔
۱۷۔ سورۃ انفال آیت نمبر ۴۵۔
۱۸۔ سورۃ صف آیت نمبر ۴۔
۱۹۔ کو کبۂ غزوہ بدر۔

۲۰۔ انھوں نے عقبہ اوّل ودوم میں شرکت فرمائی۔یہ معوذؓاور معاذؓجنھوں نے ابوجہل کو بدر کے مقام پر جہنم واصل کرنے میں اہم رول ادا کیا کے بھائی تھے۔
۲۱۔ عقبہ سوم میں ا سلام لائے۔بدر کے علاوہ احد خندق اور تمام دوسرے معرکوں میں شریک رہے۔عمرۃالقضامیں بھی حضورؐ کے ہمر کاب تھے۔معرکہ موتہ میں زیدؓبن حارثہ اور جعفرؓبن ابی طالب کے بعد آپ نے بھی فوج کی سپہ سالاری کرتے ہوئے شہادت پائی۔

۲۲۔ مہجعؓ بن صالح مہاجر صحابہ میں سے ہیں۔عمرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔قبل طرفین کے صفوں پر لڑائی شروع ہونے کے بعد جب آپ ایک گڑھے سے پانی پی رہے تھے دشمن کی صفوں سے ایک مہلک تیر جو عامر بن الحضرمی کی کمان سے نکلا تھا ان کے حلق میں آ کر لگا۔اور یہ وہیں شہید ہو گئے۔

۲۳۔ حارثہ سراقہ انصاری کے بیٹے ہیں۔اور ان کی والدہ کا نام ربیع ہے۔جو حضرت انسؓکی پھوپھی ہیں۔غزوہ بدر میں حاضر ہوئے اور اسی میں شہادت پائی۔یہ پہلے انصاری ہیں جو اس روز شہید ہوئے۔

۲۴۔ ابن ہشام نے ابن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ بدر کے روز اصحاب رسولؐ کا شعار’’احد احد‘‘ تھا۔
۲۵۔ یہ محض اسدی کے بیٹے تھے۔جو بنی امیہ کے حلیف تھے۔جنگ بدر کے بعد کے معرکوں میں بھی شریک رہے۔یہ بڑے فضل والے صحابہؓمیں سے ہیں خلافت صدیقؓ میں جھوٹے مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد سے ۱۱ھ میں لڑتے ہوئے طلیحہ کے ہاتھوں شہید ہوئے اس وقت ان کی عمر ۴۵ سال تھی۔ابن اسحاق کی روایت ابن ہشام نے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عکاشہؓبن محض وہی ہیں جن کے بارے میں رسولؐاللہ نے فرمایا۔’’میری امت میں سے ستر ہزار چودھویں را ت کے چاند کی صورت والے جنت میں داخل ہوں گے تو عکاشہ نے عرض کی تھی یا رسولؐاللہ،اللہ سے دعا کیجیے مجھے بھی ان میں سے کر دے آپؐ نے فرمایا تم انہی میں سے ہو۔یا یہ فرمایا۔یا اللہ انہی میں سے کر دے۔

۲۶۔ ان کی کنیت ’’ابو محمد ‘‘تھی۔جب کہ اصل نام عبد عمرو تھا۔ اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔واقعہ فیل کے بعد دسویں سال پیدا ہوئے۔حضورؐ کے دارا رقم میں آنے سے قبل ہی اسلام قبول کیا۔حبش ہجرت کرنے والوں میں شامل ہیں۔اور ہجرت مدینہ میں بھی شریک تھے۔بدر،احد اور تمام غزوات میں شریک رہے۔فتح مکہ کے موقع پر بھی حضوؐ رکے ہمر کاب رہے۔فتح مکہ سے بعد حجتہ الوادع تک جس قدر مہمات آئیں ان میں بھی شریک رہے۔خلیفہ اوّل ابو بکرؓ کے محض مشیروں میں سے تھے۔حضرت عمرؓ کی خلافت میں بھی آپ کو صاحب الرائے تسلیم کیا جاتا تھا۔عہد عثمانؓ میں ۷۵سال کی عمر میں ۳۱ہجری کو وفات پائی حضرت عثمانؓ نے نماز جناہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تد فین ہوئی۔
۲۷۔ یہ حارث ابن رفاعہ کے بیٹے تھے۔اور ان کی والدہ کا نام عفرا ء ہے۔بدر میں قتال کیا اور وہیں شہادت پائی۔
۲۸۔ یہ معوذؓ کے بھائی ہیں۔یہ اورراقعؓبن مالک قبیلہ خزرج کے انصار میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے غزوہ بدرکے علاوہ دوسرے غزوات میں بھی شرکت کی۔بعض کہتے ہیں کہ بدر میں ان کو جو زخم آئے ان کی وجہ سے مدینہ میں انتقال فرمایا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عثمانؓ کی خلافت تک زندہ رہے۔
۲۹۔ یہ عمرو بن ہشام (ابو جہل)کا بیٹاہے۔انھیں اور ان کے باپ کو حضورؐ سے بڑی عداوت تھی۔فتح مکہ کے دن مکہ سے بھاگ گئے۔اس کے بعد ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث ان کے پاس پہنچ گئیں اور ان کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں حضورؐ نے ان کو دیکھا تو مہاجر سوار کہہ کر خوش آمدید کہا۸ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام لائے جنگ یرموک میں۔۱۱ھ میں ۶۲سال کی عمر میں شہید کیے گئے۔

۳۰۔ عبداللہؓ بن مسعود نہایت قدیم الاسلام صحابی تھے۔آپ نے ملک حبش ہجرت کی۔ بیت المقدس کی زیارت کا بھی شرف نصیب ہوا۔ بدر،احد اور بعد کے تمام معرکوں اور بیت رضوان میں بھی شرکت کی۔حضورؐ کے خاص خادم رہے۔۳۲ہجری میں مدینہ میں انتقال فرمایا۔وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی حضرت عثمانؓنے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کی تدفین ہوئی۔

۳۱۔ حضرت عبداللہ بنؓمسعود بچپن میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔اس وجہ سے ابو جہل نے چرواہا کہا۔

۳۲۔ ابو حذیفہ جلیل المرتبہ صحابی تھے اور عتبہ کے صا حبزادے تھے۔عتبہ سرداران قریش میں سے ایک تھا۔آپ کنیت ہی سے مشہور ہیں۔حضورؐکے دارارقم میں داخلہ سے قبل اسلام قبول کیا۔ہجرت حبش میں شرکت کی۔ ملک حبش سے مکہ آئے اور پھر مدینہ ہجرت کی تمام معرکوں میں حضورؐ کے ہمر کاب رہے۔۱۲ ہجری کو جنگ یمامہ میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔شہادت کے وقت ان کی عمر ۵۴ سال تھی۔

۳۳۔ ابن اسحاق کے حوالے سے ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ ابن اسحاق سے حسین بن عبداللہ بن عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس نے ابن عباس کے آزاد کردہ غلام عکرمہ کی روایت بیان کی ہے۔کہ رسولؐاللہ کے آزاد کردہ غلام رافع نے کہا میں عباسؓبن عبدالمطلب کا غلام تھا اور اسلام ہم گھر والوں میں داخل ہو چکا تھا۔ عباسؓؓ،ام الفضل اور میں تینوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔عباسؓ اپنی قوم سے ڈرتے ان کی مخالفت نا پسند کرتے اور اپنا اسلام چھپاتے تھے۔وہ بہت مالدار تھے۔ ان کا مال لوگوں میں پھیلا ہوا تھا۔ابو لہب بدر میں شریک نہ تھا اس نے اپنے بجائے العاص بن ہشام بن المغیرہ کو روانہ کیا تھا۔تمام لوگوں نے ایسا ہی کیا تھا جو شخص نہ گیا وہ رہ گیا اس نے اپنے بجائے کسی اور شخص کو روانہ کیا تھا۔ جب بدر کے آفت زدوں قریشیوں کی خبر ابو لہب کے پاس آئی تو اللہ نے اسے ذلیل ورسوا کیا اور ہم نے خود میں قوت واعزاز محسوس کیا۔

۳۴۔ اس واقعہ کے بعد ابو لہب سات روز سے بھی زیادہ زندہ نہ رہا اور مرض عدسہ کا شکار ہو کر مر گیا۔

۳۵۔ مثلہ سے مراد کان ناک یا ایسے اعضاء کاٹنا ہے جن سے صورت بگڑ جائے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top