skip to Main Content

۱۰۔ حدیبیہ کا درخت

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک درخت ہوں۔میرا تعلق حُدیبیہؔ سے ہے جو مدینہ سے مکّہؔ کے راستے میں ایک مقام ہے ۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ جزیرہ عرب قریب قریب تمام صحرا پر مشتمل ہے ۔اس میں سبز ہ اور درخت بہت کم ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے کئی اہم واقعات درختوں سے متعلق ہیں ۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ ایک مرتبہ کسی لڑائی سے واپس آئے اور راستے میں اکیلے ایک درخت کے نیچے آرام فرمانے لگے ۔اچانک ایک کافر ہاتھ میں تلوارلئے اِدھر آنکلا اور جوں ہی رسولِ اکرمﷺ کو دیکھا اس نے تلوار تان لی اور آپﷺ کے قریب آکرکہا’’آپﷺ کو میرے ہاتھ سے اب کون بچا سکتا ہے ؟رسول اللہ صلعم با لکل نہ گھبرائے اور بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’اللہ‘‘یہ جواب سنتے ہی کافر کے ہاتھ سے تلوار گِر گئی جِسے لپک کر رسول اللہ ﷺ نے اٹھا لیا او ر اس سے سوال کیا ’’بتاؤتمھیں اب میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟‘‘کافر سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ مارے خوف کے کانپنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اُسے معاف کر دیا۔
میری کہانی نے مجھے تاریخ میں لافانی مقام دیا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال رسولِ اکرم اور ان کے ساتھی عمرہ کی غرض سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ مکّہ سے آئے ہوئے آپ کو چھ سال ہو گئے تھے۔ اس عرصے میں آپ نے نہ خانہ کعبہ کی زیارت کی تھی اور نہ عُمرہ اور نہ حج کیا تھا۔مُسلمان احرام باندھے ہوئے اور قربانی کے جانور ساتھ لئے ہوئے تھے۔ صرف تلواریں تھیں وہ بھی نیام میں ،یہ عرب میں دستور تھا کہ مسافر اپنی حفاظت کے لئے تلوار نیام میں لے کر چلا کرتے تھے ۔جب آپ حدیبیہؔ مکّہؔ سے قریب ایک جگہ پہنچے تو آپ کو اطلاع ملی کہ قریشؔ آپ سے لڑنے کے لئے آ رہے ہیں ۔اس پر آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مکّہ روانہ کیا کہ قریش کے سرداروں کو بتائیں کہ مسلمان لڑنے کے لئے نہیں صرف اور صرف عُمرے کی غرض سے آ رہے ہیں ۔حضرت عثمانؓ کو واپسی میں کچھ دیر ہو گئی ۔ساتھ ہی یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ قریشؔ کے سرداروں نے حضرت عثمانؓ کو قتل کر دیا ہے۔ اس پر رسول ﷺ نے مسلمانوں سے بیعت لی کہ وہ قریش سے جنگ کریں گے ۔یہ بیعت میرے نیچے مسلمانوں نے رسول اللہﷺ سے کی ۔اس کے بارے میں قرآ ن کریم کی آیت ہے جس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے :۔
’’بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے اس وقت راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے نبیﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔‘‘
(سورۃ الفتح، آیت: ۱۸)
جب مکّے کے کافروں کو اس بیعت کی خبر ہوئی تو وہ بہت گھبرا گئے اور حضرت عثمانؓ کو جنھیں دراصل قریش نے روک رکھا تھا، واپس جانے دیا۔بعد میں قریشؔ نے صُلح کے لئے پیغام بھیجا۔صُلح کی یہ شرط تھی کہ دس سال تک آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جائے ۔صُلح کی بات چیت شروع ہوئی اور آخر کار کافروں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوا جسے صُلح حُدیبیہؔ کہتے ہیں۔اس کی شرائط یہ تھیں :
۱۔اس سال مسلمان مکّہ میں داخل نہ ہوں ۔
۲۔آئندہ سال مُسلمان حج کے لئے آ سکتے ہیں لیکن مکّہ میں صرف تین دن قیام کر سکتے ہیں اور آپ کے ساتھ وہ ہتھیار ہوں گے جو مسافر لے کر چلتے ہیں ۔
۳۔دس سال تک فریقین جنگ نہ کریں گے ۔
۴۔اگر قریش کا کوئی آدمی مسلمانوں کے پاس مکّہ سے مدینہ آ جائے گا تو رسول اللہ ﷺ اسے واپس کر دیں گے ۔
۵۔اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی مدینہ سے مکّہ جائے گا تو قریش اُسے واپس نہ کریں گے ۔
۶۔عرب کے قبیلوں کو یہ اختیار ہو گا کہ چاہے وہ نبیﷺ سے دوستی کا معاہدہ کریں یا مکّہ کے کافروں سے ۔
۷۔کوئی فریق دوسرے فریق کے حلیف پر زیادتی نہ کرے گا ۔
اس معاہدے کی یہ شرط کہ جو مسلمان مکّہ سے مدینہ بھاگ آئے اسے واپس کر دیا جائے گا ۔کچھ مسلمانوں کو پسند نہ آئی ۔
دراصل جو کچھ نبی ﷺ کی آنکھ دیکھ رہی تھی وہ بات اعتراض کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل تھی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات مسلمانوں پر واضح ہو گئی کہ یہ معاہدہ ان کے لئے بہت فائدہ مند تھا۔امن ملنے سے اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔مدینہؔ اور مکّہؔ کے لئے درمیان آمدو رفت شروع ہو گئی اور مکّہ کے بہت سے کافروں کے دل مسلمانوں سے ملنے جُلنے کی وجہ سے اسلام کی طرف کھنچے چلے آئے ۔ خاص طورپر معاہدے کی یہ شرط کہ جو مسلمان مکّہ سے مدینہ جائے گا اسے واپس کر دیا جائے گا۔مکّہ کے کافروں پر بہت گراں گزری ۔ہوایوں کہ واپس کئے جانے والے مسلمان مکّہ واپس نہ جاتے تھے بلکہ راستے میں ٹھہر جاتے تھے ۔ان کی تعداد بڑھتی گئی اور ان مسلمانوں نے قریش کے قافلے لوٹنے شروع کر دےئے ۔اس پر قریشؔ کے سرداروں نے رسول ﷺ سے درخواست کی کہ اب وہ مکّہ سے آئے ہوئے مسلمانوں کومدینہ ہی میں روکے رکھیں گے اور مکّہ واپس نہ کریں گے ۔
جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور بہت سے قبائل اسلام میں داخل ہونے لگے تو قریش کومعاہدے کی یہ شرط بھی بہت نقصان دہ معلوم ہوئی کہ فریقین ایک دوسرے کے دوست قبیلے پر زیادتی نہ کریں گے اور انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوست قبیلے بنو خزاعہ ؔ پر چڑھائی کر دی ۔اس پر رسولﷺ نے اعلان کیا کہ اب معاہدہ ختم ہے ۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ میری آنکھو ں نے دس ہزار مسلح مسلمانوں کو مکہ کی طرف کوچ کرتے دیکھا۔مکہ والوں میں ہمّت نہ تھی کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرتے ۔مسلمان بغیر کسی مزاحمت کے مکّہ میں داخل ہو گئے اور مکۃالمکرمہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا ۔یہ ایک ایسا موقع تھا جب مسلمانوں کو اس دن کی شدّت سے یاد آئی جب مسلمانوں نے رسولﷺ کے ہاتھ پر میرے نیچے یہ بیعت کی اور قسم کھائی تھی کہ یا غازی ہوں گے یا شہید ۔اب اللہ کی مدد آ پہنچی تھی اور فتح نے مسلمانوں کے قدم چوم لئے تھے ۔ دین اسلام میں لوگ گروہ در گروہ داخل ہوتے چلے جا رہے تھے ۔
میں نے جزیرۂ عرب کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمانوں کو رسولِ اکرم ﷺ کے وہ کلمات جو آپﷺ نے خانۂ کعبہ کے باہر فتح مکّہ کے بعد ادا فرماتے تھے ۔دہراتے ہوئے سُنا اور وہ کلمات یہ تھے کہ :
ترجمہ: ’’مسلمانوں پر خون بہانا ،درخت کاٹنااور ان کی ٹہنیوں اور پتوں کو نقصان پہنچا نا
حرام ہے ۔‘‘
اس بات نے میری خوشی کو اور بھی بڑھا دیا ۔جب میں نے یہ سُنا کہ رسولِ اکر م ﷺ نے فتح مکّہ کے بعد قریش سے مخاطب ہو کر یہ کہاکہ:
ترجمہ: ’’تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کیسا سلوک کروں گا ؟‘‘
قریشؔ نے جواب دیا ۔’’آپ ہم سے اچھا سلوک کریں گے ۔کیونکہ آپ خود بھی بلند اخلاق ہیں اور ہمارے بھائی (یعنی حضرت عبداللہ ) کے بیٹے ہیں ۔‘‘
میں اپنی جگہ پر موجود رہا۔وقت گزرتا گیا ۔میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میںیکے بعد دیگرے مسلمانوں کی فتوحات کی خبریں سنتا رہا۔وقت نے رسولﷺ کی یہ پیش گوئی کہ اسلام یمنؔ ،شامؔ اور فارس (ایران)میں داخل ہوگا۔اور سُراقہؔ بن مالک حاکم فارسؔ کسریٰؔ کے کنگن پہنے گا ،سچ کر دکھائی ۔ہوا یوں کہ فارسؔ کے دارالخلافہ مدائنؔ کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور اسے کِسریٰؔ کے کنگن پہنائے ۔
یہ ساری باتیں میں اُن لوگوں سے سُنتا رہا جو عقیدت کے طور پر زیارت کے لئے آتے تھے، اس لئے کہ میں وہ مبارک درخت تھا ۔جس کے نیچے نبی ﷺ نے مسلمانوں سے وہ عظیم بیعت لی تھی جِسے پیارے بچّو آپ نے تاریخ کی کتابوں میں بیعت رضوان کے عنوان سے پڑھا ہو گا۔
جب میری زیارت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی تو حضرت عمر کو یہ بات نا گوار گزری کیونکہ دینِ اسلام اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کی اجازت نہیں دیتا۔ چونکہ یہ خدشہ ہو گیا کہ لوگ کہیں میری پوجا نہ کرنے لگیں ۔اِس لئے حضرت عمرؓ کے حکم پر مجھے جڑ سے کاٹ دیا گیا۔میرے لئے یہی بڑے فخر کی بات ہے کہ میں تاریخ میں اِس با برکت درخت کے نام سے یاد کیا جاتا ہوں جس کے نیچے نبیﷺ نے مسلمانوں سے عظیم بیعت لی تھی ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top