skip to Main Content

۱۔روشن مثال

پروفیسر عفت گل اعزاز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو!
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے سب سے پیارے اور آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید نازل ہوئی۔ آپ ﷺسے پہلے بھی اس دنیا میں مختلف زمانوں میں اللہ کے نبی آتے رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نبی کی تعلیمات ان کی اپنی قوم اور ان کے اپنے زمانے کے لیے مخصوص تھیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رہتی دنیا تک کے لیے نبی آخر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺاسلام کی تعلیمات لے کر آئے جو قیامت تک، ہر زمانے، ہر علاقے اور تمام انسانوں کے لیے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور اسی لیے آپﷺ کا لقب رحمۃ للعالمین ہے۔
اس دنیا میں ہر انسان کو ایک خاص مدت کے لیے زندگی عطا کی گئی ہے۔ موت زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ ایک دن قیامت برپا ہو گی کہ جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کے تمام اعمال کا حساب کتاب ہو گا۔ جن لوگوں نے زندگی میں اچھے اور نیک کام کیے ہوں گے، ان کو ان کے اچھے عمل کے بدلے جنت میں داخل کیا جائے گا، جو نہایت عمدہ جگہ ہے اوروہاں حقیقی آرام اور آسائشیں ہوں گی،جب کہ برے کام کرنے والوں کو دوزخ ملے گی جو بہت بری اور نہایت تکلیف کی جگہ ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی نیکی اور پاکیزہ عمل کے لحاظ سے خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ سے پہلے زمانوں میں آپ ﷺکے بزرگوں کے ساتھ جو اہم واقعات پیش آئے ان سے واقفیت ضروری ہے۔ خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نیک اور مقبول عمل جو آج تک اور ہمیشہ کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عبادات کا لازمی حصہ ہیں۔یہ واقعات اسلام اور دنیا کی تاریخ کے اہم واقعات ہیں، اس لیے ہمیں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کے چند خاص واقعات جاننے چاہئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
پیارے بچو!
حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً ۰۰۱۴سال قبل مسیح کے زمانے میں عراق کے پرانے شہر”اُر“ میں پیدا ہوئے۔ وہاں کے رہنے والے لوگ مشرک تھے اور وہاں سود خوری عام تھی۔ اس علاقے کا شاہی خاندان ”نمرود“ کہلاتا تھا۔ نمرود اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام”آزر“ تھا اور وہ ایک مشہور بت تراش تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہ بت پرستش کے لائق ہیں۔انہوں نے ایک بار اپنے والد سے کہا۔”آپ ایسی چیز کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہے، نہ دیکھتی ہے اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتی ہے؟“ ان کے والد نے اس بات کا کوئی مناسب جواب نہ دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تلاش حق میں تھے۔ انہوں نے غور کیا کہ شاید ستارہ میرا معبود ہے لیکن ستارہ رات بھر چمکنے کے بعد صبح ڈوب گیا۔ پھر انہوں نے چاند کے بارے میں سوچا کہ چاند زیادہ روشن ہے، شاید یہی میرا خدا ہے، لیکن دن کی روشنی میں وہ بھی بے نور ہو گیا۔ پھر انہیں گمان ہوا کہ سورج میرا معبود ہے لیکن شام ہوئی تو وہ بھی غروب ہو گیا۔ تب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:”تب یہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔“ انہوں نے اعلان کیا کہ”میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ میں مشرک نہیں ہوں۔“ اس اعلان کے ساتھ ہی ان کی ساری قوم ان کے خلاف ہو گئی اور ان سے جھگڑنے لگی۔
کچھ دن بعد ان کی قوم نے ایک عالی شان میلہ منعقد کیا۔ اس بستی میں رہنے والے تمام مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، بادشاہ،کاہن اور مذہبی پیشوا میلے میں چلے گئے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں نہ گئے۔ سب لوگوں کے جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانے میں داخل ہوئے اور انہوں نے وہاں رکھے تمام بت توڑ ڈالے اور اپنی کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر لٹکائی اور وہاں سے نکل آئے۔ جب لوگ میلے سے واپس آئے تو بتوں کا یہ حشر دیکھ کر سخت برہم ہوئے کہ یہ کیا ہوا؟ کس نے بتوں کا یہ حال کیا؟سب لوگوں کو جمع کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بلایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ ”ابراہیم ہمارے بتوں کے ساتھ یہ کیا ہوا؟“ تو انہوں نے جواب دیا۔ ”یہ تم اپنے بڑے بت سے پوچھو، وہی بتائے گا۔“ اس سوال کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ وہ کہنے لگے۔ ”ابراہیم! تو خوب جانتا ہے کہ یہ بت بول نہیں سکتے۔“ ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔ ”جب یہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے،منہ سے کچھ بتا نہیں سکتے تو پھر یہ تمہارے معبود کس طرح ہو سکتے ہیں؟ تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں، نہ نقصان پہنچانے پر۔“
نمرود کو جب ابراہیم علیہ السلام کے خیالات کا علم ہوا تو اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوا بھیجا کہ اب اس کی خبر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا حاکم سمجھتا تھا اور جو بھی اسے رب نہ مانے وہ اسے باغی سمجھتا تھا۔
آتش نمرود
نمرود کے دربار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واضح طور پر کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین کو اپنا خدا اور رب مانتا ہوں اور اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں مانتا۔ اسی کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ اس پر نمرود نے غرور سے کہا۔ ”میں خدا ہوں اور زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔“ کیونکہ وہ بادشاہ تھا اور جس کو چاہتا موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔”اگر تم خدا ہو تو پھر سورج کو مشرق کے بجائے مغرب سے نکال کر دکھاؤ!“ یہ سن کر نمرود چپ کا چپ رہ گیا۔ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو جیل میں ڈال دیا۔ بادشاہ کے درباریوں نے اسے مشورہ دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلا دیا جائے۔ اس کام کے لیے ایک بڑا الاؤ روشن کیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس میں پھینکنے کی تیاری کی جانے لگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے ذرا بھی خوف نہ آیا کیونکہ انہیں اپنے رب پر پورا بھروسا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں پھینکا گیا لیکن خدا کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہو گئی اور انہیں ذرا سا بھی نقصان نہ پہنچا۔ جلی ہوئی لکڑیاں نئے سر سبز درختوں میں بدل گئیں اور پھولوں سے لد گئیں۔ اس طرح پروردگار عالم نے جلتی ہوئی آگ کو گلزار بنا دیا۔ یہ دیکھ کر لوگ خدا کے وجود کے قائل ہو گئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سچائی کو بھی مان گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورہئ بقرہ میں فرمایا۔”ہم نے تمہیں ساری انسانیت کی امامت کا منصب بخشا۔“ آج تک اس دنیا میں تمام مذاہب کو ماننے والے مسلمان،یہودی، عیسائی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وابستہ ہیں۔ چار ہزار برس سے انسانوں کو جو ہدایت کی روشنی ملی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسر آئی۔ ان کا نام اس دنیا میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
اس واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بستی سے نکلے اور فلسطین چلے گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ تھیں۔ و ہ لوگوں کو وحدانیت یعنی ایک خدا کی بندگی کی تعلیم دیتے رہے۔ پھر وہ مصر چلے گئے۔ مصر کے بادشاہ نے اپنی بیٹی ہاجرہ کی شادی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کر دی۔ کچھ عرصے بعد بی بی ہاجرہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ بعد میں حضرت سارہ کافی بوڑھی ہو گئی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹا عطاکیا جس کا نام اسحق رکھا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام دونوں خدا کے پیغمبر تھے۔

آب زم زم
اس زمانے میں مکہ ایک بے آب و گیاہ ویران بستی تھی، جہاں چٹیل پہاڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کو اہم اور مرکزی حیثیت دینے کے لیے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہاں بھیجا۔ ان کے ساتھ حضرت سارہ، حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل بھی تھے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بی بی ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو یہاں چھوڑ کر چلے جائیں۔ چنانچہ وہ ملک شام کی طرف جانے کی تیاری کرنے لگے۔ حضرت ہاجرہ کو جب اس بات کا پتا چلا تو وہ اکیلے رہ جانے کے خیال سے گھبرائیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انہوں نے پوچھا کہ وہ انہیں یہاں اکیلا کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔ ”یہ خدا کاحکم ہے۔“ یہ سن کر بی بی ہاجرہ کو اطمینان ہو گیا۔ وہ بولیں۔”اگر یہ خدا کا حکم ہے تو ہم راضی ہیں۔ وہی ہماری حفاظت کرے گا، بے شک وہ بڑی قدرت والا ہے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ کو لے کر رخصت ہو گئے۔
بی بی ہاجرہ کے پاس کچھ کھجوریں او ر تھوڑا بہت پانی تھا۔ کچھ دن میں یہ راشن ختم ہو گیا۔ ننھے اسماعیل کو پیاس لگی۔ بی بی ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پہاڑوں پر بے قراری سے چکر لگائے کہ کہیں سے پانی مل جائے تو ننھے بچے کی پیاس بجھائیں، لیکن پانی کہیں نہ ملا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیاس کی بے قراری میں زور زور سے پاؤں زمین پر مارے تو اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اچانک اس جگہ سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔ بی بی ہاجرہ اپنے رب کی اس مہربانی کو دیکھ کر خوشی سے چلائیں۔ ”زم زم“ یعنی ٹھہر جا، ٹھہر جا اور جلدی سے چشمے کے گرد مٹی کی ایک منڈیر سی بنا دی۔ پروردگار کو بی بی ہاجرہ کا پانی کی تلاش میں بے قراری سے صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگانا اتنا پسند آیا کہ اس نے حج اور عمرے کے دوران تمام حاجیوں کے لیے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگانا لازمی کر دیا جسے سعی کہا جاتا ہے۔
یہ آب زمزم بے حد مبارک اور مفید پانی ہے۔ لاکھوں افراد اس پانی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ اس زمانے میں اس پانی کی وجہ سے اور لوگ بھی وہاں آ کر رہنے لگے اور یہ بستی آباد ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ وقت گزرنے لگا۔ یہاں تک کہ اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے اور اس بستی کے سردار بن گئے۔
قربانی
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو ان کے والد ابراہیم علیہ السلام مکہ پہنچے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے سب سے پیارے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کاحکم دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے اس بات کا ذکر کیا تو سعادت مند بیٹے نے فوراً سر تسلیم خم کیا اور کہا۔”میں حاضر ہوں، آپ مجھے فرماں بردار پائیں گے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی باندھی او ر ہاتھ میں چھری سنبھالی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام خدا کی راہ میں ذبح کے لیے زمین پر لیٹ گئے۔ خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری چلائی۔ اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تسلیم و رضا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جان کی قربانی کا جذبہ دیکھا تو ان دونوں باپ بیٹے سے اتنا خوش ہوا کہ وہاں غیب سے ایک ذبح کیا ہوا دنبہ بھیج دیااور حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ سلامت رہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت میں اور اس واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے دس ذی الحج یعنی بقر عید کے دن تمام مسلمانوں کو جانور قربان کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ کی تعمیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ یعنی اللہ کا گھر بنانے کا حکم دیا تاکہ دنیا بھر سے لوگ یہاں آ کر اللہ کی عبادت کریں۔ طواف کعبہ کریں، سجدہ کریں اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لے کر قربانی کریں، خود بھی کھائیں اور ضرورت مندوں کو کھلائیں۔ چنانچہ باپ اور بیٹا دونوں لگن اور محبت کے ساتھ تعمیر کعبہ میں مصروف ہو گئے۔ بیٹا گارا لاتا اور باپ دیوار چنتا۔ جب دیواروں کی اونچائی زیادہ ہو جاتی تو وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام دیوار بناتے، خدا کے حکم سے بلند ہو جاتا، تاکہ بلندی پر دیوار کی تعمیر کا کام آسانی سے ہوتا رہے۔ یہ پتھر اب بھی یعنی ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی مقام ابراہیم علیہ السلام کے نام سے کعبہ میں موجود ہے۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں حجر اسود بھی لگایا جو جنت کا پتھر ہے۔ دونوں باپ اور بیٹے خدا کا گھر تعمیر کرتے جاتے اور اپنے رب سے دعا کرتے جاتے۔
”اے ہمارے رب! اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور یوم آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے،ہماری یہ خدمت قبول فرما، تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب، ہماری نسل میں سے ایک ایسی قوم اٹھا جو آپ کی مطیع ہو۔ ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، ان کی زندگیاں سنوار دے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔“(سورہ بقرہ)
خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں ہے جہاں ہر سال ذی الحج کے مہینے میں حج کے لیے مسلمان دنیا کے کونے کونے سے پہنچتے ہیں، حج ادا کرتے ہیں، جانوروں کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سال کے باقی مہینوں میں بھی دنیا بھر سے یہاں آنے والے مسلمان عمرہ ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ کعبہ کا وجود دنیا کے روز اول ہی سے تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس کی باقاعدہ تعمیر اور عمارت سازی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے وجود میں نہ آئی تھی۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبۃ اللہ کا بانی اول قرار دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کے پاسبان تھے۔ یہ تولیت ان کی اولاد میں منتقل ہوئی۔
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل سے مشیت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ ہدیٰ کا
(حالیؔ)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ نسب
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ اور کنانہ کی ایک شاخ قریش مکہ تھی۔ اس خاندان میں ایک بلند مرتبہ شخص قصیٰ بن کلاب پیدا ہوا، جس نے بہت سے قبیلوں کو یکجا کیا اور ریاست کی سرداری حاصل کر لی۔ قصیٰ کی اولاد میں عبد مناف اور عبد مناف کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے۔ ہاشم تجارت کی غرض سے شام گئے۔ راستے میں مدینہ میں ٹھہرے وہاں ان کی شادی ایک حسین و پاکیزہ خاتون سلمیٰ سے ہوئی جن کا تعلق بنو نجار سے تھا۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عبدالمطلب رکھا گیا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں۔ ان کے ایک بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔ یہی عبداللہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بزرگوار تھے۔ ہمارے حضورؐ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔

نسب:
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب(شیبہ)بن ہاشم(عمرو) بن عبد مناف(مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرّہ بن کعب بن لوَی بن غالب بن فہر(انہی کا لقب قریش تھا اور انہی کی طرف قبیلہئ قریش منسوب ہے) بن مالک بن نضر(قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر) بن الیاس بن مفر بن نزار بن مَعَد بن عدنان (حوالہ ابن ہشام)۔

عبدالمطلب ہمارے پیار ے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے۔ وہ قبیلہ قریش کے اہم سردار تھے اور کعبۃ اللہ کے متولی تھے۔
خانہ کعبہ کی حفاظت کا واقعہ
بیت اللہ امن کا گھر ہے۔ قریش کو کعبۃ اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ یمن کا بادشاہ ابرہہ قریش کی اس مقبولیت اور امتیاز کو چھین لینا چاہتا تھا۔ وہ حسد میں مبتلاتھا۔ اس نے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اعلیٰ نسل کے نو ہاتھی اور ساٹھ ہزار کا فوجی لشکر لے کر کعبہ کی طرف بڑھا۔ اس نے عبدالمطلب کے دو سو اونٹ اپنے قبضے میں کر لیے او راپنے ملازم کے ذریعے مکہ کے سردار کو اطلاع بھجوائی کہ ”میں کعبہ کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں۔ اگر تم مقابلہ کرو گے تو تباہ ہو جاؤ گے۔ ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ ہم بس اس عمارت کو گرا کر واپس چلے جائیں گے!“
عبدالمطلب نے یہ پیغام سن کر کہا کہ ہم تمہارے بادشاہ سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ملازم نے یہ بھی کہاکہ آپ جا کر ابرہہ سے ملیں۔
عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے اور اس سے اپنے اونٹ طلب کیے۔ ابرہہ حیران ہوا او ربولا کہ”میں کعبہ کو گرانے کے لیے آیا ہوں جو آپ کے آباؤ اجداد کادینی مرکز ہے۔ آپ نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی اور آپ صرف اونٹوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔“
اس پر عبدالمطلب نے فرمایا۔”میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس لیے ان کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ رہا خانہ کعبہ، تو وہ اللہ کا گھر ہے، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔“
ابرہہ نے تکبر سے کہا۔ ”آج وہ بھی اسے نہ بچا سکے گا!“
عبدالمطلب نے کہا”آپ جانیں اور وہ جانے!“ اس کے بعد عبدالمطلب اپنے اونٹ لے کر واپس آ گئے۔ انہوں نے اہل مکہ کے سامنے اعلان کیا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر پہاڑوں میں چھپ جائیں اور شہر خالی کر دیں تاکہ لوگوں کو کوئی نقصان نہ ہو اور کسی قسم کا قتل اور غارت گری نہ ہو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ عبدالمطلب نے خدا سے عاجزانہ دعا کی”میرے رب اپنے حرم کی حفاظت کر۔“
جب ابرہہ ہاتھی پر سوار ہو کر کعبہ کی طرف بڑھا تو اس کے ہمراہ ساٹھ ہزار کا لشکر تھا اور مقابلے کے لیے کوئی فوج سامنے نہ تھی۔ سارا شہر خالی پڑا تھا۔ ابرہہ بڑی کبر و نخوت سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ جب وہ کعبہ کے نزدیک پہنچا تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اسے بار بار کچوکے دئیے گئے لیکن وہ کسی طرح آگے نہ بڑھتا تھا۔ اتنے میں آسمان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائی دینے لگے جن کی چونچوں میں کنکریاں تھیں۔ وہ چشم زدن میں ابرہہ کے لشکر پر کنکر برسانے لگے۔ یہ کنکر قہر خداوندی تھے اور جس پر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا، وہاں سے خون اور پیپ بہنے لگتے اور و ہ ذرا سی دیر میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا۔ اس افتاد سے سارا لشکر افراتفری میں ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ لوگ گر گر کر مرنے لگے۔ ادھر قریش جو پہاڑوں میں پناہ لینے گئے تھے، ان کا تماشا دیکھ کر خدا کی قدرت اور خانہ کعبہ کی قدر و منزلت کے قائل ہو رہے تھے۔ اس طرح عرش والے نے اپنے گھر کی حفاظت کی۔ یہ واقعہ”واقعہئ فیل“ کہلاتا ہے۔ قرآن مجید کی سورہ فیل میں اس کا ذکر ہے:
(ترجمہ):”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کا داؤ غلط نہیں کیا اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے جو ان پر کنکریاں پھینکتے تھے تو ان کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھس۔“
ابرہہ بھی واپسی میں نہایت دردناک عذاب میں مبتلا ہوا اور صنعاء پہنچ کر جہنم واصل ہوا۔
چاہ زم زم
پانی کے اس چشمے سے بہت سے لوگوں نے فیض اٹھایا۔ چونکہ قریش کعبۃ اللہ کے متولی تھے، اس وجہ سے دوسرے قبیلوں کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان پر ہاتھ ڈالیں، لیکن ایک قبیلہ بنو جرہم کے لوگ بہت زیادہ شر پھیلانے لگے۔ دشمنی اور حسد کی وجہ سے لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ بنو جرہم مکہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور جاتے جاتے بہت سی تلواریں، زرہیں اور سونے کے دو ہرن جو کعبہ کے نذرانوں میں شامل تھے، چاہ زم زم میں پھینک گئے اور اوپر سے مٹی اور پتھر ڈال کر اس جگہ کو ہموار کر گئے تاکہ مکہ کے لوگوں کو آب زم زم نہ مل سکے اور حاجیوں کو بھی مشکل درپیش آئے۔ اس طرح یہ لوگ اپنے حسد، بغض اور دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے چاہ زم زم کو بند کر کے وہاں سے بھاگ نکلے۔ اب سب لوگ پانی سے محروم ہو گئے اور سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔
سردار مکہ حضرت عبدالمطلب نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے۔”اٹھو، زم زم کے کنوئیں کی کھدائی کرو۔“
عبدالمطلب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سب مل کر کھدائی کرتے ہیں تاکہ پانی پھر نکل آئے لیکن کوئی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوا اور لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے لگے۔ عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کو لے کر خود ہی کھدائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان دونوں نے سخت محنت مشقت کی۔ متواتر کئی دنوں تک کھدائی کرتے رہے۔ بالآخر یہ مشقت رنگ لائی او رپانی نکل آیا۔ اس طرح حاجیوں کو پھر سے آب زم زم ملنے لگا اور لوگ حضرت عبدالمطلب کی محنت، خلوص اور ان کی بلند ہمتی کے قائل ہو گئے، جن کی وجہ سے سب لوگوں کو پانی دستیاب ہو گیا۔ لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی۔
حضرت عبدالمطلب کی منت
حضرت عبدالمطلب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے۔ انہیں بہت سارے بیٹے عطا کر تاکہ میرے بعد وہ تیرے گھر کی بہتر خدمت کر سکیں۔ انہوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوئے تو میں ایک بیٹا تیری راہ میں قربان کر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں دس بیٹے دئیے جو ان کی زندگی میں جوان ہوئے۔ عبدالمطلب اپنے بیٹوں کی وجہ سے بے حد مسرور اور خوش رہتے تھے لیکن اپنی منت کو بھول چکے تھے۔ ایک دن وہ سو رہے تھے، انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے انہیں پکارا:”عبدالمطلب، اپنی منت پوری کر۔“ آپ گھبرا کر جاگ گئے اور انہیں یاد بھی آ گیا کہ انہوں نے کون سی منت مانی تھی۔ اگلی صبح انہوں نے اپنے سب بیٹوں کو بلایا اور ان کو بتایا کہ انہوں نے یہ منت مانی تھی۔ آج مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں اپنی منت پوری کروں۔ اب تم لوگ بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟
عبدالمطلب کے فرماں بردار بیٹوں نے کہا”آپ کے حکم پر ہم اپنا سر کٹوانے کے لیے تیار ہیں۔“ عبدالمطلب کے لیے یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا کہ وہ کس بیٹے کو قربان کریں چنانچہ انہوں نے قرعہ نکالا۔ قرعہ میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا جو شکل و صورت میں نہایت حسین، فہم و فراست میں بہت بلند،نہایت لائق اور عبدالمطلب کے بے حد لاڈلے اور پیارے بیٹے تھے۔ عبدالمطلب دل پکا کر کے اس بیٹے کی قربانی کی تیاریاں کرنے لگے۔ جب عبداللہ کے ننہیال(یعنی ان کی والدہ کے عزیز و اقارب) کو اس بات کا پتا چلا تو وہ سب اس بات کی شدید مخالفت کرنے لگے کہ ہم ہرگز عبداللہ کی قربانی نہیں ہونے دیں گے۔ وہ سب جوق در جوق حرم کعبہ میں داخل ہونے لگے۔ وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ہر کوئی عبدالمطلب کو ایسا کرنے سے منع کر رہا تھا، لیکن وہ اپنی جگہ مجبور تھے۔ عبداللہ کے بھائی ابو طالب بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے۔ سب لوگ مارنے مرنے پر تل گئے۔ وہ کسی طرح عبداللہ کے قتل کے روادار نہ تھے۔ ایک بزرگ اور معتبر شخص نے کہا۔”عبداللہ کا خون بہا ادا کر دیا جائے، اس طرح منت بھی پوری ہو جائے گی اور عبداللہ کی جان بھی بچ جائے گی۔“ (یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مشورہ ایک کاہنہ نے دیا تھا۔)
یہ تجویز سب کو پسند آئی اور عبدالمطلب نے ایک سو اونٹوں کی قربانی کر کے عبداللہ کا خون بہا ادا کیا۔ اس طرح عبداللہ زندگی کی بہاریں دیکھنے کو زندہ بچ گئے۔

حضرت عبداللہ کی شادی
حضرت عبداللہ نہایت حسین و جمیل نوجوان تھے۔ آپ عادات و اخلاق کے اعتبار سے بھی نہایت ممتاز تھے۔ان کی جان بچانے کے لیے سو اونٹوں کی قربانی دینے والے واقعہ کی وجہ سے بھی ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ عبدالمطلب اپنے چہیتے بیٹے کے لیے مناسب رشتہ تلاش کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے لیے نہایت نیک، پاکیزہ اور عزو شرف والے گھرانے سے دلہن لائیں۔ انہوں نے وہب کی بیٹی آمنہ کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ قریش کی دوشیزاؤں میں ہر لحاظ سے بہترین ہیں۔ لہٰذا انہوں نے عبداللہ کے لیے آمنہ کا رشتہ طلب کیا۔ وہب عبداللہ کی نیک نامی، خوش مزاجی اور خوبصورتی سے واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ رشتہ قبول کر لیا اور یوں آمنہ کا نکاح عبداللہ سے ہوا۔ اس مبارک جوڑے پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوئیں۔ ان کو ہمارے پیارے نبیؐ کے والدین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
اہل قریش حصول معاش کے لیے تجارت کرتے تھے۔ عبداللہ شادی کے چند ماہ بعد ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام گئے۔ حضرت آمنہ بے حد متفکر تھیں لیکن حضرت عبداللہ کا جانا ضروری تھا۔ آپ اس سفر سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں بیمار پڑ گئے اور حکم ربی سے انتقال ہو گیا۔ حضرت عبداللہ نے ترکے میں پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک خادمہ ام ایمن چھوڑیں۔
حضو ر ﷺ سے پہلے عرب کی حالت زار
اس زمانے میں عرب میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔وہاں سے سکون اور چین لٹ چکا تھا۔ ہر طرف ظلم اور ستم کا بازار گرم تھا۔ لوگوں کی عادات اس قدر بگڑ چکی تھیں کہ وہ اچھے اخلاق اور طور طریقوں کو یکسر بھلا چکے تھے۔ وہ لوگ کمزور کو ہر طرح سے ستاتے، شراب پینا، جواء کھیلنا، چوری کرنا اور ڈاکے ڈالنا عام بات تھی۔ کسی کی عزت اور مال و دولت کو لوٹنے میں کوئی عار نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو قتل کر دیا جاتا اور اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے نسل در نسل لڑائیاں ہوتی رہتیں، جھگڑے چلتے رہتے اور بہت سے لوگ اس دشمنی میں قتل کر دئیے جاتے۔
اس زمانے میں لوگ خدا کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے عقیدے عجیب و غریب تھے۔ انہوں نے اپنے کچھ پرانے اور نیک بزرگوں کی نیکی کو یاد رکھنے کے لیے ان کے بت بنا کر رکھ لیے۔ بعد میں آنے والے لوگوں نے ان بتوں کو پوجنا شروع کر دیا۔ وہ لوگ ان بتوں کے سامنے سجدہ کرتے اور ان سے اپنی مرادیں مانگتے۔وہ ان بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے تاکہ بت ان سے راضی رہیں، ناراض نہ ہو جائیں اور کچھ نقصان نہ پہنچا دیں۔ سب سے مشہور اور بڑے بت لات، منات، عزیٰ اور ہبل تھے۔ ان لوگوں کو مشرک کہا جاتا تھا۔ عرب میں مشرکین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت ان کی خواہشوں کو پورا کر دیں گے۔ حالانکہ مٹی، پتھر یا لکڑی کے بنے ہوئے بت توبے جان ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی کسی کو کچھ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ تو خود انسان کے ہاتھوں سے بنے ہوتے ہیں۔ نہ وہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیں، نہ کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن اس زمانے کے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو اصل سچائی کا علم نہ تھا۔ یہ لوگ بتوں کی پوجا کے ساتھ ساتھ کچھ درختوں کوبھی مقدس مانتے تھے۔ یہ بہت زیادہ ضعیف الاعتقاد اور اوہام پرست تھے۔
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو سورج، چاند اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ آسمانی اجسام تیز روشنی رکھتے ہیں، اس لیے لوگ ان کی پوجا کرنے لگے۔ کچھ لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک نور یا روشنی خیر اور بھلائی کی علامت تھی اورآگ روشنی کا ذریعہ ہوتی ہے، اس لیے وہ آگ کے سامنے سر جھکانے لگے۔
اس زمانے میں یہودی اور عیسائی بھی موجود تھے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کہلاتے ہیں لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب توراۃ کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ توراۃ میں یہ بات آ چکی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نبی آنے والے ہیں لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو بالکل بدل کررکھ دیا تھا۔ وہ لوگ عام زندگی میں برے کام کرتے تھے، سود کا کاروبار کرتے اور حضرت عزیر کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا مانتے تھے اور فرشتوں کو نعوذ باللہ خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔
عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کی بھی پرستش کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب انجیل میں من مانی تبدیلیاں کر کے اس میں بگاڑ پیدا کر چکے تھے اور ان کی اصلی تعلیمات کو بھلا بیٹھے تھے۔
عرب میں کچھ لوگ دہر یے بھی تھے۔ ا ن کا عقیدہ تھا کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خودبخود ہو رہا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ یہ لوگ خدا کے وجود کے قائل نہ تھے بلکہ یہ زمانے یا دہر ہی کو سب کچھ مانتے تھے۔ ان کو دہریے کہا جاتا تھا۔
اس زمانے میں ایسے لوگ بھی تھے جو اب تک دین ِابراہیمی پر عمل پیرا تھے۔ وہ غلط باتوں سے بچتے تھے اور بتوں کی پرستش ناپسند کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔
اس وقت عرب کے لوگوں میں برائیاں اتنی بڑھ چکی تھیں کہ ان کی کوئی حد ہی نہ رہی تھی۔ یہ لوگ عورتوں کو بہت کم تر اور حقیر سمجھتے تھے۔ نہ عورتوں کی عزت کرتے اور نہ ان کو کوئی اہمیت دیتے۔ جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اس بات سے بہت ناخوش ہوتا، اسے اپنی بدقسمتی سمجھتا اور بیٹی سے نفرت کرتا، یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے پتھر دل بھی تھے جو بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے زمین میں گاڑ دیتے تھے۔
یہ لوگ طرح طرح کے اندیشوں اور واہموں میں مبتلا رہتے تھے۔ جنوں، بھوتوں اور دیوتاؤں سے خوفزدہ رہتے تھے، طرح طرح کے منتر، ٹونے ٹوٹکے اور تعویز استعمال کرتے۔ جب کوئی بیماری پھیل جاتی، قحط پڑ جاتا یا خشک سالی ہو جاتی تو یہ لوگ اس مصیبت کو اپنے خداؤں کی ناراضگی قرار دیتے۔پھر اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے طرح طرح کی قربانیاں دیتے اور نذر و نیاز کرتے، ان لوگوں میں عجیب و غریب باتیں مشہور تھیں۔مثلاً جب کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا تو وہ کہتے تھے کہ مقتول کی کھوپڑی سے ایک پرندہ نکلتا ہے جو اس وقت تک چلاتا رہتا ہے جب تک کہ اس کے قتل کا بدلہ نہ لیا جائے۔ وہ یہ بھی کہتے کہ الو کے بولنے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اس زمانے میں جادوگری کا بھی بڑا رواج تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ فرشتے یا جن جادوگروں کو سب کچھ بتا جاتے ہیں۔ کسی کو تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے یا اپنی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے جادوگروں کی خدمات حاصل کرتے تھے۔”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا معاملہ ہی درحقیقت وہاں کا عام دستور تھا کہ طاقتور لوگ جب چاہتے کمزوروں پر حملہ کر دیتے، ان کا مال و دولت، پانی، چراگاہ، مویشی پر قبضہ کر لیتے اور خوب لڑائی جھگڑے چلتے۔ انسانی جان کی کوئی قدر نہ تھی۔ بے گناہوں کا خون بہتا، ظالم کے لیے کوئی سزا نہ تھی۔اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ وہاں کوئی باقاعدہ اور مضبوط حکومت نہ تھی۔ نہ کوئی فوج تھی، نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ جان و مال۔
عرب کی طرح تمام دنیا گمراہی میں مبتلا تھی اور ہر طرف جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
(حالیؔ)

سرزمین عرب کا انتخاب
خدا تعالیٰ نے اسلام کی تحریک کے آغاز کے لیے عرب کی سرزمین کا انتخاب کیا۔ عرب، ایشیا، افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس لیے ایک حدیث میں عرب کو ناف زمین کہا گیا ہے۔ اگر یہاں کوئی تحریک چلے تو اس کے اثرات پوری دنیا میں با آسانی پھیل سکتے ہیں۔ عرب کی سرزمین سے ہمارے پیارے نبی ﷺنے اسلام کی تعلیمات کا آغاز کیا۔ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اسلام جیسی عظیم الشان دعوت کا آغاز عرب سے ہو اور یہاں سے یہ پیغام ربانی دنیا کے ہر گوشے اور ہر مقام تک پہنچ جائے۔
عربوں کے اندر جہاں بہت سی برائیاں تھیں وہاں کچھ خوبیاں بھی تھیں۔ عرب کھلے دشمن تھے۔ وہ عیاری و مکاری کے قائل نہ تھے۔ وہ بزدلی کے بجائے کھلا مقابلہ کرنے کے عادی تھے۔ وہ شجاعت، بہادری اور بے جگری سے لڑنے کے قائل اور تلوار کے دھنی تھے۔ ان کے اندر جرأت و مردانگی تھی، عزم و حوصلہ تھا اور جفاکشی تھی، وہ سخی تھے، مہمان نواز تھے، وعدے کے پابند تھے، غالباًانہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اس تحریک کو دور دور تک پھیلانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عربوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ایک فصیح و بلیغ زبان یعنی عربی کے ماہر تھے اور ایک عمدہ اظہار بیان رکھتے تھے۔
وہ ہر قسم کے خیالات و احساسات کو بخوبی ادا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ عربی زبان میں وہ لچک، لطافت اور وسعت الفاظ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام اسی زبان میں نازل فرمایا۔ عربوں کا حافظہ اتنا تیز تھا کہ قرآن پاک جیسی کتاب کو حضور ﷺ کے وصال سے پہلے آٹھ نو سو صحابہ کرام نے زبانی یاد کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سرزمین عرب پر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اتارا۔ آپ ﷺنے خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا۔ اس راستے میں بڑی مشکلات تھیں۔ بہت تکلیفیں اور پریشانیاں تھیں لیکن آپ ﷺنے ہمت نہیں ہاری۔ آپ ﷺاپنی تمام زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ صبر و استقامت سے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ اسلام کی روشنی نے عربوں کے دلوں کو منور کر دیا اور جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو اپنی بہادری و شجاعت کے لازوال کارنامے انجام دیتے چلے گئے اور اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے اہل عرب نے اسلام کا حقیقی اور ابدی پیغام دنیا کے دور دراز حصوں تک پہنچا دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top