skip to Main Content

ہم کاک داس

حبیب الرحمٰن

………..………..

ہندوستانی لوک کہانی

………………….

ایک چڑیا تھی اور ایک کوا۔۔۔ دونوں کے انڈوں میں سے بچے نکلنے والے تھے ،بد قسمتی سے اس زمانے میں ایسا قحط پڑا کہ نوبت فاقوں تک آپہنچی۔
بھوک نے بُرا حال کیا تو چڑیا اور کوے میں یہ طے پایا کہ اگر چڑیا کے بچے پہلے نکلیں گے تو وہ کوے کو دے دے گی کہ وہ کھائے اور اگر کوے کے بچے پہلے نکلیں تو وہ چڑیا کو دے دے گاکہ وہ انھیں کھالے۔
بھوک کے ہاتھوں بلبلائے چڑیا چڑے میں یہ بات حتمی ٹھہری اور وہ اپنی بھوک دبائے انڈے سیتے رہے۔ اتفاق یہ ہوا کہ کوے کے بچے پہلے نکل آئے۔ چڑیا نے معاہدہ یاد دلایا تو کوے نے اپنے بچے چڑیا کے حوالے کر دیے اور چڑیا ان کو مارکر تھوڑا تھوڑا روز کھانے لگی۔
چند دن کے بعد چڑیا کے بچے نکلے تو اس کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اب اسے اپنے بچے کوے کے حوالے کرنے تھے۔ چڑیا نے بہت کوشش کی کہ کوے سے اپنے بچے چھپائے لیکن ایک دن کوے کے کانوں میں چڑیا کے بچوں کے چوں چوں کرنے کی آواز پہنچ ہی گئی۔ کوے نے چڑیا سے کہا کہ معاہدے کے مطابق جب میرے بچے انڈوں میں سے نکلے تھے تو طلب کرنے پر میں نے وہ تمھارے حوالے کر دیے تھے اس لیے تم اپنے بچے میرے حوالے کرو۔ اب تو چڑیا بہت گھبرائی۔
چڑیا تھی بہت چالاک۔۔۔ کہنے لگی: ’’سر کار بچے تو میں آپ کوضرور دوں گی لیکن کل میں نے دیکھا تھاکہ آپ بھوک سے بیقرار ہو کر گاے کا ’’گند‘‘ کھا رہے تھے، آپ اپنا منھ پانی سے دھو آئیں تو میں اپنے بچے آپ کے حوالے کردوں گی۔ کوے نے کہا:’’ بہت اچھا میں ابھی منھ دھو کر آیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر کوا ایک کنوئیں کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا۔
’’کنور کنور تم کنور داس ہم کاک داس۔ دے پنروا (پانی) دھوئے چونچر وا (چونچ)، کھا چڑی کے چونچلے مٹکا مچھڑیاں۔۔۔‘‘
کنوئیں نے کہا کہ تجھ کو پانی چاہیے تو پانی بھرنے کے لیے کوئی برتن لے آ اور جتنا پانی تجھے چاہیے وہ لے لے۔
کوا وہاں سے اُڑ کر ’’کمہار‘‘ کے پاس گیا اور اس سے ’’ہنڈروا‘‘ دینے کی فرمائش کی۔ یہ ایک مٹی کے برتن کا نام ہے۔ کمہار نے کہا :’’کیوں۔‘‘ تو کوا کہنے لگا۔
’’کمہر کمہر تم کمہر داس ہم کاک داس، دے ہنڈروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔
کمہار نے کہا کہ تجھے برتن چاہیے تو جا اور مٹی لے آ میں تجھے ’’ہنڈروا‘‘ بنا کر دے دوں گا۔
کوا وہاں سے اُڑ کر مٹی کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا: ’’مٹر مٹر تم مٹر داس ہم کاک داس، دے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔‘‘
مٹی نے کہا :’’ بھئی جتنی بھی مٹی چاہیے لے جا پر مجھے کھودنے کے لیے کوئی شے لے آ۔‘‘
کوا سوچ میں پڑگیا کہ کیا چیز لائے اور کہاں سے لائے۔ پھر اس کو ہرن کا خیال آیا اور اس نے سوچا کہ وہ ہرن سے کہے گاکہ اپنا سینگ اس کو دے دے تاکہ اس کے سینگ سے وہ مٹی کھودے۔ یہ سوچ کر وہ اُڑتا اُڑتا ہرن کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ وہ اسے اپنا سینگ دیدے۔ ہرن نے حیرانی سے کوے کی بات سنی اور پوچھا کہ وہ اس کا سینگ کیوں مانگ رہا ہے تو کوے نے اپنی ساری بات دہرائی۔
’’ہرن ہرن تم ہرن داس ہم کاک داس۔۔۔ دے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔‘‘
ہرن نے کہا:’’ بھلا میں اپنا سینگ خود سے کیسے توڑسکتا ہوں۔ اچھا ایسا کرو تم اس کام کے لیے کسی موٹے تازے کتے کو لے آؤ، میں اس سے لڑائی کروں گا، اگر اس لڑائی کی وجہ سے میرا سینگ ٹوٹ گیا تو تم وہ سینگ لے جانا۔ ‘‘
کوے کی سمجھ میںیہ بات آگئی اور وہ کسی کتے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔ آخر کار اس کو ایک کتا نظرآیا تو وہ کتے کے پاس آیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ 
کتے نے اس سے کہا کہ میں ہرن سے کیوں جھگڑا کروں تو کوے نے اسے بھی اپنی ساری داستان سنائی، کہنے لگا:’’کتر کتر تن کتر داس ہم کاک داس لڑے ہرن وا، ٹوٹے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔
کتا کہنے لگا :’’ ہرن سے لڑنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں بہت کمزوری محسوس کررہا ہوں، بھوک بھی زوردار لگی ہوئی ہے، ایسا کرو تم میرے لیے تازہ تازہ دودھ لے کر آؤ، مجھ میں کچھ جان آئے گی تو میں ہرن سے مقابلے کے قابل ہوجاؤں گا۔‘‘
کوے نے کہا :’’تم یہیں رکو میں ابھی دودھ لے کر آیا۔ وہ اُڑتا اُڑتا ایک گاے کے پاس جا پہنچا اور دودھ کی فرمائش کی۔ گاے نے حیرت سے کہا تجھے دودھ سے کیا مطلب؟ کوے نے اسے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی بات بتائی۔۔۔
کوا کہنے لگا:’’ گگر گگر تم گگرداس ہم کاک داس۔ دے دودھروا، پیئے کتروا، لڑے ہرن وا، ٹوٹے سنگر وا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔‘‘
گاے نے کہا :’’ دودھ تو سارا اس کے مالک نے نکال لیا ہے۔ ہاں ایک کام کرو۔ میرے لیے کہیں سے اچھی سی گھاس لے آؤ، میں اسے کھاؤں گی، تھنوں میں دودھ بنے گا تو تم لے جانا۔‘‘
اب کوا اُڑتے اُڑتے ایک میدان میں اترا جس میں گھاس ہی گھاس اُگی ہوئی تھی۔اس نے گھا س کو بھی اپنی پوری کہانی سنائی۔۔۔
کہنے لگا: ’’گھسر گھسر تم گھسر داس ہم کاک داس۔ دے گھسروا، کھائے گگروا، بنے دودھروا، دے دودھروا، پیے کتروا، لڑے ہنوا، ٹوٹے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچر وا، کھاچڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔
گھاس نے بھی کوے کی داستانِ طویل بہت توجہ سے سنی اور کوے سے کہنے لگی :’’ اگر میری وجہ سے تمھارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو مجھے کیا اعتراض۔ مجھے تمھارے کام آکر خوشی ہی ہوگی۔ بس ایسا کرو کہ میرے کاٹنے کے لیے کوئی شے لے آؤ اور جتنی ضرورت ہو مجھے کاٹ کر لے جاؤ۔‘‘
کوا مشکل میں پڑگیاکہ اب کیا کرے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے لوہار کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے درانتی کے لیے کہے اور جب درانتی بن جائے گی ۔ وہ اس سے بہت ساری گھاس کاٹ کر گاے کے پاس لے جائے گا تاکہ وہ اس کو کھائے اور دودھ دینے کے قابل ہو جائے۔ 
وہ وہاں سے اُڑا ۔ لوہار کے پاس پہنچا اور درانتی کی فرمائش کی۔ کوے کی فرمائش پر لوہار کو بڑی حیرت ہوئی اور اس نے کوے سے کہا:’’ میاں کوے! تجھے درانتی کی کیا ضرورت پڑگئی۔‘‘
کوے نے اسے اپنی پوری کتھا سنائی، کہنے لگا:’’لوہر لوہر تم لوہر داس ہم کاک داس، دے درنتوا، کٹے گھسر وا، کھائے گگروا، دے دودھروا، پیئے کتروا، لڑے ہرن وا، ٹوٹے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔۔۔
لوہار اس کی اتنی جد و جہد اور درد بھری داستان سن کر بہت ہی متاثر ہوا اور اس نے اوروں کی طرح یہ نہیں کہا کہ جا اور جا کر کہیں سے لوہا لے آ، بلکہ اس نے کہا، میاں کوے بیٹھو، میں تمھیں ابھی ہاتھ کے ہاتھ درانتی بنا کر دیتا ہوں تاکہ تمھارا مسئلہ حل ہو سکے اور تم چڑیا کے بچے کھا سکو۔۔۔
کوا بہت خوش ہوا اور لوہار کے پاس ہی بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر کار اس کی محنت رنگ لے آئی اور اب وہ کچھ ہی دیر بعد چڑیا کے بچے مزے لے لے کر کھارہا ہوگا۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں لوہار نے لوہے کے ایک ٹکڑے کو آگ میں تپا کر خوب سرخ کیا اور اس کو درانتی کی شکل میں ڈھالنے لگا۔ وہ بار بار لوہے کو آگ میں سرخ کرتا اور درانتی کے شکل میں ڈھالنے لگتا۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر کوا دل ہی دل میں اور خوش ہونے لگتا۔
آخر کار درانتی تیار ہو گئی تو لوہار نے پوچھا کہ اسے کہاں رکھوں ۔کوا یہ سب دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ لوہار سے یہ کہنا ہی بھول گیا کہ اس کو ٹھنڈا کردے اور دونوں پَرپھیلا کر کہنے لگا: ’’درانتی میرے پروں پر رکھ دو۔‘‘ 
لوہار نے سرخ سرخ درانتی جونہی کوے کے پروں پر رکھی تو کوے کے منھ سے بس ایک زوردار چیخ نکلی اور کوا اسی وقت جل کر مرگیا۔
یہ خبر اُڑتے اُڑتے اور پھیلتے پھیلتے چڑیا کے کانوں تک بھی جا پہنچی کہ کوا جل کر مرگیا ہے۔ چڑیا نے اس خبر کو سنا تو بہت خوش ہوئی کہ اس کے بچے مرنے سے بچ گئے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top