skip to Main Content

ہم جیت گئے

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خرگو نے گردن اُٹھا کر اپنے سامنے کھڑے فرخو کی طرف دیکھا اور پھر سر کو اگلی ٹانگوں میں دے کر آرام سے بیٹھ گیا۔ فرخو نے محسوس کیا کہ اُس کا موڈ اچھا نہیں ہے۔ اس نے اپنا منہ خرگو کے جسم پر رگڑا اور آہستہ سے بولا:
”خرگوبھائی!… کیابات ہے… ایسے کیوں بیٹھے ہو؟“
خرگو نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بدستور ٹانگوں میں سر دیے بیٹھا رہا۔ فرخو کو تھوڑی فکر ہوئی۔ اُس نے بے چینی سے پوچھا۔ لہجہ قدرے بلند تھا:
”خرگو بھائی!…کیا بات ہے… میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے…طبیعت خراب لگتی ہے تمھاری۔“
اب خرگو نے سر اُوپر اٹھایا:
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
”ٹھیک ہو تو پھر ایسے کیوں بیٹھے ہو؟“ فرخو نے بے چینی سے کہا۔
”تم اپنی نانی کے ہاں سے کب لوٹے ہو؟“ خرگو نے جواب دینے کے بجائے اُلٹا سوال کر دیا۔
”ابھی تھوڑی دیر ہوئی آیا ہوں… خیرتو ہے۔“
”اِس کا مطلب ہے تمہیں کوئی خبر نہیں۔“
خرگو کی بات سن کر فرخو نے ایک ہلکا سا پنجا اُس کی کمر پر مارا اور اُونچی آواز سے بولا:
”کیا بات ہے اور ہاں!… میں نے آتے ہوئے جنگل میں مختلف جگہوں پر جلے ہوئے درخت اور جھاڑیاں وغیرہ دیکھی ہیں…کیا ہوا تھا میرے بعد؟“
”تم تھکے ہوئے آئے ہو… ذرا دَم لے لو…پھر بتاؤں گا۔“
”تم بات بتاؤ؟“ فرخو کا پارہ چڑھ گیا۔
خرگو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے شور کی آواز اُن کے کانوں میں آئی۔ دونوں نے گردنیں گھماکر دیکھا۔ بہت سے جانور روتے ہوئے اُن کی طرف آ رہے تھے۔ سب سے آگے کالو ریچھ تھا اور اُس کے ساتھ دھارو چیتا۔
فرخو نے حیرت بھری نظروں سے خرگو کو دیکھا اور بولا:
”معلوم ہوتا ہے،ہمارے جنگل میں کچھ خاص بات ہوئی ہے۔“
تمام جانور اُن کے پاس آکھڑے ہو ئے۔ فرخو حیرت سے اُنھیں دیکھ رہا تھا:
”خرگو بھائی! فرخو بھائی واپس آگئے ہیں!اب تم دونوں کو کچھ کرنا چاہیے۔“ کالو ریچھ نے جلدی سے کہا۔
”خرگوبھائی…! اگر شیر بادشاہ جلد نہ ملے تویہاں نہ جانے کیا ہوجائے!“ ننھی بندریا نے کہا۔
تمام جانور بے چین اورچہروں پر فکرمندی کے آثار لیے تھے۔ فرخو سمجھ نہ پایا کہ مسئلہ کیا ہے۔اُس نے اُلجھے ہوئے لہجے میں پوچھا:
”ساتھیو!… مجھے تو بتاؤ یہاں کیا ہوا ہے؟جنگل میں بہت سے درخت کیسے جل گئے اور شیر بادشاہ کہاں چلے گئے ہیں۔“
خرگونے ایک نظر جانوروں پر ڈالی، پھر کہنے لگا:
”اصل بات یہ ہے کہ ہمارے جنگل میں باہر سے بہت سے شکاری گھس آئے ہیں…اُنھوں نے درختوں کو جلانا اور پرندوں کو مارنا شروع کر دیا ہے… اِس صورت حال کو دیکھتے ہوئے شیر بادشاہ نے ایک دن تمام جانوروں کا اِجلاس طلب کیا۔ سب جمع ہوگئے، لیکن…“ خرگو خاموش ہوگیا۔
”لیکن… کیا؟“ فرخو نے بے چینی کا مظاہرہ کیا۔
”اُس دن شیر بادشاہ پنڈال میں نہ آئے تو سبھی کو تعجب ہوا…بھائی!… حقیقت یہ ہے… اپنے شیر بادشاہ کو کسی نے اغوا کرلیا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ کارنامہ اُن انسانوں کا ہی ہے۔“ خرگو نے کہا۔
”اگر یہ بات ہے تو پھر تمہیں چاہیے تھا… مل کر اُن پر حملہ کر دیتے۔اتفاق میں برکت ہوتی ہے… وہ تمھارے سامنے ڈھیر ہوجاتے۔“ فرخو نے جوش سے کہا تو خرگو مسکرانے لگا:
”ہم نے ایسا ہی کیا تھا لیکن ہمیں کامیابی نہ ملی… اِس حملے میں ہمارے بہت سے ساتھی ہلاک ہوگئے…کئی شیر اور ہاتھی اُن کے ہتھیاروں سے مارے گئے۔“
”میں نے ایک منصوبہ بنایا ہے، تمام دوستوں نے اُسے سراہا ہے۔ ہم تمھارا انتظار کر رہے تھے کیوں کہ اس منصوبے میں تمھارا بڑا کردار ہے۔ اب تم آگئے ہو تو مل کر اِس پر عمل کریں گے۔ مجھے یقین ہے، ہم دشمنوں کو بھگا دیں گے۔“ خرگو نے کہا۔ پھر وہ فرخو کو منصوبے سے آگاہ کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔

”ڈیوڈ!… جانوروں کو ہلاک کرناکوئی قابل فخر بات نہیں ہے…ہم نے یہاں بے شمار جانوروں کا شکار کیا ہے… اب واپس چلنا چاہیے… کہیں ایسا نہ ہوجانور ایک بار پھر حملہ کر دیں۔“ رائٹ کے لہجے میں تشویش پا کر ڈیوڈ زور سے ہنسا اور بولا:
”رائٹ!… تم بہت بزدل ہو۔مجھے حیرت اِس بات پر ہے کہ تم شکاری کیسے بن گئے کیوں کہ جتنی محبت تمھیں جانوروں اور پرندوں سے ہے… اِتنی تو انسانوں سے بھی نہیں۔“
رائٹ نے برا سا منہ بنایا اور قریب بیٹھے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:
”اِسے سمجھاؤ… یہ میرے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتا۔“
ساحل سے تھوڑے ہی فاصلے پر موجودچھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر دس افراد خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سب رائٹ کی بات سن کر ہنسنے لگے، ایک بولا:
”میرے خیال میں، ڈیوڈ غلط نہیں ہے……“
”ہم شکاری ہیں اور کچھ جانور پکڑ کر اپنے ملک لے جانا چاہتے ہیں۔ جانوروں کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے اور اس حق کو پورا کرنے میں اگر وہ اپنی جانوں سے جاتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے۔“ دوسرے نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہم نے بلا وجہ کچھ درخت جلا دیے ہیں، کیا ہمیں ایسا کرنا چاہیے تھا؟“ رائٹ نے غصے سے کہا۔
ڈیوڈ بڑے زور سے ہنسا۔ اُس نے پھونک مار کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی بندوق پر سے مٹی صاف کی اور بولا:
شاید…… یہ حرکت مناسب نہیں تھی۔“
شام ہونے کو تھی۔ ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ ان لوگوں کے دائیں طرف جھاڑیاں موجود تھیں۔ بائیں طرف لمبے لمبے درخت اپنی شاخیں جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ اُن کے عقب میں سمند رکا پانی لہریں لے رہا تھا۔ دوموٹر کشتیاں کچھ فاصلے پر موجود تھیں۔ سامنے جنگل کاوہ حصہ تھا، جہاں سے جانوروں نے ان پر حملہ کیا تھا۔ ڈیوڈ کو ٹھنڈی ہوا نے لطف دیا تو اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”یہاں لطف تو بے حد آ رہا ہے لیکن ممکن ہے، جانور اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے دوبارہ یہاں آئیں ……“
”اگر وہ دوبارا یہاں آئے تو زندہ واپس نہیں جائیں گے۔ ہماری یہ بندوقیں انہیں چاٹ جائیں گی……“
ڈیوڈ کے ایک ساتھی نے بات ختم ہی کی تھی کہ یکایک وہ سب چونک اُٹھے۔ دائیں طرف موجود جھاڑیوں میں سے پندرہ بیس کے قریب خرگوش نکل کر ان کے سامنے آ گئے اور پھر انہوں نے اُچھلنا، کودنا شروع کر دیا۔ ڈیوڈ، رائٹ اور اُن کے ساتھی حیرت سے اُنہیں دیکھنے لگے۔ رائٹ بولا:
”ارے! یہ یہاں آکر اُچھل کود کیوں کرنے لگے؟!“ اُس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”اس لیے کہ انہوں نے جان لیا ہے، وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اب ہمیں خوش کرنے آئے ہیں۔“ ڈیوڈ کے ایک کالے رنگ کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے، انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔“ ڈیوڈ مسکرایا۔
”کچھ بھی ہو، ان کا جھومنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اُس سفید خرگوش کو دیکھو… کیا عمدہ جھوم رہا ہے۔“
تمام خرگوش خوش تھے اور یوں جھوم رہے تھے جیسے کسی شادی پر خاص طور پر بلوائے گئے ہوں۔ ڈیوڈ اور اُس کے سب ساتھی بڑی دلچسپی سے خرگوشوں کو دیکھ رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔ اچانک ڈیوڈ نے بائیں طرف دیکھا تو چیخ اُٹھا:
”بھاگو! یہ خرگوش ڈراما کر رہے ہیں، جانوروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہم پر حملہ کرنے آ رہی ہے۔“
سب نے گھبرا کر اُس کی نظرو ں کا تعاقب کیا۔ بہت سے جانور ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ واپس پانی میں کھڑی کشتیوں کی طرف بھاگ اُٹھے۔دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ کشتیوں میں بیٹھ کرکھلے سمندر میں موجود اپنے چھوٹے سے بحری جہاز پر جا سوار ہوئے۔ بھاگتے ہوئے وہ اپنے ہتھیار جنگل میں ہی چھوڑ آئے تھے۔جہاز پر سوار ہوکرانہوں نے دیکھا۔ سارے جانور ساحل پر کھڑے چیخ رہے تھے۔ وہ سب بے حد غصے میں تھے۔ سب سے آگے خرگوشوں کی وہ جماعت تھی جو اُن کے سامنے آکر اچھل کود کرنے لگی تھی۔ ڈیوڈ اور اُس کے ساتھیوں کی حالت بہت پتلی تھی۔ رائٹ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
جانور دشمن بھگانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔وہ سب خرگو کی عقل مندی کی تعریف کر رہے تھے،کیوں کہ یہ شان دار ترکیب اُسی کی تھی۔ وہ فرخو سے بھی خوش تھے کہ اُس نے خرگوشوں کی پارٹی کی قیادت کی تھی اور خوب اُچھل کود سے دشمن کواپنی طرف متوجہ کیے رکھا تھا۔
”ہم جیت گئے۔“ خرگو اور فرخو نے خوشی سے نعرہ لگایااور وہ سب جنگل کو لوٹ گئے۔
اشعر نے خرگو اور فرخو کی کہانی ختم کی اور کتاب بند کرکے سوچنے لگا:
”اگر اُمت مسلمہ انھیں بے زبانوں کی طرح کی طرح متحد ہو کر اپنا دفاع کرے تو دشمن کی سازشوں کا توڑ کیا جا سکتا ہے۔“

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top