skip to Main Content

ہائے اللہ سانپ!

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔

نکلتی گرمیوں کی ایک سہانی شام تھی ۔آنگن میں پلنگ پڑے تھے۔امی جان اور خالہ جان پڑوسیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی حسبِ دستور تیری میری برائیاں کر رہی تھیں ۔سب کے منہ میں پان ٹھنسے تھے ،ساتھ ہی سروتا بھی مدھر تانیں اڑا رہا تھا۔

نارنگی کے پیڑ کے پاس ہم محلّے کے بچّوں کو’’عامِل معمول ‘‘ کا تما شہ دکھا رہے تھے۔ہم ’’عامل‘‘تھے اور ہماری خالہ زاد بہن سیما معمول ۔ہم ابّا جان کی کالی اچکن پہنے ہوئے تھے اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا ۔ہم نے ڈنڈا سیما کے منہ کے سامنے لہرایا اور بولے ’’کا لی مائی کلکتّے والی ،تیرا وار نہ جائے خالی۔چھو۔چھو ۔چھو۔‘‘اور سیما جھوٹ موٹ بے ہوش ہو کر پلنگ پر گر پڑی ۔ہم نے اس کے اوپر چادر ڈال دی اور بچوں سے بولے ’’دیکھئے صاحبان!‘‘کیا ہی کنڈل مار کے بیٹھا ہے جوڑا سانپ کا ۔اب ہم آپ کو جادو کا کھیل دکھائیں گے۔مگر پہلے آپ سڑک کو چھوڑ کر چارقدم آگے آ جائیں ۔ایسا نہ ہو پولیس والا چالان کر دے۔ٹھیک ہے۔اب بچہ لوگ زور سے تالی بجائے۔‘‘

اور بچہ لوگ نے اتنے زور سے تالیاں بجائیں کہ امی جان چیخ کر بولیں ’’اے بیٹے!کبھی تو چین سے بیٹھا کر توبہ ہے !سارا گھر سر پر اٹھا رکھا ہے۔موئی چھٹیا ں کیا آتی ہیں ،میری جان کو مصیبت آتی ہے۔‘‘یہ کہہ کر ایک پڑوسن کی طرف مڑیں اور بولیں ’’ہاں تو سروری ،میں کیا کہہ رہی تھی؟ارے ہاں!یاد آیا۔اس موئے ماسٹر رحمت علی کا ذکر تھا۔بہن اس کی مثل تو وہ ہے کہ اِیتر کے گھر تِیتر،باہر باندھوں کہ بھیتر۔اوچھے آدمی کو خدا پیسہ دیتا ہے تو وہ اِتراتا پھرتا ہے……..‘‘

امی جان کی گاڑی نے پٹری بدلی تو ہم نے پھر کھیل شروع کر دیا ’’ہاں تو مہربان !دیکھیے۔ہم نے اس لڑکی پر جادو کیا ہے ۔اب اس کا دماغ آئینہ کی ماِ فک ہو گیا ہے ۔ہم اس سے جو پوچھیں گا،یہ بالکل سچ سچ بتائیں گا۔‘‘

یہ کہہ کر ہم سیما سے بولے’’اے لکڑی۔۔۔۔آئی ایم سوری۔اے لڑکی !بتا تو کون ؟

سیما بولی’’معمول۔‘‘

ہم بولے ’’اور ہم کون؟‘‘

بولی’’نا معقول۔‘‘

ہم نے اس کے پیر میں چٹکی لی تو چیخ کر بولی ’’عامل،عامل۔‘‘

ہم نے کہا’’شاباش !اب بتا،جو پوچھیں گا،بتائیں گا؟‘‘

وہ ناک میں بولی’’بتائیں گا۔‘‘

ہم بولے ’’جوکِھلائیں گا وہ کھائیں گا۔‘‘

بولی’’جوتے نہیں کھائیں گا ،باقی سب کچھ کھائیں گا۔‘‘

ہم بولے ’’کھانے سے پہلے یہ بتا کہ یہ لڑکا کون ہے؟‘‘

بولی’’آئی ایم سوری۔آپ نے اتنی موٹی چادر اوڑھا دی ہے کہ ہمکو دکھائی نہیں دیتا ۔باریک چادر اوڑھائیے ۔پھر بتائیں گا۔‘‘

سب بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ہم نے کھڑے ہو کر سر کھجایا اور سوچنے لگے،بات کس طرح بنائیں ۔کہ ایک دم گڑ بڑ مچ گئی۔

ہمارا چھوٹا بھائی مسعود کمرے میں سے بھاگتا ہوا آیا ۔خوف کے مارے اس کا برا حال تھا ۔آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا ۔آتے ہی چیخ مار کر پلنگ پر چڑھ گیا اور بولا ’’گھگ گھگ گھگ گھگ۔‘‘

تمام عورتیں گھبرا گئیں ۔امی دوڑی دوڑی آئیں اور بولیں ’’میرے لال!میری جان!ماں صدقے ،ماں قربان !بتا تو سہی کیاہوا؟‘‘

مسعود میاں آنکھیں اور منہ دونوں پھاڑ کر بولے ’’گھگ گھگ گھگ گھگ۔‘‘

امی سر پیٹ کر بولیں’’ہے ہے !کسی آفت بلا سے ڈر گیا ہے۔اللہ کی امان ،پیروں کا سایہ ،دوست شاد دشمن ناشاد، نیکی کا بول بالابدی کا منہ کالا ،بسم اللہ الرّحمن الرّحیم۔۔۔یسین والقرآن الحکیم…….‘‘

خالہ جان بولیں ’’اے آپا،ہوش کے ناخن لو۔یا سین تو مرتے وقت پڑھتے ہیں ۔‘‘

مسعود کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔جب لاکھ پوچھنے پر بھی اس نے کچھ نہ بتایا تو ہم نے لپک کر دو چپت رسید کئے۔آپ منہ بسور کر بولے’’مارتے کاہے کو ہو؟کہہ تو رہیں کہ اندر کمرے میں سانپ ہے،کرسی کے نیچے۔‘‘

سانپ کا نام سن کر تمام عورتوں کو سانپ سونگھ گیا اور ہم بھی بغلیں جھانکنے لگے۔مگر پھرذرا ہمت کی اور گلا صاف کر کے بولے’’مگر آپ کمرے میں کیوں گئے تھے؟‘‘

مسعود صاحب بولے ’’ہم المای میں سے بسکٹ نکال رہے تھے۔‘‘یہ کہہ کر آپ نے سر کھجایا اور جلدی سے بولے’ ’ بسکٹ تھوڑی نکال رہے تھے۔ہم تو۔۔۔۔ہم تو۔۔۔کیا نام اس کا۔۔۔۔‘‘بسکٹوں کا نام سنا تو امی جان سانپ کو تو گئی بھول اور چیخ کر بولیں’’گھر میں کوئی چیز آجائے تو جب تک اسے کھا پی کر ختم نہ کر دیں یہ بچے مانتے تھوڑی ہیں ۔توبہ ہے!ایسے بچے بھی میں نے……..‘‘

خالہ جان بات کاٹ کر بولیں ’’اے آپا ،بسکٹوں کو چھوڑو ۔سانپ کی فکر کرو ۔‘‘

امی گھبرا کر بولیں ’’ارے ہاں !جا تو سعید ،بیٹھک میں سے ابا کو بلا لا ۔کہنا محلے کے آٹھ دس آدمیوں کو بھی ساتھ لیتے آئیں ۔‘‘

اور ہم جا ہی رہے تھے کہ ابا جان موٹا سا ڈنڈا لے کر اندر آگئے۔کسی بچے نے انہیں پہلے سے ہی خبر کر دی تھی۔پیچھے چچا جان بھی تھے۔آگے آگے یہ دونوں ،ا نکے پیچھے امی اور خالہ جان اور ان کے پیچھے ہم کمرے میں داخل ہوئے۔دائیں طرف کونے میں الماری تھی اور اس کے پاس ہی ایک کرسی رکھی تھی ۔برآمدے میں سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آرہی تھی اور اس دھندلی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ کرسی کے نیچے ایک پتلا سا کالا سیاہ ناگ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ہمیں غش آنے کو تھا کہ اباجان نے آگے بڑھ کے کمرے کی بتی جلا دی۔سارا کمرہ روشنی سے جگمگا اٹھا ۔امی جان نے اپنا وظیفہ شروع کر دیا ’’اللہ کی امان ۔پیروں کا سایہ ۔‘‘ابا جان بھی لاٹھی ہاتھ میں پکڑے آہستہ آہستہ کرسی کی طرف بڑھے اور سانپ کو لاٹھی میں لپیٹ کر اوپر اٹھا لیا ۔مگر یہ کیسا سانپ تھا ۔نہ تووہ تڑپا اور نہ اس نے بل کھایا ۔لاٹھی کے ساتھ اس طرح چلا آیا جیسے رسی ہو ۔ابا جان نے اسے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولے لا حول ولا قوۃ ۔یہ تو ازار بند ہے۔۔۔۔۔!‘‘

اب تو اتنے قہقہے پڑے کہ کان پڑی آواز نہ آئی۔مسعود میاں جھینپ کر بولے’’ہم نے دیکھا تھا تو یہ سانپ تھا ۔اب اس نے بھیس بدل لیا ہے۔‘‘

اس ہڑ بونگ میں رات کافی گزر گئی تھی ۔محلے کی عورتیں ایک ایک کر کے چلی گئیں اور ہم سب اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ امی نے زور کی جمائی لی اور بولیں ’’سعید میاں ،تمہارے سرہانے تپائی پر میں نے پانی کا جگ اور گلاس رکھ دیا ہے ۔رات کو پیاس لگے تو مجھے مت اٹھانا ۔ماشاء اللہ ۱۲ سال کے ہو گئے ہو ،ابھی تک ڈرتے ہو؟‘‘

سیما کھوں کھوں کر کے ہنسی تو ہمیں بہت غصہ آیا ۔بولے ’’امی ،میں ڈرتا تھوڑی ہوں ۔میں تو یہ سوچتا ہوں کہ آپ کو بھی پیاس لگی ہو گی۔ جائیے ۔آج سے میں آپ کو نہیں اٹھاؤں گا ۔‘‘

ابا جان بولے ’’میرا بیٹا بڑا بہادر ہے۔‘‘

’’اور کیا۔۔۔۔‘‘ہم سینہ پھلا کر بولے’’بڑا ہو کر میں تھانیدار بنوں گا اور سب سے پہلے سیما کو حوالات میں بند کروں گا ۔‘‘

سیما نے چادر تان لی اور بولی’’تھانیدار نہیں توجمعدار تو ضرور بنو گے۔‘‘یہ کہہ کر ہنسی اور آہستہ سے بولی’’بھنگیوں کے۔‘‘

ہم بھّنا کرایک دم اٹھ کر بیٹھ گئے اور تڑخ کر بولے ’’دیکھئے امی جان !اسے سمجھا لیجئے ورنہ۔‘‘

ابا جان نے کہا ’’بس اب پانی پت کی چوتھی لڑائی شروع ہو جائے گی ۔چلو سیما تم شمال کی طرف منہ کرو اور سعیدمیاں تم جنوب کی طرف ۔اب کوئی بولا تو اس کی خیر نہیں ۔شب بخیر۔‘‘

ہم نے بھی جواب دیا’’شب بخیر!‘‘اور آہستہ آہستہ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

اور……….آدھی رات کو سوتے سوتے ایک دم چونک اٹھے۔بالکل چت لیٹے ہوئے تھے ۔ چندا ماموں کی صاف اور چمکیلی روشنی میں،نیند کی ماتی ،ادھ کھلی آنکھوں سے ہم نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی کالی سیاہ،موٹی سی، لمبی سی ،چمکیلی سی چیز ہمارے سینے پر رینگ رہی ہے۔ پہلے تو سوچا کہ یوں ہی پڑے رہیں ،لیکن وہ چیز ،وہ کالی سیاہ اور چمکیلی سی چیز دھیرے دھیرے گردن کی طرف آرہی تھی ۔ہم نے زور سے نعرہ مارا۔آواز حلق ہی میں اٹک کر رہ گئی ۔آخر بڑی مشکل سے ہمت کی اورایک دم اس کالی سیاہ چمکیلی اور موٹی سی چیز کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور زور سے بولے ’’گھگ گھگ گھگ گھگ ۔‘‘

ہمارے پاس ہی امی جان اور خالہ جان کے پلنگ تھے اور کچھ دور ابا جان سو رہے تھے۔تینوں گھبرا کر اٹھ گئے ۔امی نے ہمیں سینے سے چمٹا لیا اور بولیں کیا ہوا ،میرے بیٹے !کیا ہوا میرے لال !‘‘ہم بتاتے کیا خاک ۔ڈر کے مارے ہوش و حواس گم تھے ۔بس گھگ گھگ گھگ گھگ کئے جا رہے تھے ۔امی جان نے فورا اپنا وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا ’’اللہ کی امان ،پیروں کا سایہ ،دوست شاد دشمن نا شاد ……..‘‘

ابا جان نے ڈانٹ کر پوچھا ’’بولتا کیوں نہیں ؟آخر ہوا کیا ؟اور یہ سیما کی چٹیا کیوں پکڑ رکھی ہے ؟اسے تو چھوڑ۔‘‘سب لوگ پریشان تھے مگر سیما منہ میں ڈوپٹاٹھونسے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘ابا جان جھلا کر بولے’’اس کے ہاتھ میں سیما کی چٹیا کیسے آئی ؟اور آئی تو اس نے شور کیوں مچایا؟اور شور مچایا تو اب خاموش کیوں نہیں ہوتا ؟‘‘

سیما بولی ’’خالو جان ،میں بتاؤں؟مگر پہلے بھائی جان کے ہاتھ سے میری چٹیا چھڑوا دیں ۔سخت درد ہو رہا ہے ۔‘‘

ابا جان نے ہماری مٹھیاں کھول کر اس کی چٹیا چھڑوا دی ۔ہم ابھی تک آنکھیں پھاڑے منہ کھولے،ٹانگیں پھیلائے اور ہاتھ اٹھائے الو کی طرح گھورے جا رہے تھے۔

سیما بولی’’با ت یہ ہوئی خالو جان کہ مجھے لگی پیاس ۔میں پانی پینے کے لئے بھائی جان کے سرہانے آئی ،گلاس میں پانی بھرا اور ان کی چار پائی پر بیٹھ کر پینے لگی۔اتفاق سے میری چٹیا ان کے سینے پر پڑگئی یہ سمجھے کہ سانپ ہے اور لگے کرنے گھگ گھگ گھگ۔‘‘

’’لا حول ولا قو ۃ ۔۔۔۔‘‘ابا جان ہنسنے لگے۔خالہ جان بولیں’’بیٹی،تیری چٹیا بھی تو دس گز لمبی ہے۔توبہ!ایسے بال بھی ہم نے کسی کہ نہیں دیکھے ۔جا ا ب جا کے سو جا ۔‘‘

صبح ہوئی تو ہم نے سیما کی خوشامد کی کہ اس واقعے کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔مگر توبہ!وہ سیما ہی کیا جو مان جائے۔اس نے سارے محلے کو یہ بات بتا دی اور ہوتے ہوتے۔ہمارے اسکول کے لڑکوں کو بھی ہماری بہادری کا یہ قصہ معلوم ہو گیا اور کئی مہینوں تک ہم شرم سے سر جھکائے جھکائے پھرے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top