skip to Main Content
ںظام

ںظام

محمدالیاس نواز

نظام زندگی اسی کا جس نے زندگی بنائی اور عطاء کی…

کردار:
خورشیدگل: ٹی وی میزبان
چار مہمان: علماء،دانشور
عدنان: ایک طالب علم
کالا: شیطان

پس منظر

عدنان ایک انتہائی ذہین اور با صلاحیت طالب علم ہے مگر آج کل ’کالے‘ کے نشانے پر ہے۔کالااس کے ذہن میں شکوک اور وسوسے ڈال جاتا ہے جس کی وجہ سے عدنان پریشان رہتا ہے۔وہ اپنی عمر سے بڑے سوالات کرنے لگا ہے اوران سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے ہر جگہ جاتا ہے، مختلف لوگوں سے ملتا ہے مگرمطمئن نہیں ہو پاتا،اسی سلسلے میں وہ آج ایک ٹی وی پروگرام میں شریک ہے۔

(پردہ ہٹتا ہے)

منظر

معروف ٹی وی چینل کے ایک دینی پروگرام کا سیٹ ہے ۔ پروگرام کا میزبان بالکل تیار بیٹھا ہے ،پروگرام شروع ہونے ہی والا ہے۔میزبان کی دونوں جانب صوفوں پر چار با وقار مہمان بیٹھے ہیں جبکہ میزبان کے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا ہے۔نوجوان کے پیچھے سیاہ لباس اور سیاہ چہرے کے ساتھ کالا کھڑاہے۔ سامنے بڑی تعداد میں ناظرین بیٹھے ہیں۔جیسے ہی پروگرام کے شروع ہونے کا وقت ہوتا ہے میزبان بول پڑتا ہے۔

میزبان:’’بسم اللہ الرحمن الرحیم،پروگرام’دین دروازہ‘ میں خوش آمدید،میں ہوں آپ کا میزبان ’خورشید گل‘جیساکہ آپ جانتے ہیں ناظرین کہ ہم اپنے پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو ڈسکس کرتے ہیں اور آج بھی ہم ایک اہم موضوع پر گفتگو کریں گے۔مگر ناظرین آ ج کا ہمارا پروگرام تھوڑا سا مختلف ہے ۔وہ اس طرح کہ آج اپنے مہمانوں سے میں سوال نہیں کروں گا بلکہ سوالات کے لئے بھی ہم نے ایک مہمان طالب علم’عدنان‘ کو دعوت دی ہے۔
عدنان بہت دور دراز کا سفر کرکے یہاں آئے ہیں۔ ان کے کچھ سوالات ہیں جن کے یہ جوابات چاہتے ہیں مگرآج تک یہ جن لوگوں سے ملے ہیں وہ انہیں مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔اسی لئے آج کے پروگرام کے لیے ہم نے بڑی سوچ بچار کے بعد علماء او ر دانشوروں کاانتخاب کیاہے۔(مہمانوں سے مخاطب ہو کر)میں مشکور ہوں آپ حضرات کا، اور چاہتا ہوں کہ آپ عدنان کے سوالات کے جوابات دیں۔‘‘

 
پہلاعالم:’’ہم ضرور اپنی پوری کوشش کریں گے، اس دعاء کے ساتھ کہ قدرت کی طرف سے ہمیں درست جواب دینے کی توفیق عطاء ہو۔‘‘

 
خورشیدگل:(ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے)’’عدنان! سوال کیجئے۔‘‘

 
عدنان:’’بہت شکریہ! آپ کا اور آپ کے چینل کا…. . جناب !میرا پہلاسوال یہ ہے کہ’دین‘کا مطلب کیا ہے؟‘‘

 
دوسراعالم:’’دین کا مطلب ہے’نظام زندگی‘یعنی زندگی گزارنے کاطریقہ۔‘‘

 
عدنان:’’جناب!زندگی گزارنے کا کیسا طریقہ؟‘‘

 
عالم:’’زندگی گزارنے کا ایسانظام یا طریقۂ کار جوہر جگہ ، ہر زمانے میں اور زندگی کے ہر معاملے میں راہنمائی فراہم کرتا ہو۔‘‘

 
کالا:(عدنان کے کان میں آہستہ سے)’’تم میرا نام مت لینا ،سارے سوالات اپنی طرف سے پوچھنا۔‘‘

 
عدنان:’’جناب! کیا زندگی گزارنے کے لئے کسی نظام یا کسی طریقے کا ہونا لازم ہے؟‘‘

 
تیسراعالم:(تعریفی نگاہ سے دیکھتے ہوئے)’’ تم نے اچھا سوال کیا….جی ہاں،ضروری ہے….دیکھو! انسان…دریا، درخت یا جانور نہیں کہ جن کے مزاج اور فطرت میں جتنی راہنمائی رکھ دی گئی وہ اسی پر چلتے رہتے ہیں اور ان کے لئے وہی کافی ہو تی ہے …..بلکہ انسان کواپنی گھر یلو زندگی،خاندان، رشتہ داروں سے تعلقات، روزگار کے معاملات،ملکوں کے نظام اور دوسری قوموں سے تعلقات کے لئے ایک طریقہ کار اور نظام زندگی چاہئے جبکہ انسان کے علاوہ باقی مخلوق کو ایسے معاملات درپیش ہی نہیں ہیں اس لئے انسان کے علاوہ باقی چیزوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں۔‘‘

 
کالا:(طالب علم کے کان کے پاس آہستہ سے) ’’جھوٹ بولتے ہیں،ان سے شعبے والا سوال کرو ،شعبے والا….دیکھتا ہوں کیسے جواب دیتے ہیں۔‘‘

 
عدنان:’’جناب!انسان زندگی کے ہر شعبے میں الگ الگ طریقۂ کار کو اپنا سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟آخر ہر معاملے میں ایک ہی نظام کو اختیار کرنا کیوں لازم ہے؟‘‘

 
کالا:’’شاباش!اب دیکھتا ہوں کیسے جواب دیتے ہیں…..بڑے چالاک بنتے ہیں‘‘

 
چوتھاعالم:(مسکراتے ہوئے)’’آپ جس ادارے میں پڑھتے ہیں۔کیا اس میں ایسا ہوتا ہے کہ پہلے پیریڈ میں ادارے کے اندر ملک شام کے کسی ادارے کا نظام چلتا ہو۔جب دوسر اپیریڈشروع ہوتاہو تو اندلس کے کسی ادارے کا نظام رائج ہو جاتا ہواور جیسے ہی تیسرے استاد کا وقت شروع ہوتاہو،نظام بدل کر انگلستان کا ہو جاتا ہو؟‘‘

 
عدنان:’’نہیں جناب،ایسا تو نہیں ہوتا۔‘‘

 
عالم:’’یاآپ کے ادارے کے ہر شعبے میں الگ الگ طریقۂ کار چلتا ہو؟مثلاً،دفتری کاموں میں انگریزوں کاطریقہ،پڑھانے میں عربوں کا،کینٹین میں چینیوں کا اور باقی سار ے کاموں میں حبشیوں کا…؟‘‘

 
عدنان:(بے اختیار ہنستے ہوئے) ’’جناب !ہر شعبے کا نظام الگ الگ کیسے ہو سکتاہے۔ سارے شعبے مل کر ایک ادارہ بناتے ہیں… ہر شعبہ الگ ادارہ نہیں ہوتا ….اور نظام تو پورے ادارے کا ہوتا ہے ہر شعبے کا الگ نہیں…اس لئے ایک ادارے میں تو ایک ہی نظام چل سکتا ہے۔‘‘

 
عالم :’’بس اسی طرح آپ کا پڑھنا الگ زندگی نہیں، آپ کا کمانا الگ زندگی نہیں،آپ کا رہنا سہنا الگ زندگی نہیں بلکہ یہ ایک ہی زندگی کے مختلف شعبے یا حصے ہیں جو مل کرایک زندگی بناتے ہیں،اور نظام زندگی پوری زندگی کے لئے ہوتا ہے ،ہر حصے کے لیے الگ الگ نہیں….لہٰذا!ہر حصے ،ہر شعبے اور ہرکام کے لئے الگ الگ ’دین‘نہیں ہو سکتا۔‘‘

 
کالا:(جھنجلاتے ہوئے)’’جھوٹ بولتے ہیں،بہت ہی تیز نکلے یہ تو……تم جلدی سے ملکوں اور قبیلوں والا سوال کرو۔‘‘

 
(عدنان ناراضی سے کالے کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو….’’ کر تو رہا ہوں سوال….. جلدی کس بات کی ہے…. ذرا حوصلہ تو رکھو‘‘….اورپھر سوال کرتا ہے۔)

 
عدنان:’’جناب !انسانی آبادی مختلف ملکوں ،قوموں اور قبیلوں کی شکل میں زمین کے مختلف خطوں میں رہتی ہے،کچھ انسان جنگلوں میں رہتے ہیں، کچھ پہاڑوں میں، کچھ صحراؤں میں اور کچھ شہروں میں۔ان کی زبان ، رنگ،رہن سہن،رسم و رواج اور سوچنے کے انداز بھی مختلف ہیں …..تو ان سب کے لئے ایک ہی نظام یا ایک ہی طریقہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

 
کالا:(آہستہ سے )’’شاباش!اب تو گئے یہ سب۔ جمے رہویہ سب بھاگ جائیں گے۔‘‘

 
پہلاعالم:’’اس کے جواب میں مجھے آ پ سے ایک سوال کرنا ہے۔‘‘

 
عدنان:’’جی جی ضرور!….کیجیے۔‘‘

 
عالم:’’آپ کے گھر میں یا خاندان میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک معاملے میں سب کی رائے مختلف ہو گئی ہو؟….یعنی رائے کا اختلاف ہو گیا ہو؟‘‘

 
عدنان:’’جی!بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ مختلف معاملات میں سب کی رائے الگ الگ ہوتی ہے۔ مثلاً…پچھلے سال والد صاحب اپنا مکان بنوا رہے تھے تو سب کی رائے مختلف تھی کہ اس کو کیسا ہونا چاہئے۔‘‘

 
عالم:(مسکراتے ہوئے)’’ رائے کے علاوہ کیا ہمارے گھرکے سب افرادکے چہروں کے نقش اور رنگ ،پسند اورنا پسند،خیالات اور لباس ایک جیسے ہوتے ہیں؟‘‘

 
عدنان:’’نہیں جناب‘‘

 
عالم:’’تو پھرہم سب اپنا الگ الگ نظام کیوں نہیں بنا لیتے؟….اس لیے کہ زمین کے مختلف خطوں میں رہنے سے انسان الگ الگ مخلوق تو نہیں بن جاتا ….. اور ناہی انسان کی فطرت بدلتی ہے۔ایسا بھی نہیں کہ ایک جگہ کا انسان منہ سے کھاتا ہوتو دوسری جگہ کا ہاتھ سے، ایک پاؤں کے بل پر چلتا ہوتو دوسراسر کے بل…. اگر زبان،رنگ،خیالات اور لباس کے فرق سے نظام الگ ہو جاتا تو قوموں،قبیلوں اور ملکوں کو چھوڑیے…. سب سے پہلے ایک ہی گھر میں ماں اور بیٹے کانظام الگ ہوتا…….اس سے پتا چلا کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسانوں کا نظام یعنی دین الگ نہیں ہوتا جیسے ایک گھر میں رہنے والوں کا دین الگ نہیں ہوتا۔‘‘

 
کالا:(غصے سے تلملاتے ہوئے)’’بیڑہ غرق ہو جائے اس کی مثالوں کا۔‘‘

 
عدنان:’’جناب !زمانوں کے گزرجانے سے انسان کا طریقۂ زندگی بدل نہیں جانا چاہئے؟انسان نے ترقی کر لی ہے،پہلے مٹی کے برتن استعمال کرتا تھا تو بھی نظام وہی تھااب چینی کے برتن استعمال ہوتے ہیں تو بھی نظام وہی ہے۔‘‘

 
دوسراعالم:’’بیٹا !میں آپ کو یہ بات دو حصوں میں سمجھاتا ہوں….آپ یہاں اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہیں ….کیا آپ کی ساخت بدل گئی ؟..یعنی آپ جب چلے تھے تو دو ٹانگیں تھیں مگر یہاں آتے آتے چار ہو گئی ہوں؟…..یا آپ انسان سے کوئی اور مخلوق بن گئے ہوں؟……یقیناًایسا نہیں ہوا کیونکہ منزلوں یا راستوں کے بدلنے سے مسافر نہیں بدلتا….بالکل اسی طرح زمانوں کا سفر طے کرنے کے باوجود یہ صدیوں کا مسافر یعنی انسان بھی نہیں بدلا..نہ اس کی ساخت بدلی، نہ فطرت بدلی،نہ اس کی ضرورتیں بدلیں اور جس ماحول میں وہ رہتا ہے ،نہ وہ ماحول بدلا….. تو جب انسان نہیں بدلا تو دین کیسے بدل جائے گا …..وجہ یہ ہے کہ دین کا تعلق راستے سے نہیں بلکہ مسافر سے ہے…ہاں!اگر مسافر سفر کرتے کرتے تبدیل ہو جاتا تو نظام بھی بدل جاتا….نہ مسافر بدلا نہ نظام….بات سمجھ آگئی بیٹا؟‘‘

 
عدنان:’’جی !اچھی طرح‘‘

 
عالم :’’ماشاء اللہ….یہ تو تھا جواب کا پہلا حصہ اور اب دوسرا حصہ…:جہاں تک آپ نے مثال دی مٹی یا چینی کے برتن کی…. تو بیٹانظام اس چیز کو نہیں دیکھتا کہ برتن مٹی کا ہے،چینی کا یا لکڑی کا … اور اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ اس میں جو کھانا ہے وہ گوشت ہے یا سبزی اور یہ کس طریقے سے پکا ہوا ہے….نظام کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہے بلکہ وہ یہ پوچھتا ہے کہ یہ برتن جائز طریقے سے حاصل کیا گیا ہے یا ناجائزطریقے سے؟ ….اور اس میں جو کھانا ہے وہ حلال ہے یاحرام ….نظام زندگی یعنی دین چیزوں کو نہیں دیکھتا ،اصولوں کی بات کرتا ہے…..یہی وجہ ہے کہ چیزیں نئی ہوں یا پرانی اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ دین کے اصول کبھی پرانے نہیں ہوتے۔‘‘

 
عدنان:’’جناب !یہ بات تو سمجھ آگئی کہ نظام زندگی لازمی ہے ،یہ بھی کہ ہر شعبے میں ایک ہی نظام چلے گا، یہ بھی کہ جغرافیے اور زمانے کے بدلنے سے نظام نہیں بدلتا……میرا آخری سوال ہے کہ …… کون سا نظام زندگی بہتر نظام زندگی ہے؟‘‘

 
تیسراعالم :’’بیٹا یہ سوال ہی غلط ہے کہ کونسا نظام زندگی؟ کیوں کہ دین صرف ایک ہی ہے …اور وہ ہے اس قدرت کا نظام زندگی جس نے زندگی بنائی اور عطاء کی۔‘‘

 
کالا :(غصے میں شور مچاتے ہوئے)’’جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے نظام زندگی ہیں جن پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ہائے ہائے ….میری ساری محنت ضائع کردی ان ظالموں نے۔ ‘‘

 
کالا غصے میں زمین پر پاؤں مارکررونے دھونے، چیخنے چلانے لگتا ہے ۔عدنان تیزی سے اٹھ کرجوتی اتارکر اس کی طرف بڑھتاہے….. کالا تیزی سے بھاگتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کے پیچھے با ہر نکل جاتے ہیں….مہمانوں کے قہقہوں اور ناظرین کی تالیوں کی گونج میں …….( پردہ گرتا ہے)۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top