skip to Main Content

گھوڑوں کا سردار

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔

بادل ایک ایسی غلطی کرکے اِترا رہا تھا جس کا انجام اچھا نہیں تھا

۔۔۔۔۔۔

چودھری الیاس کے باڑے میں سولہ گھوڑے تھے۔ جن میں سے کچھ کا رنگ بھورا تھا اور کئی بالکل سیاہ تھے۔ صرف ایک گھوڑے کا رنگ سفید تھا۔ اس کا نام بادل تھا چوں کہ وہ اکلوتا سفید گھوڑا تھا اس لیے ہمیشہ اِتراتا رہتا تھا۔
وہ کہتا: ”تم سارے عام سے گھوڑے ہو۔ تم میں صرف میرا رنگ ہی گورا ہے اس لیے تم سب کو مجھے اپنا سردار مان لینا چاہیے۔“ دوسرے گھوڑے ہمیشہ اس کی بات سنتے، اسے بے وقوف گردانتے اور اسے نظر انداز کرکے منھ اس کی طرف سے موڑ لیتے۔
ایک دن بادل دلکی چال چلتا ہوا تالاب کے پاس گیا اور ساکن پانی میں غور سے اپنے آپ کو دیکھنے لگا، وہ خود سے باتیں کرنے لگاکہ میری ایال بہت لمبی ہے اور اس کے بال بھی بہت بے ترتیب ہیں، میرا خیال ہے مجھے اپنے ایال کے بالوں کو کٹوا لینا چاہیے۔ اس سے میں بہت خوب صورت دکھائی دوں گا اور باقی گھوڑے مجھے اپنا سردار تسلیم کرلیں گے۔ لہٰذا وہ نزدیکی پہاڑی پر جا کر کھڑا ہوگیا اور اس پری زاد کا انتظار کرنے لگا جو خود بھی پورے چاند کی روشنی میں اپنے دیدہ زیب گھوڑے پر سوار ہو کر آتا تھا۔ پری زاد کا گھوڑا اتنا سفید تھا جیسے برف۔ اس کی دودھیا ایال ہیروں سے جڑی ہوئی تھی اور اس کی دُم انتہائی شائستگی سے تراشی گئی تھی اور وہ زمرد کے ننھے ننھے پتھروں سے سجی ہوئی تھی اور انتہائی دلفریب دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے پریاں اور پری زاد جتنے خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے گھوڑے بھی اتنے ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔
پری زاد آیا تو بڑا سفید گھوڑا بادل دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور ہنہنا کر اسے کہنے لگا: ”کیا آپ میری مدد کردیں گے؟ مجھے آپ سے ایک کام آن پڑا ہے۔“
پری زاد بولا: ”کیوں نہیں؟ بڑی خوشی سے۔“
بادل نے کہا: ”میں چاہتا ہوں کہ آپ میری ایال کے بال چھوٹے کردیں اور میری دم بھی کاٹ کر اتنی چھوٹی کردیں جتنی چھوٹی آپ کے گھوڑے کی دُم ہے۔“ پری زاد یہ بات سن کر بہت پریشان ہوگیا۔
وہ بولا: ”میں یہ کام کسی صورت نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کام ہونے کے بعد تم سخت پچھتاﺅگے۔“
اب بادل کے لہجے میں سختی عود آئی وہ بولا: ”آپ ویسا ہی کریں جیسا میں چاہتا ہوں۔ اصل میں‘ میں یہاں کے تمام گھوڑوں کا سردار بننا چاہتا ہوں۔ اس لیے مجھے ان سب گھوڑوں میں سب سے زیادہ خوبصورت بھی لگنا چاہیے تاکہ وہ مجھے فوراً سردار مان لیں۔ مہربانی فرما کر اور اپنی سب سے تیز اور بڑی قینچی لے کر آئیں اور وہی کریں جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔“
پری زاد نے اسے کہا: ”بادل! تم پچھتاﺅگے۔“ یہ کہہ کر وہ قینچی لینے کے لیے روانہ ہوگیا۔
جب وہ واپس آیا تو بادل وہیں ساکت کھڑا تھا وہ بے صبری سے بولا: ” جلدی جلدی ایال کے بال چھوٹے کردو۔ اتنے چھوٹے کردو جیسے کسی برش پر لگے ہوئے بال کھڑے ہوتے ہیں۔ مجھے ہر صورت بہت خوبصورت دکھائی دینا ہے۔“
اس کے کہنے پر پری زاد اس کی خوبصورت ایال پر قینچی چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ اس کی ایال کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اب ایال کی جگہ گھوڑے کی پشت پر ننھے ننھے بال خودرو کانٹوں کی طرح کھڑے تھے۔
بادل بولا: ”اب میری دُم بھی“ اور یہ کہہ کر وہ مڑا اور اپنی پشت پری زاد کی طرف کردی تاکہ وہ دم کاٹ سکے۔ پری زاد کہنے لگا: ”بادل تمھاری اتنی عمدہ اور لمبی دُم ہے، میرا دل نہیں کرتا کہ میں اسے کاٹوں۔ مجھے یقین ہے کہ بعد میں تم بے حد پچھتاﺅگے۔“
بادل ناراضی سے بولا: ”مہربانی فرما کر ویسا کریں جیسا میں کہتا ہوں۔“ لہٰذا مجبوراً پری زاد کو اس کی لمبی دم ایک پھندنے میں تبدیل کرنی پڑی جو اس کی پیٹھ پر لگا ہوا رہ گیا۔ بادل ایک دفعہ پھر تالاب کے پاس گیا اور چاند کی چاندنی میں خود کو ساکن پانی میں دیکھنے لگا اور پھر خوشی سے بولا: ”واہ! وا! میں تو بہت خوبصورت دکھائی دے رہا ہوں۔ اب جب دوسرے گھوڑے میرے ساتھ کھڑے ہوںگے تو بہت بھدے دکھائی دیں گے۔“
اگلی صبح بھورے اور سیاہ گھوڑے بادل کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ وہ اسے ایال کے بغیر اور کٹی ہوئی دم کے ساتھ دیکھ کر ششدر تھے۔ وہ حیرانی سے اس کے اردگرد دوڑتے رہے اور وہ شاہانہ انداز سے ان کے درمیان کھڑا رہا۔
وہ فاتحانہ انداز میں ہنہنا کر ان سے کہنے لگا: ”بتاﺅ میں شاندار لگ رہا ہوں یا نہیں؟ کیا میں تم سب سے خوبصورت نہیں ہوں؟ کیا اب بھی تم مجھے اپنا سردار نہیں مانتے؟ یہ بات سن کر سبھی گھوڑے اس کی باتوں کی تائید کرنے لگے ماسواے ایک گھوڑے کے، سب گھوڑوں نے اسے اپنا سردار مان لیا جس گھوڑے نے اسے سردار تسلیم نہیں کیا وہ ایک عقل مند اور بوڑھا گھوڑا تھا۔
وہ ہنہناتے ہوئے قہقہہ لگا کر بولا: ”تم واقعی شاندار لگ رہے ہو لیکن سردار وہ نہیں ہوتا جو شاندار لگے، بلکہ اس کی ذہانت اور معاملہ فہمی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، کیا تم واقعی عقل مند ہو؟ نہیں! بادل میں زندگی میں جتنے گھوڑوں سے ملا ہوں، تم سب سے بے وقوف ہو، دوسرے گھوڑے چاہیں تو تمھیں اپنا سرار بنالیں لیکن تم میرے سردار کبھی نہیں بن سکتے۔“
بادل ناراض ہو کر پوچھنے لگا: ”کیا وجہ ہے تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو؟“
بوڑھے گھوڑے نے جواب دیا: ”گرمیاں آئیں گی تو تمھیں میری بات سمجھ آجائے گی۔“ یہ کہہ کر وہ دوسرے کھیت میں اُگی ہوئی لمبی گھاس کھانے چلا گیا۔ اب بادل بہت خوش تھا۔
دوسرے گھوڑے اس کا حکم مان رہے تھے۔ وہ اس کی تعریفیں اور خوشامد کررہے تھے۔ وہ اسے بتا رہے تھے کہ اس کی ایال کتنی خوبصورت لگ رہی ہے اور اس کی کٹی ہوئی دم کتنی زبردست لگ رہی ہے۔ وہ بولے۔ ”ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری دُمیں اور ایال بھی آپ کی طرح خوبصورت ہوجائیں۔“ لہٰذا جب پورے چاند کی رات پری زاد دوبارہ آیا تو تمام گھوڑے اس کے اردگرد اکھٹے ہوئے اور اس سے منت سماجت کرنے لگے کہ اپنی قینچی ان کے لیے بھی لے کر آئے۔
لیکن یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئے اور غصے میں بھی آگئے جب بوڑھا گھوڑا دوڑتا ہوا پری زاد کے پاس آیا اور اسے منع کیا کہ وہ گھوڑوں کی بات نہ مانے۔ پری زاد نے بوڑھے گھوڑے کی بات مانی۔ وہ اپنے خوبصورت گھوڑے پر سوار ہوا اور روانہ ہوگیا۔ اسے دلی خوشی ہورہی تھی کہ اسے کسی گھوڑے کی دُم یا ایال پر قینچی نہیں چلانی پڑی۔ سارے گھوڑے بوڑھے گھوڑے سے بہت ناراض تھے۔ اُنھوں نے اسے دولتیاں ماریں اور کاٹنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی جواب میں اتنے غصے سے ہنہنایا کہ باقی گھوڑے اس سے خوف زدہ ہوگئے۔
بوڑھا گھوڑا انھیں کہنے لگا۔ ”گرمیاں آنے کا انتظار کرو اور اس کے بعد بھی اگر تمھاری یہ خواہش برقرار رہی کہ تمھاری دُمیں کاٹ دی جائیں تو میں تمھاری راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔ پھر تم مجھے دولتیاں بھی رسید کرلینا اور بے شک کاٹتے بھی رہنا میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میری درخواست ہے کہ گرمیوں کا انتظار کرلو۔“ آخر گرمیاں آہی گئیں۔
لہٰذا سب نے گرمیوں کا انتظارکیا اور وہ اپنے ساتھ لاکھوں مکھیاں بھی لائیں، جو گھوڑوں کے اردگرد منڈلانے اور بھنبھنانے لگیں۔ وہ ان کی ناک اور آنکھوں پر بیٹھنے لگیں۔ اُنھوں نے بے چارے گھوڑوں کو پاگل کردیا۔ وہ ان مکھیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلسل دُمیں ہلانے پر مجبور ہوگئے۔ وہ ان مکھیوں کو ہٹانے کے لیے اپنی ایال کا بار بار استعمال کرے۔ ماسواے ایک گھوڑے کے سبھی ایسا کررہے تھے۔
اور وہ گھوڑا تھا جس کی نہ کوئی ایال تھی اور نہ ہی دم۔ جس سے وہ ان مکھیوں کو خود سے اُڑاسکتا۔ بادل کی حالت اب بہت بُری تھی۔ وہ اپنے کانوں اور جسم کو بار بار تھرتھرا رہا تھا کہ کسی طرح ان مکھیوں کو اُڑاسکے لیکن وہ مسلسل اس پر بیٹھ رہی تھیں۔ اب اسے بوڑھے گھوڑے کی ذہانت پر رشک آرہا تھا۔ اب اسے شدید خواہش ہورہی تھی کہ کاش اس کی ایال ہوتی۔ اس کی لمبی دُم ہوتی، بے شک ان کے بالوں کی کوئی ترتیب نہ بھی ہوتی اب اس کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔
دوسرے گھوڑے بھی دم بخود تھے کہ ان کا سردار اپنی مکھیاں نہیں اُڑاسکتا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر بادل کی تقلید میں انھوں نے بھی ایال اور دُم پر قینچی پھروالی ہوتی تو ان کا حال بھی اس جیسا ہی ہوتا۔ وہ بولے۔ ”تم سردار بننے کے قابل نہیں۔ ہم بوڑھے گھوڑے کو سردار بنائیں گے کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا نہیں؟“
پھر اُنھوں نے بوڑھے گھوڑے کو اپنا سردار بنالیا۔ بوڑھا گھوڑا بہت خوش تھا لیکن اس نے یہ بات کسی پر ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ عقل مند بھی تھا اور نیک دل بھی۔ جب اس نے بادل کی حالت دیکھی جو تنہا بے چارگی کے عالم میں کھڑا تھا اور اپنی مکھیاں بھی نہیں اڑا سکتا تھا۔ اس نے دوسرے گھوڑوں کو کہا کہ اس کے اردگرد نزدیک ہو کر کھڑے ہوجائیں۔ وہ کھڑے ہوگئے اور ان کی اردگرد ہلتی ہوئی دُموں سے بادل کے جسم سے بھی مکھیاں اُڑنے لگیں…. وہ سب کا بہت شکر گزار تھا۔
چودھری الیاس کے کھیتوں میں ابھی بھی وہ سولہ گھوڑے موجود ہیں لیکن تم ان میں سے کوئی گھوڑا ایسا نہیں دیکھو گے جس کی ایال یا دُم کٹی ہوئی ہو۔ اب بادل کی ایال کے بال دوبارہ لمبے ہوگئے ہیں اور اس کی دم بھی پہلے جتنی ہوگئی ہے کیوں کہ اسے سبق مل چکا ہے کہ ”خدا نے جو جاندار جس طرح بنایا ہے اسے اپنی حکمت سے بنایا ہے۔“
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top