skip to Main Content

گڑبڑ مدد

کہانی: Meddle Tries to Help
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پڑھیے، گڑبڑ خان نے کسی کی مدد کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گڑبڑ خان آج صبح سے ہی بہت خوش گوار موڈ میں تھا۔ ”خالہ بتائیے! آج میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ آج میں آپ کا ہر کام خوشی خوشی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ “ اس نے ناشتے کی میز پر کہا۔
”مجھے تمھاری مدد کی بالکل ضرورت نہیں، شکریہ۔“
خالہ نے فوراً کہا۔
”پچھلی دفعہ جب تم نے میرے باغیچے کی گھاس کاٹنے کی پیش کش کی تھی تو گھا س کے بجاے سارے پودے جڑ سے اُکھاڑ دیے تھے۔ اب میں تم سے کوئی مدد لینے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی۔“
”خالہ! یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ آپ کسی کو مدد یا نیکی کا کام کرنے سے روکیں۔“ گڑبڑ خان نے چڑ کر کہا۔ ”ٹھیک ہے، تم مدد کرو، ضرور کرو مگر گھر سے باہر جا کر کسی اور کی، میری نہیں، خدا کا واسطہ! مثلاً چڑچڑی بیگم کی مدد کرو جو پچھلے ہفتے گر گئی تھیں۔ تم جا کر اُن کے کام کاج میں ہاتھ بٹاسکتے ہو، اُن کا سودا سلف لاسکتے ہو۔“
”مجھے چڑچڑی بیگم بالکل پسند نہیں، وہ زبان کی بہت تیز ہیں۔“ گڑبڑ خان نے جلدی سے کہا۔
”زبان کی تو میں بھی بہت تیز ہوں اور اگر تم نے میری جان نہیں چھوڑی تو میں اس کا اچھی طرح استعمال کرسکتی ہوں۔“ خالہ نے تیز لہجے میں کہا۔
”اچھا! میں جا کر چڑچڑی بیگم سے پوچھتا ہوں کہ اُنھیں کسی کام میں میری مدد کی ضرورت تو نہیں! کاش کہ نہ ہو!“ گڑبڑ خان نے آخری الفاظ دل میں ادا کیے۔
ناشتے سے فارغ ہو کر وہ چڑچڑی بیگم کے گھر گیا تو چڑچڑی بیگم اپنی کالی بلی کو بُرا بھلا کہہ رہی تھیں۔
”بلیکی! میں تمھیں گھر سے باہر نکال دوں گی۔ تم بہت سست اور نکمی ہوتی جارہی ہو۔ سارا دن بس سوتی یا کھاتی رہتی ہو اور تمھارے راستے میں لیٹنے کی وجہ سے ہی میرا پاﺅں تم پر پڑا تھا جس کی وجہ سے میں گر گئی تھی اور اب دیکھو! میں اپنا کوئی کام نمٹانے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔“ بلیکی نے اس لعن طعن کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ وہ اطمینان سے بیٹھی اپنا منھ ہاتھ دھوتی رہی۔ گڑبڑ خان نے دروازے پر دستک دی۔
”کون ہے؟ اندر آجاﺅ؟“چڑچڑی بیگم نے آواز لگائی۔
”میں گڑبڑ خان!“ اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”اور تم کیوں صبح، صبح نازل ہوگئے؟ ارے ارے! بچ کے! تم نے بلی کی دُم پر پاﺅں رکھ دیا۔“ چڑچڑی بیگم چلائیں۔
”افوہ! ایک تو کالی بلیوں کو کبھی بھی کالے قالین پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ دیکھیے! آپ کی بلی نے مجھے کیسا پنجہ مارا ہے اور میں اس وقت آپ سے صرف یہ پوچھنے آیا تھا کہ کیا میں آپ کے لیے شاپنگ کرسکتا ہوں؟ نیکی کا بڑا اچھا انعام ملا ہے مجھے۔ ٹانگ پر اتنا لمبا زخم!“ گڑبڑ خان نے ٹانگ سہلاتے ہوئے کہا۔
”اوہو! یہ کوئی خاص زخم نہیں ہے، معمولی سی خراش ہے۔ اتنا شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے۔“
چڑچڑی بیگم نے تنک کر کہا پھر ذرا نرم لہجے میں بولیں۔ ”ہاں! تم میرے کچھ کام نمٹاسکتے ہو۔ بے شک تم ایک رحم دل لڑکے ہو۔“
”آپ مجھ سے کیا کام لینا چاہتی ہیں؟“
گڑبڑ خان نے بلی سے ہر ممکن حد تک دور ہوتے ہوئے پوچھا۔ ”تم میرے کتے کو جانوروں کے کلینک سے واپس لے آﺅ۔ اس کے علاوہ مجھے لانڈری سے اپنا ایک سوٹ بھی منگوانا ہے۔“
”آہم! کام تو آسان ہیں مگر…. مگر آپ کا کتا خونخوار تو نہیں ہے؟“ گڑبڑ خان نے گھبراتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں! وہ تو بھیڑ کی طرح معصوم ہے۔“ چڑچڑی بیگم مسکرائیں۔ ”وہ تو بلاوجہ بھونکتا بھی نہیں ہے۔ بہت ہی نفیس اور نرم مزاج کتا ہے۔ بس تم اس کی رسی پکڑ کر آگے آگے چلنا اور وہ تمھارے پیچھے پیچھے شرافت سے چلتا رہے گا۔“ گڑبڑ خان نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا۔
”اور آپ کے کپڑے؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ بھی بالکل تیار ملیں گے۔ “چڑچڑی بیگم نے جواب دیا۔
”میں یہ پرچے پر لکھ کر دے رہی ہوں تاکہ تمھیں یاد رہے۔ میرا سوٹ سفید رنگ کا ہے۔ جس کا کالر سیاہ ہے اور یہ میں جانوروں کے ڈاکٹر کے نام بھی ایک رقعہ لکھ کر دے رہی ہوں تاکہ وہ میرے کتے کو تمھارے ساتھ بھیج دیں۔ میرا کتا بھورے رنگ کا ہے جس کی پشت پر دھبے ہیں۔ میں نے رقعہ لکھ دیا ہے۔ اب تم کوئی غلطی نہیں کرسکتے۔“ گڑبڑ خان نے کپڑوں والا پرچہ ایک جیب میں ڈالا اور ڈاکٹر کا رقعہ دوسری جیب میں۔
”اچھا تو پھر خدا حافظ ! میں جلد ہی آپ کا کتا اور کپڑے لے کر واپس آﺅں گا۔“
وہ ڈاکٹر کے کلینک کی جانب روانہ ہوگیا۔ کلینک کے مرکزی دروازے پر دستک دینے کے باوجود جب کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ گھوم کر پچھلی سمت آگیا۔ یہاں مختلف کتے پنجروں میں بند تھے۔ گڑبڑ خان کو دیکھتے ہی وہ سب بھونکنے لگے۔ کلینک سے پریشان ملازمہ پچھلے حصے میں یہ دیکھنے آئی کہ کتے کیوں شور مچارہے ہیں۔ ”جی! آپ کو کیا کام ہے؟ کیا آپ اپنا کتا لینے آئے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”جی ہاں! مجھے چڑچڑی بیگم نے اپنا کتا لینے بھیجا ہے۔“ گڑبڑ خان نے جواب دیا۔
”وہ کیسا کتا ہے؟ کیا آپ اُسے خود پنجرے سے نکال سکتے ہیں؟ دراصل ڈاکٹر صاحب اس وقت موجود نہیں ہیں اور میں ایک زخمی کتے کی مرہم پٹی کررہی ہوں۔ اسے بہت دیر کے لیے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ۔“ ملازمہ نے جلدی جلدی کہا۔
”کوئی بات نہیں۔“ گڑبڑ خان نے یہ کہتے ہوئے اپنی جیب سے پرچی نکالی۔
”میرے پاس کتے کی نشانی لکھی ہوئی ہے۔ وہ ایک سفید کتا ہے۔ جس کا سیاہ کالر ہے۔“ اس نے تمام کتوں کا جائزہ لیا۔ آخر اسے بڑے پنجرے میں ایک بہت بڑا سفید کتا نظر آگیا، جس کے گلے میں سیاہ پٹا پڑا ہوا تھا۔ ”اوہ! یہ تو بہت بڑا کتا ہے!“ گڑبڑ خان نے فکر مند ہوتے ہوئے سوچا۔
”لیکن خیر! چڑچڑی بیگم کا کہنا ہے کہ اُن کا کتا بھیڑ کی طرح معصوم اور خاموش طبیعت کا ہے۔ آجاﺅ پیارے کتے! گھر چلیں۔“
کتا گڑبڑ خان کو دیکھ کر کچھ حیران تھا اور جب اس نے پنجرے کا دروازہ کھول کر باہر نکالا تو مزید حیران نظر آیا۔ ”گھر چلو منے!“ گڑبڑ خان نے اس کی زنجیر کھینچتے ہوئے کہا۔ کتا غرایا۔ گڑبڑ خان حیران رہ گیا۔
”اوہ شریر کتے! تمھاری مالکن نے تو کہا تھا کہ تم کبھی نہیں بھونکتے۔ اب آرام سے میرے ساتھ آﺅ۔“
وہ کتے کی زنجیر کھینچتے ہوئے باہر نکلا۔ کتا مسلسل بھونک رہاتھا۔
”تم اتنے تمیز دار تو نہیں ہو جتنا تمھاری مالکن تمھیں سمجھتی ہیں۔ آرام سے چلو ورنہ میں تمھارا سر توڑ دوں گا! کیا سمجھے احمق؟“ گڑبڑ خان نے کتے کو ڈانٹا۔
جواب میں کتا اتنی زور سے بھونکا کہ گڑبڑ خان ڈر کر اُچھل پڑا۔ کتا اب سڑک پر ڈٹ کر بیٹھ گیا اور گڑبڑ خان کو اسے گھر پہنچانا مشکل نظر آنے لگا۔ پھر اس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا۔ سامنے ہی قصائی کی دُکان تھی۔ ”میں ایک بڑی سی ہڈی خریدوں گا اور تم اس کی بو پا کر میرے پیچھے پیچھے چلے آﺅ گے۔ ہاہا!“
اس نے کتے کی زنجیر ایک جنگلے سے باندھی اور بھاگ کر قصائی کی دکان سے ہڈی خرید کر لے آیا۔ کتے نے چھلانگ لگا کر ہڈی پکڑنی چاہی مگر گڑ بڑ خان نے جلدی سے اسے تھیلی میں لپیٹ کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
”چلو میرے پیچھے! یہ ہڈی گھر جا کر ملے گی۔“
کتا اس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ بڑھ بڑھ کر اس کے بیگ پر حملے کررہا تھا۔ گڑبڑ خان نے تنگ آکر اسے ایک چھڑی سے مارا جس کے جواب میں کتے نے اسے اپنے خوف ناک دانتوں کا نظارہ کرایا۔ گڑبڑ خان سہم گیا۔ ”اوہ شکر! لانڈری آگئی۔“ اس نے زیر ِلب کہا …. اور کتے کی زنجیر ایک جنگلے سے باندھ کر خود لانڈری کے اندر چلاگیا۔ اس نے جیب سے دوسری پرچی نکالی اور بولا۔ ”میں چڑچڑی بیگم کے کپڑے لینے آیا ہوں۔ ان کے کپڑے بھورے رنگ کے ہیں، جس کے اوپر دھبے ہوں گے۔“
لیکن میرے پاس تو ایسا کوئی سوٹ نہیں ہے جس کے اوپر دھبے ہوں۔ ہاں بغیر دھبوں والا ایک بھورے رنگ کا سوٹ ہے۔ شاید آپ اُس کی بات کر رہے ہیں۔“ لانڈری والے نے ایک سوٹ نکالتے ہوئے کہا۔
”اس کے اوپر جو دھبے تھے وہ ہم نے صاف کردیے ہیں۔“
”ارے ہاں! ضرور یہی ہوگا۔ تو میں یہ لے جاﺅں؟“ گڑبڑ خان نے کہا۔
”جی ضرور! ذرا جلدی لے جائیں۔ آپ کے کتے نے بھونک بھونک کر پورا محلہ سر پر اُٹھالیا ہے۔“
لانڈری والے نے قدرے ناگواری سے کہا۔ گڑبڑ خان باہر نکلا اور غصیلے کتے کو دیکھ کر پریشان سا ہوگیا۔
”چلو پیارے کتے! اب گھر قریب ہی ہے۔“
اس نے ڈرتے ڈرتے کتے کی زنجیر کھول کر کھینچی۔ کتے نے ایک بار پھر ہڈی کی بو پا کر اُس پر چھلانگ لگائی اور بے چارہ گڑبڑ خان ایک جھٹکے سے چڑچڑی بیگم کے سوٹ سمیت کیچڑ میں جاگرا۔ اس نے کتے کو ایک ہاتھ مارا اور غصے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”دیکھو! یہ تم نے کیا حرکت کی ہے؟ اپنی مالکن کے صاف ستھرے لباس کو گندا کردیا ہے۔“ اس نے کتے کو جھڑکا۔
کتے نے دوبارہ دانت دکھائے تو گڑبڑ خان نے اپنا غصہ تھوکا اور جلدی سے ہڈی نکال کر اس کے سامنے پھینک دی۔ کتا وہیں بیٹھ کر ہڈی چبانے لگا۔
”نہیں! یہاں نہیں! گھر چل کر کھانا۔ میں تم سے تنگ آگیا ہوں۔ جلدی چلو!“ گڑبڑ خان نے رو دینے والے لہجے میں کہا۔ اتنے میں محلے کے کچھ اور کتے ہڈی کی بو پا کر دوڑے چلے آئے۔
گڑبڑ خان اب واقعی بہت خوف زدہ ہوگیا تھا۔ چڑچڑی بیگم کے کتے سمیت اب سارے کتے زور زور سے بھونک رہے تھے اور ایک دوسرے پر جھپٹ کر حملے کر رہے تھے۔ اچانک سامنے و الے گھر سے ایک عورت کے چلانے کی آواز آئی۔ ”ارے تم! میرے کتے کو لے کر کہاں جارہے ہو؟“
”آپ کا کتا کون سا ہے؟ آپ اسے واپس بلالیں۔ میں آپ کے کتے کو نہیں پہچانتا۔“ گڑبڑ خان نے بے چارگی سے کہا۔
”ارے! میں کہتی ہوں کہ تم میرا کتا چرا کر کہاں لے جارہے ہو؟ میں ابھی پولیس کو بلاتی ہوں۔“
عورت غصے سے چلائی۔ گڑبڑ خان نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کندھے اُچکائے اور کتے کی زنجیر کھینچنے لگا۔ باقی سارے کتے بھی ہڈی کی بو کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ گڑبڑ خان جب چڑچڑی بیگم کے گھر پہنچا تو بے حد تھک چکا تھا۔ اس نے کتے کو کچن میںدھکیلا اور دروازہ بند کردیا۔ کتے نے کچن میں بیٹھی بلی کو دیکھا اور اس پر جھپٹ پڑا۔ بلی نے اونچی چھلانگ لگائی اور دیوار پر لگی گھڑی کو ساتھ لیتے ہوئے نیچے آگری اور پھر ایک کھڑکی پر بیٹھ کر کھسیانے لگی۔ کتا ایک بار پھر اس پر جھپٹا اور کھڑکی پر رکھا ہوا گملا زور دار آواز کے ساتھ نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔ کتا ڈر کے مارے میز کے نیچے چھپ گیا۔ شور کی آواز سن کر چڑچڑی بیگم لنگڑاتی ہوئی اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں آگئیں۔
”یہ سب کیا ہورہا ہے؟ بلیکی کو کیا ہوا؟ یہ توڑ پھوڑ کی آوازیں کیسی ہیں؟ ارے اوہ! یہ میری گھڑی…. اور …. اور یہ گملا کس نے توڑا؟“ وہ چلا اٹھیں۔
”آپ کے خوف ناک، غصیلے، بد مزاج کتے نے! “ گڑبڑ خان نے چڑ کر کہا۔
”اپنے بدتمیز کتے کو سنبھالیے اور یہ اپنا سوٹ بھی، جی بھر گیا آپ کی مدد کرنے سے!“ اس نے کیچڑ میں اَٹا سوٹ میز پر پٹخا اور واپس جانے کے لیے مڑا۔
”اوہ! کتنا غلیظ جوڑا ہے اور یہ میرا ہے بھی نہیں!“ چڑچڑی بیگم چلائیں۔ ”میرا جوڑا تو سفید رنگ کا تھا۔ جس کا کالر سیاہ تھا۔ میں نے تمھیں بتایا تو تھا۔“
اسی وقت میز کے نیچے سے کتا برآمد ہوا۔ چڑچڑی بیگم نے زور دار چیخ ماری۔
”یہ کتا یہاں کیا کررہا ہے؟ یہ میرا کتا نہیں ہے۔ کس قدر خوف ناک جانور ہے! میرا کتا تو بہت معصوم، چھوٹا سا بھورے رنگ کا ہے جس کے اوپر دھبے ہیں۔ میں نے تمھیں لکھ کر تو دیا تھا۔ پھر یہ تم کس کو اُٹھا لائے؟“ گڑبڑ خان نے پہلے چڑچڑی بیگم کو اور پھر کتے کو دیکھا۔ پھر اس کی نظر سوٹ پر پڑی۔ اس نے کتے اور کپڑے کی نشانیوں کو آپس میں بدل دیا تھا۔
اس نے تیزی سے دروازے کی طرف چھلانگ لگائی لیکن فرار ہونے کے بجاے وہ سیدھا اس پولیس انسپکٹر سے جاٹکرایا جو دروازے پر کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے وہ غصیلی عورت کھڑی تھی جو لانڈری کے سامنے والے گھر سے اس پر چلا رہی تھی۔ پولیس انسپکٹر نے اسے بازو میں جکڑ لیا۔ ”وہ کتا کہاں ہے جو تم چوری کرکے لائے ہو؟“ اس نے سختی سے پوچھا۔
”میں نے کوئی کتا نہیں چرایا ہے اور اسے میں غلطی سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔“ گڑبڑ خان نے کہا۔
کتا دروازے پر نمودار ہوا اور اپنی مالکن کو دیکھ کر اس کی طرف لپکا۔ اتنے میں چڑچڑی بیگم بھی دروازے پر آگئیں اور پولیس انسپکٹر کو واقعے کی تفصیل بتانے لگیں۔ گڑبڑ خان نے اس موقع کو غنیمت جانا اور سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا لیکن اس کی جان بخشی اتنے آرام سے نہ ہوسکی۔ چڑچڑی بیگم، پولیس انسپکٹر، کتے کی مالکن اور کتا اس کے پیچھے پیچھے اس کی خالہ کے گھر آپہنچے اور اس کی خالہ سے اس کی شکایت کی۔ پھر جو ہوا وہ نہ پوچھیے! اُسے چڑچڑی بیگم کی گھڑی کی مرمت اور نئے گملے کے پیسے دینے پڑے۔ غلط کتا لانے پر کتے کی مالکن کو جرمانہ ادا کیا۔ غلط لباس کو دوبارہ دھلوانے کے لیے لانڈری والے کو پیسے ادا کیے تاکہ وہ اس کی اصل مالکن کو دیا جاسکے۔ اس کا سارا جیب خرچ ختم ہوچکا تھا۔ بے چارہ گڑبڑ خان!
”شاید اب تم اس واقعے سے کوئی سبق حاصل کرسکو!“ اس کی خالہ نے کہا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ گڑبڑ خان اپنی حماقتوں سے کوئی سبق حاصل کرسکے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top