skip to Main Content
گوریلا فائٹرز

گوریلا فائٹرز

شان مسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وطن سے محبت کرنے والے جانبازوں کی داستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشتے کی میز پر چائے پیتے ہوئے ثاقب کی نظریں ایک عجیب و غریب اشتہار پر ٹھہر گئیں، بالکل حیران کن اشتہار، ثاقب نے چائے کی پیالی رکھ کر تیسری مرتبہ ’’ضرورت ہے‘‘ کا اشتہار غور سے پڑھا۔ لکھا تھا ’’پانچ ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دین کی سربلندی اور پاکستان سے محبت کی خاطر خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘‘۔
شرائط: تعلیم کم از کم میٹرک ہو۔ * ذہین اور خصوصی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ * بلامعاوضہ کام کرنا چاہتے ہوں۔ * عمر کی حد 15 سال سے 18 سال ہے۔
فوری رابطہ کیجئے: 209075364 کراچی
خطرات کا مقابلہ، خصوصی صلاحیتیں، بلامعاوضہ اور سب سے حیران کن چیز رابطہ نمبر تھا جو نہ موبائل نمبر تھا اور نہ ٹیلی فون نمبر۔ اگر موبائل نمبر ہوتا تو شروع میں کوڈ نمبر ضرور ہوتا اور اگر ٹیلی فون نمبر ہوتا تو سات نمبروں سے زیادہ نہ ہوتا۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ سچ ہے لیکن۔۔۔ سوچتے سوچتے ثاقب نے جھنجھلا کر اخبار میز پر پٹخ دیا ’’صرف اور صرف مذاق‘‘۔ ثاقب نہ چاہتے ہوئے بھی بڑبڑایا۔
اچانک دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی۔ ثاقب نے جلدی سے شعیب آگیا کا نعرہ لگا کر دروازہ کھولا تو حسبِ توقع دروازے پر شعیب کھڑا مسکرا رہا تھا۔
آہا! شعیب کیسے ہو؟ آؤ اندر آؤ مجھے معلوم تھا کہ دروازے پر تم ہی ہوگے۔ ثاقب نے شعیب سے ہاتھ ملاتے ہوئے اندر آنے کی دعوت دی۔ لیکن تمہیں کیسے پتہ چلا کہ دروازے پر میں ہی ہوں؟ میں نے تو تمہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ شعیب نے حیرانگی سے پوچھا۔
بس میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ شعیب آنے والا ہے۔ ثاقب نے سنجیدگی سے کہا۔
’’حیرت ہے بھئی‘‘۔ شعیب نے حیرت سے اپنی بھنویں اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’یار ان باتوں کو چھوڑو تم، یہ عجیب و غریب اشتہار پڑھو اور مجھے اس کا مطلب سمجھاؤ۔ ثاقب کو اچانک اشتہار کا خیال آگیا۔
شعیب نے بھی اشتہار کو پڑھا اور تھوڑی دیر خاموشی کے ساتھ کچھ سوچتے ہوئے آنکھیں گھمانے لگا ’’ثاقب! مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اشتہار ہمارے ہی لیے ہے۔ البتہ رابطہ نمبر عجیب و غریب ہے ویسے میرے خیال میں یہ نمبر دینے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف ذہین افراد ہی جستجو اور کھوج لگا کر رابطہ کریں، جیسا کہ اشتہار میں بھی تحریر ہے۔
واقعی شعیب تم ٹھیک ہی کہتے ہو ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ ثاقب نے شعیب کی بات سے اتفاق کیا۔ چلو پھر ہوجائے ذہانت کا مقابلہ۔ شعیب نے مقابلے کی دعوت دی اور دونوں اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔
ابھی پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ دونوں نے ایک ساتھ نعرہ لگایا ’’وہ مارا‘‘۔
’’میں نے تو نمبر کا معمہ حل کرلیا اب تم بتاؤ، تم کیا سمجھے؟‘‘ ثاقب نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
سمجھنا کیا ہے۔ یہ موبائل نمبر ہے جس کے ابتدائی دو نمبر ’’03‘‘ غائب ہیں‘‘۔ شعیب نے جواب دیا۔ بالکل ٹھیک! میرا بھی یہی خیال ہے تو پھر ملایا جائے نمبر؟ ثاقب نے خیال ظاہر کیا۔ مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔ میرے خیال میں پہلے سوچ بچار کرلی جائے تو بہتر ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ شعیب نے انجانے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ دال میں ایک دانہ بھی کالا نہیں ہے اور شاید قدرت ہم سے کوئی اہم کام لینا چاہتی ہے۔ ثاقب نے اپنی چھٹی حس کا استعمال کرتے ہوئے کہا۔
اگر تمہاری چھٹی حس یہی کہتی ہے تو پھر ملاؤ نمبر، کیونکہ تمہاری چھٹی حس ہے بڑی شاندار‘‘۔ شعیب نے ثاقب کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے پاس ایسی کون سی خصوصی صلاحیتیں ہیں کہ ہم اس عظیم کام کے لیے منتخب ہوجائیں، مجھے تو بظاہر ایسی کوئی صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ ثاقب نے مایوس ہوتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھائی! اپنی خوبی کسی کو خود نظر نہیں آتی تمہارے پاس تو ایسی صلاحیت ہے جو بہت ہی کم لوگوں کو ملتی ہے، میرا اشارہ تمہاری چھٹی حس کی طرف ہے اور ویسے بھی ہم جوڈو کراٹے میں بلیک بیلٹ ہیں اور وقت پڑنے پر بڑے بڑوں کو زمین چاٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ شعیب نے پُرعزم لہجے میں کہا تو ثاقب کا چہرہ بھی خوشی سے دمک اُٹھا۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ اللہ کا نام لے کر نمبر ملاتے ہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ کر ثاقب نے نمبر ملایا تو دوسری طرف سے بھاری مردانہ آواز اُبھری۔ ہیلو! کون۔۔۔؟
السلام علیکم سر! آپ سے اشتہار کے سلسلے میں بات کرنی تھی، شاید آپ کو چند باہمت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ ثاقب نے پُراعتماد لہجے میں بات شروع کی۔
’’کل شام پانچ بجے، سفاری پارک، گلاب کا پھول‘‘۔ اتنا کہہ کر دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی۔
’’یار بڑا عجیب آدمی ہے، صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کی اور فون کاٹ دیا‘‘۔ ثاقب غصے میں بڑبڑاتے ہوئے بولا۔
’’میرے خیال میں وہ فون پر تم سے بات نہیں کرنا چاہتا، بہرحال اس نے تمہیں کیا جواب دیا؟‘‘ شعیب نے بے تابی سے پوچھا۔
’’کل شام پانچ بجے، سفاری پارک اور گلاب کا پھول کہہ کر اس نے لائن کاٹ دی۔‘‘ ثاقب نے کہا۔ تو اب کیا مسئلہ ہے؟ کل اس سے ہم دونوں ملاقات کرلیں گے۔ شعیب نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ مگر کس سے ملاقات کرلیں گے مسٹر شعیب! اس شخص نے نہ تو اپنا نام بتایا ہے اور نہ ملاقات کی جگہ، سفاری پارک تو بہت بڑا ہے اُسے کہاں ڈھونڈتے پھرو گے؟ ثاقب نے اصل مسئلہ کی طرف توجہ دلائی۔
’’ہاں بھئی! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ویسے اس نے گلاب کے پھول کا اشارہ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ شخص گلاب کے پھول کے پاس بیٹھا ہو یا پھر وہ اپنے کپڑوں پر گلاب کا پھول لگا کر آئے اور ہم اسے شناخت کرلیں‘‘۔ شعیب نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بھائی نہیں! وہ اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا کہ خود کپڑوں پر پھول لگا کر آئے۔ اس طرح تو وہ سب کی نظروں میں آجائے گا، جبکہ وہ اس بات کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔ میرے خیال میں اُس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کپڑوں میں پھول لگا کر جائیں اور وہ ہمیں آسانی سے شناخت کرلے، کیا سمجھے؟‘‘ ثاقب نے تفصیل سے شعیب کو سمجھایا۔
بالکل صحیح! تو پھر کل کی ملاقات طے ہے، میں شام چار بجے تمہارے گھر آؤں گا پھر ہم ساتھ چلیں گے‘‘۔ شعیب نے جوش میں کہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دوسرے دن شام پانچ بجے گلاب کا پھول لگائے ثاقب اور شعیب جیسے ہی سفاری پارک کے دروازے پر پہنچے ایک شخص ٹہلتا ہوا اُن کے قریب آیا اور آہستہ سے بولا۔
’’میرے پیچھے آئیے‘‘۔
ثاقب اور شعیب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اس اجنبی آدمی کے پیچھے چل دیئے۔ دس قدم آگے سفید رنگ کی ایک کار تیار کھڑی تھی، وہ آدمی کار میں جا بیٹھا اور ہاتھ بڑھا کر دونوں دروازے کھول دیئے۔
ثاقب اور شعیب جلدی سے کار میں بیٹھ گئے اور کار یونیورسٹی روڈ پر دوڑنے لگی۔ آبادی ختم ہوچکی تھی اور کار اب جنگل و بیاباں میں دوڑ رہی تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ ایک شکستہ عمارت کے پاس کھڑے تھے۔
کار سے اُترتے ہی اس اجنبی شخص نے پراسرار انداز میں عمارت کے اندر آنے کا اشارہ کیا جس کا دروازہ کار کے رُکتے ہی کھول دیا گیا تھا۔ وہ دونوں جیسے ہی اندر داخل ہوئے انہیں یکلخت ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ ہر چیز قرینے اور سلیقے کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ راہداری سے گزرتے ہوئے وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو بے شمار سازوسامان سے سجا کمرہ انہیں حیران کردینے کے لیے کافی تھا۔ یعنی اس ویرانے میں شکستہ عمارت کے اندر کا حال ایسا بھی ہوسکتا ہے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
ثاقب اور شعیب نے دیکھا کہ ڈرائنگ روم میں پہلے سے دو بچے موجود ہیں جن کے ہاتھوں میں گلاب کے پھول نظر آرہے تھے یعنی وہ ان سے بازی لے چکے تھے۔
’’آپ لوگ ابھی آپس میں بات نہیں کرسکتے صرف انتظار کریں۔۔۔ OK‘‘۔ سپاٹ چہرے والا شخص مختصر ہدایات دے کر فوراً باہر نکل گیا جیسے اسے بھی بات کرنے کی اجازت نہ ہو۔
’’انسان ہے یا روبوٹ؟‘‘ شعیب آہستگی سے گویا ہوا۔
’’واقعی یار بڑا ہی پراسرار قسم کا آدمی ہے بالکل روبوٹ جیسا چہرہ ہے‘‘۔ ثاقب نے بھی ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھسر پھسر جاری رکھی۔ اسی دوران ایک اور لڑکا کمرے میں اسی آدمی کے ساتھ داخل ہوا۔ بوکھلاہٹ اس کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔ شاید اکیلا اتنی پراسرار جگہ پر آنے پر حیران و پریشان تھا۔ وہ بھی آکر ہمارے سامنے والے صوفے پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اب ڈرائنگ روم میں کل پانچ افراد جمع تھے کہ اچانک ڈرائنگ روم کے اندرونی دروازے سے ایک خوبصورت مسکراتا ہوا چہرہ نمودار ہوا اور وہ شخص باوقار انداز میں چلتا ہوا مرکزی صوفے پر براجمان ہوگیا۔
’’اچھا تو آپ لوگ ہیں جو اسلام اور پاکستان کی خاطر جان پر کھیل سکتے ہیں؟‘‘ نووارد نے پانچوں لڑکوں پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
تمام لڑکے خاموش رہے جیسے نووارد ہی کو بولنے کا موقع دینا چاہتے ہوں۔
’’میرا نام سعید خان ہے اور ’’ماسٹر خان‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہوں۔ تو پھر سمجھیے کہ آپ لوگ اس عظیم کام کے لیے منتخب ہوچکے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے سنجیدگی سے پانچوں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’مگر وہ انٹرویو اور۔۔۔‘‘ آخر میں آنے والے بچے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھنا چاہا۔
’’وہ سب میں حاصل کرچکا ہوں پورے شہرسے کل آٹھ بچے ہی اپنی ذہانت سے رابطہ کرسکے جن میں آپ پانچ بھی شامل ہیں، رابطہ کرنے والے آٹھ بچوں کے فون نمبر ٹریس کرکے ساری معلومات جمع کی جاچکی ہیں جو میرے ہاتھ میں ہیں اور تھوڑی دیر بعد آپ اسے دیکھ سکیں گے۔ اس میں آپ کا نام، ولدیت، پتہ، فون نمبر، تعلیم اور مشاغل وغیرہ سب کچھ درج ہے‘‘۔ نووارد نے پانچوں کو مزید حیرانی میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘ پانچوں بچوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔
’’جی ہاں! مجھے خوشی ہے کہ آٹھ میں سے آپ پانچ خوش قسمت ہیں جو کامیابی کے ساتھ، یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہاں! البتہ شرائط کے مطابق مجھے آپ کی خصوصی صلاحیتیں معلوم کرنی ہیں، آئیے میرے ساتھ‘‘۔ ماسٹر خان انہیں ڈرائنگ روم سے ملحق اپنے خصوصی کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے بولا۔
’’لیکن سر وہ عظیم کام۔۔۔؟‘‘ شعیب نے چلتے چلتے تجسس بھرے انداز میں پوچھنا چاہا۔
’’یہ مرحلہ طے ہوجائے پھر ہم اسی موضوع پر بات کریں گے۔ آپ ابھی سے کیوں پریشان ہورہے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے شعیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
آفس میں داخل ہوتے ہی کمرے کا دروازہ خودکار طریقے سے بند ہوگیا۔ کمرے میں ماسٹر خان کی کرسی کے علاوہ صرف پانچ کرسیاں موجود تھیں۔ وہ پانچوں ایک ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ کمرہ انتہائی سیکرٹ ہے صرف میرے اور آپ کے استعمال میں رہے گا، کسی دوسرے کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور اس کمرے سے باہر آواز بھی نہیں جاسکتی، آپ لوگ ہر بات یہاں کھل کر کرسکتے ہیں۔ تو پھر شروع کریں‘‘۔ ماسٹر خان نے ثاقب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا نام ثاقب ہے اور پچھلے سال ہی میٹرک۔۔۔
’’صرف خصوصی صلاحیت بیان کریں۔ میں نے کہا ناں کہ آپ کے بارے میں ساری معلومات میرے پاس ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے ثاقب کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’میری چھٹی حس بہت تیز ہے، پتہ نہیں کیوں مجھے خطرے کا احساس وقت سے پہلے ہوجاتا ہے‘‘۔ ثاقب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’چھٹی حس‘‘۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کوئی عملی تجربہ کرکے دکھاؤ تو پتہ چلے‘‘۔ ماسٹر خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ ہونہہ عملی تجربہ؟۔۔۔ ثاقب نے چند لمحے کے لیے سوچا تو پھر سنیں۔ کمرے میں کوئی ساتواں شخص موجود ہے‘‘۔ ثاقب نے سنجیدگی سے کہا تو ماسٹر خان سمیت سارے کرسی سے اُچھل پڑے۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘ ماسٹر خان زور سے چلایا۔
’’جی ہاں سر میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں۔ اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں تو پھر ہمیں کمرے کی تلاشی لینے دیجئے، میں اپنی بات ثابت کرکے دکھادوں گا‘‘۔ ثاقب نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے تم تلاشی لے سکتے ہو، لیکن اگر یہاں سے کوئی شخص برآمد نہ ہوا تو۔۔۔
ماسٹر خان کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ثاقب چیخا۔
’’شعیب اپنے پیچھے دیکھو‘‘۔
اچانک شعیب پلٹا اور فوراً ہی ایکشن لے کر فلائنگ کک کا بھرپور وار پردے کے پیچھے سے نمودار ہونے والے شخص پر کیا جو حملہ کرنے سے پہلے ہی زمین چاٹنے پر مجبور ہوگیا، اتنی دیر میں باقی لڑکے اسے قابو کرچکے تھے۔
اب حیران ہونے کی باری ماسٹر خان کی تھی۔
’’اب میری چھٹی حس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے سر؟‘‘ ثاقب نے زمین پر گرے ہوئے شخص کے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
’’ویلڈن ویلڈن! نوجوان تم نے تو کمال کردیا۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ یہ شخص کمرے میں داخل کیسے ہوگیا؟ خیر وہ تو میں اس سے اُگلوا ہی لوں گا‘‘۔
’’سر اب تو ہم آچکے ہیں ناں اب کوئی ساتواں شخص یہاں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتا‘‘۔ شعیب مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بالکل، بالکل مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے تم لوگوں کا ساتھ مل گیا تو کوئی بھی ہمارے مشن میں رکاوٹ نہیں ڈال سکے گا‘‘۔ ماسٹر خان نے تعریفی نظروں سے سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔ سر ہمارا تعارف چل رہا تھا اسے ٹھکانے لگائیں تاکہ ہماری میٹنگ کا سلسلہ آگے بڑھے‘‘۔ ثاقب نے اوندھے منہ پڑے شخص کو ایک لات رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر ماسٹر خان نے انٹرکام کا ریسیور اُٹھایا اور کہنے لگا ’’نوید میرے کمرے سے ایک شخص پکڑا گیا ہے اسے اُٹھوا کر کمرہ نمبر نو میں بند کردو۔ اس سے ابھی بہت کچھ معلوم کرنا ہے‘‘۔
’’نہیں سر میرے خیال میں آپ اپنی بات بھول رہے ہیں اس کمرے میں ہمارے علاوہ کوئی دوسرا شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ نوید صاحب سے کہیں کہ اس شخص کو کمرے کے باہر وصول کریں۔ آپ کا کیا خیال ہے‘‘۔ شعیب نے دیگر ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بہت خوب! اس کا مطلب ہے آپ لوگوں نے ابھی سے کام سنبھال لیا۔ حالانکہ ابھی تو آپ کا تعارف چل رہا ہے‘‘۔ ماسٹر خان شعیب کی حاضر دماغی کی داد دیتے ہوئے بولے۔
’’سر کام کیوں نہیں سنبھالیں گے، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو آپ نے کہا تھا کہ آپ پانچوں اس عظیم کام کے لیے منتخب ہوچکے ہیں‘‘۔ وقاص نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’واقعی آپ لوگوں نے تو مجھے لاجواب کردیا ہے آپ کی یادداشت تو واقعی کمال کی ہے‘‘۔ ماسٹر خان وقاص کی طرف تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’سر یہی تو میری خاص صلاحیت ہے کہ میں ہر پڑھی ہوئی تحریر، دیکھا ہوا منظر اور سنی ہوئی بات یاد رکھتا ہوں‘‘۔ وقاص ماسٹر خان کے تعریفی کلمات پر خوش ہوتے ہوئے بولا۔
اسی اثناء میں ثاقب دوسرے دو لڑکوں کی مدد سے بندھے ہوئے شخص کو گھسیٹ کر دروازے کے باہر کرچکا تھا۔
’’اچھا! پھر تو آپ کا بھی امتحان لینا پڑے گا۔ ماسٹر خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بالکل سر میں تیار ہوں‘‘۔ وقاص نے کرسی پر صحیح سے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اشتہار میں رابطہ نمبر کیا دیا گیا تھا؟‘‘ اچانک ماسٹر خان نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں سر۔ میری یادداشت کے مطابق وہ نمبر تھا 209075364‘‘۔ وقاص نے بلاجھجک صحیح نمبر دُہرایا۔
’’زبردست! اچھا آپ یہ بتائیں کہ آپ کو جس کار میں لایا گیا ہے اس کار کا نمبر کیا تھا؟‘‘ ماسٹر خان نے فوراً ہی دوسرا سوال کرڈالا۔ انہیں یقین تھا کہ وقاص کار کا نمبر نہیں بتا سکے گا۔
’’میرے خیال میں اس کا نمبر تھا سی ڈبلیو ایکس 3975‘‘۔ وقاص قدرے سوچتے ہوئے بولا۔
’’بس بھئی! واقعی ہم آپ کی یادداشت کو مان گئے۔ آپ تو بڑے کام کے آدمی ہیں۔ آپ کا دماغ تو کمپیوٹر سے کم نہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔
’’اور سر میرا نام عمران ہے۔ اس بار عمران نے اپنا تعارف کروایا۔ میرے پاس ایسی کوئی خاص صلاحیت تو نہیں ہے، البتہ کمپیوٹر پروگرامنگ پر مجھے عبور حاصل ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے آپ مجھ سے کوئی بھی کام کرواسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہو‘‘۔ عمران نے مختصراً اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ اسے معمولی سمجھ رہے ہیں اگر ایسا ہے تو آپ ہماری ٹیم میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ زبردست! بھئی اس طرح تو ساری پلاننگ آپ ہی کمپیوٹر پر کریں گے اور دشمن کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا بھی ہمارے لیے بہت آسان ہوگا‘‘۔
’’بالکل! تھوڑی سی محنت اور ورکنگ سے ہم دشمن کا نیٹ ورک تباہ و برباد کرسکتے ہیں‘‘۔ عمران نے ماسٹر خان کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’چلیں اس موضوع پر ہم بعد میں بات کریں گے پہلے ان سے کچھ بات کرلیں۔ یہ بہت بے چینی کے ساتھ بار بار پہلو بدل رہے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان شعیب کی طرف رُخ کرتے ہوئے بولے۔
’’سر آپ نے بالکل صحیح کہا میں زیادہ دیر تک ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا مجھے ہر وقت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہئے ورنہ میری بے چینی قابلِ دید ہوتی ہے، ویسے میرا نام شعیب ہے اور میرے پاس تو کوئی خاص صلاحیت نہیں ہے بس یہی ہے کہ میں۔۔۔
’’بولتا بہت زیادہ ہوں‘‘۔ ثاقب نے شعیب کا جملہ مکمل کیا تو تمام لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’سر یہ نہیں بتائے گا میں بتاتا ہوں یہ کیا چیز ہے؟‘‘ ثاقب نے کہا۔ ’’یہ تائی کوانڈو اور جوڈو کراٹے کا ماہر ہی نہیں بلکہ ماسٹر ٹرینر (Master Trainer) بھی ہے اور مجھے بھی جوڈو کراٹے کا شوق اسی نے دلایا تھا، یہ کئی مقابلوں میں اول انعام حاصل کرچکا ہے اور لڑائی جھگڑا کرنے کے لیے اس کے ہاتھ میں ہمیشہ خارش ہوتی رہتی ہے جس کی ایک جھلک آپ دیکھ چکے ہیں۔ جہاں کوئی غلط بات دیکھتا ہے تو فوراً بیچ میں کود پڑتا ہے کہتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو یہ افضل ایمان ہے‘‘۔
ثاقب نے تفصیل سے شعیب کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
’’بھئی واہ! آپ لوگوں کی صلاحیتیں سن کر بلکہ دیکھ کر تو میں حیران ہوں۔ آپ لوگ میری توقعات سے بڑھ کر ہوشیار نکلے اب تو مجھے بے چینی ہونے لگی کہ آپ کے آخری ساتھی کے پاس کیا صلاحیت ہے۔ یہ بھی مجھے کچھ تیز طرار سے لگ رہے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان زبیر کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جو سب سے آخر میں اکیلے وہاں پہنچا تھا۔
’’سر میرا نام زبیر ہے اور میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے پاس کوئی خاص صلاحیت نہیں ہے، بس اپنا ذہن لڑا کر میں نے آپ سے رابطہ کرلیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ میں بھی منتخب ہوجاؤں گا۔ ویسے اپنے ان چاروں ساتھیوں کی صلاحیتیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ میں چاہنے کے باوجود بھی آپ لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرسکوں گا لیکن میں۔۔۔
اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اچانک زبیر نے ایک گہری سانس لی اور یکدم اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو، تمام لوگ حیرانی سے اسے تکنے لگے۔
’’سر باہر آگ لگی ہوئی ہے مجھے دھوئیں کی بو محسوس ہورہی ہے، شاید بہت تیز آگ ہے۔ سر جلدی کیجئے‘‘۔ زبیر نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہمیں تو کسی قسم کی بو محسوس نہیں ہورہی، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوگی اور اگر باہر آگ لگ بھی جائے تو اس کمرے میں بو داخل ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ یہ کمرہ ساؤنڈ پروف ہی نہیں ایئر پروف بھی ہے‘‘۔
ماسٹر خان نے اتنے اطمینان سے بیٹھے بیٹھے کہا تو دوسرے چاروں لڑکے بھی پرسکون ہوگئے، مگر زبیر کے چہرے سے اب پریشانی کے ساتھ ساتھ بوکھلاہٹ بھی نمایاں نظر آرہی تھی۔ وہ چیخا
’’ میں مذاق نہیں کررہا ہوں سر باہر واقعی آگ لگی ہوئی ہے‘‘۔
’’اگر آپ کو اتنا ہی یقین ہے تو ہم انٹرکام سے اس بات کی تصدیق کرلیتے ہیں اور اگر یہ بات واقعی سچ نکلی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سونگھنے کی حس انتہائی درجے کی ہے اور آپ ہماری ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں بلکہ بہت اہم جگہ‘‘۔
ماسٹر خان نے سنجیدگی سے کہا اور انٹرکام اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہیلو۔۔۔ ہیلو ہیلو نوید۔۔۔
مگر دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو ماسٹر خان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔
’’پتہ نہیں یہ نوید کہاں چلا گیا؟ مجھے بتائے بغیر تو یہ ہل بھی نہیں سکتا۔ چلو باہر نکل کر دیکھتے ہیں‘‘۔
ماسٹر خان پانچوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’سر مجھے بھی خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہورہی ہے۔ باہر کوئی گڑبڑ ہے شاید ہم خطرے میں ہیں‘‘۔ ثاقب دائرے کی صورت میں آنکھیں گھماتے ہوئے بولا۔ ماسٹر خان نے جلدی سے دروازہ کھولا تو باہر کا منظر ان کے ہوش اُڑانے کے لیے کافی تھا۔
باہر دھواں ہی دھواں بھر چکا تھا۔ گو کہ آگ ابھی مکان کے اندر داخل نہیں ہوئی تھی، لیکن کھڑکی سے باہر کا منظر اور اُٹھتے ہوئے شعلے یہ اشارہ دے رہے تھے کہ ایک آدھ گھنٹے کے بعد پورا مکان آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
ماسٹر خان جلدی سے نوید کے کمرے کی طرف دوڑے تو پانچوں لڑکے بھی پیچھے پیچھے دوڑ پڑے۔ نوید کے کمرے کا سارا سامان اور کاغذات بکھرے پڑے تھے اور نوید ایک کونے میں بے ہوش اوندھا پڑا تھا۔
ماسٹر خان نے فون کرنے کے لیے ریسیور اُٹھایا تو پتہ چلا کہ لائن بھی کاٹ دی گئی ہے۔ ماسٹر خان نے جھلا کر ریسیور پٹخ دیا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگے اور موبائل سے نمبر ڈائل کرنے لگے۔
’’ہیلو! ہیلو!! ہاں میں ماسٹر خان بات کررہا ہوں۔ خان ہاؤس کے اطراف میں آگ لگی ہوئی ہے اور تیزی سے پھیل رہی ہے فوراً دو فائر بریگیڈ روانہ کرو۔ اوکے‘‘۔
یہ کہہ کر ماسٹر خان نے موبائل آف کیا اور واپس نوید کے کمرے کی طرف دوڑے۔ پانچوں لڑکے بھی بدحواسی کے عالم میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہے تھے۔ ایسی صورتحال کا تو انہوں نے آج تک سامنا نہیں کیا تھا۔
نوید ابھی تک بے ہوش پڑا تھا۔ماسٹر خان نے جلدی سے نوید کو سیدھا کیا تو نیچے سے ایک پرچی برآمد ہوئی جس پر لکھا ہوا تھا
’’ماسٹر خان! ہمارے خلاف کام کرنا چھوڑ دو۔ کیوں اپنے ساتھ ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا رہے ہو۔ تم مکمل ہماری نگرانی میں ہو اپنے انجام کی فکر کرو۔ اپنے ساتھی کو ہم چھڑا کر لے جارہے ہیں اگر تم زندہ بچ گئے تو پھر ملاقات ہوگی۔ فقط بلیک ڈیتھ۔‘‘
ماسٹر خان نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس مختصر سے پیغام کو پڑھ کر جلدی سے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا اور نوید کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔
پانی کے چھینٹے منہ پر پڑے تو نوید نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں اور گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’نوید یہ سب کیسے ہوا؟ کون آیا تھا؟‘‘ ماسٹر خان نے نوید کا کندھا پکڑتے ہوئے کہا۔
’’سر جسے آپ نے پکڑ کر میرے حوالے کیا تھا وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ (RAW) کا ایجنٹ تھا۔ شاید اس کے ساتھی آس پاس چھپے ہوئے تھے۔ وہ کل چار تھے۔ جیسے ہی میں اسے کمرہ نمبر9 میں لے جاکر بند کرنے لگا۔ پیچھے سے کسی نے مجھ پر حملہ کردیا اور مجھے بہت زدوکوب کیا۔ آخر میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’مسٹر خان سے کہہ دینا کہ را کے خلاف تمہاری کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ باز آجاؤ‘‘۔ نوید نے جلدی جلدی ساری کہانی سنا ڈالی۔
آگ آہستہ آہستہ مکان کے اندر داخل ہورہی تھی۔ ماسٹر خان، نوید اور پانچوں لڑکے کمرے سے باہر نکلے تو دیکھا کہ آگ ڈرائنگ روم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ نرم و گداز صوفے جس کا لطف ابھی وہ تھوڑی دیر پہلے اُٹھا رہے تھے اب دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔
سب کا کھانس کھانس کے برا حال ہوچکا تھا۔ عمران کی حالت سب سے خراب تھی۔ اس کی آنکھیں آگ کی تپش کی شدت سے بالکل سُرخ ہوچکی تھیں۔
آگ لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھ رہی تھی۔ ماسٹر خان نے دوبارہ فائر بریگیڈ کو فون کرنے کے لیے موبائل اُٹھایا تو معلوم ہوا کہ اس کی بیٹری بھی ڈاؤن ہوچکی ہے۔
ماسٹر خان کے علاوہ سب کی حالت خراب تھی۔ سب کے لبوں پر مختلف دعائیں تھیں اور اللہ سے مدد کی درخواست جاری تھی۔ آخرکار دور کہیں سے فائر بریگیڈ کی آواز ان کے کانوں میں سنائی دی، آدھے گھنٹے بعد آگ پر قابو پایا جاچکا تھا۔ مگر آدھے سے زیادہ مکان جل کر خاک ہوچکا تھا اور ساری کارروائی میں رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔
’’میرے خیال میں آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے، باقی باتیں کل صبح دس بجے کریں گے، ٹھیک ساڑھے نو بجے آپ کو گاڑی گھر پر لینے آجائے گی اور ہاں کل آپ کی مرضی ہے اگر آپ اسی طرح کے خطرات سے کھیلنے کے خواہش مند ہوں تو تیار رہیے گا۔ بصورتِ دیگر آپ پر کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی‘‘۔ ماسٹر خان نے دو ٹوک الفاظ میں پانچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سر! ہمارا گروپ ابھی تیار بھی نہیں ہوا اور دشمن نے ہمیں ٹریس کرلیا اور نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ کارروائی بھی کرڈالی یعنی اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہونے والی بات ہوگئی۔ پھر ہماری کامیابی کے آگے کیا امکانات ہیں؟‘‘ زبیر نے اپنی دانست میں کافی معقول سوال پیش کیا۔
’’نہیں ایسا نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا دشمن ابھی تک ہم سے لاعلم ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘ پانچوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ’’پھر یہ سب کیا تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوا ہے؟‘‘ وقاص نے فوراً ہی حیرت سے سوال داغا۔
’’ہم را (RAW) کے خلاف کوئی گروپ نہیں بنا رہے ہمارا دشمن تو کوئی اور ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ کو کل کی میٹنگ کا انتظار کرنا پڑے گا، ساری باتیں یہاں نہیں ہوسکتیں۔ اب تم لوگ گاڑی میں بیٹھو‘‘۔ ماسٹر خان نے پانچوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
ماسٹر خان سے ہاتھ ملا کر پانچوں لڑکے کار میں بیٹھ گئے اور گیارہ بجے تک اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

دوسرے دن صبح دس بجے پانچوں لڑکے کراچی کے ایک پوش علاقے کلفٹن میں واقع ایک گھر میں پہنچادیئے گئے۔ ماسٹر خان پہلے سے وہاں موجود تھا۔ پانچوں کو دیکھ کر ماسٹر خان خوش ہوگیا۔ ’’مجھے یہی اُمید تھی کہ تم سب لوگ ضرور آؤگے‘‘۔ ماسٹر خان نے پانچوں کو باری باری گلے لگاتے ہوئے کہا ’’میرے پیچھے آؤ‘‘۔ ماسٹر خان نے سب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دیا۔
ایک کمرے میں پہنچ کر ماسٹر خان نے سب کو کرسیوں پر بیٹھنے کے لیے کہا اور بولا۔ ’’آج ہم اصل موضوع پر بات کریں گے سب سے پہلے یہ کتابیں آپ لوگ اُٹھالیں اس کا مطالعہ آپ میٹنگ کے بعد یہیں کرسکتے ہیں۔ باہر نہیں لے جاسکتے‘‘۔ ماسٹر خان کے کہنے پر میز پر موجود پانچوں کتابیں سب نے باری باری لے لیں جس کے سرخ سرورق پر Top Secret (انتہائی خفیہ) کے علاوہ کچھ تحریر نہیں تھا۔
جیسا کہ میں اپنا تعارف کراچکا ہوں کہ میرا نام حیدر خان ہے اور ماسٹر خان کے نام سے پہچانا جاتا ہوں۔ پاکستان آرمی میں کرنل رہ چکا ہوں اور پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی کی ذمہ داری بھی رہی ہے‘‘۔ جیسے جیسے ماسٹر خان اپنا تعارف کروا رہا تھا۔ پانچوں لڑکوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جارہی تھیں۔ 
’’خفیہ ایجنسی میں ہونے کی وجہ سے مجھے بھارت اور اسرائیل جانے کا موقع بھی ملا۔ بھارت میں جاسوسی کرنے کے الزام میں مجھے تین سال جیل بھی کاٹنی پڑی اور بالآخر میں وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ بہرحال بھارت کی خفیہ ایجنسیاں میرے پیچھے لگ گئیں۔ میرے سر کی قیمت لگ گئی، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ چھ مہینے آرام کرنے کے بعد میری ذمہ داری اسرائیل میں لگ گئی، وہاں میں ایک کالج میں بطور لیکچرار ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ جاسوسی بھی کرتا رہا اسی دوران میرا فلسطین بھی آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دیکھ کر میرا خون کھول اُٹھتا، میں نے کسی حد تک ان کی مدد بھی کی، لیکن بہرحال میں مجبور تھا، کیونکہ میرا مشن کچھ اور تھا۔
میں دو سال نہایت کامیابی کے ساتھ وہاں کام کرتا رہا۔ اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسیاں میری سرگرمیوں سے لاعلم رہیں، اسی دوران اسرائیل کی ایک خفیہ فائل اور ایک کیسٹ میرے ہاتھ لگ گئی جس میں ساری منصوبہ بندی درج تھی جو یہودیوں نے آج سے تقریباً سو برس قبل تیار کی تھی۔ اس فائل میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو تباہ کرکے پوری دنیا پر قبضہ کرنے کے ناپاک عزائم موجود تھے۔ آج بھی وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اس ناپاک منصوبے پر عمل کررہے ہیں اور عیسائیت کو تباہ کرکے اب اسلام کے خلاف مل کر جدوجہد کررہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کے حکمران تو انہوں نے خرید لیے، مگر مسلمان قوم کو قابو میں نہ کرسکے۔
جب یہ خفیہ فائل میرے ہاتھ لگی اور میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ یہودیوں کے خلاف نفرت کے جذبات شدید تر ہوگئے اور پھر اسرائیلی حکام کو پتہ چل گیا کہ ان کی خفیہ فائل جسے وہ سو سال سے چھپائے ہوئے تھے، چوری ہوچکی ہے۔ اس طرح اسرائیل کی خفیہ تنظیم ’’موساد‘‘ میرے پیچھے لگ گئی اور مجھے وہاں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔
پاکستان آکر میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا، کیونکہ اسرائیل کے خلاف جو پلان میں نے اپنے دماغ میں تیار کیا تھا وہ میں فوج میں رہ کر نہیں کرسکتا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
پانچوں لڑکے ٹکٹکی باندھے، پلک جھپکائے بغیر ماسٹر خان کی طرف دیکھ رہے تھے اور باتیں سننے میں محو تھے۔
’’سر! کیا اب ہمیں اسرائیلی فوج سے لڑنا پڑے گا؟‘‘ زبیر نے خوف سے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے! تم تو ابھی سے گھبرا گئے، میری بات تو مکمل ہونے دو۔ میرے خیال میں تم لوگ میری باتوں سے بور ہورہے ہو، چلو پہلے ایک کپ چائے ہوجائے پھر وہ کیسٹ سنیں گے جو بڑی مشکل سے میرے ہاتھ لگی تھی۔ اُسے سننے کے بعد آپ کی ساری کنفیوژن (پریشانی) دور ہوجائے گی اور اسرائیلی عزائم کو سمجھنے میں مدد ملے گی، کیونکہ وہ کیسٹ آج سے تقریباً سو سال قبل اُس میٹنگ کی ہے جس میں دنیا بھر سے سو اہم یہودیوں کو جن کے پاس بے شمار مال و دولت تھی جرمنی بلایا گیا تھا اور دنیا پر قبضے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
’’سر! آپ نے توہم سب کو تجسّس میں ڈال دیا، چائے بعد میں پی لیں گے، میرے خیال میں پہلے وہ کیسٹ سن لی جائے‘‘۔ شعیب نے دلچسپی لیتے ہوئے مشورہ دیا۔
’’یہی تجسس تو میں تم لوگوں کے اندر پیدا کرنا چاہ رہا ہوں اس کے بغیر تو ہمارا کام آگے چل ہی نہیں سکے گا۔ لو چائے آگئی بس اسے پی کر آگے بڑھتے ہیں‘‘۔
پانچوں نے جلدی جلدی چائے ختم کرڈالی اور بے چینی سے ماسٹر خان کی چائے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
چائے پینے کے بعد ماسٹر خان نے اپنی جیب سے وہ کیسٹ نکالی اور ٹیپ ریکارڈر میں لگا کر بٹن دبادیا۔ تھوڑی دیر تک گھرررر۔۔۔ گھرررر کی آوازیں آتی رہیں اور پھر ایک شخص کی آواز اُبھری جو انگریزی میں بول رہا تھا:
’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین! آئی ایم گیری سن اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہماری یہ آج کی میٹنگ نہایت خفیہ ہے اور جس ہال میں آپ حضرات بیٹھے ہیں۔ یہ جرمنی کے شہر برلن کا وہ میٹنگ ہال ہے جو زیرِ زمین اور نہایت سیکرٹ (خفیہ) ہے۔ میرے جاری کردہ سرکلر کے ذریعے آپ کے علم میں یہ بات تو آچکی ہوگی کہ یہاں موجود افراد میں سے ہر ایک کا تعلق یہودیت سے ہے، بہرحال آپ لوگوں کو یہاں بلانے کا مقصد بہت اہم ہے اور شاید بہت طویل بھی۔
آپ میں سے ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارا تعلق جس مذہب سے ہے وہ مذہب نسلی بنیاد پر ہے اور ہماری تعلیمات کے مطابق یہودی صرف وہی ہوسکتا ہے جس کی ماں یہودی ہو لہٰذا ہم کسی شخص کو یہودی نہیں بنا سکتے۔ ہاں! باغی ضرور بنا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مسلمان اسلام کی تبلیغ کررہا ہے اور عیسائی عیسائیت کو پھیلا رہا ہے۔ مسلمان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور عیسائی دوسرے نمبر پر ہیں، مگر ہم یہودی اس دنیا میں سب سے کم ہیں۔ چھ ارب لوگوں کی دنیا میں صرف چند کروڑ یہودی، یعنی آٹے میں نمک کے برابر۔
لیکن ہمارا پلان یہ ہے کہ ہمیں پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لینا ہے اور اپنے زیرِ دست کرنا ہے، یعنی اس دنیا میں وہی کچھ ہوگا جو ہم چاہیں گے‘‘۔ مسٹر گیری سن نے انتہائی مکروہ انداز میں الفاظ ادا کئے۔
’’کیا؟‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں اُبھریں جن میں حیرانی نمایاں تھی۔
’’جی ہاں! آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں میرا پلان فولاد سے زیادہ مضبوط اور پہاڑ سے زیادہ بلند ہے اور ہم اس پر بہت غور و فکر کرچکے ہیں۔ اب آپ کے مشورے اور رضامندی کے ساتھ ہم اسے عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ دنیا کے سب سے زیادہ مال دار حضرات شمار ہوتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ لوگ یہودیت کو بچانے اور اسے مضبوط بنانے میں اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے مالی وسائل سے بھی ہمارے ہاتھ مضبوط کریں گے‘‘۔ مسٹر گیری سن نے پُرامید لہجے میں کہا۔
’’مسٹر گیری سن! آپ پہلے اپنا منصوبہ پیش کریں پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘‘۔ ہیروں کے سب سے بڑے تاجر مسٹر جیکسن نے گیری سن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں بالکل! میں اپنا منصوبہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، مگر ایک بات آپ لوگ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں کہ منصوبہ بیان کرنے کے بعد کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے، کیونکہ منصوبہ انتہائی خفیہ ہے اور اگر یہ راز منظر عام پر آگیا تو سمجھ لیں کہ وہ یہودیت کا آخری دن ہوگا، کیونکہ مسلمان اور عیسائی اس زمین پر ایک بھی یہودی کو نہیں بخشیں گے، لہٰذا جو لوگ یہودیت کے ساتھ مخلص ہیں وہ یہاں تشریف رکھیں، باقی حضرات یہاں سے جاسکتے ہیں‘‘۔ مسٹر گیری سن نے اپنی بات ختم کرکے پورے ہال پر نظر دوڑائی، لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہیں اُٹھا۔
’’ویل ڈن، ویل ڈن! یہ ہماری کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے کہ آپ تمام لوگ اپنے مذہب کے ساتھ نہایت مخلص ہیں۔ تو سنیے! ہمارے منصوبے کی ساری تفصیلات کتابی شکل میں آپ تک پہنچ جائیں گی اور آپ سکون سے اس کا مطالعہ کرسکیں گے، لیکن مختصراً میں بیان کردیتا ہوں کہ دنیا پر قبضے کے لیے ہمیں چار مختلف محاذوں پر ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔
نمبر ایک ’’ساری دنیا کی دولت کو اپنے کنٹرول میں لینا ہے‘‘ اس کے لیے دنیا کے تمام بڑے بڑے بینکوں کو منہ مانگے داموں خریدنا ہے اور نئے بینکوں کا قیام عمل میں لانا ہے جس میں سب سے اہم عالمی مالیاتی بینک (World Bank) کا قیام ہے جو تمام بینکوں کو کنٹرول کرے گا۔ اس طرح ہماری اپنی دولت کے علاوہ دوسروں کی دولت پر بھی ہمارا قبضہ ہوگا اور ہم جس طرح چاہیں گے اسے استعمال کریں گے۔
نمبر دو ’’میڈیا کو اپنے قابو میں لانا ہے‘‘ اس میں دنیا بھر کے اہم ریڈیو چینلز اور اہم میگزین اور بڑے بڑے اخبارات کو خریدنا ہوگا اور ساتھ ہی نئے نئے میگزین اور اخبارات کو متعارف کرانا ہے۔ اس طرح پوری دنیا صرف وہی سنے گی جو ہم چاہیں گے، وہی پڑھے گی جو ہم انہیں پڑھانا چاہیں گے اور وہی کچھ دیکھے گی جو ہم دکھانا چاہیں گے اسی میڈیا کے ذریعے ہم فحاشی و عریانی اور بے حیائی کو مسلمانوں اور عیسائیوں میں عام کردیں گے، تاکہ وہ اخلاقی طور پر بھی کمزور ہوجائیں۔
نمبر تین ’’یہودی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے‘‘ اس کے لیے ہم نے فلسطین کے علاقے کو چنا ہے اور ہمارے مذہب کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے، لہٰذا اس کے لیے ہمیں ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے یہودی ریاست قائم کرنی ہوگی اور عربوں سے ان کی زمینیں چھیننی ہوں گی۔ اس کے بعد دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو لاکر اس میں آباد کریں گے۔ اس طرح ہمارا بھی ایک وطن ہوگا جہاں بیٹھ کر ہم پوری دنیا کو کنٹرول کرسکیں گے۔
نمبر چار ’’عیسائیوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہے‘‘ اور ان جنگوں کو مذہبی رنگ دے کر ہم دونوں کو کمزور کردیں گے، اس کے لیے ہم اپنا جاسوسی نیٹ ورک ’’موساد‘‘ کے نام سے مضبوط کریں گے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کو خرید کر اپنا کام نکالیں گے اور ان ممالک پر اپنی مرضی کے حکمران مسلط کریں گے جو صرف اور صرف ہمارے غلام ہوں گے‘‘۔ مسٹر گیری سن نے نہایت سفاکی کے ساتھ اپنے گھناؤنے منصوبے کو ممبران کے سامنے پیش کردیا۔
کھٹ کی آواز کے ساتھ ہی اچانک کیسٹ بند ہوگئی اور تمام افراد جو بڑے انہماک کے ساتھ کیسٹ سن رہے تھے ایک گہرا سانس لے کر سیدھے بیٹھ گئے۔
’’ یہودیوں کے عزائم اس کیسٹ میں بھی تقریباً ویسے ہی ہیں جیسے اس خفیہ فائل میں ہیں۔ بہرحال کچھ بھی ہو وہ اپنے ناپاک منصوبوں پر بڑی کامیابی سے عمل پیرا ہیں اور ہمارا مشن ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہے‘‘۔ ماسٹر خان ٹیپ ریکارڈ سے کیسٹ نکالتے ہوئے بولے۔
’’سر آپ کے خیال میں سو سال میں وہ کتنے فیصد تک کامیابی حاصل کرچکے ہیں؟‘‘ عمران نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’میرے خیال میں وہ ستر سے اسی فیصد تک کامیابی حاصل کرچکے ہیں، پہلے مرحلے میں انہوں نے عیسائیت کو نشانہ بنایا اور مقررہ ہدف سے پہلے ہی انہوں نے عیسائیوں کو اخلاقی طور پر تباہ و برباد کردیا۔ آج وہ یہودیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور یہودیوں کے ہی اشارے پر مسلمان ممالک پر حملے کررہے ہیں۔ عیسائیوں کے بعد مسلمانوں کی باری آئی، لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود مسلمان ہر دفعہ ان سے اپنی گردن چھڑا لیتا ہے، شاید اس لیے کہ اسلام ایک سچا اور مکمل دین ہے اور یہ اتنی آرام سے یہودیوں کے ہاتھ آنے والا نہیں۔ انشااللہ‘‘۔
’’سر اتنی بڑی منظم طاقت سے ٹکرانا، کیا خودکشی کے مترادف نہیں ہے؟ مجھے تو یہ افسانوی باتیں معلوم ہورہی ہیں‘‘۔ ثاقب نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’واقعی وہ ایک منظم طاقت تھی، مگر اب حالات بدل رہے ہیں آپ یہ یاد رکھیے کہ یہودی دنیا کی سب سے زیادہ بزدل قوم ہے کیونکہ وہ موت سے ڈرتی ہے اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ خود لڑنے کے بجائے عیسائیوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں اور خود دور بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں اور فلسطین میں قیام کے دوران میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ یہودی فوج کے سامنے کوئی بچہ بھی ہاتھ میں پتھر لیے آجائے تو جدید اسلحہ ہونے کے باوجود وہ دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں وہ صرف اسلحہ ٹیکنالوجی اور دولت کے بل بوتے پر دنیا بھر میں دہشت گردی کرتے پھر رہے ہیں‘‘۔
’’ہم پانچوں سے آپ کس طرح کام لینا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‘‘ شعیب نے دو ٹوک الفاظ میں ذہن میں اُٹھنے والا سوال پوچھ ڈالا۔
’’میری پلاننگ کے مطابق سب سے پہلے تم سب کو چھ مہینے کی ٹریننگ لینی ہے جس میں ہر اعتبار سے مکمل فٹ ہونے کے بعد دو مہینے کا اسپیشل کورس ہوگا جس میں حساس آلات کا استعمال، خفیہ نیٹ ورک کے بارے میں معلومات اور میک اپ کے ذریعے شکل تبدیل کرنے کی مکمل ٹریننگ دی جائے گی‘‘۔ ماسٹر خان سانس لینے کو رُکے۔
’’یعنی آٹھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد ہم عملی فیلڈ میں آجائیں گے؟‘‘ زبیر نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ہاں، بالکل چار ماہ تک تم لوگ ملک کے اندر رہتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے خلاف اپنی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کروگے اور اس کے بعد ہم چھ افراد کی ٹیم مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ نام نہاد دشمن ریاست میں داخل ہوجائے گی‘‘۔
’’کیا! ہمیں اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائی کرنی ہوگی؟‘‘ وہ پانچوں حیرت سے چلائے۔ ’’یقیناً ہمیں دشمن کے قلب پر حملہ کرنا ہوگا تب ہی ہم دشمن کی سازشوں کو ناکام کرسکتے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے پانچوں کے حیرت سے کھلے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مگر پاسپورٹ تو دور کی بات ہے ہمارا تو شناختی کارڈ تک نہیں بنا اور پھر گھر والوں کو کس طرح راضی کریں گے؟‘‘ وقاص (جو کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہا تھا) بولا ’’ان معاملات کی فکر آپ کو نہیں کرنی، آپ کو صرف حامی بھرنی ہے باقی کام میرا ہوگا۔ ٹھیک ہے؟‘‘ ماسٹر خان کی بات پر پانچوں لڑکے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اگلے ہفتے وہ پانچوں سامان کندھوں پر ڈالے ماسٹر خان کی رہنمائی میں کیڈٹ کالج مری پہنچ گئے۔ ماسٹر خان پانچوں لڑکوں کے والدین سے اجازت لے چکے تھے اور انہیں مطمئن کرنے میں بھی کامیاب ہوچکے تھے۔ اب بظاہر وہ پانچوں کیڈٹ کالج مری میں پڑھنے جارہے تھے، لیکن کالج سے کچھ دور فاصلے پر ان کے لیے ٹریننگ سینٹر بنایا گیا تھا جسے بہت زبردست طریقے سے کیموفلاج کیا گیا تھا تاکہ عام لوگوں کو آسانی سے نظر نہ آئے اور دشمن سے بھی حفاظت رہے۔
صبح فجر سے پہلے ان کی مختلف ورزشیں شروع ہوجاتیں، فجر کی نماز کے بعد زبردست ناشتہ ہوتا اور پھر تربیت کے مختلف مراحل کا آغاز ہوجاتا، وہ پانچوں شام تک تھک کر چور ہوجاتے۔ ماسٹر خان ہر وقت ان کے ساتھ رہتا اور ان کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی اہتمام کرتا چھ مہینے کی زبردست تربیت کے بعد وہ اگلے مرحلے کے لیے تیار ہوچکے تھے۔
ماسٹر خان نے چھ مہینے کے مختصر وقت میں ان کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا اور وہ پانچوں بھی ماسٹر خان کی حیرت انگیز صلاحیتیں دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔ بالآخر وہ وقت آگیا جب انہیں دو مہینے کے اسپیشل کورس کے لیے مری سے آزاد کشمیر روانہ ہونا تھا۔ آزاد کشمیر میں انہیں حساس آلات کے استعمال کے طریقے سکھائے گئے، اسرائیل کے خفیہ نیٹ ورک کے بارے میں معلومات دی گئیں اور اس کے علاوہ انہیں میک اپ کے ذریعے چہرہ تبدیل کرنا بھی سکھایا گیا۔
دو مہینے بعد اب وہ آسانی سے اپنی اور ایک دوسرے کی شکل بدل سکتے تھے۔ آٹھ مہینے مکمل ہونے کے بعد وہ عید منانے گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے تو ماسٹر خان نے انہیں آئندہ کے لیے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
’’میں تم لوگوں کو کامیاب ٹریننگ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ تم لوگ ہر مقصد اور مشن میں سرخرو رہو، تم لوگ کل اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہورہے ہو، لیکن ضرورت پڑنے پر تم لوگوں کو کسی وقت بھی کال کی جاسکتی ہے، کیونکہ تم لوگوں کو پروگرام کے مطابق چار مہینے پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عمران، شعیب، ثاقب، زبیر اور وقاص نے یس سر کہتے ہوئے ماسٹر خان کو سیلوٹ مارا اور ہاتھ ملا کر اپنے اپنے کمروں میں جاکر سامان پیک کرنے لگے۔
’’عمران بھائی یہاں اتنا مزہ آرہا تھا اب گھر جاکر کیا کریں گے مجھے تو لگ رہا ہے کہ کراچی میں ہم بور ہوجائیں گے‘‘۔ ثاقب کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں بھئی میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ فوراً ہی کوئی مشن مل جاتا تو مزا آجاتا، اب تو ماسٹر کی مرضی ہے کہ ہمیں کب کال کرتے ہیں‘‘۔ عمران نے ثاقب کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’یار تم لوگ انسان ہو یا جن، آٹھ مہینے سے گھر کی شکل نہیں دیکھی اور تم لوگوں کا یہاں سے جانے کو دل ہی نہیں چاہ رہا ٹریننگ میں تمہارے جسم کے ساتھ ساتھ کہیں دل تو پتھر کے نہیں ہوگئے‘‘۔ زبیر نے عمران اور ثاقب کی طرف مصنوعی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو سارے ہنس پڑے۔
’’میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں یہ ٹکٹ کینسل کروا دینے چاہئیں مجھے خطرے کی بو محسوس ہورہی ہے‘‘۔ ثاقب نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میرے خیال میں آج تم نہانا بھول گئے ہو اس لیے بُو۔۔۔‘‘ وقاص نے اتنا ہی کہا تھا کہ سب ہنس پڑے، مگر اس دفعہ قہقہے کی آواز پہلے سے بھی بلند تھی۔
دوسرے دن شام کو ٹھیک پانچ بجے وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچ چکے تھے۔ گھر والوں کو حیران کرنے کے لیے انہوں نے اپنی شکلیں تبدیل کررکھی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا اور وہ پانچوں آگے پیچھے سیٹوں پر بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک اسپیکر گونج اُٹھا اور پائلٹ کی آواز مسافروں کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ گھبراہٹ میں کہہ رہا تھا ’’خواتین و حضرات آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ پرسکون رہیے اور ہدایات کو غور سے سنیے۔ ہمارا جہاز PK-007 جو اسلام آباد سے کراچی جارہا تھا ہائی جیک کرلیا گیا ہے آپ سے ۔۔۔ پائلٹ اعلان کررہا تھا اور جہاز کے مسافروں میں چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوچکی تھیں۔
’’ارے مارے گئے!‘‘ ثاقب نے برابر میں بیٹھے زبیر کو کہنی مارتے ہوئے کہا جو کافی دیر سے اونگھ رہا تھا۔
’’بھائی کیا ہوگیا کیا جہاز میں بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے جو کہنیاں مارے جارہے ہو؟‘‘ زبیر جو ابھی تک صحیح طریقے سے ہوش میں نہیں آیا تھا۔ بڑبڑاتے ہوئے بولا۔
’’جلدی اُٹھو۔ ہمارا جہاز ہائی جیک کرلیا گیا ہے‘‘۔ ثاقب نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
’’کک کک کیا؟‘‘ زبیر نے کیا کو کھینچتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں کہا اور بالکل سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اب اس کی نیند ایسے غائب ہوچکی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
’’سنو! ابھی ابھی پائلٹ نے یہی اعلان کیا ہے، لیکن یہ نہیں پتہ کہ ہائی جیکرز کون لوگ ہیں۔۔۔؟ اور ان کے عزائم کیا ہیں۔۔۔؟‘‘ جہاز میں شور بڑھتا جارہا تھا اور ثاقب پھر بھی قدرے ہلکی آواز میں بولا۔
’’لیکن مجھے تو ابھی تک ہائی جیکر نظر نہیں آرہا۔ کہیں یہ مذاق تو نہیں۔ اوہ کہیں آج اپریل کی پہلی تاریخ تو نہیں ہوسکتا ہے جہاز کا عملہ ہمارے ساتھ اپریل فول منا رہا ہو‘‘۔
’’اپریل فول کے چاچا! یہ اپریل کا مہینہ نہیں ہے۔ بک بک مت کرو اور جلدی سے آئندہ کی حکمت عملی طے کرو‘‘۔ ثاقب نے کمر کے گرد لپٹی بیلٹ غیر محسوس انداز میں کھولتے ہوئے کہا تو زبیر بھی جلدی سے بیلٹ کھولنے لگا تاکہ کارروائی کرنے میں مشکل نہ ہو۔
اسی دوران اگلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے شعیب، وقاص اور عمران حرکت میں آچکے تھے اور اُٹھنے کے لیے پر تول ہی رہے تھے کہ اسپیکر سے دوبارہ آواز اُبھری۔
’’خبردار! کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے ورنہ اسے گولی مار دی جائے گی، سارے مسافر ہمارے نشانے پر ہیں، ہمیں چند دہشت گردوں کی تلاش ہے۔ شناخت ہوتے ہی آپ سب کو چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
’’عمران! یہ بھارت کے ہائی جیکرز ہیں جو یقیناً ہماری تلاش میں ہیں۔ ہمارا میک اپ ہمارے کام آرہا ہے اس سے پہلے کہ وہ ہمیں شناخت کرلیں ہمیں کچھ کرنا ہی ہوگا‘‘۔ وقاص نے آہستگی سے کہا۔
لیکن تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ بھارت کے ہی ہائی جیکرز ہیں؟‘‘ عمران نے حیرانگی سے پوچھا۔ ’’میں جو آواز سن لوں اسے سالوں یاد رکھتا ہوں یہ وہی آواز ہے جو ہم نے انٹرویو والے دن ماسٹر خان کے کمرے میں سنی تھی اور جس کی پٹائی شعیب نے لگائی تھی۔ یاد آیا؟‘‘ وقاص نے اپنی یادداشت کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے یاد دلایا۔
’’اوہ اس کا مطلب ہے ابھی تک بھارت کی انٹیلی جنس ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے، حالانکہ ماسٹر خان انہیں یہ یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ ان کا ٹارگٹ بھارت نہیں ہے‘‘۔ عمران نے بات مکمل کی تو شعیب نے بھی آہستگی سے سر ہلایا اور پرسکون انداز میں بولا۔
’’یہ باتیں کرنے کا نہیں کچھ کر گزرنے کا وقت ہے۔ یہاں کیمرے نہیں لگے ہوئے یقیناً ان کے کچھ آدمی ہمارے آس پاس ہی سیٹوں پر موجود ہیں جس کی دھمکی ابھی دی گئی ہے۔ ہمیں فوراً ان آدمیوں کو ٹریس کرکے قابو کرنا ہے۔ یہ یاد رکھنا کہ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ بالکل تیار ہوگا۔ ذرا سی بھی غلطی ہمیں موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے تم دونوں الرٹ ہوجاؤ میں پیچھے ثاقب اور زبیر سے رابطہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر شعیب نے اپنی قمیص کے بٹن کو گھمایا تو مائک آن ہوگیا۔ رابطہ ہوتے ہی شعیب نے کہا کہ میں شعیب بول رہا ہوں اوور۔۔۔
دوسری طرف ثاقب کے سینے پر بٹن نے حرکت کی تو وہ سمجھ گیا کہ اگلی سیٹوں سے رابطہ ہورہا ہے۔ اس نے بھی سب سے اوپر والا بٹن گھمایا تو شعیب کی آواز سنائی دی جواب میں ثاقب نے آہستگی سے کہا ’’ہاں سن رہا ہوں۔۔۔اوور۔۔۔‘‘
شعیب نے کہا ’’ثاقب یہ بھارت کے ہائی جیکرز ہیں جو ہمیں تلاش کررہے ہیں، لیکن ہمارے چہرے تبدیل ہونے کی وجہ سے ہمیں صحیح سے شناخت نہیں کرپا رہے اور سامنے بھی نہیں آرہے ان کے آدمی ہمارے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں انہیں ٹریس کرو، ایکشن لینے کی تمہیں اجازت ہے، مگر احتیاط سے۔۔۔ اوور۔۔۔ اوکے‘‘ اور ثاقب نے رابطہ منقطع کردیا۔
ابھی تک کوئی ہائی جیکر سامنے نہیں آیا تھا۔ لیکن شعیب کی عقابی نظروں نے ایک ایجنٹ کو ٹریس کرلیا جو شعیب کے برابر والی قطار میں تھوڑا سا آگے بیٹھا ہوا تھا۔ جس کی آنکھیں مسلسل خاموشی کے ساتھ مسافروں کے چہروں پر پھسل رہی تھی مگر وہ ان پانچوں کے معصوم اور میک اپ زدہ چہروں سے دھوکہ کھا رہا تھا۔ ان پانچوں نے بھی بغیر کسی پریشانی کا اظہار کئے اپنے اوپر مزید معصومیت طاری کررکھی تھی۔
دوسری طرف ثاقب اور زبیر نے بھی ایک ایجنٹ کو ڈھونڈ نکالا جو ان کی سیٹ کے بالکل پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نشاندہی ہوتے ہی ثاقب نے شعیب کو سگنل پاس کیا اور اچانک اپنی سیٹ سے ایسے اُچھلا جیسے اس کی سیٹ پر اسپرنگ لگے ہوں اور پیچھے بیٹھے ہوئے شخص پر حملہ کردیا۔ اس نے بھی کوٹ کی جیب میں موجود پسٹل نکالنے کی کوشش کی، لیکن ثاقب کی حیرت انگیز پھرتی نے اسے بے بس کردیا پھر بھی ایک زوردار ہاتھ ثاقب کے سینے پر لگا، لیکن ثاقب کا جاندار فولادی مُکّا اس کے چہرے کا حلیہ بگاڑ چکا تھا اور پسٹل اس کے ہاتھ سے نکل کر سیٹ کے نیچے جاچکی تھی۔
دوسری طرف شعیب نے موقع غنیمت جان کر آگے بیٹھے ہوئے ایجنٹ پر چھلانگ لگا کر اس کی گردن دبوچ لی جو اپنے ساتھی پر حملہ ہوتے دیکھ کر پیچھے متوجہ تھا اور فائر کرنا چاہتا تھا۔ شعیب نے اس کی گردن پر ایسا دباؤ ڈالا کہ اس کی آنکھیں باہر کو اُبل پڑیں۔ پھر شعیب کے گھونسے تھے اور اس کا منہ اتنی دیر میں عمران، وقاص اور زبیر کاک پٹ کی طرف بھاگے اور جیسے ہی وہ کاک پٹ کے دروازے کے قریب پہنچے اچانک دروازہ کھلا اور دو لمبے تڑنگے نوجوان شور شرابہ سن کر جدید ہتھیار لیے باہر آگئے، ابھی وہ حالات کو سمجھنے بھی نہیں پائے تھے کہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں زبیر نے بھاگتے بھاگتے فلائنگ جمپ لگائی اور دونوں ہائی جیکرز کو قابو کرتے ہوئے کاک پٹ کے ادھ کھلے دروازے سے اندر جاگرا اور پانچواں ہائی جیکر جو اسلحہ کے زور پر پائلٹس کو قابو میں کئے ہوئے تھا، اس اچانک آفت سے بوکھلا گیا اور اسی بوکھلاہٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جونیئر پائلٹ نے اس پر حملہ کردیا شاید وہ بھی کچھ لڑنا بھڑنا جانتا تھا۔ اسی لیے فوراً اس کے سینے پر چڑھ گیا اور دو چار گھونسوں میں اسے ادھ موا کردیا۔ زبیر جن دو ہائی جیکرز کو لے کر گرا تھا ان کی عمران وقاص اور زبیر نے مل کر خوب درگت بنائی اور ثاقب اور شعیب کی مدد کے لیے تو جہاز کے سارے مسافر موجود تھے کوئی لاتیں کوئی گھونسے اور کوئی جوتوں سے ان کی پٹائی لگا رہا تھا۔ جبکہ ثاقب اور شعیب باندھنے کے لیے رسی تلاش کررہے تھے۔ پندرہ منٹ بعد وہ پانچوں ہائی جیکرز کو باندھ کر اور کاک پٹ کے کونے میں پھینک کر ہاتھ جھاڑ رہے تھے اور سارے مسافر انہیں حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان کی بہادری کی داد دے رہے تھے۔
پائلٹ نے بتایا کہ ہائی جیکرز پانچ افراد کی تلاش میں تھے۔ جن کی تصویریں ان کے پاس موجود تھیں اور وہ جہاز کو کراچی لے جاکر ایندھن بھروانے کے بعد نیپال لے جانا چاہتے تھے۔ جبکہ لہجے سے وہ انڈین لگ رہے تھے۔ اس کے بعد پائلٹ نے دوبارہ کراچی ایئرپورٹ سے رابطہ کرکے اطلاع دی کہ پانچ بہادر لڑکوں نے ہائی جیکرز کو قابو کرلیا ہے اور حالات قابو میں ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کراچی ایئرپورٹ کے رن وے پر اُتر چکا تھا۔ عمران نے چاروں کی توجہ کھڑکی سے باہر کے منظر کی طرف دلائی تو انہوں دیکھا کہ ایئرپورٹ کو چاروں طرف سے پاکستانی کمانڈوز گھیرے میں لے چکے تھے اور مختلف اخبارات کے بے شمار فوٹو گرافرز دوڑتے ہوئے جہاز کی تصاویر اُتار رہے تھے اور کئی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں سائرن بجاتی ہوئی دوڑ رہی تھیں جبکہ ان پانچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
جہاز کی سیڑھیوں سے اُترتے ہی مسافروں نے ان کے منع کرنے کے باوجود انہیں کندھوں پر اُٹھا لیا۔ پاکستانی کمانڈوز فوراً جہاز پر چڑھ گئے اور ہائی جیکرز کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ ایئرپورٹ کے عملے نے پانچوں ہیروز کے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالے۔ وہ پانچوں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ویٹنگ روم تک آئے تو وہاں ان کے والدین بھی موجود تھے جن کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ آج کے ہیروز ان ہی کے بیٹے ہیں۔
وقاص جب اپنی امی کے قریب سے انجان بن کر گزر رہا تھا تو اچانک اس کی امی ’’وقاص! میرے بیٹے‘‘۔ کہتے ہوئے اس سے لپٹ گئیں۔ میک اپ میں ہونے کے باوجود انہوں نے وقاص کی مخصوص مسکراہٹ سے اسے پہچان لیا تھا۔ وقاص کو اپنی امی سے ملتے دیکھ کر باقی چاروں بھی اپنے والدین کو حیران و پریشان کرتے ہوئے ان سے لپٹ گئے۔
دوسرے دن ملک کے تمام اخبارات کی شہ سرخی میں ان پانچوں کے کارنامے کی تفصیل، ان کی تصویروں کے ساتھ درج تھی کہ پانچ نو عمر لڑکوں نے بھارت کے ہائی جیکرز کو گرفتار کروادیا اور وہ پانچوں اخبار میں اپنی میک اپ زدہ شکلیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ کیونکہ ہیروز کی شکلیں تو اسی دن کیمیکل سے دھل کر ہمیشہ کے لیے گمنام ہوگئی تھیں۔۔۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’رام رام سر، رام رام غضب ہوگیا سر‘‘۔ اشوک کمار چیختے ہوئے بھارت کی خفیہ تنظیم ’’را‘‘ کے ڈائریکٹر راہول کے کمرے میں گھس آیا۔ اس کا سانس تیزی سے پھول رہا تھا۔ جیسے کافی تیز دوڑتے ہوئے آیا ہو۔
’’ارے۔۔۔ رے ۔۔۔رے۔ آرام سے اشوک آرام سے، دھیرج بابا دھیرج، زیادہ پریشان مت ہو، بولو کیا بات ہے؟‘‘ مضبوط اعصاب کے مالک راہول نے بغیر کسی پریشانی کے کہا۔
’’سر وہ پانچ چھوکرے تو لوہے کے چنے نکلے۔ انہوں نے ہمارا مشن PK.007 ناکام بنادیا اور ہمارے پانچوں ساتھی پاکستانی کمانڈوز کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں‘‘۔ اشوک نے ایک ہی سانس میں ساری رپورٹ پیش کردی۔
’’کیا؟ کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔۔؟ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ پانچ بچے ہمارے تربیت یافتہ ایجنٹوں پر قابو پالیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا تم اپنی اطلاع درست کرو ورنہ میں تمہارا گلا دبادوں گا‘‘۔ راہول غصے سے چنگھاڑتے ہوئے بولا۔
’’سر یہ اطلاع تصدیق شدہ ہے ایک گھنٹے پہلے تک میرا ان سے رابطہ تھا، وہ مجھے ہر ہر لمحہ کی رپورٹ دے رہے تھے ان کے بیان کے مطابق وہ پانچوں لڑکے ابھی تک جہاز میں شناخت نہیں ہوسکے اور کوشش جاری ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد ان سے رابطہ منقطع ہوگیا اور عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں جیسے جہاز میں لڑائی ہورہی ہو اور ابھی پاکستان سے ہمارے ایجنٹ موہن نے اطلاع دی ہے کہ وہ پانچوں گرفتار ہوچکے ہیں اور اب تو پاکستانی ٹی وی بھی اس کی رپورٹ دے رہا ہے۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم بے وقوف؟‘‘ راہول نے جلدی سے لپک کر ٹی وی ریموٹ اُٹھایا اور ٹی وی آن کردیا جس پر کراچی ایئرپورٹ سے براہ راست ایک شخص تفصیلات بیان کررہا تھا۔
راہول نے غصے میں ریموٹ پٹخ دیا اور ٹیلی فون اُٹھا کر سیکریٹری کو ہدایات دیتے ہوئے کہا۔ جلدی سے تمام ذمہ داران کو اطلاع دو کہ ٹھیک پندرہ منٹ بعد میٹنگ ہال میں پہنچ جائیں ہم آئندہ کی پلاننگ طے کریں گے۔
ہدایات دینے کے بعد اشوک سے کہنے لگا تم فوراً موہن سے رابطہ قائم کرو اور اس سے کہو کہ وہ کسی طرح گرفتار ساتھیوں سے رابطہ کرے اور انہیں ہدایات دے کہ وہ اپنا منہ بند رکھیں بس!
*۔۔۔*۔۔۔*
’’بہت خوب بھئی، زبردست تم پانچوں نے تو مجھے خوش کردیا‘‘۔ ماسٹر خان نے تعریفی نظروں سے پانچوں لڑکوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ماسٹر خان اطلاع ملتے ہی فوراً کراچی پہنچے تھے اور پانچوں کو رات کے کھانے پر بلایا تھا۔
’’سر یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے ورنہ ہم اس قابل کہاں تھے‘‘۔ عمران نے عاجزی سے کہا تو ماسٹر خان نے آگے بڑھ کر عمران کو گلے لگالیا۔
’’نہیں بھئی یہ سب تمہارے سچے جذبوں کی وجہ سے ممکن ہوا اور ویسے بھی اللہ کے شیروں پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم لوگوں نے اپنے پہلے ہی معرکے میں زبردست بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اب بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بھارت کے سارے ایجنٹ حرکت میں آگئے ہوں گے اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ہوں گے‘‘۔ ماسٹر خان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’سر، اب آئندہ کے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں ہمیں آپس میں رابطہ قائم رکھنا چاہئے اور ہفتہ وار میٹنگ بھی ہوجائے تو اچھا رہے گا‘‘۔ شعیب نے مشورہ دیا۔
’’بہت اچھا مشورہ ہے۔ میرا بھی یہی خیال تھا جس پر میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ میرے خیال میں ہر جمعہ کی شام ہم اسی مقام پر اپنی میٹنگ کریں گے اور حالات کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے‘‘۔ ماسٹر خان نے پانچوں کے چہروں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’بالکل سر یہ ٹھیک ہے، لیکن سر یہ بھارتی ایجنٹ جو ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے ہیں ان کا کیا علاج کیا جائے؟‘‘ زبیر نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اس سلسلے میں، میں را کی ہائی کمان سے بات کرچکا ہوں کہ بلاوجہ ہمارے ساتھ ٹکر مت لو یہ زبردستی دشمنی مول لینے والی بات ہے، اگر ہم آپ کے خلاف کارروائی کریں تو آپ بھی کرسکتے ہیں، ورنہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اتنی بڑی کارروائی کرڈالی اور خود ہی مصیبت میں پھنس گئے۔ بہرحال ہم صرف دفاعی پوزیشن اختیار کریں گے اور خود کوئی کارروائی کرنے سے گریز کریں گے‘‘۔ ماسٹر خان نے دو ٹوک انداز میں اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا۔
’’سر مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے، لیکن ہمیں اس خبیث دشمن سے چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب ضرور سوچنی چاہیے، ورنہ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل، بھارت کا سب سے قریبی دوست ہے اور اگر بالفرض بھارت نے اسرائیل سے مدد مانگ لی تو ہم دونوں طرف سے پھنس جائیں گے اور ہمارا مشن بھی ادھورا رہ جائے گا‘‘۔ ثاقب نے بات مکمل کی تو سب کے چہروں پر فکرمندی کے سائے لہرانے لگے۔
’’ہونہہ! واقعی ہماری تو اس طرف نظر ہی نہیں گئی تم تو واقعی بہت دور کی کوڑی لائے ہو۔ خیر اس مسئلے پر سب مل کر سوچتے ہیں اور آئندہ اجلاس میں کوئی حکمت عملی طے کریں گے۔ ٹھیک ہے، اب تم لوگ جاسکتے ہو‘‘۔ ماسٹر خان نے میٹنگ برخاست کرتے ہوئے کہا تو سارے لڑکے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا مشن PK.007 ناکام ہوچکا ہے اور ہمارے پانچوں ساتھی گرفتار ہیں اور اسی سلسلے میں یہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔ راہول نے ’’را‘‘ کے ذمہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’باس! میرے خیال میں ہمیں پہلے وہ وجوہات معلوم کرنی چاہئیں جن کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے‘‘۔ ایک ممبر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’وجوہات کو گولی مارو، میں نے پانچوں گرفتار ایجنٹوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیئے ہیں کل صبح تک وہ موت کے منہ میں پہنچ چکے ہوں گے۔ ایسے بزدل اور نکمے لوگوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ راہول نے غصے سے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔
’’لیکن باس، یہ تو زیادتی ہے ہمیں ان کو چھڑانا چاہئے وہ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں ہندوستان نے ان کے اوپر اپنا پیسہ خرچ کیا ہے اور انہوں نے دیش کی خاطر اپنی جان کی بازی لگائی ہے، اگر آج وہ گرفتار ہیں تو کیا ہم انہیں مار ڈالیں؟ اس طرح تو آئندہ دیش کی خاطر کوئی کام نہیں کرے گا‘‘۔
اشوک کو غصہ آگیا اور اس نے تقریر شروع کردی۔
’’شٹ اپ! بکواس بند کرو۔ ان کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہے، اب ہمیں آئندہ کی منصوبہ بندی کرنی ہے اوکے‘‘۔ راہول نے اٹل فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، راہول صاحب‘‘۔ اشوک یہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے کھڑا ہوگیا۔
’’اچھا آ آ آ! تو ہماری بلی ہم ہی کو میاؤں۔ تو پھر تمہیں بھی جینے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کہتے ہوئے راہول نے اچانک پسٹل نکالی اور اشوک کے سینے کا نشانہ لے کر لگاتار تین چار فائر کئے اور تھوڑی دیر بعد اشوک کا بے جان لاشہ ہال کے قیمتی قالین کو خون سے رنگین کررہا تھا۔
سارے ہال میں سناٹا طاری ہوچکا تھا۔ اشوک کی لاش باہر جاچکی تھی۔ اتنے قریبی ساتھی کو اتنی آسانی سے منہ کے منہ میں جاتے دیکھ کر سارے ایجنٹوں کو اپنی موت بھی قریب نظر آرہی تھی اور وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکے تھے۔
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں ان پانچ پاکستانی چھوکروں اور ان کے باس ماسٹر خان کے گرد گھیرا ڈالنا ہے، اس سلسلے میں مجھے آپ سب لوگوں کی تجاویز درکار ہیں‘‘۔ راہول نے پسٹل کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے اتنے اطمینان سے کہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
’’باس! یہ ماسٹر خان وہی ہے نا، جو کئی عرصہ تک بھارت میں جاسوسی کرتا رہا ہے اور آج کل پاکستان میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہے؟‘‘ ایک ایجنٹ نے سوالیہ انداز میں تصدیق کرنی چاہی۔
’’ریٹائرڈ نہیں، بلکہ اب ہمارے لیے مزید مصیبت بن کر سامنے آرہا ہے۔ چند مہینے پہلے اس نے اخبار میں اشتہار دے کر پانچ بچوں کو جمع کیا جو ہماری اطلاعات کے مطابق حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اس نے ان کو زبردست ٹریننگ دی اور انہیں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی تربیت دی جس کی تفصیلی رپورٹ ہمارے ایجنٹ کے ذریعے ہمارے پاس پہنچ چکی ہے۔ ان پانچوں لڑکوں کی تصاویر خفیہ طور پر لے لی گئی ہیں اور رہائشی پتے بھی حاصل کرلیے گئے ہیں۔ بہرحال مجھے وہ لڑکے زندہ حالت میں چاہئیں۔ میں بھی تو دیکھوں کہ آخر وہ ہیں کیا چیز‘‘۔ راہول نے غصے سے آنکھیں باہر نکالتے ہوئے کہا جس میں سفاکیت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔
میرے خیال میں اس سلسلے میں ہمیں بھرپور پلاننگ تیار کرکے پاکستان بھیجنی ہوگی، تاکہ ہمیں دوبارہ ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے‘‘۔ ایک اور ایجنٹ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں اس دفعہ میں خود پورے آپریشن کی نگرانی کروں گا اور ہم پورا گروپ بھارت سے تیار کریں گے اور تم میں سے چند افراد میرے ساتھ ہوں گے اس بار میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہوں گا۔ تم میں سے کون اس آپریشن میں حصہ لینا چاہے گا؟‘‘ راہول نے اچانک تمام ممبران سے سوال کرڈالا جس کے جواب میں سارے ایجنٹ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ کوئی بھی خوشی سے موت کے منہ میں جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
’’ارے تم لوگ تو ابھی سے ڈر گئے اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ آپریشن انتہائی خفیہ ہوگا جس میں مکیش، جتندر اور راجیش میرے ساتھ پاکستان جائیں گے اور باقی افراد یہیں سے کنٹرول سنبھالیں گے۔ باقی تفصیلات ہم اگلی میٹنگ میں طے کریں گے‘‘۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مکیش، جتندر اور راجیش کے چہروں پر بے بسی کے آثار واضح طور پر نمودار ہوچکے تھے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

شام کا اخبار پڑھتے ہوئے ثاقب کی نظریں ایک خبر پر جم گئیں۔ ’’پاکستان بھارت کرکٹ سیریز کے لیے بڑی تعداد میں بھارتی شائقین کراچی پہنچ چکے ہیں‘‘۔ تفصیلات میں لکھا تھا کہ اس سیریز کو دیکھنے کے نام پر شرپسندوں کی آمد خارج از امکان نہیں۔
ثاقب کی چھٹی حس بیدار ہوچکی تھی خطرے کی گھنٹیاں اس کے دماغ میں مندر کے گھنٹے کی طرح بج رہی تھیں۔ ابھی وہ اُٹھنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف زبیر کی آواز سنائی دی۔ ’’ثاقب! عمران کو گلشن اقبال سے اغوا کرلیا گیا ہے‘‘۔ 
’’کیا؟ اتنی جلدی؟‘‘ ثاقب نے حیرت سے کہا۔
’’اتنی جلدی سے تمہاری کیا مراد ہے۔ کیا تمہیں پہلے سے بھی کچھ معلوم ہے؟‘‘ زبیر نے فوراً ہی ثاقب کے الفاظ پکڑ لیے۔
’’ہاں آج ایک خبر پڑھی تو اچانک چھٹی حس بیدار ہوگئی کہ ضرور کچھ ہونے والا ہے، مگر یہ اُمید نہیں تھی کہ اتنی جلدی کارروائی ہوجائے گی۔’’بہرحال اب کیا کرنا ہے؟‘‘ ثاقب نے پوچھا۔
’’ابھی میرے پاس وقاص کا فون آیا تھا ہمیں فوراً مرکز پہنچنا ہے‘‘۔ زبیر نے مختصر اطلاع دی اور ثاقب نے اوکے کہہ کر فون رکھ دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
میٹنگ ہال میں ماسٹر خان بڑی بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ ثاقب اور وقاص پہنچ چکے تھے، البتہ زبیر ابھی تک غائب تھا۔
’’اللہ خیر کرے! یہ زبیر پتہ نہیں کہاں رہ گیا! ہم اپنی میٹنگ شروع کرتے ہیں، کیونکہ اب ہمارے پاس انتظار کا وقت نہیں‘‘۔ ماسٹر خان اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’میرے خیال میں اس کی بائیک پنکچر ہوگئی ہے کہیں راستے میں پھنسا ہوا ہوگا‘‘۔ ثاقب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ثاقب تمہیں اس کی اطلاع ہے یا ایسے ہی ڈینگیں مار رہے ہو؟‘‘ ماسٹر خان نے ثاقب کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا تو ثاقب نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا ’’سر معافی چاہتا ہوں، ویسے ہی ذہن میں ایک بات آگئی تھی‘‘۔
اسی دوران ماسٹر خان کے موبائل کی آواز گونج اُٹھی اور میز پر رکھا ہوا موبائل تھرتھرا اُٹھا۔
ماسٹر خان نے موبائل کان سے لگایا تو دوسری طرف زبیر تھا۔
’’سر دراصل میری۔۔۔‘‘ زبیر نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ماسٹر خان بے ساختہ بولے۔
’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے تمہاری موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی ہے۔ یہ بتاؤ تم اس وقت کہاں پر ہو؟ ہم میٹنگ شروع کررہے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نہ چاہتے ہوئے بھی ثاقب کی طرف دیکھ کر مسکرا اُٹھے۔
’’لیکن سر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میری موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی ہے؟‘‘ زبیر کی آواز میں بلا کی حیرت پوشیدہ تھی۔
’’تفصیلات آنے کے بعد، ابھی یہ بتاؤ کہ کب پہنچ رہے ہو؟‘‘ ماسٹر خان نے زبیر کی حیرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
’’سر بس دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ آپ میٹنگ شروع کیجئے‘‘۔ زبیر نے بات ختم کی اور ماسٹر خان نے اوکے کہہ کر موبائل آف کردیا۔
’’بھئی! تم انسان ہو یا جن؟ یہ تو واقعی پنکچر ہوگئی۔ مجھے تک پر شک ہوتا جارہا ہے۔ ضرور تمہارے پاس کوئی غیبی طاقت ہے‘‘۔ ماسٹر خان بھی کافی حد تک سٹپٹا گئے تھے۔
’’سر یہ تو صرف اندازہ لگانا ہے۔ اب اگر میرے اکثر اندازے درست ہوجاتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے آپ منع کریں گے تو آئندہ منہ بند رکھوں گا‘‘۔ ثاقب نے آخری جملہ ایسے کہا جیسے دھمکی دے رہا ہو۔
’’نہیں بھئی نہیں! تمہارے منہ کھولنے ہی میں ہمارا فائدہ ہے ویسے بھی تم منہ بند رکھ ہی نہیں سکتے۔ کیا خیال ہے صحیح کہہ رہا ہوں نا؟‘‘ ماسٹر خان نے ثاقب کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو ثاقب نے مسکراتے ہوئے جواب میں کندھے اُچکا دیئے۔
’’سر زبیر سے تو بات ہوگئی مگر یہ شعیب کہاں غائب ہے؟‘‘ وقاص نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’شعیب غائب نہیں فیلڈ میں ہے، بس زبیر آنے ہی والا ہے۔ پھر ہم ساری باتیں ایک ساتھ ہی کرلیں گے‘‘۔
’’کیا میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘ زبیر نے اندر آتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بھئی اب اندر آہی چکے ہو تو پوچھ کیوں رہے ہو؟‘‘ ثاقب نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ثاقب بھائی! عمران بھائی کی ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگ رہی ہوگی اور آپ یہاں بیٹھے ہنس رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں جلد ہی سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل طے کرکے فوراً عمل کرنا چاہئے‘‘۔
وقاص عمر میں سب سے چھوٹا تھا۔ اسی لیے سب سے زیادہ فکر بھی اسے ہی لگی ہوئی تھی۔
’’بالکل بالکل وقاص بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ اب تم لوگ ساری تفصیلات سنو پھر آگے بات ہوگی‘‘۔
’’آج صبح جب سات بج کر پانچ منٹ پر شعیب کا فون آیا تو میں سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے، کیونکہ اس کی سانس پھول رہی تھی اور وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ آج میں فجر کی نماز پڑھنے عمران کی طرف چلا گیا کہ چلو صبح صبح عمران سے ملاقات بھی ہوجائے گی، مسجد سے نکلنے میں مجھے تھوڑی دیر ہوگئی۔ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا تو عمران تیس چالیس قدم آگے نکل چکا تھا۔ میں نے بائیک اسٹارٹ کی ہی تھی کہ اچانک ایک سفید کار عمران کے پاس آکر رُکی اور اس میں سے تین آدمی پھرتی سے نکلے اور عمران کو مزاحمت کا موقع دیئے بغیر گن پوائنٹ پر اسے کار میں ڈالا اور چند سیکنڈوں میں یہ جا وہ جا۔ اس نے بتایا کہ ابھی وہ اسی کار کے پیچھے لگا ہوا ہے اور راستے سے بات کررہا ہے اور پیچھا کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی ہے، کیونکہ سڑک پر ٹریفک بہت کم ہے اور کافی فاصلے سے پیچھا کرنا پڑرہا ہے جیسے ہی کوئی کامیابی ملی وہ فوراً رابطہ کرے گا‘‘۔ 
’’سر کیا اس نے بتایا کہ وہ کس حلیہ کے لوگ تھے؟‘‘ ثاقب نے پوچھا۔
’’نہیں، اس نے صرف اتنا بتایا ہے کہ وہ لوگ ہاتھوں میں سیاہ دستانے اور چہرے پر سیاہ ماسک لگائے ہوئے تھے اور وہ ویسے بھی وہ راستے میں تھا، اسی لیے میں نے اسے زیادہ نہیں کریدا، موقع پاتے ہی وہ خود فون کرے گا‘‘۔
’’سر اس کا مطلب ہے کہ جب تک شعیب ہم سے رابطہ نہ کرے ہم کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتے‘‘۔ وقاص نے نتیجہ نکالا۔
’’بالکل! لیکن ہمیں اپنی تیاری مکمل رکھنی ہے تاکہ جیسے ہی وہ سگنل دے ہم روانہ ہوسکیں‘‘۔ ماسٹر خان نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’سر آج کے اخبار کی خبر ہے کہ بھارت سے کرکٹ کے ہزاروں شائقین کراچی پہنچ چکے ہیں۔ ہم اس خبر کو نظرانداز نہیں کرسکتے‘‘۔ ثاقب نے اخبار ماسٹر خان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا جو وہ ساتھ ہی لے آیا تھا۔
’’جی ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہ را کی کارستانی ہے اور وہ آسانی سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گی، کیونکہ پرسوں جس طرح انہوں نے جیل کے اندر اپنے پانچ ساتھیوں کو قتل کیا ہے وہ ہمیں بھی اتنی آرام سے نہیں چھوڑنا چاہیں گے‘‘۔
’’لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ انشااللہ اس دفعہ ہم ان کا زبردست علاج کریں گے‘‘۔
زبردست کہتے ہوئے ماسٹر خان نے اپنے دانتوں اور ہاتھ کو سختی سے بھینچا تو وقاص، زبیر اور ثاقب کا بھی ڈھیروں خون بڑھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’دیکھو! زیادہ ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اسلحے بے آواز ہیں۔ نہ خود آواز نکالتے ہیں اور نہ مرنے والے کو آواز نکالنے کی مہلت دیتے ہیں۔ یہ پہلی ہدایت تھی جو عمران کو کار میں زبردستی بٹھانے کے بعد ملی تھی اور اسے یہ ہدایت نہ بھی ملتی تو وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ وہ تو سلام پھیرتے ہی مسجد سے دعا مانگے بغیر نکل آیا تھا، کیونکہ رات دیر تک جاگنے کے بعد اسے سخت نیند آرہی تھی اور وہ جلدی سے گھر پہنچ کر آرام کرنا چاہ رہا تھا، مگر اس اچانک آفت سے تو ساری نیند ایسے غائب ہوگئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
آدھے گھنٹے تک سڑکوں پر گھمانے کے بعد اسے ایک کمرے میں لاکر دھکا دے دیا اور اس کی آنکھوں سے پٹی کھول کر ہاتھوں کو آزاد کردیا گیا۔ موقع پاتے ہی عمران نے غیر محسوس انداز میں اپنی قمیص کا بٹن گھما دیا جس سے ماسٹر خان اور دوسرے ساتھیوں سے رابطہ قائم ہوگیا۔ اب وہ آسانی سے کمرے میں ہونے والی بات سن سکتے تھے۔ یہ خفیہ بٹن پاکستان ہی کے سائنس دانوں کا ایجاد کردہ تھا جو صرف پاکستانی ایجنسیوں کے استعمال میں تھا اور مکمل تلاشی کے باوجود بھی کسی کی نظر اس پر نہیں جاسکتی تھی اور ان پانچوں کو ہدایت تھی کہ جیسے ہی کپڑے بدلیں فوراً یہ بٹن دوسری قمیص میں منتقل کرلیں، تاکہ چوبیس گھنٹے کسی وقت بھی خفیہ طور پر رابطہ قائم ہوسکے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ماسٹر خان، وقاص، زبیر اور ثاقب کو ابھی گفتگو کرتے ہوئے مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ چاروں کو اپنے سینے پر تھرتھراہٹ محسوس ہوئی، جس کا مطلب تھا کہ شعیب یا عمران میں سے کوئی رابطہ قائم کرنا چاہ رہا تھا، مگر کان سے خفیہ طور پر منسلک اسپیکر گھررر گھررر کے سوا کوئی آواز نہیں دے رہا تھا صرف ہلکی ہلکی سانس چلنے کی آواز آرہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ایک کڑک دار آواز گونجی ’’ہاں تو لڑکے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’دیکھیں جناب مجھے آپ نے اغواء کیا ہے تو پھر یقیناً آپ میرا نام بھی جانتے ہوں گے‘‘۔
’’یہ تو عمران کی آواز ہے۔ اس نے صرف اسپیکر آن کیا ہے، تاکہ ہم ساری کارروائی سُن سکیں‘‘۔ ماسٹر خان نے آواز پہچانتے ہوئے کہا۔
’’چٹاخ، چٹاخ‘‘ کی نہایت زوردار آواز گونجی اور کوئی نہایت غصے سے چنگھاڑا۔
’’خبیث! راہول کے سامنے زبان چلاتا ہے‘‘۔
تھپڑ کی آواز اتنی زوردار تھی کہ چاروں کے کان ایک لمحے کے لیے سائیں سائیں کرنے لگے۔
’’خدایا! اتنا زوردار تھپڑ‘‘۔ وقاص کو جھرجھری سی آگئی۔
’’اللہ رحم کرے! شعیب نے بھی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں کی۔ پتہ نہیں کہاں پھنس گیا ہے ورنہ ہم بھی کوئی کارروائی کرڈالتے‘‘۔
’’ہم سوالات کریں گے اور تمہیں ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہوگا ورنہ تمہاری خیر نہیں‘‘۔ چاروں کے کان میں ایک مرتبہ پھر راہول کی آواز گونجی۔
’’تمہارا نام عمران ہے؟‘‘ سوالیہ انداز میں پوچھا گیا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ عمران کی آواز آئی۔
’’تم گوریلا فائٹرز کے رکن ہو؟‘‘
’’میں کسی گورا پاپڑ کو نہیں جانتا۔ ویسے مجھے پاپڑ بہت اچھے لگتے ہیں‘‘۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا تو راہول غصے سے بھڑک اُٹھا۔ اور اب لاتوں، مکوں اور گھونسوں کے ساتھ گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔
’’سر بہت ہوگیا ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔ ورنہ یہ لوگ عمران کو جان سے مار ڈالیں گے‘‘۔ عمران کے کراہنے کی آواز سُن کر زبیر غصے سے کھڑا ہوگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عمران کو اغوا کرکے جیسے ہی کار روانہ ہوئی۔ شعیب نے کمالِ ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بائیک کار کے پیچھے ڈال دی اور کافی فاصلے سے مستقل پیچھا جاری رکھا۔
شعیب نے محسوس کیا کہ کار میں بھی عمران نے کوئی مزاحمت نہیں کی، شاید انہوں نے اسے بے ہوش کردیا ہو یا عمران نے بے بس ہوکر خود ہی ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیئے ہوں۔
گھومتے گھماتے اب وہ ڈیفنس کی طرف نکل آئے تھے۔ شعیب نے فوراً ہی ماسٹر کو اطلاع کردی تھی۔
ڈیفنس کی خاموش گلیوں میں پیچھا کرنا اب اور بھی دشوار ہوگیا تھا، لیکن شعیب کو اندازہ تھا کہ اب تک وہ اس سے لاعلم ہیں۔ اب کار ایک بنگلے کے سامنے آکر رُک گئی اور بنگلے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا جیسے ان ہی کے انتظار میں ہو اور کار کے اندر جاتے ہی خودکار طریقے سے دروازہ بند ہوگیا۔
تین چار منٹ انتظار کرنے کے بعد شعیب نے بنگلے کے پاس چکر کاٹا۔ R-356 بنگلے کا نمبر تھا جو فوراً ہی اس کے دماغ پر نقش ہوگیا۔
قریب ہی خالی پلاٹ میں بائیک کھڑی کرنے کے بعد وہ بنگلے کا چاروں طرف سے گھوم پھر کر جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے شعیب کی گردن پکڑ لی اور شعیب کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی گردن کسی ہاتھ میں نہیں بلکہ لوہے کے شکنجے میں جکڑ دی گئی ہو۔۔۔ 
گردن پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ شعیب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھیں باہر نکلنے لگیں۔ شعیب نے فوراً اندازہ کرلیا کہ گردن چھڑانے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہوگا، لہٰذا اس نے فوراً ہی اپنی دائیں کہنی کا بھرپور وار حملہ آور کے پیٹ میں کیا اور حملہ آور کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ برآمد ہوئی اور وہ شعیب کی گردن چھوڑ کر اپنا پیٹ پکڑ کر جھک گیا، اسی لمحے کو غنیمت جان کر شعیب نے اپنے گھٹنے کا زوردار وار اس کے منہ پر کیا اور اُسے خون تھوکنے پر مجبور کردیا، اب وہ زمین پر لیٹا تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ شعیب اسے گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گیا اور بولا۔
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں، میں، میں چوکیدار ہوں۔۔۔‘‘ وہ گھگھیایا، لیکن اس کی بات ختم ہوتے ہی شعیب کا فولادی مکا اس کی ٹھوڑی کے نیچے اتنی قوت سے لگا کہ اُس کا ایک دانت تو اسی وقت باہر نکل کر گر پڑا۔
’’جھوٹ مت بولو ہمارے ملک میں اتنے ماڈرن چوکیدار نہیں ہوتے۔ سچ سچ بتاؤ تمہارا تعلق کہاں سے ہے۔ اگلے مکے میں پورا جبڑہ توڑ کر ہاتھ میں دے دوں گا۔
شعیب غرایا اسے اس کے حلیہ اور لب و لہجے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ را کا ہی ایجنٹ ہے اور اب چوہا بنا اس کے رحم و کرم پر ہے۔
’’دیکھو میں جو کچھ پوچھ رہا ہوں سچ سچ بتادو ورنہ ۔۔۔ آگے تم خود بہتر جانتے ہو‘‘۔
’’بنگلے میں کل کتنے افراد ہیں؟‘‘ شعیب نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
’’چھ‘‘۔ حملہ آور نے شعیب کے مکے کو تیار دیکھا تو فوراً ہی ڈر کے مارے سچ اُگل دیا۔ دوسرے لمحے شعیب نے کچھ پوچھے بغیر اسی کی شرٹ اُتاری اور اسے پھاڑ کر اس کے ہاتھ پاؤں اور منہ میں کپڑا ٹھونس کر سختی سے باندھ دیا اور فوراً موبائل پر ماسٹر خان سے رابطہ کرنے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’جی ہاں سر زبیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، ہمیں فوراً ہی کچھ کر گزرنا ہوگا، ورنہ عمران کی جان خطرے میں بھی پڑسکتی ہے‘‘۔ وقاص نے زبیر کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے اگر تم لوگوں کی یہی رائے ہے تو میں شعیب سے رابطہ کرتا ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر ماسٹر خان شعیب کا نمبر ملانے لگے۔
’’نہیں سر شعیب سے رابطہ مت کیجئے گا‘‘۔ ثاقب ماسٹر خان کو روکتے ہوئے بولا۔
’’مگر کیوں؟‘‘ زبیر جذباتی انداز میں بولا، اس کی آواز کافی بلند تھی۔
’’کیونکہ ہمارا رابطہ کرنا اسے پریشانی میں مبتلا کرسکتا ہے اور ویسے بھی وہ خود فون کرے گا‘‘۔ ثاقب نے آہستگی سے کہا۔
’’لیکن اگر اس نے فون نہ کیا تو ہم کب تک انتظار کریں گے؟‘‘ وقاص بھی اب غصے میں لگ رہا تھا۔
’’سر آپ شعیب کو فون کررہے ہیں اور شعیب آپ کو اس طرح تو دونوں کو فون انگیج ہی ملیں گے نا؟‘‘ اس مرتبہ ثاقب سوالیہ انداز میں ماسٹر خان سے مخاطب ہوا تھا۔
ماسٹر خان نے ثاقب کو حیرت سے دیکھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے موبائل سامنے میز پر رکھ ہی رہے تھے کہ موبائل گونج اُٹھا۔ ماسٹر خان نے فوراً موبائل اُٹھایا تو اس پر شعیب کا نمبر روشن تھا۔ ’’ناقابلِ یقین‘‘ بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گئے اور ٹکٹکی باندھ کر حیرت سے ثاقب کو دیکھنے لگے، جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہو۔ یہی حال زبیر اور وقاص کا بھی تھا، جبکہ ثاقب کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوچکی تھی۔ دوسری بیل بجتے ہی ماسٹر خان موبائل کان سے لگاتے ہوئے بولے۔
’’ہاں شعیب کیا اطلاع ہے۔ عمران کہاں ہے؟‘‘
’’سر میں ڈیفنس فیز تھری میں ہوں اور عمران کو جس بنگلے میں لے گئے ہیں اس کا نمبر R-356 ہے۔ بنگلے میں کل چھ افراد موجود ہیں۔ میں نے ایک ایجنٹ کو قابو کرکے باندھ دیا ہے۔ آگے جو آپ کا حکم ہو‘‘۔ شعیب ایک سانس میں کہتا چلا گیا۔
’’ٹھیک ہے ہم پہنچ رہے ہیں، تم محتاط رہو۔ ہمیں فوری طور پر کمانڈو ایکشن لے کر عمران کو بازیاب کرانا ہے، ورنہ اس کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے‘‘۔ ماسٹر خان گویا ہوئے۔
’’او کے سر میں انتظار کررہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر شعیب نے لائن کاٹ دی۔
آدھے گھنٹے بعد ماسٹر خان اور گوریلا فائٹرز کے چار ممبران بنگلے کے عقب میں حملے کی حکمت عملی طے کررہے تھے۔ پلاننگ کے مطابق بنگلے کے عقب سے ثاقب اور شعیب دیوار پھلانگ کر اندر جائیں گے اور نہایت خاموشی سے بے ہوش کردینے والا گیسٹک بم اندر پھینک کر دروازے پر پوزیشن لیں گے۔ سامنے ایک طرف سے وقاص اور زبیر پوزیشن لیں گے، جبکہ ماسٹر خان باہر کی صورتحال پر نظر رکھیں گے اور پوری کارروائی کو کنٹرول کریں گے۔
خفیہ ایئرفون کے ذریعے بنگلے کے اندر عمران کو پوری کارروائی کی رپورٹ کرنے کے بعد اب ثاقب اور شعیب نے چہروں پر ماسک چڑھائے اور نہایت پھرتی کے ساتھ دیوار پر چڑھنے لگے۔ دیوار پر کانچ کے ٹکڑے اور خاردار باڑھ لگائی گئی تھی، لیکن ثاقب اور شعیب کے لیے اسے پھلانگنا بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہوا۔ ثاقب نے اپنی جیکٹ اُتار کر باڑھ کے اوپر ڈالی اور خاموشی کے ساتھ دیوار پھلانگ کر کیٹ واک کرتے ہوئے کھڑکی تک پہنچ گیا، کھڑکی بند تھی، لیکن لاک نہیں تھی۔ نہایت آہستگی کے ساتھ ثاقب نے کھڑکی کو کھسکایا اور شعیب کا انتظار کئے بغیر گیسٹک بم کی پِن نکال کر اسے اندر لڑھکا دیا اور کھڑکی کو دوبارہ سے بند کردیا۔
اتنی دیر میں شعیب بھی پہنچ چکا تھا اور وہ دونوں دروازے کے آس پاس پوزیشن سنبھال چکے تھے۔
تھوڑی دیر بعد ہی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ایک ایجنٹ زور زور سے کھانستا ہوا باہر نکل آیا جسے نہایت پھرتی سے ثاقب نے قابو کرلیا اور فرش پر اُلٹا لٹا کر پسٹل تان لی۔ اب زبیر اور وقاص بھی بنگلے کے اندر کود چکے تھے اور آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک را کا چیف ایجنٹ راہول گالیاں بکتا اور فائرنگ کرتا ہوا باہر نکل آیا۔ اسی دوران سنسناتی ہوئی ایک گولی راہول کی پستول سے نکلی اور وقاص کو سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر اس کی بائیں ٹانگ میں گھس گئی۔ وقاص ایک دبی دبی چیخ کے ساتھ زمین پر گرگیا۔ وقاص کو گرتا دیکھ کر زبیر نے جذبات میں آکر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور کلاشنکوف کا پورا برسٹ راہول پر کھول دیا جو اس کے سینے سے آرپار ہوگیا۔ راہول کو گرتے دیکھ کر شعیب اور زبیر دروازہ کھول کر اندر گھس گئے۔ اندر زبیر نے عمران کو کندھے پر ڈالا اور باہر کھڑی ڈبل کیبن گاڑی میں لٹادیا۔ وہاں پہلے سے وقاص موجود تھا، جسے ماسٹر خان گرتا دیکھ کر اُٹھا لائے تھے۔
فائرنگ کی آواز سُن کر قریبی پولیس اسٹیشن سے دو گاڑیاں پہنچ چکی تھیں۔ ماسٹر خان نے اپنا تعارف کرواکر تمام تفصیلات پولیس کو بتائیں اور گوریلا فائٹرز کے ممبران کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ماسٹر خان نہیں چاہتے تھے کہ ان کی موجودگی میں پریس رپورٹرز اور فوٹوگرافرز وہاں آئیں اور پولیس اس لیے خوش تھی کہ اسے پکا پکایا حلوہ تیار مل گیا تھا۔
ہیڈکوارٹر پہنچنے سے پہلے ہی عمران کو ہوش آچکا تھا، جبکہ وقاص کو مقامی اسپتال منتقل کردیا۔ وقاص کی حالت کافی بہتر ہوچکی تھی، کیونکہ گولی صرف گوشت پھاڑ کر دوسری طرف سے نکل گئی تھی اور ہڈی بالکل محفوظ رہی تھی۔
دوسرے دن ملک کے تمام اخبارات ڈیفنس پولیس کے جھوٹے کارناموں سے بھرے پڑے تھے۔ جس میں انہوں نے نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے چھ دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے چیف ایجنٹ کو ہلاک کردیا تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

دو ہفتے بعد وہ دوبارہ میٹنگ ہال میں بیٹھے تھے اور شعیب جوش میں کہہ رہا تھا۔’’سر ان سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں کو دیکھ کر اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ انشااللہ ہم بڑی آسانی سے اسرائیل میں گھس کر کارروائی کرسکیں گے‘‘۔
’’ویسے سر یہ تو بالکل ہی پھسپھسے نکلے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ بڑا ہی سخت مقابلہ ہوگا‘‘۔ زبیر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میرا خیال ہے تم لوگ غلط سمجھ رہے ہو وہ اتنے اناڑی بھی نہیں تھے، لیکن ہم سب کی پلاننگ اتنی جاندار تھی انہیں پھڑپھڑانے کا موقع بھی نہ مل سکا اور ویسے بھی وہ اغوا کے چند گھنٹوں بعد ہی کسی کارروائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، اس لیے مطمئن بیٹھے تھے اور ہاں ایک بات ذہن میں رہے۔ اسرائیل میں ہمارا واسطہ جس فوج اور سیکرٹ ایجنسی موساد سے پڑے گا، یقیناً وہ تم لوگوں کے ایمانی جذبے کے مقابلے میں نہایت بزدل ہوں گے، لیکن اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہوں گے، لہٰذا ہمیں نہایت سوچ سمجھ کر اپنے مشن کا آغاز کرنا ہوگا‘‘۔ ماسٹر خان نے پانچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سر وہ اتنا اسلحہ اور ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود اتنے بزدل کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ وقاص نے صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ اس کی ٹانگ پر ابھی تک پٹی بندھی ہوئی تھی۔
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زندگی سے محبت کرتے ہیں اور موت سے خوف کھاتے ہیں اور یہی چیز جب مسلمان قوم کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ بھی بزدل ہوجاتی ہے، جس طرح آج ہماری اُمتِ مسلمہ زوال کا شکار ہے اور ہمارے اسلامی ممالک کے حکمران یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں بک چکے ہیں اور اُن ہی کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 56 اسلامی ممالک کی تنظیم OIC اتنی قوت، طاقت اور وسائل رکھنے کے باوجود آج تک فلسطین اور کشمیرکا مسئلہ حل نہیں کرواسکی۔ آہ! ہم کتنے بے بس ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے افسوس ناک لہجے میں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بات مکمل کی۔
’’سر واقعی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن جب ہمارے مسلم ممالک کے حکمران ہی مخلص نہیں ہیں تو ہم اسرائیل جاکر کون سا تیر مار لیں گے؟ ہماری پشت پر تو کوئی نہیں ہوگا‘‘۔ ثاقب نے اپنی دانست میں بہت زبردست سوال پوچھ ڈالا۔
’’تمہارے خدشات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن تم لوگوں کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ ہماری پشت پر بھی بہت سی اسلامی تحریکیں اور قوتیں موجود ہیں اور اگر یہ نہ ہوتیں تو دشمن اب تک پوری دنیا پر قابض ہوچکا ہوتا‘‘۔ ماسٹر خان نے گوریلا فائٹرز کے ممبران کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’سر اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ شعیب نے دو ٹوک انداز میں آئندہ کی پلاننگ معلوم کرنا چاہی۔
’’ہاں میں نے سوچا ہے کہ اگلے ہفتے ہم پاکستانی سرزمین کو الوداع کہہ دیں گے اور فلسطین کے پڑوسی ملک شام میں چند ہفتے قیام کریں گے۔ اس سلسلے میں، میں شام میں اپنے مہربان ساتھیوں سے رابطہ کرچکا ہوں۔ انہوں نے بھی گرین سگنل دے دیا ہے‘‘۔ ماسٹر خان نے آئندہ کا پروگرام پیش کرتے ہوئے تمام ممبران کو حیرت میں ڈال دیا۔
’’لیکن سر اتنی جلدی۔۔۔؟ ویسے بھی ابھی وقاص کی حالت مکمل طور پر بہتر نہیں ہوئی اور طے شدہ شیڈول کے مطابق ابھی ہمیں مزید دو مہینے پاکستان میں رہ کر کام کرنا ہے‘‘۔ زبیر نے حیرانی و پریشانی میں کئی سوال ایک ہی سانس میں داغ دیئے اور باقی چاروں بھی زبیر کی تائید میں اپنی گردنیں ہلانے لگے۔
’’ہاں تمہارا کہنا بجا ہے، لیکن ابھی جانے میں ہمارا فائدہ ہے، کیونکہ اطلاعات کے مطابق ابھی فلسطین میں جنگ بندی ہے اور کافی حد تک سکون ہے۔ ہمیں بارڈر کراس کرنے میں بھی کم دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ہمیں اسرائیلی فوج کی طرف سے سخت مشکلات اور مزاحمت درپیش ہوں گی۔ ماسٹر خان نے مختصر انداز میں وضاحت پیش کی تو پانچوں کافی حد تک مطمئن نظر آنے لگے۔
’’سر شام میں قیام کرنے کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ اس مرتبہ وقاص نے سوال پوچھ لیا۔
’’بہت اہم سوال پوچھا ہے تم نے۔ دراصل شام میں ہمارے بہت سے ساتھی موجود ہیں، وہاں وہ ہمیں اسرائیل کی ریاست، اس کے عزائم، اس کی سیکرٹ ایجنسی ’’موساد‘‘ اور وہاں کی حکمت عملی کے حوالے سے اہم بریفنگ دیں گے۔ گو کہ مجھے اسرائیل میں کام کرنے کا تجربہ رہا ہے، لیکن وہ لوگ وہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ اس لیے وہاں قیام کرنا ہمارے لیے انتہائی اہم ہوگا۔ اور کوئی سوال؟‘‘
ماسٹر خان نے تمام باتیں کھول کر بیان کرتے ہوئے پوچھا۔
’’شکریہ سر! آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی تیاری ابھی سے شروع کردیں‘‘۔ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو جواب میں ماسٹر خان نے اثبات میں سر ہلادیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے ہفتے وہ پانچوں ماسٹر خان کے ہمراہ سیاحوں کے روپ میں پاکستانی سرزمین کو الوداع کہہ رہے تھے۔ ماسٹر خان کی حکمت عملی کے مطابق انہیں بذریعہ سڑک سرحد عبور کرنی تھی۔ آج وہ کوئٹہ کے راستے سب سے پہلے ایران میں داخل ہورہے تھے۔ پاکستان کے بارڈر پر بس میں سوار ہونے سے قبل اچانک شعیب سجدے میں گرگیا اور پاکستانی مٹی کو چومنے لگا۔ وہ باقاعدہ رو رہا تھا۔ ماسٹر خان بس سے اُتر کر فوراً شعیب کے پاس پہنچے اور اسے تھپکی دیتے ہوئے اُٹھانے لگے۔
’’کیا ہوا شعیب؟‘‘ وہ شعیب کے رونے پر ابھی تک حیران تھے۔
’’سر ہم جس اہم مشن پر جارہے ہیں وہاں شہادت کی آرزو اور ایک عظیم مشن کی تکمیل ہمارا مقصد ہے۔ کیا پتہ ہمیں پاکستان کی سرزمین پر واپس آنا نصیب ہو بھی یا نہیں؟‘‘ شعیب کی باتیں سُن کر ماسٹر خان اور باقی لڑکے بھی آبدیدہ ہوگئے تھے اور اب وہ دوبارہ بس کی طرف جارہے تھے۔
’’عمران اور زبیر تم دونوں بس میں سامان رکھواؤ میں ذرا سیٹیں چیک کرلوں‘‘۔ ماسٹر خان دونوں کو ہدایات دیتے ہوئے بولے۔
’’رُک جاؤ عمران بس میں سامان مت رکھنا‘‘۔ ثاقب اچانک ہی چلا اُٹھا۔
’’مگر کیوں بھئی۔ اب تمہیں کیا ہوگیا‘‘۔ عمران نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہم اس بس سے نہیں جائیں گے، بلکہ کوئی بھی نہیں‘‘۔ ثاقب نے سختی سے کہا تو باقی مسافر بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
’’ثاقب آخر مسئلہ کیا ہے؟‘‘ ماسٹر خان ثاقب کو جھنجھوڑتے ہوئے بولے جو دوسروں کو بھی بس کے پاس سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا اور نہایت جذباتی ہورہا تھا۔
اور پھر اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز نے سب کو زمین پر گرنے پر مجبور کردیا۔
دھماکہ بس کے اندر ہوا تھا اور دھماکے کی آواز اور اس سے پھیلنے والی تباہی سے اندازہ ہورہا تھا کہ لگایا گیا بم درمیانے درجے کا تھا جس سے صرف تین افراد زخمی ہوئے تھے جو بس کے اندر تھے اور باہر کسی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا۔
دھماکے کی آواز سنتے ہی بہت سے لوگ بس کے قریب جمع ہوگئے تھے اور زخمیوں کو جلدی جلدی بس سے نکال رہے تھے جبکہ ماسٹر خان اور پانچوں لڑکے کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہورہے تھے اور سب کی نظریں ثاقب کی طرف حیرت اور تشکر کے جذبات لیے متوجہ تھیں۔ مگر وہ اپنی دھن میں مصروف اب اپنا بیگ اُٹھا رہا تھا۔
’’بہت بہت شکریہ ثاقب! آج تم نے ہم سب کو بڑے نقصان سے بچالیا‘‘۔ ماسٹر خان نے آگے بڑھ کر ثاقب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’سر مجھے شرمندہ نہ کریں، بچانے والی ذات تو اللہ کی ہے مجھے تو بس پتا نہیں اچانک کیا ہوگیا تھا مجھے خود سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیسے ہوا‘‘۔
ثاقب نے معصومیت سے کہا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’سر مجھے لگتا ہے کہ را کا کوئی دوسرا گروپ ہمارے پیچھے لگ گیا ہے اور شاید یہ سب بھی اسی کی کارستانی ہے‘‘۔ عمران نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
’’ہاں سر میرا بھی یہی خیال ہے اور اب ہمیں اپنا پروگرام بھی تبدیل کرنا پڑے گا‘‘۔ زبیر بھی عمران کی تائید کرتے ہوئے بولا۔
’’نہیں بالکل نہیں! ہم اپنا پروگرام بالکل تبدیل نہیں کررہے، کیونکہ اب ہمارے پیچھے کوئی گروپ کام نہیں کررہا یہ تو ایک تخریب کاری کی واردات ہے اور اسی ہفتے کوئٹہ میں اس طرح کے چار پانچ دھماکے پہلے بھی ہوچکے ہیں جس کا مقصد عوام کو خوفزدہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا ہے‘‘۔ ماسٹر خان نے زبیر اور عمران کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بھی سر کی بات سے مکمل اتفاق ہے، کیونکہ اگر یہ قاتلانہ حملہ ہوتا تو اتنا چھوٹا بم لگانے کے بجائے بڑا بم لگایا گیا ہوتا‘‘۔ وقاص نے ماسٹر خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو۔ خیر چھوڑو یہ بتاؤ کہ اب آگے کیا پروگرام ہے۔ اگلی بس کے آنے تک کسی ہوٹل میں ایک گرما گرم چائے نہ ہوجائے، کچھ ٹینشن بھی کم ہوجائے گی؟‘‘
ماسٹر خان کی پیشکش پر پانچوں نے فوراً اپنے اپنے بیگ اُٹھا لیے اور قریبی ہوٹل کی طرف چل پڑے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
چند گھنٹوں کے انتظار اور جدوجہد کے بعد اب وہ دوبارہ سفر کررہے تھے پاکستان کی سرزمین کو خیر باد کہہ کر اب وہ ایران کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ چٹیل میدانوں کے بعد اب سرسبز باغات شروع ہوچکے تھے۔ گھومتے پھرتے وہ ایران کے دارالحکومت تہران پہنچ گئے، تین دن تہران میں قیام کرکے انہوں نے سیاحت کا خوب لطف اُٹھایا اور چوتھے دن وہ ایران کے بارڈر کو الوداع کہتے ہوئے عراق کی وادی میں داخل ہوگئے۔ معمول کی چیکنگ کے بعد انہیں عراق میں داخلے کی اجازت دے دی گئی، عراق گھوم پھر کر اب وہ عراق کے شہر ’’کرکوک‘‘ پہنچ گئے جو ملک شام سے قریب تھا، یعنی اگلی صبح انہیں عراق سے شام کی طرف کوچ کرجانا تھا۔
فجر کی نماز پڑھتے ہی ماسٹر خان کی سربراہی میں چھ افراد کی ٹیم ایک مرتبہ پھر رختِ سفر باندھ رہی تھی۔ پانچوں ہی ماسٹر خان کے بہت گرویدہ تھے، کیونکہ ماسٹر خان نہ صرف نماز کے پابند تھے، بلکہ گوریلا فائٹر کے ممبران کئی دفعہ آدھی رات کو انہیں تہجد کی نماز پڑھتے دیکھ چکے تھے اور تلاوت کرنا تو ماسٹر خان کے روزانہ کے معمولات میں شامل تھا۔ ایک چھوٹا سا پاکٹ سائز قرآن وہ ہمیشہ اپنی جیب میں رکھا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ اب وہ پانچوں بھی روزانہ تلاوت کی پابندی کرنے لگے تھے، البتہ تہجد کی نماز کبھی کبھار رہ جاتی تھی، کیونکہ آدھی رات کو اُٹھنا پانچوں کے لیے ایک مشکل کام تھا اور پھر ٹھیک آٹھ بجے وہ کرکوک شہر کو خدا حافظ کہتے ہوئے دوپہر تک ملک شام میں داخل ہوچکے تھے۔ سرحدی چیک پوسٹ پر انہیں کوئی خاص پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ویسے بھی ماسٹر خان ایک دن قبل ہی شام کے شہر دمشق میں کسی حسن ترمذی نامی شخص سے رابطہ کرکے اپنی آمد کی اطلاع دے چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دمشق پہنچنے سے پہلے ہی ایک لینڈ کروزر گاڑی انہیں لینے کے لیے پہلے سے موجود تھی، جس میں موجود دو آدمیوں نے ان کا استقبال کیا اور بغیر کسی تکلیف کے دمشق میں حسن ترمذی کے بنگلے تک پہنچادیا۔
حسن ترمذی گوری رنگت، لمبے قدوقامت اور ہلکی داڑھی والا ایک ادھیڑ عمر خوبصورت شخص تھا۔ پانچوں لڑکے پہلی ملاقات میں حسن ترمذی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ حسن ترمذی نے انہیں بنگلے کے دروازے پر خوش آمدید کہا اور نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔ ماسٹر خان سے تو وہ پانچ منٹ تک گلے ہی ملتا رہا، گویا بہت پرانے بچھڑے ہوئے دوست دوبارہ آملے ہوں۔ رات کے پُرتکلف کھانے کے بعد آٹھ دن کے سفر کی تھکاوٹ کو دیکھتے ہوئے حسن ترمذی نے ان سے زیادہ بات چیت نہیں کی اور وہ اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے دن دوپہر کے کھانے کے بعد حسن ترمذی انہیں زیر زمین آفس میں لے گیا، رسمی گپ شپ کے دوران قہوہ آگیا۔ قہوہ پیتے ہوئے حسن ترمذی نے کہا کہ ’’اب میں چاہوں گا کہ ہم باقاعدہ تعارف کرلیں۔ کیوں خان کیا خیال ہے؟‘‘ حسن ترمذی نے ماسٹر خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔ کیوں نہیں! ویسے غائبانہ طور پر تو تم سب کو جانتے ہی ہو اب بالمشافہ تعارف بھی ہوجائے گا‘‘۔
’’تمہارے دائیں طرف ثاقب ہے۔ نہایت ذہین اور حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک!‘‘ ماسٹر خان نے سب سے پہلے ثاقب کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا وہی ناں جس کا اکثر تم فون پر تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ بھئی ہمیں بھی اپنے کوئی جوہر دکھاؤ‘‘۔ حسن ترمذی ثاقب کا نام سنتے ہی کرسی پر مزید سیدھے ہوکر بیٹھ گئے تھے۔
’’سر جوہر تو میدانِ جنگ میں دکھائے جاتے ہیں۔ اس وقت تو۔۔۔‘‘ ثاقب کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ماسٹر خان بولے۔
’’ترمذی تمہیں کیا معلوم پاکستان سے روانہ ہوتے ہوئے بس میں بیٹھنے سے پہلے ہی اس نے تمام لوگوں کو بس میں سوار ہونے سے منع کردیا اور دو منٹ بعد ہی بس میں بم بلاسٹ ہوگیا۔ اگر خدانخواستہ ہم لوگ سوار ہوچکے ہوتے تو بچنا بہت مشکل تھا‘‘۔
’’یقین نہیں آتا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ لیکن ثاقب تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے؟‘‘ حسن ترمذی نے حیرت سے ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سر مجھے بھی نہیں معلوم کہ ایسا کیسے ہوجاتا ہے، بس اچانک ہی ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگ جاتی ہے اور بعد میں وہ بات صحیح نکلتی ہے‘‘۔ ثاقب نے کندھے اُچکاتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔
’’بھئی بہت خوب تم تو کمال کے لڑکے ہو‘‘۔ حسن ترمذی نے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ثاقب کے برابر میں عمران ہے جو ذہانت، تعلیم اور کمپیوٹر کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ کمپیوٹر پر ایسے ایسے پروگرام بنا چکا ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ بھارت کی خفیہ تنظیم را کا کمپوٹرائز حفاظتی نظام عمران نے ہی کمپیوٹر وائرس کے ذریعے تباہ کردیا تھا اور وہ آج تک یہ معلوم نہ کرسکے کہ ایسا کیوں ہوا؟‘‘ ماسٹر خان مسکراتے ہوئے بولے۔
’’زبردست! واقعی اب تو سارا نظام ہی کمپیوٹر پر چل رہا ہے۔ مجھے اُمید ہے تم آئندہ بھی کامیاب رہوگے‘‘۔ حسن ترمذی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’اور عمران کے ساتھ شعیب بیٹھا ہے۔ پتہ نہیں اتنی دیر سے کیسے ایک جگہ بیٹھا ہے اسے بیٹھنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا ہے۔ ہمیشہ چاق و چوبند اور کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ تائی کوانڈو، جوڈو کراٹے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی لڑائی کا فن جانتا ہے۔ اس معاملے میں تو شعیب میرا بھی استاد ہے، کیونکہ مجھے تائی کوانڈو کے اصول اسی نے سکھائے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کافی دیر سے مسکرا رہا تھا۔
’’ماشااللہ! خان۔ بہت خوب تم نے بڑی زبردست ٹیم تیار کی ہے‘‘۔
حسن ترمذی کافی محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی حسن ترمذی نے کچھ دیر بات کی اور ایک منٹ کہہ کر کہیں فون کرنے لگے۔ دو تین فون کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو بولے۔
’’بھئی معذرت چاہتا ہوں۔ آپ لوگوں کو انتظار کرنا پڑا۔ کچھ ضروری کام آن پڑا تھا اور شعیب کے برابر میں یقیناً یہ زبیر ہوگا‘‘۔ حسن ترمذی نے معذرت کے ساتھ ہی تعارفی سلسلہ پھر سے جوڑتے ہوئے اندازہ لگایا۔
’’بالکل صحیح پہچانا تم نے یہ زبیر ہی ہے۔ بہت تیز اور چالاک۔ اتنا تیز ہے کہ یہیں سے بیٹھے بیٹھے بتادے گا کہ کچن میں کیا کیا پک رہا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ناک کا بہت تیز ہے‘‘۔ ماسٹر خان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! تو پھر ہمیں بھی بتاؤ کہ یہاں تمہیں کیا محسوس ہورہا ہے؟‘‘ حسن ترمذی نے اس انوکھی صلاحیت پر حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’سر آپ کے پاس سے گڑ کی خوشبو آرہی ہے۔ کیا آپ گڑ بہت شوق سے کھاتے ہیں؟‘‘ زبیر نے ایک لمبا سانس کھینچتے ہوئے کہا۔
’’گڑ! لیکن گڑ کی خوشبو کہاں ہوتی ہے جو تم نے سونگھ لی؟‘‘ حسن ترمذی گڑبڑاتے ہوئے بولے۔ جیسے کسی نے ان کی چوری پکڑ لی ہو۔
’’سر آپ کہیں تو میں ابھی آپ کی جیب سے گڑ نکال کر دکھا سکتا ہوں‘‘۔ زبیر نے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔
’’ناقابلِ یقین! واقعی زبیر تم نے تو کمال کردیا۔ دراصل میں شوگر کا مریض ہوں، لیکن گڑ میں نہیں چھوڑ سکتا اور اس کا تو میری بیوی کو بھی علم نہیں ہے۔ آج تم نے میرا راز فاش کردیا‘‘۔ حسن ترمذی کوٹ کی جیب سے کاغذ کی تھیلی نکال کر میز پر رکھتے ہوئے بولے۔
’’ارے آپ حیران ہوتے رہیے گا ان سے ملیے یہ وقاص احمد ہیں ویسے تو بہت ساری خوبیوں کے مالک ہیں، لیکن ان کی یادداشت کا جواب نہیں ہے۔ ہر وقت حاضر دماغ رہتے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے سب سے آخر میں وقاص کا نام لیتے ہوئے کہا۔
’’واہ بھئی بہت خوب! تو پھر آپ کا بھی امتحان ہوجائے۔ ذرا یہ بتائیے گا کہ میرے آفس کے دروازے پر کیا نمبر لکھا ہوا تھا؟‘‘ حسن ترمذی نے اپنی دانست میں کافی مشکل سوال پوچھ لیا تھا۔
’’سر یہ تو کوئی سوال نہ ہوا۔ کوئی مشکل سوال پوچھیے مثلاً ہم جس لینڈ کروزر میں آئے ہیں اس کا نمبر کیا تھا یا یہ کہ آپ نے ابھی تھوڑی دیر پہلے کون سا نمبر ڈائل کیا تھا؟‘‘ وقاص مسکراتے ہوئے بولا۔
’’کک کیا!!! کیا تم یہ بھی بتا سکتے ہو کہ میں نے ابھی کون سا نمبر ڈائل کیا تھا، جبکہ تم نے نمبر دیکھا بھی نہیں اور فون کا رُخ بھی میری طرف ہے؟‘‘ حسن ترمذی کی حیرانی سب کے لیے قابلِ دید حد تک حیران کن تھی۔
’’سر فون کا رُخ آپ کی طرف تھا تو کیا ہوا آپ کی انگلیوں کی حرکت تو میں اچھی طرح دیکھ رہا تھا۔ آپ نے سب سے پہلے 932157 نمبر ڈائل کیا، اس کے بعد 772538 اور آخر میں 091 نمبر ڈائل کرکے کوئی فلائٹ انکوائری معلوم کی تھی‘‘۔ وقاص نے روانی کے ساتھ تینوں نمبر دہراتے ہوئے کہا۔
’’خان یہ سب کیا ہے یار! یہ بچے ہیں یا جن؟‘‘۔ حسن ترمذی وقاص کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی سیٹ سے اُچھل پڑے اور ماسٹر خان کو گلے لگالیا۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو صاف محسوس کئے جاسکتے تھے اور پھر باری باری وہ سب سے گلے ملنے لگے۔
’’ترمذی ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ابھی تو انشاء اللہ بہت کچھ ہوتا دیکھوگے‘‘۔ ماسٹر خان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’بھئی جب تم نے پاکستان سے مجھے اطلاع دی تو میں سمجھا کہ ہوں گے کوئی عام سے چار پانچ لڑکے گھما پھرا کر واپس پاکستان بھیج دوں گا، کیونکہ اسرائیلی فوج اور اس کی سیکرٹ ایجنسی موساد سے لڑنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، لیکن اب مجھے اپنا فیصلہ بدلنا پڑرہا ہے۔ ماسٹر خان اتنی زبردست ٹیم کی تشکیل پر واقعی تم مبارکباد کے مستحق ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ تمہاری یہ ٹیم دشمنوں کے ناکوں چنے چبوادے گی‘‘۔ حسن ترمذی کافی جذباتی ہورہے تھے۔
’’انشاء اللہ۔ اگر اللہ نے چاہا اور ہماری منصوبہ بندی کامیاب رہی تو اسرائیل کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ اُس کی نسلیں بھی کیا یاد کریں گی‘‘۔ ماسٹر خان نے پُراعتماد لہجے میں کہا تو سب نے مل کر انشااللہ کہا۔
’’اوہ ہاں! ابھی تو میں نے اپنا تعارف بھی صحیح سے نہیں کروایا۔ میرا نام حسن ترمذی ہے۔ لبنان کے شہر بیروت میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا اور اپنے استاد کی تربیت کے سبب فلسطین کی تحریک آزادی میں رضاکار کی حیثیت سے شامل ہوگیا اور بہت جلد فلسطین کی گوریلا تنظیم الفتح میں شہرت حاصل کرلی، جس کی وجہ سے لبنانی حکومت نے میری شہریت منسوخ کردی اور مجھے شام میں پناہ لینی پڑی۔ بعد میں کچھ اختلافات کی بناء پر میں نے الفتح سے علیحدگی اختیار کرلی اور القارعہ کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی۔ القارعہ کا مطلب ہے ’’کھڑکھڑانے والی‘‘ اور قرآن میں اس نام سے ایک سورۃ بھی ہے، وہاں یہ لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور ہم بھی اپنے نام کی طرح اسرائیل پر قیامت بن کر ٹوٹے ہیں اور آج وہ ہم سے مذاکرات کی بات کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں‘‘۔
حسن ترمذی نے کافی تفصیل سے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں موساد کے بارے میں کچھ بتائیے جو ہم نہ جان سکے ہوں‘‘۔ زبیر نے حسن ترمذی کی معلومات اور تجربے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’کیوں نہیں! دراصل تمہارا اصل ٹکراؤ بھی موساد سے ہی ہوگا۔ اسرائیلی فوج سے ٹکرانے کے لیے ہمارے پاس بہت افراد ہیں۔ موساد دراصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ادارہ (Institute) کے ہیں اور اس کا ہیڈ کوارٹر اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ہے اس کا قیام 51ء میں عمل میں آیا۔ 80ء کی دہائی میں اس کے اسٹاف کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی، زیادہ تعداد کی وجہ سے انہیں پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے ایجنٹ پوری دنیا میں مرتے رہے تو انہوں نے اپنے ممبران کی تعداد دو ہزار سے کم کرکے بارہ سو کردی اور اسے جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس کردیا‘‘۔ حسن ترمذی کی بات سب انتہائی توجہ سے سُن رہے تھے۔
’’سر ان کے چیف ایجنٹ کا نام کیا ہے؟‘‘ وقاص نے پوچھا۔
’’موساد کے ڈائریکٹر کا نام 1996ء سے پہلے تک خفیہ رکھا جاتا تھا، لیکن بعد میں اسرائیلی حکومت نے نام کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ آج کل اس کا ڈائریکٹر کرنل جوشم ہے جو انتہائی سفاک، ظالم اور چالاک شخص ہے۔ ویسے موساد کے کل آٹھ ڈپارٹمنٹ ہیں، جن کی کارروائیاں انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ان میں ایک ڈپارٹمنٹ ’’اسپیشل آپریشن ڈویژن‘‘ ہے جس کا کام قتل کی واردات کرنا ہے۔ ایک اور ڈپارٹمنٹ ’’LAP‘‘ کے نام سے ہے جس کا کام نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کرنا اور افواہیں پھیلانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ اس سلسلے میں یہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔
انٹیلی جنس کی دنیا میں موساد کے’’ کڈن اسکواڈ‘‘ (Kidon Squad) کی یہ خاصیت سمجھی جاتی ہے کہ یہ کسی بھی قتل کی واردات کو ایک حادثے کے طور پر تبدیل کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے اس اسکواڈ میں شامل افراد کی تعداد 48 ہے، جس میں چھ خواتین بھی شامل ہیں، یہ چار چار کے گروہ میں کارروائی کرتے ہیں اور ان سب کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں‘‘۔ حسن ترمذی جیسے جیسے موساد کے بارے میں بتاتے جارہے تھے گوریلا فائٹر کے ممبران کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جارہی تھیں۔ 
’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے پریشان ہوگئے، ابھی تو میں نے کچھ بتایا ہی نہیں، ابھی تو تم لوگوں کو بہت کچھ بتانا دکھانا اور سمجھانا ہے‘‘۔ حسن ترمذی نے ان لوگوں کو نہایت انہماک سے سنتے ہوئے دیکھا تو بولے۔
’’نہیں انکل! بھلا ہم کیوں پریشان ہونے لگے۔ ہم تو اس لیے غور سے سُن رہے ہیں تاکہ آپ کو دہرانا اور ہمیں پوچھنا نہ پڑے‘‘۔ زبیر مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بالکل سر اور ویسے بھی آپ نے جو ہمیں دشمن کے بارے میں معلومات دی ہیں وہ ہمارے بہت کام آئیں گی‘‘۔ ثاقب بھی خاموش نہ رہ سکا ۔
’’ترمذی انکل ابھی آپ بہت کچھ بتانے دکھانے اور سمجھانے کا کہہ رہے تھے اور مجھے تجسس شروع ہوگیا ہے آپ ہمیں تفصیل سے کب بتائیں گے؟ میں موساد کے بارے میں مکمل معلومات چاہتا ہوں‘‘۔ شعیب نے آخری جملہ دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔
’’یقیناً۔۔۔ کیوں نہیں آپ لوگوں کو تو ابھی چند مہینے یہیں قیام کرنا ہے اور ہم کل سے آپ لوگوں کی ٹریننگ کا آغاز کردیں گے جس میں موساد کا طریقہ واردات، ان کے کوڈ ورڈز (Code words)، حساس مقامات اور بہت سی دیگر معلومات بھی ہوں گی‘‘۔ حسن ترمذی اپنی بات ختم کرتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے اور تمام افراد کل کا وقت طے کرتے ہوئے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

دوسرے ہی دن سے گوریلا فائٹرز کے پانچوں ممبران اپنی اپنی نوٹ بک لیے معلومات کا ذخیرہ جمع کررہے تھے صرف وقاص بغیر نوٹ بک کے بیٹھا انتہائی توجہ سے ساری باتیں سُن رہا تھا۔
کلاس شروع ہونے سے قبل حسن ترمذی نے ابوعیاض نامی شخص کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ’’ابو عیاض گوریلا جنگ کے ماہر ہیں اور پچھلے تیس سالوں سے فلسطین میں گوریلا کارروائیاں کررہے ہیں اور ہماری تنظیم کے اہم ذمہ دار ہیں اور آج آپ کو فلسطین کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے‘‘۔
ابو عیاض نے سب سے پہلے فلسطین کی سرحدیں مختلف نقشوں کی مدد سے سمجھائیں، پھر پڑوسی ممالک کے بارے میں مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ انہیں بتایا کہ ان ممالک میں کس طرح داخل ہوا جاسکتا ہے۔
اگلے دن ابو عیاض نے فلسطین اور اسرائیل کے اہم شہروں کی خاص خاص جگہوں اور خفیہ مقامات کے بارے میں بتاتے ہوئے ان لوگوں کے نام اور پتے بھی بتائے جو مشکل حالات میں نہ صرف مددگار ثابت ہوں گے، بلکہ ہر قسم کا تعاون بھی کریں گے۔
دن بھر کی بریفنگ کے بعد رات کو وہ عربی اور انگلش پر عبور حاصل کرنے کے لیے مختلف کلاسز لے رہے تھے اور کافی حد تک مہارت حاصل کرچکے تھے۔
عمران کا اکثر وقت کمپیوٹر نیٹ ورکنگ اور پروگرامنگ میں گزرتا تھا، وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔ آج بھی رات کو دیر تک بیٹھا وہ کمپیوٹر پر کام کررہا تھا کہ پیچھے سے ثاقب نے آکر اُسے ڈرانے کی کوشش کی، لیکن عمران نے ذرا حرکت نہ کی تو ثاقب بولا۔
’’عمران بھائی یہ کیا تم ہر وقت کمپیوٹر میں گھسے رہتے ہو۔ بہت دن ہوگئے کیا خیال ہے کوئی خطرناک قسم کا ایڈونچر نہ ہوجائے؟‘‘
’’ایڈونچر؟‘‘ عمران نے اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر سوالیہ انداز میں پوچھا اور پھر خود ہی بولا ’’کیوں نہیں! کل کے اخبارات دیکھ لینا انشاء اللہ ایڈونچر سے بھرا ہوگا‘‘۔
’’مگر وہ کیسے؟ مجھے بھی تو کچھ بتاؤ یار‘‘۔ ثاقب نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔ وہ عمران کا انداز دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ کارنامہ کرڈالے گا۔ 
’’وہ ایسے کہ مجھے صرف ایک بٹن دبانا ہوگا اور دوسری طرف تباہی اپنا کام دکھادے گی‘‘۔ عمران نے اس دفعہ بھی سسپنس برقرار رکھا تھا۔
’’دوسری طرف سے تمہاری مراد اسرائیل ہے‘‘۔ ثاقب نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں بھئی اور کیا میں کئی دنوں سے اسرائیلی نیٹ ورک کے اندر گھسنے کی کوشش کررہا تھا اور کل ہی میں نے اُسے سرچ کرلیا ہے، اب میں خفیہ طریقے سے ایک خطرناک قسم کا وائرس اُن کے پاس منتقل کررہا ہوں اور اس کے بعد وہ صرف ہاتھ پاؤں مار سکیں گے اور بس۔۔۔‘‘ اس دفعہ عمران بے ساختہ ہنسا تھا، گویا ان کی بے بسی کو خیالوں ہی خیالوں میں دیکھ رہا ہو۔
’’لیکن اگر انہوں نے ہمیں سرچ کرلیا تو تمہیں پتہ ہے کہ ترمذی انکل پر کیا کیا مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں؟ ثاقب نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ ہمیں سرچ نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کا بھی میں نے توڑ کرلیا ہے۔ وہ دس سال میں بھی یہ معلوم نہیں کرسکیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وہ اسے اپنے ہی سسٹم کی خرابی سمجھیں گے‘‘۔ عمران نے ثاقب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن پھر بھی ہمیں ترمذی انکل اور سر کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کچھ کرنا چاہئے‘‘۔ ثاقب اتنا بڑا کام اکیلے کرنے کے حق میں بالکل نہیں لگ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے ہم کل صبح سب کو اعتماد میں لینے کے بعد رات آٹھ بجے کارروائی کریں گے‘‘۔ عمران نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
دوسرے دن عمران نے اپنا سارا پلان حسن ترمذی، ماسٹر خان اور تمام ساتھیوں کے سامنے نہایت تفصیل سے بیان کرڈالا۔
’’تمہارا پلان واقعی بہت زبردست ہے، مگر یہ تو پتہ چلے کہ اس طرح ہم ان کا کتنا نقصان کرسکیں گے؟‘‘ حسن ترمذی نے اندازہ کرنا چاہا۔
’’انکل زیادہ تو کچھ نہیں بتا سکتا، البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کا انتہائی قیمتی ریکارڈ کافی مقدار میں اُڑ جائے گا اور دو چار طیارے یا تو ہوا میں ٹکرا جائیں گے یا زمین پر آگریں گے اور ان کا خلا میں موجود سیٹلائٹ سسٹم مکمل طور پر ناکارہ ہوجائے گا اور وہ دانت پیس کر رہ جائیں گے، کیونکہ ان کے پاس جوابی کارروائی کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہوگا‘‘۔ عمران نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا تو ہال میں موجود تمام افراد کی شکلیں حیرت سے پھیل گئیں۔ سب خاموشی سے عمران کی طرف دیکھ رہے تھے۔ 
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ماسٹر خان بولے۔
’’عمران جانتے ہو ذرا سی بھی غلطی ہمارے مستقبل کے سارے پلان کو خراب کرسکتی ہے؟‘‘
’’سر میں نے بہت سوچ سمجھ کر ورکنگ کی ہے اور میں اپنے طور پر بالکل مطمئن ہوں، آگے آپ کی مرضی ہے‘‘۔ عمران نے نہایت اعتماد سے کہا تو حسن ترمذی بولے۔
’’ٹھیک ہے عمران تم یہ کرڈالو، جب دشمن سے ٹکرانا ہی ہے تو ڈرنا کیسا؟ تم بسم اللہ کرو آگے اللہ مالک ہے‘‘۔
اور عمران کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔۔۔ اور پھر رات آٹھ بجے سب عمران کے کمرے میں جمع تھے اور عمران نے بٹن دبادیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
تل ابیب میں اسرائیلی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں موجود موساد کے چیف کرنل جوشم کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک میجر جس کی سانس پھول رہی تھی بھاگتا ہوا آیا اور سیلوٹ مارتے ہوئے بولا۔
’’سر غضب ہوگیا، ہمارے آٹھ جدید کمپیوٹرائز طیارے جو معمول کی پرواز پر آدھا گھنٹہ قبل روانہ ہوئے تھے لاپتہ ہوگئے ہیں‘‘۔
’’What؟‘‘ کیا کہہ رہے ہو تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔ معلوم کرو آخر طیارے کہاں جاسکتے ہیں؟‘‘ کرنل جوشم غصے میں دھاڑا۔
’’سر تمام کوششیں کرلیں ریڈار سسٹم بالکل کام نہیں کررہا، کمپیوٹر نیٹ ورک پر صرف لائنیں چل رہی ہیں اور پائلٹس سے رابطہ نہیں ہوپارہا اور طیارے لینڈ بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ رن وے کی تمام لائٹیں فیوز ہوچکی ہیں اور سیٹلائٹ سے بھی رابطہ منقطع ہوگیا ہے‘‘۔ میجر نے ڈرتے ڈرتے ساری صورتحال ایک ہی سانس میں کرنل جوشم کے گوش گزار کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا بکواس کررہے ہو تم؟ ہوش میں تو ہو تم؟ سارا عملہ کہاں مرگیا ہے؟ سسٹم کیوں کام نہیں کررہا، یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اگر ایک بھی طیارہ اِدھر اُدھر ہوا تو میں تم سب کی کھالیں کھنچوا دوں گا۔ سمجھے!‘‘ کرنل جوشم کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
اُس نے بوکھلاہٹ میں اپنا کمپیوٹر آن کیا تو وہاں بھی مکمل خاموشی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
اتنی دیر میں ایک اور سپاہی بھاگتا ہوا کرنل جوشم کے کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا ’’سر! سی این این اور بی بی سی کی خصوصی بلیٹن شروع ہوچکی ہیں جس میں ابھی ابھی بتایا گیا ہے اسرائیل کے نواحی علاقے میں چھ طیارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوگئے ہیں اور دو طیارے یہودی آبادی والے علاقے پر گر کر تباہ ہوچکے ہیں‘‘۔
کرنل جوشم کا سرخ و سپید چہرہ یک دم پیلا پڑگیا اور اس نے گھبرا کر ٹی وی آن کیا تو بی بی سی کا نمائندہ تازہ ترین صورتحال بتا رہا تھا وہ کہہ رہا تھا ’’آج رات ساڑھے سات بجے آرمی ہیڈ کوارٹر تل ابیب سے اُڑنے والے آٹھ طیارے نامعلوم خرابی کے باعث ہوا میں ٹکرا گئے اور غزہ کی پٹی پر موجود مقامی یہودی آباد علاقے پر گر گئے جس سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوگئیں، ہلاکتوں کا اندازہ ابھی تک نہیں لگایا جاسکا اور ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ایسا کیوں ہوا؟ مزید تفصیلات کے لیے ہمارے بی بی سی کے نمائندے کے ساتھ رہیے‘‘۔
اور کرنل جوشم پیر پٹختا رہ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
حسن ترمذی، ماسٹر خان اور گوریلا فائٹرز اسرائیلی نیٹ ورک تباہ کرنے کے بعد اب آرام سے ٹی وی کے آگے بیٹھے تازہ خبروں کا انتظار کررہے تھے اور پھر ٹھیک آدھے گھنٹے بعد مختلف چینلز پر خصوصی بلیٹن شروع ہوچکی تھیں جس میں اسرائیل میں پھیلنے والی تباہی کے بارے میں بتایا جارہا تھا اور بی بی سی کے کیمرہ مین یہودی آبادی میں پھیلنے والی تباہی کو ریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کے تاثرات معلوم کررہے تھے، جبکہ چیخ و پکار کرتے ہوئے یہودی اِدھر اُدھر بھاگتے پھر رہے تھے۔
’’ونڈر فل! یہ تو ہماری اُمیدوں سے بڑھ کر ثابت ہوا‘‘۔ حسن ترمذی خوشی سے بولے۔
’’ہاں بھئی عمران واقعی تم نے تو کمال کردیا۔ اسرائیل کو واقعی بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا ہے‘‘۔ ماسٹر خان بھی ستائشی نظروں سے عمران کو دیکھتے ہوئے بولے۔
’’واقعی سر! ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی کافی چوکھا آیا‘‘۔ زبیر نے محاورے کی ٹانگ توڑتے ہوئے کہا تو سب بے ساختہ ہنس دیئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود بھی اسرائیلی ماہرین اپنے سسٹم کو بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور نہ یہ معلوم کرسکے کہ ایسا کیوں کر ہوا، لیکن وہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کو جس میں ساڑھے چھ سو یہودیوں کی ہلاکت، آٹھ طیاروں کی تباہی ااور سیٹلائٹ سسٹم کی بربادی شامل تھی اتنی آسانی سے نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے موساد کو ایک ماہ کے اندر اندر مجرموں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا ٹاسک دے دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف فلسطین میں، بلکہ شام، لیبیا اور اردن میں بھی موساد کے ایجنٹ مجرموں کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دمشق میں قیام کا چھٹا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ ان پانچ مہینوں میں گوریلا فائٹرز کی صلاحیتوں میں نہ صرف بے پناہ اضافہ ہوا تھا، بلکہ ان کے اعتماد میں بھی پختگی آچکی تھی۔ عربی اور انگلش زبانوں پر تو ایسا عبور ہوچکا تھا کہ پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا۔ اب وہ کافی منجھے ہوئے کھلاڑی بن چکے تھے جو اپنے رب کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے آگ اور خون کے دریا میں کودنے کے لیے بالکل تیار تھے۔
صبح کے وقت پانچوں لان میں بیٹھے گرم گرم قہوے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ بنگلے کا ملازم پیغام لے کر آیا کہ ترمذی صاحب آپ لوگوں کو یاد کررہے ہیں۔
’’مجھے لگتا ہے کوئی بہت اہم بات ہے، کیونکہ ہماری ٹریننگ بھی دو دن پہلے ختم ہوچکی ہے‘‘۔ وقاص بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
’’اور میرا خیال ہے کہ ترمذی انکل ہمیں اسرائیل بھیجنے کے سلسلے میں بات کرنا چاہ رہے ہیں‘‘۔ عمران نے اندازہ لگایا۔
’’اور مجھے یقین ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں، ہمیں ابھی کچھ دن یہیں رہنا ہے‘‘۔ ثاقب نے اعتماد سے کہا تو شعیب بولا۔
’’جب ثاقب نے کہہ دیا تو ہم سب کو بھی یقین کرنا پڑے گا‘‘۔ شعیب کی بات ختم ہوتے ہی سب قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اندرونی دروازے کی طرف چل دیئے۔
کمرے میں ترمذی انکل اور ماسٹر خان آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ پانچوں کو آتا دیکھ کر ماسٹر خان بولے۔
’’آؤ آؤ بیٹا ہم تم لوگوں کا ہی انتظار کررہے تھے۔ تم لوگوں کے لیے ایک اسائنمنٹ موجود ہے‘‘۔
’’ونڈر فل!‘‘ شعیب خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’سر ہم تو ویسے بھی بور ہورہے تھے، جلدی سے بتائیے کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟ ثاقب کو کافی جلدی ہورہی تھی‘‘۔ 
’’بھئی تفصیلات تو آپ کو ترمذی انکل ہی بتائیں گے‘‘۔ ماسٹر خان، حسن ترمذی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ تو بھئی اہم خبر یہ ہے کہ موساد کے دو ایجنٹ کل دمشق میں دیکھے گئے ہیں‘‘۔ حسن ترمذی سانس لینے کو رُکے تو زبیر بولا۔
’’انکل اس میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟ موساد کے ایجنٹ تو ساری دنیا میں دندناتے پھر رہے ہیں۔
’’خاص بات ہے تب ہی تو آپ لوگوں کو یہاں بلایا ہے۔ دراصل وہ کوئی عام ایجنٹ نہیں، بلکہ موساد کی کڈن اسکواڈ (Kidon Squad) سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔ حسن ترمذی نے آواز کو ذرا دھیما کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب! یعنی آپ کا خیال ہے کہ وہ کسی کو قتل کرنے کے مشن پر ہیں؟‘‘ وقاص نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں آپ لوگ بالکل صحیح سمجھے اور یہ صرف خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے‘‘۔ حسن ترمذی نے پُرسکون لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’انکل آپ ہمیں تفصیل سے بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے؟‘‘ عمران نے دو ٹوک انداز میں جاننا چاہا۔ 
’’بات دراصل یہ ہے کہ اسرائیل میں موجود ہمارے ایجنٹ نے اطلاع دی ہے کہ موساد نے شام کے وزیر خارجہ بن غامدی کو اُڑانے کا منصوبہ بنایا ہے، کیونکہ آج کل انہوں نے فلسطین کی حمایت میں کافی زبردست تحریک شروع کررکھی ہے اور مسلسل اسرائیل کو دھمکیاں دے رہے ہیں، لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اتنی جلدی اس پر کام کرنا شروع کریں گے۔ بہرحال حقیقت اُس وقت سامنے آئی جب ایئرپورٹ سے خفیہ طور پر اطلاع ملی کہ موساد کے دو ایجنٹ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں دیکھے گئے ہیں‘‘۔ حسن ترمذی نے رُک کر گلا صاف کیا تو وقاص بولا۔
’’انکل دو ایجنٹ دیکھے جانے کا مطلب ہے کہ دو ایجنٹ اور بھی کہیں موجود ہیں، کیونکہ آپ نے بتایا تھا کہ کڈن اسکواڈ ہمیشہ چار چار کے گروپ میں کام کرتے ہیں اور قتل کو حادثے کی شکل دینے میں بھی خصوصی مہارت رکھتے ہیں‘‘۔
’’بالکل صحیح! وقاص تمہاری یادداشت واقعی لائقِ تحسین ہے۔ یقیناً ان کے دو ایجنٹ یا تو پہلے سے یہیں موجود ہیں یا پھر پہنچنے والے ہوں گے‘‘۔ حسن ترمذی نے وقاص کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’انکل اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ ثاقب نے بے چینی سے پوچھا۔
’’تم لوگوں کا مشن بن غامدی کی حفاظت کرنا اور موساد کو سبق سکھانا ہے۔ جس کی پلاننگ صرف تم پانچ کروگے، البتہ ضرورت پڑنے پر ہم سے معلومات لے سکوگے‘‘۔ حسن ترمذی نے گوریلا فائٹرز کو مشن سونپتے ہوئے کہا۔
’’انکل آپ ہمیں ابتدائی معلومات دے دیں۔ مثلاً دونوں ایجنٹ کہاں دیکھے گئے تھے اور ان کا حلیہ کیا تھا؟ باقی کام ہم خود سنبھال لیں گے‘‘۔ گروپ لیڈر شعیب نے مشن کی ابتدا کرتے ہوئے پوچھا۔
’’بالکل کیوں نہیں۔ دونوں ایجنٹ کل شام ساڑھے پانچ بجے ایئرپورٹ کے لاؤنج میں دیکھے گئے تھے پھر ان کا پیچھا کیا گیا، مگر وہ انتہائی مہارت سے ہمارے ساتھی کو بے وقوف بنا کر نکل گئے، البتہ آخری معلومات تک ان کا رُخ البلادی مارکیٹ کی طرف تھا، جہاں وزیر خارجہ بن غامدی کی رہائش بھی ہے، جہاں تک حلیے کا تعلق ہے تو ان دونوں کا قد تقریباً چھ فٹ یا اس سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ رنگ گورا سرخی مائل تھا۔ تھری پیس سوٹ پہنے اور سیاہ چشمہ لگائے ہوئے تھے اور ہاتھ میں آسمانی رنگ کا بریف کیس تھا اور ہاں خاص بات یہ کہ ان میں سے ایک کے بائیں رُخسار پر گہرے زخم کا نشان تھا‘‘۔
’’ٹھیک ہے انکل اب ہمیں اجازت دیں انشاء اللہ بہت جلد ہم آپ کو خوشخبری سنائیں گے‘‘۔ شعیب نے اجازت لیتے ہوئے کہا تو تمام لڑکے شعیب کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور حسن ترمذی اور ماسٹر خان سے ہاتھ ملا کر شعیب کے کمرے کی طرف چل پڑے۔
شعیب کے کمرے میں پہنچ کر پانچوں نے وضو کیا ور دو رکعات نفل ادا کرکے اللہ سے مشن میں کامیابی کی دُعا مانگی اور شعیب کے اردگرد بیٹھ گئے۔
تقریباً دو گھنٹے تک مشن کی پلاننگ کرنے کے بعد صبح ٹھیک دس بجے انہوں نے ضروری سامان اور اسلحہ تیار کیا اور کار میں بیٹھ کر البلادی مارکیٹ کا رُخ کیا۔ وزیر خارجہ بن غامدی کے علاقے میں پہنچ کر انہوں نے ایک پارک کے سامنے گاڑی گھڑی کی اور چہل قدمی کے انداز میں وہاں کے خوبصورت مکانات کا جائزہ لینے لگے۔ گلی کے اختتام پر ان کو ایک گارڈ نظر آیا۔ گارڈ سے سلام دعا کے بعد وقاص بولا۔
’’جناب ہم طالب علم ہیں اور ایک اچھے مکان کی تلاش میں ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ اس علاقے میں کون کون سے مکانات خالی ہیں؟‘‘
گارڈ نے بتایا کہ پچھلی گلی میں مکان نمبر178 اور 182 گزشتہ دو مہینے سے خالی ہیں اور اسی گلی کا آخری مکان بھی خالی پڑا ہے۔
طے شدہ پلاننگ کے مطابق انہوں نے سب سے پہلے مکان حاصل کیا۔ مکان بن غامدی کے بنگلے سے قریب تو نہیں تھا، لیکن زیادہ دور بھی نہ تھا، وہ وہاں سے بھی غامدی کے بنگلے کی نگرانی کرسکتے تھے، لیکن انہیں سب سے پہلے ایجنٹوں کی تلاش تھی اور ثاقب کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ انہوں نے یقیناً وزیر خارجہ بن غامدی کے قریب رہائش رکھی ہوگی، تاکہ واردات کرنے میں آسانی ہو۔
اگلے دن کرائے کا مکان حاصل کرنے کے بعد زبیر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے کرکٹ کا سامان خریدا اور گلی میں کرکٹ کھیلنے لگے، تاکہ آنے جانے والے تمام لوگوں کو دیکھ سکیں، لیکن دو دن تک کرکٹ کھیلنے کے باوجود انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، البتہ دو گھروں پر ان کو شک ضرور تھا، کیونکہ ان میں رہائش کے آثار تو تھے، لیکن باہر سے تالا لگا ہوا تھا۔ تیسرے دن وہ شام کو پھر کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک سیاہ کار ان کے قریب آکر رُکی اور اُس میں سے ایک آدمی نے اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا اور پانچوں کو برا بھلا کہنے لگا کہ سڑک پر کھیلتے ہوئے تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے۔ لیکن اس کی بات کوئی نہیں سُن رہا تھا، کیونکہ پانچوں کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں جس پر زخم کا نشان صاف نظر آرہا تھا۔
’’جناب دراصل اس محلے میں گراؤنڈ نہیں ہے، اس لیے ہم مجبوراً سڑک پر کھیلتے ہیں۔ ہم تکلیف کے لیے معافی چاہتے ہیں‘‘۔ شعیب نے اتنی معصومیت سے عربی میں معذرت پیش کی تو وہ شخص سر جھٹکتا ہوا گاڑی آگے بڑھانے لگا اور آگے جاکر ایک مکان کے سامنے ٹھہر گیا، چند لمحوں بعد مکان کا صدر دروازہ کھلا اور کار اندر داخل ہوگئی۔ کار نظروں سے اُوجھل ہوتے ہی پانچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر خوشی سے تالی ماری اور وکٹ اُٹھا کر اپنے بنگلے کی طرف چل پڑے۔ وہ اپنے مشن کی پہلی کامیابی پر بہت خوش تھے۔
گھر پہنچتے ہی انہوں نے اپنا ضروری سامان تیار کیا اور بنگلے کی نگرانی کرنے لگے۔ شام سے رات اور رات سے صبح ہوگئی، مگر چاروں ایجنٹوں میں سے کوئی بھی باہر نہ نکلا۔ پانچوں باری باری اسی مکان کی نگرانی کررہے تھے۔ دوسرے دن دوپہر دو بجے وقاص اپنی چھت پر بیٹھا تھا کہ اچانک اسی بنگلے کا دروازہ کھلا اور وہی کار باہر نکل آئی۔ کار کے شیشے سیاہی مائل تھے، لیکن پھر بھی وقاص نے اندازہ کرلیا کہ کار میں کل تین افراد موجود ہیں، ابھی وہ چوتھے ساتھی کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکی مکان کے دروازے سے نمودار ہوئی اور دروازہ بند کرنے کے بعد کار کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ لڑکی کے بیٹھتے ہی کار فراٹے بھرتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
وقاص جلدی سے نیچے کی طرف دوڑا اور خوشی سے چیختے ہوئے بولا۔
’’مبارک ہو راستہ صاف ہوچکا ہے‘‘۔
’’ہاں بھئی کیوں چلا رہے ہو، کیا خبر ہے؟‘‘ ثاقب کمرے سے نکلتا ہوا بولا۔
’’وہ چاروں ابھی تھوڑی دیر پہلے کہیں روانہ ہوچکے ہیں، ہمیں فوراً کارروائی کرنی چاہئے‘‘۔ وقاص کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا، اتنی دیر میں باقی ساتھی بھی جمع ہوچکے تھے۔
’’ٹھیک ہے ہم ابھی بنگلے پر کارروائی کریں گے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اندر کوئی ثبوت نہیں چھوڑنا، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ انہیں کسی بھی قسم کا شک ہو اور وہ محتاط ہوجائیں۔ اس طرح ہمارے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ثاقب، زبیر اور عمران باہر پہرہ دیں گے، جبکہ میں اور وقاص بنگلے کے اندر تلاشی لیں گے‘‘۔ شعیب نے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد وہ کرکٹ کا سامان اُٹھائے بنگلے کے سامنے موجود تھے۔
ثاقب، زبیر اور عمران وکٹ اور بلا پکڑے باہر پہرے پر کھڑے ہوگئے، جبکہ طے شدہ پروگرام کے تحت گیند نکالنے کے بہانے شعیب اور وقاص بنگلے کے اندر کود گئے۔ ہاتھوں میں گلوز پہننے کے بعد شعیب نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسٹر کی (Master Key) کی مدد سے دروازہ کھولا اور دونوں جلدی جلدی کمروں کی تلاشی لینے لگے۔ ایک میز پر بہت سے کاغذات بکھرے پڑے تھے جن پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچی گئی تھیں، لیکن اب تک کوئی کام کی چیز برآمد نہ ہوسکی تھی۔
اچانک وقاص کی نظر آسمانی رنگ کے بریف کیس پر پڑی تو اُس نے لپک کر بریف کیس اُٹھالیا۔ شعیب نے بہت کوشش کی، لیکن بریف کیس انتہائی مضبوطی سے بند کیا گیا تھا اور کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دس منٹ کی مسلسل محنت کے بعد شعیب نے جیسے ہی بسم اللہ پڑھ کر بٹن پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ بریف کیس میں ایک سرخ رنگ کی فائل موجود تھی جس پر انگلش میں ’’مشن غامدی‘‘ تحریر تھا۔
شعیب نے جلدی سے فائل کھولی تو اس کے پہلے تین صفحات پر مشن کے حوالے سے کچھ معلومات درج تھیں، جبکہ چوتھے صفحے پر نقشے کی مدد سے کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نقشہ ایک سڑک کا تھا جس پر ایک طرف سے کار آرہی تھی اور دوسری طرف ایک ٹرالر دکھایا گیا تھا۔ ٹرالر کے نیچے اس کی اسپیڈ 100 کلومیٹر فی گھنٹہ درج تھی۔
شعیب اور وقاص نقشے پر جھکے اُسے سمجھنے کی کوشش کررہے تھے اور جب نقشہ اُن کی سمجھ میں آیا تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔۔۔
’’اُف میرے خدایا! اتنی زبردست پلاننگ کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ قتل کی واردات ہے یہ تو روڈ ایکسیڈنٹ کا کیس بنایا گیا ہے‘‘۔ وقاص نے جملہ اس طرح ا دا کیا گویا موساد کی کڈن اسکواڈکو اُن کی حکمت عملی پر شاباش دے رہا ہو۔
’’تم یقیناً ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن وقاص یہ باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے، اس فائل کو فوراً مائیکرو کیمرے میں محفوظ کرو، ایسا نہ ہو کہیں ہمارا دشمن پہنچ جائے اور ہم رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں۔ شعیب نے جلدی جلدی دیگر کاغذات نہایت صفائی سے سمیٹتے ہوئے کہا تو وقاص نے جلدی سے مائیکرو کیمرہ نکالا اور ایک ایک صفحے کی تصویر اُتارنے لگا، اتنی دیر میں شعیب نے چھوٹے چھوٹے دو خفیہ مائیک میز کے نیچے چپکا دیئے۔ فائل کیمرے میں محفوظ ہوتے ہی وہ دونوں سامان سمیٹ کر انتہائی پھرتی سے مرکزی دروازے تک آئے اور تھوڑی دیر بعد وہ دروازے سے باہر سڑک پر کھڑے ہاتھ جھاڑ رہے تھے۔
شعیب اور وقاص کے باہر آتے ہی عمران، ثاقب اور زبیر نے بھی جلدی سے کرکٹ کا سامان اُٹھایا اور نہایت اطمینان سے اپنے مکان کی طرف چل پڑے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی شعیب نے مائیک سسٹم آن کردیا۔ اب وہ آسانی سے اُن کی ساری باتیں اپنے گھر میں بیٹھے سُن سکتے تھے۔ وقاص نے جلدی سے کیمرے کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کیا اور پوری فائل کا پرنٹ آؤٹ نکال لیا اب اس کا ایک ایک لفظ باآسانی پڑھا جاسکتا تھا۔
شعیب نے کڈن اسکواڈ کی تیار کردہ پلاننگ پڑھنی شروع کی تو سب کی حیرانی قابلِ دید تھی، کیونکہ قتل کے اس مشن میں ایک ایک منٹ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
اس میں لکھا تھا کہ بن غامدی کی کار ٹھیک صبح آٹھ بجے بنگلے سے باہر نکلتی ہے اور آٹھ بج کر سات منٹ پر مرکزی شاہراہ پر پہنچ جاتی ہے۔ جیسے ہی کار بنگلے سے باہر نکلے گی، شمعون اس کی اطلاع مرکزی شاہراہ پر موجود مائیکل کو دے گا، جو ڈرائیور کو موت کی نیند سلا کر خود ٹرالر کی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود ہوگا، وہ فوراً ٹرالر اسٹارٹ کرکے اُسے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر لائے گا اور سامنے سے آتی ہوئی بن غامدی کی سفید رنگ کی کار پر اچانک ٹرالر چڑھادے گا۔ قتل کے اطمینان کے بعد مائیکل اور اس کا ساتھی اسمتھ ٹرالر چھوڑ کر شمعون سے آملیں گے جو ان کے قریب ہی سیاہ رنگ کی کار میں موجود ہوں گے۔ اس طرح الزام ڈرائیور پر آجائے گا، جبکہ واردات کے فوراً بعد مکان تبدیل کرلیا جائے گا اور تیسرے دن دمشق کو چھوڑ کر ’’تل ابیب‘‘ میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنی ہوگی‘‘۔
’’شعیب بھائی سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ وہ لوگ واردات کس دن کریں گے، تاکہ ہم بھی کچھ حکمت عملی طے کرسکیں‘‘۔ ثاقب نے نہایت اہم سوال پوچھا۔
’’نہیں اس فائل میں ایسا کچھ نہیں لکھا، صرف طریقۂ واردات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، میرے خیال میں تاریخ کا تعین وہ موقع دیکھ کر کریں گے۔ ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا‘‘۔ شعیب نے فائل کے ورق اُلٹتے ہوئے کہا تو وقاص بولا۔
’’میرے خیال میں ہمیں بن غامدی صاحب کو کسی طرح یہ اطلاع کردینی چاہئے کہ ان کی جان خطرے میں ہے، تاکہ وہ بھی محتاط رہیں اور۔۔۔‘‘
’’اور ہمارے مشن کا بیڑہ غرق ہوجائے‘‘۔ زبیر نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے وقاص کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’وقاص تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے، لیکن ذرا سوچو اس طرح تو یہ خبر اخبار میں بھی لگ جائے گی اور موساد بھی ہوشیار ہوجائے گی کہ ان کی بھی نگرانی کی جارہی ہے اور ہمارے لیے بن غامدی کو بچانا اور موساد کے ایجنٹوں کو مزا چکھانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں ہم خاموشی سے نہ صرف موساد کا پلان ناکام بناسکتے ہیں بلکہ ان کی ٹھیک ٹھاک قسم کی خبر بھی لے سکتے ہیں‘‘۔
ثاقب، وقاص کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جیسے کسی بچے کو سمجھا رہا ہو۔
لیکن یہ تو سوچو خاموش رہنے کی صورت میں اگر کل ہی بن غامدی کو قتل کردیا گیا تو ہم کیا کرسکیں گے، کیا ٹرالر کے آگے لیٹ جائیں گے؟‘‘۔ وقاص اپنی تجویز کی حمایت میں بحث کرنے کے موڈ میں لگ رہا تھا۔
’’اس وقت تو تم مجھے وہ لگ رہے ہو۔ کیا نام ہے اس کا جس میں چائے چھانتے ہیں؟ ہاں یاد آیا چھنّی‘‘۔ عمران وقاص کا مذاق اُڑاتے ہوئے بولا۔
’’ارے بے وقوف! کل تو اتوار ہے کل واردات کیسے ہوسکتی ہے؟ مجھے لگتا ہے شاید آج تم نے کھانا وقت پر نہیں کھایا‘‘۔
عمران کی بات پر سب ہنسنے لگے تو وقاص گڑبڑا گیا اور بولا ’’او! آئی ایم سوری اس کا تو مجھے خیال ہی نہیں رہا‘‘۔
’’چلو بھئی! فضول باتیں چھوڑو اور یہ سوچو کہ ہم ان کا پلان کس طرح خاک میں ملا سکتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘۔ شعیب نے باقاعدہ میٹنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
تین گھنٹے جاری رہنے والی میٹنگ کے اختتام پر پانچوں مشترکہ حکمت عملی طے کرچکے تھے۔ پروگرام کے مطابق انہیں بن غامدی پر حملے سے صرف دو منٹ قبل ٹرالر کو بم سے اُُڑانا تھا اور موساد کا راز فاش کرنا تھا، اس طرح وہ بن غامدی کو بچانے کے ساتھ ساتھ موساد کی سازش کو دنیا کے سامنے لاسکتے تھے، دوسری صورت میں وہ صرف موساد کے ایجنٹوں کو ٹھکانے لگا سکتے تھے اور اس میں بھی بہت خطرہ مول لینا پڑتا۔
’’چلو یہ تو طے ہوا کہ ہمیں ٹرالر کو صرف دو منٹ قبل اُڑانا ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ٹرالر کی موجودگی کا پتہ چلانا ہوگا۔ ورنہ ہمارا سارا پلان خاک میں مل سکتا ہے‘‘۔
عمران نے اہم نکتہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بالکل! لیکن یہ ساری تفصیلات جاننے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے مائیک سسٹم‘‘۔ زبیر نے ٹرانسمیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’مائیک سسٹم؟ لیکن یہ سسٹم کام کیوں نہیں کررہا، جبکہ دشمن تو کب کا واپس آچکا ہے؟ جلدی کرو لائن ملا کر دیکھو شاید کچھ خرابی ہوگئی ہے‘‘۔
ثاقب نے جملہ اتنے اعتماد سے ادا کیا کہ سارے کے سارے مائیک سسٹم کی طرف دوڑ پڑے۔ شعیب نے جلدی سے ٹرانسمیٹر کی سوئی اِدھر اُدھر کی تو اچانک گھرر گھرر کی آواز آنی شروع ہوگئی جس میں آہستہ آہستہ کچھ انسانی آوازیں شامل ہونے لگیں اور پھر آواز صاف ہوگئی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
’’اوکے اسمتھ آج کی رپورٹ کیا ہے، کوئی پروگریس؟‘‘ کسی نے رعب دار آواز میں پوچھا۔
’’یس سر! میں اور مائیکل ٹرالر اسٹینڈ گئے تھے، ایک شخص مناسب لگا جس سے ہم پیر کی بکنگ طے کرچکے ہیں اور کچھ ایڈوانس بھی اسے پکڑا دیا ہے۔ اُسے سات بجے کا ٹائم دیا ہے۔ ٹرالر کا نمبرBVU-8132 ہے‘‘۔
’’تمہیں اپنا کام تو ٹھیک سے پتہ ہے نا؟‘‘ پہلے والی آواز دوبارہ سنائی دی۔
’’یقیناً سر! پیر کی صبح سات بجے ٹرالر لے کر ہم مرکزی شاہراہ تک آئیں گے، اس دوران ڈرائیور کو ٹھکانے لگا کر برابر میں بٹھادیں گے اور ڈرائیور کی سیٹ مائیکل سنبھال لے گا۔ آپ کی طرف سے سگنل ملتے ہی ہم ٹرالر 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لاتے ہوئے وہ سب کچھ کر ڈالیں گے جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں‘‘۔
اسمتھ نے آخری جملہ زہر بھرے لہجے میں ادا کیا تھا۔
’’لیکن یاد رکھنا کہ کار کو اچھی طرح رگڑنا ہے تاکہ بن غامدی کے بچنے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔ دوسری صورت میں ہمارا مشن ناکام ہوجائے گا‘‘۔یہ کسی لڑکی کی آواز پہلی دفعہ سنائی دی تھی۔
’’گرینی یہ تم کیسی باتیں کررہی ہو، حالانکہ تم میرے بارے میں اچھی طرح جانتی ہو کہ میں اس کام میں کتنا ماہر ہوں۔ یاد نہیں برطانیہ والے مشن میں کتنی خوبصورتی سے شہزادی کو روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا تھا کہ آج تک برطانیہ اس کیس کو حل نہیں کرسکا۔ ہا ہا ہا۔۔۔‘‘
اس دفعہ اسمتھ نے زوردار قہقہہ لگایا تھا اور پھر جام سے جام ٹکرانے کی آوازیں آنے لگیں جیسے وہ سب شراب کے گلاس آپس میں ٹکرا رہے ہوں۔
اور پھر مستقل خاموشی چھاگئی، شاید وہ اُٹھ گئے تھے۔
’’ثاقب تم نے تو کمال کردیا، اگر تمہاری چھٹی حس بروقت نہ جاگتی تو اتنی اہم معلومات تو نکل جاتیں اور۔۔۔‘‘ عمران ابھی ثاقب کو داد دے ہی رہا تھا کہ ثاقب عمران کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’اچھا اچھا، یہ شاباش تم مجھے بعد میں دیتے رہنا پہلے یہ بتاؤ کہ ٹرالر کا نمبر کیا تھا۔ کسی کو یاد بھی ہے یا نہیں؟‘‘ ثاقب نے توجہ دلائی۔
’’یار وہ اتنی تیزی سے بول رہا تھا کہ میں تو صحیح سے سُن ہی نہیں سکا‘‘۔ عمران نے فوراً ہاتھ اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’’میں نے سنا تو تھا، لیکن یاد نہیں آرہا، لیکن اتنا یاد ہے کہ نمبر B سے شروع ہوتا ہے‘‘۔ زبیر نے پہلا لفظ ایسے بتایا جیسے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہو۔
’’ارے بے وقوف صرف B کا کیا ہم اچار ڈالیں گے B سے نجانے کتنے ٹرالروں پر نمبر پلیٹ لگی ہوں گی‘‘۔ شعیب نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
’’وقاص کیا تم یاد کرسکتے ہو کہ اسمتھ نے ٹرالر کا کیا نمبر بتایا تھا؟‘‘ اب ثاقب کو وقاص کا خیال آیا جو ان سب سے پیچھے کرسی پر بیٹھا تھا۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ وقاص ذہن پر زور دو تم یاد کرسکتے ہو صرف تم‘‘۔ شعیب نے وقاص کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھا تو اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’میں بھی صحیح سے نہیں سُن سکا‘‘۔ وقاص کے ایک جملے نے چاروں کے رہے سہے اوسان بھی خطا کردیئے۔ چاروں کی حالت غیر ہوتے دیکھ کر اچانک وقاص کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔
’’ارے بھئی میں تو مذاق کررہا تھا تم لوگوں کے چہروں پر تو ہوائیاں اُڑنے لگیں‘‘۔
’’وقاص خدا کے واسطے اب تو سنجیدہ ہوجاؤ ہم یہاں پکنک منانے نہیں، بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کسی خاص مشن پر آئے ہیں‘‘۔
نہ چاہتے ہوئے بھی شعیب نے وقاص کو باقاعدہ ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا۔
’’غلطی ہوگئی باس! آئندہ نہیں ہوگی۔ معاف کردو باس‘‘۔ وقاص نے بھی باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا ور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ عمر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کی طبیعت میں مسخرہ پن ابھی تک باقی تھا۔
’’اچھا اب زیادہ باتیں نہ بناؤ اور ٹرالر کا نمبر بتاؤ، تاکہ ہم اپنی جوابی کارروائی کو فائنل ٹچ دے سکیں‘‘۔
شعیب نے مزید سمجھانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
’’BVU-8132‘‘ وقاص نے سنجیدہ ہوتے ہوئے ٹرالر کا نمبر بتایا۔
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ بالکل یہی نمبر تھا؟‘‘ ثاقب نے اطمینان کرنا چاہا۔
’’یقیناً! تب ہی تو اتنے اعتماد سے بتا رہا ہوں۔ پانچ سال بعد بھی پوچھو گے تو یہی نمبر بتاؤں گا۔ کیا سمجھے مسٹر؟‘‘ وقاص نے ثاقب کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’تو بس پھر طے ہوگیا میں اور وقاص اتوار کی رات ٹرالر میں بم فٹ کریں گے، جبکہ تم تینوں شمعون کی کار میں بم سیٹ کروگے۔ اسی طرح پیر کی صبح آٹھ بجے ہم مرکزی شاہراہ کے آس پاس جھاڑیوں میں مختلف جگہوں پر پوزیشن لے لیں گے اور جیسے ہی ٹرالر کار کے قریب تقریباً پانچ سو میٹر کے فاصلے پر پہنچے گا ہم ریموٹ سے ٹرالر کو اُڑا دیں گے اور اس کے فوراً بعد ان کی کار پر کارروائی کرتے ہوئے اُسے بھی نشانِ عبرت بنا ڈالیں گے‘‘۔
’’بم کتنے پاؤنڈ کا ہوگا اور کہاں سے حاصل کیا جائے گا؟‘‘ عمران نے سوال پوچھا۔
’’ٹرالر کے نیچے کم از کم پانچ پاؤنڈ کا بم ہونا ضروری ہے، جبکہ کار کے اگلے حصے کے نیچے ایک پاؤنڈ کا بم بھی کافی ہوگا، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کار مکمل طور پر تباہ نہ ہو اور شمعون اور گرینی زخمی حالت میں گرفتار ہوجائیں، اس طرح ہم موساد کو بہت بڑا جھٹکا دے سکیں گے اور اسرائیل پوری دنیا میں بدنام بھی ہوجائے گا۔ جبکہ بم ترمذی انکل ہمیں ضرور فراہم کردیں گے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک صاف طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔
اگلے دن وہ پانچوں ٹرالر اسٹینڈ پر موجود ٹرالروں میں سے مطلوبہ ٹرالر کو اچھی طرح شناخت کرچکے تھے۔
رات کے بارہ بجتے ہی وہ پانچوں مکمل تیاری کے ساتھ باہر آچکے تھے۔ سڑک پر ٹریفک کافی کم ہوچکا تھا۔ شعیب اور وقاص ٹرالر اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوگئے، جبکہ عمران، زبیر اور ثاقب موساد کے بنگلے کے اطراف کا جائزہ لینے لگے۔
شعیب اور وقاص جب ٹرالر اسٹینڈ پر پہنچے تو وہاں سناٹے کا راج تھا۔ دو تین چوکیدار ایک کونے میں بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے، جبکہ ریڈیو پر عربی میں کوئی گانا چل رہا تھا، جس کی وجہ سے شعیب اور وقاص کو دیوار پھلانگنے میں کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مختصر سی جدوجہد کے بعد وہ مطلوبہ ٹرالر کو شناخت کرچکے تھے اور اب ترمذی انکل سے حاصل کردہ پانچ پاؤنڈ وزنی بم تار کی مدد سے اچھی طرح باندھ رہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ بعد وہ بم کو اچھی طرح سیٹ کرچکے تھے۔
دوسری طرف عمران بنگلے کے باہر پہرہ دیتا رہا اور زبیر اور ثاقب اندر کود گئے۔ بنگلے کے اندر سے انگلش میوزک اور زور زور سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں، شاید کامیاب منصوبہ بندی کی خوشی میں جشن منایا جارہا تھا۔
’’منالو بیٹا! زندگی کی آخری رات بڑی دھوم سے منالو۔ انشاء اللہ کل صبح جہنم کے داروغہ ہی تمہاری صحیح ٹھکائی لگائیں گے‘‘۔ زبیر غصے سے دانت پیستا ہوا بولا۔
اسی دوران ثاقب کار کے نیچے لیٹ گیا اور نہایت احتیاط کے ساتھ بم کو انجن کے ساتھ منسلک کردیا اور اُسی طرح خاموشی کے ساتھ وہ دونوں بنگلے سے باہر نکل آئے اور گھر کی طرف چل پڑے۔
’’یار اگر اللہ کی مدد ساتھ ہو تو بڑی سے بڑی طاقت بھی چیونٹی کی طرح نظر آتی ہے اور سارے کام آسان ہوجاتے ہیں‘‘۔ گھر واپس پہنچنے کے بعد عمران فریزر سے بوتل نکالتے ہوئے بولا۔
’’ہاں بھئی۔ ہمارے حصے کا کام تو ہوگیا، اب معلوم نہیں شعیب اور وقاص کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔ ثاقب نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’بے فکر رہو۔ جب اللہ ہمارے ساتھ ہے تو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ زبیر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد شعیب اور وقاص بھی واپس آچکے تھے اور اب آئندہ کا پروگرام سیٹ کررہے تھے۔ ذمہ داریاں طے کرنے کے بعد رات کے تین بجے وہ پانچوں وضو کرکے تہجد کی نماز پڑھنے لگے، نماز سے فارغ ہوکر انہوں نے اپنے رب سے کامیابی کی دُعا کی اور اپنے اپنے بستروں پر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔
صبح چھ بجے فجر کی نماز اور ناشتے سے فارغ ہوکر سب اپنی اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔ شعیب کے کہنے پر سب نے اپنے اپنے چہروں کو میک اپ سے تبدیل کرلیا تھا اور ٹھیک ساڑھے سات بجے وہ پانچوں غیر محسوس انداز میں مرکزی شاہراہ کے آس پاس پوزیشن سنبھال چکے تھے۔
ٹھیک آٹھ بجے وزیر خارجہ بن غامدی کی کار بنگلے سے باہر نکل چکی تھی اور اب مرکزی شاہراہ پر دوڑ رہی تھی۔ دوسری طرف سے ٹرالر بھی روانہ ہوچکا تھا۔ ریموٹ کنٹرول شعیب کے ہاتھ میں موجود تھا۔ اچانک شعیب کو دور سے بن غامدی کی کار نظر آئی جو کافی تیز رفتاری سے آرہی تھی اور اس کے فوراً بعد جیسے ہی ٹرالر مخالف سمت سے مست ہاتھی کی طرح آتا ہوا نظر آیا شعیب کی گرفت ریموٹ کے بٹن پر اور مضبوط ہوگئی اور پھر جب شعیب نے دیکھا کہ ٹرالر، کار کے کافی نزدیک پہنچ چکا ہے اس نے سرخ بٹن دبادیا اور پھر فضا ایک زبردست دھماکے کی گونج سے لرز اُٹھی اور ٹرالر میں آگ بھڑک اُٹھی۔ دھماکے کی آواز سنتے ہی بن غامدی کی کار کے ڈرائیور نے بھی ایمرجنسی بریک لگادیئے اور بن غامدی کی کار گھومتے ہوئے سڑک سے نیچے کچے میں اُتر گئی۔
بن غامدی کی کار کے پیچھے دشمن کی کار بھی آرہی تھی جس میں شمعون اور گرینی موجود تھے۔ ٹرالر میں ہونے والا دھماکہ اور بھڑکتے ہوئے شعلے دیکھ کر شمعون نے کار کی رفتار آہستہ کردی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس موڑنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ شعیب نے دوسرا بٹن بھی دبادیا اور پھر ایک اور دھماکے نے کار کا اگلا حصہ تباہ کردیا اور کار قلابازیاں کھاتی ہوئی ٹرالر سے ٹکرا گئی۔
دھماکے کی آواز سنتے ہی تھوڑی ہی دیر میں پولیس کی گاڑیوں نے ٹرالر اور کار کو گھیرے میں لے لیا اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں نے آگ بجھانی شروع کردی۔ اسی دوران بن غامدی اپنی کار سے اُتر آئے اور پولیس سے بولے ’’یہ مجھ پر قاتلانہ حملہ ہے۔ ان میں سے ایک بھی بھاگنے نہ پائے‘‘۔ اور یہ کہہ کر وہ دوبارہ روانہ ہوگئے۔
شعیب، عمران اور وقاص بھی ریموٹ پھینک کر جائے حادثہ پر جاپہنچے اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ بھی اجنبی ہوں۔ ٹرالر میں موجود مائیکل، اسمتھ اور ڈرائیور کی لاشیں جیسے ہی باہر آئیں تو شعیب چیختے ہوئے بولا۔
’’جناب یہ تو ہمارے پڑوسیوں کی لاشیں ہیں۔ ہائے بے چارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘‘۔ شعیب نے لہجے میں انتہائی افسوس کا تاثر پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’اے لڑکے! کیا واقعی تم انہیں جانتے ہو؟‘‘ پولیس انسپکٹر نے شعیب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں جناب یہ لوگ البلادی مارکیٹ کے پیچھے والے علاقے میں رہتے ہیں اور ہمارے پڑوسی تھے۔ ہم آپ کو ان کا گھر بھی دکھا سکتے ہیں‘‘۔ شعیب نے انتہائی مسکین صورت بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے، تم لوگ ہمیں ان کا گھر دکھاؤگے یہ تو سیدھا سیدھا بن غامدی پر قاتلانہ حملے کا کیس بنتا ہے۔ یہ تو شکل سے ہی دہشت گرد لگتے ہیں‘‘۔ پولیس انسپکٹر اپنی ہیٹ سیدھی کرتے ہوئے بولا۔
کار میں موجود شمعون اور گرینی زخمی حالت میں بھاگنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ پولیس نے انہیں موقع پر ہی گرفتار کرلیا اور ان کا جدید اسلحہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ آدھے گھنٹے بعد دنیا بھر کا میڈیا جائے حادثہ پر پہنچ کر رپورٹنگ کررہا تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

دوسرے دن دنیا بھر کے اخبارات موساد کے سیاہ کارنامے سے بھرے ہوئے تھے، جس میں بتایا گیا تھا کہ شام کے وزیر خارجہ بن غامدی ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، حملہ کرنے والے موساد کے ایجنٹ تھے جس میں سے دو ہلاک اور دو زخمی حالت میں گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ پولیس نے چند بچوں کے نشاندہی کرنے پر اُن کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر جدید اسلحہ اور قاتلانہ حملے کی ساری منصوبہ بندی اپنے قبضے میں لے لی ہے اور مزید تفصیلات بتانے سے فی الحال انکار کردیا ہے۔ تفصیلات بہت جلد منظرِ عام پر آجائیں گی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کامیاب کارروائی کے بعد پانچوں واپس گھر پہنچ چکے تھے اور شکرانے کے نفل ادا کرنے اور ماسٹر خان اور ترمذی انکل کو فون کرنے کے بعد تفصیلات بتانے ان کے گھر جارہے تھے۔ ابھی وہ بیگ اُٹھا کر دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ اچانک دو لمبے چوڑے نوجوان دیوار پھلانگ کر اندر آگئے اور گوریلا فائٹرز کو سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر انہیں اسلحہ کی نوک پر رکھتے ہوئے بولے۔ ’’ہینڈز اپ‘‘ اور شعیب کے علاوہ چاروں نے جلدی سے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھا دیئے۔۔۔
’’لے بھئی مارے گئے! یہ دو اور کہاں سے آگئے؟‘‘ وقاص نے ڈر کے مارے ہاتھ اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’’واقعی یہ تو چار کے چھ نکلے!‘‘ زبیر نے بھی آہستہ سے سرگوشی کی۔
’’زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے چپ چاپ اندرچلو ‘‘۔ ایک نووارد زبیر کو دھکیلتے ہوئے بولا۔
’’تم لوگ چاہتے کیا ہو؟‘‘ عمران نے پیچھے ہٹتے ہوئے قدرے زور سے پوچھا۔
’’ابھی سب پتا چل جائے گا چھوٹے۔ زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ عمران کا قد تھوڑا چھوٹا ہونے کی وجہ سے دوسرے آدمی نے اُسے چھوٹے کہتے ہوئے گدی پر ایک ہاتھ مارا۔
عمران کی گدی پر پڑنے والا ہاتھ کافی زوردار تھا۔ عمران کو غصہ تو بہت آیا، لیکن اُس نے مصلحت سے کام لیا اور گرنے کی اداکاری کرتے ہوئے لیٹ گیا۔
دوسرے کمرے میں موجود شعیب اپنا بیگ بند کر ہی رہا تھا کہ اچانک یہ گفتگو سُن کر چونک پڑا اور جلدی سے اپنے موبائل سے ایمرجنسی پولیس کے نمبر ملا کر ساری صورتحال بتانے لگا۔ پولیس کو اطلاع کرنے کے بعد شعیب نے اپنا چھوٹا سا ریوالور نکال لیا اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے خود کو تیار کرنے لگا۔
’’دد۔۔۔دد۔۔۔دیکھو ہم سب طالب علم ہیں ہمارے پاس سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ہمیں چھوڑ دو‘‘۔ ثاقب کمال کی اداکاری کرتے ہوئے گھگھیایا۔
’’ارے ایسے کیسے چھوڑ دیں؟ تم لوگوں نے ہماری مخبری کرکے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے جس کی سزا تمہیں مل کر رہے گی‘‘۔ پہلے نووارد نے چاروں کو ڈراتے ہوئے کہا۔
’’شیر کے یا گیدڑ کے‘‘۔ وقاص نے اردو میں جملہ چُست کیا۔
’’کیا کہا تم نے؟‘‘ دوسرا غُرّایا۔
’’دیکھیں جناب اگر آپ ہمارے پڑوسیوں کی بات کررہے ہیں تو وہ ہم نے انسانی ہمدردی کی بنا پر کیا تھا۔ ہمیں کیا معلوم کہ وہ آپ کے ساتھی تھے ورنہ ہم کبھی بھی پولیس کو نہ بتاتے‘‘۔
زبیر نے انتہائی سادگی سے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
اچانک دور سے پولیس سائرن کی آواز سنائی دی اور دونوں حملہ آور اچانک بوکھلا گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اشاروں میں بات کرنے لگے، جیسے پوچھ رہے ہوں کہ یہ کیا ہوگیا؟ سائرن کی آواز لمحہ بہ لمحہ قریب آرہی تھی۔ اچانک ایک حملہ آور نے فائر کرنے کے لیے ریوالور کا رُخ عمران کی طرف کردیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی شعیب کے ریوالور سے گولی نکلی اور حملہ آور کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ کر دور جاگرا اور وہ زخمی ہاتھ لیے نیچے گرگیا۔ ثاقب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے بوکھلائے ہوئے دوسرے حملہ آور کو مہلت دیئے بغیر اُس کے اوپر حملہ کردیا اور اُسے اپنے ساتھ لیتے ہوئے زمین پرگرا کر اس کا گلا دبوچ لیا۔ اس دوران وقاص اور زبیر نے دونوں حملہ آوروں کے گرے ہوئے ریوالوروں پر قبضہ جماتے ہوئے انہیں اسلحے کی نوک پر رکھ لیا۔ دوسری طرف شعیب زخمی حملہ آور کو ریوالور کی زد میں رکھتے ہوئے لاتوں سے تواضع کرنے لگا، جبکہ اُسے لاتوں سے زیادہ اپنے زخمی ہاتھ کی فکر تھی جس سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد پولیس ان کے گھر کے باہر پہنچ چکی تھی۔ وقاص نے دروازہ کھول کر پولیس کو خوش آمدید کہا اور اندر لے آیا۔ اس دوران شعیب اپنا ریوالور چھپا چکا تھا، تاکہ مقامی پولیس کو ان کے اوپر کسی قسم کا شک نہ ہوسکے۔
پولیس پوزیشن لیتی ہوئی اندر آنے لگی تو شعیب بولا ’’جناب اب فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے سائرن کی آواز سُن کر یہ لوگ بھاگنے کی کوشش کررہے تھے کہ ہم نے ان کے اوپر حملہ کرکے انہیں قابو کرلیا۔ اب آپ انہیں لے جاسکتے ہیں‘‘۔
’’لل۔۔۔لل۔۔۔لیکن۔۔۔ یہ تو موساد کے بدنام زمانہ دہشت گرد ہیں جو دمشق میں دہشت گردی پھیلاتے رہے ہیں اور ہم کئی مہینوں سے ان کی تلاش میں تھے۔ تم لوگوں نے اتنی آسانی سے انہیں کیسے قابو کرلیا؟‘‘ پولیس انسپکٹر نے پہلے دونوں حملہ آوروں کو حیرت سے دیکھا اور پھر گوریلا فائٹرز کی طرف حیران و پریشان نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’جناب وہ اس طرح کہ یہ صرف دو تھے اور ہم پانچ اب آپ خود ہی بتائیے کہ پانچ زیادہ ہوتے ہیں یا دو؟‘‘ وقاص نے جواب دینے کے بجائے اُلٹا سوال کرتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
اس بچکانہ جواب بلکہ سوال کے نتیجے میں پولیس انسپکٹر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایسے سر ہلایا جیسے سب سمجھ میں آگیا ہو اور مزید بات کئے بغیر ان دونوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے پانچوں سے ایسے ہاتھ ملانے لگا گویا کسی ماورائی مخلوق سے مصافحہ کررہا ہو اور شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔
پولیس کے جاتے ہی شعیب تمام ساتھیوں کو ایک اور کامیاب کارروائی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’ اللہ کے فضل سے ہم ایک مرتبہ پھر دشمن کو نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اب جلدی کرو اور یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو۔ ماسٹر خان اور ترمذی انکل پریشان ہورہے ہوں گے‘‘۔
زبیر نے جلدی سے گاڑی باہر نکالی اور سب جلدی جلدی اپنا سامان ڈگی میں رکھ کر بیٹھ گئے۔ اب ان پانچوں کا رُخ ترمذی انکل کے بنگلے کی طرف تھا۔
جیسے ہی کار البلادی مارکیٹ کے علاقے سے باہر نکلی تو ثاقب اچانک بول اُٹھا۔ خبردار کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ ہمارا تعاقب کیا جارہا ہے‘‘۔
زبیر نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی بیک مرر اور سائیڈ مرر سے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اتنے میں شعیب بولا۔
’’زبیر گاڑی دوسری سڑک پر ڈال دو اور نوٹ کرو کہ کون سی گاڑی ہمارے پیچھے ہے، اس سے جان چھڑائے بغیر ہم ترمذی انکل کے گھر کا رُخ نہیں کرسکتے‘‘۔
تھوڑی ہی دیر میں زبیر نے اندازہ لگالیا کہ ایک ٹیکسی مستقل ان کے تعاقب میں ہے۔
’’شعیب بھائی! ثاقب ٹھیک کہہ رہا ہے ایک ٹیکسی ہمارے پیچھے ہے اور کافی فاصلہ رکھ کر پیچھا کررہی ہے۔ اگر ثاقب ہمیں نہ بتاتا تو ہمارے اچھے بھی نشاندہی نہیں کرسکتے تھے‘‘۔ زبیر نے آہستہ سے جملہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’واقعی ہم نے تو یہ سوچا ہی نہیں کہ جب دو بندے ہمارے گھر میں گھسے تھے تو یقیناً ایک دو بندے باہر بھی گاڑی تیار رکھے موجود ہوں گے‘‘۔ عمران نے سب کی مشترکہ غلطی کی طرف اشارہ کیا۔
’’ہاں عمران تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن اب یہ بتاؤ کہ اس ٹیکسی سے چھٹکارا کس طرح حاصل کیا جائے‘‘۔ وقاص نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’آگیا ایک زبردست آئیڈیا‘‘۔ بس اب تم لوگ تماشا دیکھتے جاؤ‘‘۔ زبیر خوشی کے مارے اپنی سیٹ سے اُچکتا ہوا بولا اور ایک دم کار کی رفتار تیز کردی۔ جواب میں ٹیکسی کی رفتار بھی تیز ہوگئی۔ اسی تیز رفتاری میں زبیر نے اچانک اپنی گاڑی پولیس چوکی کے سامنے کھڑی پولیس کار کے آگے جاکر روکی اور جلدی سے باہر نکل کر آیا اور سیٹ پر موجود پولیس آفیسر سے بولا۔
’’جناب ہم غیر ملکی طالب علم ہیں اور یہ ٹیکسی جو آرہی ہے اس میں موجود لوگ ہمیں لوٹنا چاہتے ہیں۔ برائے مہربانی ہماری مدد کریں۔ زبیر نے تیزی سے ان کی طرف آنے والی ٹیکسی کی طرف اشارہ کیا، جو زبیر کی غیر متوقع حرکت پر ایمرجنسی بریک لگا چکی تھی اور واپسی کے لیے مڑ رہی تھی۔
ٹیکسی کو بریک لگاتے اور واپس مڑتے دیکھ کر پولیس کا شک بھی یقین میں بدل گیا اور پولیس آفیسر نے زبیر سے مزید بات کئے بغیر ٹیکسی کے پیچھے اپنی گاڑی ڈال دی۔
زبیر ہاتھ جھاڑتا ہوا واپس کار میں آبیٹھا اور ہنستے ہوئے بولا ’’اس کو کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا‘‘۔
’’زبیر تم تو واقعی بڑے ذہین نکلے ہم تو تمہیں ’’ایسا‘‘ ہی سمجھتے تھے‘‘۔ ثاقب نے لفظ ’’ایسا‘‘ کہتے ہوئے عجیب سا منہ بنایا۔
’’کیا کہا؟ کیا مطلب میں تمہیں ایسا ہی لگتا ہوں یعنی تم مجھے بدھو کہہ رہے ہو؟‘‘ زبیر نے دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا۔
’’نہیں نہیں۔ میرا مطلب تھا کہ ہم تمہیں ایسا ہی ذہین سمجھتے ہیں‘‘۔ ثاقب نے حاضر جوابی سے بات پلٹتے ہوئے کہا۔
’’واقعی زبیر تم نے کمال کردیا۔ اتنی بڑی مصیبت سے اتنی آسانی سے چھٹکارا دلادیا‘‘۔ شعیب نے اپنی روایتی سنجیدگی سے زبیر کو داد دیتے ہوئے کہا تو زبیر بھی مسکرا اُٹھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حسن ترمذی کے گھر پہنچ چکے تھے۔ ماسٹر خان اور حسن ترمذی نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا اور مشن سے کامیاب لوٹنے پر باری باری مبارک باد دی۔ ماسٹر خان جب گلے ملنے لگے تو باقاعدہ رونے لگے۔
’’سر آپ رو رہے ہیں؟‘‘ وقاص نے ماسٹر خان کے آنسوؤں کی نمی اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بیٹا میں اپنے مشن کی کامیابی پر خوشی کے آنسو بہا رہا ہوں، کیونکہ آج میرا مشن مکمل ہوگیا ہے اب تم پانچوں کا مشن شروع ہوچکا ہے‘‘۔ ماسٹر خان جلدی سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے۔
’’سر ابھی بھی ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ آپ اس طرح ہمیں نہ چھوڑیں‘‘۔ عمران نے ماسٹر خان کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے التجائیہ انداز میں کہا۔
’’دیکھو بیٹا۔ تم لوگوں کے مشن کو ہم اپنے طور پر واچ کررہے تھے۔ تم لوگوں نے جس ذہانت اور ہوشیاری سے موساد جیسی خطرناک تنظیم اور اس کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کو سبق سکھایا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ لیکن اب تم لوگوں کا دمشق میں مزید قیام کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے، کیونکہ موساد اپنے اتنے بڑے نقصان اور عالمی بدنامی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گی، یقیناً وہ حرکت میں آچکے ہیں اور اپنے دشمنوں کی بُو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ وہ چیونٹی کی طرح سونگھتے اور کوّے کی طرح دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تم لوگ دمشق چھوڑ دو‘‘۔
ماسٹر خان کے آخری جملے پر پانچوں چونکے بغیر نہ رہ سکے۔
’’سر اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اسرائیل۔۔۔‘‘ ثاقب نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’ہاں تم لوگ طالب علموں کے بھیس میں بیت المقدس کی تاریخ جاننے کے لیے اسرائیل میں داخل ہوگے، لیکن تم لوگوں کو انتہائی حد تک محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ اسرائیل میں داخل ہونے والے افراد پر خصوصی نظر رکھی جاتی ہے‘‘۔ ماسٹر خان پانچوں کو سمجھاتے ہوئے بولے۔
’’سر کیا آپ ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے؟۔۔۔ اسرائیل ہمارے لیے نئی جگہ ہوگی اور وہاں ہمیں آپ کی کمی شدت سے محسوس ہوگی‘‘۔ وقاص نے ماسٹر خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میرا وہاں جانا انتہائی خطرناک ہے۔ میرے لیے بھی تمہارے لیے بھی اور ہمارے مشن کے لیے بھی، کیونکہ وہ تو خود ایک عرصے سے میری تلاش میں ہیں۔ تم لوگ میری بات سمجھ رہے ہو نا؟‘‘
ماسٹر خان نے وقاص میاں کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
’’ویسے بھی تم لوگوں کو بالکل بھی پریشان نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ تم لوگوں کی رہنمائی اور حفاظت کے لیے وہاں جانبازوں کا گروپ پہلے سے تیار ہوگا، جیسے ہی تم لوگ وہاں پہنچوگے سلطان نامی ایک شخص تم لوگوں کو گائیڈ کی خدمات پیش کرے گا اور تم لوگوں کو بحفاظت محفوظ مقام تک پہنچا دے گا اور اس وقت تک تمہارے ساتھ رہے گا جب تک تم لوگ چاہوگے‘‘۔ ماسٹر خان نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’سر آپ بھی بے فکر رہیں۔ جس طرح آپ نے ہماری تربیت کی ہے بالکل اُسی طرح ہم آپ کے مشن اور نیک مقاصد کو پورا کرکے دکھائیں گے اور انشاء اللہ اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے قبلۂ اول بیت المقدس کو دوبارہ چھین لیں گے اور ان یہودیوں کو انبیاء کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کردیں گے‘‘۔
شعیب نے شدت جذبات سے سرخ ہوتے ہوئے غصے سے اپنے ہاتھ بھینچ لیے اور پھر ماسٹر خان زور سے انشاء اللہ کہتے ہوئے آگے بڑھے اور شعیب کو گلے سے لگالیا۔ اُن کی آنکھیں شدتِ جذبات سے بہہ پڑیں اور شعیب کے شانے ان کے آنسوؤں سے بھیگنے لگے۔
اس رقت آمیز منظر کو دیکھ کر حسن ترمذی کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور وہ بولے۔
’’میرے بچو! یقیناً تم لوگ اللہ کے شیر اور دلیر مجاہد ہو۔ تم لوگوں کی صلاحیتوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے اللہ تم لوگوں سے کوئی بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ کامیابی تمہارا انتظار کررہی ہے۔ میرے بہادروں حوصلہ رکھو یقیناً تمہارے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔
حسن ترمذی کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں سے عمران، زبیر، وقاص اور ثاقب کے آنسوؤں کے بند بھی ٹوٹ گئے اور ان کے چہرے بھی آنسوؤں سے تر ہوگئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے چوبیس گھنٹے گوریلا فائٹرز کے لیے انتہائی اہم تھے۔ پانچوں نے جلدی جلدی ضروری سامان پیک کیا اور ماسٹر خان اور حسن ترمذی سے ضروری ہدایات لینے کے بعد اب وہ پانچوں شعیب کی سربراہی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کررہے تھے۔
آخر میں شعیب نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی اور بولا ’’دیکھو دوستو! وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ۔ اب تک ہم جو کچھ بھی کرتے رہے ہیں وہ سب ہماری ٹریننگ کا حصہ تھا۔ لیکن آج ہم دشمن کے قلب میں داخل ہورہے ہیں۔ ہم اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ہمارا مکمل بھروسہ اللہ کی ذات پر ہو اور ہم آپس میں باہم متحد ہوکر دشمن کا مقابلہ کریں۔ تم سب نے مل کر مجھے گروپ لیڈر بنایا ہے۔ اگر میں صحیح طور پر کام نہ کرسکوں یا کمزوری دکھاؤں تو تم لوگ دوسرا گروپ لیڈر منتخب کرنے کا اختیار رکھتے ہو۔ آؤ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں ہمارے عظیم مشن میں سرخرو کرے اور ہمیں سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت سے ہمکنار کرے‘‘۔
اس کے بعد وہ کافی دیر دُعا مانگتے رہے اور اللہ کے حضور روتے رہے۔ دُعا کے بعد پانچوں نے اپنا سامان اُٹھایا اور آنسو پونچھتے ہوئے باہر نکل آئے۔ باہر ماسٹر خان اور حسن ترمذی ان کی آمد کے منتظر تھے۔ پانچوں کو باہر آتا دیکھ کر حسن ترمذی بولے۔
’’ارے بھئی تم لوگوں نے اتنی دیر لگادی۔ فلائٹ روانہ ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا ہے اورہاں یہ کچھ ضروری کاغذات ہیں جس میں یونیورسٹی کا پرمیشن لیٹر بھی ہے اور یہ رہے تم لوگوں کے ٹکٹس۔ اب جلدی کرو گاڑی میں بیٹھو اور ایئرپورٹ پہنچنے کی فکر کرو‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ پانچوں ایئرپورٹ پر ماسٹر خان اور حسن ترمذی سے الوداعی ملاقات کررہے تھے۔ لیکن اب پانچوں کے چہروں پر ایک عجیب سا اطمینان جھلک رہا تھا جسے دیکھ کر ماسٹر خان کا بھی ڈھیروں خون بڑھ گیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

جیوش ایئر لائنز کا طیارہ دمشق ایئرپورٹ پر لینڈ کرچکا تھا اور اب تل ابیب جانے والے مسافر حضرات انتظار گاہ میں جمع ہورہے تھے۔ حسن ترمذی نے بھی گوریلا فائٹرز کے لیے خاص طور پر جیوش ایئر لائنز (یہودی فضائی سروس) کی سیٹیں بک کروائی تھیں تاکہ ان پر شک نہ کیا جاسکے۔
انتظار گاہ میں جمع ہونے والے مسافر حضرات کی بڑی تعداد یہودیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے کچھ اپنے مخصوص مذہبی لباس میں تھے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک شخص تھری پیس سوٹ میں ملبوس بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ اچانک وقاص کے برابر میں بیٹھا یہودی جو خاص مذہبی لباس اور ایک مخصوص چھوٹی سی ٹوپی پہنے ہوئے تھا کھڑا ہوکر سگریٹ کے خلاف انتظامیہ سے احتجاج کرنے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ انتظار گاہ میں سگریٹ پینا ممنوع ہے تو اس شخص کو کیوں منع نہیں کیا جارہا۔ بتایا گیا کہ سگریٹ پینے والا شخص اسرائیلی سینیٹر ہے، جسے منع نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہودی ربی (عالم) ابھی تک مسلسل بڑبڑائے جارہا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہئے۔
کچھ ہی دیر بعد مائیک سے اعلان ہوا کہ تل ابیب جانے والے مسافر حضرات اپنے طیارے میں سوار ہوسکتے ہیں۔ تمام مسافر طیارے کی جانب جانے والے راستے کی طرف قدم بڑھانے لگے تو گوریلا فائٹرز بھی اپنے اپنے دستی بیگ اُٹھائے طیارے کی طرف بڑھنے لگے۔ طیارے میں داخل ہونے سے پہلے تیسری مرتبہ سب کی اچھی طرح تلاشی لی گئی اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے بعد اب پائلٹ اپنی مخصوص ہدایات دے رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا اور زبیر کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔
’’زبیر وہ دیکھو خان انکل اور ترمذی انکل ابھی تک کھڑے ہیں‘‘۔ زبیر کی برابر والی سیٹ پر بیٹھے عمران نے زبیر کو کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا۔
آ۔۔۔ آ۔۔۔ کہاں ہیں انکل؟‘‘ زبیر نے اس طرح الفاظ ادا کئے جیسے کسی نے گہری نیند سے جگادیا ہو۔
’’کیا ہوا زبیر تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ جیسے ہی طیارہ فضا میں بلند ہوا عمران نے غور سے زبیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بس ایسے ہی مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہورہا ہے‘‘۔ زبیر نے گہری سانس کھینچتے ہوئے کہا۔
’’ایسے ہی سے تمہاری کیا مراد ہے؟ ذرا کھل کر بتاؤ‘‘۔ عمران کو تشویش ہونے لگی۔
’’عمران مجھے کچھ جلنے کی بو آرہی ہے۔ کیا تمہیں ایسا کچھ محسوس نہیں ہورہا؟‘‘ زبیر نے عمران کی طرف دیکھتے ہوئے بے چینی سے پوچھا۔
’’نہیں بھلا اس طیارے میں کیا جل سکتا ہے۔ ہاں البتہ اُسی شیطان اسرائیلی سینیٹر نے دوبارہ سگریٹ جلائی ہے‘‘۔ عمران نے آگے وی آئی پی سیٹ پر بیٹھے سینیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں سگریٹ نہیں کوئی ربر یا تار وغیرہ جل رہا ہے اور اب تو میں اچھی طرح محسوس کرسکتا ہوں۔ جلدی کرو کہیں کوئی بڑا نقصان نہ ہوجائے‘‘۔
زبیر نے عمران کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا تو عمران بھی پریشان ہوگیا۔
عمران نے جلدی سے آگے بیٹھے ہوئے شعیب، ثاقب اور وقاص کو ساری صورتحال بتائی تو سب اپنی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے۔
’’جناب! کیا آپ لوگوں کے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش ہے؟‘‘ اس طرح اُٹھتے دیکھ کر ایک ایئرہوسٹس بھاگتی ہوئی آئی اور زبیر سے پوچھنے لگی۔
’’مجھے کوئی تار وغیرہ جلنے کی بو آرہی ہے، یقیناً جہاز کو خطرہ ہے‘‘۔ زبیر نے جان بوجھ کر آواز کو پست رکھا، تاکہ دوسرے مسافر حضرات پریشان نہ ہوجائیں۔
’’برائے مہربانی آپ اپنی سیٹوں پر تشریف رکھیں جہاز کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے پائلٹ اور انجینئرز انتہائی تربیت یافتہ ہیں‘‘۔ ایئرہوسٹس نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیں آپ ہمارا پیغام پائلٹ تک پہنچادیں ورنہ ہم زبردستی کاک پٹ میں گھس جائیں گے۔ آپ ہماری بات کو مذاق نہ سمجھیں‘‘۔ شعیب غصے میں بڑبڑایا۔
’’ٹھیک ہے ۔ میں آپ کی بات اندر پہنچا دیتی ہوں‘‘۔ ایئرہوسٹس نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا اور تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی کاک پٹ کی طرف بڑھ گئی۔
’’اللہ خیر کرے۔ جلنے کی بو اب تیز ہوگئی ہے‘‘۔ زبیر آہستہ سے بولا۔ باقی چاروں لڑکے بھی حیرت سے زبیر کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے، کیونکہ ان کو بھی ابھی تک کسی قسم کی بو محسوس نہیں ہورہی تھی۔
کاک پٹ میں موجود پائلٹس اس حیرت انگیز خبر پر چونکے بغیر نہ رہ سکے اور فلائٹ انجینئر سے صورتحال معلوم کرنے لگے۔ فلائٹ انجینئر جہاز کے نچلے حصے کی طرف دوڑا تو وہاں آگ بھڑک رہی تھی۔ فلائٹ انجینئر نے فوراً ہیڈ فون کی مدد سے پائلٹ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے نیچے ایک انجن میں آگ لگ گئی ہے جسے فوراً بجھانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا جہاز واپس دمشق ایئرپورٹ پر اُتار لیا جائے۔ جہاز میں ایک مرتبہ پھر پائلٹ کی آواز گونجی۔
’’محترم مسافر حضرات! ہمیں جہاز میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے، لہٰذا جہاز واپس دمشق ایئرپورٹ پر لینڈ کرے گا۔ برائے مہربانی اپنی بیلٹس دوبارہ باندھ لیں اور سیٹ کے نیچے موجود لائف جیکٹس پہن لیں۔۔۔
جونیئر پائلٹ مسلسل ہدایات دے رہا تھا، لیکن پورے جہاز میں ایک شور اور ہنگامہ کھڑا ہوچکا تھا۔ سب سے تیز رونے کی آواز اسی یہودی رِبّی کی تھی جو انتظار گاہ میں احتجاج کررہا تھا۔
جہاز واپس دمشق جانے کے لیے فضا میں ایک لمبا چکر کاٹ کر یوٹرن لے چکا تھا، لیکن مسافروں کا شور مسلسل بڑھتا جارہا تھا اور اب تو جہاز نے خطرناک جھٹکے بھی لینا شروع کردیئے تھے اور ہر جھٹکے پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید اب جہاز دوبارہ سنبھل نہ سکے گا۔
وقاص، عمران اور زبیر کے ہونٹ مسلسل دعاؤں کا ورد کررہے تھے اور ثاقب جہاز کی سیٹ سے سر ٹکائے گم سم چھت کو گھور رہا تھا جیسے دل ہی دل میں اللہ کو پکار رہا ہو، جبکہ شعیب مسافروں کو پرسکون رکھنے کی ناکام کوشش کے بعد اب اپنی سیٹ پر بیٹھا ہانپ رہا تھا۔
سب سے مضحکہ خیز صورتحال اسرائیلی سینیٹر کی تھی جس کی بوکھلاہٹ قابلِ دید تھی۔ وہ ہر جھٹکے پر اپنی سیٹ سے یوں کھڑا ہوجاتا جیسے کرنٹ چھو گیا ہو وہ کبھی ایئرہوسٹس سے پیراشوٹ کا مطالبہ کرتا اور کبھی اسٹیورڈ کا گریبان پکڑ کر پیراشوٹ فراہم نہ کرنے پر اُسے دھمکیاں دینے لگتا کہ میری جان بہت قیمتی ہے، اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میں تم میں سے کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس کی دھمکیاں سُن کر شعیب کے سنجیدہ چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئی تھی، اُسے اسرائیلی سینیٹر کی کھوکھلی دھمکیاں بالکل اسی طرح محسوس ہوئیں جیسے ایک ماں نے دریا میں نہانے کی ضد کرنے والے بچے کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ڈوب گئے تو گھر میں گھسنے نہ دوں گی۔
اُسے احساس ہوا کہ واقعی یہودی صرف موت سے ڈرتا ہے۔ ایک طرف یہودیوں کے خوفزدہ چہرے اور دوسری طرف ایمان کے نور سے منور اپنے ساتھیوں کے مطمئن چہرے اُسے اسلام اور کفر کے تضاد کا اعلان کرتے صاف دکھائی دے رہے تھے۔
اسی چیخ و پکار کے عالم میں طیارہ زمین پر اُتر چکا تھا۔ ایمرجنسی لینڈنگ کی اطلاع ملتے ہی دمشق ایئرپورٹ کا رن وے فوری طور پر خالی کردیا گیا تھا۔
جہاز کے رُکتے ہی تمام مسافر دروازے کی طرف دوڑ پڑے، جبکہ پہلے سے تیار فائر بریگیڈ کے عملے نے آگ پر قابو پانے کے لیے اپنی کارروائی کا آغاز کردیا۔ تھوڑی دیر بعد جب تمام مسافر ایک مرتبہ پھر انتظارگاہ میں بیٹھے اپنے گمشدہ حواس بحال کررہے تھے اور دوسرے جہاز کے بندوبست ہونے تک آرام دہ کرسیوں پر سر ٹکائے انتظار کررہے تھے۔ وقاص نے دیکھا کہ وہی اسرائیلی سینیٹر ان کی طرف تیز قدموں سے آرہا ہے، اس نے فوراً دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ دیکھو اسرائیلی سینیٹر ہماری ہی طرف آرہا ہے۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔ وہ اسرائیلی حکومت کا بندہ ہے احتیاط رکھنا کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے‘‘۔
اب پانچوں کی نظریں اسرائیلی سینیٹر کی طرف اُٹھ چکی تھیں۔ وہ جیسے ہی قریب آیا تو پانچوں کھڑے ہوکر اس سے مصافحہ کرنے لگے۔ اسرائیلی سینیٹر نے نہایت گرمجوشی سے ملتے ہوئے زبیر سے کہا۔
’’ویلڈن بوائے۔ تم نے تو کمال کردیا۔ مجھے تمہاری آنکھوں میں ذہانت کی چمک نظر آتی ہے۔ تم نے واقعی ہم سب کی جانیں بچا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا؟‘‘
’’سر یہ تو خدا کا کرم ہے اسے ہمیں بچانا مقصود تھا اور میں اس کا سبب بن گیا‘‘۔ زبیر نے عاجزی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو اسرائیلی سینیٹر نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’میرا نام میتھوڈن ہے۔ ’’ایلس میتھوڈن‘‘ میں اسرائیلی سینیٹ کا ممبر ہوں اور اسرائیلی حکومت کا اہم بازو ہوں۔ گو کہ میں بہت مصروف آدمی ہوں، لیکن تم لوگوں کی میزبانی کرکے مجھے خوشی محسوس ہوگی۔ ویسے تم لوگ کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘
ایلس میتھوڈن نے نہایت دوستانہ انداز میں پوچھا تو پانچوں حیرت سے اُسے دیکھنے لگے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اسرائیلی حکومت کا ایک اہم فرد اُن سے اس طرح بے تکلف ہوسکتا ہے۔
’’سر آپ کی دعوت کا شکریہ۔ میرا نام فیصل ہے اور یہ میرے کلاس فیلوز ہیں کامران، نبیل، عمیر اور جواد۔ ہم دمشق یونیورسٹی میں تاریخ و جغرافیہ کے طالب علم ہیں اور خصوصی پرمیشن پر یونیورسٹی کی طرف سے بیت المقدس اور اس سے متعلق مقامات کی تاریخ جاننے کے لیے جارہے ہیں‘‘۔ شعیب نے مختصر الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا تو میتھوڈن نے مسکراتے ہوئے باقاعدہ دعوت دے ڈالی اور بولا۔
’’بہت خوب۔ ایک زمانے میں، میں بھی تاریخ کا طالب علم رہا ہوں اور مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگوں سے ملاقات کافی دلچسپ رہے گی۔ بس یہ بات طے ہے کہ تم لوگ اس دورے میں میرے مہمان رہوگے اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے اسائنمنٹ کی تکمیل میں میری معاونت تمہارے کام آئے گی‘‘۔
’’ٹھیک ہے سر! اگر آپ اتنا اصرار کررہے ہیں تو ہم بھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ آج آپ سے مل کر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ ہم بیان نہیں کرسکتے‘‘۔ شعیب نے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیا۔
’’ٹھیک ہے لڑکوں میں چلتا ہوں۔ اب ہماری ملاقات تل ابیب میں ہوگی‘‘۔ میتھوڈن نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ ہاتھ ملایا اور واپسی کے لیے مڑگیا۔
’’مجھے تو اس کی شکل دیکھ کر ہی کراہیت آرہی تھی اور تم نے نہ صرف اس کی دعوت قبول کرلی، بلکہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں آپ سے مل کر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ ہم بیان نہیں کرسکتے‘‘۔ وقاص نے نفرت سے منہ بناتے ہوئے کہا اور اپنے ہاتھ کپڑوں سے اس طرح رگڑے گویا وہ ہاتھ ملانے سے گندے ہوگئے ہوں۔
’’ارے بے وقوف میں نے کون سا غلط کہا ہے اگر دشمن خود چل کر ہمارے پاس مرنے کے لیے آرہا ہو تو کون خوش نہ ہوگا اور ویسے بھی جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ تم دیکھتے رہو انشاء اللہ ہم اس میتھوڈن کے بچے کو اعتماد میں لے کر بڑے بڑے کام نکالیں گے۔
شعیب نے وقاص کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو عمران بولا۔
’’شعیب مجھے تمہاری بات سے مکمل اتفاق ہے، لیکن کیا تم نے غور کیا کہ جب تم ہمارا تعارف کروا رہے تھے تو وہ ہمارے اسلامی نام سُن کر ایک دم چونک اُٹھا تھا۔ لہٰذا ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ صرف ایک یہودی ہے اور یہودی کی ہر بات کے پیچھے ایک سازش ہوتی ہے وہ ہمیشہ دوستی کی آڑ میں حملہ کرتا ہے اور پیٹھ پر چھرا گھونپتا ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔
عمران نے بات مکمل کی تو سب نے اس کی طرف اس طرح دیکھا جیسے اس کی تائید کررہے ہوں۔ اسی دوران اعلان ہوا کہ دوسرا طیارہ روانگی کے لیے تیار ہے۔ سارے مسافر ایک مرتبہ پھر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ٹھیک دو گھنٹے بعد وہ تل ابیب ایئرپورٹ کے لاؤنج سے باہر نکل رہے تھے کہ اچانک ثاقب کی نظر ایک شخص پر پڑی جو GF-5 کے نام کا پلے کارڈ اُٹھائے کھڑا تھا اور ہر گزرتے ہوئے مسافر کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا۔ ثاقب نے چلتے چلتے آہستہ سے کہا۔
’’میرے خیال میں سلطان ہمیں لینے کے لیے موجود ہے، لیکن اُس کا اس وقت ہم سے ملنا ہمیں مشکوک بنا سکتا ہے، کیونکہ ایلس میتھوڈن، اس کے باڈی گارڈ اور اسرائیلی پولیس بھی ہمارے ساتھ موجود ہے۔ تم لوگ ایسے ہی چلتے رہو میں اس کا بندوبست کرتا ہوں‘‘۔ شعیب نے اتنا کہہ کر فوراً جیب سے ایک کاغذ نکالا اور چلتے چلتے لکھا۔
’’ہم اس وقت تم سے نہیں مل سکتے۔ ہم میتھوڈن کے مہمان ہیں اور بہت جلد تم سے خود رابطہ کریں گے۔ GF-5‘‘۔
اور پھر جیسے ہی شعیب، سلطان کے قریب سے گزرا اس نے وہ کاغذ غیر محسوس انداز میں سلطان کے ہاتھ میں پکڑا دیا جو دور ہی سے ان کو پہچاننے کی کوشش کررہا تھا، کیونکہ وہ پانچوں دوسرے مسافروں سے بالکل نمایاں نظر آرہے تھے۔
’’آؤ لڑکوں۔ جلدی کرو گاڑی میں بیٹھو مجھے ایک ضروری کام بھی ہے‘‘۔
ایئرپورٹ سے باہرآتے ہی میتھوڈن نے پانچوں کو مخاطب کیا اور سامنے کھڑی دو سیاہ کاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن پر اسرائیل کے جھنڈے لگے ہوئے تھے اور گاڑی کی نمبر پلیٹ اس بات کا اشارہ کررہی تھی کہ یہ اسرائیلی حکومت کی ملکیت ہے۔
وقاص، عمران، ثاقب اور شعیب پیچھے والی کار میں بیٹھے تو میتھوڈن نے زبیر کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا۔
’’کوئی بات نہیں تم میرے ساتھ بیٹھو آخر تم ہمارے محسن ہو اور ویسے بھی پچھلی گاڑی میں اب مزید جگہ نہیں ہے‘‘۔
’’تھینک یو سر! ویسے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تل ابیب اتنا خوبصورت شہر ہے مجھے یہاں آکر بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے‘‘۔ زبیر کار میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
کار میں بیٹھتے ہی اسرائیلی پولیس کی معیت میں دونوں گاڑیاں چل پڑیں تو میتھوڈن بولا۔
’’میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو فوری طور پر وقت نہ دے سکوں گا، کیونکہ مجھے ابھی ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کرنی ہے۔ تم لوگ گیسٹ روم میں آرام کرنا۔ میں کل تم لوگوں سے تفصیلی ملاقات کروں گا، پھر تم لوگ اگر چاہو تو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پورا ملک بھی گھوم سکتے ہو‘‘۔
’’سر آپ کا بہت بہت شکریہ، لیکن سرکاری پروٹوکول میں ہم آزادی سے نہیں گھوم سکیں گے جبکہ ہم اکیلے گھومنے میں زیادہ تفریح کرسکیں گے‘‘۔ زبیر نے بڑے خوبصورت انداز میں میتھوڈن کی آفر کو رد کرتے ہوئے کہا تو میتھوڈن بولا۔
’’ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی! دراصل فلسطینی بنیاد پرستوں نے حالات کافی خراب کررکھے ہیں، میرا خیال تھا کہ تم لوگ اس طرح محفوظ رہوگے‘‘۔
زبیر نے میتھوڈن کی بات پر صرف گردن ہلانے پر اکتفا کیا، اس کا دماغ ابھی تک ’’ضروری میٹنگ‘‘ کے الفاظ میں گم تھا، جس میں میتھوڈن کو شرکت کرنی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر کسی طرح مائیکرو چپ میتھوڈن کے پاس منتقل کردی جائے تو میٹنگ کی ساری کارروائی باآسانی ریکارڈ کی جاسکتی ہے، لیکن اُسے ایسا کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کار اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور وقت نکلا جارہا تھا کہ اچانک زبیر کی نظر میتھوڈن کے سیاہ بریف کیس پر پڑی جو اُن دونوں کے درمیان سیٹ پر رکھا تھا اور اب تو میتھوڈن نے بھی آنکھیں بند کرکے سیٹ کی پشت پر اپنا سر ٹکا د یا تھا جیسے سکون حاصل کررہا ہو۔ زبیر نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنا ہاتھ خفیہ پاکٹ کی طرف بڑھایا تو چھوٹی سی مائیکرو چپ اس کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ اُس نے نہایت صفائی سے وہ مائیکرو چپ بریف کیس کے نیچے کی طرف اس طرح منسلک کردی کہ وہ بریف کیس کا حصہ نظر آرہی تھی۔ اس تمام کارروائی کے دوران زبیر کے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہوگئی تھیں، لیکن اب وہ کافی مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔
رات گہری ہوتی جارہی تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ایک خوبصورت کوٹھی کے سامنے کھڑے خود کو آنے والے حالات سے مقابلے کے لیے تیار کر ہی رہے تھے کہ ایک مرتبہ پھر ایلس میتھوڈن کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی جو اپنے ملازمین کو پانچوں مہمانوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ہدایات دے رہا تھا۔ ہدایات سے فارغ ہوکر میتھوڈن نے ایک مرتبہ پھر ان سے فوری طور پر وقت نہ دینے کے لیے معذرت کی اور فوراً ہی میٹنگ میں شرکت کے لیے روانہ ہوگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ملازمین کی رہنمائی میں اب وہ ایلس میتھوڈن کی کوٹھی سے متصل ہال نما ایک خوبصورت کمرے میں پہنچ چکے تھے، جہاں موجود پانچ بیڈ اس بات کا اشارہ کررہے تھے کہ میتھوڈن نے مہمانوں کے پہنچنے کی پہلے سے اطلاع کردی تھی۔ کمرے کا دروازہ بند کرنے سے پہلے زبیر نے ایک ملازم کو بلایا اور بولا۔
’’ہم رات کو آرام کرنا چاہیں گے۔ کھانا ہم جہاز ہی میں کھا چکے ہیں، لہٰذا ہمیں ڈسٹرب نہ کیا جائے‘‘۔ زبیر کی بات سُن کر ملازم ’’یس سر‘‘ کہتا ہوا چلا گیا۔
’’کیا رات کا کھانا تمہیں فرشتوں نے جہاز میں کھلایا تھا‘‘۔ دروازہ بند ہوتے ہی ثاقب زبیر کو گدی سے پکڑ کر بستر پر گراتے ہوئے بولا۔
’’ارے بھائی میری بات تو سنو‘‘۔ زبیر گردن چھڑاتے ہوئے منمنایا۔
’’ہماری بھوک سے جان نکلی جارہی ہے اور زبیر صاحب کو مذاق سوجھ رہا ہے‘‘۔ وقاص نے بھی پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے زبیر کو ایک لات رسید کی۔
’’یہ گدھوں والی خصوصیات تمہارے اندر کب سے جنم لینے لگیں جو لاتیں چلا رہے ہو؟‘‘
’’’آخر میری بات کیوں نہیں سنتے؟ زبیر ثاقب سے اپنی گردن چھڑا کر اب سیدھا بیٹھ چکا تھا۔
’’ہاں بھئی اس کی بہت پٹائی ہوگئی، اب اس کی بھی سُن لو، کیونکہ گھر میں تو اس کی کوئی سنتا ہی نہیں تھا‘‘۔ شعیب نے مسکراتے ہوئے زبیر کی طرف دیکھا اور اپنے موزے اُتارنے لگا۔
’’بھئی بے چارہ ایلس میتھوڈن اگر میٹنگ میں ہو تو بھلا ہم سکون سے کھانا کھا سکتے ہیں؟‘‘ زبیر مسکراتے ہوئے اپنے بیگ میں کچھ تلاش کرتے ہوئے بولا۔
’’لیکن میٹنگ سے ہمارے کھانے کا کیا تعلق؟‘‘ عمران نے حیرانی سے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
یار یہ سیدھے طریقے سے نہیں مانے گا۔ جب سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو۔۔۔ یہ کہہ کر ثاقب نے ایک مرتبہ پھر زبیر کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن اس مرتبہ زبیر جھکائی دے کر بچ نکلا اور ثاقب بستر پر گرگیا۔
’’اچھا چلو یہ بتاؤ کہ تم لوگ کھانا کھانا پسند کروگے یا براہ راست میٹنگ کی کارروائی سننا چاہوگے؟‘‘ اس مرتبہ زبیر اپنے بیگ سے واک مین باہر نکال چکا تھا جو واک مین کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیٹر کا کام بھی بخوبی کرتا تھا۔
’’کیا؟ تم نے ایلس میتھوڈن کو بھی اُلّو بنادیا اور ہم سے اتنی اہم بات چھپا رہا تھے‘‘۔ وقاص غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے بولا۔
’’لاؤ زبیر یہ ٹرانسمیٹر مجھے دو۔ تم نے واقعی بڑا زبردست کام کیا ہے۔ ویسے تم نے مائیکروچپ کہاں فٹ کی ہے۔ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوگی؟‘‘ شعیب نے روایتی سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے ٹرانسمیٹر آن کردیا اور کچھ دیر بعد ڈگمگاتی ہوئی آواز صاف سُنائی دینے لگی۔ معلوم ہورہا تھا کہ ایلس میتھوڈن اپنے ڈرائیور سے باتیں کررہا ہے۔
’’سر آپ کے ساتھ جو بچے تھے یہ مجھے مسلمان لگ رہے تھے‘‘۔ ڈرائیور کی آواز سنائی دی۔
’’ہاں تم نے ٹھیک اندازہ لگایا‘‘۔ اس مرتبہ ایلس میتھوڈن نے جواب دیا تھا۔
’’لیکن سر یہ آپ کو کہاں مل گئے، کیا ان مسلمان بچوں کا آپ کے ساتھ ہونا خطرناک نہیں ہے؟‘‘ ڈرائیور کی تشویش بھری آواز ٹرانسمیٹر پر اُبھری۔
’’ارے نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ معصوم بچے مجھے بھلا کیا نقصان پہنچائیں گے۔ ہاں البتہ بچے انتہائی ذہین ہیں۔ میں ان کو عظیم اسرائیل کے مفاد میں استعمال کروں گا اور کام مکمل ہونے کے بعد ٹھکانے لگادوں گا۔ ہا۔ہا۔ہا‘‘۔ ایلس میتھوڈن کا مکروہ قہقہہ سنائی دیا اور اس کے بعد کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔
’’ایلس میتھوڈن کی زہر قندہ باتیں سُن کر سب سے زیادہ وقاص کو غصہ آرہا تھا۔
’’ٹھکانے تو میں تجھے لگاؤں گا۔ یہودی کی اولاد‘‘۔ وقاص کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُسے کچا چبا جائے۔
دوسری طرف زبیر غصے میں ایک ہاتھ سے مُکا بنائے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مار رہا تھا اور بڑبڑا رہا تھا۔
میتھوڈن کے بچے تجھے اگر میں نے میتھی بنا کر آلو ٹماٹر کے ساتھ نہ پکایا تو میرا نام بھی زبیر نہیں‘‘۔
اس دوران شعیب، عمران اور ثاقب مسلسل ٹرانسمیٹر کے ساتھ کان لگائے بیٹھے تھے جس میں سے اب بہت سے لوگوں کی ملی جلی گفتگو سنائی دینے لگی تھی۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک بارُعب آواز گونجی۔
’’آئی۔ ایم۔ جان تھامس۔ عظیم تر اسرائیل کے لیے عظیم جدوجہد کرنے اور یہاں آمد پر خوش آمدید۔
آج کا اجلاس چند اہم امور پر مشتمل ہے جن کو حل کرنے کے لیے عظیم اسرائیل کے وزیراعظم نے اہلِ یہودی کے دس دانشمندوں کا انتخاب کرتے ہوئے آپ حضرات کو مقرر کیا ہے اور مجھے قوی اُمید ہے کہ ہم ان مسائل کو حل کرکے اسرائیل کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اب میں بلاتاخیر ترتیب وار ان مسائل کو آپ کے سامنے رکھتا جاؤں گا جس پر ہم گفتگو کرتے ہوئے حل تجویز کریں گے۔
عظیم دانشوروں!
ہم اس قول پر یقین رکھتے ہیں جنتِ عدن کا وعدہ صرف بنی اسرائیل کے لیے ہے اور اس دنیا میں زندہ رہنے کا حق صرف یہودیوں کے پاس ہے، کیونکہ ہم ایک عظیم قوم ہیں اور ہمارے نزدیک یہودیوں کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں وہ دو پیروں پر چلنے والے جانور ہیں جو بنی اسرائیل کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔
لیکن جب ہم نے دیکھا کہ عیسائیت اور اسلام یہودیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم نے متحد ہوکر انہیں تباہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عظیم اسرائیل کی بنیاد ڈالی اور یہ طے کیا عیسائیوں اور مسلمانوں کو اخلاقی طور پر ختم کرکے انہیں اندر سے کھوکھلا کردیا جائے گا اور پھر وہ کسی طرح بھی ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور ہمارے غلام بن کر ہمارے اشاروں پر ناچیں گے۔
اور پھر یہی ہوا کہ ہماری پھیلائی ہوئی فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں سارے بہہ گئے۔ ہم نے ٹی وی اور کمپیوٹر کے ذریعے سارے انسانوں کو مفلوج کردیا۔ لیکن افسوس کے ہم خود بھی اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنستے چلے گئے۔
’’میں معذرت چاہتا ہوں مسٹر تھامس میں آپ کے آخری جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکا‘‘۔
کسی کی آواز اُبھری۔
’’میں اسی طرف آرہا ہوں مسٹر جوشم‘‘۔ وہی پہلی آواز سنائی دی۔
’’کرنل جوشم؟ یعنی موساد کا چیف؟‘‘ شعیب حیرت کرتے ہوئے آہستہ سے بڑبڑایا۔
جی ہاں اس طرح دوسری قوموں کے بچے تو ناکارہ ہوگئے، لیکن اہلِ یہود کی اولاد بھی اس کا شکار ہوگئی اور جب سروے رپورٹ سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے صرف 15 فیصد بچے انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے متاثر ہوئے، جبکہ عیسائی بچوں کا تناسب 70 فیصد ہے اور دل تھام کر سنیے کہ اہلِ یہود کے 99 فیصد بچے اس لعنت کا شکار ہوچکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہودیت کا مستقبل پھر سے تاریک ہونے والا ہے‘‘۔
اس اہم انکشاف کو سنتے ہی پانچوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں، لیکن ٹرانسمیٹر سے نکلنے والے اگلے جملے نے اُن کے اعصاب منجمد کردیئے۔
’’ہاں آپ کی بات درست ہے مسٹر جان تھامس، لیکن میں اس کا توڑ کرسکتا ہوں‘‘۔ ایک بھاری مردانہ آواز اُبھری جس میں اطمینان جھلک رہا تھا۔
’’مسٹر جیکس وہ کیسے؟‘‘ جان تھامس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اوہ مسٹر جیکس یعنی کمپیوٹر کی دنیا کا بے تاج بادشاہ! یہ یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘ مسٹر جیکس کا نام سنتے ہی عمران کے منہ سے بے اختیار جملہ نکلا۔
’’میں مسلمانوں میں فحاشی، عریانی اور بداخلاقی کی پندرہ فیصد شرح کو نوّے فیصد تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتا ہوں، اس سلسلے میں مجھے پانچ سال کا عرصہ درکار ہوگا اور رزلٹ آپ کے سامنے ہوگا‘‘۔ مسٹر جیکس کی آواز سنائی دی۔
’’لیکن یہ کس طرح ممکن ہوگا، اس سلسلے میں آپ کیا کریں گے؟‘‘ یہ کسی خاتون کی آواز تھی۔
’’ہاں یہ ممکن ہوگا، کم از کم میرے لیے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میں مسلمان ممالک میں کمپیوٹر کی قیمت انتہائی کم کرکے کمپیوٹر کا سیلاب لے آؤں گا اور کوئی ایسا گھر، بنگلہ حتیٰ کہ جھونپڑی نہ ہوگی جس میں کمپیوٹر نہ ہو، پھر اس کے بعد فحش سی ڈیز اور انٹرنیٹ کے ریٹس بالکل کم کرکے ان کے استعمال کے لیے ممکن بنادیا جائے گا، حتیٰ کہ وہ اسے ٹھیلوں پر سے بھی خرید سکیں گے، یعنی کوڑیوں کے مول‘‘۔ اس مرتبہ مسٹر جیکس کی آواز میں مکارانہ ہنسی بھی شامل تھی۔
’’لیکن کمپیوٹر تو بہت مہنگا ہے آپ قیمت میں کتنی کمی کریں گے؟ ایلس میتھوڈن نے حیرت سے سوال پوچھا۔
’’دیکھیں اس وقت امریکہ میں مکمل کمپیوٹر پانچ ہزار ڈالر تک ملتا ہے، میں اسے مسلمانوں کو صرف سو ڈالر یا اس سے بھی کم میں فراہم کردوں گا اور آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ اور یہ کس طرح ممکن ہوگا اس کی ذمہ داری میری ہے‘‘۔
مسٹر جیکس نے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا تو شعیب، عمران، ثاقب، زبیر اور وقاص کے جسموں میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔
’’ویلڈن مسٹر جیکس ویلڈن! اگر ایسا ہوگیا تو یہ آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ لیکن یہ مسئلہ کا مکمل حل نہیں ہے۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہودیت کے مستقبل کا کیا ہوگا، جبکہ ہماری آنے والی نسل خود گمراہی کا شکار ہورہی ہے‘‘۔ جان تھامس کی آواز گونجی۔
’’میرے خیال میں اس کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ ہم خود اپنے بچوں پر کنٹرول رکھیں اور اس کے نقصانات سے انہیں آگاہ کریں کہ اگر آپ بھی اس فحاشی اور گندگی کا شکار ہوگئے تو آپ مستقبل میں کسی کام کے نہیں رہیں گے اور پھر سے غلام بن جائیں گے‘‘۔
یہ آواز شاید کرنل جوشم کی تھی۔
’’لیکن کیا ہم اپنے بچوں کو صرف نصیحت کرکے اس سے روک سکیں گے؟ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے، اس طرح ہم اپنے کچھ بچوں کو تو روک سکتے ہیں، سب کو نہیں‘‘۔
میٹنگ میں شامل ایک اور شخص کی باریک سی آواز اُبھری۔
’’عظیم رِبی سیموئیل! کیا آپ اس سلسلے میں کچھ رہنمائی دینا پسند کریں گے؟‘‘۔ جان تھامس کی آواز گونجی۔
’’مجھے اس مسئلے کا صرف ایک حل نظر آتا ہے، وہ یہ کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے بچوں کو جبراً اس لعنت سے دور کرنا ہوگا یعنی ہمارے بچے کمپیوٹر تو استعمال کریں، لیکن انٹرنیٹ سے دور رہیں۔ اس کے لیے ہمارے رِبیوں (علماء) کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ والدین کو اپنے وعظ میں اس چیز کا پابند کریں۔ دوسرا یہ کہ یہودیوں کے لیے باقاعدہ قانون بنایا جائے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کرسکتا، اگر ایسا کرے گا تو سخت سزا کا مرتکب ہوگا‘‘۔
ربی سیموئیل نے مختصراً اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔
بہت خوب سیموئیل! آپ کا شکریہ آپ کی تجویز قابلِ عمل ہے، اگر تمام لوگ اس کی تائید کریں تو ہم باقاعدہ طور پر اسے حتمی شکل دے دیں، اس طرح کسی اسکول، گھر یا انٹرنیٹ کیفے میں کوئی اٹھارہ سال سے کم عمر یہودی بچہ انٹرنیٹ استعمال نہ کرسکے گا‘‘۔
جان تھامس نے تائید چاہی۔
’’ہم سب اس کی تائید کرتے ہیں‘‘۔ بہت سی آوازیں بلند ہوئیں۔
’’ٹھیک ہے ہم بعد میں اس کی جزئیات طے کرلیں گے۔ اب ہم دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں، جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم نے کوک اور پیپسی جیسے مشروبات کو متعارف کروایا تھا جس میں ایک خاص چیز Pepsin ڈالی جاتی ہے جو انسانی جسم کو کمزور اور ہڈیوں کو کھوکھلا کردیتی ہے، ہماری یہ مصنوعات پوری دنیا میں اور مسلمان ممالک بالخصوص عرب اور مشرقی ممالک میں کامیابی سے چل رہی ہیں اور نہ صرف مسلمانوں کی ہڈیوں کو کھوکھلا کررہی ہیں، بلکہ ان کے اسلامی جذبات کو بھی سرد کررہی ہیں اور ساتھ ساتھ ہمیں بے انتہا منافع بھی دے رہی ہے، لیکن دوسری طرف ہم خود اس سازش کا شکار ہوگئے اور ہماری آنکھیں اس وقت کھلیں جب ہمارے اپنے اسکولوں سے ہر روز اوسطاً پچاس بچوں کی ہڈیاں ٹوٹنے کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں اور جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ دشمن کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بھی پانی کو چھوڑ کر صرف یہی مشروبات استعمال کررہے ہیں، کیونکہ وہ اصل حقیقت سے بے خبر ہیں‘‘۔
جان تھامس نے دوسرے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہم اپنے بچوں سے یہ مشروبات کس طرح چھڑوا سکتے ہیں، کیونکہ وہ تو اس کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی کھانا بھی حلق سے نہیں اُتار سکتے؟‘‘
کسی خاتون کی نسوانیت بھری آواز سنائی دی۔
’’جی ہاں میڈم! آپ بالکل صحیح کہہ رہی ہیں اور اسی مسئلے کو تو آج حل کرنا ہے۔ ویسے ڈاکٹر مائیکل آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ جان تھامس کی آواز سنائی دی۔
’’میرے خیال میں ہم اس مسئلے کو سختی سے حل نہیں کرسکیں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں نفسیاتی اور عملی دونوں طریقوں سے کام لینا ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر مائیکل نے تھوڑا سا تؤقف کیا۔
’’مثلاً ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جان تھامس نے پوچھا۔
’’مثلاً یہ کہ ہم اپنے اسکولوں میں بچوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر اسکول میں ایک عملی مشاہدہ بچوں کو کروایا جائے جس میں ایک انسانی دانت پیپسی کی بوتل میں ڈال کر ایک مہینے کے لیے چھوڑ دیا جائے، جسے بچے روزانہ پیپسی کی بوتل میں حل ہوتا ہوا دیکھیں۔ پھر انہیں بتایا جائے کہ یہ انسانی دانت جسے قبر کی مٹی بھی نہیں گلا سکتی، اس پیپسی کی بوتل نے اپنے تیزابی اثر سے ختم کردیا۔اس کے بعد ہم اپنے تمام اسکولز میں اس قسم کے مشروبات پر پابندی لگادیں تو بچے مزاحمت کرنے کے بجائے ہمارا ساتھ دیں گے‘‘۔
’’ویری نائس ڈاکٹر مائیکل! آپ کی تجویز کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ ویسے اس سلسلے میں مزید کوئی کہنا چاہتا ہو تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے‘‘۔
جان تھامس نے خوش کن انداز میں کہا تو جواب میں سب نے ڈاکٹر مائیکل کے مشورے کی مکمل حمایت کی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے آئندہ اجلاس میں ان مسائل کے حل کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ گڈ نائٹ‘‘۔ اور پھر میٹنگ برخاست ہوگئی۔
’’آخر یہ سب کیا ہورہا ہے؟ یہ یہود تو مسلمانوں کو تباہ کردیں گے‘‘۔ شدت جذبات سے عمران کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’شعیب بھائی! یہ سب کیا ہے میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ہم ان کو کس طرح روکیں گے‘‘۔ وقاص نے پریشانی میں سر پکڑتے ہوئے شعیب سے کہا جو کسی گہری سوچ میں گم نظر آرہا تھا۔
ہم ان کے عزائم کو اسلامی دنیا کے سامنے بے نقاب کرکے ان کے خلاف زبردست مہم چلائیں گے اور مسلمانوں کے اندر اس شعور کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنی نسلوں کو یہودیوں کی سازشوں سے بچائیں‘‘۔ شعیب نے وقاص کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو زبیر بولا۔
’’لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہماری آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا اور سب کچھ ویسا ہی چلتا رہے گا، کیونکہ مسلمان اس وقت مکمل طور پر بے حس ہوچکے ہیں۔
’’ہاں میرے بھائی تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن ہمارا کام صرف اپنی بات پہنچانا ہے۔ اگر ہم اللہ کے بھروسے پر ڈٹ گئے تو مجھے اُمید ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ کر دکھائیں گے‘‘۔ شعیب نے پُرامید لہجے میں کہا تو سب ایک نئے جذبے سے سرشار ہوگئے۔
’’ہمیں اس مہم کے لیے ماسٹر خان سے بات کرنی چاہئے۔ میرے خیال میں وہ ہمیں بہتر مشورہ دیں گے اور ہماری مدد بھی کریں گے‘‘۔ ثاقب نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہاں میرا بھی یہی مشورہ ہے ہوسکتا ہے یہ مہم ماسٹر خان اپنے ذمہ لے لیں اور ہم جس مقصد کو لے کر یہاں آئے ہیں اس پر ہماری توجہ پوری رہے‘‘۔ عمران جو کافی دیر سے خاموش تھا، بحث میں حصہ لیتے ہوئے بولا۔
ٹھیک ہے تو پھر ہم جلد ہی ماسٹر خان سے رابطہ کریں گے اور انہیں تمام تفصیلات کے ساتھ اس میٹنگ کی ریکارڈنگ بھی فراہم کردیں گے، تاکہ وہ جو مناسب سمجھیں فیصلہ کرسکیں‘‘۔ شعیب نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
’’اور اس میتھوڈن کے بچے کا کیا کرنا ہے، یہ تو بڑا چالاک بن رہا ہے، اسے بھی تو کوئی سبق سکھانا چاہئے‘‘۔ زبیر نے سب کی توجہ ایلس میتھوڈن کی طرف دلائی جو کچھ دیر میں لوٹنے والا تھا۔
’’ہم ابھی ایلس میتھوڈن کو کوئی سبق نہیں سکھائیں گے، کیونکہ ابھی ہمیں اس سے بہت سے کام لینے ہیں اور کام پورا ہوجانے کے بعد انشاء اللہ ہم اس کا کام تمام کردیں گے‘‘۔ شعیب نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

صبح ناشتے میں رات کے کھانے کی بھی کسر نکالنے کے بعد انہوں نے ایلس میتھوڈن سے شہر گھومنے کی اجازت لی اور ہلکا پھلکا سامان اُٹھائے باہر نکل آئے، حالانکہ میتھوڈن نے کافی اصرار کیا تھا کہ وہ کم از کم سرکاری گاڑی اور ڈرائیور ساتھ لے لیں، تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، لیکن پانچوں نے خوش دلی کے ساتھ اسے منع کردیا کہ وہ آزادانہ گھومنے کا شوق رکھتے ہیں اور اس طرح وہ زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
بنگلے سے باہر نکلتے ہی انہوں نے ایک ٹیکسی پکڑی اور اُسے ’’حدیقہ مارکیٹ‘‘ چلنے کو کہا۔ مارکیٹ پہنچتے ہی انہوں نے ٹیکسی چھوڑی اور چند ضروری اشیاء کی خریداری کرنے مارکیٹ کے اندر گھس گئے، جہاں ہر قسم کا سامان بکنے کے لیے موجود تھا۔ گھومتے گھومتے وہ مارکیٹ کی دوسری طرف نکل گئے، اس دوران وہ مسلسل اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ کوئی ان کا پیچھا تو نہیں کررہا۔ اطمینان ہوجانے کے بعد ثاقب نے ماسٹر خان کے دیئے ہوئے نمبر پر سلطان سے رابطہ کیا۔ رابطہ ہوتے ہی ثاقب نے عربی میں مخصوص کوڈ دھراتے ہوئے کہا۔
’’دن چڑھ چکا ہے لیکن تارے نہیں نکلے‘‘۔
دوسری طرف سے سلطان نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’دن میں تارے دیکھنا اچھی بات نہیں، سورج گرہن کا انتظار کرو‘‘۔
کوڈ کا جواب ملتے ہی ثاقب نے پوچھا کہ تم ہمیں کہاں مل سکتے ہو، ہمیں تم سے بہت ضروری کام ہے‘‘۔
’’اے ون اسٹریٹ پر سیاہ رنگ کی پانچ منزلہ عمارت کے نیچے ٹیلی فون بوتھ پر آجاؤ‘‘۔ یہ کہہ کر سلطان نے فوراً لائن کاٹ دی۔
وہ پانچوں دوبارہ ٹیکسی پکڑ کر اے ون اسٹریٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ بیس منٹ بعد وہ پانچوں ٹیلی فون بوتھ کے پاس کھڑے سلطان کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک انہیں سڑک کی دوسری طرف سے سلطان آتا دکھائی دیا۔
سلام دعا کے بعد سلطان نے خالص عربی لہجے میں انہیں اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی اور ایک قریبی ہوٹل میں لے گیا۔
ہوٹل میں نشستیں سنبھالتے ہی وقاص نے سلطان سے پوچھا کہ ’’کیا آپ کا تعلق بھی تنظیم القارعہ سے ہے‘‘۔ تو سلطان نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
’’لیکن آپ کا حلیہ تو بہت عجیب و غریب ہے‘‘۔ وقاص نے اس کی پھٹی ہوئی جینز، رنگ برنگی شرٹ اور گلے میں پڑے ہوئے لال رومال کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تو آپ کا کیا خیال ہے میں تل ابیب میں مجاہدانہ لباس میں گھومتا پھروں، تاکہ دھر لیا جاؤں؟ ویسے یہ ہمارا خاص لباس ہے جس سے کوئی ہم پر شک نہیں کرتا اورہمیں آوارہ سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں‘‘۔
سلطان نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے شائستہ لہجے میں کہا۔
اُس کے لباس اور گفتگو میں حد درجہ تضاد یہ ثابت کررہا تھا کہ اس بے ہودہ لباس کے اندر ایک نفیس اور بااخلاق شخص موجود ہے۔
’’ہمیں آپ سے ایک انتہائی ضروری کام تھا اور وہ کام صرف آپ کرسکتے ہیں‘‘۔ شعیب نے سلطان کے قریب ہوتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
’’ضروری کام کو چھوڑو، پہلے یہ بتاؤ کہ آپ لوگوں کا ایلس میتھوڈن جیسے عیّار آدمی سے واسطہ کیسے پڑا۔ کیا اسے معلوم ہے کہ آپ لوگ مسلمان ہیں؟
سلطان ابھی تک کل والے واقعے میں اُلجھا ہوا تھا اور اصل حقائق جاننے کے لیے بے تاب ہورہا تھا۔
جواب میں عمران نے شروع سے آخر تک ساری داستان سلطان کو سنادی۔ ساری کہانی سننے کے بعد سلطان خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’ایلس میتھوڈن اسرائیلی حکومت کا اہم بندہ ہے، جس کے پاس بہت سے قیمتی راز محفوظ ہیں۔ ہم لوگوں نے اُس تک پہنچنے کی بہت کوشش کی، لیکن اس کی سیکورٹی اتنی سخت ہے کہ ہم اس کے راز چرانا تو دور کی بات ہے اس کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔ بہرحال کل رات بھی وہ ایک انتہائی اہم میٹنگ میں شریک تھا، لیکن ہماری پہنچ سے دور تھا۔ اب آپ لوگ اگر کوشش کریں تو اُس میٹنگ کی رپورٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ ویسے میں معافی چاہتا ہوں مجھے تو اوپر سے یہ ہدایات ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کروں اور میں نے اُلٹا آپ لوگوں کو کام دینا شروع کردیا‘‘۔ ابھی سلطان عربی میں عفواً عفواً (معاف کرنا)کی رٹ لگا ہی رہا تھا کہ شعیب بولا۔
’’لیکن میٹنگ کی ساری کارروائی تو ہمارے پاس پہلے سے محفوظ ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘ سلطان اپنی سیٹ پر سے یوں اُچھلا جیسے اس نے کوئی انہونی بات سُن لی ہو۔ وہ حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھا۔
لل۔۔۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا آپ لوگوں نے اس کے کاغذات اُڑالیے ہیں‘‘۔
’’نہیں ہم نے پوری میٹنگ ریکارڈ کرلی ہے اور وہی کیسٹ تمہارے ذریعے ماسٹر خان تک پہنچانی ہے‘‘۔ شعیب نے ہینڈ بیگ سے چھوٹی سی کیسٹ نکال کر سلطان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تو سلطان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ بولا۔
’’مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ کوئی عام لڑکے نہیں بلکہ ’’جن‘‘ ہیں، وہ خود ہی سب کچھ کرگزریں گے، بس ضرورت پڑنے پر ان کی تھوڑی بہت مدد کردینا، باقی کام وہ خود کرلیں گے اور میں نے جب آپ لوگوں کو دیکھا تو آپ واقعی عام سے لڑکے لگے، لیکن آپ لوگ تو واقعی جن نکلے۔ 
جہاز کو بچالینا، ایلس میتھوڈن کو پھانسنا اور پھر میٹنگ کی ساری کارروائی ریکارڈ کرلینا، یعنی ابھی آپ کو تل ابیب پہنچے بارہ گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور آپ لوگوں کی فتوحات کا آغاز ہوگیا‘‘۔
سلطان حیرت اور خوشی کے جذبات کی رو میں کہتا چلا گیا، وہ ایک ہی ملاقات میں پانچوں کا گرویدہ ہوگیا تھا۔
’’نہیں سلطان ہم لوگ ’’جن‘‘ نہیں عام سے انسان ہی ہیں، لیکن ہم جس مقصد کو سچے دل سے لے کر نکلے ہیں، ہمارے رب کی مدد ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور ہمارے بگڑے کام خودبخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہی باتیں لوگوں کو بتائیں تو شاید لوگ ہماری باتوں کا یقین نہ کریں۔ لیکن ہمیں اپنے رب پر بڑا بھروسہ ہے‘‘۔
ثاقب انتہائی عاجزی سے بولا تو سلطان کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی، وہ جذباتی انداز میں بولا۔
’’آپ لوگ بہت عظیم ہیں جو اتنی کم عمری میں اتنے بڑے مشن پر اپنے گھر بار، آرام و آسائش کو چھوڑ کر ہماری مدد کرنے نکل کھڑے ہوئے، میں آپ لوگوں کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔
’’ارے سلطان بھائی آپ تو واقعی رونے لگے، ایسا نہ کریں ورنہ ہم بھی رونے لگیں گے‘‘۔ زبیر نے سلطان کے آنسو نکلتے دیکھے تو فوراً موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
’’سلطان بھائی یہ حق و باطل کی جنگ ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، ہاں البتہ افراد بدلتے رہتے ہیں اور اگر مسلمان، مسلمان کے کام نہیں آئے گا اور اس کے درد کو محسوس نہیں کرے گا تو پھر کون کرے گا؟ اور ویسے بھی بیت المقدس ہمارا قبلہ اول اور انبیاء کی مقدس سرزمین ہے، اس کی حفاظت کے لیے تو ہم جان پر بھی کھیل سکتے ہیں‘‘۔
عمران پُرعزم لہجے میں بولا تو سب نے آہستہ سے انشاء اللہ کہا۔
’’آپ ایسا کریں کہ اس کیسٹ کی ایک اور کاپی بنوا کر اپنے پاس محفوظ کرلیں اور دوسری کاپی ترمذی انکل تک پہنچادیں اور یہ رقعہ بھی ماسٹر خان تک پہنچادیں، پھر وہ دونوں جو فیصلہ کریں گے ہم اسی طرح کریں گے‘‘۔
شعیب نے سلطان کو لفافہ پکڑاتے ہوئے کہا۔
اس دوران بیرا میز پر کھانا لگانے لگا۔ کھانا کھا کر وہ لوگ فارغ ہوئے تو سلطان بولا ’’کل فلسطین میں ’’بن گورین ایئرپورٹ ‘‘سے دس کلومیٹر دور مین شاہراہ پر ایک لاکھ فلسطینی اسرائیلی حکومت کے خلاف مارچ کررہے ہیں، آپ لوگ اگر شرکت کرنا چاہیں تو میرے ساتھ چلیں، میں فوراً ہی روانہ ہورہا ہوں‘‘۔
’’نہیں سلطان! شاید یہ ہمارے لیے ابھی ممکن نہ ہو، کیونکہ اس طرح اچانک جانے پر ایلس میتھوڈن شک میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ہمارا بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے‘‘۔
وقاص نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے سلطان سے معذرت کی۔
’’ٹھیک ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ تین دن بعد میں دوبارہ اسی شہر میں موجود ہوں گا‘‘۔ سلطان یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور بل ادا کرکے پانچوں سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سلطان سے ملاقات کے بعد پانچوں مزید گھومنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے واپس بنگلے کی طرف چل دیئے، وہ جیسے ہی ایلس میتھوڈن کے بنگلے میں داخل ہوئے کسی ملازم نے انہیں آواز دی اور خالص عربی زبان میں کہا۔
’’آپ پانچوں کو مسٹر میتھوڈن نے بلایا ہے۔ آپ اس طرف سے اندر چلے جائیں، سامنے ہی ڈرائنگ روم موجود ہے‘‘۔
وہ ملازم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جیسے ہی اندر داخل ہوئے انہیں ایلس میتھوڈن کی آواز سنائی دی جو کسی کو کچھ دبی زبان میں ہدایات دے رہا تھا کہ ثاقب کے کان کھڑے ہوگئے۔ وہ بولا۔
’’شش شش! خاموش رہنا‘‘۔ اور آہستہ سے آگے بڑھ کر کان لگا کر سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ایلس میتھوڈن کہہ رہا تھا۔
’’مسٹر روبن تمہیں کل کے مظاہرے میں کم از کم سو فلسطینی مارنے ہیں، اس سے کم پر بات نہیں بنے گی اور دھماکہ بالکل چوک کے پاس ہونا چاہئے ورنہ۔۔۔
ایلس میتھوڈن کا پلان سنتے ہی ثاقب کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی۔۔۔
رُک کیوں گئے ثاقب کیا ہوا؟‘‘ شعیب نے ثاقب کے ماتھے پر پریشانی کے آثار بھانپتے ہوئے کہا۔
’’اندر میتھوڈن کسی شخص کو کل کے مظاہرے میں کم از کم سو فلسطینی مارنے کے احکامات دے رہا ہے‘‘۔
ثاقب نے آہستہ سے سرگوشی کی تو باقی چاروں میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔
’’شاید وہ باہر آرہا ہے‘‘۔ زبیر نے قدموں کی چاپ محسوس کی تو بولا۔
’’تم خاموش رہنا، اب میں بات کروں گا‘‘۔ شعیب نے اس طرح پختہ لہجے میں جملہ ادا کیا جیسے اُس نے سیکنڈوں میں کوئی اہم فیصلہ کرلیا ہو۔
’’او کے باس‘‘۔ چاروں نے آہستہ سے کہا اور سب اندر کی طرف بڑھنے لگے۔ دروازے سے روبن چہرے پر لال رومال لپیٹے باہر نکل رہا تھا جس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔
’’آؤ آؤ میرے ننھے دوستوں! دراصل میں کل اپنی فیملی کے پاس ’’غزہ‘‘ جارہا تھا، سوچا تم لوگوں سے مل لوں، لیکن تم لوگ اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے؟‘‘ ایلس میتھوڈن نے پانچوں کو ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو خوشی سے چہکتے ہوئے بولا۔
’’سر دراصل ہمیں یونیورسٹی کی طرف سے فوری طور پر یروشلم طلب کیا گیا اور ہمارے کچھ ذمہ داران وہاں ہمارا انتظار کررہے ہیں، اسی لیے ہم تل ابیب مکمل طور پر نہیں گھوم سکے‘‘۔ شعیب نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’اوہ۔۔۔ تو یہ بات ہے‘‘۔ میتھوڈن نے اوہ کو کھینچتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، تم لوگ اپنے پروگرام کے مطابق دورہ کرو، لیکن پروگرام کے اختتام پر تم لوگ کچھ دن میرے مہمان رہوگے۔ بولو کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ٹھیک ہے سر جیسے آپ کا حکم۔ اگلے ہفتے ہم دوبارہ یہیں ہوں گے، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ہمیں اپنا وزیٹنگ کارڈ عنایت کردیں، تاکہ ہم آزادانہ گھوم پھر سکیں اور اسرائیلی انتظامیہ ہمیں بلاوجہ تنگ نہ کرے‘‘۔
شعیب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں! کیوں نہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میتھوڈن نے جیب سے ایک کارڈ نکالا اور اس کے پیچھے کچھ لکھ کر دستخط کئے اور کارڈ شعیب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’تم لوگ آرام سے تیاری کرو، آج رات دس بجے کی فلائٹ سے تم لوگوں کی پانچ سیٹیں بُک ہوجائیں گی۔۔۔ اور ہاں جانے سے پہلے مجھ سے ضرور مل لینا۔ گڈ آفٹر نون‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ایلس میتھوڈن اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ ملا کر اندر چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’شعیب بھائی یہ کیا ہورہا ہے؟ آخر ہمیں بھی تو کچھ پتہ چلے‘‘۔
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے عمران نے اپنا ہینڈ بیگ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔
’’بڑی عجیب بات ہے ہماری ضرورت اس وقت بن گورین میں ہے اور ہم آج رات یروشلم جارہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا‘‘۔ زبیر جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
’’تم لوگ باتیں ہی کئے جاؤگے یا میری بھی کچھ سنوگے‘‘۔ شعیب نے کرسی سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں شعیب بھائی! آپ بتائیے کہ آپ کی پلاننگ کیا ہے۔ یہ لوگ تو بس ایسے ہی باتیں بناتے رہتے ہیں‘‘۔ وقاص نے شعیب کے برابر میں بیٹھتے ہوئے اس انداز میں کہا جیسے شعیب کو مکھن لگا رہا ہو۔
’’اوئے چھوٹے! شعیب بھائی کو زیادہ مکھن پالش نہ لگایا کرو ورنہ کسی دن ہم سب مل کر تمہیں چونا لگادیں گے‘‘۔ عمران، وقاص کو آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا۔
’’یار تم لوگ کبھی تو سنجیدہ ہوجایا کرو۔ اپنی پوزیشن کا تو خیال کرو، حالات کہاں سے کہاں جارہے ہیں اور تم لوگوں کو ہنسی مذاق سوجھ رہا ہے‘‘۔ شعیب نے سنجیدگی سے کہا۔
’’بیس سال کی عمر میں ہم تمہاری طرح اسّی سالہ بڈھے جیسی سنجیدگی اختیار کرلیں؟ نہیں بھئی یہ تو نہیں ہوسکتا‘‘۔
عمران نے بے ساختہ جملہ ادا کیا تو شعیب کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’اچھا اب زیادہ باتیں نہ بناؤ اور سب اِدھر آجاؤ، ہم اسی وقت میٹنگ کریں گے‘‘۔ شعیب نے کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔
تھوڑی دیر میں سب ہنستے مسکراتے کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شعیب بولا۔
’’میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایلس میتھوڈن کا مزید زندہ رہنا اچھا نہیں ہے، لہٰذا ہم اسے آج رات ہی ختم کرکے یروشلم نکل جائیں گے اور پھر وہاں سے بن گورین پہنچ کر تخریب کاری کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے‘‘۔ شعیب نے دو ٹوک انداز میں بات رکھی تو سب کے سب حیران رہ گئے۔
’’لیکن کل تو تم کہہ رہے تھے کہ ابھی ہم ایلس میتھوڈن سے مزید کام نکالیں گے اور اب۔۔۔‘‘ ثاقب کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا تو شعیب کہنے لگا۔
’’کل کی بات اور تھی، تم دیکھ نہیں رہے کتنی سفاکی سے اُس نے سیکڑوں فلسطینیوں کو اُڑانے کا حکم دے دیا ہے۔ میرے خیال میں اب اُس کا ایک دن بھی زندہ رہنا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور آج سے اچھا موقع پھر ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا‘‘۔
لیکن ہم اسے قتل کرکے کس طرح فرار ہوں گے، تل ابیب میں نہیں تو یروشلم ایئرپورٹ پر گرفتار ہوجائیں گے اور ہماری ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی‘‘۔ زبیر نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
’’لیکن میری پلاننگ کے مطابق کسی کو اس کے قتل کا پتہ صبح تک نہیں چل سکے گا اور اگر پتہ چل بھی گیا تو ہمارے اوپر کوئی الزام نہیں آئے گا، کیونکہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی، سائنس اور میڈیکل اسے قتل نہیں کہہ سکے گی، کیونکہ اول تو ہم کوئی ثبوت نہیں چھوڑیں گے اور اگر پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا تو صرف ایک رپورٹ آئے گی اور وہ ہوگی ’’ہارٹ اٹیک‘‘ کیا سمجھے؟‘‘ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا تو چاروں حیران و پریشان اس کا منہ تکنے لگے۔
’’لل۔۔۔لیکن اس طرح کیسے ممکن ہے۔ تم نے ایسا کیا سوچا ہے؟‘‘ عمران کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
’’دیکھو موساعد کے ایک گروپ کڈن اسکواڈ کو ہم ٹھکانے لگا چکے ہیں جو قتل کو حادثے کا رنگ دینے کے ماہر سمجھے جاتے تھے، تو پھر ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ بس دماغ لڑانے کی ضرورت ہے‘‘۔
شعیب نے تجسس پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’شعیب بھائی ایک تو آپ پہیلیاں بہت بجھواتے ہیں‘‘۔ وقاص اپنا ہاتھ میز پر مارتے ہوئے بولا۔ وہ غصے میں بھی شعیب بھائی کو ’’آپ‘‘ ہی سے مخاطب کرتا تھا۔
’’اچھا بھئی اچھا بتاتا ہوں‘‘۔ شعیب نے چاروں کے پُرتجسس چہرے دیکھتے ہوئے زیادہ تاخیر مناسب نہ سمجھی اور اپنی ساری پلاننگ سمجھادی جسے سُن کر چاروں شعیب کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
’’زبردست۔ واقعی شعیب تمہارا جواب نہیں۔ خان انکل نے گروپ لیڈر کے لیے تمہارا انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کیا تھا‘‘۔ ثاقب خوشی سے اُچھلتے ہوئے بولا۔
’’لیکن ایک بات ابھی تک ادھوری ہے، وہ یہ کہ ہم بن گورین کے مظاہرے میں ہونے والی تخریب کاری کو کیسے ناکام بنائیں گے؟ کیونکہ روبن نامی شخص کی شکل تو ہم میں سے کوئی دیکھ ہی نہیں سکا، پھر ہم اُسے کس طرح پہچان سکیں گے؟‘‘
زبیر نے سوچ کا دائرہ تبدیل کرتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ کام مجھ پر چھوڑ دو، میں اُسے پہچان لوں گا‘‘۔ وقاص نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا تو سب حیران رہ گئے۔
’’مگر کیسے؟ کیا تم اُسے جانتے ہو؟‘‘ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں! لیکن میں اُس کی آنکھیں دیکھ چکا ہوں اور وہ آنکھیں میں لاکھوں میں بھی شناخت کرسکتا ہوں۔ بشرطیکہ وہ نظر آجائیں‘‘۔ وقاص کے چہرے پر اعتماد کی جھلک دیکھ کر شعیب بولا۔
’’بہت خوب وقاص تم نے ہماری ایک بڑی پریشانی حل کردی، بس اب باہر چل کر سلطان سے رابطہ کرتے ہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے آج رات یروشلم ایئرپورٹ پر ہمارا انتظار کرے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

شام سات بجے تک وہ تمام ضروری سامان تیار کرچکے تھے اور سلطان کو اطلاع کرچکے تھے جو ابھی راستے ہی میں تھا۔
ٹھیک ساڑھے سات بجے وہ اپنا سامان اُٹھائے الوداعی نظروں سے کمرے کو دیکھ رہے تھے۔ نکلنے سے پہلے شعیب نے کہا۔
’’ہمارا یہ آپریشن ایک گھنٹے کا ہوگا، ’’صرف ایک گھنٹے کا‘‘ یاد رہے کہ ہم کوئی ثبوت نہیں چھوڑیں گے، لہٰذا ایک مرتبہ پھر اپنے دستانے چیک کرلو تاکہ انہیں ہمارے فنگر پرنٹس نہ مل سکیں۔ ٹھیک نو بجے ہمیں ایئرپورٹ پر پہنچنا ہے‘‘۔ پھر سب نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیئے۔
دُعا سے فارغ ہوکر پانچوں نے اپنا سامان اُٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آئے۔ اب ان کا رُخ ایلس میتھوڈن کی طرف تھا۔
’’کیا آپ اندر جاکر جناب ایلس میتھوڈن کو اطلاع کرسکتے ہیں کہ آپ کے مہمان رُخصت ہونا چاہتے ہیں‘‘۔ شعیب نے ایک ملازم کو بلا کر پوچھا۔
’’نہیں جناب! ہم اندر نہیں جاسکتے، البتہ میں انٹرکام سے رابطہ کرکے اطلاع دے سکتا ہوں۔ آپ لوگ انتظار کیجئے‘‘۔ ملازم نے ادب سے جواب دیا اور انٹرکام پر رابطہ کرکے بولا۔
’’جائیے، اسٹڈی روم میں وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں‘‘۔
گرین سگنل ملتے ہی پانچوں اندر داخل ہوگئے۔ ڈرائنگ روم سے گزرتے ہوئے وہ آگے بڑھے تو اسٹڈی روم میں موجود ایلس میتھوڈن پانچوں کو دیکھتے ہی بولا۔
’’آؤ بھئی بیٹھو، میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔ مجھے تم لوگوں سے کچھ اہم باتیں کرنی ہیں۔
دراصل میں تم پانچوں کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ اپنے بہتر مستقبل کے لیے میرے ساتھ کام کرو، گھر، گاڑی، مال و دولت، عیش و عشرت کسی چیز کی بھی کمی نہ ہوگی، کیونکہ میں ذہین اور باصلاحیت لوگوں کی قدر کرتا ہوں‘‘۔
’’اور ہم چالاک، عیار اور مکار لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، لہٰذا تمہاری اس گھٹیا آفر پر ہم تھوکنا بھی پسند نہیں کریں گے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے شعیب نے کوٹ کی جیب سے ایک چھوٹا سا ریوالور نکال کر ایلس میتھوڈن پر تان لیا۔
’’یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ تم لوگ کیسا مذاق کررہے ہو‘‘۔ جدید قسم کے قیمتی ریوالور پر نظر پڑتے ہی ایلس میتھوڈن اپنی کرسی پر سے اُٹھنے لگا۔
’’خبردار! اُٹھنے کی کوشش کی تو یہ بے آواز ریوالور تمہارے سینے میں سوراخ کردے گا۔ خاموشی سے ہاتھ اوپر کرلو، اسی میں تمہاری بھلائی ہے‘‘۔ شعیب نے دبے دبے لیکن پُررعب لہجے میں میتھوڈن کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تو وہ اُٹھتے اُٹھتے دوبارہ کرسی پر گرگیا۔
’’تم لوگ آخر کیا چاہتے ہو؟‘‘ ایلس میتھوڈن منمنایا۔ وہ باقاعدہ کانپ رہا تھا۔
’’شٹ اپ!‘‘ شعیب نے گھورتے ہوئے کہا۔
’’طے شدہ پروگرام کے مطابق وقاص دروازے پر پہرہ دینے لگا، جبکہ شعیب کو کور دینے کے لیے عمران نے بھی اپنا ریوالور نکال لیا۔
ثاقب اور زبیر جلدی سے آگے بڑھے اور ایلس میتھوڈن کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر ٹیپ لگادیا اور اس کے ہاتھ کرسی کے پیچھے باندھ دیئے۔ ہاتھ باندھنے کے لیے انہوں نے رسی کے بجائے کپڑا استعمال کیا تھا، تاکہ نشانات نہ پڑیں۔
اچھی طرح باندھنے کے بعد شعیب بولا۔
’’سنو شیطان کی اولاد ایلس میتھوڈن! ہم فلسطین سے تمہاری ناپاک ریاست کو ختم کرنے اور بیت المقدس کو آزاد کروانے پاکستان سے آئے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ ہم تمہاری عظیم ریاست اسرائیل کو ختم کرڈالیں گے، مگر ابتدا تم سے کریں گے‘‘۔
یہ کہہ کر شعیب نے اپنا ریوالور واپس جیب میں ڈالا اور آگے بڑھ کر ایلس میتھوڈن کی شرٹ کے بٹن کھولے، پھر اس نے اپنی جیب سے ایک باریک سی ریڈیو ایکٹو چپ نکال لی۔ 
ایلس میتھوڈن کی آنکھیں خوف کے مارے باہر نکلنے لگی تھیں۔
اس چپ سے نکلنے والی لہروں سے کینسر کے امراض کا عارضی علاج کیا جاتا ہے، مگر اس سے نکلنے والی لہریں اس قدر خطرناک ہوتی ہیں کہ 15 سے 20 منٹ میں جسم کے اندرونی نظام یا بالخصوص دل کو مفلوج کردیتی ہیں۔
شعیب نے وہ چپ ایلس میتھوڈن کے سینے پر عین دل کے مقام پر چپکا دی اور تھوڑی دیر بعد ایلس میتھوڈن بغیر آواز نکالے ابدی نیند سوچکا تھا۔
شعیب نے موت کے بارے میں اطمینان کرنے کے بعد آہستگی سے وہ چپ نکالی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔
اس تمام کارروائی سے فارغ ہوکر ثاقب نے میتھوڈن کے ہاتھ آزاد کردیئے اور منہ سے کپڑا وغیرہ نکال کر اُسی حالت میں کرسی پر چھوڑ دیا۔
شعیب نے گھڑی پر نظر ڈالی تو ٹھیک ساڑھے آٹھ بج رہے تھے جس کا مطلب تھا کہ انہوں نے مقررہ وقت میں اپنا مشن مکمل کرلیا تھا۔
میتھوڈن کو ٹھکانے لگا کر پانچوں نے اپنے دستانے واپس بیگ میں رکھے اور سامان اُٹھا کر اطمینان سے باہر نکل آئے، دروازے پر موجود ملازم کو دیکھ کر شعیب بولا۔
’’اچھا، بھئی ہم لوگ جارہے ہیں۔ مسٹر سینیٹر اندر آرام فرما رہے ہیں، انہوں نے کہلوایا ہے کہ اب مجھے صبح تک ڈسٹرب نہ کیا جائے، کیونکہ صبح ان کو غزہ کے لیے روانہ ہونا ہے‘‘۔
شعیب کی بات پر ملازم ’’یس سر یس سر‘‘۔ کہنے لگا اور بولا۔
’’سر ہماری گاڑی آپ کو ایئرپورٹ تک چھوڑدے گی، آپ لوگ بے فکر رہیں‘‘۔ 
اور رات ٹھیک دس بجے اُن کا طیارہ تل ابیب ایئرپورٹ سے ٹیک آف کررہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شعیب بھائی یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا، لیکن جب تحقیقات ہوں گی تو ملازم یہ ضرور بتائے گا کہ آخری مرتبہ وہ پانچ بچے ہی ایلس میتھوڈن سے ملے تھے تو کیا پھر ہم پر شک نہیں کیا جائے گا؟‘‘
وقاص نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے آہستہ سے سرگوشی کی۔
’’ارے بے وقوف! مجھے بھی معلوم ہے کہ وہ ہم پر ہی شک کریں گے، لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ملنے کے بعد وہ ہم پر کیسے شک برقرار رکھیں گے، کیونکہ ڈاکٹرز اسے ہارٹ اٹیک کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ سمجھے؟‘‘ شعیب نے آہستہ سے کہا تو وقاص اثبات میں سر ہلانے لگا اور مطمئن ہوکر جہاز کی سیٹ سے سر ٹکا دیا۔
سوا گھنٹے کے بعد وہ یروشلم کے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ایلس میتھوڈن کی خصوصی ہدایات کی وجہ سے سارے عملے نے ان کا بھرپور خیال رکھا تھا اور اب وہ باہر نکل کر سلطان کو تلاش کر ہی رہے تھے کہ شعیب کا موبائل گونج اُٹھا۔ دوسری طرف سلطان کہہ رہا تھا کہ میں ایئرپورٹ کے مین گیٹ کے سامنے ایک نیلی کار میں موجود ہوں۔
سلطان کی اطلاع ملتے ہی پانچوں نے اپنا سامان اُٹھایا اور ایئرپورٹ سے باہر نکل آئے۔ دروازے کے سامنے نیلی کار میں سلطان بیٹھا ان کا انتظار کررہا تھا۔
دس منٹ بعد چھ افراد پر مشتمل یہ گروپ یروشلم کے مضافات میں ایک بنگلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک ہمدرد کے گھر کے پاس پہنچ چکے تھے۔
’’سلطان یہ تم ہمیں کہاں لے آئے ہو؟ کیا بن گورین کی طرف نہیں نکلوگے؟‘‘ ثاقب نے پوچھا۔
’’ثاقب بھائی رات کو ہم سفر نہیں کرسکیں گے، کیونکہ فلسطینی حکام نے سیکورٹی بہت سخت کررکھی ہے۔ ہم صبح تڑکے ہی یہاں سے نکل جائیں گے اور آٹھ گھنٹے بعد بن گورین میں موجود ہوں گے‘‘۔
مجاہدین کے ہمدرد کے گھر میں رات گزارنے کے بعد صبح ایک مرتبہ پھر ان کی کار بن گورین جانے کے لیے مرکزی شاہراہ پر دوڑ رہی تھی۔ راستے میں ایک جگہ انہوں نے قہوہ پیا، کار کی ٹنکی فُل کروائی اور پھر سے منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ سفر کے دوران سلطان ان سے تل ابیب کے حالات اور پاکستان کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ریڈیو آن کردیا، جس میں کوئی عربی گیت چل رہا تھا۔ عربی گیت چلتے چلتے اچانک بند ہوگیا اور پھر ریڈیو سے آواز آئی ’’اسپیشل بلیٹن‘‘ آج صبح اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں اسرائیلی سینیٹر ایلس میتھوڈن اپنے گھر میں مُردہ پائے گئے ہیں اور ابھی تک قتل کے شواہد نہیں مل سکے ہیں، جس سے یہ بھی اُمید کی جارہی ہے کہ یہ ہارٹ اٹیک کیس ہے۔ تحقیقات شروع ہوچکی ہیں، مزید تفصیلات موصول ہوتے ہی آپ تک پہنچادی جائیں گی۔ شکریہ‘‘۔
یہ خبر سنتے ہی سلطان نے ایک جھٹکے سے مڑ کر پانچوں کی طرف دیکھا اور اس کے پاؤں کا دباؤ بریک پر بڑھتا چلا گیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی کار ایمرجنسی بریک کی تاب نہ لاتے ہوئے پہیوں کے چُرچرانے کی آواز کے ساتھ ایک دم گھوم گئی اور کچے راستے میں اُتر گئی۔
’’کیا ہوا سلطان خیریت تو ہے؟ زبیر اپنی پیشانی سہلاتے ہوئے بولا جو اچانک بریک لگنے سے آگے جا ٹکرائی تھی۔
’’ت۔۔۔ت۔۔۔ تم لوگوں نے اُسے مار ڈالا۔۔۔؟‘‘ سلطان نے ایک جھٹکے سے اسٹیئرنگ چھوڑ کر برابر والی سیٹ پر بیٹھے شعیب کا گریبان پکڑ لیا اور اسے زور زور سے جھنجھوڑنے لگا۔
اس اچانک حملے سے شعیب ایک دم بوکھلا گیا اور اپنا گریبان چھڑانے لگا۔
’’کک ۔۔۔ کک ۔۔۔ کیوں مارا تم لوگوں نے اُسے؟ کیوں مارا؟‘‘ شعیب کی شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا۔ صورتحال خراب دیکھ کر پیچھے بیٹھے زبیر، عمران، ثاقب اور وقاص بھی الرٹ ہوگئے۔ زبیر سلطان کے ہاتھ سے شعیب کا گریبان چھڑانے کی کوشش کرنے لگا تو وقاص نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنا ریوالور نکال کر سلطان کی کنپٹی پر رکھ دیا۔
’’ریوالور اندر کرلو وقاص‘‘۔ ریوالور نکلتے دیکھ کر شعیب زور سے چیخا۔
سلطان کے ہاتھوں کی گرفت اب ہلکی ہوگئی تھی اور پھر یکایک اس نے شعیب کا گریبان چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ اس کی پیشانی کی سلوٹوں کے نشان اس کے ہونٹوں کے پھیلاؤ میں تبدیل ہونے لگے۔ اب وہ معذرت خواہانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔
’’اوہ۔ آئی ایم سوری۔ معلوم نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا۔ بہت اچھا ہوا جو آپ نے اُسے مار ڈالا، وہ اسی قابل تھا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اب وہ شعیب کے کندھے سے سر ٹکائے باقاعدہ رو رہا تھا۔
وہ پانچوں سلطان کی بار بار بدلتی ہوئی کیفیت دیکھ کر اس بات کا اندازہ کرچکے تھے کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے، مگر وہ اس معمے کو حل نہ کرسکے۔
’’کم آن سلطان۔ حوصلہ رکھو یار۔ تم تو بالکل بچوں کی طرح رو رہے ہو۔ اس طرح تو ہم بن گورین بھی نہیں پہنچ سکیں گے اور ہماری وجہ سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوجائیں گی‘‘۔ شعیب نے سلطان کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اُس نے جان بوجھ کر اصل سوال گول کردیا تھا۔
’’ہاں واقعی میں تو بھول ہی گیا تھا کہ ہم بہت اہم مشن پر ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے سلطان نے اپنی شرٹ کی آستین سے آنسو صاف کیے اور کار اسٹارٹ کرنے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کار ایک مرتبہ پھر ہائی وے پر دوڑ رہی تھی، جبکہ سلطان شرمندگی کے مارے کسی سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا۔
موقع ملتے ہی عمران نے آہستہ سے سلطان کا کندھا دباتے ہوئے پوچھا۔
’’سلطان تمہیں کیا ہوگیا تھا۔ تم رو کیوں رہے تھے؟‘‘
’’کچھ نہیں بس ایسے ہی کچھ یاد آگیا تھا‘‘۔ سلطان نے ٹالتے ہوئے کہا۔
’’کیا تم ہمیں بھی نہیں بتاؤگے؟‘‘ ثاقب نے انتہائی اپنائیت سے پوچھا۔
سلطان نے ایک نظر مڑ کر ثاقب کی طرف دیکھا اور بولا ’’دراصل میں ایلس میتھوڈن کو اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتا تھا‘‘۔
’’مگر کیوں؟‘‘ زبیر نے ادھورے جواب پر بے ساختہ سوال کر ڈالا۔
’’کیونکہ وہ میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا قاتل تھا۔ آج سے پانچ سال قبل اس نے میرے گھر میں آگ لگوادی اور میرے سارے گھر والے تڑپ تڑپ کر جل مرے، لہٰذا میں نے اس کو مارنے کی قسم کھائی تھی، مگر اب وہ قسم پوری نہیں ہوسکتی، کیونکہ تم لوگ بازی لے جاچکے ہو۔ لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے تم جیسے بہادر، ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کاش میں بھی تمہارے گروپ میں شامل ہوسکتا‘‘۔ سلطان نے مختصراً اپنی غم زدہ داستان گوش گزار کی تو وقاص بولا۔
’’سلطان بھائی! ہمیں آپ کی درد بھری داستان سُن کر بڑا افسوس ہوا، لیکن آپ کی آخری بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ہم پانچوں اتنی دور سے صرف آپ کے گروپ میں شامل ہونے کے لیے آئے ہیں اور آپ ہمارے گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ہم الگ الگ گروپ رکھتے ہیں۔ اللہ کا گروپ تو صرف ایک ہی ہوتا ہے اور وہی غالب آتا ہے‘‘۔
’’بہت خوب وقاص بہت خوب۔ آج تم نے پہلی مرتبہ بالکل سولہ آنے درست بات کی ہے‘‘۔ عمران ماحول کی سنجیدگی کو توڑتے ہوئے بولا تو سب مسکرا اُٹھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سلطان ابھی ہم بن گورین سے کتنے فاصلے پر ہیں؟‘‘ شعیب نے گھڑی کی طرف نظریں ڈالتے ہوئے کہا جہاں سوئیاں ایک بجنے کا اعلان کررہی تھیں۔
’’ہم بن گورین سے زیادہ دور نہیں۔ بس پہنچنے ہی والے ہیں، کیونکہ اب ہم رعمیس کے علاقے میں سفر کررہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے بائیں طرف جو خاردار باڑ نظر آرہی ہے یہ اسرائیل کی حدود ہے‘‘۔ سلطان نے سب کی توجہ باڑ کی طرف کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’لیکن باڑ کی دوسری طرف کوئی اسرائیلی فوجی کیوں نظر نہیں آرہا؟‘‘ زبیر نے دور تک نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’عموماً بارہ بجے کے بعد یہ لوگ اپنے مورچوں میں دُبک جاتے ہیں، لیکن نظر سب پر رکھتے ہیں اور اس وقت بھی آپ باڑ کے قریب نہیں جاسکتے‘‘۔ سلطان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک دو بجے جب وہ بن گورین کے علاقے میں داخل ہورہے تھے۔ شعیب پانچوں کو ہدایات دیتے ہوئے بولا۔
’’دوستو! یاد رکھو! یہ ایک مشکل اور خطرناک مشن ہے جس میں جان جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، اس لیے ہمیں چھ کے گروپ میں رہنے کے بجائے تین حصوں میں بٹنا ہوگا، لہٰذا وقاص اور سلطان تم دونوں آگے آگے رہوگے تاکہ روبن کو شناخت کرسکو، جبکہ دائیں بائیں ہم سب دو دو کے گروپ میں تمہیں ضرورت پڑنے پر کور (Cover)دیں گے۔ تم لوگ میری بات سمجھ رہے ہو نا؟‘‘ شعیب نے سمجھانے کے بعد اطمینان کرنا چاہا۔
’’بالکل ٹھیک۔ اس طرح ہم خدانخواستہ حادثے کی صورت میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے، ورنہ سب کی جانیں ایک ساتھ بھی ضائع ہوسکتی ہیں اور یہ ہمارے مشن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ثاقب نے ستائشی نظروں سے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

مرکزی شاہراہ پر فلسطینی مظاہرین کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ لوگ اپنا مخصوص لال رنگ کا عربی رومال باندھے جوق در جوق چلے آرہے تھے اور سلطان اُن کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا مرکزی چوک کی طرف کار بھگاتا لے جارہا تھا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ اگر کار پر تنظیم کا جھنڈا نہ لہرا رہا ہوتا تو شاید آگے بڑھنا ناممکن ہوجاتا، لیکن جھنڈا دیکھ کر لوگ راستہ دیتے جارہے تھے اور بالآخر ایک وقت آیا جب کار ہجوم میں بالکل پھنس چکی تھی۔
’’سلطان کار ایک طرف لگاؤ، وقت بہت کم ہے، ہمیں پیدل نکلنا ہوگا‘‘۔ شعیب نے حکمیہ لہجے میں کہا تو سلطان نے کار ایک طرف پارک کردی اور سب چہرے پر مخصوص لال رومال لپیٹے کمانڈو ایکشن میں پھرتی کے ساتھ کار سے باہر آگئے اور دو دو کے گروپ میں تقسیم ہوگئے۔
اب سب کا رُخ مرکزی چوک کی طرف تھا۔ سب سے آگے سلطان اور وقاص دوڑ رہے تھے۔ دس منٹ کی دوڑ کے بعد وہ مرکزی چوک کے قریب پہنچ چکے تھے۔
عوام کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا، جو چوک سے کچھ فاصلے پر لگی خاردار باڑ کے پاس لائن سے جمع ہوتے جارہے تھے، باڑ کے دوسری طرف اسرائیلی فوج کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ لیکن موت سے بے خوف فلسطینی عوام سینہ تانے موجود تھی۔
وقت تیزی سے گزرتا جارہا تھا، وقاص چوک کے قریب موجود ہر شخص کی آنکھوں کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا، مگر ابھی تک کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
’’شعیب بھائی! مجھے لگتا ہے عنقریب دھماکہ ہونے والا ہے، ہمیں فوراً ہی کچھ کرنا ہوگا‘‘۔
ثاقب کے اس جملے نے شعیب کے دماغ میں دھماکہ کردیا کیونکہ یہ جملہ اگر کسی اور کے منہ سے نکلا ہوتا تو خیر تھی لیکن کہنے والا خود ثاقب تھا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو ثاقب؟‘‘ شعیب نے گھبرا کر ثاقب کی طرف دیکھا۔
’’ہاں شعیب بھائی میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کیوں نہ ہم بم کا شور مچا کر چوک خالی کروالیں۔ اس طرح کم از کم لوگوں کی جانیں تو محفوظ ہوجائیں گی‘‘۔ ثاقب نے اپنی دانست میں مشورہ دیا۔
’’سمجھ کی بات کرو ثاقب۔ اگر ہم نے بم کا اعلان کردیا تو لاکھوں کے مجمع میں بھگدڑ مچ جائے گی، لوگ کچلے جائیں گے اور پھر بم سے کہیں زیادہ نقصان ہوگا‘‘۔
شعیب نے پریشان کن لہجے میں ثاقب کی تجویز رد کردی۔ اسی دوران شعیب نے دیکھا کہ سلطان انہیں اپنی طرف آنے کا سگنل دے رہا تھا۔
مجاہد قائدین کی تقریریں شروع ہوچکی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وقاص کی گھبراہٹ میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔ ایک موقع پر جب سلطان اور وقاص چوک کے اطراف میں بنی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ رہے تھے، اچانک وقاص کی نظریں ایک فلسطینی مجاہد سے ٹکرائیں جو کلاشنکوف لیے سیکورٹی پر مامور تھا۔
’’سلطان بھائی! بندہ مل گیا ہے، پیچھے اطلاع پہنچادو‘‘۔ وقاص نے سلطان کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی۔
’’کہاں ہے بندہ؟ سلطان نے بے تابی سے خوش ہوتے ہوئے کہا تو وقاص نے آنکھوں کے اشارے سے کلاشنکوف بردار شخص کی طرف اشارہ کردیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو وقاص؟ وہ ہماری تنظیم کا بندہ اور فلسطینی مجاہد ابو سعید ہے۔ تمہیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔ سلطان نے وقاص کی بات رد کرتے ہوئے تعجب سے کہا۔
’’سلطان بھائی مجھے مت سمجھاؤ۔ یہ جو کوئی بھی ہے، لیکن وہی روبن نامی شخص ہے جسے ہم نے ایلس میتھوڈن کے پاس دیکھا تھا۔ باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے شعیب بھائی کو اطلاع کرو۔ اگر یہ شخص بم رکھ کر اپنی جگہ سے کھسک گیا تو سمجھو دھماکہ ہوگیا‘‘۔ وقاص نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا تو سلطان نے جلدی سے دائیں طرف موجود شعیب اور ثاقب کی طرف اشارہ کیا۔
اشارہ پاتے ہی سب وقاص کے قریب آگئے اور انہیں بھی وقاص کی بات پر حیرت کا جھٹکا لگا۔
’’تو پھر کیا خیال ہے کارروائی کردی جائے؟‘‘ عمران نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔
’’میرے خیال میں ہمیں سوچ سمجھ کر کارروائی کرنی ہوگی، کیونکہ سیکورٹی پر مامور شخص پر حملے کی صورت میں تمام مجاہدین ہم پر چڑھائی کردیں گے‘‘۔
شعیب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
وہ مشکوک شخص اب اپنی جگہ چھوڑ کر چوک کی دیوار کی طرف چلا گیا اور دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا۔
’’شعیب بھئی جو کرنا ہے جلدی کرو، موقع اچھا ہے ورنہ وقت نکل جائے گا وہ شخص اپنی کارروائی شروع کرچکا ہے‘‘۔ ثاقب نے خطرے کا سگنل دیتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہم گوریلا کارروائی کریں گے۔ میں اس شخص کو خاموشی سے قابو کرنے کی کوشش کروں گا تم پانچوں میرے آس پاس مجھے کور دوگے اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے جوابی کارروائی کی صورت میں تم لوگ صورتحال کنٹرول کروگے، جبکہ عمران بم کو ناکارہ بنائے گا۔ اوکے‘‘۔ شعیب نے جلدی جلدی ہدایات دیتے ہوئے کہا۔ تو جواب میں سب اوکے کہتے ہوئے الرٹ ہوگئے۔
شعیب اطمینان سے راستہ بناتا ہوا روبن کے پیچھے پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو موڑ کر ہتھیلی کے نچلے حصے کو سخت کرتے ہوئے کراٹے کے مخصوص انداز میں روبن کے سر کے پچھلے حصے پر مار دیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ روبن کا سر شدت کے ساتھ دیوار سے جا لگا اور اس سے خون کا فوارہ بہہ نکلا۔
شعیب کے اندازے کے مطابق روبن کو بے ہوش ہوجانا چاہئے تھا، مگر وہ اتنے شدید حملے کے باوجود بھی صرف ایک لمحے کے لیے لڑکھڑایا، لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے پلٹ کر شعیب پر حملہ کردیا اور اسے لیتا ہوا زمین پر جاگرا۔
دونوں کو گرتے دیکھ کر بہت سے لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوگئے، جبکہ سیکورٹی پر متعین مجاہدین بھی چوک کی دیوار کی طرف دوڑنے لگے۔
خلافِ توقع صورتحال خراب ہوتے دیکھ کر شعیب دوبدو لڑائی کے بجائے روبن سے چمٹ گیا اور اسے اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرنے لگا اور جیسے ہی اس کا ہاتھ روبن کے بازوؤں کی اُبھری ہوئی مچھلیوں پر پڑا، اُسے اندازہ ہوا کہ اس کا مقابلہ کسی عام ایجنٹ سے نہیں، بلکہ کسی مضبوط آدمی سے ہے، پھر بھی وہ روبن کی بوکھلاہٹ اور سر کی تکلیف سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دو تین مضبوط پنچ اُس کے چہرے پر لگا چکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
روبن پر حملے کے بعد شعیب نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اُسے فوراً روبن سے چمٹ جانا چاہئے ورنہ دوسری صورت میں سیکڑوں گولیاں اُس کے سینے سے آرپار ہوجاتیں۔
دوسری طرف ثاقب، عمران، زبیر اور وقاص بھی میدان میں کود چکے تھے، جبکہ سلطان اپنی جگہ سے غائب تھا۔
زبیر نے پھرتی کے ساتھ کہنی کا ایک زبردست وار روبن کے سر پر کیا جس سے شعیب کے گرد روبن کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑگئی۔
لوگوں کی چیخ و پکار شروع ہوچکی تھی۔ دو سے تین منٹ کی کارروائی میں بالآخر شعیب روبن کے پیٹ پر لگا ہوا بم نکال چکا تھا، جس پر لگا ٹائمر دس منٹ بعد دھماکہ ہونے کا خاموش اعلان کررہا تھا۔ اب بم عمران کے ہاتھوں میں تھا جسے وہ ناکارہ بنانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔
اتنی دیر میں سلطان سیکورٹی انچارج اور دیگر مجاہدین کو ساری صورتحال سمجھا کر جائے وقوعہ پر پہنچ چکا تھا۔ اس دوران عمران اپنی سرتوڑ کوشش کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار بم ناکارہ بنانے میں ناکام نظر آرہا تھا اور سب دور کھڑے دم بخود اس سنسنی خیز صورتحال کا نظارہ کررہے تھے کہ اچانک وقاص چیخا۔
’’عمران وقت بہت کم ہے بم پھینک کر دور ہٹ جاؤ‘‘۔
عمران نے ایک مرتبہ پھر ٹائمر کی طرف دیکھا، جہاں بم پھٹنے میں صرف بیس سیکنڈ باقی تھے۔
اچانک عمران کے ذہن میں ایک خیال کودا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر ٹائمر کی طرف دیکھا پندرہ۔۔۔ چودہ۔۔۔ تیرہ۔۔۔ بارہ۔۔۔ گیارہ۔۔۔ دس ٹائمر کی ٹک ٹک ایک ایک سیکنڈ کم کرتی جارہی تھی۔
نو۔۔۔ آٹھ۔۔۔ عمران نے اپنے چہرے پر پڑا لال رومال ایک جھٹکے سے کھینچا اور رومال کے دونوں سرے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیے۔ ٹک ٹک کی آواز ہتھوڑا بن کر دماغ پر پڑنے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن ایک دم بہت تیز ہوگئی تھی کہ ثاقب چلایا۔
’’عمران یہ کیا کررہے ہو۔ موت سے مت کھیلو‘‘۔ لیکن عمران نے سُنی اَن سُنی کردی۔
سات۔۔۔ چھ۔۔۔ عمران نے بم رومال کے درمیان میں رکھ کر دائرے کی شکل میں رومال کو اپنے سر کے اوپر زور زور سے گھمانا شروع کردیا۔ گنتی مسلسل کم ہوتی جارہی تھی۔
پانچ۔۔۔ چار۔۔۔ صرف چار سیکنڈ باقی تھے ۔۔۔
عمران نے جھٹکے سے رومال کا ایک سرا چھوڑ دیا۔ رومال کے درمیان میں رکھا بم ایک جھٹکے سے نکلا اور خاردار باڑ کی دوسری طرف دور کھڑے ہزاروں ناپاک اسرائیلی فوج کے درمیان جاگرا۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور فضا میں سیکڑوں فوجیوں کی لاشیں بلند ہوگئیں 
دھماکہ اتنا خوفناک اور تباہ کن تھا کہ اسرائیلی فوج میں بھی افراتفری مچ گئی۔ گرد و غبار کا جیسے ایک طوفان تھا جس میں سیکڑوں بزدل اسرائیلی فوج کے سپاہی اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے، کچھ نے گھبرا کر فائرنگ شروع کردی تھی جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوکر نیچے گر پڑے۔
جواب میں فلسطینی مجاہدین نے بھی پوزیشن سنبھال کر فوج پر فائر کھول دیا۔ ایک آگ تھی جو صہیونی افواج پر برس رہی تھی جس کے نتیجے میں باقی ماندہ سپاہی بھی بھیڑ بکریوں کی طرح نشانہ بن رہے تھے۔
آدھے گھنٹے کی اس کارروائی کے دوران لاکھوں مظاہرین ملحقہ آبادیوں میں غائب ہوچکے تھے، جبکہ مجاہدین ابھی تک اِکا دُکا فائر کررہے تھے۔
شاید فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی کہ اسرائیلی فوج نے مکمل طور پر پسپائی اختیار کرلی تھی اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی، جبکہ ان کے سپاہی کھلے میدان میں تھے اور مجاہدین کے پاس بہت سی پناہ گاہیں اور ملحقہ آبادیاں بچاؤ کے لیے موجود تھیں۔
گرد و غبار کے بادل تو چھٹ گئے، لیکن بارود کی بُو ابھی تک فضا میں موجود تھی، میدان میں سیکڑوں فوجیوں کی بے ترتیب لاشیں پڑی تھیں جنہیں اُٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔
’’ساتھیو! آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ واپس چلو کم از کم انہیں اپنی لاشیں تو اُٹھانے دو‘‘۔ سیکورٹی انچارج کمانڈر مالک الحبیبی نے زور سے پکارا تو سارے مجاہدین اپنے انچارج کی سربراہی میں واپس ہونے لگے۔
دوسری طرف سلطان پانچوں جانبازوں کو لے کر رملہ (Ramallah) میں ایک محفوظ مقام تک پہنچ چکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’یہ تم ہمیں کہاں لے آئے؟‘‘ زبیر نے کار سے اُترتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ ہمارے کمانڈر صاحب کا گھر ہے۔ ان کا حکم تھا کہ تم لوگوں کو مہمان خانے کے بجائے ان کے گھر میں لے جایا جائے‘‘۔ سلطان نے ہاتھ باندھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو سب کار سے نیچے اُتر آئے۔ سلطان نے آگے بڑھ کر کال بیل پر ہاتھ رکھ کر ایک مخصوص انداز میں دو مرتبہ گھنٹی بجائی جس کے جواب میں دروازہ کچھ پوچھے بغیر کھول دیا گیا۔
’’ارے او سلطانہ ڈاکو! ڈکی سے ہمارا سامان تو نکال دو، کیا سامان لے کر بھاگنے کا ارادہ ہے؟‘‘ وقاص نے سلطان کو سلطانہ ڈاکو کا لقب عطا کرتے ہوئے آواز دی جو دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
’’یہ ڈاکو کیا ہوتا ہے؟‘‘ سلطان نے واپس آکر ڈکی سے سامان نکالتے ہوئے پوچھا تو پانچوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ وہ پورے جملے میں اردو کے لفظ ’’ڈاکو‘‘ کو نہیں سمجھ سکا تھا۔
سلطان نے ایک نظر اُن پانچوں کے ہنستے مسکراتے معصوم چہروں پر ڈالی اور کندھے اُچکا کر مسکراتا رہ گیا کہ جن کے چہروں پر کمال درجے کا اطمینان دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ابھی کچھ گھنٹوں پہلے یہ اسرائیلی فوج پر ایک قیامت ڈھا چکے ہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
صبح ناشتے کی میز پر فلسطینی کمانڈر مالک الحبیبی بڑی بے چینی سے پانچ پاکستانی شاہینوں کا انتظار کررہا تھا جن کے بارے میں دمشق سے حسن ترمذی اسے بہت کچھ بتا چکے تھے، مگر وہ سب کچھ اُسے ناقابلِ یقین سا لگتا تھا، پھر کل سلطان کی دی ہوئی رپورٹ بھی حیران کن تھی، جبکہ کل شام ہی پانچوں کی حیران کن کارکردگی اسے بہت کچھ یقین کرنے پر مجبور کررہی تھی۔ اس کا ذہن ابھی تک عمران کے حیرت انگیز نشانے میں اُلجھا ہوا تھا، کیونکہ ایسا نشانہ صرف ایک ماہر فلسطینی ہی لے سکتا تھا۔ ایک پاکستانی لڑکا رومال میں پانچ پونڈ وزنی بم رکھ کر ٹارگٹ کو ہٹ کردے اور سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں کو اُڑا کر رکھ دے۔۔۔’’ناقابلِ یقین‘‘ وہ قدرے زور سے بڑبڑایا۔
’’جی آپ نے ہم سے کچھ کہا؟‘‘ مالک الحبیبی کو اپنے پیچھے سے سلطان کی آواز سنائی دی جو پانچوں کو لے کر اوپری منزل سے نیچے آچکا تھا۔
’’آں۔۔۔ ہاں۔۔۔ نہیں کچھ نہیں۔ آؤ بیٹھو۔ ناشتہ ٹھنڈا ہورہا ہے‘‘۔
وہ پانچوں کو دیکھ کر بے اختیار کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور باری باری ہاتھ ملاتے ہوئے بولا۔
ناشتے کے دوران وہ آپس میں تفصیلی تعارف کرچکے تھے، جبکہ روبن کو پکڑوانے پر اس نے پانچوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ جو مجاہد کے بھیس میں مجاہدین کو ڈبل کراس کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مالک الحبیبی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے شعیب سے پوچھا۔
’’کیا واقعی ایلس میتھوڈن کی ہلاکت میں بھی تم لوگوں کا ہاتھ ہے؟‘‘
’’جی ہاں آپ کو جو اطلاع ملی ہے وہ سو فیصد درست ہے، ویسے ہمارا اسے مارنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں تھا، مگر جب ہمیں اس کی پلان کردہ سازش کا علم ہوا تو ہم نے اپنا پروگرام تبدیل کردیا‘‘۔
شعیب نے دیکھا کہ مالک الحبیبی اس کی بات سُنتے ہوئے پلکیں جھپکانا تک بھول چکا تھا۔
’’بہت عظیم ہو تم لوگ کہ جب ہمارے اپنے لوگ بارود کے اس ڈھیر سے دور بھاگ رہے ہیں اور تم سب پاکستان سے ہماری مدد کو پہنچے ہو‘‘۔
مالک الحبیبی کو وہ الفاظ نہیں مل رہے تھے جن سے وہ ان معصوم شاہینوں کا شکریہ ادا کرسکے۔ اُس کی آنکھوں کی نمی اس کے الفاظ کی ترجمانی کررہی تھی اور پانچوں کے چہرے انکساری کے ساتھ جھکے ہوئے تھے۔
’’مالک بھائی! اسلام کا رشتہ کتنا مضبوط ہوتا ہے نا۔ ہم دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوئے ہوں، ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مالک بھائی! یہ اسلام ہی تو ہے جس نے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ایک خاندان بنادیا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارا تعلق الگ الگ ملکوں سے ہے۔ کاش! ہم سب مسلمان باہمی نفرتوں کو بھول کر ایک ہوجائیں تو امریکہ اور اسرائیل کے ایوانوں میں بھی زلزلہ آجائے‘‘۔ ثاقب نے گلوگیر آواز میں کہا تو مالک الحبیبی نے ثاقب کا ہاتھ تھام لیا اور دھیرے سے بولا۔
’’انشاء اللہ ثاقب وہ وقت ضرور آئے گا۔ ضرور آئے گا‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’خان ایک اور خوشی کی خبر ہے تمہارے لیے‘‘۔ حسن ترمذی، ماسٹر خان کو مخاطب کرتے ہوئے بولے جو اسٹڈی روم میں کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔
’’ضرور میرے بہادر شیروں نے پھر کوئی کارنامہ کرڈالا ہوگا‘‘۔ ماسٹر خان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بھئی! پرسوں انہوں نے ہی ایلس میتھوڈن کو مارا تھا جس کے بارے میں ہارٹ اٹیک کی خبر ملی تھی اور۔۔۔
’’شاباش میرے جانبازوں شاباش!‘‘ ماسٹر خان، حسن ترمذی کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی خوشی سے اُچھل پڑے۔
’’ارے بھئی آگے تو سنو! اور کل بن گورین میں ہونے والے مظاہرے میں وہ پانچوں بھی موجود تھے، انہوں نے وہاں بھی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً سو سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو جہنم رسید کردیا‘‘۔ حسن ترمذی نے مسکراتے ہوئے بات ختم کی تو ماسٹر خان خوشی کے مارے آگے بڑھ کر حسن ترمذی سے لپٹ گئے۔
’’تمہیں یہ اطلاعات کب اور کہاں سے ملیں؟‘‘ ماسٹر خان نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے رملہ سے یہ فیکس رپورٹ موصول ہوئی ہے جو ہمارے ایریا کمانڈر مالک الحبیبی نے بھیجی ہے اور پانچ شاہینوں کے عظیم تحفے پر تمہارا شکریہ بھی ادا کیا ہے‘‘۔
حسن ترمذی فیکس رپورٹ ماسٹر خان کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے بولے تو ماسٹر خان نے جلدی سے رپورٹ اُٹھا کر ایک نظر میں پڑھ ڈالی اور کچھ دیر بعد وہ پانچوں کے نام اگلی ہدایات تحریر کررہے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کمانڈر مالک الحبیبی سے ملاقات کے بعد وہ پانچوں اپنے کمرے میں کل کے واقعے پر تبصرہ کررہے تھے۔
’’عمران کے بچے! تم تو بڑے چھپے رستم نکلے۔ یہ رومال سے نشانہ لینا تم نے کب سیکھا؟‘‘ زبیر نے عمران کے گال پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے پوچھا جو بڑی دلچسپی سے اخبار میں کل کی خبر پڑھ رہا تھا۔
’’یار تم ہاتھ پاؤں چلائے بغیر کوئی بات نہیں کرسکتے؟‘‘ عمران نے جھنجھلاتے ہوئے زبیر کو جوابی مکہ دے مارا۔
’’اے مسٹر! چپت کا جواب مکے سے دے کر تم نے اچھا نہیں کیا‘‘۔
زبیر نے آستین چڑھاتے ہوئے کہا تو عمران بھی اخبار ایک طرف رکھ کر لڑائی کے لیے سیدھا ہوگیا۔
’’مسٹر زبیر تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیا کرتے ہیں۔ سمجھے یا پھر سمجھاؤں؟‘‘
’’اور ہم پتھر کا جواب لاٹھی سے دیتے ہیں، مسٹر عمران۔ سنتے ہو یا ایک اور لگاؤں؟‘‘
’’اور ہم لاٹھی کا جواب گولی سے دیتے ہوئے مسٹر زبیر ۔ سُدھرتے ہو یا پٹواؤں؟‘‘
’’یہ کیا تم لوگ فضول بکواس کررہے ہو۔ خاموشی سے اپنا کام کرو‘‘۔ 
شعیب مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے گرجا، لیکن اسی دوران زبیر عمران پر چڑھ دوڑا ور دونوں میں دھینگا مشتی ہونے لگی۔ دوسری طرف ثاقب اور وقاص بھی دونوں کو چھڑانے کے لیے اس مصنوعی پھڈے میں کود پڑے، جبکہ شعیب اس پُرلطف تماشے سے لطف اندوز ہوہی رہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کمانڈر مالک الحبیبی اور سلطان اندر آگئے۔
اس اچانک آمد سے چاروں شرمندگی کے ساتھ کپڑے درست کرتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور بستر کی چادر درست کرنے لگے۔
دونوں کو اندر آتے دیکھ کر شعیب مسکراتے ہوئے اُٹھا اور بستر پر جگہ بناتے ہوئے بولا ’’آئیے، آئیے بیٹھیے‘‘۔
وہ دونوں ہکا بکا صورت لیے بیٹھ گئے۔ شاید سوچ رہے تھے کہ یہ تو واقعی ابھی بالکل بچے ہی ہیں، یعنی ’’پل میں تولہ اور پل میں ماشہ‘‘۔
’’وہ دراصل ہم اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق اور کھیل کود کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے مائنڈ تو نہیں کیا؟‘‘
ثاقب نے گلا کھنکھارتے ہوئے بات بنائی۔
’’آپ لوگ واقعی بڑی عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ مالک الحبیبی نے حیرت سے بھنویں اُچکائیں اور مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور سنائیے! آپ لوگ اچانک کیسے آگئے؟ ہمیں بلوالیا ہوتا‘‘۔ عمران نے بات پلٹتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یاد آیا۔ دراصل آج صبح میں نے آپ لوگوں کی خیریت اور کارروائی کی مکمل رپورٹ دمشق فیکس کی تھی، جواب میں آپ لوگوں کے نام ماسٹر خان کی طرف سے جواب آیا ہے۔ مالک الحبیبی نے ایک رقعہ شعیب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو شعیب نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر وہ رقعہ تھام لیا۔ گویا اس نے دیر کی تو رقعہ اس سے چھن جائے گا۔ سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر جیسے ہی شعیب نے وہ رقعہ پڑھنا شروع کیا اور سب نہایت انہماک سے سننے لگے۔
’’میرے عزیز بیٹوں! جانبازو! تم پر خدا کی سلامتی ہو!
تم لوگوں کی خیریت اور پے در پے کامیابیوں کی اطلاع آج صبح موصول ہوئی، بے اختیار جی چاہا کہ تم لوگوں کو گلے لگا کر مبارک باد دوں۔ تم لوگ جس کامیابی سے منزل کی طرف بڑھ رہے ہو اور دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہو وہ لائقِ تحسین ہے۔ اپنی کارروائیاں جاری رکھو، مگر اپنے آرام کا بھی خیال رکھو اور ہاں ابھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کرو اور زیادہ بڑی کارروائیوں سے گریز کرو۔ مجھے تمہارے جذبات کا بخوبی اندازہ ہے، لیکن حکمت سے وار کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ انشاء اللہ میں بہت جلد تم لوگوں سے ملاقات کروں گا۔ خداوند تمہیں تمہارے عظیم مشن میں کامیاب کرے۔ آمین۔
تمہارے لیے دُعاگو ماسٹر خان
خط کا اختتام ہوتے ہی کمانڈر مالک الحبیبی نے شعیب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں تو اب بتاؤ کہ تم لوگوں کا آگے کیا پروگرام ہے اور ہم تمہارے لیے کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’ہم واپس تل ابیب جانا چاہتے ہیں‘‘۔ شعیب نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم شعیب؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ان حالات میں تم لوگوں کا تل ابیب جانا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، جبکہ تم لوگ ایلس میتھوڈن کو قتل کرچکے ہو اور موساد تم پانچوں کی تلاش میں ہے۔ میری مانو تو تم لوگ کچھ عرصے یہیں ہمارے ساتھ کام کرو، معاملات کو سمجھو اور پھر دشمن پر اٹیک کرو۔ کیا خیال ہے؟‘‘ مالک الحبیبی نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’کمانڈر صاحب! آپ کی رائے بے شک درست ہے، لیکن ہم زیادہ دیر تک نچلے نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم تل ابیب میں دشمن کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آپ ہماری طرف سے بے فکر رہیے، اللہ نے چاہا تو موساد ہمارا بال بھی بیکا نہ کرسکے گی۔ ہاں البتہ ہمیں آپ کے تعاون کی ضرورت پڑتی رہے گی‘‘۔ شعیب وضاحت کرتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے جیسے تم لوگوں کی مرضی۔ تل ابیب میں تمہارے ساتھ سلطان اور دیگر ساتھی موجود ہوں گے، جو تمہاری ہر ممکن مدد کریں گے، اللہ تم لوگوں کا حامی و ناصر ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے مالک الحبیبی اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’سر ہم اگلے ہفتے یہاں سے روانہ ہونا چاہیں گے‘‘۔ شعیب نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
’’ٹھیک ہے۔ سلطان اس کا انتظام کردے گا۔ کیوں سلطان؟‘‘ کمانڈر مالک نے سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بالکل سر! میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا‘‘۔ سلطان نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے جواب دیا تو کمانڈر مالک الحبیبی مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلے ہفتے سلطان نے اپنے پرانے طریقے کے مطابق یعقوب نامی یہودی شخص سے رابطہ کیا جو اسرائیلی حکومت کے ٹرالر کا ڈرائیور تھا۔ یعقوب کا ہر ہفتے یروشلم سے تل ابیب آنا جانا رہتا تھا اور تھوڑی سی رقم کے عوض وہ مجاہدین کو لانے لے جانے کا کام کرتا رہتا تھا۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ یروشلم پہنچ گئے اور مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر ٹرالر میں سوار ہوگئے۔ چند گھنٹوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ تل ابیب میں ایک محفوظ مقام پر اُتر کر سلطان کے خفیہ گھر پہنچ چکے تھے۔
تل ابیب میں ایک مسلمان کے لیے زندگی گزارنا ہی ایک کٹھن کام تھا، لیکن گوریلا فائٹرز کے جانباز نہ صرف چھ مہینے وہاں رہے، بلکہ سلطان کی مدد سے کئی چھوٹی موٹی کارروائیاں کرکے اسرائیلی حکومت کو خوفزدہ کرتے رہے۔ کبھی کسی بس کو بم سے اُڑا دیتے تو کبھی کسی نائٹ کلب میں دھماکہ کردیتے۔ کبھی حکومت کے کسی آدمی کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے اور کبھی یہودی آبادی والے علاقے میں موت کا ہنگامہ گرم کردیتے اور تو اور عمران نے موساد کے ایک ملازم کو بھی رقم کا لالچ دے کر بہت سی فائلیں اور اہم راز حاصل کرلیے تھے جو وقتاً فوقتاً ماسٹر خان تک پہنچا دیئے جاتے تھے، جس سے مجاہدین کو بہت سی کارروائیوں کا پہلے سے پتہ چل جاتا اور اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑتی۔
اسی دوران موساد کی ایک فائل ان کے ہاتھ لگی جس میں پاکستان کے خلاف مکمل منصوبہ بندی درج تھی۔ فائل پر درج تاریخ سے پتہ چلتا تھا کہ یہ منصوبہ بندی تقریباً تیس سال قبل کی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان کو سیکولر ملک بنا کر اسے ناکارہ بنانا تھا۔ پاکستان میں فرقہ واریت، قومیت اور لسانیت کو پروان چڑھا کر عوام کو آپس میں لڑانا اور اپنی مرضی کے افراد مسلط کرکے اُسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا تھا، کیونکہ ان کو اندیشہ تھا کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا یہ ملک مستقبل میں اُن کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس فائل کا ایک ایک لفظ ان کے جذبات کو بھڑکا رہا تھا۔
’’شعیب بھائی بس بہت صبر ہوچکا، اب ہمیں اسرائیل کو مزا چکھانا ہی پڑے گا۔ یعنی ہمیں معلوم ہی نہیں اور ہمارے ہی ملک کے نام نہاد لیڈروں کی پشت پناہی کرکے ملک کی جڑیں کھوکھلی کی جارہی ہیں‘‘۔
وقاص شدت جذبات سے سرخ ہورہا تھا۔
’’ہاں شعیب بھائی! اب ہم کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آپ فوراً ماسٹر خان تک یہ فائل پہنچائیے اور انہیں بتائیے کہ اب ہم اسرائیل کے خلاف بالکل فری ہینڈ چاہتے ہیں‘‘۔
زبیر نے غصے سے فائل میز پر پٹختے ہوئے کہا تو شعیب بولا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں آج ہی ماسٹر خان سے رابطہ کروں گا۔ مجھے اُمید ہے کہ ہماری اب تک کی کارکردگی دیکھتے ہوئے وہ ضرور ہمیں فری ہینڈ دے دیں گے‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دو دن بعد حسن ترمذی اور ماسٹر خان اُسی فائل پر تبصرہ کررہے تھے۔
’’تمہارا کیا خیال ہے۔ گوریلا فائٹرز کو فری ہینڈ نہ دے دیا جائے؟ وہ پانچوں بڑے جذباتی ہورہے ہیں‘‘۔ ماسٹر خان نے حسن ترمذی سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں خان نہیں! میری مانو تو تم ان پانچوں کو واپس بلالو۔ اس فائل کو پڑھنے کے بعد میری رائے کے مطابق ان پانچوں کی ضرورت اب اسرائیل میں نہیں، بلکہ پاکستان میں ہے۔ اسی بہانے وہ پاکستان میں کچھ آرام بھی کرلیں گے۔
خان تم نہیں جانتے، ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہمارے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے، اگر اسے نقصان پہنچا تو یاد رکھنا ساری دنیا کے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔ جاؤ خان جاؤ پاکستان کو اس وقت تمہاری اور تمہاری ٹیم کی ضرورت ہے‘‘۔
شدت جذبات سے حسن ترمذی کی آواز رُندھ گئی اور اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
ماسٹر خان نے پہلی مرتبہ حسن ترمذی کے دل میں پاکستان سے محبت کے انتہائی جذبات کو محسوس کیا تھا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ واقعی پاکستان اسلامی دنیا کے لیے بڑی اُمیدوں کا مرکز ہے۔
’’ٹھیک ہے ترمذی میں کل ہی انہیں پاکستان واپسی کا پیغام بھجوا رہا ہوں، تم صرف یہ طے کرلو کہ انہیں کس راستے سے بھیجا جائے گا‘‘۔ ماسٹر خان نے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔ لبنان سب سے محفوظ راستہ رہے گا۔ جہاز کی ٹکٹیں اور پانچوں کے نئے کاغذات ایک ہفتے میں تیار ہوجائیں گے، تم تمام سازوسامان کے ساتھ بیروت ایئرپورٹ پہنچ جانا، جبکہ دوسری طرف سے سلطان ان پانچوں کو ’’تلکرم‘‘ کے راستے بیروت پہنچا دے گا۔

 *۔۔۔*۔۔۔*

تل ابیب کے مضافات میں ایک چھوٹے سے مکان کے اندر پانچ لڑکے ایک چھوٹی سی میز کے گرد سرجھکائے افسردہ بیٹھے ہیں جس پر چند کاغذات بکھرے پڑے ہیں۔
ہم نے دشمن کو سبق سکھانے کے لیے آزادی مانگی تھی، لیکن اب ہماری رہی سہی آزادی بھی سلب ہوجائے گی‘‘۔ عمران نے سکوت توڑا۔
’’انکل خان نے ہمیں جس عظیم مقصد کے لیے تیار کرکے بھیجا تھا وہ تو ادھورا رہ گیا نا۔ شعیب بھائی کیا بیت المقدس کی آزادی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا؟‘‘ وقاص کی آنکھیں چھلک پڑیں تو شعیب بولا۔
’’نہیں میرے دوستو! تم لوگ غلط سوچ رہے ہو، شاید تم نے اقبالؒ کا وہ شعر نہیں سُنا۔جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
انکل خان نے ہمیں جس مقصد کے لیے تیار کیا ہے، وہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ لیکن صرف محاذ بدل رہا ہے، پہلے اسرائیل میں اسرائیل سے مقابلہ تھا، اب پاکستان میں امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹوں سے جنگ ہوگی۔
لیکن ابھی ہمارے پاس ایک ہفتے کا وقت موجود ہے، ہم جاتے جاتے اسرئیل سے آخری انتقام لیتے جائیں گے۔ انشاء اللہ اُسے ایسا زخم دے کر جائیں گے جسے وہ سالہا سال تک چاٹتا رہے گا، مگر وہ زخم نہ بھر سکے گا‘‘۔
آخری جملہ ادا کرتے ہوئے شعیب کی آنکھیں جیسے آگ اُگلنے لگیں۔
’’آخری انتقام‘‘۔ شعیب کی بات پر چاروں کے چہرے کھل اُٹھے اور وہ ایک ساتھ بولے۔
’’ہاں ہم اسرائیل کا سب سے بڑا اسلحہ ڈپو اُڑاتے ہوئے جائیں گے، جس میں اسرائیلی فوج کے اسلحے کا تقریباً ساٹھ فیصد اسٹاک ہمہ وقت موجود رہتا ہے‘‘۔
شعیب کی آنکھیں ایک مرتبہ پھر چمک اُٹھیں تو زبیر بولا۔
’’لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں تل ابیب کے شمال مشرقی علاقے میں موجود یہ گودام نہ صرف چاروں طرف سے سخت حفاظتی پہرے میں ہے، بلکہ اس گودام کے اوپر کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی‘‘۔
’’چڑیا پر نہیں مار سکتی تو کیا ہوا، زمین کے نیچے کیڑے تو رینگ سکتے ہیں نا‘‘۔ شعیب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ ہمیں زیرِ زمین کارروائی کرنی ہوگی۔ لیکن اتنی لمبی سرنگ کھودے گا کون؟‘‘ ثاقب نے حیرت سے پوچھا۔
’’جب پہلے سے ہی سارے انتظامات ہوں تو اضافی محنت کرنے کی کیا ضرورت۔ میں اس مشن پر کافی دنوں سے کام کررہا ہوں۔ دراصل پندرہ سال قبل یہ اسلحے کا گودام ایک کانفرنس ہال تھا، جسے بعد میں اسلحے کے اسٹاک کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ یہ ایک انتہائی محفوظ مقام تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی سیوریج لائنوں پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ میں نے ایک ماہ قبل سیوریج لائنوں کا یہ نقشہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے کرسچین ملازم ڈیوڈ سے حاصل کرلیا تھا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ہوئے شعیب نے اپنے بریف کیس سے ایک فائل نکالی اور اس میں موجود دو نقشے کھول کر میز پر پھیلا دیئے۔
ثاقب، وقاص، عمران اور زبیر چاروں حیرت سے شعیب کا ترتیب کردہ پلان سُن رہے تھے۔ کمرے میں مکمل خاموشی کا راج تھا کہ اچانک عمران نے پوچھا۔
’’اور یہ دوسرا نقشہ؟‘‘ عمران کا اشارہ دوسرے نقشے کی طرف تھا۔
’’یہ دوسرا نقشہ اُسی کانفرنس ہال کا ہے جو اب اسلحے کا گودام بن چکا ہے۔ اس نقشے سے ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم دوسری طرف کس جگہ تک پہنچ سکیں گے‘‘۔
شعیب نے دوسرے نقشے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’شعیب بھائی! آپ نے تو کمال کردیا‘‘۔ زبیر سارا منصوبہ سُن کر جیسے خوشی سے اُچھل پڑا۔
’’بلکہ کمال کی بھی ٹانگیں توڑ کر رکھ دی ہیں‘‘۔ وقاص کی خوشی قابلِ دید تھی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے آج ہم بقیہ تمام پلاننگ طے کرکے کل سے مشن کا آغاز کریں گے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے شعیب ایک مرتبہ پھر نقشے پر جھک گیا اور سب مل کر مشن کی جزئیات طے کرنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
حالات کا جائزہ لینے کے لیے دوسرے دن رات ہوتے ہی انہوں نے اپنا سامان تیار کیا اور مطلوبہ ٹارگٹ سے دو کلومیٹر دور اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں سے سیوریج لائن کا جوائنٹ تھا۔ تھوڑی سی محنت کے بعد وہ جوائنٹ میں سے جگہ بناتے ہوئے ایک ایک کرکے مین لائن میں اُتر گئے، جہاں پنڈلیوں تک گندا پانی بھرا ہوا تھا اور تعفن اس قدر تھا کہ اگر وہ گیس ماسک ساتھ نہ لاتے تو شاید زیادہ دیر تک اس کی بدبو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ مین لائن کافی چوڑی تھی جس میں وہ باآسانی چل سکتے تھے۔ لیکن پھسلن کی وجہ سے نہایت احتیاط سے قدم رکھنے پڑرہے تھے۔ مین ہول سے تھوڑا آگے جاکر انہوں نے اپنی اپنی طاقتور ٹارچ روشن کرلیں۔ نقشے کی کاپی شعیب کے پاس تھی جس کے مطابق وہ سفر کررہے تھے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے جارہے تھے پانی کم ہوتا جارہا تھا۔ تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اب وہ قدرے چھوٹے ہول میں داخل ہوگئے تھے جس میں انہیں کافی جھک کر چلنا پڑا۔ نقشے کے مطابق چلتے چلتے بالآخر وہ جگہ آگئی جہاں سے انہیں باہر نکل کر اسلحہ خانے کا جائزہ لینا تھا اور اگلا پروگرام طے کرنا تھا۔
آدھے گھنٹے کی مشترکہ جدوجہد کے بعد وہ گٹر لائن کا بھاری ڈھکن کھسکانے میں کامیاب ہوچکے تھے، لیکن باہر نکلنے کے بعد اسلحہ خانے کے مرکزی دروازے پر ایک موٹا سا تالا پانچوں کا منہ چڑا رہا تھا، لیکن ’’ماسٹر کی‘‘ (Master Key)کی مدد سے تھوڑی دیر بعد عمران نے تالا کھول ڈالا۔ ٹارچ کی روشنی میں انہوں نے اُس عظیم الشان اسلحے خانے کو دیکھا تو پانچوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، اس میں بارود کی پیٹیاں، گرنیڈز، ڈائنامائٹس، جدید ترین ہتھیار، لاتعداد مارٹر گولے اور نجانے کیا کچھ بھرا تھا، جبکہ ایک کونے میں انواع و اقسام کے بے شمار میزائل شاہانہ انداز میں لائن سے کھڑے تھے۔ امریکہ نے اپنے اس لاڈلے بچے کو سارے خطرناک کھلونے فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے احتیاط سے دروازہ بند کیا اور صبح ہونے سے پہلے پہلے واپس اپنی کمین گاہ تک پہنچ چکے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
بیروت روانگی میں جب صرف ایک دن باقی رہ گیا تو انہوں نے اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مرتبہ پھر رات کا انتخاب کیا۔ لیکن اس مرتبہ اُن کے ساتھ الیکٹرک وائر (کیبل) کے چھ رول اور ہائی پاور کی بیٹری بھی موجود تھی۔ مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کے بعد وہ باری باری گٹر لائن کے مین ہول میں اُتر گئے۔ بیٹری مین ہول میں ہی رکھنے کے بعد وہ راستے میں ہر آدھا کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد الیکٹرک وائر کا ایک رول چھوڑتے گئے۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک بار پھر وہ اسلحے کے مرکزی ہال تک پہنچ چکے تھے۔
’’کاش یہ اسلحہ کسی طرح مجاہدین کے لیے حاصل کیا جاسکتا تو کتنا اچھا ہوتا!‘‘ وقاص نے بے چارگی سے اسلحے کے پہاڑ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ ممکن نہیں ہے وقاص! لیکن اگر ہم اسے مجاہدین کے خلاف استعمال ہونے سے پہلے ہی راکھ کا ڈھیر بنادیں تو یہ بھی کوئی چھوٹا کام نہیں ہوگا‘‘۔ ثاقب نے پُرعزم لہجے میں کہا۔
پندرہ منٹ کے بعد وہ تار کے ایک سرے کو بارود سے بھری پیٹیوں سے منسلک کرنے کے بعد رول کو کھولتے کھولتے مین ہول تک لے آئے اور اسی طرح جوڑتے جوڑتے بالآخر رات چار بجے وہ اپنی کارروائی مکمل کرچکے تھے، اب صرف تار کو بیٹری سے منسلک کرنا تھا اور اس کے بعد جو تماشا ہونا تھا شاید اُس سے گوریلا فائٹرز کے جانباز بھی صحیح طریقے سے واقف نہیں تھے۔ آخر میں شعیب بولا۔
’’ساتھیو! ہم اپنے حصے کا کام مکمل کرچکے ہیں اور اسلحے خانے سے دو کلومیٹر دور ہونے کے باوجود ہوسکتا ہے کہ تار کو بیٹری سے منسلک کرنے کے بعد شاید ہم بھی زندہ نہ رہ سکیں۔ لیکن ٹیپو سلطان کا یہ قول یاد رکھنا کہ۔۔۔
شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
اس کے بعد شعیب نے کلمہ پڑھ کر جیسے ہی تار کو بیٹری سے منسلک کیا، ایک زوردار دھماکے نے خاموشی کا سینہ چاک کرڈالا، ایک روشنی کا گولہ تھا جو دوکلومیٹر دور فضا میں اُبھرا اور پھر دھڑا دھڑ دھماکے ہونا شروع ہوگئے۔
دھماکوں کے شور میں گوریلا فائٹرز کے جانباز فوراً ہی اپنی گاڑی میں ہوا ہوچکے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر سلطان تمام سازوسامان کے ساتھ تیار پانچوں کا انتظار کررہا تھا۔ بربادی اور ہولناک تباہی کا ایک سیلاب تھا جو آہستہ آہستہ بڑھتا جارہا تھا۔ پورا تل ابیب دھماکوں سے گونج اُٹھا۔ افراتفری کے عالم میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ننگ دھڑنگ دوڑ رہے تھے کہ شاید قیامت برپا ہوچکی۔ اسرائیل کے ایوانوں میں واقعی زلزلہ آچکا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد یکے بعد دیگرے میزائل فائر ہونا شروع ہوگئے، جیسے کسی دشمن ملک نے اچانک حملہ کردیا ہو۔
اسلحے خانے کے قریب یہودی آبادیوں سے بھی اب شعلے اُٹھنے شروع ہوچکے تھے۔ چھ گھنٹے کی مسلسل تباہی نے شہر کے ایک بڑے حصے کو ملبے کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا تھا۔
دوسری طرف سلطان کی رہنمائی میں شعیب، عمران، زبیر، ثاقب اور وقاص زخموں سے چور آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد بچتے بچاتے اسرائیل کی سرحد کو عبور کرکے لبنان کی حدود میں داخل ہوچکے تھے، جہاں بیروت کے ہوائی اڈے پر ماسٹر خان انہیں گلے لگانے کے لیے بے تاب کھڑے تھے۔
دوپہر تین بجے بیروت کے ہوائی اڈے سے ایک جہاز فضا میں بلند ہوا، جس میں پانچ کمسن جانباز ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے وطن پاکستان کی طرف لوٹ رہے تھے۔ اس عہد کے ساتھ کہ اے ارضِ مقدس انتظار کرنا ہم پھر آرہے ہیں۔

 

ختم شد

 

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top