skip to Main Content

گمشدہ

راحیل یوسف

……….

صرف شام تک ہی انتظار کی کیفیت تکلیف دہ ہوتی جا رہی تھی۔ 
ایک ایسا سوال جو کتنے ہی ذہنوں میں موجود ہے!!

……….

یہ وقت بھی عجیب شے ہے۔۔۔ کبھی کبھی دہائیاں گزر جاتی ہیں اور لگتا ہے کہ ایک آدھ دن ہی گزرا ہے اور کبھی ایک دن صدیوں جیسا بھاری لگتا ہے۔ 
اب یہ واقعہ دیکھئے ،ہے تو تین برس پرانا لیکن کل ہی کی بات لگتی ہے۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے ماموں جان کے گھر لاہور آیا ہوا تھا۔ ابو نے لاہور جانے سے پہلے نصیحتوں کا پلندہ سر پر لاد دیا ۔
’’ہوم ورک باقاعدگی سے کرنا، ماموں، ممانی کو تنگ نہ کرنا، کزنز سے لڑنا جھگڑنا نہیں بلکہ مل کر کھیلنا اور بلاوجہ باہر گھومنا نہیں۔ ہاں اگر کوئی بڑا ساتھ ہو تو اس کے ہمراہ جانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
میں نے بھی ایک سعادت مند بچے کی طرح سب نصیحتیں اپنی گرہ سے باندھ لیں اور ان پر حتیٰ الامکان عمل بھی کیا اور کہیں بھول چوک ہو بھی گئی تو وہ تو قابل معافی ہونی چاہیے۔
لیکن آئی بلا کو کون ٹال سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بھول ہو گئی ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بھول ایک بڑی خطا بن گئی اور وہ بھول تھی بھی آخری نصیحت سے متعلق۔ آخر تک آتے آتے تو ویسے بھی حافظہ جواب دے جاتا ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کیا بے پر کی لگا رکھی ہے اتنی دیر میں قصہ تمام ہوجاتا ہے خواہ مخواہ ٹیمپو خراب کیے جا رہا ہے۔
خیر واقعہ بھی سن لیجئے ۔۔۔ ماموں جان کے ہاں میں ہفتہ گزار چکا تھا۔ دن مزے میں گزر رہے تھے۔ ایک دن جانے کیا جی میں سمائی۔ بھری دوپہر میں جب ممانی اور کزنز سو رہے تھے اور ماموں دفتر میں تھے ہم نے باہر کی سیر کی ٹھانی ۔ سوچا دو چار گلیوں کے راؤنڈ لگا کر واپس آجائیں گے۔ پھر منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ دو گلیاں پار کیں تو دل چاہا ایک آدھ گلی اور دیکھ لیں ۔ پھر یہ ایک آدھ گلی دس بارہ ہو گئیں۔ یہاں تک کہ دھوپ کی تمازت ہلکی پڑنے لگی۔ وقت بہت گزر گیا ہے۔ اب گھر چلنا چاہیے۔ یہ سوچ کر واپسی کا قصد باندھا۔ ابھی واپسی کا سفر شروع کیے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے احساس ہو گیا میں راستہ بھول چکا ہوں۔ میری سٹی گم ہو گئی۔ میں ادھر ادھر بھٹکنے لگا۔ وہ لاہور کی بھول بھلیاں تھیں جن کے جال میں،میں بھی پھنستا ہی جا رہا تھا۔ ہر گلی نامانوس اور ہر چہرہ اجنبی دکھائے دے رہا تھا۔ کسی سے مدد مانگنا بھی فضول تھا کیونکہ ایک تو ویسے بھی ماموں جان کے گھر کا پتہ مجھے یاد نہیں تھا پھر وہ اتنی معروف شخصیت بھی نہیں تھے کہ ان کے بارے میں راہ چلتے بھلے مانسوں سے پوچھتا۔ انکل مجھے قمر الدین صاحب کے گھر جانا ہے اور وہ مجھے گھر چھوڑ آتے۔پھر کسی کی شکل پر تو لکھا نہیں کہ کون کس کردار کا مالک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بردہ فروش ہو پھر وہ تیار معصوم شکار کو کیوں ہاتھ سے نکلنے دے۔ اسی ادھیڑ بن میں، میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور قریبی مسجد سے اذان مغرب بلند ہونے لگی۔ میرے قدم بے اختیار مسجد کی طرف اٹھنے لگے۔ اس پریشانی میں ایک وہی ذات تھی جو مدد کر سکتی تھی۔ اتنی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز شاید ہی کبھی پڑھی ہو اور پھر گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگا۔ 
’’اﷲ میاں ! ہماری غلطی معاف کر دیں ۔ ہماری توبہ جو آئندہ ایسی خطا کی۔۔۔ ہم بڑوں کا کہنا مانیں گے۔۔۔ جی لگا کر پڑھیں گے۔۔۔ کبھی نماز نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ چھوٹی بہن سے لڑائی بھی نہیں کریں گے۔۔۔‘‘ میں سوچ سوچ کر اپنی غلطیوں پر توبہ کر رہا تھا اور اﷲ تعالیٰ کو دوبارہ ایسی غلطیاں نہ دہرانے کی یقین دہانی کرا رہا تھا ۔ آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ شاید انہی میں سے کوئی آنسو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو گیا۔ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ایک اعلان گونجا۔ ’’حضرات عامر نامی ایک بچہ لاپتہ ہے ۔ عمر دس سال ہے ۔ بھورے رنگ کی قمیض اور نیلے رنگ کی پتلون پہنے ہوئے ہے۔ جن صاحب کو بھی ملے مسجد نور میں پہنچا دیں شکریہ۔‘‘ اعلان سنتے ہی میں نے اپنے سراپے پر نظر دوڑائی۔ بھوری قمیض ، نیلی پتلون۔۔۔ اور عامر یہ تو میں ہی ہوں۔ پھر کیا تھا ۔ میں مولوی صاحب کی طرف دوڑ پڑا۔ ’’ مولوی صاحب میں مل گیا ہوں۔۔۔ میرامطلب ہے کہ میں ہی عامر ہوں۔۔۔ وہی عامر جس کا آ پ نے اعلان کیا ہے۔‘‘ میں جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا۔ مولوی صاحب نے مجھے ماموں جان کے پڑوسی اعجاز بٹ صاحب کے حوالے کر دیا جو ماموں کی تاکید پر محلے کی مساجد میں میری گمشدگی کے اعلانات کراتے پھر رہے تھے اور یوں میں دوبارہ ماموں جان کے گھر پہنچ گیا۔
گھر پر بھی ایک پریشانی برپا تھی ۔ میں تو سمجھا تھا کہ ماموں جان ماریں گے نہیں تو کم از کم کراری سی ڈانٹ ضرور پلائیں گے ۔ لیکن ماموں جان نے خلاف توقع اس وقت مجھے کچھ نہیں کہا۔ ممانی جان نے مجھے آم والا ملک شیک پینے کو دیا۔ ملک شیک ختم کرنے کے بعد ماموں جان نے مجھے بیٹھک میں بلایا۔
’’بیٹا عامر! اس طرح بغیر بتائے نکلنا کیا اچھی بات ہے؟‘‘ 
’’ جی نہیں! ماموں جان۔‘‘
’’ پھر بھی آپ نے ایسی حرکت کی ۔جانتے ہیں کہ ہم سب کتنے پریشان تھے اور اگر آپ کہیں گم ہوجاتے یا آپ کو کوئی اٹھا لے جانا تو ہم آپ کے امی ابو کو کیا جواب دیتے؟‘‘
’’مجھے معاف کر دیں! ماموں جان آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ 
’’ شاباش بیٹا ! آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کیجئے گا اور ہاں۔۔۔ آپ کو شہر دیکھنے کا شوق ہے ناں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’ پھر آپ کیلئے خوشخبری ہے کہ پرسوں ہم سب شہر کی سیر کریں گے۔‘‘ ماموں جان نے کہا اور شہر کی سیر کی خبر سن کر میرا دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگا۔
وہ چھٹیاں دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئیں۔۔۔ میں واپس اپنے گھر اسلام آباد آگیا۔ شکر ہے کہ ماموں جان نے گھر پر واقعہ کی اطلاع نہیں دی ورنہ وہاں ضرور میری خاطر مدارت کی جاتی۔‘‘
اس دن کے بعد میں نے واقعی بڑوں کی اجازت کے بغیر باہر نکلنے سے توبہ کر لی۔
خیر چھوڑئیے اس قصے کو ۔۔۔ کہانی شروع ہوئی تھی وقت کے تذکرے سے ۔۔۔ اب اس لمحے کی روداد بھی سن لیجئے جو میرے لیے صدیوں سے بھی زیادہ بھاری ہے۔
ایک دن ابو گھر سے دفتر جانے کے لیے نکلے ۔ امی ، چھوٹی بہن شبانہ اور میں نے انہیں روز کی طرح اﷲ حافظ کہا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ روز ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اس شام ابو دفتر سے واپس نہیں آئے۔۔۔ ایک دن گزر گیا، ایک ہفتہ اور پھر ایک سال ۔۔۔وہ سال جو ایک صدی سے بھی طویل تھا۔ ابو نہیں آئے۔۔۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابو کو پولیس نے پکڑ لیا ہے لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ وہ تو ملک کے لیے ایٹم بم بنانے والے سائنس دانوں میں شامل تھے۔ پھر بھلا ان کو پولیس کیوں پکڑے گی؟
ویسے اخبار میں آیا ہے کہ میری طرح اور بھی بہت سے بچوں کے ابو گم ہو گئے ہیں۔ بھلا اتنے سارے ابو ایک ساتھ کیسے گم ہو سکتے ہیں؟ آخر وہ ابو ہیں کوئی بچے تو نہیں۔۔۔ میں تو اس لیے گم ہوا تھا کہ میں بچہ تھا اور بغیر بتائے باہر گیا تھا۔ ابو تو ہم سب سے مل کر دفتر گئے تھے۔ شاید وہ دفتر سے کہیں چلے گئے ہیں۔ وہ مل گئے تو میں ان سے کہوں گا آئندہ جہاں بھی جائیں بتا کر جایا کریں۔۔۔ لیکن نجانے ان کو پتہ بھی تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top