skip to Main Content

گمشدہ مرغی

کہانی: The Little Lost Hen
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن دوپہر کو جب ہیری اسکول سے گھر واپس آرہا تھا، اس نے ایک لال مرغی کو دیکھا۔ اگرچہ یہ اتنی حیرت انگیز بات نہیں تھی، عموماً مرغیاں کھانے کی تلاش میں باہر گھومتی رہتی ہیں، لیکن جب میں آپ کو اگلی بات بتاؤں گا تو آپ کو ہیری کی حیرت کی وجہ سمجھ میں آجائے گی، دراصل وہ مرغی ایک مصروف سڑک پر تھی اور اس کو عبور کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
”اوہ خدایا! یہ مرغی اکیلی یہاں کیا کررہی ہے؟ اگر یہ سڑک پار کرے گی تو ماری جائے گی۔ یہ ضرور کہیں سے بھاگ کر آئی ہے اور راستہ کھو بیٹھی ہے۔“ ہیری بڑبڑایا۔
اسی دوران ایک گاڑی نے زور سے ہارن بجایا تو مرغی گھبرا کر رک گئی۔ اس نے اپنے سرخ پر پھڑپھڑائے اور زور زور سے کڑ کڑانے لگی۔
ہیری پریشان ہوگیا کہ وہ کیا کرے۔ کیونکہ کسی کتے کی طرح آپ مرغی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے گھر جائے۔
آخر ہیری نے سوچا۔ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا کہ مرغی کو اٹھاکر اپنے ساتھ گھر لے جاؤں اور جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کا مالک کون ہے۔ اسے اپنی نرسری میں رکھ لوں۔ ہیری کو پرندے پکڑنے کی عادت نہیں تھی۔ بعض لوگ جانور اور پرندے آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔ انھیں کیڑے مکوڑے یا مکڑیاں چھونے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ انسان کا اس طرح بہادر ہونا اچھا ہے، لیکن ہیری ایسا نہیں تھا۔ مرغی کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کانپنے لگا۔ اسے یہ اچھا نہیں لگ رہا تھا، لیکن مرغی اتنی خوفزدہ تھی کہ ہیری نے اسے آسانی سے اٹھا لیا، پھر اسے اپنے بائیں بازو کے نیچے دبایا اور دائیں ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مرغی گھبرا کر تھوڑا سا کُلبلائی اور گرفت سے نکلنے کی کوشش کی، لیکن ہیری نے اسے سنبھال لیا اور بازو کے نیچے دبائے گھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر اس نے اپنی امی کو آواز دی، لیکن وہ گھر میں نہیں تھیں۔ ان کی دن کی مددگار ملازمہ جین، باغ میں ٹی کوزی اورمیز پوش دھو کر الگنی پر لٹکا رہی تھی۔ لہٰذا ہیری، لال مرغی کو لے کر گھر میں چلا گیا۔ اس نے اپنے کمرے میں اُدھر اِدھر دیکھا۔ وہ آرام دہ اور پرسکون جگہ ڈھونڈ رہا تھا تاکہ مرغی کو وہاں رکھ سکے۔ اسے اپنی کھلونا ہاتھ گاڑی نظر آئی تو اس نے مرغی کو احتیاط سے اس میں چھوڑ دیا، لیکن وہ فوراً ہی وہاں سے نکل آئی اور کمرے میں ادھر ادھر بھاگنے لگی۔ کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔
”لال مرغی! اتنی بیوقوف مت بنو۔ میرے سپاہیوں کو ٹھونگیں نہ مارو۔ کیا تم بھوکی ہو؟“ ہیری چلایا۔
مرغی نے کڑکڑ کوک کوک کرکے جو جواب دیا۔ وہ ہیری کی سمجھ میں تو نہیں آیا، لیکن وہ اپنے کمرے سے باہر آیا اور دروازہ بند کردیا۔ پھر وہ اس کوٹھری میں گیا۔ جہاں اس کی امی اپنے کبوتروں کے لئے دانہ رکھتی تھیں اور بوری سے مٹھی بھر دانہ نکالا اور اپنے کمرے میں واپس لوٹ آیا۔”کوک کوک کوک!“ مرغی نے آواز نکالی اور ہیری کے قریب چلی آئی۔ ہیری نے جواب دیا،”کک کک کک۔“ اور قالین پر دانہ ڈال دیا۔ مرغی نے لالچی نظروں سے اسے دیکھا۔ پھر اپنا سر اٹھا کر ہیری پر نظر ڈالی۔”کڑکڑکوک کوک!“ اس نے مہربان لہجے میں آواز نکالی۔ ہیری کو اس کی بات سمجھ تو نہیں آئی، لیکن اس کا خیال تھا مرغی یہ کہہ رہی ہے کہ ہیری ایک بہت مہربان لڑکا ہے۔ پھر لال مرغی دانے پر ٹھونگیں مار مار کر اسے کھانے لگی۔
کچھ دیر بعد ہیری نے اپنی امی کی آواز سنی۔ وہ انھیں لال مرغی کے بارے میں بتانے کے لئے باہر آیا، لیکن اس کی امی کے ساتھ ایک مہمان خاتون بھی موجود تھیں، ہیری کو خاموش ہونا پڑا۔ اس نے خاتون کو سلام کیا اور بس یہ کہا۔ ”آپ کیسی ہیں؟“ کیوں کہ مہمانوں کی موجودگی میں امی اسے بولنے کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتی تھیں، جب تک وہ خود اس سے بات نہ کریں۔
لیکن تھوڑی دیر کے بعد ہیری کی امی نے کمرے سے ایک عجیب و غریب آواز سنی اور وہ خوفزدہ ہو گئیں۔ وہ بولیں۔ ”یہ اوپر سے کیسی عجیب آواز آرہی ہے؟’“
سب غور سے سننے لگے۔ اچانک کسی مرغی کے زور سے کڑکڑانے کی آواز آئی۔ ”کڑکڑکڑ کک کک۔۔۔۔!“
”یہ مرغی کی آواز لگتی ہے۔“ اس کی ماں نے حیرت سے کہا۔
”ہاں، یہ ایک مرغی ہے۔“ ہیری بولا۔ پھر اس نے اپنی ماں کو چھوٹی لال مرغی کے بارے میں بتایا جسے اس نے سڑک سے اٹھایا تھا۔
”ہیری! کیا واقعی تمھارا مطلب یہ ہے کہ تم نے ایک مرغی اپنے کمرے میں رکھی ہوئی ہے؟“ماں نے حیرت سے پوچھا۔
ہیری نے اثبات میں گردن ہلائی۔
”وہ ضرور مسز وائٹ کی مرغی ہوگی۔“ مہمان خاتون مس براؤن نے کہا۔ ”انھوں نے آج صبح ہی مجھے بتایا تھا کہ ان کی سب سے پیاری لال مرغی کہیں فرار ہوگئی ہے اور انھیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئی ہے۔“
”اوہ، پھر کیا آپ اسے واپس لے جاسکتی ہیں؟۔۔۔ کیونکہ بے چاری مرغی میرے کمرے میں بہت پریشان نظر آرہی ہے۔ وہ یقینا اپنے ساتھیوں کے درمیان جاکر خوش ہوگی۔“ ہیری نے پوچھا۔
مس براؤن نے کہا۔ ”ہاں، میں اسے لے جاؤں گی۔“
وہ سب اوپری منزل پر گئے۔
مرغی نے قالین نوچ ڈالا تھا اور آہستہ آہستہ کڑکڑ کر رہی تھی۔ وہ بھاگ کر ہیری کے پاس آئی اور اس کی ٹانگ پر ٹھونگ ماری۔ مس براؤن نے اسے اٹھالیا۔
”کیا میں آپ کو، اسے لے جا نے کے لیے ٹوکری دوں؟“ ہیری کی والدہ نے پوچھا۔
”ارے نہیں، مجھے مرغی کا نرم لمس اچھا لگتا ہے۔“مس براؤن نے کہا۔
پھر انھوں نے چھوٹی لال مرغی کو گلے لگایا اور بولیں۔ ”مسز وائٹ مجھے اپنی گمشدہ مرغی کے ساتھ آتے دیکھ کر خوش ہوں گی۔ یہ ان کی سب سے پیاری مرغی ہے اور یہ ہر روز بھورے رنگ کا ایک بڑا انڈا دیتی ہے۔“
”واہ۔۔۔مجھے بھورے انڈے بہت پسند ہیں۔ وہ سفید انڈوں سے کہیں زیادہ عمدہ اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ کاش کہ میرے پاس کوئی ایسی مرغی ہوتی جو میرے لیے بھورے انڈے دیتی۔“ہیری نے کہا۔
”ہمارے باغ میں مرغی رکھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔“اس کی ماں نے کہا۔
”اچھا میں چلتی ہوں۔“ مس براؤن بولیں۔
”ٹھیک ہے، الوداع مس براؤن! مجھے امید ہے کہ مرغی آپ کے ساتھ راستے میں اچھا رویہ رکھے گی اور ہاتھ سے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گی۔“
مس براؤن اور چھوٹی لال مرغی واپس جا چکے تھے۔ ہیری کو اپنے کمرے میں لال مرغی کے بغیر تنہائی محسوس ہورہی تھی۔ وہ خاموش سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ پھر اسے خیال آیا کہ اسے اپنے کھلونا قلعے میں فوجیوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے۔ چنانچہ وہ قلعے کے قریب گیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی فوجی کو اٹھاتا، اس نے ایک ایسی چیز دیکھی جس پر اس کی نظریں جمی کی جمی رہ گئیں۔ اس کے کھلونا قلعے کے بالکل درمیان میں بھورے رنگ کا ایک بڑا انڈا پڑا تھا۔ ہاں، وہ بہت بڑا، بھورا اور ہموار تھا۔
ہیری خوشی سے چیخا اور انڈا اٹھالیا۔ وہ ٹوسٹ کی طرح گرم تھا۔”امی! امی! یہاں آئیں! دیکھیں یہ کیا ہے!“ ہیری چیخا۔
اس کی امی بھاگتی ہوئی آئیں اور جب انھوں نے بھورا انڈا دیکھا تو وہ ہنس پڑیں اور ہنستے ہوئے بولیں۔ ” ہیری! میں نے کبھی اپنی زندگی میں اتنی مضحکہ خیز بات نہیں سنی۔ پہلے تم کو سڑک پر ایک مرغی ملتی ہے، تم اسے اپنے کمرے میں لاتے ہو، اسے کھلاتے پلاتے ہو اور وہ تمھارے کھلونا قلعے میں انڈا دیتی ہے۔ ہاہاہا۔۔۔۔ میں مسز وائٹ کو فون کرتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ آکر انڈا لے جائیں۔“
ماں نے مسز وائٹ سے فون پر بات کی۔ پھر فون رکھنے کے بعد وہ ہیری کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولی۔”مسز وائٹ کہتی ہیں کہ مرغی نے یہ انڈا ہیری کی ہمدردی کے بدلے دیا ہے۔ اس نے جس محبت سے مرغی کو سنبھالا اور اس کا خیال رکھا، اس کے بدلے وہ انڈا ہیری کا حق ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تم اسے اپنے پاس ہی رکھو اور صبح ناشتے میں کھالینا۔“
”واہ امی! کیا حیران کن بات ہے۔ مجھے بھورے انڈے بہت پسند ہیں اور یہ کتنا خوش کن ہے کہ ایک مرغی میرے بارے میں اس طرح سوچتی ہے۔“ ہیری نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔
لہٰذا ہیری کے پاس ناشتے کے لیے ایک بھورا انڈا موجود تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ ان تمام انڈوں سے زیادہ مزیدار تھا۔ جو اس نے زندگی میں پہلے کبھی کھائے تھے۔ کیا وہ خوش قسمت بچہ نہیں تھا؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top