skip to Main Content

گلاب باغ

ڈاکٹر عمران مشتاق

…….

میں نے چوتھا پودا لگا دیا ہے جو کہ ہماری چوتھی نسل کی یادگار ہے ۔پھولوں کے ذریعے رشتوں کو جوڑنے والے خاندان کی داستان

……

مبارک علی کے تین بیٹے تھے۔تینوں شادی شدہ اور مختلف شہروں میں رہتے تھے۔ان کی بیوی فوت ہو چکی تھی اور وہ چند ملازمین کے ساتھ رہتے تھے۔بیٹے انھیں ملنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ایک بار ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو تینوں بیٹے انھیں دیکھنے کے لیے پہنچ گئے۔بیٹوں کو دیکھ کر ان کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی اور انھیں لگا جیسے ساری بیماری اڑن چھو ہو گئی ہے۔
وہ تکیہ کے سہارے بیٹھتے ہوئے بولے۔”اچھا ہوا کہ تم سب آ گئے ہو۔ایک ذمہ داری تھی ،سوچتا ہوں کہ اب اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔“
منجھلا بیٹا رفاقت علی اپنی کرسی اس کے قریب کرتے ہوئے بولا۔”ابا جان!آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ابھی تو آپ کو بہت جینا ہے۔“
مبارک علی مسکرائے۔” بیٹا! موت برحق ہے اور کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔“
بڑا بیٹا صداقت علی کہنے لگا۔”ابا جان ! اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے،آمین!“
سب نے آمین کہا ، پھر چھوٹے بیٹے امانت علی نے پوچھا۔”ابا جان!ہمیں بتائےے وہ کون سی ذمہ داری ہے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے؟“
مبارک علی نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولے:”بچو!زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس لیے کرنے والے کاموں میں سستی نہیں کرنا چاہیے۔“ایک لمحہ رک کر انھوں نے سانس درست کی، پھر کہا۔”کیا تم میں سے کسی نے ”گلاب باغ “کا نام سنا ہے؟“
تینوں نے نفی میں سر ہلایا۔مبارک علی کو ان کے جواب کا اندازہ تھا،کہنے لگے:”تم تینوں کو گلاب باغ جانا ہوگا۔وہ ایک چھوٹا سا باغ ہے۔اس باغ میں صرف گلاب کے پھول ہی لگائے جاتے ہیں۔ہر کیاری میں گن کر گلاب کے پھول لگائے جاتے ہیں۔تم نے میرا ایک کام کرنا ہے۔“
امانت علی نے بڑے ادب سے کہا۔”ابا جان!آپ حکم کیجیے۔“
”میں تمھیں گلاب باغ کا پتا دوں گا۔باغ میں ہر کیاری کا ایک نمبر ہے۔تم نے کیاری نمبر ایک کے پاس جانا ہے اور دیکھنے کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اِس کیاری میں گلاب کے کتنے پودے ہیں؟“
صداقت علی بول پڑا۔”بس اتنی سی بات۔“
مبارک علی نے اس کی بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔”تم لوگ گلاب باغ جانا اور پھر مجھے چھے مہینے کے بعد آ کر میرے سوال کا جواب دینا۔“
رفاقت علی سے نہ رہا گیا،کہنے لگا۔”ابا جان!آپ کا حکم اپنی جگہ مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب چھے مہینے بعد کیوں چاہیے؟“
مبارک علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اس کا جواب میں چھے مہینے کے بعد دوں گا۔“

….٭….

چھے مہینے کے بعد تینوں بیٹے پھر باپ کے سامنے موجود تھے۔ویسے تو وہ مبارک علی سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے مگر وہ گلاب باغ پر کوئی بات نہ کرتے تھے۔
مبارک علی نے تینوں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔”چھے مہینے کا انتظار ہے تو مشکل مگر ایسا کرنا پڑتا ہے۔“
صداقت علی منہ بنا کر بولا۔”ابا جان!آپ نے خواہ مخواہ سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی۔وہاں تو کچھ بھی خاص نہ تھا۔“
مبارک علی نے چونکنے کی اداکاری کی۔”اچھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا!۔ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے کہ ہم نے اپنے بچوں کا اتنا وقت کیوں ضائع کیا؟“
پہلی باری صداقت علی کی تھی،کہنے لگا۔”گلاب باغ کی کیاری نمبر ایک میں گلاب کے تین پودے تھے۔بس آپ یہی جاننا چاہتے تھے نا؟“
مبارک علی نے رفاقت علی کی طرف رخ کیا اور پوچھا۔”بیٹے!تمھارا کیا خیال ہے؟کیا میں نے تم لوگوں کو یہی جاننے کے لیے گلاب باغ بھیجا تھا؟“
رفاقت علی بولا۔”ابا جان! مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے؟میں توآپ کو وہ بتا سکتا ہوں جو میں نے دیکھا۔میں نے کیاری نمبر ایک میں گلاب کے تین پودے دیکھے تھے۔ایک کا رنگ سرخ تھا،دوسرا سفید اور تیسرا پیلے رنگ کا گلاب تھا۔ابھی آپ سے ملنے کے لیے آتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ گلاب باغ کا ایک اور چکر لگا لیا جائے۔“
مبارک علی کی آنکھیں کسی اندرونی جذبے سے چمکنے لگیں۔پوچھنے لگے۔”تو پھر تم نے کیا دیکھا؟“
”وہاں ایک اور پودے کا اضافہ ہو چکا تھا مگر ابھی اُس پر پھول نہیں آئے۔“
مبارک علی کو اس کے جواب سے شاید مایوسی ہوئی تھی، اس لیے جواباً کچھ نہ کہا۔
صداقت علی نے امانت علی کو یاد کرایا۔”امانت علی اب تمھاری باری ہے۔“
امانت علی نے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔”میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک بات دیکھی ہے کہ ابا جان کبھی بھی کوئی بات اُس وقت تک نہیں کہتے جب تک کے اس کی اہمیت سے واقف نہ ہوں۔اس بار جب انھوں نے گلاب باغ کی بات کی اور ساتھ ہی ایک ذمہ داری کا بھی ذکر کیا تو میں سوچ میں پڑ گیا۔دو باتیں ذہن میں آئیں۔ایک تو یہ کہ وہ ہمیں گلاب باغ کیوں بھیجنا چاہتے ہیں؟ان کا گلاب باغ سے کیا تعلق ہے؟دوسرا یہ کہ وہ گلاب کی کیاریوں کے پھولوں کے بارے میں کیوں جاننا چاہتے ہیں؟“
صداقت علی نے مسکراتے ہوئے لقمہ دیا۔”یہ تو تین باتیں ہو گئیں۔“
جواباً امانت علی بھی مسکرایا اور اپنی بات جاری رکھی۔”میں نے جب گلاب باغ کا معائنہ کیا اور کچھ وقت گزارا تو کئی باتیں سمجھ میں آئیں۔“
مبارک علی نے بے چینی کے عالم میں پوچھا۔”وہ کیا؟“
امانت علی نے سنجیدگی کو برقرار رکھا۔”باغ میں چالیس کیاریاں ہیں۔سب پر نمبر پڑے ہوئے ہیں۔کیاریوں میں لگے گلاب کے پودوں کی عمریں مختلف ہیں، لگتا ہے جیسے انھیں مختلف اوقات میں لگایا گیا ہو۔جیسے بیچ میں سالوں کا فاصلہ ہو۔“
مبارک علی آہستہ سے بڑبڑائے۔”ایسا ہی ہے۔“
امانت علی نے چونک کر اپنے ابا جان کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا:”گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر ایک عجیب بات ذہن میں آئی۔“
اس بار رفاقت علی سے صبر نہ ہوا۔”عجیب بات!….کیا مطلب؟“
امانت علی نے بھائی کی طرف ایک نظر دیکھا اور کہنے لگا۔”عجیب بات یہ تھی کی سارے پودے کیاریوں میں بڑی ترتیب سے لگے ہوئے تھے۔کسی کیاری میں دو اور کسی میں تین پودے تھے۔مجھے لگا جیسے گلاب کے پودے مجھے نسلوں کی کہانی سنا رہے ہوں۔میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف اوقات میں لوگوں نے وہ پودے لگائے ہوں۔“
صداقت علی بڑبڑایا۔”یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے۔ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟“
امانت علی نے جواب دیا۔”ایسا ہی ہے۔میں جب کیاری نمبر ایک کی طرف گیا تو مجھے ساری بات سمجھ میں آ گئی کہ ابا جان نے ہمیں گلاب باغ کی خبر لانے کیوں بھیجا تھا۔“
رفاقت علی فوراً ہی پوچھ بیٹھا۔”کیوں بھیجا تھا؟….تم نے یہ بات کیسے جانی؟“
امانت علی نے جواب دیا۔”کیاری نمبر ایک میں تین پودے تھے۔ایک کا رنگ سرخ تھا۔دوسرا سفید اور تیسرا پیلے رنگ کا گلاب تھا۔کسی بھی کیاری میں تین سے زیادہ پودے نہیں تھے۔مجھے لگا کہ جس کسی کو بھی گلاب باغ کا خیال آیا ہوگا وہ اب سے تین نسلیں پہلے ہی آیاہو گا۔“
جب جواباً کوئی کچھ نہ بولا تو امانت علی نے اپنی بات جاری رکھی۔”گلاب باغ کا مالک وہی ہو سکتا تھا جس کی کیاری نمبر ایک ہو۔ابا جان نے جب ہمیں کیاری نمبر ایک کا کہا تو دراصل وہ چاہتے تھے کہ ہم جان لیں کہ گلاب باغ کے موجودہ مالک وہ خود ہیں۔میرا خیال ہے کہ باغ ہمارے پڑدادا نے لگایا ہو گا اور انھوں نے سرخ گلاب کا پودا لگایا۔ ہمارے دادا جان نے سفید اور خود ابا جان نے پیلے رنگ کے گلاب کا پودا لگایا ۔“
مبارک علی بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر امانت علی کو گلے سے لگا لیا ۔ کہنے لگے۔”ایسا ہی ہوا تھا اور اب یہ تمھاری نسل کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ پودا تم لگاﺅ۔“
امانت علی نے کہا۔”ابا جان! میں نے چوتھا پودا لگا دیا ہے جو کہ ہماری چوتھی نسل کی یادگار ہے۔ ابھی اُس پر پھول نہیں آئے، البتہ یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ پھولوں کا رنگ مختلف ہوگا۔“ پھر وہ ابا جان سے پوچھنے لگا۔”ہمارے پڑدادا کو اس بات کا خیال کیسے آیا؟“
مبارک علی کہنے لگے۔”میرے دادا کو یہ خیال جب آیا تو ان کے بھائی ان سے ناراض تھے۔بھائی کی ناراضی دور کرنے کے لیے انھیں ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے گلاب باغ کی بنیاد رکھی۔کیاری نمبر ایک میں پہلا پودا نہوں نے لگایا اور کیاری نمبر دو میں ان کے بھائی نے۔گلاب کے پھولوں سے ان کی وابستگی دراصل محبت اور یگانگت کا اظہار تھا۔بس پھر یہ ریت سی بن گئی کہ ہر نسل کا نمائندہ گلاب کا ایک پودا ضرور لگائے گا۔وہاں پر ہمارے خاندان کے لوگ،ہمارے خاندانی دوست اور شہر کے دوسرے لوگوں کی کیاریاں ہیں۔ اب وہ باغ گل و گلزار ہو گیا ہے۔ وہاں کے گلاب اور ان کے پودے پورے علاقے میں مشہور ہیں۔خیر! اب تم جان گئے ہو گے کہ میں نے چھے مہینے کی شرط کیوں رکھی تھی؟مجھے یقین تھا کہ تم تینوں میں سے کوئی ایک نیا پودا ضرور لگائے گا۔“
صداقت علی نے پوچھا۔”اب اِس گلاب باغ کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟“
مبارک علی ہنس پڑے۔”یہ بات بھی کوئی پوچھنے کی ہے۔“وہ امانت علی کی طرف دیکھ رہے تھے۔”ذمہ داری سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔میری ساری جائیدادتو ظاہر ہے تم لوگوں میں برابر تقسیم ہو گی، البتہ گلاب باغ کی ذمہ داری امانت علی کی ہو گی۔ہاں مگر خیال رہے، یہ ذمہ داری ہے ملکیت نہیں۔“
امانت علی نے سر جھکا دیا ،جیسے کہہ رہا ہو کہ وہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top