skip to Main Content
کیسٹ کا معما

کیسٹ کا معما

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کافی عرصہ بعد میری ملاقات اطہر حمید سے ہو رہی تھی۔ اطہر میرا بہترین دوست ہے۔ ہمارا بچپن تقریباً ایک ساتھ گزرا تھا۔ بچپن کی یادیں ہمیشہ سے اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہیں کہ انہیں یاد کرنے کا بہانہ مل جائے تو باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ جب سے اطہر حمید کا پاکستان کے ایک خفیہ ادارے سے واسطہ پڑا تھا۔ میری اس سے ملاقاتیں حد درجہ متاثر ہوئی تھیں۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں کبھی یہاں ہوتا کبھی وہاں۔ 
اتنے عرصے بعد جب کراچی میں اس سے ملاقات ہوئی تو میں اس سے سخت ناراض تھا لیکن آخر کب تک۔۔۔ بالآخر اس نے مجھے منا ہی لیا۔ ایک شام وہ میرے گھر آیا تو باتوں باتوں میں کہوٹہ پلانٹ کا ذکر آگیا۔ اطہر حمید کہنے لگا: ’’یار طارق! اگرتمہیں معلوم ہو جائے کہ کہوٹہ پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے دشمن ملکوں نے کیا سازشیں کی تھیں تو تم حیران رہ جاؤگے۔‘‘
میں نے حیرت زدہ ہو کر کہا: ’’یہ تو ہمیں پتا ہے کہ امریکا نے دباؤ ڈا ل کر پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے منع کر دیا تھا۔ مگر ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان نے ایٹمی دھماکا کرکے سب کے منھ بند کر دیے تھے۔‘‘
’’نہیں میرے بھائی! اس پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے ایک عظیم الشان کھیل کھیلا گیا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے وہ ناکام ٹھہرا۔۔۔‘‘ اور پھر جیسے جیسے اس نے اس سازش سے پردہ اٹھایا میری حیرتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ سازش کیا تھی؟ او ر اسے کون کھیل رہا تھا یہ واقعہ میرے دوست اطہر حمید کی زبانی سنیے۔

*۔۔۔*

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہوٹہ پلانٹ کی بیرونی نگرانی کی ذمہ داری میری لگائی گئی تھی۔ میرے ساتھ عام پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ انٹیلی جنس کے پانچ انتہائی ذہین لوگوں کی ایک ٹیم شامل تھی۔ میں نے ایک دوچیک پوسٹیں بنا کر پولیس اُدھر تعینات کردی اور آبادی میں بھی چند لوگوں کی ڈیوٹی لگادی۔ اپنی طرف سے نگرانی کے تمام انتظامات مکمل کرلیے تھے۔ اس علاقے میں غیر متعلقہ شخص کی آمد بالکل بند کردی گئی تھی۔ مقامی لوگوں کو شناخت کے بعد پولیس اہلکار جانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ ہم بھی آبادی میں ایک مکان میں رہتے تھے۔ 
ہمارے لیے وہ رات بہت ہی بھیانک تھی۔ وہ رات آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ہوامیں ہلکی ہلکی خُنکی تھی۔ چاند کی پہلی تاریخ ہونے کی وجہ سے زمین بالکل سیاہ تاریک نظر آرہی تھی۔ اس قدر اندھیرے میں جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں باہر سے ایک چکر لگا کر بستر پر نیم دراز تھا۔ اچانک فون کی زوردار چنگھاڑ نے مجھے بستر سے اٹھنے پر مجبور کردیا۔ مجھے ابھی لیٹے ہوئے ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا۔
’رات کے اس پہر فون کی گھنٹی۔۔۔ ضرور کوئی خاص بات ہے۔‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
فون کا چونگا اٹھایا تو دوسری طرف میرا ماتحت ناصر تھا۔
’’سر! ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔‘‘ اس کی مسئلے والی بات سن کر میری آنکھوں میں نیند گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئی۔ 
’’خیریت۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ میں نے آنکھ ملتے ہوئے کہا۔
’’سر! آپ جیسے ہی چکر لگا کر گئے۔ اس کے بعد ایک شخص آبادی کی جانب سے آتا دکھائی دیا۔ اسے روک کر پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے کہا کہ وہ ایک دکان پر کام کرتا ہے اور آج کام زیادہ تھا اس لیے دیر ہوگئی۔ اسے جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد میں نے دوربین لگا کر جائزہ لینے کے لیے اس سمت دیکھا۔ جہاں وہ گیا تھا۔ اچانک مجھے کیمرے کی فلیش چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ فاصلہ زیادہ تھا اور شاید فلیش کے سامنے ہاتھ رکھ کر تصویریں کھینچی جا رہی تھیں مگر میں فوراً پہچان گیا کہ کوئی شخص پلانٹ کی طرف کیمرا کرکے تصویریں اْتار رہا ہے۔
ناصر جیسے جیسے بولتا جا رہا تھا۔ ناصرایک ذہین ایجنٹ کی حیثیت سے پورے ڈیپارٹمنٹ میں مشہور تھا۔ چیزوں کے حوالے سے انتہائی محتاط رویے کی وجہ سے میں نے اسے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس لیے اس کی بات سن کر مجھے حقیقتاً سانپ سونگھ گیا تھا۔ میں اس علاقے کی حساس نوعیت کو خوب سمجھتا تھا۔ دشمن کو اگر اس مقام کے محل وقوع کی ذرا بھی بھنک پڑ جاتی تو ہماری پندرہ بیس سال کی محنت رائیگاں جانے کا قوی اندیشہ تھا۔ 
’’سر ہم نے بھاگ کر اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہم سے زیادہ تیز نکلا۔ اسے شایدخطرے کا احساس ہو چکا تھا۔ ہم نے تلاشی شروع کر دی ہے مگر اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔‘‘ ناصر کا اُکھڑا اُکھڑا سانس بتا رہا تھا کہ وہ بھی تلاش کرنے کی اس مہم میں شامل تھا۔ 
’’جب وہ چیک پوائنٹ سے گزرا تھا تواس کی چیکنگ لی گئی تھی۔‘‘ میں نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
’’سر معلوم نہیں۔ چیکنگ لینے والے پولیس کے سپاہی ابھی تک اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ جیسے ہی آتے ہیں تو پوچھ کر بتاتا ہوں۔‘‘ ناصر نے کہا۔
’’میں تھوڑی دیر میں پہنچ رہا ہوں۔ اگر تلاشی نہیں لی گئی تو یہ ہماری بہت بڑی کوتاہی ہے اور اس کی سزا سب کو بھگتنی پڑے گی لیکن تلاشی لی گئی ہے توجس نے تلاشی لی ہے وہ اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اس لیے تلاشی لینے والے پولیس اہلکار پر گہری نظر رکھو۔‘‘ میں نے تفتیش کا آغاز کرنے کے لیے عقل کے گھوڑے دوڑانے شروع کردیے۔
’’اوکے سر!‘‘
میں نے چونگا کریڈل پررکھا۔ مجھے جلد از جلد اس شخص کا سراغ لگانا تھا۔ اس معاملے میں معمولی سی کوتاہی بھی قابل تعزیر تھی اور سب سے اہم بات یہ تھی اگر اعلا حکام کو صبح پتا چل گیا توکم ازکم میری تو خیریت نہ ہوتی۔ نوکری جانے کے علاوہ فرض سے کوتاہی پر کورٹ مارشل کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا۔

*۔۔۔*

’’تلاشی تم نے لی تھی۔‘‘ میں نے پولیس اہلکار فرحت کو مخاطب کیا۔ 
’’جی سر! میں نے لی تھی مگر اس کی جیب سے سوائے ایک لائٹر اور چند کرنسی نوٹوں کے اور کچھ نہیں ملا۔‘‘
’’اگر کچھ برآمد نہیں ہوا تھا تو وہ کیمرہ کہاں سے آیا؟‘‘ میں نے لہجہ کرخت بنا کر پوچھا۔ 
’’سر یہ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیمرہ لے جانے میں کامیاب کیسے ہوا؟ ‘‘
’’لیکن اس کے باوجود وہ کیمرہ لے گیا ہے۔‘‘
’’جی جی۔۔۔س۔۔۔ سر۔۔۔ ویسے بھی کیمرہ چھوٹی چیز تھوڑی ہوتی ہے۔ جو چھپایا جا سکتا ہے۔‘‘ سپاہی فرحت نے اپنی سوچ کے مطابق جواب دیا۔ اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ حالانکہ اس کے لہجے میں بوکھلاہٹ تھی مگر وہ ناکامی کی بوکھلاہٹ تھی۔۔۔ غداری کی نہیں۔۔۔
’’اس وقت تمھارے ساتھ اور کون تھا۔‘‘ یہ سوال ناصر کی طرف سے کیا گیا تھا۔
’’سر! سر مبشر میرے ساتھ تھے۔‘‘
’’مبشر انٹیلی جنس کا ایجنٹ اور میرے ماتحتی میں کام کر رہا تھا۔۔۔ اس نے بھی تصدیق کی کہ چیکنگ بھرپور انداز سے لی گئی تھی مگر ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہو سکی تھی۔۔۔ لائٹر رکھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو سگریٹ سلگانے کی وجہ بتائی تھی۔ اب صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی تھی۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید ناصر غلط فہمی کا شکار تھا لیکن اس کا کہنا کہ وہ کیمرے کا فلش ہی تھا۔ لائٹر جلنے کا شک کیا گیا مگر ناصر نے اس شک کو بھی رد کر دیا۔ اب یا تو وہ کوئی دشمن ملک کا ایجنٹ تھا اور کوئی خفیہ کیمرہ، وہ چھپا کر نہایت آسانی سے لے گیا۔ اب اس آبادی میں ایک فرد کی تلاش مشکل تھی۔ لیکن صبح ہونے سے پہلے اس کی تلاش ضروری ہو گئی تھی۔ اب سب کا اس پر اتفاق ہو گیا تھا کہ وہ کوئی دشمن کا ایجنٹ ہے۔۔۔ اور یہ ہمارے لیے کسی خطرے سے کم نہ تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔۔۔ وہ یقیناً ہمارا پیچھاکرنے سے چوکنا ہو گیا ہوگا اورشاید اس تازہ صورت حال سے کسی کو آگاہ کرنے کے لیے کسی کو فون بھی کرے۔ اس علاقے میں کل ملا کر ۲۵۰ فون مختلف گھروں میں رجسٹرڈ موجود تھے اور رات کے وقت بہت کم لوگ فون استعمال کرتے تھے۔ 
’’ناصر فوراً ٹیلے فون ایکسچینج فون ملاؤ۔‘‘ میرا لہجہ جذبات کی شدت سے بلند ہو گیا تھا۔ 
’’ابھی لیں سر۔‘‘ تھوڑی دیر میں فون ملا دیا گیا۔
’’السلام علیکم! کال سنٹر فون کرنے کا شکریہ سر! ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ 
’’میں اسپیشل پولیس آفیسر کہوٹہ پلانٹ سے بات کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے بارعب انداز میں کہا۔ 
’’جی سر! حکم کریں سر! کیسے یاد فرمایا۔‘‘ دوسری طرف سے آپریٹر تو تقریباً رطب اللسان ہوگیا۔ 
’’رات ۲ بجے سے اب تک کتنی کالیں اس علاقے سے ہوئی ہیں۔
’’سر۔۔۔! ہولڈ کریں ایک منٹ لگے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے جلدی کرو۔‘‘ میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس کی آواز ابھری۔ ’’سر پانچ کالیں کی گئی ہیں۔‘‘
’’اچھا ایک ایک کر کے سناتے جاؤ۔‘‘
’’لیکن سر!‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’میں تمہیں اپنی شناخت خود آ کر کرواتا لیکن اس وقت صورت حال پیچیدہ ہے۔ دشمن ملک کے ایجنٹ گھس آئے ہیں اور تمہیں کہوٹہ پلانٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔‘‘
’’اوکے سر! قوم کے مفاد کے لیے میری جان بھی حاضر ہے۔‘‘ ٹیلے فون آپریٹر جذباتی ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس نے کالیں سنانی شروع کر دیں۔ آخری کال کسی غیر ملکی زبان میں کی گئی تھی اور اسی میں ایک شخص کا لہجہ خوف زدہ سا لگ رہا تھا۔ 
’’آپریٹر فوراً اس کال کی لوکیشن کی تفصیلات بتاؤ۔‘‘
’’جی سر! لکھیے: رانا آباد‘ محلہ نمبر ۵کا مکان نمبر ۴۳۴‘‘
’’شکریہ آپریٹر! اس ملک کو تمہارے جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘ میں نے اس کا حوصلہ بڑھا کر فون بند کردیا۔ 
فوری طور پر جتنی پولیس موجود تھی، اسے لے کر رانا آباد کی جانب چل پڑے۔ رانا آباد نزدیک ہی ایک پوش کالونی تھی۔ مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ ہمیں اسے زندہ پکڑنا تھا۔ ایک یا دو افراد کے اندرجانے سے وہ مزاحمت کر سکتا تھا۔ اس لیے سب کو ایک ساتھ کوٹھی کے اندر داخل ہونے کا اشارہ کردیا۔
سب اندر کود گئے۔ میں اور ناصر دبے پاؤں آگے کی جانب بڑھے۔۔۔ نیچے کے تمام کمرے خالی تھی۔ دوسری منزل پر ایک کمرے کا دروازہ بندملا۔۔۔ شاید یہ ہی کمرہ تھاجس کی ہمیں تلاش تھی۔ اندر موجود شخص کو ہشیار کرنے سے پہلے دبوچ لینا تھا۔ دروازے کو پہلے جھٹکے میں کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ مجھے یہی فکر کھائی جا رہی تھی کہ کہیں وہ خود کشی نہ کرلے۔ کیونکہ جاسوس ایجنٹ کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ جب چاروں طرف سے گھر جائے اور کوئی اہم راز افشا ہونے کا خطرہ ہو تو وہ خود کشی کرلے۔ دوسرے جھٹکے میں دروازہ ٹوٹ کر اندر جا گرا۔ اندرکا منظر میرے خدشات کے عین مطابق تھا۔ چپٹا سا منھ اور لمبے لمبے گھونگھریالے بالوں والے جاسوس نے زہر ملا کیپسول کھا لیا تھا اور اب آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں زندہ نہ پکڑے جانے کی فتح جھلک رہی تھی۔ جی چاہا کہ اس کے مرتے جسم پر ساری گولیاں اتار دوں۔۔۔ لیکن جذباتی ہونا میرے ڈیوٹی میں شامل نہیں تھا۔ 
اب سوائے کف افسوس ملنے کے ہم کیا کرسکتے تھے۔ کمرے کی تلاشی کے دوران ایک ننھاسا کیمرہ جو کہ خاص قسم کے بوٹوں کے تلوؤں کے نیچے باآسانی چھپایا جا سکتا تھا۔ کرنسی‘ لائٹر اور ایک کیسٹ برآمد ہوئی۔ کیمرہ‘ کرنسی اور لائٹر کی کہانی تو سمجھ میں آ گئی مگر کیسٹ کیا تھی؟

*۔۔۔*

اس واقعے کے دو دن بعد ناصر نے مجھ سے پوچھا۔
’’سر اس کیسٹ میں کیا ہے؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘ میرا جواب نفی میں تھا۔ شاید اس نے گانے سننے کے لیے لی ہو۔‘‘
’’سر۔۔۔ کسی جاسوس کو گانے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ مجھے کوئی گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ میری چھٹی حس خطرے کا الارم بجا رہی ہے۔‘‘ ناصر نے کہا تو میں چونک پڑا۔
’’خطرے کا الارم۔۔۔ کیوں۔۔۔ تمہیں کس بات پر شک ہے۔ اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ اس میں کوئی خفیہ پیغام چھپاہوا ہے تو اس بات کو ذہن میں نکال دو۔۔۔ اس میں سے صرف غوں غوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے، اس کے وہم کوختم کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے لمحے ناصر اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔
’’سر! کیا کہا آپ نے؟ غوں غاں۔۔۔ اِدھردکھائیے کیسٹ۔۔۔ ناصر کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ اگر اسے کیسٹ نہ ملی تو کوئی بدمزگی ہو جائے گی۔ ناصر نے ٹیپ چلاکر کیسٹ چیک کی۔ اس میں ا بھی بھی غوں غاں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اب تو ناصر کی بے چینی آسمان کو چھونے لگی۔ ایک عجیب سا تجسس اب میں بھی محسوس کر رہا تھا۔ ناصر ایک قابل ایجنٹ تھا اور میں اس کی حیرت انگیز صلاحیتیوں کا کئی بار قریب سے مشاہدہ کر چکا تھا۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے اس نے کوئی اہم راز پا لیا ہو۔ کیونکہ اعلا حکام نے ہماری اس کارروائی کو معمولی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اور واقعی ہمیں بھی ایسا لگا کہ ہم نے جیسے اپنا وقت ضائع کیا لیکن اس کی خودکشی کچھ اورکہانی سنا رہی تھی۔ ناصر نے کیسٹ کو پیچ کس کے ذریعے کھولنا شروع کر دیا۔ 
’’سر! آپ کو معلوم ہے کہ اس کیسٹ میں کوئی راز چھپا ہے؟‘‘
’’میں نہیں مان سکتا۔‘‘
’’سر یہ ایجنٹ کچھ زیادہ چالاک تھا اور اس نے ایک ایسا کھیل کھیلا جس کی گھتی ہم بھی نہ سلجھا پائے لیکن اس غوں غاں کی آواز کو میں نے بچپن میں کئی بار سنا ہے۔‘‘
’’ہاں بچے بھی غوں غاں کرتے ہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نہیں سر! ہمارے گاؤں میں بزرگ پہلے ایک دوسرے کوپیغام بھیجنے کے لیے کیسٹوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔۔۔ کیسٹ کے ذریعے اہم باتیں یکارڈ کروا کر مطلوبہ فرد تک پہنچا دی جاتی۔‘‘ منیب نے آرام سے اسکرو، کیسٹ سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ 
’’تو اس میں غوں غاں کاکیا ذکر ہے؟‘‘
’’کبھی کبھار باتیں بہت زیادہ خفیہ ہوتی تو کیسٹ کو کھول کر اسے الٹا چلا دیاجاتا ہے۔ اگر درمیان میں کوئی شخص سننے کی کوشش کرتا تو ناکامی کاسامنا کرنا پڑتا جب کہ مطلوبہ شخص غوں غاں سنتے ہی سمجھ جاتا کہ کیسٹ الٹی چل رہی ہے اور وہ اسے کھول کر سیدھی کر لیتا اور محفوظ پیغام باآسانی سن لیتا۔ ‘‘
کیسٹ سیدھی ہو چکی تھی اور اسے دوبارہ چلانا شروع کردیا۔ اب الفاظ صاف سمجھ میں آ رہے تھے۔ یہ عبرانی (یہودیوں کی زبان) تھی اس لیے مطلب نہیں سمجھ سکے۔ مگر یہ اندازہ ہو گیا کہ اس میں کہوٹہ پلانٹ سے متعلق گفتگو چل رہی ہے۔
کیسٹ میں نے فوراً اعلا حکام تک پہنچا دی اور اسی شام کو مجھے دفتر طلب کر لیا گیا۔ جنرل کاظم علی نے میرے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ ’’نوجوان! تم نے حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ہے۔۔۔۔ ذرا تشریف رکھو۔‘‘ میں قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’تم جانتے ہو عراق کا ایٹمی پلانٹ کیسے تباہ ہوا تھا؟‘‘
’’نو سر!‘‘
’’عراق کے ایٹمی پلانٹ کو اسرائیل نے اپنے ’’اواکس طیاروں‘‘ کے ذریعے اس وقت تباہ کیا تھا جب پہلی شفٹ تبدیل ہو کرجا رہی تھی اور دوسری شفٹ اس کی جگہ لے رہی تھی۔ بالکل ٹھیک وقت پر اس حملے نے عراق کے ایٹمی پلانٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی اور عراق اس میدان میں برسوں پیچھے چلا گیا اور آج تک ایٹم بم نہیں بناسکا۔ اس کیسٹ میں بھی پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کی تمام تفصیلات درج تھیں۔ حتیٰ کہ ڈیوٹی ٹائمنگ اورشفٹ کی تبدیلی سے متعلق بھی۔ وہ موساد کا ایجنٹ تھا۔ خدانخواستہ یہ کیسٹ دشمن کے ہاتھ لگ جاتی تو پاکستان کا حشر بھی عراق جیسا ہوتے دیر نہ لگتی۔‘‘
*۔۔۔*
اطہر حمید جب یہ کہانی سنا کر فارغ ہوا تو میں حیرت سے گم صم منھ کھولے بیٹھا تھا۔ جس طرح یہ انکشاف میرے لیے حیرت انگیز ہے اسی طرح یقیناًآپ کے لیے بھی حیران کن ہو گا۔ میرے دوست اطہر حمید کو حکومت کی طرف سے بھی انعام ملا۔۔۔ لیکن شاید قوم کے اس عظیم ہیرو کو آج بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میں یا آپ۔۔۔ اور یا پھر ناصر اور اس کے ساتھی۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top