skip to Main Content
کھلونوں کی بستی

کھلونوں کی بستی

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رشیدہ کا پیاراکُتا ڈبو آج صبح سے غائب ہے۔خالہ امّاں ملنے آئی تھیں۔رشیدہ دن بھر اُن کے بچّوں کے ساتھ کھیلنے کُودنے میں بہلی رہی۔ڈبو کا اس کو خیال تک نہ آیا۔لیکن جب رات ہوئی اوررشیدہ پلنگ پر سونے لگی تو ایک دم اُسے ڈبو یاد آگیا۔جسے رات کو سوتے وقت رشیدہ اپنے سینے سے لگا کر سویا کرتی تھی۔وہ رنجیدہ سی ہو کر کہنے لگی:’’ہائے رے میرے ڈبو!میں تجھے کہاں ڈھنڈوں؟اللہ جانے تو مجھ سے خفا ہوگیا ہے یا پھر مجھے ستانے کے لیے شرارت سے کہیں چُھپ رہا ہے۔پیارے ڈبو آجا۔‘‘

لیکن ڈبو نہ آیا۔

آدھی رات کا وقت تھا۔رشیدہ غم سے نڈ ھال ہو کر اپنے پلنگ پر پڑی سو رہی تھی۔اچانک اُس کی آنکھ کُھل گئی،لیکن رشیدہ کو اس بات کا پُورا پُورا یقین تھا کہ یہ خواب نہیں ہے بلکہ وہ پُوری طرح جاگ رہی ہے۔

رشیدہ ایک عجیب و غریب بستی میں پہنچی ہوئی تھی اور اس بستی کے چھوٹے چھوٹے بازاروں میں اِدھر سے اُدھر گُھوم پھر رہی تھی۔

بازاروں میں آنے جانے والوں کاتانتا بندھا ہوا تھا۔اتنی بھیڑ ہو رہی تھی کہ کھوے سے کَھوا چِھلتا تھا۔موم کی گُڑیاں،چینی کی گڑیاں،اور پرستان کی شہزادیاں کھٹ پٹ کھٹ پٹ کرتی ہوئی آنکھوں کے آگے سے گُزر جاتی تھیں،کہ جی یہی چاہتا تھا انھیں گھنٹوں دیکھتے ہی رہیں۔

لمبی لمبی جٹاؤں والے سادھو پیپل کے بڑے بڑے گھنے درختوں کے سائے میں دُھونی رُمائے بیٹھے تھے۔بُھورے بندر بانسوں پر اُچھل کُود رہے تھے،مداری کالے کالے ریچھوں کو نچا رہے تھے۔حوضوں میں سفید مومی بطخیں تَیر رہی تھیں۔بلّیاں کبوتروں کی تاک میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔عربی گھوڑے سرپٹ ڈور رہے تھے۔ہرن چوکڑیاں بھر رہے تھے۔

ایک طرف سے کوئی بڑا راجہ ہاتھی پر سوارچلا آرہا تھا۔ ایک طرف مور اپنے رنگ برنگے پر پھیلائے ناچ رہے تھے اور سورج کی روشنی میں ان کے پروں میں سے آگ نکلتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔چڑیاں درختوں پر بیٹھی خدا کی تعریف میں حمد گارہی تھیں۔

بازاروں میں ٹانگے والوں کی ’’ہٹو،بچو‘‘ کی صدائیں آرہی تھیں۔

ریل گاڑیاں چھَک چھَک اور موٹر کاریں پھٹ پھٹ کرتی ہوئی دوڑی جا رہی تھیں۔جہازوں سے دھواں نکل رہاتھا۔کھیتوں میں رہٹ چل رہے تھے۔سقے سڑکوں پر چھڑکاؤ کر رہے تھے۔غرض کہ اس چھوٹی اور نرالی بستی میں ایسی چہل پہل تھی کہ کسی بڑے ملک میں بھی نہ ہوگی۔

لوگ تو خیر مزے مزے سے چل پھر رہے تھے،لیکن ریل گاڑیاں اور موٹریں اس تیزی سے مکانوں کے ارد گرد گھوم رہی تھیں کہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔

رشیدہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔وہ ان سب سے اتنی بڑی تھی کہ اونچے اونچے مکانوں کی ممٹیاں اس کی کمر تک پہنچتی تھیں۔

اس بستی کے بہت سے لوگ اس کی چھو ٹی چھوٹی ٹانگوں سے چمٹے ہوئے تھے ۔کوئی اس کی شلوار کا پائنچاپکڑے ہوئے تھا، کوئی اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔کوئی دھکیل رہاتھا۔کوئی اس کی انگلی پکڑ کر کہتا تھا:

’’چلو میرے ساتھ!‘‘

چھوٹے چھوٹے بندر کبھی اس کے سر پر سوار ہو کر اس کے بالوں کو نوچتے تھے۔کبھی اس کے شانوں پر چڑھ کر گدگدیاں کرتے تھے۔ ایک اونٹ دھاڑیں مارمار کر رو رہا تھا۔ایک کوا گلا پھاڑ پھاڑ کر کائیں کائیں کررہا تھا۔ ایک بلی چوہے کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ بس کچھ نہ پوچھو،اس بستی میں کیا کیا تماشا ہو رہا تھا۔

رشیدہ اس بستی میں کافی دیر تک گھومتی رہی،اور ان ننھے منے لوگوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہنستی رہی اور خوش ہوتی رہی۔ آخر تنگ آکر کہنے لگی:

’’بس اب چپ ہو جاؤ۔‘‘

یہ سنتے ہی سب کے سب جہاں کے تہاں تھم گئے لیکن ریل گاڑیاں اور موٹر کاریں اسی رفتار سے برابر چلتی رہیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قیامت بھی آجائے تو ان کی بلا سے۔یہ نہیں ٹھہرنے کی۔رشیدہ نے ان سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا :

’’تم کون ہو؟ اور میں کہاں ہوں؟‘‘

یہ سن کر ایک لکڑی کے بنے ہوئے سپاہی کے کان کھڑے ہوئے ۔اپنی پگڑی کو سنبھالتے ہوئے اس نے ناک صاف کی اور سلام کرکے کہنے لگا:

’’سرکار! ہم دنیا کے کھوئے ہوئے کھلونے ہیں اور یہ کھوئے ہوئے کھلونوں کی بستی ہے۔بی بی جی! کیا آپ ہمیں یہاں سے لینے آئی ہیں؟ ہم یہاں بہت اداس ہیں۔

آپ ہمیںیہاں سے ضرور لے چلیں۔‘‘

ایک بھالو ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا:

’’میری اچھی اور پیاری بی بی جی!ہم بھی آپ کے ساتھ ضرور جائیں گے۔آپ ہمیں چھوڑ کر مت جائیں۔‘‘

رشیدہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ انہیں کیا جواب دے ،اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے کوئی اس کے دہنے پاؤں کا انگوٹھا چاٹ رہا ہے اور اس کا سارا پاؤں بھیگ گیا ہے۔اس نے نیچے جھک کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئی۔وہ اس کا پیارا کتا ڈبو تھا۔بے چارے کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا:

’’رشیدہ بی بی ! مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔رشیدہ بی بی میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا۔میرا یہاں جی نہیں لگتا۔میں بہت اداس رہتا ہوں۔میں تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا۔‘‘یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

رشیدہ نے جلدی سے اپنے ڈبو کو اٹھا لیا۔ اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا اور سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر گود میں اٹھائے وہاں سے جب چلنے لگی تو سب کھلونوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔سب نے مل کر رشیدہ کا راستہ روک لیا،اور کہنے لگے:

’’بی بی جی! ہمیں بھی اپنی ساتھ لے چلو۔‘‘

’’سرکار!ہمیں یہاں چھوڑ کر مت جاؤ۔‘‘

’’پیاری بی بی ! ہم سب آپ کے ساتھ جائیں گے۔‘‘

رشیدہ نے اس مصیبت سے اپنی جان چھڑانے کے لئے اس کھوئے ہوئے کھلونوں کی بستی کے چھوٹے سے بازار میں سے بھاگنا شروع کیا۔ لیکن کھلونے بھی کب پیچھا چھورنے والے تھے وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے روتے اور چلاتے بھاگے۔جتنی تیزی سے رشیدہ بھاگتی۔ اتنی ہی تیزی سے کھلونے بھی بھاگتے اور چلاتے:

’’سرکار ہمیں نہ چھوڑ جاؤ۔بی بی جی ہمیں نہ چھوڑ جاؤ۔‘‘

بھاگم بھاگ رشیدہ ٹھوکر کھا کر دھم سے گری….اور …ارے …..رشیدہ پلنگ سے نیچے گری پڑی تھی۔رضائی،سرہانااور بچھوناسب نیچے گرے ہوئے تھے۔رشیدہ فرش پر سے کپڑے جھاڑ کر اٹھی ۔کیا دیکھتی ہے کہ خالی چارپائی پر اس کا کتا ڈبو پڑا ہنس رہا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top