skip to Main Content

کمرہ امتحان میں

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاعقہ اور ریحانہ یک جان دو قالب سہیلیاں سمجھی جاتی تھیں۔ رول نمبر کے حساب سے ہم ان کے درمیان آگئے تھے۔ دو دوستوں کے درمیان دیوار بننا تو نہیں چاہتے تھے مگر کیا کرتے۔ تقدیر کے لکھے کی طرح انرولمنٹ نمبر کو بھی بھلا کوئی مٹاسکا ہے؟ ہم نے اسے ریحانہ اور صاعقہ کی بدقسمتی قرار دیا مگر بعد ازاں ہمیں معلوم ہوا یہ ان کی نہیں ہماری بدقسمتی تھی کیونکہ انہوں نے ہمیں رابطے کے پل کی طرح بے دردی سے استعمال کیا۔ 
ہم نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ پیچھے والی لڑکی اللہ کے بعد صرف ہم پہ بھروسہ کرکے پرچہ دینے آئی ہے۔ وہ مسلسل ہماری کمر پر دستک دے کر پوچھ رہی تھی کہ صرف یہ بتادو کہ اس سوال کا جواب کتاب میں کہاں سے کہاں تک ہے؟ خوب!! پہلے تو طالب علم صفحات پھاڑ کر لاتے تھے یا محنت کرکے پھرّے تیار کرتے تھے۔ اب ان جھنجھٹوں میں پڑنے کے بجاے کتاب ہی رکھ لاتے ہیں۔ بہر حال ہم کان لپیٹ کر اپنا کام کرتے رہے اور ظاہر کیا گویا کچھ سنا ہی نہ ہو۔
دو سوال کے حل کے بعد ہم پرچہ ہاتھ میں لیے خود کو یقین دلارہے تھے کہ یہ ہمارے کورس کا پرچہ ہے اور بالآخر اسے ہمیں ہی حل کرنا ہے۔ اچانک پیچھے سے ٹہوکا لگا اور ایک ضمیمہ (سپلمنٹ کاپی) اُڑتا ہوا کسی کٹی پتنگ کی طرح ہماری کرسی پر آگرا۔ عقب سے سرگوشی ابھری:’’ذرا ریحانہ کو دکھادو….. یہ جواب یہیں تک اتارنا ہے ناں!‘‘ اس دلیرانہ حرکت پر ہمارے اوسان خطا ہوگئے مگر اب کاپی ہمارے زون میں داخل ہوچکی تھی چنانچہ سرسری نظر دوڑائی۔ اوہ مرے خدا! کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہے۔ اگر اس کی چونی کی ہانڈی میں دوپیسے کی بھی عقل ہوتی تو گزارا ہوجاتا۔ محترمہ نے یہ جواب صفحہ کتاب سے براہِ راست اتارا تھا۔ چنانچہ روانی ، نادانی یا بے دھیانی میں اول تا آخر لکھتی چلی گئی تھیں۔ ایک جگہ لکھا تھا ’’جیسا کہ آپ کو گزشتہ ابواب میں بتایا جاچکا ہے کہ….. ‘‘ ہم جماعت ہونے کا حق تو ادا کرنا ہی ٹھہرا۔ چنانچہ پنسل سے اس قسم کے خطرناک جملوں کو خط کشیدہ کرکے دے دیاور جھلا کر سرگوشی کی: ’’بیوقوف! یہ کاپی میں نہیں لکھنا ہے۔‘‘ اس نے تفہیمی انداز میں سر ہلایااور ربڑ سے کچھ اس طرح مٹانے لگی کہ ہماری پوری نشست زلزلے کی زد میں آگئی۔ نشستیں بھی طلبہ کی سہولت کے لیے اس طرح پیوستہ کرکے رکھی گئی تھیں کہ پیچھے والی ہر لڑکی شانے کے عقب سے آگے والی کی کاپی پر کڑی نظر رکھ سکے۔
پانچ منٹ بعد ہی پھر ہماری کمر میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی۔ ہماری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ پلٹ کر اسے گھورا….. تو اس نے ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق کاپی دوبارہ ہماری جانب اچھال دی۔ اف میرے خدا!! یہ لڑکی تو ہمیں بھی پھنسائے گی۔ سامنے ایگزامنر صاحبہ بیٹھی اونگھ رہی تھیں مگر خدانخواستہ وہ ابدی نیند نہیں تھی۔ آنکھ کھل بھی سکتی تھی۔ کاپی پر طائرانہ نظر ڈالی تو سر پیٹ لیا۔ واضح طور پر اس نے ہماری بات کا غلط مطلب اخذ کیا تھا۔ ہم نے کہا تھا ’’کاپی میں نہیں لکھنا ہے۔‘‘چنانچہ انہوں نے کمال ذہانت سے کچھ اس طرح ترمیم فرمائی تھی۔ ’’جیسا کہ آپ کو گزشتہ ابواب میں نہیں بتایا گیا۔ ‘‘اب ہم نے ’ٹھیک ہے !‘کہہ کر ہار مان لی اور کاپی پیچھے پھینک دی۔
دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ سوالات جلیبی کی طرح سیدھے سادے تھے۔ اس بات کا خاص خیا ل رکھا گیا تھا کہ کوئی طالب علم سر توڑ کوشش کے بعد بھی یہ نہ جان سکے کہ آخر ممتحن پوچھنا کیا چاہ رہا ہے؟ چنانچہ سوال سمجھنے اور پھر اپنے طور پر جواب ترتیب دینے میں کافی وقت صرف ہورہا تھا۔ بعض سوالات کا کورس سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا قیمتوں کا سرکاری نرخ ناموں سے ۔ مزے کی بات یہ کہ کئی طلبہ مائیکروبک ہاتھ میں لیے بغلیں جھانک رہے تھے اور شاید ممتحن کا مقصد بھی یہی تھا۔
رٹّے پر یقین رکھنے والے طلبہ کسی اداس بگلے کی طرح پر گراے بیٹھے تھے۔ ہمت نہ ہارنے والوں کی نشستوں سے کتابوں کے صفحات الٹنے پلٹنے کی واضح آوازیں آرہی تھیں۔ ہم نے ایگزامنر کی جانب دیکھا مگر وہ نجانے کیوں تغافل سے کام لے رہی تھیں۔
دوسرے دن ہمیں چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والا محاورہ سمجھ میں آگیا۔ کیونکہ ابھی ہم نے دوسرے سوال کا آغاز ہی کیا تھا کہ آگے والی محترمہ نے قدرے ترچھا ہوکر بھرائی ہوئی آواز میں سرگوشی کی (اگر وہ زور سے بول لیتی تو شاید اتنا شور نہ ہوتا) ہم نے گھبر اکر انویجیلیٹر (Invigilater) کو دیکھا۔ 
’’سنو! صاعقہ سے کہو مجھے معلّم کا منصب دے دے۔‘‘
’’کیا!!‘‘ ہم ششد رہ گئے۔ 
’’بھلا صاعقہ تمھیں معلّم کا منصب کیسے دے سکتی ہیں؟ جب تک تم پڑھ لکھ کر کسی قابل نہ ہوجاؤ….. بلکہ بہت قابل نہ ہوجاؤ۔‘‘
’’اونہو! بھئی معلّم کے منصب والا مضمون کا پرچہ مانگ لو۔ ‘‘صاعقہ نے اس کا پیغام سن کر کندھے اُچکا دیے اور انگوٹھا ترچھا کرکے برابر والی رو کی جانب اشارہ کیا۔ (یعنی معلّم کا منصب ادھر چلا گیا تھا) آگے والی نے اپنا مطالبہ پھر دہرایا۔ ہم بھنا گئے۔ 
’’بھئی پرچہ کرنے دو….. ویسے ہی ایک گھنٹہ گزر گیا ہے۔ معلّم کا منصب کہیں اِدھر اُدھر ہوگیا ہے۔ تلاش جاری ہے۔‘‘ اسی اثناء میں پیچھے والی نے پھر دستک دی اور ایک پرزہ ہماری طرف بڑھادیا۔ ہم نے دیکھا کہ مسلسل گردش کے سبب معلّم کا منصب خاصا خستہ حال ہوچکا تھا۔ ویسے بھی یہ مائکرو اسٹیٹ کاپی تھی اور ہم نے مائیکرو چشمہ نہیں بنوایا تھا۔ ہمیں حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ ہمارے طلبہ ذہین نہ سہی باریک بین ضرور ہیں اور قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔
چند طلبہ خاصی تیاری کرکے آئے تھے۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر سر جھکائے لکھنے میں مصروف تھے مگر چونکہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی چنانچہ یہ چند طلبہ خود کو خاصا احمق محسوس کررہے تھے۔ طلبہ پھّروں سے مائیکرو تک جا پہنچے تھے اور یہ ابھی وہی لکھ پڑھ کر پرچہ دینے کے فرسودہ چکروں میں الجھے ہوئے تھے۔
اردو کے پرچے والے روز ہم چاہتے تھے کہ ابتدائی دو ڈھائی گھنٹوں میں جو تیر مارنا ہے۔۔۔ مارلیں۔ کیونکہ آخری آدھ گھنٹے میں انویجیلیٹر صاحبہ رضاکارانہ طور پر کمرے کے دروازے پر جاکھڑی ہوتی تھیں۔ ان کی پیٹھ پیچھے مذاکرات کی فضا اتنی سازگار ہوجاتی تھی کہ کمرۂ امتحان مچھلی بازار بلکہ قومی اسمبلی کے ہال کا منظر پیش کرنے لگتا تھا۔
تشریح کے آغاز کے لیے ہم کوئی عمدہ سا جملہ سوچ ہی رہے تھے کیونکہ سنا تھا کہ ممتحن پہلے اور آخری جملے کو پڑھ کر ہی تخت یا تختہ کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ جونہی ہمیں ایک شاندار جملہ سوجھا عین اسی لمحے پیچھے سے دھکا لگا اور جملہ آگے سے نکل گیا۔ ’’کیا مصیبت ہے! اتنا لمبا پرچہ….. صرف تین گھنٹے اور اوپر سے ممتحن کی تمام تر معصومیت کے ساتھ یہ ہدایت کہ ’صرف پانچ سوالوں کے جواب تحریر کیجیے۔ ‘ظاہر ہے تین گھنٹوں میں بمشکل تین چار ہی سوالات کے جوابات دیے جاسکتے ہیں۔ اس ٹھوکا پیٹی، امدادِ باہمی اور پیغام رسانی کا کوئی اضافی وقت تو ہمیں دیا نہیں جاتا۔ پیچھے سے صاعقہ نے پچکارا:’’بس اتنا بتادو کہ ’اختر شیرانی‘ فرماتے ہیں یا فرماتی ہیں؟‘‘ ہم نے پلٹ کر اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا۔ ’’یہ تو اختر شیرانی سے پوچھ کر ہی بتایا جاسکتا ہے اور یہ تمھیں ایسی متنازعہ شخصیت پر لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
اسی اثناء میں پانی پلانے والی خاتون کمرے میں داخل ہوئیں۔ عقابی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا کمال ہشیاری سے چادر میں سے ایک پاکٹ سائز کتاب نکالی اور کونے میں بیٹھی طالبہ کی کرسی پر سرکا دی۔ صاعقہ نے با آواز بلند اطمینان کی سانس لی۔ ’’شکر ہے….. بیرونی امداد آگئی ۔‘‘ بیرونی امداد! جی ہاں کچھ خیر خواہ باہر بھی موجود تھے جو وقتاً فوقتاً حسبِ توفیق اندر والوں کو ’’ایڈ‘‘ بھیجتے رہتے تھے۔ چونکہ ہم رابطے کے پل کا کام بھی کررہے تھے لہٰذا گھومتے گھماتے وہ کتاب ہمارے پاس بھی آگئی۔ کتاب کیا تھی گویا کوزے میں دریا بند تھا۔ سرورق پر نگاہ ڈالی لکھا تھا۔ ’’پروفیسر اے زیڈ خان کی طلبہ کی سہولت کے لیے آسان شرح۔‘‘ اور طلبہ نے مزید سہولت کے لیے شرح کی بھی مائیکرو بک تیار کروالی تھی تاکہ یاد کرنے کا جھنجھٹ ہی نہ رہے۔ بیرونی رضاکار کی فرض شناسی اپنی جگہ….. لیکن ان گائیڈ بک، ورک بک اور گیس پیپرز کو دیکھ کر ان اساتذہ کا بھی معترف ہونا پڑتا ہے، جن کو طلبہ کی سہولت اور ان کے مستقبل کی اتنی فکر ہے۔ ابھی ہم سرورق پر ہی اٹکے تھے کہ آگے والی نے جھٹکے سے کتاب اُچک لی۔
اگلے روز انویجیلیٹر ذرا وکھری ٹائپ کی تھیں۔ چنانچہ کمرہ امتحان میں ’’پِن ڈراپ سائلنس‘‘ رہا انہوں نے ایسی دہشت بٹھادی تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اگر کوئی پیچھے مڑکر دیکھے گا تو پتھر کا ہوجائے گا۔ کرنے والوں نے اس دن بڑے سکون سے پرچہ حل کیا۔
آخری پیپر والے دن بڑا غضب ہوا۔ کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ چنانچہ امتحان کی مصیبت کے ساتھ ’آشوب چشم‘ کا مرض بھی آوارد ہوا۔ پیپر دیکھ کر دماغ ویسے ہی کام نہیں کرتا تھا اب آنکھوں نے بھی جواب دے دیا۔ بہرحال نیّا تو پار لگانی ہی تھی لہٰذا گز بھر لمبے رومال سے آنکھ دباکر بیٹھے رہے۔ اب ہم مساوات کے اصولوں کے عین مطابق سب کو ایک آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔ اندرونی دباؤ سے ویسے ہی ذہن منتشر رہتا تھا اب بیرونی مداخلت بھی شروع ہوگئی۔ انویجیلیٹر نے ایسی چشم پوشی سے کام لیا جیسے امریکا کی مداخلت پر ہماری سرکار درگزر سے کام لیتی ہے۔ باہر کھلنے والی کھڑکیاں بند کردی گئی تھیں مگر ہمارے ہاں غیر قانونی کاموں کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ تو کھلا ہی رہتا ہے۔ چنانچہ ایک کاغذی راکٹ روشندان سے اڑتا ہوا آیااور ریحانہ کی نشست کے پاس آگرا۔ باہر سے ایک نہایت گھمبیر آوز آئی۔ ’’پلیز یہ راکٹ ثمینہ کو دے دیں۔‘‘
’’کیا!! ثمینہ کو دے دیں؟ مگر آج تو وہ دوسرے کمرے میں بیٹھی ہے۔‘‘ اب ہم میں سے کوئی اتنا ڈھیٹ بھی نہیں کہ انویجیلیٹر کے سامنے راکٹ اٹھائے اور منھ اٹھا کر ثمینہ کو دینے نکل جائے۔ اسی اثناء میں باہر سے ایک دوسری آواز ابھری جس میں بے پناہ سوز اور درد پایا جاتا تھا۔ 
با آواز بلند ارشاد ہوا۔ ’’حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے، لڑکا ہوں اگرچہ میں ذرا سا۔‘‘ 
سن کر لڑکے کی آہ وزاری انویجیلیٹر کوئی پاس ہی سے بولیں۔ ’’اللہ نے دی ہے ان کو عقل، یہ خود ہی کریں گی پرچے کو حل۔‘‘ مگر ان کے خیالات پر لڑکے نے مطلق توجہ نہ دی اور آبجیکٹیو (Objective) سوالوں کے نمبر وار جواب بتانا شروع کردیے۔ افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اس کی معلومات نہایت ناقص تھیں۔ کسی اچھے گھر کا گھٹیا چشم و چراغ معلوم ہورہا تھا۔ جو ناحق طلبہ کو مس گائیڈ کررہا تھا۔ چنانچہ ہم نے کہا :’’میڈم باہر پولیس والے ڈنڈے لے کر بیٹھے ہیں۔ آخر وہ کون سی غیر مرئی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان سے کہیں ناں کہ ان کو بھگائیں۔ ‘‘میڈم نے ہماری طرف ایسے دیکھا جیسے کسی بے وقوف کو بہت دن بعد دیکھا ہو۔ پھر خود اٹھ کر روشندان کے قریب آئیں اور تین مرتبہ ہش ہش کیا۔ گویا وہ لڑکے نہ ہوں کوّے ہوں جواُن کے ہَش ہَش کرنے سے اُڑ ہی جائیں گے۔ شاید انہوں نے یہ ایکشن ہماری تسلی کے لیے کیا تھا۔ قدرے توقف سے بولیں۔ پولیس والے ڈنڈا لے کر تو بیٹھے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ان لڑکوں سے ہم پَنگا نہیں لے سکتے۔ ویسے بھی غالباً ان کے پاس ڈنڈے نہیں بندوقیں ہیں۔ ڈنڈے تو لاٹھی چارج کے کام آبھی جاتے ہیں۔ ان کی بندوقیں بھلا کس کام کی؟
ہم نے تفہیمی انداز میں ہونقوں کی طرح سر ہلاکر میڈم کی بات سے اتفاق کیا اور بمشکل تمام توجہ دوبارہ کاپی کی طرف مرکوز کرنی چاہی۔ مگر یہ کیا! ہم دھک سے رہ گئے کیونکہ اس طوفان بدتمیزی اور میڈم سے، پولیس کے کردار پر مذاکرات میں ہم اپنے آنسوؤں کو قابو کرنا تو بھول ہی گئے تھے۔ صورت یہ تھی کہ آنکھ کا سمندر کاغذ پر لہریں ماررہا تھا۔ جو کچھ لکھا تھا وہ بھی دُھل دُھلاکر صاف ہوچکا تھا۔ اب رزلٹ کی فکر نہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top