skip to Main Content
کمال کا سوال

کمال کا سوال

حماد ظہیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کردار:
فضل دین: کپاس کا کاشت کار
اسلم: دھاگوں سے کپڑا تیار کرنے والا
کمال: چرخہ کاٹ کر دھاگا تیار کرنے والا
فہیم: کمال کا عقلمند بیٹا
سیٹھ: ایک چالاک و عیار امیر شخص

پہلا منظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(فضل دین اور اسلم ایک چارپائی پر بیٹھے خوشگوار انداز میں باتیں کر رہے ہیں)
اسلم: تمہارے مسائل اپنی جگہ ہیں، میرے اپنی جگہ اب بھلا کیا کیا جا سکتا ہے؟
فضل دین: کہتے تو تم ٹھیک ہو، لیکن کیا پتا کہ کسی صورت ہم ایک دوسرے کے کام آسکیں۔
(سیٹھ انتہائی پرسکون انداز میں سیٹی بجاتا ہوا اندر داخل ہوتا ہے۔ پھر اسلم کو دیکھ کر بری طرح گھبرا جاتا ہے)
سیٹھ: ’’ اررر۔۔۔ رے اسلم تم !‘‘
فضل دین: ’’ آپ اسلم کو جانتے ہیں؟‘‘
اسلم: ’’سیٹھ صاحب آپ اور یہاں!‘‘
سیٹھ: ’’ہاں ۔۔۔ آں ۔۔۔ اسلم میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ ۔۔۔ وہ ہاں تمہارے گھر میں آگ لگ گئی ہے، اور شاید تمہاری بچی بھی بری طرح جل گئی ہے۔‘‘
اسلم: ’’ کک۔۔۔ کیا؟‘‘
سیٹھ: ’’ تم فوراً نکل جاؤ، اور جلد از جلد گھر کی فکر کرو!‘‘ (اسلم گھبراہٹ میں اپنی لنگی سنبھالتا اور جوتیاں گھساتا باہر کو نکل پڑتا ہے۔ جبکہ اس کے جاتے ہی سیٹھ سکھ کا سانس لے کر اطمینان سے بیٹھ جاتا ہے)
فضل دین: ’’ اسلم آج صبح ہی تو پہنچا ہے یہاں، پھر بھلا یہ واقعہ کب ہوا؟‘‘
سیٹھ: (لاپرواہی سے) ’’ وہ بس سے چھ گھنٹے میں پہنچا ہے۔ جبکہ یہ ڈھائی گھنٹہ پہلے کی بات ہے جب میں اپنی کار میں وہاں سے چلا!‘‘
فضل دین: ’’ تو جناب ، اب اسے پھر واپس پہنچنے میں چھ گھنٹے لگیں گے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اسے اپنی کار میں ڈھائی گھنٹہ میں وہاں بھجوا دیتے۔‘‘
سیٹھ: (تیز لہجہ میں) ’’ اس کی فکر چھوڑ ، وہ تو کہہ رہا تھا کہ فضلو انتہائی درجہ کا کنجوس اور لالچی آدمی ہے۔‘‘
فضل دین : (حیرت سے) ’’ ہیں۔۔۔ وہ تو مجھے فضل دین بھائی کہتا ہے۔‘‘
سیٹھ: ’’سامنے کہتا ہے نا، پیٹھ پیچھے کا کیا پتا تمہیں۔‘‘
فضل دین: ’’اوہ۔۔۔ اچھا ہوا بتا دیا آپ نے، مجھے محتاط رہنا پڑے گا۔‘‘
(فضل دین کی اس بات پر سیٹھ کی آنکھوں میں عیاری کی چمک لہرا جاتی ہے)
سیٹھ: ’’چھوڑو اس معاملہ کو ۔ یہ بتاؤ کپاس کتنی ہوئی؟‘‘
فضل دین: ’’ آپ نے جو دوائی دی تھی، اس سے تو کیڑوں پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا، اچھی خاصی فصل چٹ کر گئے۔‘‘
سیٹھ: ’’مان تو لیا تھا مگر اتنی مہنگی مشین میں خریدوں کیسے؟‘‘
(فضل دین گڑبڑا جاتا ہے۔ ابھی وہ کچھ کہنے کے متعلق سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ سیٹھ بول اٹھتا ہے)
سیٹھ، یوں تو مارکیٹ میں کپاس کے ریٹ کئی روپے کم ہوگئے ہیں، لیکن تم میرے پرانے جاننے والے ہو لہٰذا میں صرف تھوڑی قیمت ہی کم کروں گا۔‘‘
فضل دین: ’’ مم مگر میں نے تو سنا ہے کہ کپاس کے ریٹ بہت تیزی سے بڑھے ہیں۔‘‘
سیٹھ(غصہ سے) ’’ تو جس سے سنا ہے اسی کو بیج دو اپنی کپاس۔ ارے بے وقوف وہ بڑے پھول والی سفید کپاس ہے جس کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ تمہاری چھوٹی کپاس تو میلی میلی سی ہوتی ہے۔‘‘
(فضل دین سہم کر بیٹھ جاتا ہے)
سیٹھ: ’’ میرے آدمی کل آکر فصل لے جائیں گے، پیسے میں تمہیں دو چار دن میں دے جاؤں گا۔‘‘
(سیٹھ یہ کہہ کر اٹھ جاتا ہے اور باہر جانے لگتا ہے۔ ابھی وہ دروازے ہی تک پہنچا ہوتا ہے کہ فضل دین پیچھے سے پکارتا ہے)
فضل دین : ’’سس۔۔۔ سنئیے!‘‘
سیٹھ: (مڑتے ساتھ ہی کہتا ہے) ’’ہاں ٹھیک ہے یاد آیا۔ تم وزن کے وقت میرے آدمیوں سے چک چک نہ کیا کرو۔‘‘
فضل دین: (بے بسی سے) ’’ لیکن وہ مقدار بہت زیادہ تولتے ہیں۔ دس من میں بارہ بارہ من تول دیتے ہیں۔‘‘
سیٹھ: ’’ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم ان کے ساتھ چک چک نہ کرو تو میرے ساتھ شروع کر دو!‘‘
(سیٹھ باہر نکل جاتا ہے۔ فضل دین سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے)
*۔۔۔*

دوسرا منظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(وسیع و عریض گودام میں ایک طرف دھاگوں کے کئی لچھے پڑے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ لڑکے بیٹھے چرخہ کاٹ رہے ہیں۔ کمال اندر داخل ہوتا ہے تو لڑکوں کے ہاتھ تھوڑی دیر کو رک جاتے ہیں)
کمال: ’’ کام پورا ہوا یا نہیں۔‘‘
فہیم: ’’ آج تو ہو ہی نہیں سکتا ابا۔۔۔ کم از کم بھی پرسوں مکمل ہوگا۔‘‘
کمال: ’’سستی نہ دکھاؤ، تیز تیز ہاتھ چلاؤ، ورنہ وہ سیٹھ اور پیسے کاٹ لے گا۔‘‘
فہیم: ’’ کس بات کے ۔۔۔ آخر کس بات کے پیسے کاٹے گاوہ ‘‘
کمال:’’ دیر کرنے کے ۔ وہ کہتا ہے جب منڈی چڑھی ہوتی ہے تمہارا کام نامکمل ہوتا ہے۔ جس سے اسے بھاری نقصان ہوتا ہے۔‘‘
فہیم: (تنک کر) ہمیشہ یہی کہتا ہے وہ۔ مگر جب اسے بھاری فائدہ ہوتا ہے تب کبھی ہمارے پیسے بڑھائے اس نے؟
کمال: (لاجواب ہو کر) ’’اچھا باتیں کم کرو، ہاتھ چلاؤ۔ ‘‘
فہیم( اپنی جگہ سے اٹھ کر) ’’ابا۔۔۔ ہم یہ سارا سوت اور دھاگا خود ہی نہ بیچیں منڈی لے جا کر۔‘‘
کمال: ’’ اور اتنی ساری کپاس جو ہمیں سیٹھ دیتا ہے وہ کہاں سے آئے گی۔‘‘
(فہیم ہونٹ چباتا ہوا دوبارہ بیٹھ جاتا ہے)
فہیم:(بڑبڑا کر) ’’کاش یہ کپاس ہمیں سیٹھ سے نہ لینی پڑے تو ہم ان سو مصیبتوں سے بچ جائیں جو سیٹھ ہم پرلاد کر چلے جاتا ہے!‘‘
*۔۔۔*

تیسرا منظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(اسلم بڑبڑاتا ہوا چلا جارہا ہے)
اسلم : (خود کلامی) ’’ نہ جانے ایسی کونسی ضروری چیز ہے کہ بچہ پیچھے ہی لگ گیا۔اور میرے فائدے کی بھی ہے۔ اتنی ضد کی کہ ماننا ہی پڑ گیا ، ورنہ کون آتا اتنا دور۔خیر دیکھتے ہیں۔
(اسلم ایک گھر میں داخل ہوتاہے۔ وہاں اسکی نظر فضل دین پر پڑتی ہے تو اس کا منہ بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن پر سیٹھ کے الفاظ گونجتے ہیں)
سیٹھ کی پس پردہ آواز: ’’فضل دین تو تجھے انتہائی درجے کا مکار سمجھتا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ اسلم تو ہر وقت کچھ نہ کچھ مانگنے کے چکر میں رہتا ہے، منگتا کہیں کا۔‘‘
(ادھر فضل دین بھی اسلم کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ اسے بھی اسلم کے بارے میں سیٹھ کے الفاظ یاد آجاتے ہی)
(کمال اور اس کا بیٹا فہیم اندر داخل ہوتے ہیں)
فہیم: ’’ میں آپ دونوں کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ لوگوں نے ہمارے یہاں آنے کی دعوت قبول کی اور تشریف لائے۔‘‘
کمال: ’’دراصل فہیم نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد یہ معلوم کیا کہ ہمارے چرخوں میں استعمال ہونے والی کپاس کہاں سے آتی ہے اور ہم جو دھاگا بنا کر دیتے ہیں وہ کہاں جاتا ہے۔‘‘
فضل دین:’’اوہ تو میری کپاس یہاں آتی ہے۔‘‘
اسلم:’’ اور میرے یہاں دھاگا یہاں سے آتا ہے۔‘‘
فہیم: ’’ہم سب ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرکے خوب منافع کما سکتے ہیں۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘
فضل دین: ’’ مگر کیا؟‘‘
سلیم: ’’ یہ سیٹھ بیچ میں آکر ہمارا آدھے سے زیادہ منافع ہڑپ کر جاتا ہے۔‘‘
کمال: ’’ یہی نہیں، بلکہ زبردستی ہم سے اپنی سو باتیں بھی منواتا ہے۔‘‘
اسلم: ’’پھر آخر کیا کیا جائے۔‘‘
فہیم: ’’ اتحاد! اگر ہم سب اپنے بیچ میں سے سیٹھ کو نکال دیں۔ ‘‘
فضل دین: ’’وہ کیسے؟‘‘
کمال: ’’ اس طرح کہ آپ اپنی کپاس ہمیں دیں، ہم اپنے دھاگے اسلم کو۔‘‘
فضل دین: ’’اور آپ مجھے ریٹ کیا دیں گے؟‘‘
کمال: ’’وہی جو مارکیٹ میں ہوں گے، بس جیسے ہی اسلم بھائی ہمیں ہمارے دھاگوں کے پیسے دیں گے ہم آپ کی رقم چکا دیں گے!‘‘
اسلم (گڑبڑا کر) ’’ مم ۔۔۔ میں تو دھاگوں کی رقم اسی وقت ادا کر سکوں گا جب اس سے کپڑا بنا کر بیچوں گا۔‘‘
(فضل دین کو دوبارہ بیٹھ کی آواز آتی ہے)
سیٹھ کی پرس پردہ آواز: ’’اسلم سے پھر نہ ملنا۔ یہ کسی نہ کسی بہانے تمہاری رقم بٹورے گا۔‘‘
فضل دین: ’’ میں اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتا، مجھے فوراً فوراً فصل اگانی ہوتی ہے اور پھر اسلم کا کیا بھروسہ اس کے گھر تو ویسے ہی آگ لگتی رہتی ہے۔‘‘
(فضل دین یہ کہہ کر تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا جاتا ہے، پیچھے سے فہیم اور کمال اسے روکتے ہی رہ جاتے ہیں)
فہیم: ’’ آپ کے گھر کب آگ لگی؟‘‘
اسلم: ’’ جب میں فضل دین کے یہاں گیا تھا تو سیٹھ نے بتایا تھا کہ میرے گھر آگ لگ گئی ہے، لیکن یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔‘‘
فہیم: (سمجھتے ہوئے) ’’اوہ۔۔۔ اتنی عیاری۔‘‘
اسلم: ’’سیٹھ ٹھیک ہی کہتا تھا یہ فضل دین ٹھیک آدمی نہیں۔ مجھے چور سمجھتا ہے!‘‘
فہیم:’’سیٹھ واقعی ٹھیک کہتا تھا، تمہارے یہاں آگ لگی ہوئی ہے، شاید فضل دین کے یہاں بھی لگی ہو اسی لیے وہ بھی چلے گئے، مگر یہ آگ سیٹھ کی لگائی ہوئی ہے، پہلے اسے بجھانا ہوگا!‘‘
اسلم : ’’ بھئی مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں بھی چلا ۔۔۔ خواہ مخواہ وقت ضائع کرایا!‘‘
(اسلم بھی پاؤں پٹختا ہوا باہر نکل جاتا ہے)
کمال: ’’اب کیا ہوگا بیٹے؟‘‘
فہیم: ’’ ہم سب کو ایک دوسرے سے بدظن کر دیا گیا ہے جبکہ ہمیں بھروسہ کرنا ہوگا ابا۔۔۔ ہم سب کو ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا ہوگا اور ہو سکتا اس کے لیے کسی کو قربانی بھی دینی پڑے!‘‘
کمال: ’’ لیکن کس کو؟ کون دے گا یہ قربانی؟‘‘
(فہیم نے سرجھکا لیا۔ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔)
*۔۔۔*
(ڈرامے کے مفہوم کو وسیع پیرائے میں سمجھنے کیلئے فضل دین، اسلم اور کمال کو ان مسلم ممالک سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو مختلف ذرائع سے مالا مال ہیں لیکن ہر ملک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے ایک تیسرے غیر مسلم فریق پر بھروسہ کرتا ہی، اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے کمال کا سوال ہمارے سروں پر بھی موجود ہے!
*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top