skip to Main Content

کارگر ترکیب

حماد ظہیر

………………………………….

جن سیریز

………………..………………..

یہ پہلا موقع تھا کہ میں سلمان نعمان کے پیچھے پیچھے ان کے اسکول جا پہنچا۔ اسکول کا ایک مجموعی تاثر لینے کے لئے میں نے سوچا کہ پہلے اسٹاف روم کی خیریت دریافت کی جائے بعد میں چیدہ چیدہ کلاس روم بھی دیکھ ہی لیں گے۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے یہاں جنوں میں بھی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں جن اور ان کے بچے پڑھتے پڑھاتے ہیں۔
اسٹاف روم مین تو فقط ایک ہی جماعت کا ذکر تھا۔ وہ درجہ جس کا کمرہ اسٹاف روم سے ملا ہوا تھا۔ تذکرہ اس کے بچوں کے شرارتی اور بدتمیز ہونے کا تھا اور چونکہ اس کا شور شرابا براہ راست اسٹاف روم کو بھی متاثر کرتا تھا اس لیے اس کے سدباب کی تدابیر پر غور تھا۔
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
میں سب سے پہلے اسی درجہ میں گھس پڑا جو باہر سے کسی ٹرک کے ہارن کی طرح شور مچا رہی تھی۔ ابھی وہاں کوئی مدرس موجود نہ تھا اس لیئے کلاس روم مچھلی بازار سے بھی برا منظر پیش کر رہی تھی۔
چار طلبہ جو دروازے کے پاس بوجھل قسم کے بستے لٹکائے گھڑے تھے تقریباً تمام ہی طلبہ کی توجہ کا مرکز تھے۔
میں نے دیکھا وہاں ان کے لئے کوئی کرسی خالی نہ تھی۔ کلاس کسی بس کی طرح کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ چاروں کسی شو پیس کی طرح بستوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی لٹکائے کھڑے تھے۔
تمام بیٹھے ہوئے طلبہ کسی جلسہ عام کی طرح نعرہ بازی کر رہے تھے اور ان چاروں پر زبان سے تیر اندازی کر رہے تھے۔ چند ایک جملے جو مجھے سننے کو ملے وہ یہ تھے۔
’’اور یہ ہیں وہ چار خوش نصیب جن کو اسکول کے یونیفارم کی ماڈلنگ کیلئے چنا گیا ہے اور اب یہ لوگ روزانہ اسی طرح آفس کے شو کیس میں سجائے جائیں گے‘‘۔
’’یہ تو دراصل وہ چار چوہے ہیں جو گھر سے نکلے تھے کرنے شکار‘‘۔
’’اور بے چارے خود شکار ہوگئے کسی غلط فہمی کا راستہ بھٹک گئے اور اسکول آگئے!‘‘
’’غلام برائے فروخت، غلام برائے فروخت!‘‘
’’یہ بڑے کام کے ہیں، قیمت کی پرواہ نہ کریں آپ خریدیں پیسے ہم دیں گے!‘‘
’’یہ چھوٹے موٹے لڑکے ہیں یہ کام کریں گے بڑے بڑے‘‘کوی گنگنایا۔
ایک لڑکے کو کہیں سے بڑا سا لفافہ مل گیا تو وہ اٹھ کر آیا اور چار میں سے ایک کے سر پر پہنا کر بولا۔
’’اس ٹوپی کی قیمت زیادہ نہیں۔ صرف دو روپیہ، دو روپیہ، دو روپیہ۔
’’اور ٹوپی کے ساتھ اس کا پہننے والا مفت‘‘
’’رمضان آفر رمضان آفر، ایک کی قیمت میں چار، ایک ٹوپی کی قیمت میں چار فری‘‘۔
’’فور ایکسٹرا فور ایکسٹرا‘‘
جس لڑکے نے ٹوپی پہنائی تھی اس نے ایک لڑکے کے کاندھے سے بیگ کھینچا اور اس کسی ہار کی طرح اس کے گلے میں پہنانے لگا۔
’’اب مہمان خصوصی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو گولڈ میڈل پہنا رہے ہیں‘‘۔
وہ گولڈ میڈلسٹ چراغ پا ہوگیا۔ اس نے وہی بستہ اپنے گلے سے اتار کر اپنے مہمان خصوصی کو کھینچ مارا۔ جو کہ نشانہ خطا ہونے پر کلاس کے بیچوں بیچ گھنی آبادی کے علاقے تک اڑتا چلا گیا۔
’’ایٹم بم، ایٹم بم‘‘
لیکن بم پھٹ چکا تھا۔ زخمیوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کیلئے جواب حملے کئے اور اردگرد کے دو تین بستے کھینچ مارے، جن میں سے کچھ بھارتی ہوا بازوں کے نشانوں کی طرح بارڈر کراس کرنے سے پہلے ہی اپنی بستیوں میں گر پڑے اور یوں جوابی کاروائیوں میں تھوڑی ہی دیر میں کلاس کی فضا بستوں سے بھر گئی۔
اب تو طلبہ کے سر کے اوپر بستے ہی برس رہے تھے۔ آتے، جاتے، بل کھاتے، لہراتے، پلٹتے جھپٹتے پلٹ کر جھپٹتے، بستے ہی بستے۔
’’یہ کیا ہورہا ہے ادھر‘‘ دروازے کے پاس سے کوئی گرجا تو سب کے ساتھ ساتھ میں بھی ادھر دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ وضع قطع سے مجھے پہنچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ یقیناًپرنسپل صاحب ہیں۔ ان کے چہرے پر غصے کے ساتھ ساتھ پریشانی اور حیرت دیکھ کر پہلی بار مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ انہیں قاسم بھائی کے علاوہ بھی کوئی پریشان کرسکتا ہے۔
تم لوگوں کو سب سے زیادہ سزائیں ملی ہیں مگر نہ جانے کس مٹی کے بنے ہو۔ تمام اساتذہ بھی تم لوگوں سے تنگ ہیں میں بھی عاجز آگیا ہوں۔ نہ جانے کیا علاج ہے تمہارا۔ اور یہاں ابھی تک کوئی پڑھانے کیوں نہیں آیا۔ کس کی کلاس ہے؟‘‘
’’سر ظفر کی‘‘ میں نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں یہ سلمان تھا جو نہ جانے اب تک کہاں چھپا بیٹھا تھا۔
’’اچھا میں دیکھتا ہوں۔۔۔ اور یہ تم چاروں کیوں تاج محل کے میناروں کی طرح کھڑے ہو؟‘‘
’’سر یہ دیر سے آئے تھے اس لئے انہیں کرسی نہیں ملی اب یہ اگلے الیکشن تک اسی طرح کھڑے رہیں گے‘‘
پرنسپل صاحب مڑے ہی تھے کہ کلاس کے کونے سے آواز آئی۔
’’دیر سے آئے ہیں، یاران دیر وکعبہ دونوں بلا رہے ہونگے یہ دیر چلے گئے۔‘‘
چونکہ اسٹاف روم برابر ہی میں تھا لہذا جلد ہی پرنسپل صاحب نے سر ظفر کو بمعہ چار کرسیوں کے بھیج دیا۔
’’سر یہ ان ملازموں نے کرسیاں سر پر کیوں اٹھا رکھی ہیں‘‘ 
’’اسلئے کہ آسمان تو یہ اٹھا نہیں سکتے وہ تو پہلے ہی تم لوگوں نے سر پر اٹھایا ہوا ہے‘‘ سر نے جل کر کہا۔
’’سر یہ آپ کے ساتھ چار ہی کیوں آئی ہیں؟‘‘ اس پر سر کھڑے ہوئے طلبہ کی جانب مڑے ہی تھے کہ کسی نے کہا
’’مجبوری تھی اس لئے کہ شریعت نے چار سے زیادہ کی اجازت جو نہیں دی!‘‘
سر واقعی جھینپ گئے پھر بولے
’’نظر نہیں آتا، یہ لوگ بھی تو چار ہیں!‘‘
’’نہیں سر ہم تو لاچار ہیں!‘‘ بغیر بستے والا بولا تو اس کے لہجے اور چہرے سے لاچاری کے ساتھ ساتھ بے چارگی بھی ٹپکنے لگی۔
’’تم لوگ آج پھر دیر سے آئے ہو‘‘ سر نے پوچھا
’’یاران دیر وکعبہ۔۔۔‘‘ کہیں سے مصرعہ شروع ہوا ہی تھا کہ وہی ’’لاچار‘‘ بولا
’’ہم کہاں دیر سے آئے ہیں۔۔۔ یہ ہی لوگ جلدی آخر سیٹ گھیر لیتے ہیں‘‘
خیر تم لوگوں کی سزا ہے کہ تم دروازے کے پاس کرسی رکھ کر بیٹھ جاؤ‘‘ سر نے بات بنائی کیونکہ اس کے علاوہ کلاس میں کہیں جگہ بھی نہیں تھی کرسی رکھنے کی!
میں سوچ رہا تھا کہ اسکول کا زمانہ واقعی سنہری دور ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ مجھے اپنی شرارتیں بھی یاد آرہی تھیں جو میں چنوں میں کیا کرتا تھا اور جوکہ ایک بڑی وجہ تھی میرے وہاں سے نکالے جانے کی۔
’’چھوٹے ثاقب! کلیم کو اس بات کا اقرار کیئے دو مہینے ہوگئے ہیں کہ میری ڈگری اس نے تمہارے بستے میں چھپائی تھی۔ اگر تم آج بھی اسے نہ لائے ہوتے تو تمہاری زوردار پٹائی ہوگی۔‘‘ سر ظفر نے اعلان کیا۔
’’سر میں آج تو ضرور ہی لایا ہوں۔ احتیاط کے طور پر میں نے اسے دس بار بیگ میں رکھا‘‘ ایک چھوٹے سے لڑکے نے مسکرا کر کہا۔
’’ہائیں ایک ڈگری کو تم دس بار کیسے رکھ سکتے ہو بیگ میں؟‘‘
انہوں نے دل تھام کر پوچھا کہ کہیں ڈگری کے دس ٹکڑے نہ کردیئے ہوں اس شریر نے۔
’’سر وہ نو بار یہ سوچ کر نکال دی تھی کہ جلدی کیا ہے پھر کبھی دے دیں گے!‘‘
سر ظفر غصے میں آگے بڑھے اور اس کے بستے کی تلاشی لینے لگے پھر جب اپنی مطلوبہ چیز نہ ملی تو کھول ہی اٹھے۔ برابر والے بستے سے جھانکتا ہوا فٹا نکالا اور لگے چھوٹے ثاقب کی دھنائی کرنے۔
وہ بے چارہ نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا تھا لیکن برستے ہوئے مولا بخش کے آگے اس کی پیش نہ گئی۔
پھر جب سر نے فٹا واپس رکھنے کے لیے اس کی زپ کھولی تو بستے کے اندر رکھے دو موٹے موٹے ناول انہیں منہ چڑا رہے تھے۔
’’جب میں نے منع کردیا تھا کہ اب اسکول میں کوئی ناول نہیں آئے گا تو پھر یہ کیونکر آئے!‘‘ سر غصے میں تو تھے ہی یہ کہہ کر انہوں نے دوسرے لڑکے کی بھی پٹائی کردی!۔
’’سر یہ میرا بیگ نہیں ہے۔‘‘ اس لڑکے نے احتجاج کیا۔
’’ہیں! پھر تم کیوں اسے گود لیے بیٹھے ہو!‘‘ سر نے حیرت سے کہا۔
’’اور سر میں تو آج ڈگری لایا تھا۔ یہ نہ جانے کس کے بیگ کی تلاشی لے کر آپ نے میری پٹائی کردی‘‘ چھوٹے ثاقب نے کہا۔ یہ وہی تھا جو کچھ دیر پہلے مہمان خصوصی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔
’’تو کیا آج آپ لوگ اپنے اپنے بستے لے کر نہیں آئے‘‘ سر ظفر پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
مجھے ایسا ہی لگا کہ وہ چکرا رہے ہیں اور اب گرے کے تب!
’’سر وہ ایٹم بم گرنے کے بعد اول بدل گئے‘‘ اس جملے نے تو انہیں ساکت ہی کردیا، اور وہ ہکا بکا کھڑے تھے!
تھوڑی دیر بعد جب انہیں کسی طرح قصہ چہار درویش سنا کہ صورتحال سمجھائی گئی تو انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے آپ لوگ اپنے اپنے بستے واپس لے لیں‘‘
بس پھر کیا تھا یک بھگڈر مچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری کلاس گتھم گتھا ہوگئی۔
’’اب بس بھی کرو!‘‘ سر چلائے تو ہر کوئی دوبارہ اپنی اپنی سیٹ پر نظر آیا۔
’’ہوگئے سب کے قبلے۔۔۔میرا مطلب ہے بستے درست!‘‘
’’نہیں سر پہلے تو صرف بستہ ہی بدلا تھا اب تو لگتا ہے چشمہ بھی کسی اور کا آگیا ہے‘‘ ایک اونچے سے لڑکے نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا بڑے ثاقب بیٹھ جاؤ میں کوئی اور حل سوچتا ہوں‘‘
’’سر میں بیٹھا ہی تو ہوں‘‘ وہ منمنایا
’’میں تم لوگوں کو ایک چانس اور دے دیتا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اس کے بعد کہیں تمہاری قمیضیں اور پتلونیں بھی نہ بدل جائیں لہٰذا ہر کوئی باری باری کھڑا ہوکر بتائے کہ اس کے پاس کس کا بستہ ہے او رپھر بستے کا مالک آکر اس سے لے جائے۔ نسیم پہلے تم کھڑے ہو۔
نسیم کھڑا ہوا اور باادب طریقے سے بولا۔
’’سر اس بستے پر تو ہمدرد‘‘ لکھا ہے اب جو بھی ہم درد ہے لے جائے‘‘
’’ہم ہیں ہمدرد ہم ہیں ہم درد‘‘ پوری کلاس چلائی جس کے شور میں اس کے مالک کی آواز بھی گم ہوگئی۔
’’بھئی اس کے اندر سے کوئی کتاب وغیرہ نکال کر دیکھو کس کا نام لکھا ہے‘‘
اس پر نسیم نے جھٹ سے ایک کتاب نکالی اور لگا نام دیکھنے۔ مگر منہ سے کچھ نہ بولا۔
’’بھئی صرف دیکھنے کو نہیں کہا بتاؤ کہ کیا لکھا ہے۔ ’’مگر اس پر بھی نسیم کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔
’’بتاؤ ورنہ میں بتاتا ہوں‘‘ اس پر اسے کتاب ان کے سامنے کردی میں نے دیکھا۔ اس پر لکھا تھا ’’ابن صفی‘‘ اور نیچے عمران سریز کے الفاظ بھی نظر آئے۔
پر ایک مرتبہ پھر غصے میں آگے بڑھے مگر پھر حالات سچویشن سمجھتے ہوئے نہایت بے چارگی سے پیچھے ہٹ گئے۔
’’چلو اس کا فیصلہ آخر میں ہوجائے گا اب چھوٹے ثاقب تم کھڑے ہوکر بتاؤ‘‘
’’تم ابھی تک کھڑے نہیں ہوئے‘‘ اس پر وہ زمین سے کرسی کے اوپر کھڑا ہوا اور اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔
’’اس بستے کے اندر کتاب پر نام لکھا ہے سمیہ بتول لہٰذا جو کوئی بھی ہیں آکر لے جائیں۔‘‘
اب وہ یقیناًکسی کی بہن کی کتاب ہوگی لیکن کوئی بھی سمیہ کے نام پر اٹھ کر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔
’’یہ اسکیم بھی فیل ہوگئی۔ ایسا کرو کہ تمام بستوں کو یہاں بورڈ کے پاس ڈھیر کردو اور پھر ہر کوئی آکر اپنا اپنا ڈھونڈ کر لے جائے‘‘
اس بات کا کہنا تھا دھڑا دھڑ بستے آگے آنے لگے۔ دو تین سر کو بھی لگے۔ اور پھر وہ تھوڑی ہی دیر میں بستوں کے پیچھے روپوش ہوگئے۔
پھر جب ان کا سر برآمد ہوا تو ایسے ہی لگا کہ جیسے کسی بوریوں کے مورچے سے کسی سپاہی نے سر نکالا ہو۔
اللہ اللہ کر کے بستے ٹھکانے لگے تو ایک رہ گیا۔ ’’یہ کس کا ہے؟‘‘
گولڈ میڈل ہے اور بارش کا پہلا قطرہ، اسی سے شروعات ہوئی تھی!‘‘ سلمان نے کہا۔
’’ٹھیک ہے تم لوگ جی بھر کر اپنی بھڑاس نکال لو۔ تمہاری سزا تجویز ہوچکی ہے۔ کل سے اس پر عمل درآمد شروع ہوگا۔
’’ہائیں ہمارے لیے سزا تجویز کرنے والا کب پیدا ہوگیا‘‘۔
ایک لڑکے نے حیرت سے کہا۔
’’۲۹ جولائی ۱۹۵۴ء کو! سر جمیل۔۔۔ انہوں نے بالکل سامنے کی بات کی ہے لیکن انتہائی مناسب!‘‘
’’اور اس بات پر عمل کل سے نہیں آج ہی سے شروع ہوگا۔ میں نے تمام انتظامات کردیئے ہیں۔‘‘ دروازے کے باہر سے پرنسپل صاحب کی آواز آئی۔
وہ خود بھلا کیسے اندر آسکتے تھے، چار پہرہ دار جو راستے پر کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔
’’رول نمبر ایک تا چالیس، نکلو کلاس سے باہر۔۔۔‘‘
علی بابا اپنے چالیس چوروں کا بلا رہا ہے‘‘ ایک آواز آئی لیکن اس پر کسی نے دھیان نہ دیا۔
کسی نہ کسی طرح چالیس لڑکے باہر نکل گئے۔
پرنسپل صاحب اندر آکر بولے
’’یہ ہے سیکشن بی، اور سیکشن اے اس کونے والے کمرے میں بنے گا جو عرصے سے خالی پڑا تھا!‘‘
امید تو مجھے یہ تھی کہ ایک ہنگامہ ہوگا اور غلغلہ سا اٹھے گا لیکن میں دنگ رہ گیا۔۔۔ وہاں سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
’’آپکا نیا ٹائم ٹیبل آپ کو بتا دیا جائے گا۔۔۔ یہ سر جمیل ہی کی تجویز تھی کہ طلبہ کی زیادتی کے پیش نظر اس جماعت کے دو ٹکڑے کردیئے جائیں۔ تاکہ ہر شرارت اور بدتمیزی کو پکڑنے میں آسانی ہو اور طلبہ کا زور ٹوٹے۔‘‘
پھر مزید پانچ دس منٹ تک یا تو خاموشی رہی یا پھر سر بولتے رہے۔
میں نے سمجھا کہ شاید سارے باتونی یعنی چھوٹا ثاقب وغیرہ دوسرے کمرے میں چلے گئے ہیں اس لیے یہاں خاموشی ہے لیکن دوسرے کمرے کا حال بھی چنداں مختلف نہ تھا۔
’’یار کچھ تو بولو۔۔۔ مجھ سے پڑھایا نہیں جائے گا اگر تم لوگ ایسے ہی چپ رہے‘‘
یہ سیکشن اے کا مدرس اپنے طا لب علموں سے کہہ رہا تھا۔
’’کیا تم لوگوں نے آج چپ کا بھی روزہ رکھ لیا ہے کیا۔ سچ پوچھو میں ناراض ہوجاؤں گا!‘‘
میں عجیب سی کیفیت لئے واپس آیا تو سر ظفر کہہ رہے ’’چلو ناولوں کی اجازت ہے لیکن صرف دینے دلانے کی۔ یہاں کوئی نہیں پڑھے گا۔‘‘
’’ارے ارے ثاقب تمہارا چشمہ درست ہوگیا یا ابھی تک میں تمہیں ڈگری۔۔۔ اور میرا مطلب ہے سمیہ۔۔۔ کیا کہہ رہا ہوں‘‘۔
انہوں نے شاید ہنسانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی نے سر تک نہ اٹھایا!
میرے خیال میں واقعی ان پر بہت بڑا ظلم ہوا تھا۔ اور جلد ہی اس خیال کی تصدیق ہوگئی۔
آدھے گھنٹے کے دوران تقریباً تمام ہی طلبہ آفس کے سامنے دھرنا دیئے تھے۔ کم تھے تو وہی چار جن کو دروازے کے سامنے بیٹھنے کی جگہ ملی تھی۔
ان سب کا مطالبہ تھا کہ ان کو دوبارہ ایک کیاجائے۔ اور ساتھی ہی اس کا یہ بھی عہد تھا کہ اب نہ وہ لوگ شور کریں گے اور نہ ہی کسی کو تنگ کریں گے۔
’’بھئی تم لوگ شاید بھول گئے ہو آج تم لوگوں کو یہاں دھوپ میں (آدھا گھنٹہ) بند کر کے بیٹھے کی سزا نہیں دی گئی ہے۔ پرنسپل صاحب نے گویا یاد لایا۔
ایک لڑکے نے باآواز بلند مدعا عرض کیا۔ ایسے میں چند اور اساتذہ بھی جمع ہوگئے۔
’’نہیں بھئی یہ تو اب نہیں ہوسکتا۔۔۔ لیکن میں حیران ہوں گے سر جمیل کو کیسے یہ اندازہ تھا کہ یہ بات تم لوگوں کے لیے اتنی کڑی اور گراں ثابت ہوگی!‘‘
سر جمیل بھی وہیں تھے۔ انہوں نے کہنا شروع کیا۔
’’جب ہمارے والدین نے پاکستان ہجرت کی تو انہوں نے بہت تکالیف اٹھائیں۔ لیکن وہ کیا کرتے تھے کہ یہ جسمانی زخم تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ مندمل ہوگئے۔ لیکن پھر جب ہم اپنے ہی ملک میں پرائے ہوگئے جب اسے بنگلہ دیش بنا دیا گیا اس وقت یہ احساس ہوا کہ اب جو چوٹ لگی ہے وہ زخم ہے جو کبھی نہیں بھرا جاسکتا۔ دوسری مرتبہ جب ہمارے خاندان نے ہجرت کی تو ہم آدھے افراد گنوا بیٹھے تھے، یہی کیا آدھا دیس کبھی تو گنوا دیا تھا۔
بس اسی تجربے کی بناء پر میں نے یہ سزا تجویز کی اور اب یہ باتیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ شاید اب آپ لوگ بھی ان کروڑوں لوگوں کا درد محسوس کریں جو وہ تین دہائیوں سے اپنے دلوں میں لادے پھر رہے ہیں!‘‘
سر جمیل کی آواز جذبات میں آنے کی وجہ سے تقریبا روتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد سلمان نے کہا
’’سر! میری اور شیراز کی دوستی مشہور ہے اور ہم کسی بدتمیزی یا شرارت میں بھی حصہ نہیں لیتے، ہمیں کس بات کی سزا ملی ہے؟‘‘
’’تم لوگوں کی محبت، میری اپنے بھائی سے محبت سے زیادہ نہیں ہے اور آج مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے، زندہ بھی ہے یا۔۔۔‘‘
سر جمیل سے آگے بولا نہیں گیا اور میں سوچنے لگا کہ واقعی! ان کو کس بات کی سزا ملی!
’’عید بھی قریب ہے اور 16دسمبر بھی، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ خوش ہوں یا اداس‘‘ شام کے وقت سلمان کہہ ر ہا تھا۔ نعمان نے کہا
’’اس وقت تو تم انتہائی غمگین دکھائی دیتے ہو اور اس کا یہی حل ہے کہ تم میری ترکیب پر عمل کرڈالو!‘‘
ترکیب پر عمل پیرا ہوتے تو میں نے نہیں دیکھا لیکن میں نے کھوج لگا لیا کہ سلمان میاں نے کوئی چیز پوسٹ کی ہے۔ میں جھٹ سے پوسٹ آفس پہنچا اور ڈاک کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
ڈاک بکس کھلنے کے کچھ ہی دیر بعد پوسٹ ماسٹر اس لفافے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جس پر لکھا تھا ’’مشرقی پاکستانیوں کے نام
منجانب ’’مغربی پاکستانی‘‘
اس نے لفافہ چاک کیا تو اندر کیا نہایت نفیس اور خوبصورت عیدکارڈ تھا جس کے اندر درج تھا۔
’’ہم آپ کے دکھ درد میں شریک ہیں اور اسی لیے خوشیوں میں بھی شریک رکھنا اور رہنا چاہتے ہیں۔ آپ سب کو ہماری جانب سے عید مبارک!‘‘
پوسٹ ماسٹر جو بھی سمجھا ہو لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ الفاظ خون جگر سے لکھے گئے ہیں!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top